Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 8

سورة الكهف

وَ اِنَّا لَجٰعِلُوۡنَ مَا عَلَیۡہَا صَعِیۡدًا جُرُزًا ؕ﴿۸﴾

And indeed, We will make that which is upon it [into] a barren ground.

اس پر جو کچھ ہے ہم اسے ایک ہموار صاف میدان کر ڈالنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And verily, We shall make all that is on it bare, dry soil. means, `after having adorned it, We will destroy it and make everything on it bare and dry, with no vegetation or any other benefit.' Al-Awfi reported from Ibn Abbas that; this means everything on it would be wiped out and destroyed. Mujahid said: "a dry and barren plain." Qatadah said, "A plain on which there are no trees or vegetation."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 صعیدا۔ صاف میدان۔ جرز۔ بالکل ہموار۔ جس میں کوئی درخت وغیرہ نہ ہو، یعنی ایک وقت آئے گا کہ یہ دنیا اپنی تمام تر رونقوں سمیت فنا ہوجائے گی اور روئے زمین ایک چٹیل اور ہموار میدان کی طرح ہوجائے گی، اس کے بعد ہم نیک و بد کو ان کے عملوں کے مطابق جزا دیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧] کل من علیھا فان :۔ یہ لوگ اس وقت آسودہ حال ہیں اور دنیا کی لذتوں اور دلچسپیوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ ان کی یہ حالت بدستور قائم رہے اور اسلام کے غلبہ میں انھیں اپنی اس آسودہ حالی کی زندگی اور عزو جاہ کی موت نظر آتی ہے حالانکہ دنیا کی انہی دلچسپیوں کو ہم نے ایسے لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ بنادیا ہے ہم تو یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ عیش و عشرت کی ان فراوانیوں میں پھنس کر کوئی اللہ کی طرف بھی رجوع کرتا ہے یا نہیں اور یہ دنیا اور اس کی بہار تو محض ایک وقتی، عارضی اور فانی چیز ہے اور ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب اس زمین پر نہ لہلہاتے کھیت ہوں گے، نہ مہکتے ہوئے باغ، نہ مال و مویشی، بس یہ ایک چٹیل میدان ہوگی کسی کی ملکیت میں کوئی بھی چیز نہ ہوگی۔ یہ مال و اولاد، یہ غلام اور مویشی، یہ عزو جاہ کے سب وسائل ناپید ہوجائیں گے اس وقت اگر کوئی چیز کارآمد ہوگی تو انسان کے اچھے اعمال ہوں گے جو اس کے ساتھ جائیں گے لہذا انسان کو اپنی توجہ فانی چیزوں کی بجائے باقی رہنے والی چیزوں پر صرف کرنی چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَيْهَا ۔۔ : ” صَعِيْدًا “ مٹی، کیونکہ وہ سمندر سے اوپر اٹھی ہوئی ہے۔ ” صَعِدَ یَصْعَدُ “ چڑھنا۔ ” جُرُزًا “ چٹیل زمین، جس میں کوئی سبزہ نہ ہو۔ ” جُرِزَتِ الْأَرْضُ “ قحط یا ٹڈی دل کی وجہ سے زمین پر کوئی اگی ہوئی چیز نہ رہ گئی۔ سورة سجدہ میں فرمایا : (اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَاۗءَ اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا تَاْكُلُ مِنْهُ اَنْعَامُهُمْ وَاَنْفُسُهُمْ ۭ اَفَلَا يُبْصِرُوْنَ ) [ السجدۃ : ٢٧ ] ” اور کیا اس بات نے ان کی رہنمائی نہیں کی کہ ہم پانی کو چٹیل زمین کی طرف ہانک کرلے جاتے ہیں، پھر اس کے ذریعے کھیتی نکالتے ہیں جس میں سے ان کے چوپائے کھاتے ہیں اور وہ خود بھی، تو کیا وہ نہیں دیکھتے ؟ “ ان دونوں آیتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ کفار جن چیزوں پر اترا رہے ہیں وہ سب چند دن کے لیے زمین کی زینت ہیں، پھر ایک وقت آنے والا ہے کہ نہ اس پر کوئی مکان رہے گا نہ باغ، نہ سبزہ، نہ جانور، نہ آدمی، یعنی یہ ساری چہل پہل ختم ہوجائے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَيْہَا صَعِيْدًا جُرُزًا۝ ٨ۭ صعد الصُّعُودُ : الذّهاب في المکان العالي، والصَّعُودُ والحَدُورُ لمکان الصُّعُودِ والانحدار، وهما بالذّات واحد، وإنّما يختلفان بحسب الاعتبار بمن يمرّ فيهما، فمتی کان المارّ صَاعِداً يقال لمکانه : صَعُودٌ ، وإذا کان منحدرا يقال لمکانه : حَدُور، والصَّعَدُ والصَّعِيدُ والصَّعُودُ في الأصل واحدٌ ، لكنِ الصَّعُودُ والصَّعَدُ يقال للعَقَبَةِ ، ويستعار لكلّ شاقٍّ. قال تعالی: وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن/ 17] ، أي : شاقّا، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ، أي : عقبة شاقّة، والصَّعِيدُ يقال لوجه الأرض، قال : فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء/ 43] ، وقال بعضهم : الصَّعِيدُ يقال للغبار الذي يَصْعَدُ من الصُّعُودِ «1» ، ولهذا لا بدّ للمتیمّم أن يعلق بيده غبار، وقوله : كَأَنَّما يَصَّعَّدُ فِي السَّماءِ [ الأنعام/ 125] ، أي : يَتَصَعَّدُ. وأما الْإِصْعَادُ فقد قيل : هو الإبعاد في الأرض، سواء کان ذلک في صُعُودٍ أو حدور . وأصله من الصُّعُودُ ، وهو الذّهاب إلى الأمكنة المرتفعة، کالخروج من البصرة إلى نجد، وإلى الحجاز، ثم استعمل في الإبعاد وإن لم يكن فيه اعتبار الصُّعُودِ ، کقولهم : تعال، فإنّه في الأصل دعاء إلى العلوّ صار أمرا بالمجیء، سواء کان إلى أعلی، أو إلى أسفل . قال تعالی: إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] ، وقیل : لم يقصد بقوله إِذْ تُصْعِدُونَ إلى الإبعاد في الأرض وإنّما أشار به إلى علوّهم فيما تحرّوه وأتوه، کقولک : أبعدت في كذا، وارتقیت فيه كلّ مرتقی، وكأنه قال : إذ بعدتم في استشعار الخوف، والاستمرار علی الهزيمة . واستعیر الصُّعُودُ لما يصل من العبد إلى الله، كما استعیر النّزول لما يصل من اللہ إلى العبد، فقال سبحانه : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] ، وقوله : يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن/ 17] ، أي : شاقّا، يقال : تَصَعَّدَنِي كذا، أي : شَقَّ علَيَّ. قال عُمَرُ : ما تَصَعَّدَنِي أمرٌ ما تَصَعَّدَنِي خِطبةُ النّكاحِ «2» . ( ص ع د ) الصعود کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور نیچے اترنے کے لحاظ سے حدودکہاجاتا ہے کہا جاتا ہے اصل میں صعد وصعید وصعود وصعد کا لفظ عقبہ یعنی کھا ٹی پر بولا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر دشوار اور گراں امر کو صعد کہہ دیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن/ 17] اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیریگا وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرلیگا سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ہم اسے صعود پر چڑہائیں گے ۔ اور صعید کا لفظ وجہ الارض یعنی زمین کے بالائی حصہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء/ 43] تو پاک مٹی لو اور بعض نے کہا ہے کہ صعید اس گرد غیار کو کہتے ہیں جو اوپر چڑھ جاتا ہے لہذا نماز کے تیمم کے لئے ضروری ہے کہ گرد و غبار سے ہاتھ آلودہ ہوجائیں اور آیت کریمہ : ۔ كَأَنَّما يَصَّعَّدُ فِي السَّماءِ [ الأنعام/ 125] گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے ۔ میں یصعد اصل میں یتصعد ہے جس کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ۔ الاصعاد ( افعال ) بقول بعض اس کے معنی زمین میں دور تک چلے جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ جانا بلندی کیطرف ہو یا پستی کی طرف گو اس کے اصل معنی بلندجگہوں کی طرف جانا کے ہیں ۔ مثلابصرہ سے بخد یا حجازی کی طرف جانا بعد ہ صرف دور نکل جانے پر اصعاد کا لفط بولا جانے لگا ہے جیسا کہ تعال کہ اس کے اصل معنی علو بلندی کی طرف بلانے کے ہیں اس کے بعد صرف آنے کے معنی میں بطور امر استعمال ہونے لگا ہے عام اس سے وہ آنا بالائی کی طرف ہو یا پستی کی طرف قرآن میں ہے : ۔ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] جب تم لوگ دور نکلے جارہے تھے اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں اصعاد سے دور نکل جانا مراد ہے ۔ بلکہ اشارہ ہے کہ انہوں نے بھاگنے میں علو اختیار کیا یعنی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جیسے محاورہ ہے : ۔ ابعدت فی کذا وار تقیت فیہ کل مرتقی یعنی میں نے اس میں انتہائی کوشش کی لہذا آیت کے معنی یہ ہیں کہ تم نے دشمن کا خوف محسوس کرنے اور لگاتار ہزیمت کھانے میں انتہا کردی اور استعارہ کے طور پر صعود کا لفظ انسانی اعمال کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے جو خدا تک پہنچتے ہیں جیسا کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسان تک پہنچتی ہے اسے نزول سے تعبیر کیا جاتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن/ 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کریگا ۔ میں صعدا کے معنی شاق یعنی سخت کے ہیں اور یہ تصعدفی کذا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کیس امر کے دشوار اور مشکل ہونے کے ہیں ۔ چناچہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ( 4 ) ما تصعد لی امر ماتصعدنی خطبۃ النکاح کے مجھے کوئی چیز خطبہ نکاح سے زیادہ دشوار محسوس نہیں ہوتی ۔ جرز قال عزّ وجل : صَعِيداً جُرُزاً [ الكهف/ 8] ، أي : منقطع النبات من أصله، وأرض مَجْرُوزَة : أكل ما عليها، والجَرُوز : الذي يأكل ما علی الخوان، وفي المثل : لا ترضی شانئة إلا بِجَرْزَة أي : باستئصال، والجَارِز : الشدید من السّعال، تصوّر منه معنی الجرز، والجَرْزُ : قطع بالسیف، وسیف جُرَاز ( ج ر ز) جرز ۔ وہ زمین جس میں کچھ پیدا نہ ہوتا ہو فرمایا ؛ صَعِيداً جُرُزاً [ الكهف/ 8] بنجر میدان ۔۔ یعنی جس پر گھاس درخت وغیرہ کوئی چیز نہ ہو ۔ ارض مجروزۃ زمین جس سے گھاس چر کر ختم کردیا گیا ہو ۔ الجروز جو دسترخوان کو صاف کرڈٖالے ۔ مثل مشہور ہے ۔ لا ترضی شانیہ الا بجرزہ یعنی اس کے دشمن اس کا استیصال کئے بغیر خوش نہیں ہوں گے ۔ الجارز سخت کھانسی ( اس میں معنی جرز کا تصور پایا جاتا ہے ۔ الجراز تلوار سے کاٹنا ۔ سیف جراز شمشیر بزان

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨) اور ہم اس زمین کی تمام چیزوں کو اور اس رونق کو ایک صاف چٹیل میدان کردیں گے اور کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (وَاِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَيْهَا صَعِيْدًا جُرُزًا) قیامت برپا ہونے کے بعد اس زمین کی تمام آرائش و زیبائش ختم کر کے اسے ایک صاف ہموار میدان میں تبدیل کردیا جائے گا۔ نہ پہاڑ اور سمندر باقی رہیں گے اور نہ یہ حسین ود لکش عمارات۔ اس وقت زمین کی سطح ایک ایسے کھیت کا منظر پیش کر رہی ہوگی جس کی فصل کٹ چکی ہو اور اس میں صرف بچا کھچا سوکھا چورا ادھر ادھر بکھرا پڑا ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5. (Ayat 6 )was addressed to the Prophet (peace be upon him), but ( Ayats 7-8 ) have been directed to the disbelievers indirectly, as if to say: You must understand it clearly that all the things that you see in the world and which allure you, are a transitory adornment which has been arranged merely to test you, but it is a pity that you have been involved in the misunderstanding that all these things have been created to cater for your pleasure and enjoyment. That is why the only aim and object of life you have set before you is: Eat, drink and be merry. As a result of this you do not pay any attention to your true and real well wisher. You must understand it well that these things have not been provided for pleasure but are actually a means of testing you. You have been placed among them to see which of you is allured by these from the real aim of life and which of you keeps steadfast in the worship of Allah, for which you have been sent to the world. All these things and means of pleasure shall come to an end on the Day, your examination is over and nothing will remain on the earth because it will be turned into a bare plain.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :5 پہلی آیت کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے تھا اور ان دونوں آیتوں کو روئے سخن کفار کی جانب ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک حرف تسلی دینے کے بعد اب آپ کے منکرین کو مخاطب کیے بغیر یہ سنایا جا رہا ہے کہ یہ سروسامان جو زمین کی سطح پر تم دیکھتے ہو اور جس کی دلفریبیوں پر تم فریفتہ ہو ، یہ ایک عارضی زینت ہے جو محض تمہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے مہیا کی گئی ہے ۔ تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ یہ سب کچھ ہم نے تمہارے عیش و عشرت کے لیے فراہم کیا ہے ، اس لیے تم زندگی کے مزے لوٹنے کے سوا اور کسی مقصد کی طرف توجہ نہیں کرتے ، اور اسی لیے تم کسی سمجھانے والے کی بات پر کان بھی نہیں دھرتے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سامان عیش نہیں بلکہ وسائل امتحان ہیں جن کے درمیان تم کو رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تم میں سے کون اپنی اصل کو فراموش کر کے دنیا کی ان دلفریبیوں میں گم ہو جاتا ہے ، اور کون اپنے اصل مقام ( بندگی رب ) کو یاد رکھ کر صحیح رویے پر قائم رہتا ہے ۔ جس روز یہ امتحان ختم ہو جائے گا اسی روز یہ بساط عیش الٹ دی جائے گی اور یہ زمین ایک چٹیل میدان کے سوا کچھ نہ رہے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یعنی جتنی چیزوں سے یہ زمین سجی ہوئی اور بارونق نظر آتی ہے، ایک دن وہ سب فنا ہوجائیں گی، نہ کوئی عمارت باقی رہے گی، نہ پہاڑ اور درخت، بلکہ وہ ایک چٹیل اور سپاٹ میدان میں تبدیل ہوجائے گی۔ اُس وقت یہ حقیقت واضح ہوگی کہ دُنیا کی ظاہری خوبصورتی بڑی ناپائیدار تھی۔ اور یہی وہ وقت ہوگا جب آپ کے ساتھ ضد اور دُشمنی کا معاملہ کرنے والے اپنے بُرے انجام کو پہنچیں گے۔ لہٰذا اگر ان لوگوں کو دُنیا میں ڈھیل دی جا رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُنہیں بد عملی کے باوجود آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ لہٰذا نہ آپ کو زیادہ رنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے، اور نہ ان کے انجام پر فکر مند ہونے کی۔ آپ کا کام تبلیغ ہے، بس اُسی میں اپنے آپ کو مصروف رکھیئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨:۔ اوپر دنیا کی زیب وزینت کا ذکر فرما کر اس آیت میں فرمایا کہ ہم اس کو زینت ورونق کے بعد ایسا تباہ اور برباد کریں گے کہ ساری زمین ایک چٹیل میدان رہ جائے گی قتادہ کا قول ہے کہ صعید اس زمین کو کہتے ہیں جس میں کسی طرح کی روئیدگی نہ ہو صحیح مسلم میں جابر (رض) بن عبداللہ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے زمانہ کے لوگوں کے حق میں فرمایا سو برس کے اندر ان میں سے شاذونادر کوئی زندہ رہے ١ ؎۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی اور صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) کی روایت سے جو حدیثیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ بازاروں میں کپڑوں کے تھان ‘ جنگل میں کھیتیاں ‘ باغ غرض نہریں سب کچھ یوں ہی پڑا رہے گا کہ یکایک پہلے صور کی آواز سے سب مخلوقات بالکل فنا ہوجائے ٢ ؎۔ صحیح بخاری میں سہل بن سعد (رض) اور صحیح سند سے شعب الایمان بیہقی میں عبد اللہ بن مسعود (رض) کی جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جس زمین پر لوگوں کا حشر قائم ہوگا اس پر کھیتی باغ پہاڑ مکان دنیا کی زمین کی چیزوں میں سے کوئی چیز نہ ہوگی نہ اس زمین پر کسی گنہگار شخص نے کوئی گناہ کیا ہوگا ٣ ؎۔ مطلب یہ ہے کہ یہ زمین فنا ہو کر حشر کے لیے دوسری نئی زمین پیدا ہوگی ‘ ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سو برس کے اندر مکہ کے ان لوگوں میں سے کوئی شخص باقی نہ رہے گا جو مکہ کے پہاڑوں کے دور ہٹ جانے اور ان کی جگہ کھیتی کے لیے زمین کے نکل آنے کی اور مکہ میں نہروں کے جاری ہوجانے کی تمنا رکھتے ہیں اور پھر ان کی نسل میں سے جو لوگ پہلے صور کے زمانہ میں ہوں گے کھیتیاں باغ نہریں سب کچھ چھوڑ کر مرجائیں گے اور پھر آخر یہ زمین ہی نہ رہے گی جس پر کھیتی کی جاتی ہے باغ لگائے جاتے ہیں نہریں جاری کی جاتی ہیں یہ ان لوگوں کی بڑی نادانی ہے کہ ان کو ہمیشہ سرسبز رہنے والے باغوں ہمیشہ جاری رہنے والی نہروں کے قبضہ میں لانے کی تدبیر بتلائی جاتی ہے اور یہ لوگ اس سے غافل اور جھوڑ جانے کی چیزوں کی تمنا میں لگے ہوئے ہیں۔ ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے شداد بن اوس کی معتبر روایت کئی جگہ گزر چکی ہے ٤ ؎۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقلمند وہ شخص ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کے لیے کچھ سامان کر لیوے اور نادان وہ شخص ہے جو اس سامان سے عمر بھر غافل رہے اور مرنے کے بعد بہبودی کی توقع رکھے اہل مکہ میں کے جن لوگوں کی نادانی کا ذکر اوپر گزرا ان کی حالت اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨٠ باب قرب الساعتہ۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٢٩٣ کتاب البعث واہوال یوم القیامتہ۔ ٣ ؎ الترغیب صر ٢٩٤ ج ٢ صفل فی الحشر وغیرہ۔ ٤ ؎ مثلا تفسیر ہذا جلد دوم ص ١٦٩۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:8) صعیدا۔ زمین ۔ خاک۔ صعود مصدر جس کے معنی بلند ہونے کے ہیں۔ صعیدبروزن فعیل۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ جرزا۔ بنجر ۔ چٹیل۔ جرز سے جس کے معنی کاٹ دینے اور کھا کر صاف کردینے کے ہیں صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ یعنی وہ زمین جس کے درخت اور گھاس چھانٹ دئیے گئے ہوں۔ چونکہ چٹیل میدان اور بنجر زمین درختوں اور گھاس سے خالی ہوتی ہے اس لئے جرز کہلاتی ہے۔ یعنی ایک دن ہم اس سرسبز و شاداب زمین کو چٹیل میدان بنادیں گے (یہ اپنی صنعت ِ ایجاد کے بعد حکمت اعدام کی طرف اشارہ ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 نہ کوئی مکان رہے گا نہ باغ نہ سبزہ نہ جانور نہ آدمی یعنی یہ ساری چہل پہل ختم ہوجائے گی۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ کفار قریش نے تعلیم یہود امتحان نبوت ہی کے لئے آپ سے تین سوال کئے تھے، ایک روح کے متعلق جس کا جواب سورت سابقہ میں گزر چکا ہے، ایک اصحاب کہف کا قصہ جو ابھی مذکور ہوتا ہے، ایک ذو القرنین کا قصہ جو اس سورت کے آخر میں آوے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وانا لجعلون ما علیھا صعیدا جرزا (٨١ : ٨) ” آخر کار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔ “ تعبیر فیصلہ کن انداز کی ہے۔ منظر بھی سخت ہے۔ (جرزاً ) کا کلمہ لفظاً اور معنی خشکی اور بےآب وگیاہ میدان کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح لفظ (صعیداً ) بھی میدان ، ہمواری اور سختی کو لفظاً اور معنی ظاہر کرتا ہے۔ …… اب قصہ اصحاب کہف آتا ہے۔ یہ ایسے لوگوں کا ایک نمونہ پیش کرتا ہے جن کے دلوں میں ایمان بیٹھ جاتا ہے اور جب ایمان دلوں میں اتر جاتا ہے تو وہ اطمینان اور سکون سے اس طرح بھر جاتے ہیں جس طرح اصحاب کہف تھے۔ پھر یہ دل زمین کی آرائش اور زیب وزینت کو کچھ نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ غار میں پناہ لیتے ہیں ، غار میں کیا چیز لے جا کر چھپاتے ہیں ؟ ایمان اور صرف دولت ایمان۔ یہ لوگ اس وقت غار میں جاتے ہیں جب وہ ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے لوگوں میں نہیں رہ سکتے۔ اب دیکھئے کہ اللہ ایسے لوگوں کو کس طرح بچاتا ہے۔ ان کو فتنوں سے محفوظ کرتا ہے اور اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے۔ اس قصے کے بارے میں بیشمار روایات ہیں اور بہت سی آراء ہیں اور قصے کہانیوں کی بعض پرانی کتابوں میں ان کے بارے میں مختلف روایات ہیں ہمارا طریق کار یہ ہے کہ ہم قرآن کی حد تک اپنے آپ کو محدود کرتے ہیں ، کیونکہ قرآن ہی واحد یقینی مصدر علم ہے۔ روایات اور قصوں کو ہم ان کی جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ روایات ہمارے تفسیری دخیرے میں راہ پا گئی ہیں۔ بغیر سند اور صحت کی جانچ پڑتال کئے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ قرآن نے اس بات سے منع کیا ہے کہ اس سلسلے میں غیر قرآنی مصادر کی طرف ہرگز رجوع نہ کیا جائے اور اس میں محتض تیر تکے نہ چلائے جائیں۔ اس قصے اور ذوالقرنین کے قصے کے نزول کے سلسلے میں ایسی روایات وارد ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے اہل مکہ کو سوالات دے کر ابھارا کہ یہ سوالات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئے جائیں۔ ان دو قصوں کے بارے میں اور روح کے بارے میں یا اہل مکہ نے یہودیوں سے امداد طلبک رتے ہوئے یہ کہا کہ ہمیں کچھ ایسے سوالات بتائو تاکہ ہم ان کے ذریعے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے امتحان لیں یہ دونوں باتیں صحیح ہو سکتی ہیں کیونکہ ذوالقرنین کے قصے کی ابتدا میں ہے۔ ویسئلونک عن ذی القرنین قل ساتلو علیکم منہ ذکراً (٨١ : ٣٨) ” وہ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو میں اس کے بارے میں تمہیں بتائوں گا۔ “ لیکن قصہ اصحاب کہف کے بارے میں اس قسم کی بات نہیں آئی۔ اس لئے ہم اس قصے کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ قصہ بذات خود سورت کے محور اور موضوع کلام سے واضح طور پر مربوط ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے یہ بات کہہ دی ہے۔ فنی اعتبار سے اس قصے کو پیش کرنے کے لئے قرآن میں جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ وہ پہلے اجمالی تخلیص کا ہے اور پھر اس کی تفصیلات پر بحث کا ہے۔ یہ قصہ کئی مناظر کی شکل میں پیش کیا گیا ہے لیکن مختلف مناظر کے درمیان خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ مضمون اور سیاق کلام سے یہ خلا خود بخود ذہن میں آجاتے ہیں اس قصے کا آغاز یوں ہے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” صعیدا “ مٹی۔ ” جرزا “ ایسا میدان جس میں کوئی سبزہ نہ ہو۔ یعنی زمین کی یہ رونق وزینت ہمیشہ رہنے والی نہیں اسے ایک دن (قیامت کے دن) ہم تباہ کردیں گے۔ اور زمین بالکل صاف چٹیل میدان ہوجائے گی۔ اس لیے یہ بھروسے کی چیز نہیں نہ اس پر اس قدر مغرور ہونا چاہیے۔ یہاں تک تمہید ختم ہوگئی اس کے بعد چار شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8 اور یقینا ہم زمین کے اوپر کی تمام چیزوں کو ایک صاف اور چٹیل میدان کرنے والے ہیں۔ یعنی ایک دن ایسا ہوگا کہ جو کچھ زمین پر ہے خواہ وہ پہاڑوں یا اشجار ہوں یا عمارات اور محلات ہوں سب کو صاف کر کے زمین کو ایک میدان کردیا جائے گا۔ قاعاً صفصفا لاتری فیھا عوجا ولا امتاً ۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی گھاس اور درخت چھانٹ کر۔ 12