Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 60

سورة الكهف

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِفَتٰىہُ لَاۤ اَبۡرَحُ حَتّٰۤی اَبۡلُغَ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا ﴿۶۰﴾

And [mention] when Moses said to his servant, "I will not cease [traveling] until I reach the junction of the two seas or continue for a long period."

جبکہ موسیٰ نے اپنے نوجوان سے کہا کہ میں تو چلتا ہی رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچوں ، خواہ مجھے سالہا سال چلنا پڑے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Musa and Al-Khidr Allah tells: وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ ... And (remember) when Musa said to his boy-servant: The reason for Musa's conversation with the boy-servant, Yusha` bin Nun, was that he had been told about one of the servants of Allah at the junction of the two seas, who had knowledge which Musa had not been granted, so he wanted to travel to meet him. So he said to that boy-servant of his: ... لاَا أَبْرَحُ ... I will not give up, meaning, I will keep on traveling, ... حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ ... until I reach the junction of the two seas, meaning, the place where the two seas met. ... أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا or a Huqub passes. meaning, even if I have to travel for a very long time. Ibn Jarir (may Allah have mercy on him) said, "Some of the scholars of the Arabic language said that Huqub means a year in the dialect of (the tribe of) Qays," then he narrated that Abdullah bin Amr said, "Huqub means eighty years." Mujahid said, "Seventy years." Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said that; it means a lifetime. Qatadah and Ibn Zayd said likewise.

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ کا ایک بندہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ذکر کیا گیا کہ اللہ کا ایک بندہ دو دریا ملنے کی جگہ ہے اس کے پاس وہ علم ہے جو تمہیں حاصل نہیں آپ نے اسی وقت ان سے ملاقات کرنے کی ٹھان لی اب اپنے ساتھی سے فرماتے ہیں کہ میں تو پہنچے بغیر دم نہ لوں گا ۔ کہتے ہیں یہ دو سمندر ایک تو بحیرہ فارس مشرقی اور دوسرا بحیرہ روم مغربی ہے ۔ یہ جگہ طنجہ کے پاس مغرب کے شہروں کے آخر میں ہے واللہ اعلم ۔ تو فرماتے ہیں کہ گو مجھے قرنوں تک چلنا پڑے کوئی حرج نہیں ۔ کہتے ہیں کہ قیس کے لغت میں برس کو حقت کعتے ہیں ۔ عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں ۔ حقب سے مراد اسی برس ہیں مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ستر برس کہتے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ زمانہ بتلاتے ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ملا تھا کہ اپنے ساتھ نمک چڑھی ہوئی ایک مچھلی لیں جہاں وہ گم ہو جائے وہیں ہمارا بندہ ملے گا ۔ یہ دونوں مچھلی کو ساتھ لئے چلے مجمع البحرین میں پہنچ گئے وہاں نہر حیات تھی وہیں دونوں لیٹ گئے اس نہر کے پانی کے چھینٹے مچھلی پر پڑے مچھلی ہلنے جلنے لگ گئی ۔ آپ کے ساتھ حضرت یوشع علیہ السلام کی زنبیل میں یہ مچھلی رکھی ہوئی تھی اور وہ سمندر کے کنارے تھا مچھلی نے سمندر کے اندر کود جانے کے لئے جست لگائی اور حضرت یوشع کی آنکھ کھل گئی مچھلی ان کے دیکھتے ہوئی پانی میں گئی اور پانی میں سیدھا سوراخ ہوتا چلا گیا پس جس طرح زمین میں سوراخ اور سرنگ بن جاتی ہے اسی طرح پانی میں جہاں سے وہ گئی سوراخ ہو گیا ، ادھر ادھر پانی کھڑا ہو گیا اور وہ سوراخ بالکل کھلا ہوا رہا ۔ پتھر کی طرح پانی میں چھید ہو گیا جہاں جس پانی کو لگتی ہوئی وہ مچھلی گئی وہاں کا وہ پانی پتھر جیسا ہو گیا اور وہ سوراخ بنتا چلا گیا ۔ محمد بن اسحقاق مرفوعا لائے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پانی اس طرح ابتداء دنیا سے نہیں جما سوائے اس مچھلی کے چلے جانے کی جگہ کے ارد گرد کے پانی کے یہ نشان مثل سوراخ زمین کے برابر موسیٰ علیہ السلام کے واپس پہنچنے تک باقی ہی رہے اس نشان کو دیکھتے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی کی تلاش میں تو ہم تھے ۔ جب مچھلی کو بھول کر یہ دونوں آگے بڑھے ۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک کا کام دونوں ساتھیوں کی طرف منسوب ہوا ہے ۔ بھولنے والے صرف یوشع تھے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( یخرج منہما اللولو والمرجان ) یعنی ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں ۔ حالانکہ دو قولوں میں سے ایک یہ ہے کہ لولو اور مرجان صرف کھاری پانی میں سے نکلتے ہیں جب وہاں سے ایک مرحلہ اور طے کر گئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے ناشتہ طلب کیا اور سفر کی تکلیف بھی بیان کی یہ تکلیف مقصود سے آگے نکل آنے کے بعد ہوئی ۔ اس پر آپ کے ساتھی کو مچھلی کا چلا جانا یاد آیا اور کہا جس چٹان کے پاس ہم ٹھیرے تھے اس وقت میں مچھلی بھول گیا اور آپ سے ذکر کرنا بھی شیطان نے یاد سے ہٹا دیا ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت ان اذکر لہ ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اس مچھلی نے تو عجیب و غریب طور پر پانی میں اپنی راہ پکڑی ۔ اسی وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا لو اور سنو اسی جگہ کی تلاش میں ہم تھے تو وہ دونوں اپنے راستے پر اپنے نشانات قدم کے کھوج پر واپس لوٹے ۔ وہاں ہمارے بندون میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس کی رحمت اور اپنے پاس کا علم عطا فرما رکھا تھا ۔ یہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ حضرت نوف کا خیال ہے کہ خضر علیہ السلام سے ملنے والے موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہ تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا وہ دشمن رب جھوٹا ہے ہم سے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے سنا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ کر رہے تھے جو آپ سے سوال ہو کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ میں ۔ تو چونکہ آب نے اس کے جواب میں یہ نہ فرمایا کہ اللہ جانے اس لئے رب کو یہ کلمہ ناپسند آیا ، اسی وقت وحی آئی کہ ہاں مجمع البحرین میں ہمارا ایک بندہ ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا پھر پروردگار میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں ؟ حکم ہوا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی رکھ لو اسے توشے دان میں ڈال لو جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں وہ مل جائیں گے ۔ تو آپ اپنے ساتھ اپنے ساتھی یوشع بن نون علیہ السلام کو لے کر چلے پتھر کے پاس پہنچ کر اپنے سر اس پر رکھ کر دو گھڑی سو رہے ۔ مچھلی اس توشے دان میں تڑپی اور کود کر اس سے نکل گئی سمندر میں ایسی گئی جیسے کوئی سرنگ لگا کر زمین میں اتر گیا ہو پانی کا چلنا بہنا اللہ تعالیٰ نے موقوف کر دیا اور طاق کی طرح وہ سوراخ باقی رہ گیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب جا گے تو آپ کے ساتھی یہ ذکر آپ سے بھول گئے اسی وقت وہاں سے چل پڑے دن پورا ہونے کے بعد رات بھر چلتے رہے ، صبح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تھکان اور بھوک محسوس ہوئی اللہ نے جہاں جانے کا حکم دیا تھا جب تک وہاں سے آگے نہ نکل گئے تھکان کا نام تک نہ تھا اب اپ نے ساتھی سے کھانا مانگا اور تکلیف بیان کی اس وقت آپ کے ساتھی نے فرمایا کہ پتھر کے پاس جب ہم نے آرام لیا تھا وہیں اسی وقت مچھلی تو میں بھول گیا اور اس کے ذکر کو بھی شیطان نے بھلا دیا اور اس مچھلی نے تو سمندر میں عجیب طور پر اپنی راہ نکال لی ۔ مچھلی کے لئے سرنگ بن گئی اور ان کے لیے حیرت کا باعث بن گیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی کی تو تلاش تھی ، چنانچہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے دونوں واپس ہوئے اسی پتھر کے پاس پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب کپڑوں میں لپٹے ہوئے بیٹھے ہیں ۔ آپ نے سلام کیا اس نے کہا تعجب ہے آپ کی سر زمین میں یہ سلام کہاں ؟ آپ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں انہوں نے پوچھا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے وہ سکھائیں جو بھلائی آپ کو اللہ کی طرف سے سکھائی گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا موسیٰ علیہ السلام آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ اس لئے کہ مجھے جو علم ہے وہ آپ کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے وہ مجھے نہیں اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جداگانہ علم عطا فرما رکھا ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ میں صبر کروں گا اور آپ کے کسی فرمان کی نافرمانی نہ کروں گا ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا اچھا اگر تم میرا ساتھ چاہتے ہو تو مجھ سے خود کسی بات کا سوال نہ کرنا یہاں تک کہ میں آپ تمہیں اس کی بابت خبردار کروں ۔ اتنی باتیں طے کر کے دونوں ساتھ چلے دریا کے کنارے ایک کشتی تھی ان سے اپنے ساتھ لے جانے کی بات چیت کرنے لگے انہوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور بغیر کرایہ لئے دونوں کو سوار کر لیا کچھ ہی دور چلے ہوں گے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا دیکھا کہ خضر علیہ السلام چپ چاپ کشتی کے تختے کلہاڑے سے توڑ رہے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یہ کیا ؟ ان لوگوں نے تو ہمارے ساتھ احسان کیا بغیر کرایہ لئے کشتی میں سوار کیا اور آپ نے اس کے تختے توڑنے شروع کر دئیے جس سے تمام اہل کشتی ڈوب جائیں یہ تو بڑا ہی ناخوش گوار کام کرنے لگے ۔ اسی وقت حضرت خصر علیہ السلام نے فرمایا دیکھو میں نے تو تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام معذرت کرنے لگے کہ خطا ہو گئی بھولے سے پوچھ بیٹھا معاف فرمائیے اور سختی نہ کیئجے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں واقعی یہ پہلی غلطی بھول سے ہی تھی فرماتے ہیں کشتی کے ایک تختے پر ایک چڑیا آ بیٹھی اور سمندر میں چونچ ڈال کر پانی لے کر اڑ گئی ، اس وقت حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا میرے اور تیرے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہے جتنا پانی سے سمندر میں سے اس چڑیا کی چونچ نے کم کیا ہے ۔ اب کشتی کنارے لگی اور ساحل پر دونوں چلنے لگے جو حضرت خضر علیہ السلام کی نگاہ چند کھیلتے ہوئے بچوں پر پڑی ان میں سے ایک بچے کا سر پکڑ کر حضرت خضر علیہ السلام نے اس طرح مروڑ دیا کہ اسی وقت اس کا دم نکل گیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے اور فرمانے لگے بغیر کسی قتل کے اس بچے کو آپ نے ناحق مار ڈالا ؟ آپ نے بڑا ہی منکر کام کیا حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا دیکھو اسی کو میں نے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ تمہاری ہماری نبھ نہیں سکتی اس وقت حضرت خضر علیہ السلام نے پہلے سے زیادہ سختی کی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اچھا اب اگر میں کوئی سوال کر بیٹھوں تو بیشک آپ مجھے ابنے ساتھ نہ رکھنا یقینا اب آپ معذور ہو گئے ، چنانچہ پھر دونوں ہمراہ چلے ایک بستی والوں کے پاس پہنچے ان سے کھانا مانگا لیکن انہوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کر دیا ، وہیں ایک دیوار دیکھی جو جھک گئی تھی اور گرنے کے قریب تھی ، اسی وقت حضرت خضر نے ہاتھ لگا کر اسے ٹھیک اور درست کر دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا خیال تو فرمائیے ہم یہاں آئے ان لوگوں سے کھانا طلب کیا انہوں نے نہ دیا مہمان نوازی کے خلاف کیا ان کا یہ کام تھا آپ ان سے اجرت لے سکتے تھے ۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا یہ ہے مجھ میں اور تم میں جدائی اب میں تمہیں ان کاموں کی اصلیت بتلا دوں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کاش کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تو ان دونوں کی اور بھی بہت سی باتیں ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت میں وکان ورائہم کے بدلے وکان امامہم ہے اور سفینۃ کے بعد صالحتہ کا لفظ بھی ہے اور واما الغلام کے بعد فکان کافرا کے لفظ بھی ہیں ۔ اور سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ اس پتھر کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام رک گئے وہیں ایک چشمہ تھا جس کا نام نہر حیات تھا اس کا پانی جس چیز کو لگ جاتا ہے وہ زندہ ہو جاتی تھی ۔ اس میں چڑیا کی چونچ کا پانی اس سمندر کے مقابلے میں ، الخ ۔ صحیح بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں ان کے پاس تھا آپ نے فرمایا کہ جس کو جو سوال کرنا ہو کر لے میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے کوفے میں ایک واعظ ہیں جن کا نام نوف ہے پھر پوری حدیث بیان کی جیسا کہ اوپر گزری اس میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس خطبہ سے آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اور دل نرم پڑ گئے تھے ، جب آپ جانے لگے تو ایک شخص آپ کے پاس پہنچا اور اس نے سوال کیا کہ روئے زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عتاب کیا کیونکہ انہوں نے اللہ کی طرف علم کو نہ لوٹایا اس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نشان طلب کیا تو ارشاد ہوا کہ ایک مچھلی اپنے ساتھ رکھ لو جس جگہ اس میں روح پڑ جائے وہیں پر آپ کی اس شخص سے ملاقات ہو گئی ۔ چنانچہ آپ نے مچھلی لی زنبیل میں رکھ لی اور اپنے ساتھی سے کہا آپ کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ جہاں مچھلی آپ کے پاس سے چلی جائے وہاں آپ مجھے خبر کر دینا انہوں نے کہا یہ تو بالکل آسان سی بات ہے ۔ ان کا نام یوشع بن نون تھا ۔ لفتہ سے یہی مراد ہے ۔ یہ دونوں بزرگ تر جگہ میں ایک درخت تلے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی تھی اور حضرت یوشع جاگ رہے تھے جو مچھلی کود گئی انہوں نے خیال کیا کہ جگانا تو ٹھیک نہیں جب آنکھ کھلے گی ذکر کر دوں گا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ پانی میں جانے کے وقت جو سوراخ ہو گیا تھا اسے روای حدیث عمرو نے اپنے انگوٹھے اور اس کے پاس کی دونوں انگلیوں کا حلقہ کر کے دکھایا کہ اس طرح کا تھا جیسے پتھر میں ہوتا ہے ۔ واپسی پر حضرت خضر سمندر کے کنارے سبز گدی بچھائے ملے ایک چادر میں لپٹے ہوئے تھے اس کا ایک سرا تو دونوں پیروں کے نیچے رکھا ہوا تھا اور دوسرا کنارہ سر تلے تھا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سلام پر آپ نے منہ کھولا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کے ہاتھ میں توراۃ موجود ہے وحی آسمان سے آ رہی ہے کیا یہ بس نہیں ؟ اور میرا علم آپ کے لائق بھی نہیں اور نہ میں آپ کے علم کے قابل ہوں ۔ اس میں ہے کہ کشتی کا تختہ توڑ کر آپ نے ایک تانت سے باندھ دیا تھا ۔ پہلی دفعہ کا آپ کا سوال تو بھولے سے ہی تھا دوسری مربتہ کا بطور شرط کے تھا ہاں تیسری بار کا سوال قصدا علیحدگی کی وجہ سے تھا ۔ اس میں ہے کہ لڑکوں میں ایک لڑکا تھا کافر ہوشیار اسے حضرت خضر نے لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا ایک قرأت میں زاکیتہ مسلمۃ بھی ہے ۔ ورائہم کی قرأت امامہم بھی ہے اس ظالم بادشاہ کا نام اس میں ہدو بن بدو ہے اور جس بچے کو قتل کیا گیا تھا اس کا نام جیسور تھا کہتے ہیں کہ اس لڑکے کے بدلے ان کے ہاں ایک لڑکی ہوئی ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خطبہ کر رہے تھے اور فرمایا کہ اللہ کو اور اس کے امر کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ۔ الخ یہ نوف کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کے لڑکے کا قول تھا کہ جس موسیٰ کا ان آیتوں میں ذکر ہے یہ موسیٰ بن میشا تھے ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری تعالیٰ سے سوال کیا کہ اے اللہ اگر تیرے بندوں میں مجھ سے بڑا عالم کوئی ہو تو مجھے آگاہ فرما ، اس میں ہے کہ نمک چڑھی ہوئی مچھلی آپ نے اپنے ساتھ رکھی تھی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا تم یہاں کیوں آئے ؟ آپ کو تو ابھی بنی اسرائیل میں ہی مشغول کار رہنا ہے اس میں ہے کہ چھپی ہوئی باتیں حضرت خضر علیہ السلام کو معلوم کرائی جاتی تھیں تو آپنے فرمایا کہ تم میرے ساتھ ٹھیر نہیں سکتے کیونکہ آپ تو ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے اور مجھے راز پر اطلاع ہوتی ہے ، چنانچہ شرط ہو گئی کہ گو آپ کیسا ہی خلاف دیکھیں لیکن لب نہ ہلائیں جب تک کہ حضرت خضر خود نہ بتلائیں ۔ کہتے ہیں کہ یہ کشتی تمام کشتیوں سے مضبوط عمدہ اور اچھی تھی ، وہ بچہ ایک بےمثل بچہ تھا بڑا حسین بڑا ہوشیار بڑا ہی طرار حضرت خضر نے اسے پکڑ کر پتھر اس کا سر کچل کر اسے مار ڈالا ۔ حضرت موسیٰ خوف اللہ سے کانپ اٹھے کہ ننھا سا پیارا بےگناہ بچہ اس بےدردی سے بغیر کسی سبب کے حضرت خضر نے جان سے مار ڈالا ۔ دیوار گرتی ہوئی دیکھ کر ٹھہر گئے پہلے تو اسے باقاعدہ گرایا اور پھر بہ آرام چننے بیٹھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اکتا گئے کہ بیٹھے بٹھائے اچھا دھندا لے بیٹھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس دیوار کے نیچے کا خانہ صرف علم تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام اور آپ کی قوم مصر پر غالب آ گئی اور یہاں آ کر وہ با آرام رہنے سہنے لگے تو حکم الہٰی ہوا کہ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلاؤ ۔ آپ خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کے احسانات بیان کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ یہ نعمتیں عطا فرمائیں ، آل فرعون سے اس نے تمہیں نجات دی ، تمہارے دشمنوں کو غارت اور غرق کر دیا ، پھر تمہیں ان کی زمین کا مالک کر دیا ، تمہارے نبی سے باتیں کیں ، اسے اپنے لیے پسند فرما لیا ، اس پر اپنی محبت ڈال دی ، تمہاری تمام حاجتیں پوری کیں ، تمھارے نبی تمام زمین والوں سے افضل ہیں ، اس نے تمہیں تورات عطا فرمائی ۔ الغرض پورے زوروں سے اللہ کی بیشمار اور ان گنت نعمتیں انہیں یاد دلائیں اس پر ایک بنی اسرائیل نے کہا فی الواقع بات یہی ہے اے نبی اللہ کیا زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے بےساختہ فرمایا کہ نہیں ہے ۔ اسی وقت جناب باری تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا کہ ان سے کہو کہ تمہیں کیا معلوم کہ میں اپنا علم کہاں کہاں رکھتا ہوں ؟ بیشک سمندر کے کنارے پر ایک شخص ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت خضر علیہ السلام ہیں پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ ان کو میں دیکھ لوں وحی ہوئی کہ اچھا سمندر کے کنارے جاؤ وہاں تمہیں ایک مچھلی ملے گی اسے لے لو ، اپنے ساتھی کو سونپ دو ، پھر کنارے چل دو جہاں تو مچھلی کو بھول جائے اور وہ تجھ سے گم ہو جائے وہیں تو میرے اس نیک بندے کو پائے گا حضرت موسیٰ علیہ السلام جب چلتے چلتے تھک گئے تو اپنے ساتھ سے جو ان کا غلام تھا مچھلی کے بارے میں سوال کیا اس نے جواب دیا کہ جس پتھر کے پاس ہم ٹھہرے تھے وہیں میں مچھلی کو بھول گیا اور تجھ سے ذکر کرنا شیطان نے بالکل بھلا دیا میں نے دیکھا کہ مچھلی تو گویا سرنگ بناتی ہوئی دریا میں جا رہی ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اپنی لکڑی سے پانی کو چیرتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لئے مچھلی جہاں سے گزرتی تھی اس کے دونوں طرف کا پانی پتھر بن جاتا تھا اس سے بھی اللہ کے نبی سخت متعجب ہوئے اب مچھلی ایک جزیرے میں آپ کو لے گئی الخ ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حر بن قیس میں اختلاف تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے یہ صاحب کون تھے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں بلا کر اپنا اختلاف بیان کیا ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی وہ حدیث بیان کی جو تقریبا اوپر گزر چکی ہے ۔ اس میں سائل کے سوال کے الفاظ یہ ہیں کہ کیا آپ اس شخص کا ہونا بھی جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم والا ہو ؟

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 نوجوان سے مراد حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کے وفات کے بعد ان کے جانشین بنے۔ 60۔ 2 اس مقام کی تعیین کسی یقینی ذریعہ سے نہیں ہوسکی تاہم قیاس کیا جاتا ہے کہ اس سے مراد صحرائے سینا کا وہ جنوبی راستہ ہے جہاں خلیج عقبہ اور خلیج سویز دونوں آکر ملتے ہیں اور بحر احمر میں ضم ہوجاتے ہیں۔ دوسرے مقامات جن کا ذکر مفسرین نے کیا ہے ان پر سرے سے مجمع البحرین کی تعبیر ہی صادق نہیں آتی۔ 60۔ 3 حقب، کے ایک معنی 70 یا 80 سال اور دوسرے معنی غیر معین مدت کے ہیں یہاں یہی دوسرا معنی مراد ہے یعنی جب تک میں مجمع البحرین (جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں) نہیں پہنچ جاؤں گا، چلتا رہوں گا اور سفر جاری رکھوں گا، چاہے کتنا بھی عرصہ لگ جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سفر کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ انہوں نے ایک موقع پر ایک سائل کے جواب میں یہ کہہ دیا کہ اس وقت مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ جملہ پسند نہیں آیا اور وحی کے ذریعہ سے انھیں مطلع کیا کہ ہمارا ایک بندہ (خضر) ہے جو تجھ سے بڑا عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا کہ یا اللہ اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں، وہیں ہمارا وہ بندہ بھی ہوگا۔ نیز فرمایا کہ مچھلی ساتھ لے جاؤ، جہاں مچھلی تمہاری ٹوکری (زنبیل) سے نکل کر غائب ہوجائے تو سمجھ لینا کہ یہی مقام ہے (بخاری، سورة کہف) چناچہ اس کے حکم کے مطابق انہوں نے ایک مچھلی لی اور سفر شروع کردیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٨] سیدنا موسیٰ کا اپنے آپ کو سب سے بڑا عالم قرار دینا :۔ یہاں سے اب قصہ موسیٰ و خضر کا آغاز ہو رہا ہے جو قریش مکہ کا دوسرا سوال تھا۔ اس کی تشریح کے لیے بخاری شریف کی درجہ ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ اللہ کی طرف سے اس کے بندہ (خضر) سے کسب فیض کا حکم :۔ سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو کہا کہ نوف بکالی (کعب احبار کا بیٹا) کہتا ہے کہ جو موسیٰ خضر سے ملنے گئے تھے وہ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہ تھے۔ (بلکہ وہ موسیٰ بن افراثیم بن یوسف تھے) تو ابن عباس (رض) کہنے لگے : وہ اللہ کا دشمن جھوٹ بکتا ہے میں نے خود رسول اللہ سے سنا : آپ نے فرمایا ایک دفعہ موسیٰ نے کھڑے ہو کر خطبہ سنایا (سامعین میں سے) کسی نے پوچھا & اس وقت لوگوں میں سب سے زیادہ عالم کون ہے ؟ & موسیٰ نے کہا & میں & اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انھیں یہ بات اللہ کے حوالہ کرنا چاہیے تھی چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی کی کہ دو دریاؤں کے سنگھم پر میرا ایک بندہ (خضر) ہے جو تم سے زیادہ عالم ہے۔ موسیٰ نے عرض کی & میں اسے کیسے مل سکتا ہوں ؟ & فرمایا : & اپنے ساتھ ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لو جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہیں وہ بندہ ملے گا & چناچہ موسیٰ نے ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لی اور وہ خود اور ان کا خادم یوشع بن نون سفر پر روانہ ہوئے تاآنکہ وہ (راستہ میں) ایک چٹان پر پہنچے، وہاں وہ اس چٹان پر اپنا سر رکھ کر سو گئے اس وقت وہ مچھلی زنبیل میں سے تڑپ کر نکلی اور دریا میں جاگری اور سرنگ کی طرح کا بنا ہوا رستہ چھوڑ گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس رستہ سے پانی کی روانی کو روک دیا اور وہ راستہ ایک طاق کی طرح دریا میں بنا رہ گیا۔ جب موسیٰ بیدار ہوئے تو ان کا خادم (جو یہ منظر دیکھ رہا تھا) انھیں اس واقعہ کی اطلاع دینا بھول گیا اور وہ پھر سفر پر چل کھڑے ہوئے وہ دن کا باقی حصہ اور رات بھی چلتے رہے۔ قصہ موسیٰ وخضر سے ملاقات اور ہمراہی شرط :۔ دوسرے دن صبح موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا & کھانا لاؤ ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے & رسول اللہ نے فرمایا کہ : & موسیٰ کو تھکن اس وقت سے شروع ہوئی جب وہ اس مقام سے آگے بڑھ گئے جہاں تک جانے کا اللہ نے انھیں حکم دیا تھا & یوشع نے موسیٰ کو جواب دیا : & دیکھئے کل جب ہم نے چٹان کے پاس دم لیا تھا تو اس وقت مچھلی عجیب طرح کا راستہ بناتی ہوئی دریا میں چلی گئی تھی اور شیطان نے مجھے ایسا بھلایا کہ اس واقعہ کو آپ سے ذکر کرنا مجھے یاد ہی نہ رہا & رسول اللہ نے فرمایا : & مچھلی نے جو یہ سرنگ جیسا راستہ بنایا تھا وہ ان دونوں کے لیے بڑا باعث تعجب تھا &۔ موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا &: کہ وہی جگہ تو ہماری منزل مقصود تھی & چناچہ وہ دونوں اپنے نقوش پا کو دیکھتے دیکھتے واپس اسی چٹان تک آگئے۔ وہاں انہوں نے ایک شخص کو کپڑا اوڑھے دیکھا تو موسیٰ نے اسے سلام کہا تو سیدنا خضر نے کہا & تمہارے ملک میں سلام کہاں سے آیا ؟ & موسیٰ نے کہا & میں موسیٰ ہوں & سیدنا خضر نے کہا & بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ & موسیٰ نے جواب دیا & ہاں، میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ اللہ نے آپ کو بھلائی کی باتیں سکھائی ہیں ان میں سے کچھ مجھے بھی سکھادیں & سیدنا خضر نے جواب دیا۔ & موسیٰ دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے اپنے علوم میں سے ایک علم مجھے سکھایا ہے جسے آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا لہذا تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے & موسیٰ نے جواب دیا & میں انشاء اللہ صبر کروں گا اور کسی معاملہ میں آپ سے اختلاف نہ کروں گا & سیدنا خضر نے کہا & اگر میرے ساتھ چلنا ہے تو پھر مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا تاآنکہ میں خود ہی اس کی حقیقت آپ سے بیان نہ کردوں &۔ سیدنا خضر کا کشی کا تختہ اکھیڑنا اور سیدنا موسیٰ کا اعتراض :۔ (یہ معاہدہ طے پانے کے بعد) وہ دریا کے کنارے کنارے چل کھڑے ہوئے کہ ان کا گزر ایک کشتی پر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں بھی سوار کرلو کشتی والوں نے سیدنا خضر کو پہچان کر بغیر کرایہ ہی سوار کرلیا ابھی کشتی میں سوار ہوئے ہی تھے کہ سیدنا خضر نے اپنا بسولا لے کر اس کشتی کا ایک پھٹہ توڑ دیا اور اسے عیب دار بنادیا۔ موسیٰ کہنے لگے کہ ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرایہ لیے کشتی پر بٹھا لیا اور آپ نے ان کی کشتی کو توڑ دیا کہ سب کشتی والوں کو ڈبو دو & یہ تم نے کیا عجیب حرکت کی ؟ سیدنا خضر نے جواب دیا میں نے آپ کو کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے & موسیٰ نے کہا : & مجھ سے بھول ہوگئی آپ درگزر کیجئے اور میرا کام مجھ پر دشوار نہ بنائیے & موسی وخضر دونوں کے علم کے مقابلہ میں اللہ کے علم کی وسعت :۔ اور رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ بلاشبہ پہلا اعتراض موسیٰ (علیہ السلام) نے بھول کر کیا تھا۔ نیز آپ نے فرمایا اتنے میں ایک چڑیا آئی جس نے کشتی کے کنارے پر بیٹھ کر دریا میں سے اپنی چونچ میں پانی لیا جسے دیکھ کر سیدنا خضر نے موسیٰ سے کہا : & اللہ کے علم کے مقابلہ میں میرا علم اور آپ کا علم دونوں مل کر اتنے ہی ہیں جیسے اس چڑیا نے اس دریا میں سے چونچ سے پانی لیا ہے & خضر کا ایک نوجوان کو مارنا ڈالنا اور موسیٰ کا دوسرا اعتراض :۔ پھر وہ دونوں کشتی سے نکل آئے اور ساحل پر چلتے گئے راستہ میں سیدنا خضر نے ایک لڑکے کو دیکھا جو دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر کھیل رہا تھا۔ سیدنا خضر نے اس لڑکے کے سر کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر مروڑا جو دیا تو اسے مار ہی ڈالا۔ موسیٰ کہنے لگے، & ارے بھائی آپ نے ایک پاکیزہ جان کو ناحق ہی مار ڈالا یہ تو آپ نے بہت برا کیا & سیدنا خضر کہنے لگے & میں نے آپ کو کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے ؟ & آپ نے فرمایا & اور یہ کام تو پہلے کام سے بھی سخت تر تھا۔ & موسیٰ کہنے لگے اگر آئندہ بھی میں نے آپ پر کوئی اعتراض کیا تو بیشک مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا کیونکہ آپ کی طرف سے مجھ پر اتمام حجت ہوجائے گا۔ خضر کا دیوار مرمت کردینا اور موسیٰ کا تیسرا اعتراض :۔ پھر وہ دونوں چل کھڑے ہوئے تاآنکہ وہ ایک بستی میں پہنچے اور بستی والوں سے کھانا طلب کیا لیکن انہوں نے انھیں کچھ بھی کھانے کو نہ دیا۔ اتفاق سے انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرا ہی چاہتی تھی۔ سدنا خضر نے اس دیوار کو قائم کردیا۔ موسیٰ نے کہا : & ان لوگوں نے نہ تو ہمیں کھانا دیا اور نہ ضیافت کی اگر آپ چاہتے تو ان سے آپ دیوار قائم کرنے کی مزدوری بھی لے سکتے تھے (جس سے ہم کھانا کھا سکتے) & سیدنا خضر کہنے لگے & بس اب جدائی کی گھڑی آن پہنچی اب میں آپ کو ان واقعات کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے & رسول اللہ نے فرمایا کہ & ہم تو چاہتے تھے کہ موسیٰ صبر کیے جاتے تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کے اور زیادہ حالات ہم سے بیان کرتا & (بخاری۔ کتاب التفسیر سورة الکھف) مذکورہ تین واقعات کی تاویل :۔ اس سے اگلی حدیث میں ان واقعات کی تاویل کا یوں ذکر ہے کہ سیدنا خضر نے موسیٰ سے کہا : کشتی کو عیب دار کرنے سے میری غرض یہ تھی کہ جب یہ کشتی اس ظالم بادشاہ کے سامنے جائے تو وہ اسے عیب دار سمجھ کر چھوڑ دے اور کشتی والے پھر سے اسے درست کرلیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔ دوسرے واقعہ کی تاویل یہ ہے کہ اس لڑکے کے ماں باپ ایمان دار تھے اور لڑکے کی قسمت میں کفر لکھا تھا تو ہم ڈرے کہ کہیں یہ اپنے ماں باپ کو کفر اور سرکشی میں نہ پھنسا دے یعنی لڑکے کی محبت میں والدین بھی کفر میں مبتلا نہ ہوجائیں تو ہم نے چاہا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اور زیادہ اچھا اور پاکیزہ لڑکا عطا کرے اور اس کے ماں باپ اس سے بھی زیادہ اس لڑکے پر مہربان ہوں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ ترمذی، ابو اب التفسیر) [٥٩] سیدنا موسیٰ کونسے دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچے ؟:۔ یہ واقعہ سیدنا موسیٰ کی زندگی کے کس دور میں پیش آیا اور وہ دو دریا کون سے تھے ؟ ان سوالات کے جوابات سے کتاب و سنت خاموش ہیں۔ سیدنا موسیٰ کے بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کرلے جانے کے بعد اس قصہ اور اس طرح کے سفر کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ لہذا اغلب خیال یہ ہے کہ یہ واقعہ مصر ہی میں پیش آیا ہوگا اور مصر میں دریاؤں کا سنگھم ایک ہی ہے اور وہ ہے موجودہ شہر خرطوم جہاں دریائے نیل کی دو شاخیں بحرابیض اور بحر ازرق آپس میں ملتی ہیں چونکہ یہ سنگھم کا علاقہ بھی کوئی مخصوص مقام نہ تھا بلکہ میلوں میں پھیلا ہوا تھا۔ لہذا سیدنا موسیٰ کو بذریعہ وحی یہ ہدایت دی گئی تھی کہ ایک مچھلی تل کر اپنے توشہ دان میں رکھ لیں جس مقام پر جاکر یہ مچھلی زندہ ہو کر دریا کے پانی میں چھلانگ لگا دے بس وہی مقام ہے جہاں تمہاری ہمارے بندے سیدنا خضر سے ملاقات ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىهُ ۔۔ : یہاں سے تیسرا قصہ شروع ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) خضر کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے گئے۔ اگرچہ یہ اپنی جگہ ایک مستقل قصہ ہے، تاہم اس میں اس بات کی تائید بھی ہے جو پہلے دونوں قصوں میں گزری۔ اوپر ذکر فرمایا کہ کافر اپنے مال و جاہ پر مغرور رہتے اور مسلمانوں کو ذلیل سمجھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے کہ اگر ان کو اپنے پاس نہ بٹھاؤ تو ہم آپ کے پاس بیٹھیں۔ اس پر دو بھائیوں کا قصہ بیان فرمایا اور پھر دنیا کی مثال بیان فرمائی اور بتایا کہ ابلیس غرور کے سبب ہی ہلاک ہوا اور اب خضر اور موسیٰ ( علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا کہ دیکھو موسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر اولو العزم پیغمبر اتنے زیادہ علم و عمل کے باوجود خضر (علیہ السلام) سے علم حاصل کرنے کے لیے گئے اور ان کے سامنے تواضع اختیار کرتے ہوئے ان کی ہر شرط قبول کی۔ (رازی و موضح) ” لِفَتٰىهُ “ ” فَتًی “ کا معنی نوجوان ہے، خادم کو بھی ” فَتًی “ کہہ لیتے ہیں، کیونکہ بہتر خدمت نوجوان ہی کرسکتے ہیں۔ یہ یوشع بن نون تھے جو موسیٰ (علیہ السلام) سے بہت محبت رکھتے تھے، ان کی خدمت کے لیے ان کے ساتھ رہتے تھے، موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کے جانشین بنے اور انھی کے ہاتھوں بیت المقدس فتح ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص اگر خوش دلی سے خدمت کرے تو اس سے خدمت لی جاسکتی ہے۔ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ : ” بَحْرٌ“ کا لفظ عربی زبان میں نمکین پانی والے سمندر پر بھی بولا جاتا ہے اور میٹھے پانی والے دریا پر بھی۔ (قاموس) فارسی میں بھی دریا کا لفظ دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ دو بحر ذکر نہیں فرمائے، کیونکہ مراد قصہ گوئی نہیں، نصیحت ہے اور وہ ان دو دریاؤں کی تعیین کے بغیر بھی پوری ہے۔ بعض مفسرین نے ان سے بحر فارس اور بحر روم مراد لیے ہیں، مگر یہ ملتے نہیں۔ بعض نے بحر ابیض اور بحر احمر مراد لیے ہیں۔ بعض نے افریقہ کے اور بعض نے اندلس کے دو دریا مراد لیے ہیں۔ بعض نے دجلہ و فرات مراد لیے ہیں، مگر مصر کو مدنظر رکھیں تو سوڈان کی طرف سے مصر میں آنے والے دریائے نیل میں ملنے والے کئی دریاؤں کے نیل کے ساتھ ملنے کی کوئی جگہ مراد ہوسکتی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے وہاں گم ہونے کی علامت کے ساتھ متعین فرمایا۔ اب اندازے سے ان جگہوں میں سے دو دریاؤں کے جمع ہونے کی کوئی ایک جگہ متعین کرنا ممکن نہیں اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔ ” حُقُبًا “ ” حَقْبَۃٌ“ کی جمع ہے، لمبی مدت کو ” حَقْبَۃٌ“ کہتے ہیں۔ اس واقعہ کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بیان فرمائی ہے، قارئین اس پوری حدیث کو غور سے پڑھیں، آئندہ فوائد میں اس کا بار بار ذکر آئے گا۔ 3 ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ان سے پوچھا گیا : ” لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے ؟ “ انھوں نے فرمایا : ” میں ہوں۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ناراضگی کا اظہار فرمایا، کیونکہ انھوں نے یہ بات اللہ کے سپرد نہیں کی (کہ اللہ بہتر جانتا ہے) ۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میرا ایک بندہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ ہے، وہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا : ” اے میرے رب ! پھر میری اس سے ملاقات کیسے ہوسکتی ہے ؟ “ فرمایا : ” اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے کسی مکتل (کھجور کے نرم پتوں کی بنی ہوئی ٹوکری) میں رکھ لو، تو جہاں مچھلی کو گم پاؤ، وہ وہیں ہوگا۔ “ تو انھوں نے ایک مچھلی لی، اسے ایک ٹوکری میں رکھا اور چل پڑے اور اپنے ساتھ اپنے جوان یوشع بن نون کو بھی لے لیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک خاص قسم کی چٹان کے پاس پہنچے تو دونوں لیٹ گئے اور سو گئے۔ مچھلی تڑپی اور دریا میں جا گری اور اس نے دریا میں اپنا راستہ سرنگ کی صورت میں بنا لیا اور اللہ تعالیٰ نے مچھلی سے پانی کا بہاؤ روک دیا تو وہ اس پر طاق کی طرح ہوگیا۔ جب ( موسیٰ (علیہ السلام ) جاگے تو ان کا ساتھی انھیں مچھلی کے متعلق بتلانا بھول گیا، چناچہ وہ دونوں دن کا باقی حصہ اور رات بھر چلتے رہے۔ اگلا دن ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے جوان سے کہا : ” ہمارا دن کا کھانا لاؤ، ہمیں اپنے اس سفر میں بہت تھکاوٹ ہوئی ہے۔ “ ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے) فرمایا : ” موسیٰ (علیہ السلام) کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی جب تک وہ اپنی اس جگہ سے آگے نہیں گزرے جس کا انھیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ “ تو ان کے جوان نے ان سے کہا : ” کیا آپ نے دیکھا کہ جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی بھول گیا اور مجھے اس کا ذکر کرنا شیطان ہی نے بھلایا ہے اور اس نے دریا میں اپنا عجیب راستہ بنا لیا۔ “ سو مچھلی کے لیے سرنگ بنی اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے جوان کو تعجب ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ” یہی تو ہم ڈھونڈ رہے تھے۔ “ چناچہ وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں کا پیچھا کرتے ہوئے واپس پلٹے، یہاں تک کہ اس چٹان تک آپہنچے، تو اس وقت (وہاں) ایک آدمی کپڑا اوڑھ کر لیٹا ہوا تھا۔ اسے موسیٰ (علیہ السلام) نے سلام کہا تو خضر نے کہا : ” اور تیری (اس) سرزمین میں سلام کیسا ؟ “ کہا : ” میں موسیٰ ہوں۔ “ اس نے کہا : ” بنی اسرائیل والے موسیٰ ؟ “ کہا : ” ہاں، میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ کو جو کچھ سکھایا گیا ہے اس میں سے کچھ بھلائی مجھے سکھا دیں۔ “ اس نے کہا : ” تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کرسکے گا، اے موسیٰ ! میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر ہوں جسے تم نہیں جانتے اور تم اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر ہو جسے میں نہیں جانتا۔ “ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ” تم مجھے اگر اللہ نے چاہا تو صبر کرنے والا پاؤ گے اور میں تمہارے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ “ تو خضر نے اس سے کہا : ” پھر اگر تو میرے پیچھے چلا ہے تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں مت پوچھنا، یہاں تک کہ میں تیرے لیے اس کا کچھ ذکر شروع کروں۔ “ چناچہ وہ دونوں چل پڑے، دریا کے کنارے پر جا رہے تھے کہ ایک کشتی گزری، انھوں نے ان سے بات کی کہ وہ انھیں سوار کرلیں۔ ان لوگوں نے خضر کو پہچان لیا، اس لیے انھوں نے ان کو کسی اجرت کے بغیر سوار کرلیا۔ جب وہ دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو اچانک ہی خضر نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ تیشے کے ساتھ اکھیڑ دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے کہا : ” ایسے لوگ جنھوں نے ہمیں اجرت کے بغیر سوار کرلیا، تم نے بڑھ کر ان کی کشتی کا تختہ اکھیڑ دیا، تاکہ اس میں سوار لوگوں کو غرق کر دو ، بلاشبہ یقیناً تو ایک بڑے کام کو آیا ہے۔ “ کہا : ” کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ یقیناً تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکے گا ؟ “ کہا : ” مجھے اس پر نہ پکڑ جو میں بھول گیا اور مجھے میرے معاملے میں کسی مشکل میں نہ پھنسا۔ “ (ابی بن کعب (رض) نے) کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ پہلی دفعہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بھول ہوئی تھی۔ “ فرمایا : ” اور ایک چڑیا آئی اور کشتی کے ایک کنارے پر بیٹھ گئی، اس نے دریا میں ایک ٹھونکا مارا تو خضر نے اس سے کہا : ” میرا علم اور تیرا علم اللہ کے علم میں سے اتنا ہی ہے جتنا اس چڑیا نے اس دریا سے کم کیا ہے۔ “ پھر وہ دونوں کشتی سے نکلے، ابھی وہ کنارے پر چل ہی رہے تھے کہ خضر نے ایک لڑکا دیکھا جو لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، تو خضر نے اس کا سر پکڑا اور اسے اپنے ہاتھ سے اکھیڑ کر قتل کردیا۔ موسیٰ نے اس سے کہا : ” کیا تو نے ایک بےگناہ جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر قتل کردیا، بلاشبہ یقیناً تو ایک بہت برے کام کو آیا ہے۔ “ کہا : ” کیا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکے گا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اور یہ پہلی سے سخت (تنبیہ) تھی۔ “ کہا : ” اگر میں تجھ سے اس کے بعد کسی چیز کے متعلق پوچھوں تو مجھے ساتھ نہ رکھنا، یقیناً تو میری طرف سے پورے عذر کو پہنچ چکا ہے۔ “ پھر وہ دونوں چل پڑے، یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی والوں کے پاس آئے، انھوں نے اس کے رہنے والوں سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے انکار کردیا کہ ان کی مہمان نوازی کریں، پھر انھوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو چاہتی تھی کہ گرجائے۔ فرمایا، ایک طرف جھکی ہوئی تھی۔ تو خضر اٹھے اور اسے اپنے ہاتھ سے سیدھا کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ” ایسے لوگ جن کے پاس ہم آئے تو نہ انھوں نے ہمیں کھانا کھلایا اور نہ ہماری مہمان نوازی کی، اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے۔ “ (خضر نے) کہا : ” یہ میرے اور تیرے درمیان جدائی ہے۔ “ اس کے بعد پورا واقعہ بیان فرمایا جو آیت (٧٨) سے آیت (٨٢) کے آخر تک ہے۔ ابن عباس (رض) پڑھا کرتے تھے : ” وَ أَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ کَافِرًا وَکَانَ أَبَوَاہُ مُؤْمِنَیْنِ “ یعنی وہ لڑکا کافر تھا اور اس کے ماں باپ مومن تھے۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( و إذ قال موسیٰ لفتاہ لا أبرح۔۔ ) : ٤٧٢٥ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the description of this event referred to in: وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ (And when Musa said to his young man), the opening sentence of verse 60, &Musa& means the famous prophet, Musa son of &Imran (علیہ السلام) . The at¬tribution of this event to some other Musa by Nawf al-Bakali has been sternly refuted by Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) as reported in the Sahih of al-Bukhari. As for the word: فَتٰی (fata), it literally means a young man. When this word is used as attributed to a particular person, it carries the sense of his attendant or servant because it is usually a young and strong man who is taken in for this kind of service in order that he could handle all sorts of jobs. Incidentally, it also happens to be an article of good Islamic etiquette that a servant or attendant should be addressed nicely, either by his name, or an appellation such as &young man.& The ground rule is that even servants are not to be addressed as servants. At this place, the attribution of &fata& is to Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، therefore, it means Sayyid¬na Musa&s attendant in service. It appears in Hadith narratives that the name of this attendant was Yusha& son of Nun, son of Ifra&im, son of Yusuf (علیہ السلام) . Some narratives identify him as the maternal nephew of Sayyidna Musa (علیہ السلام) . But, no categorical decision can be taken in this matter. As for his name being Yusha& ibn Nun, that much stands proved on the authority of sound narratives. However, there is no proof for the rest of the antecedents. (Qurtubi) The word: مَجْمَعَ الْبَحْرَ‌يْنِ (majma& al-bahrayn) literally means every such place where two waters meet - and it is obvious that they are many all around the world. Exactly which place is meant by &majma` al-bahrayn& in this context? Since the Qur&an, and Hadith have not pinpointed it precisely, therefore, sayings of commentators differ in terms of traces and contexts. According to Qatadah, it signifies the meeting point of the seas of Faris (Persia) and Rum. Ibn ` Atiyyah has identified a place near Azerbaijan. Some point out to the confluence of the Gulf of &Aqabah in Jordan and the Red Sea (Sharm ash-Shaykh). Some others have said that this place is located in Tanjah (Tangiers in North Africa). Sayyidna &Ubayy ibn Ka&b (رض) reports that it is in Africa. Suddiyy gives its location in Armenia. Some give its location at the meeting point of the sea of Andulus (Gibraltar) and the Great Ocean (Atlantic). Allah knows best. However, this much is clear that Allah Ta’ ala had told Sayyidna Musa (علیہ السلام) the fixed geographical location of this place towards which he had made his journey. (Qurtubi) The Story of Sayyidna Musa (Moses) (علیہ السلام) and Al-Khadir (Elias) Details of this event appear in the Sahih of al-Bukhari and Muslim. There, according to a narration of Sayyidna Ubaiyy ibn Ka` b (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: |"Once when Musa rose to address his people, the Bani Isra&il, those present there asked him, &of all human beings, who is the foremost in knowledge?& Since (in the knowledge of Sayyidna Musa (علیہ السلام) there was no one more knowledgeable than himself) therefore, he said, &I am the foremost in knowledge.& (Allah Ta’ ala has His special ways of grooming prophets close to Him, therefore, this statement was not welcome. The etiquette of the situation demanded that he should have resigned his answer to the ultimate knowledge of Allah and said that &Allah alone knows as to who is the foremost in knowledge among His entire creation& ). So, the answer given by Musa (علیہ السلام) brought displeasure from Allah Ta` ala and to him it was re¬vealed: &Present on the meeting point of the two seas, there is a servant of Ours. He is more knowledgeable than you.& (When Musa (علیہ السلام) came to know this, he submitted before Allah Ta` ala that it was incumbent on him to travel and learn from the person who is superior to him in knowl¬edge). So, he said: &0 Allah, tell me where to find him.& Allah Ta` ala said, &put a fish in your basket and travel in the direction of the meeting point of the two seas. When you reach the place where this fish disappears, that shall be the place where you meet that servant of Ours.& As commanded, Musa put a fish in the basket and set out. His attendant, Yusha& ibn Nun was also with him. During the course of travel, they reached a rock where they lied down resting their heads against it. All of a sudden, on that spot, the fish moved, left the basket and went into the sea. (With this miracle of the fish coming alive and slipping out into the sea, yet another miracle unfolded when) Allah Ta` ala stopped the flow of water currents all along the way the fish took into the sea making the place like a tunnel into the sea. (Yusha& ibn Nun witnessed this extraor-dinary event while Musa (علیہ السلام) was asleep). When he woke up, Yusha& ibn Nun forgot to mention this strange happening before him and resumed their journey onwards from there. They traveled for a whole day and night. When came the morning of the next day, Musa (علیہ السلام) asked his com¬panion of the journey, &bring us our morning meal. We have, indeed, had much fatigue from this journey of ours.& The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that (as Divinely arranged) Musa (علیہ السلام) felt no fatigue at all before that, so much so that he had over-traversed the spot where he had to reach. It was only when Musa asked for his morning meal that Yusha& ibn Nun recalled the fate of the fish, tendered his excuse for having forgotten to mention it for the Shaitan had made him forget about the need to report this matter to him earlier. After that, he disclosed that the dead fish had come alive and gone into the sea in an amazing manner. Thereupon, Musa` (علیہ السلام) said: &that was what we were looking for.& (That is, the place where the fish comes alive and disappears was the desired destination). So they turned back that very instant and took the same route they had taken earlier in order to find the spot they were looking for. Now, when they reached the familiar rock, they saw that someone was lying there covered with a sheet from the head down to the feet. Musa (علیہ السلام) (taking things as they were) offered the greeting of salam. Al-Khadir (علیہ السلام) asked, &where in the world does this &salam& come from in this (unin¬habited) wilderness?& Thereupon, Musa (علیہ السلام) said, &I am Musa.& Al-Khadir (علیہ السلام) asked, &Musa Bani Isra&il?& He confirmed, &Yes, I am Musa Bani Isra&il. I have come here to ask you to teach me the knowl-edge Allah has given to you specially.& Al Khadir (علیہ السلام) said, &you will be unable to remain patient with me. 0 Musa, there is a knowledge Allah has given to me and which you do not have while there is a knowledge which Allah has given to you which I do not have.& Musa (علیہ السلام) said, &if Allah wills, you will find me patient. I shall not disobey you in any of your orders.& Al Khadir (علیہ السلام) said, &If you are to be with me, do not ask me about anything unless I tell you about it first.& After having said this, they started walking by the shore. Then came a boat. A ride was negotiated. The boat people recognized al-Khadir (علیہ السلام) and let them come on board free of any charges. No sooner did he step into the boat, al-Khadir (علیہ السلام) forced out a panel of the boat with the help of an axe. Musa (علیہ السلام) could not restrain himself. He said, &These people gave us a free ride on the boat. This is what you did to them in return. You tore their boat apart so that they would drown. You have really done something very bad.& Al-Khadir (علیہ السلام) said, &Did I not tell you before that you will be unable to remain patient with me?& Thereupon, Musa (علیہ السلام) offered his excuse that he had forgotten his promise and requested him not to take him to task on his act of inadvertent omission. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، after relating this event, said, |"The first objec¬tion raised by Musa (علیہ السلام) against al-Khadir (علیہ السلام) was activated by forgetfulness, the second as a condition and the third by intention. (Meanwhile) a bird came, sat down on the side of the boat and took out a beak-full of water from the sea. Thereupon, addressing Musa (علیہ السلام) ، al-Khadir (علیہ السلام) said, |"even the combined knowledge of the two of us, yours and mine, cannot claim a status against Divine knowledge that could be compared even with the water in the beak of this bird as related to this sea.|" Then, having disembarked from the boat, they started walking on the shore. All of a sudden, al-Khadir (علیہ السلام) saw a boy playing with other boys. Al-Khadir (علیہ السلام) killed the boy with his own hands. The boy died. Musa (علیہ السلام) said, &you took an innocent life unjustly. Indeed, this was a grave sin you committed.& Al-Khadir (علیہ السلام) said, &Did I not tell you before that you will be unable to remain patient with me?& Musa (علیہ السلام) noticed that this matter was far more serious than the first one. Therefore, he said, &if I question you after this, you will be free to remove me from your company. As far as I am concerned, you have reached the limit of ex¬cuses from me.& After that, they started walking again until they passed by a village. They requested the village people to house them as guests. They refused. In this habitation, they noticed a wall that was about to collapse. Al-Khadir (علیہ السلام) made it stand straight with his own hands. Surprised, Musa (علیہ السلام) said, &we requested their hospitality. They refused. Now you did such a big job for them. If you wished, you could have charged wages from them to do it.& Al-Khadir (علیہ السلام) said, هَـٰذَا فِرَ‌اقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ (It means that the condition now stands fulfilled, therefore, time has come for you and me to part company). Then, after telling Musa (علیہ السلام) the reality behind the three events, Al-Khadir (علیہ السلام) said: ذٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرً‌ا which means: &That was the reality of the events over which you were unable to remain patient.& Once he had narrated this entire event, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"I wish Musa (علیہ السلام) could have remained more patient so that we would have come to know more about the two of them.|" This lengthy Hadith appears in the Sahih of Al-Bukhari and Muslim in a manner that it establishes three things. It clearly mentions the name of Sayyidna Musa (علیہ السلام) as Musa Bani Isra&il, the name of his young companion during the travel as Yusha& ibn Nun and the name of the &servant of Allah& to whom Sayyidna Musa (علیہ السلام) was sent towards the meeting point of the two seas as Al-Khadir. Now, from this point onwards, we shall take up the verses of the Qur&an, and explain their sense. Some rules of the road and a model of high prophetic determination The first statement made in verse 60:. لَا أَبْرَ‌حُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَ‌يْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا (|"I shall not give up until I reach the meeting point of the two seas or else I shall go on for years|" ) was from Sayyidna Musa (علیہ السلام) as addressed to his traveling companion, Yusha` ibn Nun. The purpose was to inform him about the direction and destination of the intended journey. This too releases a refinement in manners for he was taking the necessary steps to orient his companion and attendant with the knowledge of things es¬sential for the journey. Proud and arrogant people just do not regard ser¬vants and attendants worth addressing, nor would they pass on any in-formation to them about a projected journey. The word: حُقُبَّا (huquba: years) is the plural of: حُقبَہ (huqbah). According to lexicographers, huqbah is a period of eighty years. Some add more years to this definition. The truth of the matter is that huqu¬bah refers to a long period of time. There are no set limits about it. Here, Sayyidna Musa (علیہ السلام) has told his companion on the trip that he has to reach a particular place at the meeting point of the two seas. There he must reach as commanded by Allah Ta’ ala and that he was determined to continue his journey until he reaches that destination no matter how long the journey takes. When ready to obey the command of their Lord, this is a model of high determination exhibited by prophets.

خلاصہ تفسیر : اور وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے (جن کا نام یوشع تھا رواہ البخاری) فرمایا کہ میں (اس سفر میں) برابر چلا جاؤں گا یہاں تک کہ اس موقع پر پہنچ جاؤں جہاں دو دریا آپس میں ملے ہیں یا یوں ہی زمانہ دراز تک چلتا رہوں گا (اور وجہ اس سفر کی یہ ہوئی تھی کہ ایک بار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل میں وعظ فرمایا تو کسی نے پوچھا کہ اس وقت آدمیوں میں سب سے بڑا عالم کون شخص ہے ؟ آپ نے فرمایا میں ! مطلب یہ تھا کہ ان علوم میں کہ جن کو قرب الی اللہ کی تحصیل میں دخل ہے میرے برابر کوئی نہیں اور یہ فرمانا صحیح تھا اس لئے کہ آپ نبی اولو العزم تھے آپ کے برابر دوسرے کو یہ علم نہیں تھا لیکن ظاہراً لفظ مطلق تھا اس لئے اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ آپ کو احتیاط فی الکلام کی تعلیم دی جائے غرض ارشاد ہوا کہ ہمارا بندہ مجمع البحرین میں تم سے زیادہ علم رکھتا ہے مطلب یہ تھا کہ بعض علوم میں وہ زیادہ ہے گو ان علوم کو قرب الہی میں دخل نہ ہو جیسا عنقریب واضح ہوگا لیکن اس بناء پر جواب میں مطلقاً تو اپنے کو اعلم کہنا نہ چاہئے تھا غرض موسیٰ (علیہ السلام) ان کے ملنے کے مشتاق ہوئے اور پوچھا کہ ان تک پہنچنے کی کیا صورت ہے ؟ ارشاد ہوا کہ ایک بےجان مچھلی اپنے ساتھ لے کر سفر کرو جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ہے۔ اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) نے یوشع کو ساتھ لیا اور یہ بات فرمائی) پس جب (چلتے چلتے) دونوں دریاؤں کے جمع ہونے کے موقع پر پہنچنے (وہاں کسی پتھر سے لگ کر سو رہے اور وہ مچھلی باذنہ تعالیٰ زندہ ہو کر دریا میں جا پڑی یوشع (علیہ السلام) نے بیدار ہو کر مچھلی کو نہ پایا ارادہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جاگیں گے تو اس کا ذکر کروں گا مگر ان کو مطلق یاد نہ رہا شاید اہل و عیال اور وطن وغیرہ کے خیالات کا ہجوم ہوا ہوگا جو ذکر کرنا بھول گئے ورنہ ایسی عجیب بات کا بھول جانا کم ہوتا ہے لیکن جو شخص ہر وقت معجزات دیکھتا رہتا ہو اس کے ذہن سے کسی ادنیٰ درجی کہ عجیب بات کا نکل جانا کسی خیال کے غلبہ سے عجب نہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی پوچھنے کا خیال نہ رہا، اس طرح سے) اس اپنی مچھلی کو دونوں بھول گئے اور مچھلی نے (اس کے قبل زندہ ہو کر) دریا میں اپنی راہ لی اور چل دی پھر جب دونوں (وہاں سے) آگے بڑھ گئے (اور دور نکل گئے) تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے فرمایا کہ ہمارا ناشتہ تو لاؤ ہم کو تو اس سفر (یعنی آج کی منزل) میں بڑی تکلیف پہنچی (اور اس کے قبل کی منزلوں میں نہیں تھکے تھے جس کی وجہ ظاہراً موقع مقصود سے آگے بڑھ آنا تھا) خادم نے کہا کہ لیجئے دیکھئے (عجیب بات ہوئی) جب ہم اس پتھر کے قریب ٹھہرے تھے (اور سوگئے تھے اس وقت اس مچھلی کا ایک قصہ ہوا اور میرا ارادہ آپ سے ذکر کرنے کا ہوا لیکن میں کسی دوسرے دھیان میں لگ گیا) سو میں اس مچھلی (کے تذکرہ) کو بھول گیا اور مجھ کو شیطان ہی نے بھلا دیا کہ میں اس کو ذکر کرتا اور (وہ قصہ یہ ہوا کہ) اس مچھلی نے (زندہ ہونے کے بعد) دریا میں عجیب طور پر اپنی راہ لی (ایک عجیب طور پر تو خود زندہ ہوجانا ہے دوسرا عجیب طور یہ کہ وہ مچھلی دریا میں جہاں کو گذری تھی وہاں کا پانی بطور خرق عادت کے اسی طرح سرنگ کے طور پر ہوگیا تھا غالباً پھر مل گیا ہوگا) موسیٰ (علیہ السلام) نے (یہ حکایت سن کر) فرمایا کہ یہ ہی وہ موقع ہے جس کی ہم کو تلاش تھی (وہاں ہی لوٹنا چاہئے) سو دونوں اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے الٹے لوٹے (غالباً وہ راستہ سڑک کا نہ ہوگا اس لئے نشان دیکھنے پڑھے) سو (وہاں پہنچ کر) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (یعنی خضر) کو پایا جن کو ہم نے اپنی خاص رحمت (یعنی مقبولیت) دی تھی (مقبولیت کے معنی میں ولایت اور نبوت دونوں کا احتمال ہے) اور ہم نے ان کو اپنے پاس سے (یعنی بلا واسطہ اسباب اکتساب) ایک خاص طور پر علم سکھلایا تھا (مراد اس سے علم اسرار کونیہ ہے جیسا واقعات آئندہ سے معلوم ہوگا اور اس علم کو حصول قرب الہی میں کچھ دخل نہیں جس علم کو قرب میں دخل ہے وہ علم اسرار الہیہ ہے جس میں موسیٰ (علیہ السلام) بڑھے ہوئے تھے غرض) موسیٰ (علیہ السلام) نے (ان کو سلام کیا اور ان سے) فرمایا کہ میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں (یعنی آپ مجھے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دیجئے) اس شرط سے کہ جو علم مفید آپ کو (من جانب اللہ) سکھلایا گیا ہے اس میں سے آپ مجھ کو بھی سکھلا دیں ان بزرگ نے جواب دیا آپ سے میرے ساتھ رہ کر (میرے افعال پر) صبر نہ ہو سکے گا (یعنی آپ مجھ پر روک ٹوک کریں گے اور معلم پر تعلیم کے متعلق متعلم کی روک ٹوک کرنے سے مصاحبت مشکل ہے) اور (بھلا) ایسے امور پر (روک ٹوک کرنے سے) آپ کیسے صبر کریں گے جو آپ کے احاطہ واقفیت سے باہر ہیں (یعنی ظاہر میں وہ امور بوجہ منشاء معلوم نہ ہونے کے خلاف شرع نظر آئیں گے اور آپ خلاف شرع امور پر سکوت نہ کرسکیں گے) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ (نہیں) انشاء اللہ آپ مجھ کو صابر (یعنی ضابط) پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کے خلاف حکم نہ کروں گا (یعنی مثلا اگر روک ٹوک سے منع کردیں گے میں روک ٹوک نہ کروں گا اسی طرح اور کسی بات میں بھی خلاف نہ کروں گا) ان بزرگ نے فرمایا کہ (اچھا) تو اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو (اتنا خیال رہے کہ) مجھ سے کسی بات کی نسبت کچھ پوچھنا نہیں جب تک کہ اس کے متعلق میں خود ہی ابتداً ذکر نہ کر دوں۔ معارف و مسائل : (آیت) وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىهُ اس واقعہ میں موسیٰ سے مراد مشہور پیغمبر موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) ہیں نوف بکالی نے جو دوسرے کسی موسیٰ کی طرف اس واقعہ کو منسوب کیا ہے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی طرف سے اس پر سخت رد منقول ہے۔ اور فتی کے لفظی معنی نوجوان کے ہیں جب یہ لفظ کسی خاص شخص کی طرف منسوب کرکے استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا خادم مراد ہوتا ہے کیونکہ خدمت گار اکثر قوی جوان دیکھ کر رکھا جاتا ہے جو ہر کام انجام دے سکے اور نوکر و خادم کو جوان کے نام سے پکارنا اسلام کا حسن ادب ہے کہ نوکروں کو بھی غلام یا نوکر کہہ کر خطاب نہ کرو بلکہ اچھے لقب سے پکارو اس جگہ فتی کی نسبت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف ہے اس لئے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خادم اور روایات حدیث میں ہے کہ یہ خادم یوشع بن نون ابن افرائیم بن یوسف (علیہ السلام) تھے بعض روایات میں ہے کہ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بھانجے تھے مگر اس میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا صحیح روایات سے ان کا نام یوشع بن نون ہونا تو ثابت ہے باقی اوصاف و حالات کا ثبوت نہیں (قرطبی) مجمع البحرین کے لفظی معنی ہر وہ جگہ ہے جہان دو دریا ملتے ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ ایسے مواقع دنیا میں بیشمار ہیں اس جگہ مجمع البحرین سے کونسی جگہ مراد ہے چونکہ قرآن و حدیث میں اس کو معین طور پر نہیں بتلایا اس لئے آثار و قرائن کے اعتبار سے مفسرین کے اقوال اس میں مختلف ہیں قتادہ نے فرمایا کہ بحر فارس و روم کے ملنے کی جگہ مراد ہے ابن عطیہ نے آذر بائیجان کے قریب ایک جگہ کو کہا ہے بعض نے بحر اردن اور بحر قلزم کے ملنے کی جگہ بتلائی ہے بعض نے کہا یہ مقام طنجہ میں واقع ہے ابی بن کعب (رض) سے منقول ہے کہ یہ افریقہ میں ہے سدی نے آرمینیہ میں بتلایا ہے بعض نے بحر اندلس جہاں بحر محیط سے ملتا ہے وہ موقع بتلایا ہے واللہ اعلم۔ بہرحال اتنی بات ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ مقام معین کرکے بتلا دیا تھا جس کی طرف ان کا سفر واقع ہوا ہے۔ (قرطبی) قصہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) : اس واقعہ کی تفصیل صحیح بخاری و مسلم میں بروایت حضرت ابی بن کعب اس طرح آئی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے آپ سے یہ سوال کیا کہ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علم میں اپنے سے زیادہ علم والا کوئی تھا نہیں اس لئے) فرمایا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں (اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بارگاہ انبیاء (علیہم السلام) کو خاص تربیت دیتے ہیں اس لئے یہ بات پسند نہ آئی بلکہ ادب کا مقتضی یہ تھا کہ اس کو اللہ کے علم کے حوالے کرتے یعنی یہ کہہ دیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ ساری مخلوق میں اعلم کون ہے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس جواب پر اللہ تعالیٰ کا عتاب ہوا موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی آئی کہ ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین پر ہے وہ آپ سے زیادہ اعلم ہے ( موسیٰ (علیہ السلام) کو جب یہ معلوم ہوا تو اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ جب وہ مجھ سے زیادہ اعلم ہیں تو مجھے ان سے استفادہ کے لئے سفر کرنا چاہئے) اس لئے عرض کیا یا اللہ مجھے ان کا پتہ نشان بتلا دیا جائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لو اور مجمع البحرین کی طرف سفر کرو جس جگہ پہنچ کر یہ مچھلی گم ہوجائے پس وہی جگہ ہمارے اس بندے کے ملنے کی ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم کے مطابق ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی اور چل دیئے۔ ان کے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون بھی تھے دوران سفر ایک پتھر کے پاس پہنچ کر اس پر سر رکھ کر لیٹ گئے یہاں اچانک یہ مچھلی حرکت میں آگئی اور زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی اور (مچھلی کے زندہ ہو کر دریا میں چلے جانے کے ساتھ ایک دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ) جس راستہ سے مچھلی دریا میں گئی اللہ تعالیٰ نے وہاں پانی کا جریان روک دیا اور اس جگہ پانی کے اندر ایک سرنگ جیسی ہوگئی (یوشع بن نون اس عجیب واقعہ کو دیکھ رہے تھے موسیٰ (علیہ السلام) سو گئے تھے) جب بیدار ہوئے تو یوشع بن نون مچھلی کا یہ عجیب معاملہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بتلانا بھول گئے اور اس جگہ سے پھر روانہ ہوگئے پورے ایک دن ایک رات کا مزید سفر کیا جب دوسرے روز کی صبح ہوگئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رفیق سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ کیونکہ اس سفر سے کافی تھکان ہوچکا ہے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ (بقضائے الہی) موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سے پہلے تھکان بھی محسوس نہیں ہوا یہاں تک کہ جس جگہ پہنچنا تھا اس سے آگے نکل آئے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ناشتہ طلب کیا تو یوشع بن نون کو مچھلی کا واقعہ یاد آیا اور اپنے بھول جانے کا عذر کیا کہ شیطان نے مجھے بھلا دیا تھا کہ اس وقت آپ کو اس واقعہ کی اطلاع نہ کی اور پھر بتلایا کہ وہ مردہ مچھلی تو زندہ ہو کر دریا میں ایک عجیب طریقہ سے چلی گئی اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہی تو ہمارا مقصد تھا (یعنی منزل مقصود وہی تھی جہاں مچھلی زندہ ہو کر گم ہوجائے) چنانچہ اسی وقت روانہ ہوگئے اور ٹھیک اسی راستہ سے لوٹے جس پر پہلے چلے تھے تاکہ وہ جگہ مل جائے اب جو یہاں اس پتھر کے پاس پہنچنے تو دیکھا کہ اس پتھر کے پاس ایک شخص سر سے پاؤں تک چادر تانے ہوئے لیٹا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے (اسی حال میں) سلام کیا تو خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ اس (غیر آباد) جنگل میں سلام کہاں سے آگیا اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے سوال کیا کہ موسیٰ بنی اسرائیل ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں موسیٰ بنی اسرائیل ہوں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے وہ خاص علم سکھلا دیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے اے موسیٰ میرے پاس ایک علم ہے جو اللہ نے مجھے دیا ہے وہ آپ کے پاس نہیں اور ایک علم آپ کو دیا ہے جو میں نہیں جانتا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی کام میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر آپ میرے ساتھ چلنے ہی کو تیار ہیں تو کسی معاملہ کے متعلق مجھ سے کچھ پوچھنا نہیں جب تک کہ میں خود آپ کو اس کی حقیقت نہ بتلاؤں۔ یہ کہہ کر دونوں حضرات دریا کے کنارے کنارے چلنے لگے اتفاقاً ایک کشتی آگئی تو کشتی والوں سے کشتی پر سوار ہونے کی بات چیت کی ان لوگوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو پہچان لیا اور ان سب لوگوں کو بغیر کسی کرایہ اور اجرت کے کشتی میں سوار کرلیا کشتی میں سوار ہوتے ہی خضر (علیہ السلام) نے ایک کلہاڑی کے ذریعہ کشتی کا ایک تختہ نکال ڈالا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) (سے نہ رہا گیا) کہنے لگے کہ ان لوگوں نے بغیر کسی معاوضہ کے ہمیں کشتی میں سوار کرلیا آپ نے اس کا یہ بدلہ دیا کہ ان کی کشتی توڑ ڈالی کہ یہ سب غرق ہوجائیں یہ تو آپ نے بہت برا کام کیا۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے عذر کیا کہ میں اپنا وعدہ بھول گیا تھا اس بھول پر آپ سخت گیری نہ کریں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ واقعہ نقل کرکے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا اعتراض خضر (علیہ السلام) پر بھول سے ہوا تھا اور دوسرا بطور شرط کے ایک تیسرا قصداً (اسی اثناء میں) ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ کر اس نے دریا میں سے ایک چونچ بھر پانی لیا خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو خطاب کرکے کہا کہ میرا علم اور آپ کا علم دونوں مل کر بھی اللہ کے علم کے مقابلہ میں اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے جتنی اس چڑیا کی چونچ کے پانی کو اس سمندر کے ساتھ ہے۔ پھر کشتی سے اتر کر دریا کے ساحل پر چلنے لگے اچانک خضر (علیہ السلام) نے ایک لڑکے کو دیکھا کہ دوسرے لڑکوں میں کھیل رہا ہے خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اس لڑکے کا سر اس کے بدن سے الگ کردیا لڑکا مر گیا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ نے ایک معصوم جان کو بغیر کسی جرم کے قتل کردیا یہ تو آپ نے بڑا ہی گناہ کیا خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا میں نے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے موسیٰ نے دیکھا کہ یہ معاملہ پہلے معاملہ سے زیادہ سخت ہے اس لئے کہا کہ اگر اس کے بعد میں نے آپ سے کوئی بات پوچھی تو آپ مجھے اپنے ساتھ سے الگ کر دیجئے آپ میری طرف سے عذر کی حد پر پہنچ چکے ہیں۔ اس کے بعد پھر چلنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک گاؤں پر گذر ہوا انہوں نے گاؤں والوں سے درخواست کی کہ ہمیں اپنے یہاں مہمان رکھ لیجئے انہوں نے انکار کردیا اس بستی میں ان لوگوں نے ایک دیوار کو دیکھا کہ گرا چاہتی ہے حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کھڑا کردیا موسیٰ (علیہ السلام) نے تعجب سے کہا کہ ہم نے ان لوگوں سے مہمانی چاہی تو انہوں نے انکار کردیا آپ نے اتنا بڑا کام کردیا اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت ان سے لے سکتے تھے خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ (آیت) ھٰذَا فِرَاقُ بَيْنِيْ وَبَيْنِكَ (یعنی اب شرط پوری ہوچکی اس لئے ہماری اور آپ کی مفارقت کا وقت آگیا ہے) اس کے بعد خضر (علیہ السلام) نے تینوں واقعات کی حقیقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بتلا کر کہا (آیت) ذٰلِكَ تَاْوِيْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَيْهِ صَبْرًا یعنی یہ ہے حقیقت ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہیں ہوسکا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ پورا واقعہ ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ جی چاہتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور کچھ صبر کرلیتے تو ان دونوں کی اور کچھ خبریں معلوم ہوجاتیں (انتہی) صحیح بخاری و مسلم میں یہ طویل حدیث اس طرح آئی ہے جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا موسیٰ بنی اسرائیل اور نوجوان ساتھی کا نام یوشع بن نون ہونا اور جس بندے کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) کو مجمع البحرین کی طرف بھیجا گیا تھا ان کا نام خضر ہونا تصریحاً مذکور ہے آگے آیات قرآن کے ساتھ ان کے مفہوم اور تفسیر کو دیکھئے۔ سفر کے بعض آداب اور پیغمبرانہ عزم کا ایک نمونہ : (آیت) لَآ اَبْرَحُ حَتّٰى اَبْلُغَ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِيَ حُقُبًا یہ جملہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رفیق سفر یوشع بن نون سے کہا جس کا مطلب اپنے سفر کا رخ اور منزل مقصود رفیق کو بتانا تھا اس میں بھی حسن ادب ہے کہ سفر کی ضروری باتوں سے اپنے رفیق اور خادم کو بھی باخبر کردینا چاہئے متکبر لوگ اپنے خادموں اور نوکروں کو نہ قابل خطاب سمجھتے ہیں نہ اپنے سفر کے متعلق ان کو کچھ بتاتے ہیں۔ حُقُبًا۔۔ حقبہ کی جمع ہے اہل لغت نے کہا کہ حقبہ اسی سال کی مدت ہے بعض نے اس سے زیادہ کو حقبہ قرار دیا صحیح یہ ہے کہ زمانہ دراز کو کہا جاتا ہے تحدید و تعیین کچھ نہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رفیق کو یہ بتلا دیا کہ مجھے مجمع البحرین کی اس جگہ پر پہنچنا ہے جہاں کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا ہے اور عزم یہ ہے کہ کتنا ہی زمانہ سفر میں گذر جائے جب تک اس منزل مقصود پر نہ پہنچوں سفر جاری رہے گا اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں پیغمبرانہ عزم ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىہُ لَآ اَبْرَحُ حَتّٰٓي اَبْلُغَ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِيَ حُقُبًا۝ ٦٠ فتی الفَتَى الطّريُّ من الشّباب، والأنثی فَتَاةٌ ، والمصدر فَتَاءٌ ، ويكنّى بهما عن العبد والأمة . قال تعالی: تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] ( ف ت ی ) الفتیٰ کے معنی نوجوان کے ہیں اس کی مونث فتاۃ اور مصدر فتاء ہے بعدہ کنایہ کے طور پر یہ دونوں لفظ ( فتی اور فتاۃ ) غلام اور لونڈی کے معنی میں استعمال ہونے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] اپنے ٖغلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی تھی ۔ جس طرح نوجوان آدمی کو فتی کہا جاتا ہے بَرِحَ وما بَرِحَ : ثبت في البراح، ومنه قوله عزّ وجلّ : لا أَبْرَحُ [ الكهف/ 60] ، وخصّ بالإثبات، کقولهم : لا أزال، لأنّ برح وزال اقتضیا معنی النفي، و «لا» للنفي، والنفیان يحصل من اجتماعهما إثبات، وعلی ذلک قوله عزّ وجل : لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عاكِفِينَ [ طه/ 91] ( ب ر ح) البرح ابرح ہے یہ لا ازال کی طرح معنی مثبت کے ساتھ مخصوص ہے ۔ کیونکہ برح اور زال میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں اور ، ، لا ، ، بھی نفی کے لئے ہوتا ہے اور نفی پر نفی آنے سے اثبات حاصل ہوجاتا ہے ایس بناء پر فرمایا : لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عاكِفِينَ [ طه/ 91] بحر أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر : 39- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره . ( ب ح ر) البحر ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ مضی المُضِيُّ والمَضَاءُ : النّفاذ، ويقال ذلک في الأعيان والأحداث . قال تعالی: وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف/ 8] ، فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال/ 38] . ( م ض ی ) المضی والمضاء کسی چیز کا گذر جانا اور چلے جانا یہ اعیان واحد اث دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف/ 8] اور اگلے لوگوں کی مثال گذر گئی ۔ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال/ 38] رو اگلے لوگوں کی سنت گذر چکی ہے ( وہی ان کے حق میں برقی جائے گی ۔ حقب قوله تعالی: لابِثِينَ فِيها أَحْقاباً [ النبأ/ 23] ، قيل : جمع الحُقُب، أي : الدهر «3» . قيل : والحِقْبَة ثمانون عاما، وجمعها حِقَب، والصحیح أنّ الحقبة مدّة من الزمان مبهمة، والاحتقاب : شدّ الحقیبة من خلف الراکب، وقیل : احتقبه واستحقبه، وحَقِبَ البعیر «4» : تعسّر عليه البول لوقوع حقبه في ثيله «5» ، والأحقب : من حمر الوحش، وقیل : هو الدقیق الحقوین، وقیل : هو الأبيض الحقوین، والأنثی حقباء . ( ح ق ب ) قرآن میں ہے :۔ لابِثِينَ فِيها أَحْقاباً [ النبأ/ 23] اس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے ۔ بعض نے کہا ہے کہ احقاب کا واحد حقب ہی جس کے معنی زمانہ کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقبۃ کا لفظ اسی سال کی مدت پر بولا جاتا ہے اس کی جمع حقب آتی ہے ۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ مدت غیر معینہ پر بولا جاتا ہے ۔ الاحتقاب ( افتعال ) سوار کا اپنے پیچھے حقبیہ یعنی سامان سفر کا تھیلا باندھنا چناچہ کہا جاتا ہے ۔ احتقیہ واستحقۃ اس نے اسے پلان کے پیچھے باندھ لیا ۔ حقب البعیر شتر کے غلاف نرہ میں اس کے تنگ کے داخل ہونے کی وجہ سے پیشاب کا رک جانا یا تکلیف سے آنا ۔ الاحقب سرخ رنگ کا گورخر بعض نے کہا ہے کہ احقب اس گورخر کو کہتے ہیں جس کے دونوں پہلو باریک ہوں اور بعض نے کہا ہے کہ سفید پہلوؤں والے گور خر کو کہاجاتا ہے اس کا مونث حقباء ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٠ تا ٨٢) اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرماتے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات آئی کہ روئے زمین پر میرے سے بڑا کوئی عالم نہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) آپ سے بڑھ کر عابد اور عالم میرا ایک بندہ خضر (علیہ السلام) موجود ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا پروردگار میری ان سے ملاقات کروائیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایک نمکین مچھلی اپنے زاد راہ کے طور پر لے کر سمندر کے کنارہ پر چل دو ، ایک چٹان کے پاس جہاں عین حیات ہے اس مقام پر جاکر مچھلی زندہ ہوجائے گی اور وہیں تمہیں خضر (علیہ السلام) ملیں گے، چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وہ وقت یاد کرو جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے یوشع بن نون سے فرمایا یہ بنی اسرائیل کے شرفاء میں سے تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت اور ان کی اتباع کیا کرتے تھے کہ میں مسلسل چلتا جاؤں گا یہاں تک کہ اس جگہ پر پہنچ جاؤں گا جہاں دو دریا شیریں اور نمکین، بحر فارس اور روم آپس میں ملتے ہیں، چناچہ جب چلتے چلتے دونوں دریاؤں کے جمع ہونے کے جگہ پر پہنچے اور کسی پتھر کے ساتھ لگ کر سو گئے اور اٹھنے کے بعد اس اپنی مچھلی کو دونوں بھول گئے مچھلی نے دریا میں اپنی ایک لکیر کی طرح راہ لی اور چل دی پھر جب دونوں اس پتھر سے آگے بڑھ گئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے شاجردہ یعنی یوشع بن نون سے فرمایا ہمارا نانشتہ لاؤ ہمیں تو اس سفر میں بڑی تکلیف اور تھکان ہوئی ہے یوشع بن نون نے کہا موسیٰ (علیہ السلام) لیجیے دیکھیے جب ہم اس پتھر کے قریب ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا عجیب واقعہ ذکر کرنا ہی آپ سے بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے بھلا دیا مچھلی نے تو اس مقام پر دریا میں عجیب راہ لی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس موقع کی تو ہمیں تلاش تھی کیوں کہ خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کی اللہ کی طرف سے یہی نشانی بیان کی گئی تھی، سو دونوں اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے اور واپس ہوئے اور اس پتھر کے پاس خضر (علیہ السلام) کو پایا جن کو ہم نے نبوت کے ساتھ سرفراز فرمایا تھا اور ان کو علم اسرار کونیہ عطا کیا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) سے فرمایا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں کہ جو علم مفید آپ کو اللہ کی جانب سے سکھلایا گیا ہے اس میں سے آپ مجھ کو بھی سکھلا دیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) آپ سے میرے ساتھ رہ کر میرے افعال پر صبر نہیں ہو سکے گا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں صبر کروں گا خضر (علیہ السلام) نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) آپ بھلا ایسے امور پر صبر کریں گے جو آپ کے احاطہ علم سے باہر ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا انشاء اللہ آپ سے جو افعال ظہور پذیر ہوں گے آپ مجھے ان پر صابر پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کے حکم سے اختلاف نہیں کروں گا۔ خضر (علیہ السلام) نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو مجھ سے کسی بات کی نسبت کچھ سوال نہ کرنا جب تک کہ میں اس کے متعلق خود ہی آپ سے ذکر نہ کروں، غرض کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) دونوں ایک طرف چل دیے، جب عبر کے قریب دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو خضر (علیہ السلام) نے کشتی کا ایک تختہ نکال دیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے فرمایا کشتی والوں کو غرق کرنے کے لیے ایسا کیا ہے یہ قوم کو بہت ہی مشکل میں ڈال دیا ہے، خضر (علیہ السلام) نے فرمایا، موسیٰ (علیہ السلام) کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ سے صبر نہ ہوسکے گا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا آپ کے قول وقرار میں جو مجھ سے بھول چوک ہو اس پر گرفت نہ کیجیے اور نہ میرے معاملہ میں زیادہ سختی کیجیے، پھر دونوں کشتی سے اتر کر آگے چلے دو بستیوں کے درمیان ایک کمسن لڑکا ملا، خضر (علیہ السلام) نے اس کو مار ڈالا، موسیٰ (علیہ السلام) گھبرا کر کہنے لگے کہ آپ نے ایک بےگناہ معصوم بچے کو مار ڈالا اور وہ بھی کسی جان کے بدلے نہیں بیشک آپ نے یہ تو بڑی بےجا حرکت کی۔ حضر (علیہ السلام) نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ سے میری باتیں دیکھ کر صبر نہ ہو سکے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اگر اس مرتبہ کے بعد میں آپ پر کسی بات کے متعلق دریافت کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیے کیوں کہ اس کے بارے میں آپ میری طرف سے عذر کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں، پھر دونوں آگے چلے، یہاں تک کہ جب انطاکیہ شہر پر سے گزر ہوا تو وہاں کے رہنے والوں سے کھانے کو مانگا، سو انہوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کردیا، اتنے میں ان کو ایک جھکی ہوئی دیوار ملی جو گرنے والی تھی تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کو سیدھا کردیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بولے خضر (علیہ السلام) اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے کہ اس کا کھانا لے کر کھالیتے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا یہ وقت ہماری اور آپ کی علیحدگی کا ہے، باقی میں ان چیزوں کی حقیقت بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔ وہ کشتی جس کا میں نے تختہ نکالا تھا وہ چند غریب آدمیوں کی تھی کہ وہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو کرایہ پر دریا سے پار کرتے تھے سو میں نے اس لیے عیب ڈالا کیوں کہ ان کے آگے ظالم جلندی نامی بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو زبردستی پکڑ رہا تھا اور رہا وہ لڑکا اس کے والدین ایماندار اور اس بستی کے شرفاء میں سے تھے اور آپ کے پروردگار کو معلوم تھا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی وکفر اور جھوٹی قسموں سے اپنے والدین کو بڑے ہو کر تکلیف پہنچائے گا اس بنا پر میں نے اس کو مار ڈالا۔ سو ہمیں یہ منظور ہوا کہ بجائے اس کے ان کا پروردگار ان کو ایسی اولاد دے جو اس سے زیادہ نیکوکار اور زیادہ صلہ رحمی کرنے والی ہو۔ چناچہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان والدین کو لڑکی عطا کی اور پھر اس لڑکی سے انبیاء کرام میں سے ایک نبی نے شادی فرمائی اور پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک بنی پیدا فرمایا جس کے ذریعے سے بہت لوگوں کو ہدایت فرمائی، اور اس لڑکے کا نام جیسود تھا اور یہ کافر اور بڑا ڈاکو تھا اس واسطے خضر (علیہ السلام) نے بحکم خداوندی اس کو قتل کیا۔ اور جہاں تک دیوار کا تعلق ہے تو وہ احرم، صریم دو یتیم لڑکوں کی تھی جو انطاکیہ شہر میں رہتے تھے اس دیوار کے نیچے ایک سونے کی تختی تھی جس میں علم اور حکمت کی باتیں مکتوب تھیں اور اس میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی، بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔ تعجب ہے ایسے شخص پر جو موت کے یقین کے بعد پھر کیسے خوش رہتا ہے اور تعجب ہے۔ ایسے شخص پر جو تقدیر پر یقین رکھنے کے بعد کی سے غمگین رہتا ہے اور تعجب کے قابل ہے وہ شخص جو دنیا کے زوال اور دنیا والوں کے تبدل احوال پر یقین کرتے ہوئے پھر کیسے اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کا باپ کاشح ایک امانت دار آدمی تھا سو آپ کے رب نے اپنی مہربانی سے چاہا کہ وہ دونوں بالغ ہو کر اپنی اس تختی کو نکال لیں اور آپ کے پروردگار کی وحی کے مطابق میں نے ایسا کیا ہے اور ان میں سے کوئی کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کیا یہ حقیقت ہے ان باتوں کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

ان دو رکوعوں میں حضرت موسیٰ کے ایک سفر کا ذکر ہے۔ اس واقعہ کا ذکر احادیث میں بھی ملتا ہے اور قدیم اسرائیلی روایات میں بھی جن میں سے بہت سی روایات قرآن کے بیان سے مطابقت بھی رکھتی ہیں۔ بہرحال ان روایات سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ آپ فلاں جگہ جائیں وہاں پر آپ کو ہمارا ایک صاحب علم بندہ ملے گا آپ کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہ کر اس کے علم سے استفادہ کریں۔ ممکن ہے یہ حضرت موسیٰ کی نبوت کا ابتدائی زمانہ ہو اور اس طریقے سے آپ کی تربیت مقصود ہو جس طرح بعض روایات سے ثابت ہے کہ حضور کی تربیت کے لیے ایک فرشتہ تین سال تک مسلسل آپ کے ساتھ رہا۔ اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جس بندے کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں قطعی معلومات دستیاب نہیں۔ اس ضمن میں ایک رائے تو یہ ہے کہ وہ ایک فرشتہ تھے جبکہ ایک دوسری رائے کے مطابق وہ انسان ہی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بہت لمبی عمر دے رکھی ہے۔ یعنی جیسے جنوں میں سے ابلیس کو اللہ تعالیٰ نے طویل عمر عطا کر رکھی ہے ایسے ہی اس نے انسانوں میں سے اپنے ایک نیک اور برگزیدہ بندے کو بھی بہت طویل عمر سے نوازا ہے اور ان کا نام حضرت خضر ہے۔ (واللہ اعلم ! ) روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کو کسی وقت یہ خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے شاید مجھے روئے زمین کے تمام انسانوں سے بڑ ھ کر علم عطا فرمایا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ واضح کرنے کے لیے کہ (وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ) آپ کو ہدایت فرمائی کہ آپ فلاں جگہ ہمارے ایک بندۂ خاص سے ملاقات کریں اور کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہ کر اس سے علم و حکمت سیکھیں۔ اس حکم کی تعمیل میں آپ اپنے نوجوان ساتھی حضرت یوشع بن نون کو ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہوگئے۔ آیت ٦٠ (وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىهُ لَآ اَبْرَحُ حَتّٰى اَبْلُغَ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِيَ حُقُبًا) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو بتایا گیا تھا کہ وہ شخص مجمع البحرین (دو دریاؤں کے سنگم) پر ملے گا۔ مجمع البحرین کے اس مقام کے بارے میں بھی مفسرین کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ بحیرۂ احمر (Red Sea) کے شمالی کونے سے نکلنے والی دو کھاڑیوں (خلیج سویز اور خلیج عقبہ) کے مقام اتصال کو مجمع البحرین کہا گیا ہے ‘ جبکہ ایک دوسری رائے کے مطابق (اور یہ رائے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے) یہ مقام دریائے نیل پر واقع ہے۔ دریائے نیل دو دریاؤں یعنی النیل الازرق اور النیل الابیض سے مل کر بنا ہے۔ یہ دونوں دریا سوڈان کی طرف سے مصر میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک دریا کے پانی کا رنگ نیلا ہے جبکہ دوسرے کا سفید ہے ( پاکستان میں بھی اٹک کے مقام پر دریائے سندھ کے صاف پانی اور دریائے کابل کے گدلے پانی کا ملاپ ایسا ہی منظر پیش کرتا ہے) ۔ چناچہ اس رائے کے مطابق جس مقام پر یہ دونوں دریا مل کر ایک دریا (مصر کے دریائے نیل) کی شکل اختیار کرتے ہیں اس مقام کو مجمع البحرین کہا گیا ہے اور یہ مقام خرطوم کی سرحد کے آس پاس ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

57. Though this story was told in answer to the question of the disbelievers, it has been used to impress a very important truth on the minds of both the disbelievers and the believers. It is this: those people who draw their conclusions only from the seeming aspects of events, make a very serious error in their deductions, for they only see what is apparent and do not go deep into the divine wisdom that underlies them. When they daily see the prosperity of the tyrants and the afflictions of the innocent people, the affluence of the disobedient people and the indigence of the obedient people, the enjoyments of the wicked people and the adversity of the virtuous people, they get involved in mental conflicts, nay, they become victims of misunderstandings because they do not comprehend the wisdom behind them. The disbelievers and the tyrants conclude from this that the world is functioning without any moral laws and has no sovereign, and, if there is one, he must be senseless and unjust: therefore one may do whatever he desires for there is none to whom one shall be accountable. On the other hand, when the believers see those things, they become so frustrated and disheartened that sometimes their faiths are put to a very hard trial. It was to unravel the wisdom behind this mystery that Allah slightly lifted the curtain from the reality governing His factory, so that Moses (peace be upon him) might see the wisdom behind the events that are happening day and night and how their seeming aspect is quite different from the reality. Now let us consider the question: When and where did this event take place? The Quran says nothing about this. There is a tradition related by Aufi in which he cites a saying of Ibn Abbas to this effect: This event happened after the destruction of Pharaoh when Prophet Moses (peace be upon him) had settled his people in Egypt. But this is not supported by other more authentic traditions from Ibn Abbas which have been cited in the collection of Bukhari and other books of traditions, nor is there any other source which may prove that Prophet Moses (peace be upon him) ever settled in Egypt after the destruction of Pharaoh. On the contrary, the Quran says explicitly that Prophet Moses (peace be upon him) passed his entire life after exodus from Egypt in the desert (Sinai and At-Tih). Therefore the tradition from Aufi cannot be accepted. However, if we consider the details of this story, two things are quite obvious. (1) These things would have been demonstrated to Prophet Moses (peace be upon him) in the earlier period of his Prophethood because such things are needed in the beginning of Prophethood for the teaching and training of the Prophets. (2) As this story has been cited to comfort the believers of Makkah, it can be reasonably concluded that these demonstrations would have been shown to Prophet Moses (peace be upon him), when the Israelites were encountering the same conditions as the Muslims of Makkah did at the time of the revelation of this Surah. On the basis of these two things, we are of the opinion (and correct knowledge is with Allah alone) that this event relates to the period when the persecution of the Israelites by Pharaoh was at its height and, like the chiefs of the Quraish, Pharaoh and his courtiers were deluded by delay in the scourge that there was no power above them to take them to task, and like the persecuted Muslims of Makkah, the persecuted Muslims of Egypt were crying in their agony, as if to say: Our Lord, how long will the prosperity of these tyrants and our adversity continue. So much so that Prophet Moses (peace be upon him) himself cried out: Our Lord, Thou hast bestowed on Pharaoh and his nobles splendor and possessions in the worldly life; O our Lord, hast Thou done this that they might lead astray the people from Thy Way. (Surah Younus, Ayat 88). If our conjecture is correct, then it may be concluded that probably this event took place during Prophet Moses’(peace be upon him) journey to Sudan, and by the confluence of the rivers is meant the site of the present city of Khartum where the Blue Nile and the White Nile meet together. The Bible does not say anything about this event but the Talmud does relate this though it assigns it to Rabbi Jochanan, the son of Levi, instead of to Prophet Moses (peace be upon him), and according to it the other person was Elijah who had been taken up alive to heaven and joined with the angels for the purpose of the administration of the world. (The Talmud Selections by H. Polano, pp. 313- 16). It is just possible that like the events, which happened before the exodus, this event also might not have remained intact but during the passage of centuries changes and alterations might have been made in it. But it is a pity that some Muslims have been so influenced by the Talmud that they opine that in this story Moses does not refer to Prophet Moses (peace be upon him) but to some other person bearing the same name. They forget that every tradition of the Talmud is not necessarily correct, nor have we any reason to suppose that the Quran has related the story concerning some unknown person bearing the name Moses. Above all, when we learn from an authentic tradition related by Ubayy-bin-Kaab that the Prophet (peace be upon him) himself made it clear that in this story, by Moses is meant Prophet Moses (peace be upon him), there is absolutely no reason why any Muslim should consider any statement of the Talmud at all. The Orientalists have, as usual, tried to make a research into the sources of this story and have pointed out that The Quranic story may be traced back to three main sources. (1) The Gilgamesh Epic. (2) The Alexander Romance. (3) The Jewish Legend of Elijah and Rabbi Joshua hen Levi (Encyclopaedia of Islam new edition and Shorter Erlcyclopaedia of Islam under the heading Al Khadir). This is because these malicious scholars decide beforehand that their scientific research must lead to the conclusion that the Quran is not a revealed book: therefore they have, anyhow or other, to produce a proof that whatever Muhammad (peace be upon him) has presented as revelation, has been plagiarized from such and such sources. In this these people brazen facedly use facts and quotations so cunningly and cleverly as to achieve their mean end and one begins to have nausea at their research. If that is research what these bigoted forgers make, then one is compelled to curse their knowledge and research. We ask them to answer our questions in order to expose their research: (I) What proof do they have to make the claim that the Quran has based a certain statement on the contents of a couple of ancient books? Obviously it will not be research to build this claim on the scant basis that a certain statement made in the Quran is similar to the one found in these books. (2) Do they possess any knowledge that at the time of the revelation of the Quran there was a library at Makkah from which the Prophet (peace be upon him) collected material for the Quran? This question is pertinent because if a list were to be made of the numerous books in different languages, which they allege were sources of the stories and statements contained in the Quran, it will become long enough for a big library. Do they have any proof that Muhammad (peace be upon him) had arranged for such translators as translated into Arabic those books from different languages for his use? If it is not so and their allegation is based on a couple of journeys which the Prophet (peace be upon him) made outside Arabia, a question arises: How many books did the Prophet (peace be upon him) copy or commit to memory during these trade journeys before his Prophethood? And how is it that even a day before he claimed to be a Prophet, no sign at all was displayed in his conversation that he had gathered such information as was revealed in the Quran afterwards? (3) How is it then that the contemporary disbelievers of Makkah and the Jews and the Christians, who like them, were always in search of such a proof, could not put forward even a single instance of plagiarism? They had a good reason to produce an instance of this because they were being challenged over and over again to refute the claim that the Quran was a revealed book and it had no other source than divine knowledge and that if they said that it was a human work, they were to prove this by bringing the like of it. Though this challenge had broken the back of the contemporary opponents of Islam, they could not point out even a single plausible source that might prove reasonably that the Quran was based on it. In the light of these facts one may ask: Why had the contemporaries of the Prophet (peace be upon him) failed in their research and how have the opponents of Islam succeeded in their attempt today after the passage of more than a thousand years? (4) The last and the most important question is: Does it not show that it is bigotry and malice that has misled the opponents of Islam to discard the possibility that the Quran may be a revealed book of Allah and to concentrate all their efforts to prove that it is not so at all? The tact that its stories are similar to those contained in the former books, could be considered equally in this light that the Quran was a revealed book and was relating them in order to correct those errors that had crept into them during the passage of time. Why should their research be confined to prove that those books are the real source of the stories of the Quran and not to consider the other possibility that the Quran itself was a revealed book? An impartial person who will consider these questions will inevitably arrive at the conclusion that the research which the orientalists have presented in the name of knowledge is not worth any serious consideration.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :57 اس مرحلے پر یہ قصہ سنانے سے مقصود کفار اور مومنین دونوں کو ایک اہم حقیقت پر متنبہ کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ظاہر بین نگاہ دنیا میں بظاہر جو کچھ ہوتے دیکھتی ہے اس سے بالکل غلط نتائج اخذ کر لیتی ہے کیونکہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی وہ مصلحتیں نہیں ہوتیں جنہیں ملحوظ رکھ کر وہ کام کرتا ہے ۔ ظالموں کا پھلنا پھولنا اور بے گناہوں کا تکلیفوں میں مبتلا ہونا ۔ نافرمانوں پر انعامات کی بارش اور فرمانبرداروں پر مصائب کا ہجوم ، بدکاروں کا عیش اور نیکو کاروں کی خستہ حالی ، یہ وہ مناظر ہیں جو آئے دن انسانوں کے سامنے آتے رہتے ہیں ، اور محض اس لیے کہ لوگ ان کے کنَہ کو نہیں سمجھتے ، ان سے عام طور پر ذہنوں میں الجھنیں ، بلکہ غلط فہمیاں تک پیدا ہو جاتی ہیں ۔ کافر اور ظالم ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے ، کوئی اس کا راجہ نہیں ، اور ہے تو چوپٹ ہے ۔ یہاں جن کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے ، کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ مومن اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر دل شکستہ ہوتے ہیں اور بسا اوقات سخت آزمائشوں کے مواقع پر ان کے ایمان تک متزلزل ہو جاتے ہیں ۔ ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے کار خانہ مشیت کا پردہ اٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک دکھائی تھی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ یہاں شب و روز جو کچھ ہو رہا ہے کیسے اور کن مصلحتوں سے ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کا ظاہر ان کے باطن سے مختلف ہوتا ہے ۔ حضرت موسیٰ کو یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا ؟ اس کی کوئی تصریح قرآن نے نہیں کی ہے ۔ حدیث میں عوفی کی ایک روایت ہمیں ضرور ملتی ہے جس میں وہ ابن عباس کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ نے مصر میں اپنی قوم کو آباد کیا تھا ۔ لیکن ابن عباس سے جو قوی تر روایات بخاری اور دوسری کتب حدیث میں منقول ہیں وہ اس بیان کی تائید نہیں کرتیں ، اور نہ کسی دوسرے ذریعے سے ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ کبھی مصر میں رہے تھے ۔ بلکہ قرآن اس کی تصریح کرتا ہے کہ مصر سے خروج کے بعد ان کا سارا زمانہ سینا اور تَیہ میں گزرا ۔ اس لیے یہ روایت تو قابل قبول نہیں ہے ۔ البتہ جب ہم خود اس قصے کی تفصیلات پر غور کرتے ہیں تو دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ مشاہدات حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی نبوت کے ابتدائی دور میں کرائے گئے ہوں گے ، کیونکہ آغاز نبوت ہی میں انبیاء علیہم السلام کو اس طرح کی تعلیم و تربیت درکار ہوا کرتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان مشاہدات کی ضرورت اس زمانے میں پیش آئی ہوگی جبکہ بنی اسرائیل کو بھی اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آ رہا تھا جن سے مسلمان مکہ معظمہ میں دو چار تھے ۔ ان دو وجوہ سے ہمارا قیاس یہ ہے ( والعلم عند اللہ ) کہ اس واقعہ کا تعلق اس دور سے ہے جبکہ مصر میں بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری تھا اور سرداران قریش کی طرح فرعون اور اس کے درباری بھی عذاب میں تاخیر دیکھ کر یہ سمجھ رہے تھے کہ اوپر کوئی نہیں ہے جو اس سے باز پرس کرنے والا ہو ، اور مکے کے مظلوم مسلمانوں کی طرح مصر کے مظلوم مسلمان بھی بے چین ہو ہو کر پوچھ رہے تھے کہ خدایا ان ظالموں پر انعامات کی اور ہم پر مصائب کی یہ بارش کب تک ؟ حتیٰ کہ خود حضرت موسیٰ یہ پکار اٹھے تھے کہ رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَونَ وَ مَلَاَہ زِیْنَۃً وَّ اَمْوَالاً فِی الْحَیٰوۃِ الدُّ نْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ اے پروردگار ، تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیا کی زندگی میں بڑی شان و شوکت اور مال و دولت دے رکھی ہے ، اے پروردگار ، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ دنیا کو تیرے راستے سے بھٹکا دیں ؟ ( تفہیم القرآن ، ج 2 ص 308 ) ۔ اگر ہمارا یہ قیاس درست ہو تو پھر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ غالباً حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ سفر سوڈان کی جانب تھا اور مجمع البحرین سے مراد وہ مقام ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریائے نیل کی دو بڑی شاخیں البحرالابیض اور البحر الْاَزْرَق آ کر ملتی ہیں ( ملاحظہ ہو نقشہ نمبر 1 صفحہ 34 ) حضرت موسیٰ نے اپنی پوری زندگی جن علاقوں میں گزاری ہے ان میں اس ایک مقام کے سوا اور کوئی مجمع البحرین نہیں پایا جاتا ۔ بائیبل اس واقعے کے باب میں بالکل خاموش ہے ۔ البتہ تَلْمُود میں اس کا ذکر موجود ہے ، مگر وہ اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بجائے ربی یہوحا نان بن لادی کی طرف منسوب کرتی ہے اور اس کا بیان یہ ہے کہ ربی مذکور کو یہ واقعہ حضرت الیاس کے ساتھ پیش آیا تھا جو دنیا سے زندہ اٹھائے جانے کے بعد فرشتوں میں شامل کر لیے گئے ہیں اور دنیا کے انتظام پر مامور ہیں ۔ ( The Talmud Selections By H Polano, pp. 313 .16 ) ممکن ہے کہ خروج سے پہلے کے بہت سے واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کے ہاں اپنی صحیح صورت میں محفوظ نہ رہا ہو اور صدیوں بعد انہوں نے قصے کی کڑیاں کہیں سے کہیں لے جا کر جوڑ دی ہوں ۔ تلمود کی اسی روایت سے متاثر ہو کر مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ قرآن میں اس مقام پر موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ہیں ۔ لیکن نہ تو تلمود کی ہر روایت لازماً صحیح تاریخ قرار دی جا سکتی ہے ، نہ ہمارے لیے یہ گمان کرنے کی کوئی معقول وجہ ہے کہ قرآن میں کسی اور مجہول الحال موسیٰ کا ذکر اس طریقہ سے کیا گیا ہو گا ، اور پھر جب کہ معتبر احادیث میں حضرت اُبَیّ بن کعب کی یہ روایت موجود ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قصے کی تشریح فرماتے ہوئے موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ پیغمبر بنی اسرائیل کو بتایا ہے تو کسی مسلمان کے لیے تلمود کا بیان لائق التفات نہیں رہتا ۔ مستشرقین مغرب نے اپنے معمول کے مطابق قرآن مجید کے اس قصے کے بھی مآخذ کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے ، اور تین قصوں پر انگلی رکھ دی ہے کہ یہ ہیں وہ مقامات جہاں سے محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے نقل کر کے یہ قصہ بنا لیا اور پھر دعویٰ کر دیا کہ یہ تو میرے اوپر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے ۔ ایک داستان گل گامیش ، دوسرے سکندر نامۂسریانی ، اور تیسرے وہ یہودی روایت جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ۔ لیکن یہ بد طینت لوگ علم کے نام سے جو تحقیقات کرتے ہیں اس میں پہلے اپنی جگہ یہ طے کر لیتے ہیں کہ قرآن کو بہرحال منزل من اللہ تو نہیں ماننا ہے ، اب کہیں نہ کہیں سے اس امر کا ثبوت بہم پہنچانا ضروری ہے کہ جو کچھ محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے اس میں پیش کیا ہے یہ فلاں فلاں مقامات سے چرائے ہوئے مضامین اور معلومات ہیں ۔ اس طرز تحقیق میں یہ لوگ اس قدر بے شرمی کے ساتھ کھینچ تان کر زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں کہ بے اختیار گھن آنے لگتی ہے اور آدمی کو مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اگر اسی کا نام علمی تحقیق ہے تو لعنت ہے اس علم پر اور اس تحقیق پر ۔ ان کی اس متعصبانہ افترا پردازی کا پردہ بالکل چاک ہو جائے اگر کوئی طالب علم ان سے صرف چار باتوں کا جواب طلب کرے : اول یہ کہ آپ کے پاس وہ کیا دلیل ہے جس کی بنا پر آپ دو چار قدیم کتابوں میں قرآن کے کسی بیان سے ملتا جلتا مضمون پا کر یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ قرآن کا بیان لازماً انہی کتابوں سے ماخوذ ہے ؟ دوسرے یہ کہ مختلف زبانوں کی جتنی کتابیں آپ لوگوں نے قرآن مجید کے قصوں اور دوسرے بیانات کی ماخذ قرار دی ہیں اگر ان کی فہرست بنائی جائے تو اچھے خاصے ایک کتب خانے کہ فہرست بن جائے ۔ کیا ایسا کوئی کتب خانہ مکے میں اس وقت موجود تھا اور مختلف زبانوں کے مترجمین بیٹھے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے مواد فراہم کر رہے تھے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور آپ کا سارا انحصار ان دو تین سفروں پر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت سے کئی سال پہلے عرب سے باہر کیے تھے ، تو سوال یہ ہے کہ آخر ان تجارتی سفروں میں آنحضرت کتنے کتب خانے نقل یا حفظ کر لائے تھے ؟ اور اعلان معقول وجہ ہے ؟ تیسرے یہ کہ کفار مکہ اور یہودی اور نصرانی ، سب آپ ہی لوگوں کی طرح اس تلاش میں تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ مضامین کہاں سے لاتے ہیں ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آنحضرت کے معاصرین کو اس سرقے کا پتا نہ لگنے کی کیا وجہ ہے ؟ انہیں تو بار بار تحدّی کی جا رہی تھی کہ یہ قرآن منزل من اللہ ہے ، وحی کے سوا اس کا کوئی ماخذ نہیں ہے ، اگر تم اسے بشر کلام کہتے ہو تو ثابت کرو کہ بشر ایسا کلام کہہ سکتا ہے ۔ اس چیلنج نے آنحضرت کے معاصر دشمنان اسلام کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ مگر وہ ایک ماخذ کی بھی نشان دہی نہ کر سکے جس سے قرآن کے ماخوذ ہونے کا کوئی معقول آدمی یقین تو درکنار ، شک ہی کر سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ معاصرین اس سراغ رسانی میں ناکام کیوں ہوئے اور ہزار بارہ سو برس کے بعد آج معاندین کو اس میں کیسے کامیابی نصیب ہو رہی ہے ؟ آخری اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس بات کا امکان تو بہرحال ہے نا کہ قرآن منزل من اللہ ہو اور وہ پچھلی تاریخ کے انہی واقعات کی صحیح خبریں دے رہا ہو جو دوسرے لوگوں تک صدیوں کے دوران میں زبانی روایات سے مسخ ہوتی ہوئی پہنچی ہوں اور افسانوں میں جگہ پا گئی ہوں ۔ اس امکان کو کس معقول دلیل کی بنا پر بالکل ہی خارج از بحث کر دیا گیا اور کیوں صرف اسی ایک امکان کو بنائے بحث و تحقیق بنا لیا گیا کہ قرآن ان قصوں ہی سے ماخوذ ہو جو لوگوں کے پاس زبانی روایات اور افسانوں کی شکل میں موجود تھے ؟ کیا مذہبی تعصب اور عناد کے سوا اس ترجیح کی کوئی دوسری وجہ بیان کی جا سکتی ہے ؟ ان سوالات پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا کہ مستشرقین نے علم کے نام سے جو کچھ پیش کیا ہے وہ در حقیقت کسی سنجیدہ طالب علم کے لیے قابل التفات نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

33: یہاں سے آیت نمبر 82 تک اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ واقعہ بیان فرمایا ہے جو حضرت خضر (علیہ السلام) کے ساتھ پیش آیا۔ حضور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس واقعے کی تفصیل ایک طویل حدیث میں بیان فرمائی ہے جو صحیح بخاری میں کئی سندوں سے منقول ہے۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کسی نے یہ سوال کیا کہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے؟ چونکہ ہر پیغمبر اپنے وقت میں دین کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں یہی فرما دیا ہے کہ میں ہی سب سے بڑا عالم ہوں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ ہدایت دی گئی کہ اس سوال کا صحیح جواب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ سب سے بڑا عالم کون ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو علم کے کچھ ایسے گوشوں سے روشناس کرائیں جو ان کی واقفیت کے دائرے سے باہر تھے۔ چنانچہ انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے پاس جائیں۔ ان کو پتہ یہ بتایا گیا کہ جہاں دو دریا ملتے ہیں۔ وہاں تک سفر کریں، اور اپنے ساتھ ایک مچھلی لے جائیں۔ ایک موقع ایسا آئے گا کہ وہ مچھلی گم ہوجائے گی۔ بس اسی جگہ انہیں احضرت خضر (علیہ السلام) مل جائیں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے نوجوان شاگرد حضرت یوشع (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر اس سفر پر روانہ ہوئے۔ جو بعد میں خود پیغمبر بننے والے تھے۔ آگے کا واقعہ خود قراان کریم میں آرہا ہے۔ البتہ یہاں اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو یہ سفر کرایا گیا۔ اس کا ایک مقصد تو یہ ادب سکھانا تھا کہ اپنے آپ کو سب سے بڑا عالم کہنا کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ علم تو ایک ناپید اکنار سمندر ہے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کونسا علم کس کے پاس زیادہ ہے۔ اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خود آنکھوں سے اس بات کی ایک جھلک دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور علم سے اس کائنات کا نظام کس طرح چلا رہا ہے۔ اس کائنات میں بہت سے ایسے واقعات روز مرہ انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں جن کا مقصد اس کی سمجھ میں نہیں آتا، حالانکہ کوئی واقعہ تو اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی حکمت کے بغیر نہیں ہوتا۔ انسان کی نظر چونکہ محدود ہے، اس لیے وہ اس حکمت کو بسا اوقات نہیں سمجھتا، لیکن جس قادر مطلق کے ہاتھ میں پوری کائنات کی باگ ڈور ہے، وہی جانتا ہے کہ کس وقت کیا واقعہ پیش آنا چاہئے۔ اس بات کی مزید وضاحت ان شاء اللہ اسی واقعے کے آخر میں آئے گی (دیکھئے ذیل میں حاشیہ نمبر 41)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٠۔ ٦٦:۔ ان آیتوں میں مختصر طور پر قصہ شروع بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ اس زمانہ میں اے موسیٰ بڑا صاحب علم کون ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میں ہوں اللہ تعالیٰ کو موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ جواب پسند نہیں آیا کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے جواب کو اللہ تعالیٰ کے علم پر نہیں سونپا اس واسطے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو خضر (علیہ السلام) سے ملنے کا حکم دیا اس حکم کے موافق موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خاص رفیق یوشع بن نون کو ساتھ لیکر خضر (علیہ السلام) کے ملنے کی غرض سے سفر کا ارادہ کیا ١ ؎۔ اب آگے وہی قصہ ہے جو ان آیتوں میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے یوشع بن نون سے کہا کہ اس سفر میں خواہ کتنی ہی مدت لگ جائے لیکن جب تک میں دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ تک نہ پہنچ جاؤں گا تو اس وقت تک اس سفر کا سلسلہ منقطع نہ کروں گا۔ اوپر کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے موسٰی (علیہ السلام) کو خضر (علیہ السلام) سے ملنے کا حکم دیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا یا اللہ ! مجھ کو خضر (علیہ السلام) کہاں ملیں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ ملیں گے۔ آیتوں میں یہ جو ذکر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ تک کے سفر کا ارادہ یوشع بن نون سے ظاہر کیا حدیث کا یہ ٹکڑا آیتوں کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ تک کا سفر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قرار دیا تھا۔ تفسیر عبدالرزاق میں قتادہ کا قول ہے کہ وہ دریائے فارس اور دریائے روم کے ملنے کی جگہ تھی۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی اوپر کی روایت میں یہ بھی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یوشع بن نون سے مچھلی کا یہ حال سنا تو کہا ہم تو اس جگہ کی تلاش میں تھے۔ حدیث کا یہ ٹکڑا گویا اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مچھلی کا جاتا رہنا مجمع البحرین کی نشانی تھی جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بتلائی تھی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت میں یہ بھی ہے کہ مجمع البحرین تک پہنچنے میں موسیٰ (علیہ السلام) کو کچھ تکان نہیں ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس سفر کی جو حد ٹہرائی اس سے بڑھنے کے بعد تکان کا غلبہ شروع ہوگیا تاکہ تکان میں ناشتہ یاد آوے اور ناشتہ کے ذکر میں مچھلی کے کھوئے جانے کا حال سن کر موسیٰ (علیہ السلام) الٹے پھریں۔ اب آگے جو فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ یوشع بن نون سے مچھلی کا حال سن کر موسیٰ (علیہ السلام) الٹے بھرے اور خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کے وقت انہوں نے یہ خواہش کی کہ میں تمہارے ساتھ چند روز اس ارادہ سے رہنا چاہتا ہوں کہ جو علم اللہ تعالیٰ نے تم کو دیا ہے اس میں سے تم کچھ مجھ کو بھی سکھادو۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٦٨٧ ج ٢ کتاب التفسیر۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:60) فتہ۔ مضاف مضاف الیہ ۔ اس کا نوجوان ۔ اس کا خادم ۔ فتی کے معنی نوجوان کے ہیں مجازا غلام یا خادم کو بھی کہتے ہیں۔ لا ابرح۔ برح یبرح (سمع) براح وبرح مصدر۔۔ المکان او من المکان کسی جگہ سے ہٹنا۔ رکنا۔ زائل ہونا۔ لا ابرح ۔ مضارع منفی واحد متکلم۔ افعال ناقصہ میں سے ہے ما برح غنیا۔ وہ دولت مند رہا ۔ وہ اب تک دولت مند ہے۔ لا ابرح افعل ذلک۔ میں یہ کام برابر کرتا رہوں گا۔ لا ابرح حتی ابلغ میں برابر چلتا رہوں گا تا آنکہ پہنث جائوں۔ امضی حقبا۔ مضارع واحد متکلم مضی مصدر۔ ( باب نصر، ضرب) میں چلتا جائوں گا۔ اس کا عطف ابلغ پر ہے۔ حقبا۔ حقب زمانے کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع احقاب ہے۔ لبثین فیھا احقابا (78:23) اس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے۔ او امضی حقبا۔ یا میں مدتوں چلتا رہوں گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یہاں موسیٰ سے مراد اللہ کے رسول حضرت موسیٰ بن عمران ہی ہیں۔ جیسا کہ صحیحین کی روایت میں حضرت ابی بن کعب نے اسے خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا ہے۔ دو سمندروں سے مراد بعض مفسرین نے بحر فارس اور بحر روم ہی لئے ہیں لیکن دونوں ملتے نہیں ہیں۔ شاید ان کے ملنے کی جگہ سے وہ جگہ مراد ہو جہاں دونوں کا فاصلہ سے کم رہ جات ا ہے۔ بعض نے ان سے دجلہ و فرات اور بعض نے افریقا کے دو دریا مراد لئے ہیں۔ واللہ اعلم۔ حضرت موسیٰ کے سفر کا سبب بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ سے ایک خطبہ میں ایک سائل نے سوال کیا : کیا زمین پر تجھ سے زیادہ کوئی عالم بھی ہے تو اس کے جواب میں حضرت موسیٰ نے فرمایا :” نہیں “ اللہ تعالیٰ کو یہ چیز ناگوار گزری چناچہ اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ جہاں دو سمندر یا دریا ملتے ہیں وہاں میرا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ حضرت موسیٰ نے عرض کی، اے میرے رب تیرے اس بندے سے میری کیونکہ ملاقات ہوسکتی ہے۔ حکم ہوا کہ سفر شروع کرو اور ایک مچھلی بھنی ہوئی اپنے ساتھ رکھ لو جہاں یہ مچھلی زندہ ہوجائے وہیں مت ہیں ہمارا بندہ مل جائے گا چناچہ حضرت موسیٰ نے مچھلی لے کر سفر شروع کیا اور اپنے ساتھ خادم یوشع بن نون کرلیا۔ (ابن کثیر) یوسع بن نون وہی ہیں جو حضرت موسیٰکے بعد ان کے خلیفہ بنے۔ (دیکھیے سورة مائدہ :23)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٩) اسرارومعارف جہاں تک ان لوگوں کے متکبرانہ رویے کا تعلق ہے تو وہ ایسا ہے کہ اگر کسی مقبول بارگاہ یعنی نبی اور رسول سے بھی کوئی کلمہ غیر ارادی طور پر بھی نکل جائے تو اس پر بھی تنبیہ کی جاتی ہے اور انہیں تعلیم فرمانے کے لیے آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے جیسے پہلے گذر چکا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کل جواب دوں گا تو پندہ روز وحی نہ آئی اور کفار نے بہت تمسخر اڑایا پھر تعلیم فرمایا گیا کہ انشاء اللہ فرمایا کیجئے ایسے ہی موسیٰ (علیہ السلام) سے جو الوالعزم رسول اور کلیم اللہ تھے ایک چھوٹی سی بات صادر ہوئی تو انہیں تعلیم فرمانے کے لیے ایک پوری آزمائش سے گذارا گیا ، اگر مقبولان بارگاہ سے غیر ارادی طور پر کوئی برائی کا حکم صادر ہو تو اس کا نتیجہ اتنا سخت ہو سکتا ہے تو کفار جو پہلے ہی بوجہ کفر غضب الہی کا نشانہ بن رہے ہیں متکبرانہ باتیں بھی کریں تو انہیں مزید گمراہی اور ہدایت سے محرومی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکے گا چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا ہوا اور ان پر کیا بیتی کا احوال بھی سن لیجئے آگے ان آیات میں قصہ ارشاد ہوتا ہے جس کی مختصر روئداد حدیث شریف کے مطابق یہ ہے ، صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ rnّ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ اور خضر (علیہ السلام) سے ملاقات) کہ ایک بار موسیٰ (علیہ السلام) سے لوگوں نے سوال کیا کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ علم والا کون ہے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا میں سب سے زیادہ علم والا ہوں اگرچہ یہ بات تو حق تھی کہ آپ (علیہ السلام) اولوالعزم رسول تھے اور مکالم الہی آپ (علیہ السلام) کو حاصل تھا مگر آپ کو تو تشریعی علوم دیئے گئے تھے جبکہ تکوینی امور فرشتوں وغیرہ کو ان کی ذمہ داریوں کے بارے عطا ہوتے ہیں ، اسی طرح بعض انسانوں کو بھی اللہ کریم یہ ذمہ داری عطا کردیتے ہیں ، خصوصا اولیاء اللہ کا ایک طبقہ جو خاص منازل قرب حاصل کرلیتا ہے ان کی ارواح بعد وصال ” ملاء الاعلی “ یعنی عرش عظیم پر رہنے والے فرشتوں کی سی ہئیت میں ہوجاتی ہیں اور بعض سے فرشتوں کی طرح خدمت بھی لی جاتی ہے جیسے مثال کی طور پر یہاں خضر (علیہ السلام) کا واقعہ ارشاد ہوا ہے گویا یہ دولت پہلی امتوں کو بھی نصیب تھی تو امت محمدیہ میں تو یقینا ہوگی اور ہے ۔ (کیا خضر (علیہ السلام) نبی تھے یا کیا وہ زندہ ہیں یا تب تھے) اس پر یقینا مختلف آراء ہیں جو دونوں احتمال بیان کرتی ہیں مگر تحقیق یہ ہے کہ خضر (علیہ السلام) نبی نہ تھے نہ ان کی کسی کتاب کا تذکرہ ہے نہ کسی امت کا بیان اور موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے فوت ہوچکے تھے یہ تمام تکوینی امور ان کی روح انجام دے رہی ہے جیسے یہ کام فرشتے انجام دیتے ہیں تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ انہیں مدد کے لیے پکارنا بھی ویسا ہی جرم اور گناہ ہوگا جیسے فرشتوں کو کفار پکارا کرتے تھے ۔ چناچہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ جواب دیا تو حکم ہوا کہ آپ معاملہ میرے سپرد کرتے اور کہہ دیتے کہ اللہ جل جلالہ بہتر جانتا ہے یا اللہ جل جلالہ نے مجھے سب سے زیادہ علم دیا ہے اب آپ ہمارے ایک بندے سے ملئے جو مجمع البحرین میں ہے اور دیکھئے کہ ہم نے اپنے بندوں کو کیسے علوم سے نوازا ہے چناچہ آپ روانہ ہوئے تو یہی بات ان آیات میں ارشاد ہوتی ہے جن کا مفہوم شروع ہوتا ہے ، اور ساتھ حدیث شریف کے مطابق تشریح بیان ہوتی چلی جائے گی ۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے فرمایا کہ اب تو میں چلتا ہی رہوں گا تا آنکہ مجمع البحرین یعنی وہ جگہ جہاں دو سمندر یا دو دریا ملتے ہیں پالوں خواہ مدت العمر چلنا ہی پڑے ، حقبہ قرنوں کے معنی میں آتا ہے مراد یہ ہے کہ چونکہ اللہ جل جلالہ کا حکم ہے لہذا اگر ہمیشہ چلتے ہی بیت جائے تو بھی تعمیل ارشاد میں چلتا ہی رہوں گا ، آپ کے ساتھ یوشع بن نون بحیثیت خادم تھے اور اللہ جل جلالہ کا حکم ہوا کہ ایک مچھلی ساتھ رکھ لیں ، جب مجمع البحرین پہ آپ پہنچیں گے تو وہ معجزانہ طور پر زندہ ہو کر پانی کے اندر چلی جائے گی وہاں آپ کی ملاقات اس بندے سے ہوگئی ۔ چناچہ آپ چلتے رہے حتی کہ ایک ایسی جگہ پہنچے اور ایک جگہ آرام فرمایا تو مچھلی کا خیال نہ رہا ، حالانکہ وہ زندہ ہو کر نہ صرف پانی میں چلی گئی بلکہ جس طرف گئی پانی کے اندر ایک سرنگ جیسا راستہ بنتا چلا گیا آپ کو یاد نہ رہا اور اٹھ کر آگے چل دیئے لیکن اللہ جل جلالہ کی شان آگے کے سفر نے آپ کو تھکا دیا اور جہاں رات بسر کی وہاں صبح اٹھ کر ناشتہ طلب فرمایا تو کھانا نکالتے وقت خادم کو یاد آیا کہ میں عرض کرنا بھول گیا تھا شاید ہم منزل سے آگے چلے آئے ہیں ، اس لیے آپ کو تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے ۔ (عجیب بات) یہ عجیب نکتہ ارشاد ہوا کہ خلوص کے ساتھ اللہ جل جلالہ کی اطاعت میں کام کیا جائے تو تھکاوٹ نہیں ہوتی ، اسی لیے اہل اللہ سے شب بھر کی عبادات کا پتہ ملتا ہے مگر ہم اگر عبادت کا بوجھ محسوس کرتے ہیں تو یہ دلیل ہے کہ اطاعت سے تجاوز ہو رہا ہے اور خلوص نہیں رہا ، تو فورا خادم کو یاد آیا عرض کرنے لگا کہ دیکھئے جب ہم نے وہاں چٹان پر آرام کیا تھا اور آپ سو رہے تھے تو مچھلی تو زندہ ہو کر پانی کے اندر چلی گئی اور جس طرف وہ گذرتی چلی گئی عجیب و غریب راستہ بنتا چلا گیا مگر میں آپ سے ذکر کرنا ہی بھول گیا اور یقینا مجھے شیطان نے بھلا کر دوسری باتوں میں لگا دیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہمیں وہی جگہ تو تلاش کرنا تھی چناچہ انہی نشانات پہ چلتے ہوئے واپس ہو لئے اور وہی راستہ دریافت کرلیا جہاں سے مچھلی گذر کرگئی تھی ، تو وہاں میرے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا یعنی خضر (علیہ السلام) کو جنہیں ہم نے اپنی خاص رحمت اور مقبولیت عطا کر رکھی تھی اور انہیں ایک خاص علم عطا فرمایا تھا جو انہوں نے بلاواسطہ ہماری ذات سے حاصل کیا تھا ۔ (کیا یہ نعمت صرف خضر (علیہ السلام) کو عطا ہوئی ؟ ) یہ فرمانا کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے بہت بندے ہو سکتے ہیں جنہیں علم لدنی کی دولت نصیب ہوئی ہو اور یہ محض اللہ جل جلالہ کی عطا سے اور بغیر معروف طریقہ اکتساب کے حاصل ہوتا ہے ، اہل اللہ کو جن نعمتوں سے نوازا جاتا ہے یا دل روشن ہو کر جو کچھ پاتا ہے اس کی بنیاد یہی علم لدنی ہے یہ الگ بات ہے کہ ہر شخص عنایت جداگانہ ہوتی ہے علم لدنی کا یہ خاصہ ہے کہ متعلقہ موضوع ازخود دل سے دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا جاری ہوجاتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے ملاقات پر ان سے فرمایا کہ مجھے اللہ جل جلالہ نے خبر دی ہے کہ آپ کو عجیب و غریب اور انوکھا علم عطا ہوا ہے ، اگر آپ راضی ہو تو مجھے بھی اس میں سے سکھا دیں اور میں آپ کے ساتھ کچھ عرصہ رہوں ۔ (موسی (علیہ السلام) کی فضیلت) موسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلت تو مسلمہ ہے کہ اولوالعزم رسول تھے اور حضرت خضر (علیہ السلام) ایک ولی اللہ مگر آپ کے علوم نبوت سے متعلقہ یعنی تشریعی تھے اور حضرت خضر (علیہ السلام) کے تکوینی امور سے متعلق جنہیں آپ نے حاصرحمۃ اللہ علیہ کرنا چاہا تو یہ مثال ایسی ہے جیسا کوئی بہت بڑا عالم اور فقیہہ یا مفسر ومحدث ہو سکتا ہے مگر اسے گاڑی چلانے کا فن نہ آتا ہو تو کسی ڈرائیور ہی سے سیکھے گا اور اس کی فضیلت اپنی جگہ کو وہ دوسرے علم اور دوسرے وصف کے باعث ہے اس میں درس ہے کہ علماء کو یہ فنون سیکھنے چاہئیں جو جہاد کے لیے کام دیں جیسے ہتھیار کا استعمال یا ڈرائیونگ وغیرہ اور اس شاگردی سے اس کا مرتبہ کم نہیں ہوجائے گا ۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے عرض کیا آپ برداشت نہیں کر پائیں گے کہ آپ کے پاس احکام شریعت ہیں جن کے مطابق انسانوں کو عمل کرنا چاہئے اور میں دنیا سے گذر چکا آپ کی شریعت کا مکلف تو ہوں نہیں ، میرا کام براہ راست کشف یا الہام کے تابع ہوگا اور تکوینی امور سے متعلق ہوگا ، لہذا آپ کو یقینا نہ صرف عجیب لگے گا آپ اس پر روک ٹوک تک کرنے سے خود کو باز نہ رکھ سکیں گے ، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا آپ مجھے بہت صابر اور متحمل مزاج بھی پائیں گے اور میں آپ کی ہر بات بھی مان کر چلوں گا ۔ تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے شرط لگا دی کہ ٹھیک ہے چلئے مگر شرط یہ ہے کہ آپ مجھ سے جو کچھ بھی دیکھیں گے اس کے بارے میں سوال نہ کریں گے حتی کہ میں خود اس کی حقیقت آپ پہ بیان نہ کر دوں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 60 تا 64 فتی نوجوان، شاگرد۔ لا ابرح میں ہرگز نہ چھوڑوں گا۔ حتی ابلغ جب تک پہنچ نہ جاؤں۔ مجمع البحرین دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ۔ حقب (احقاب) طویل مدت۔ بلغا وہ دونوں پہنچے۔ حوث مچھلی۔ جاوزا دونوں گذر گئے۔ السخرۃ چٹان، پتھر نبغ ہم تلاش کر رہے ہیں۔ ارتدا وہ دونوں لوٹے۔ اثار نشان قدم۔ قصص ڈھونڈنا، تلاش کرنا۔ تشریح : آیت نمبر 60 تا 64 چونکہ نبی اور رسول اللہ کے بندے اور اللہ کے نمئاندے ہوتے ہیں اس لئے ان کی تعلیم و تربیت اور عرفت براہ راست اللہ کی طرف سے کی جاتی ہے تاکہ ان کی زندگی کا ہر عمل دوسروں کے لئے مثال، نمونہ اور اسوہ بن جائے۔ اللہ کے تمام نبی اور رسول گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ وہ نہ تو گناہ کرتے ہیں اور نہ گناہوں کی نسبت ان کی طرف کی جاسکتی ہے ۔ اس لئے ان کے رتبوں کی بلندی کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ان کی چھوٹی سے چھوٹی بات پر گرفت کی جاتی ہے اور پھر اللہ کی طرف سے ان کی مکمل رہنمائی بھی کی جاتی ہے۔ اس کے لئے بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو بیان کیا جا رہا ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو انبیاء بنی اسرائیل میں افضل ترین رسول اور کلیم اللہ ہیں تقریر فرما رہے تھے۔ خطاب اس قدر دلنشین ، پر تاثیر اور پرجوش تھا کہ کسی شخص نے عقیدت و محبت کے جوش میں حضرت موسیٰ سے یہ پوچھ لیا کہ اے موسیٰ کیا آپ سے بڑھ کر بھی کوئی عالم ہے۔ حضرت موسیٰ کی زبان سے بےساختہ نکل گیا ” نہیں “ یعنی مجھ سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اصول اعتبار سے یہ بات غلط نہ تھی کیونکہ اللہ کے رسول اپنے زمانہ میں نہ صرف صاحب کتاب ہوتے ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ان کو وہ علوم سکھائے جاتے ہیں جو کوئی بھی نہیں جانتا۔ لہٰذا اس اصول کی بنا پر تو رسول کے زمانے میں اس سے بڑا کوئی عالم نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰ کا یہ کہنا اپنی جگہ درست تھا مگر حضرت موسیٰ کے رتبے اور مقام کا تقاضا یہ تھا کہ وہ صرف اتنا فرما دیتے کہ اللہ بہتر جانتا ہے میں نہیں جانتا۔ قرآن کریم کی ان آیات اور بخاری و مسلم کی معتبر ترین روایت کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا گیا کہ اے موسیٰ آپ دو سمندروں کے بیچ میں زمین کا ایک تنگ ٹکڑا ہے وہیں جائیے آپ کو ہمارا ایک بندہ ملے گا جس کو ایسی باتوں کا علم دیا گیا ہے جن کی مصلحتوں تک کو آپ نہیں سمجھ سکتے۔ فرمایا گیا کہ تم اپنے ساتھ ایک مچھلی پکا کرلے جانا۔ جہاں یہ مچھلی گم ہوجائے اس جگہ ہمارے اس بندے سے ملاقات ہوگی۔ بخاری و مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بندہ خصوصی کا نام ” خضر “ تھا۔ حضرت موسیٰ اپنے ساتھ اپنے ان خادم خاص یوشع کو لے گئے تھے۔ جن کو بعد میں نبوت عطا کی گئی اور حضرت موسیٰ کے وصال کے بعد ان کے قائم مقام بنائے گئے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع حضرت خضر کی تلاش میں روانہ ہوگئے۔ یہ دونوں تلاش کرتے کرتے تھک کر سو گئے۔ حضرت یوشع کی آنکھ کھلی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے ناشتے دان کی مچھلی زندہ ہو کر سرنگ بناتی ہوئی سمندر میں اتر گئی۔ اس عجیب و غریب واقعہ پر حضرت یوشع بڑے حیران ہوئے۔ حضرت موسیٰ سو رہے تھے انہوں نے سوچا کہ حضرت موسیٰ بیدار ہوجائیں تو ان سے اس عجیب و غریب واقعہ کا ذکر کریں گے۔ مگر حضرت موسیٰ اٹھے اور فوری طور پر وہاں سے روانہ ہوگئے۔ حضرت یوشع کو یہ واقعہ سنانے کا موقع نہ مل سکا۔ جب چلتے چلتے تھک گئے تو حضرت موسیٰ نے حضرت یوشع سے کہا کہ اب ہم بہت تھک گئے ہیں بھوک لگ رہی ہے کھانا لاؤ۔ اس وقت حضرت یوشع کو مچھلی کا عیجب طریقے پر سمندر میں اتر جانے کا خیال آیا۔ انہوں نے کہا شیطان نے مجھے بھلا دیا تھا اصل میں وہ مچھلی تو عجیب طریقے پر سرنگ بناتے ہوئے سمندر میں اتر گئی تھی۔ یہ سن کر حضرت موسیٰ نے کہا کہ ہمیں اسی جگہ کی تلاش تھی۔ فوراً وہیں واپس چلو جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا کیونکہ اسی جگہ تو حضرت خضر سے ملاقات ہوگی۔ چناچہ وہ دونوں اپنے پاؤں کے نشانوں پر چلتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے جہاں مچھلی غائب ہوئی تھی۔ کچھ تلاش کے بعد دیکھا کہ ایک شخص چادر اوڑھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جا کر سلام کیا یہ حضرت خضر (علیہ السلام) تھے جنہیں اللہ نے کائنات کا خصوصی علم دیا تھا اور وہ اللہ کی طرف سے بہت سے کاموں کے کرنے پر مامور تھے۔ وہ اللہ کے حکم سے لوگوں کی آنے والی مصیبتوں میں ان کے کام آتے تھے۔ جب حضرت موسیٰ نے سلام کیا تو انہوں نے حیرت سے حضرت موسیٰ کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا کون موسیٰ ؟ کیا آپ بنی اسرائیل کے موسیٰ تو نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا جی ہاں میں بنی اسرائیل کا موسیٰ ہوں۔ پوچھا کیوں آئے ہو ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ اللہ نے آپ کو جو خصوصی علوم عطا فرمائے ہیں۔ آپ کے پاس رہ کر ان علوم کو حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت خضرعلیہ السلام نے کہا اے موسیٰ آپ جہاں سے آئے ہیں وہیں لوٹ جائیے۔ کیونکہ میں تو اللہ کے حکم سے ایسے ایسے کام کرتا ہوں جنہیں آپ برداشت نہ کرسکیں گے اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھیں گے حضرت موسیٰ نے کہا کہ میں صبر سے کام لوں گا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ میرے ساتھ چلنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جب تمہیں خود نہ بتا دوں اس وقت تک تم مجھ سے یہ سوال مت کرنا کہ ایسا کیوں ہوا اور ایسا کیوں نہیں ہوا۔ حضرت موسیٰ نے اس کا وعدہ کرلیا اور حضرت خضر ان کو ساتھ لے کر چل پڑے۔ اس واقعہ کی بقیہ تفصیل اگلے درس میں ملاحظہ فرمائیے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ وجہ اس سفر کی یہ ہوئی تھی کہ ایک بار موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل میں وعظ فرمایا تو کسی نے پوچھا کہ اس وقت آدمیوں میں سب سے بڑا عالم کون شخص ہے۔ آپ نے فرمایا میں۔ مطلب یہ تھا کہ ان علوم میں کہ جن کو قرب الی اللہ کی تحصیل میں دخل ہے میرے برابر کوئی نہیں۔ اور یہ فرمانا صحیح تھا، لیکن چونکہ ظاہرا لفظ مطلق تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ آپ کو احتیاط فی الکلام کی تعلیم دی جائے، ارشاد ہوا کہ مجمع البحرین میں ایک بندہ ہمارا تم سے بھی زیادہ علم رکھتا ہے، مطلب یہ تھا کہ بعض علوم میں وہ زیادہ ہے، گو ان علوم کو قرب الہی میں دخل نہہو، لیکن اس بناء پر جواب میں مطلقا تو اپنے کو اعلم نہ کہنا چاہئے تھا۔ غرض موسیٰ (علیہ السلام) ان کے ملنے کے مشتاق ہوئے، اور پوچھا کہ ان تک پہنچنے کی کیا صورت ہے، ارشاد ہوا کہ ایک بےجان مچھلی اپنے ساتھ لیکر سفر کرو، جہاں وہ مچھلی گم ہوجاوے وہ شخص وہاں ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کے ذریعہ سے چند کاموں کے حوالے سے تکوینی امور کی حکمتیں بیان کی ہیں۔ تاکہ لوگ ان کو پیش نگاہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر صابر، شاکر رہیں بات پر ایمان لائیں۔ اس خطاب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک سفر کی روداد بیان کی ہے۔ جس میں ان کی ملاقات حضرت خضر (علیہ السلام) سے کروائی گئی تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے تکوینی امور کی حکمتوں سے کچھ نہ کچھ آگاہی حاصل ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سفر کا سبب بیان کرتے ہوئے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ایک دن موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم سے خطاب کر رہے تھے۔ اچانک مجمع سے ایک آدمی اٹھا اس نے سوال کیا۔ جناب موسیٰ ! کیا دنیا میں آپ سے بڑھ کر کوئی عالم ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ دنیا میں سب سے بڑاعالم میں ہوں حالانکہ انہیں یہ الفاظ کہنے کی بجائے پیغمبرانہ شان کے مطابق اللہ اعلم کے الفاظ کہنے چاہییں تھے۔ اللہ تعالیٰ کو موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ پسندنہ آئے۔ جس بناء پر انہیں حکم ہوا کہ اے موسیٰ ! میرے بندوں میں ایسا بندہ موجود ہے جس کے پاس وہ علم ہے جو آپ کے پاس نہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس بندے سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کی نشاندھی فرمائی۔ اس سے ملنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سفر اختیار کیا۔ جس کا تذکرہ یہاں کیا گیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے شاگرد سے فرمایا کہ جب تک ہم دو دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جائیں اپنا سفر جاری رکھیں گے بیشک ہمیں برسوں تک چلنا پڑے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ تلی ہوئی مچھلی اپنے پاس رکھو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے شاگرد یوشع بن نون کے ساتھ سفر کے لیے نکلے راستہ میں انہوں نے دریاؤں کے سنگھم کے پاس قیلولہ کیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) استراحت فرما رہے تھے تو یوشع بن نون کے سامنے تلی ہوئی مچھلی زندہ ہو کر دریا میں کود گئی جونہی مچھلی نے دریا میں چھلانگ لگائی تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح راستہ بنالیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے شاگرد یہ واقعہ اور مچھلی بھول گئے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اٹھے اور بہت آگے نکل گئے تو انہوں نے اپنے شاگرد کو حکم دیا کہ ناشتہ کے لیے مچھلی پیش کی جائے۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ہمیں اس سفر نے تھکا دیا ہے تب ان کے شاگرد نے عرض کی۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا ؟ کہ جب ہم ایک چٹان کے پاس آرام کررہے تھے تو مچھلی دریا میں کود گئی اور اس نے عجب طریقے کے ساتھ دریا میں راستہ بنایا یہ واقعہ شیطان نے مجھے فراموش کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہی تو وہ مقام ہے جس کی تلاش کے لیے ہم نکلے تھے۔[ رواہ البخاری : باب الْخُرُوجِ فِی طَلَبِ الْعِلْمِ ] تفسیر بالقرآن شیطان کی انسان سے دشمنی : ١۔ مجھے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا۔ (الکہف : ٦٣) ٢۔ یقیناً شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (الاعراف : ٢٢) ٣۔ یقیناً شیطان انسان کا واضح دشمن ہے۔ (یوسف : ٥) ٤۔ یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے اسے دشمن ہی سمجھو۔ (فاطر : ٦) ٥۔ یقیناً شیطان انسان کے ساتھ واضح دشمنی کرنے والا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٥٣) ٦۔ شیطان انسان کو رسوا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (الفرقان : ٢٩) ٧۔ شیطان لوگوں کے درمیان دشمنی ڈالنا چاہتا ہے۔ (المائدۃ : ٩١) ٨۔ شیطان نے آدم اور حوّا کو پھسلا دیا، وہ انسانوں کا کھلا دشمن ہے۔ (الاعراف : ٣٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٣٣١ ایک نظر میں اس سبق میں حضرت موسیٰ السلام کی سیرت کا جو گوشتہ بیان ہوا ہے وہ صرف اسی سورت کے اسی مقام پر مذکور ہے۔ قرآن میں کسی دوسری جگہ اس کا ذکر نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اس مقام کا بھی تعین نہیں فرمایا صرف یہ کہا ہے کہ وہ مجمع البحرین ہے۔ نیز اس واقعہ کی تاریخ بھی متعین نہیں ہے کہ آیا تو کہاں اور کس وقت پیش آیا بیت المقدس پر حملے کے وقت سے پہلے آیا یا بعد میں۔ جب موسیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ بیت المقدس میں داخل ہوں تو انہوں نے داخل ہونے سے انکار کردیا تھا اور یہ کہا تھا کہ وہاں جبار قوم بستی ہے اور قابض ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ واقعہ اس دور میں پیش آیا جب یہ صحرا نور دی کر رہے تھے۔ قرآن ریم نے اس بندئہ صالح کے بارے میں بھی تفصیلات نہیں دی ہیں جن سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ملنے گئے تھے۔ یہ کون تھے ؟ ان کا نام کیا تھا ؟ یہ نبی تھے ؟ رسول تھے ؟ کوئی عالم دین تھے ؟ یا کوئی ولی تھے ؟ اس قصے کے بارے میں حضرت ابن عباس اور ان کے علاوہ دوسرے حضرات سے بہت سی روایات وارد ہیں لیکن ہم صرف قرآن مجید کے بیان تک اپنے آپ کو محدود رکھیں گے تاکہ ہم قرآن ہی کے سایہ میں رہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ جس انداز میں اس قصے کو قرآن نے دیا ہے اس میں اس کی تاریخ بھی نہیں دی ، نام بھی نہیں دیئے ، جگہ کا تعین بھی نہیں کیا ، اس میں کوئی خاص حکمت ہوگی۔ لہٰذا ہم بھی اس قدر معلومات پر اکتفاء کرتے ہیں جس قدر قرآن نے دے دی ہے۔ (١) ١۔ بخاری میں ہے ۔ سعید ابن جبیر نے حضرت ابن عباس سے پوچھا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ جو موسیٰ حضر سے ملے وہ موسائے بنی اسرائیل نہ تھے۔ ابن عباس نے فرمایا وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ہمیں ابی بن کعب نے حضور سے سن کر بتایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سامنے خطبہ دے رہے تھے تو ان سے پوچھا گیا کہ کون زیادہ علم رکھتا ہے تو موسیٰ نے کہا میں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کو غصہ آیا کیونکہ موسیٰ نے اپنے علم کو اللہ کی طرف منسوب نہ کیا۔ تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی بتایا کہ مجمع البحرین میں ہمارا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ حضرت موسیٰ نے سوال کیا کہ اے اللہ میں اس سے کیسے مل سکتا ہوں۔ اللہ نے فرمایا تم اپنے پاس ایک مچھلی کو تھیلے میں رکھ لو ، جہاں تم نے مچھلی کو گم کردیا بس وہ جگہ ہوگی اس بندئہ صالح کی۔ مجمع البحرین سے کون سی جگہ مراد ہے ، غالب یہ ہے کہ شاید بحر روم اور بحر قلزم کے درمیان کوئی جگہ یا بحر اسود یا بحر احمر کے درمیان کوئی جگہ ہے۔ ان کا مقام التقاء بحیرہ مرہ یا بحیرہ تساح ہو سکتا ہے یا خلیج عقبہ اور خلیج سویس کے اجتماع کی جگہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بحر احمر کی دو شاخیں ہیں۔ کیونکہ یہی وہ جگہ تھی جہاں خروج کے بعد بنی اسرائیل چلتے پھرتے رہے۔ بہر حال قرآن کریم نے اس بات کو مجمل چھوڑ دیا ہے ۔ ہم بھی فقط یہی اشارہ کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔ (١) قصے کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا ایک خاص ہدف تھا۔ جہاں تک انہوں نے پہنچنے کا عزم کر رکھا تھا۔ آپ کے پیش نظر کوئی خاص مطلب تھا۔ کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ آپ مجمع البحرین تک ضرور پہنچیں گے چاہے اس سفر میں زیادہ مشقت درپیش ہوا اور چاہے اس میں زیادہ عرصہ لگ جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس تعبیر او امضی حقباً (٨١ : ٠٦) ” ورنہ میں زمانہ دراز تک چلتا رہوں گا۔ “ حقب کے معنی ایک سال کے ہیں یا بعض اقوال کے مطابق ٠٨ سال کے ہیں۔ بہرحال مقصد یہ ہے کہ وہ بہرحال مجمع البحرین تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ کوئی متعین زمانہ مراد نہیں ہے۔ (١) قتادہ وغیرہ نے کہا کہ اس سے مراد بحر فارس ہے جو شرق کی جانب سے اور بحر روم ہے جو مغرب کی جانب سے قریب ہے۔ محمد ابن کعب قرظی نے کہا ہے کہ مجمع البحرین بلاد مغرب میں طبخہ کے قریب ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اقوال مستبعد ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہ السلام) کا مفصل واقعہ مذکورہ بالا آیات میں اللہ جل شانہ نے حضرت موسیٰ اور حضرت خضر ( علیہ السلام) کی ملاقات کا واقعہ بیان فرمایا ہے۔ یہ واقعہ حدیث کی کتابوں میں ذرا تفصیل سے مذکور ہے امام بخاری (رح) نے کتاب العلم میں دو جگہ لکھا ہے پہلی جگہ صفحہ ١٧ ج ١ پر مختصر اور پھر صفحہ ٢٣ ج ١ پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے پھر کتاب التفسیر (ج ٢ تا ص ٦٧٦۔ ٦٩٠) میں سورة کہف کی تفسیر میں مفصل روایت کی ہے نیز اور بھی کئی جگہ ذکر فرمایا ہے۔ صحیح مسلم میں صفحہ ٢٦٩ ج ٢ میں مذکور ہے امام نسائی نے سنن کبریٰ میں ج ٦ ص ٣٨٦ تا صفحہ ٣٩٠ میں ذکر کیا ہے، امام ترمذی بھی اس واقعہ کو ابواب التفسیر ( سورة کہف) میں لائے ہیں یہ واقعہ بہت سی حکمتوں، عبرتوں اور بہت سے علوم پر مشتمل ہے۔ ہم صحیح بخاری کتاب التفسیر سے واقعہ نقل کرتے ہیں اس سے واقعہ کی تفصیل بھی معلوم ہوگی اور آیات کی تفسیر بھی حضرت ابی بن کعب (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ایک دن موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں کھڑے ہوئے اور ان کو وعظ فرمایا اس وعظ کی جہ سے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دلوں میں نرمی پیدا ہوگی جب وعظ فرما کر واپس چل دئیے تو ایک شخص نے دریافت کرلیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا زمین میں کوئی ایسا شخص ہے جو علم میں آپ سے زیادہ ہو موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا کہ کوئی نہیں اور ایک روایت میں ہے کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ انہوں نے فرما دیا کہ میں ہوں ! اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہوا کیونکہ انہوں نے اللہ اعلم نہیں کہا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ بلاشبہ ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے وہ تم سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا میں آپ کے اس بندہ سے کس طرح ملاقات کروں میں اسے جانتا نہیں ہوں میں اس کی تلاش میں نکلوں تو مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میں آپ کے اس بندہ تک پہنچ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی لے لو اور اسے ٹوکری میں رکھ لو یہ مچھلی مردہ ہو، پھر جس جگہ اس میں جان ڈال دی جائے سمجھ لو کہ وہ صاحب اس جگہ ملیں گے جن سے تم ملنا چاہتے ہو، یہ مچھلی زندہ ہو کر تم سے جدا ہوجائے گی۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مچھلی لی اور ٹوکری میں رکھ لی اور اپنے ایک نوجوان خادم کو ساتھ لیا جس کا نام یوشع بن نون تھا اور اپنے خادم سے فرمایا کہ بس تمہارے ذمہ اتنا کام کرتا ہوں کہ جہاں یہ مچھلی جدا ہوجائے اس وقت ہمیں بتادینا۔ یوشع نے کہا کہ یہ تو آپ نے کوئی بڑی بات کی ذمہ داری نہیں سونپی (میں انشاء اللہ تعالیٰ ضرور آپ کے فرمان کے مطابق عمل کروں گا۔ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے خادم حضرت یوشع بن نون دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے دن کا جو حصہ باقی تھا وہ بھی سفر میں گزرا اور رات بھی، راستہ میں ایک جگہ ایک پتھر آیا اسی پر سر رکھ کر سو گئے تھے اسی اثناء میں مچھلی تڑپ کر ٹوکری سے نکلی اور اس نے سمندر میں اپنی راہ بنالی۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے پانی ہی میں ایک طاقچہ بنا دیا اور اس مچھلی کو اس جگہ ٹھہرا دیا اس منظر کو حضرت یوشع نے دیکھا تو تھا مگر موسیٰ (علیہ السلام) کو بتانا بھول گئے۔ جب اس جگہ کو چھوڑ کر آگے چلے اور اگلے دن کی صبح ہوئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہمارا صبح کا کھانا تو لاؤ اس سفر میں ہمیں بڑی تکلیف پہنچی ہے، موسیٰ (علیہ السلام) برابر چلے جا رہے تھے جب اس جگہ سے آگے بڑھ گئے جہاں تک پہنچنا تھا یعنی حضرت خضر (علیہ السلام) کے ملنے کی جگہ تھی تو خوب زیادہ تھکن محسوس کی اس وقت اپنے خادم سے کھانا طلب کیا خادم نے جواب دیا کہ آپ کو علم نہیں جب ہم نے پتھر کے پاس ٹھکانہ پکڑا تھا اس وقت مچھلی سمندر میں چلی گئی تھی جب ہم وہاں سے چلنے لگے تو مجھے یہ یاد نہ رہا کہ آپ کو بتادوں ایک روایت میں ہے کہ جب مچھلی زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی تو حضرت یوشع نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قصہ اس لیے نہیں بتایا کہ وہ اس وقت سوئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے دل میں کہا کہ میں بیدار نہیں کرتا خود ہی جاگ جائیں گے تو بتادوں گا۔ جب روانہ ہونے لگے تو بتانا بھول گئے۔ یہ بھول شیطان ہی کے بھلانے سے ہوئی کوئی بھولنے والی بات نہیں تھی بلکہ یاد رکھنے اور یاد رہنے کی بات تھی۔ مچھلی جو سمندر میں گئی اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے خادم کو اس سے بڑا تعجب ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہی تو وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم چلے تھے مچھلی کا ہم سے جدا ہوجانا اس بات کی نشانی تھی کہ ہم جن صاحب کی تلاش میں نکلے ہیں وہ وہیں ہیں۔ اب کیا ہوسکتا ہے اب تو واپس ہی ہونا پڑے گا لہٰذا پچھلے پاؤں لوٹے اور یہ دیکھتے رہے کہ کدھر سے آئے تھے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کرنا اور یہ درخواست کرنا کہ مجھے اپنے ساتھ لے لیں جب واپس ہو کر اسی پتھر کے پاس پہنچے جس پر سر رکھ کر سو گئے تھے تو وہاں ایک صاحب کو دیکھا کہ سمندر کے درمیان پانی پر کپڑے اوڑھے ہوئے لیٹے ہیں (یہ صاحب حضرت خضر (علیہ السلام) تھے) موسیٰ نے انہیں سلام کیا انہوں نے منہ کھولا اور فرمایا کہ اس سرزمین میں سلام کہاں سے آگیا۔ آپ کون ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میں موسیٰ ہوں انہوں نے دریافت کیا کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ ہو ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں وہی ہوں انہوں نے سوال کیا کیسے تشریف لانا ہوا ؟ فرمایا تاکہ آپ مجھے اپنے اس علم میں سے سکھا دیں جو آپ کو علم مفید سکھایا گیا ہے، انہوں نے جواب میں کہا کیا تمہیں تورات کافی نہیں ہے جو تمہارے ہاتھوں میں ہے اور یہ جو وحی تمہارے پاس آتی ہے کیا یہ کافی نہیں ؟ (مزید فرمایا) کہ اے موسیٰ مجھے اللہ نے وہ علم دیا ہے جسے آپ نہیں جانتے اور آپ کو اللہ نے وہ علم دیا ہے جسے میں نہیں جانتا۔ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک چڑیا آئی جس نے سمندر سے اپنی چونچ میں کچھ پانی لے لیا حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے موسیٰ اللہ کے علم کے سامنے تمہارا علم اور میرا علم اتنا بھی نہیں ہے جتنا اس پرندہ نے سمندر سے اپنی چونچ میں پانی بھر لیا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کا فرمانا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکتے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خاموش رہنے کا وعدہ کرکے ان کے ساتھ روانہ ہوجانا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جوان سے درخواست کی تھی کہ مجھے علم سکھا دیں اس پر انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ رہ کر آپ صبر نہیں کرسکتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کی کوئی نافرمانی نہیں کروں گا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے وعدہ کرلیا تو دونوں ساتھ ساتھ سمندر کے کنارے کنارے چل دئیے۔ حتیٰ کہ ایک کشتی پر پہنچے وہ کشتی سواریوں کو اس کنارہ سے دوسرے کنارہ تک پہنچایا کرتی تھی دونوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں بھی سوار کرلیں، ان لوگوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو پہچان لیا اور جان پہچان کی وجہ سے مفت میں بٹھا لیا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کا کشتی سے ایک تختہ نکال دینا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معترض ہونا حضرت خضر (علیہ السلام) نے ایک کلہاڑا لیا اور کشتی کے ایک تختہ کو اکھاڑ دیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے نہ رہا گیا اور فرمایا کہ ایک تو ان لوگوں نے ہمیں بغیر اجرت کے سوار کرلیا اور اوپر سے آپ نے یہ کیا کہ ان کی کشتی میں شگاف کردیا اب اس شگاف سے پانی بھرے گا تو کشتی ڈوبے گی کشتی کے ساتھ وہ سب لوگ بھی ڈوبیں گے جو کشتی میں سوار ہیں تمہارا ڈھنگ تو ایسا ہے کہ ان لوگوں کو ڈبو دو ۔ (لِتُغْرِقَ اَھْلَھَا) جو فرمایا اس میں حضرت خضر (علیہ السلام) کی نیت پر حملہ کرنا مقصود نہیں تھا اس میں جو لام ہے یہ لام عاقبت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایسا کام کیا جو ہلاکت خیزی کے اعتبار سے بڑا بھاری کام ہے حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ میرے ساتھ رہتے ہوئے آپ صبر نہیں کرسکتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا کہ میں بھول گیا آپ بھولنے پر میرا مواخذہ نہ فرمائیے اور میرے معاملہ میں تنگی نہ برتیے۔ ایک لڑکے کے قتل پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اعتراض کرنا اس کے بعد (کشتی سے اتر کر) آگے بڑھے دونوں ساتھ ساتھ جا رہے تھے کہ چند لڑکوں پر گزر ہوا جو کھیل رہے تھے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے ان میں سے ایک لڑکے کو پکڑا اور اس کے سر کو مروڑ کر تن سے جدا کردیا (اور ایک روایت میں ہے کہ اسے چھری سے ذبح کردیا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پھر نہ رہا گیا اور فرمایا کیا تم نے ایک پاکیزہ جان کو قتل کردیا جس نے کسی کو قتل نہیں کیا کہ جان کا بدلہ جان ہوتا ہے۔ (یہ لڑکا نہ سن بلوغ کو پہنچا ہے جس کا کوئی عمل گناہوں میں شمار کیا جائے اور نہ ہی اس نے کسی کو قتل کیا ہے اس کو قتل کرنا تو بالکل بیجا ہے) آپ نے یہ تو بڑا ہی منکر کام کیا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ رہتے ہوئے صبر نہیں کرسکو گے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سمجھ لیا کہ میرا اور ان کا جوڑ نہیں بیٹھ سکتا۔ لہٰذا اب انہیں اختیار دے دینا چاہیے۔ لہٰذا حضرت خضر (علیہ السلام) سے فرمایا کہ میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو مجھے ساتھ نہ رکھیے۔ آپ مجھے جدا کردیں گے تو میرے لیے ناگواری کی کوئی بات نہ ہوگی کیونکہ آپ ایسے مرحلہ پر پہنچ چکے ہیں کہ آپ میرے بارے میں معذور ہیں اور آپ کا یہ معذور ہونا میری طرف سے ہے (نہ میں درمیان میں بولتا نہ اس کی نوبت آتی۔ ) ایک گرتی ہوئی دیوار کے کھڑے کردینے پر اعتراض پھر آپس میں جدائی اس کے بعد پھر چلے اور چلتے چلتے ایک بستی میں آئے۔ کھانے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی بھوک لگی ہوئی تھی۔ بستی والوں سے کھانے کے لیے کچھ طلب کیا ان لوگوں نے مہمان کرنے سے انکار کردیا (مہمانی تو کیا کرتے طلب کرنے سے بھی نہ دیا) ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ وہاں ایک دیوار کو دیکھا جو جھکی ہوئی تھی اور قریب تھا کہ گرپڑے حضرت خضر (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر اسے اپنے ہاتھ سے سیدھی کھڑی کردی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے نہ ہمیں کچھ کھلایا نہ ہماری مہمانی کی آپ نے ان کا کام مفت میں کردیا اگر آپ چاہتے تو ان لوگوں سے اپنے اس عمل کی کچھ مزدوری لے لیتے تاکہ ہمارے کھانے کا کام چل جاتا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی (کا وقت) ہے۔ ہاں اتنی بات ضروری ہے کہ جن باتوں پر تم نے صبر نہیں کیا تمہیں ان کی حقیقت بتائے دیتا ہوں۔ یہ پورا واقعہ ہم نے صحیح بخاری صفحہ ٢٢٣ ج ١ اور صفحہ ٦٨٧ تا ٦٩٠ ج ٢ (کتاب التفسیر) سے نقل کیا ہے اور ایک روایت کی کمی دوسری روایت سے پوری کردی ہے۔ (روایات میں کچھ کمی بیشی ہے) فتح الباری صفحہ ٤٢٠ ج ٨ میں ثعلبی سے نقل کیا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کیا آپ مجھے کشتی کے پھاڑنے اور غلام کے قتل کرنے اور دیوار قائم کرنے پر ملامت کرتے ہیں اور اپنا حال بھول گئے آپ کو سمندر میں ڈال دیا گیا اور آپ نے ایک قبطی کو قتل کیا اور آپ نے شعیب (علیہ السلام) کی دو بیٹیوں کی بکریوں کو ثواب کے لیے پانی پلایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

64:۔ جواب شبہہ ثالثہ :۔ یہ تیسرے شب ہے کا جواب ہے۔ شبہہ یہ تھا کہ حضرت موسیٰ وخضر (علیہما السلام) کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اگرچہ غیب داں نہ تھے لیکن حضرت خضر (علیہ السلام) تو غیب داں تھے کیونکہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو امور غیبیہ بتائے تھے۔ اس شبہہ کا جواب واقعہ کے آخر میں دیا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے خود اعتراف کیا تھا کہ ان امور کا ان کو کوئی علم نہیں تھا۔ انہیں ان باتوں کا علم اللہ تعالیٰ کے بتانے سے حاصل ہوا اور انہوں نے جو کچھ بھی کیا اللہ کے حکم سے کیا تھا ” وما فعلتہ عن امری “۔” لفتاہ “ فتی (نوجوان) سے یوشع بن نون مراد ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خادم تھا اور ان سے علم حاصل کرتا تھا، اس سفر میں وہ ان کے ہمراہ تھا۔ مجمع البحرین، دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ، دو دریاؤں سے بحیرہ روم اور بحیرہ فارس مراد ہیں جیسا کہ حضرت مجاہد اور قتادہ سے منقول ہے۔ و مجمع البحران قال مجاھد وقتادۃ ھو مجتمع بحر فارس و بحر الروم (بحر ج 6 ص 144، قرطبی ج 11 ص 9، روح ج 15 ص 212) ۔ ” حقباً “ اسم مفرد ہے اس کی جمع احقب اور احقاب ہے۔ حضرت ابن عباس اور کئی مفسرین سے منقول ہے کہ حقب کے معنی مطلق زمانے کے ہیں۔ یعنی زمان مبہم اور غیر محدود مراد زمان طویل یعنی مدتہا والمعنی حتی یقع اما بلوغی المجمع او مضی حقبا ای سیری زمانا طویلا۔ یعنی یا تو میں مجمع البحرین میں پہنچ جاؤں گا یا مدتوں چلتا رہوں گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس سفر کا باعث یہ ہوا کہ جیسا کہ مفسرین نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ کون سا بندہ تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ فرمایا جو مجھے ہر وقت یاد رکھتا ہو اور کبھی نہیں بھولتا۔ پھر عرض کیا تیرے بندوں میں سب سے اچھا قاضی کون ہے ؟ فرمایا جو صحیح فیصلہ کرے اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرے۔ پھر عرض کیا تیرے بندوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ ارشاد فرمایا جو لوگوں سے ان کا علم حاصل کر کے اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے، اس خیال سے کہ اسے کوئی ایسی بات مل جائے جس سے وہ راہنمائی حاصل کرے یا وہ اپنے کو ہلاکت سے بچا لے۔ اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے اللہ، اگر تیرے بندوں میں کوئی بندہ مجھ سے بڑا عالم ہے تو مجھے اس کا پتہ بتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھ سے زیادہ عالم ہمارا بندہ خضر ہے جو مجمع البحرین میں رہتا ہے، تم ایک مچھلی تل کر توشہ دان میں رکھ لو اور مجمع البحرین کی طرف روانہ ہوجاؤ جہاں مچھلی گم ہوجائے سمجھ لو کہ ہمارا بندہ وہیں رہتا ہے (کبیر ج 5 ص 735، روح ج 15 ص 313) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

60 اوپر کی آیتوں میں کفار مکہ کے اس اعتراض کا جواب تھا کہ ہم غرباء کے ساتھ بیٹھ کر قرآن کریم سننے کو تیار نہیں ہیں اور چونکہ اس اعتراض کا منشا دولت پر غور اور تکبر تھا اس کی مناسبت سے دو بھائیوں کا ذکر فرمایا جس میں ایک کو اپنے باغوں پر اور اپنے حمایتوں پر گھمنڈ تھا پھر اس کے آگے ابلیس کی امانیت اور غرور وتکبر کا ذکر فرمایا۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جس میں اسی قسم کی ایک بات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے منہ سے نکل گئی بات بظاہر صحیح تھی لیکن اس کا اظہار حضرت حق جل مجدہ، کو پسند نہیں آیا وہ بات یہ کہ ایک دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے مجمع میں تقریر فرما رہ تھے مجمع میں سے ایک شخص نے سوا ل کیا ۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا زمین پر آپ اپنے سے کسی کو زیادہ عالم پاتے ہیں آپ نے جواب دیا نہیں یہ بات اگرچہ صحیح تھی کیونکہ ایک اولوالعزم پیغمبر سے کون شخص علم میں بڑھ کر ہوسکتا ہے مگر حضرت حق کو یہ الفاظ پسند نہ آئے شاید پسندیدہ یہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے سپر د کردیتے اور یوں فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے مقرب اور مقبول بندے ہیں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کس کا علم زیادہ ہے وہی خوب جانتا ہے چناچہ ارشاد ہوا کہ جہاں دو دریا ملتے ہیں وہاں ہمارا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے اس پر موسیٰ (علیہ السلام) کو اس بندے سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا اور انہوں نے اپنے خادم خاص کو ہمراہ لے کر سفر اختیار کیا۔ یہ خادم خاص حضرت یوشع (علیہ السلام) تھے جو بعد میں نبی اور حضرت موسیٰ کے خلیفہ ہوئے۔ اسی واقعہ کو یہاں ذکر کیا چناچہ ارشاد ہوتا ہے اور وہ واقعہ قابل ذکر ہے جبکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے فرمایا کہ میں اس وقت تک اپنے سفر سے باز نہ آئوں گا اور برابر چلتا رہوں گا جب تک کہ میں دو دریائوں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جائوں یا میں یونہی سالہا سال تک اور مدت دراز تک چلتا رہوں گا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اوپر ذکر ہوا تھا کہ کافر اپنی دنیا پر مغرور مفلس مسلمانوں کو ذلیل سمجھ کر حضرت سے چاہتے تھے کہ ان کو اپنے پاس نہ بٹھائو تو ہم بیٹھیں اسی پر دو بھائیوں کی کہاوت بیان کی اور ابلیس کا خراب ہونا اپنے غرور سے اب قصہ فرمایا موسیٰ اور خضر کا کہ اللہ والے لوگ بہتر ہوں تو آپ کو کسی سے بہتر نہیں کہتے۔ رسول نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم میں نصیحت فرماتے تھے ایک شخص نے پوچھا کہ یا موسیٰ تم سے بھی زیادہ کسی کو علم ہے کہا مجھ کو م علوم نہیں یہ بات تحقیق تھی پر اللہ کی خوشی تھی کہ یوں کہتے کہ مجھ سے بندے اللہ کے بہت ہیں سب کی خبر اسی کو ہے تب وحی آئی کہ ایک بندہ ہمارا ہے دو دریا کے ملاپ پاس اس کو علم زیادہ ہے تجھ سے موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی مجھ کو اس کی ملاقات میسر ہو حکم ہوا کہ ایک مچھلی تل کر ساتھ لو جہاں مچھلی گم ہو وہاں وہ ملے یہ جوان فرمایا یوشع کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خادم خاص تھے پیچھے ان کے روبرو پیغمبر ہوئے اور ان کے بعد خلیفہ ہوئے۔ 12