Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 95

سورة الكهف

قَالَ مَا مَکَّنِّیۡ فِیۡہِ رَبِّیۡ خَیۡرٌ فَاَعِیۡنُوۡنِیۡ بِقُوَّۃٍ اَجۡعَلۡ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ رَدۡمًا ﴿ۙ۹۵﴾

He said, "That in which my Lord has established me is better [than what you offer], but assist me with strength; I will make between you and them a dam.

اس نے جواب دیا کہ میرے اختیار میں میرے پروردگار نے جو دے رکھا ہے وہی بہتر ہے تم صرف قوت طاقت سے میری مدد کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ ... He said: "That in which my Lord had established me is better (than your tribute). meaning, the power and authority that Allah has given me is better for me than what you have collected. This is like when Suleiman (Solomon), peace be upon him, said: أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَأ ءَاتَـنِى اللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّأ ءَاتَـكُمْ Will you help me in wealth What Allah has given me is better than that which He has given you! (27:36) Similarly, Dhul-Qarnayn said: `What I have is better than what you want to give me, but help me with strength,� i.e., with your labor and construction equipment, ... فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ ... So help me with strength, ... أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

95۔ 1 قوت سے مراد یعنی تم مجھے تعمیراتی سامان اور رجال کار مہیا کرو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] چناچہ ذوالقرنین نے ان کی اس درخواست کو منظور کرلیا اور کہا تمہاری مالی امداد کی مجھے ضرورت نہیں اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ موجود ہے البتہ لیبر یا مزدور تم مہیا کردو تو میں ایسی دیوار بنوادوں گا۔ علاوہ ازیں مجھے کچھ لوہے کی چادریں اور دوسرا سامان تعمیر مہیا کرنا تمہاری ذمہ داری ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ مَا مَكَّــنِّيْ فِيْهِ رَبِّيْ خَيْرٌ : ذوالقرنین نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے جو کچھ میری دسترس میں دیا ہے وہ تمہارے دیے ہوئے اخراجات سے کہیں بہتر ہے، سو تم خرچ کی فکر مت کرو۔ ہاں، تم عملی طور پر آدمیوں اور محنت کے ساتھ میری مدد کرو، تاکہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک موٹی دیوار بنا دوں۔ اس سے ذوالقرنین کی سیر چشمی، فراخ دلی اور سخاوت نفس کے ساتھ ساتھ رعایا کو دشمن سے محفوظ رکھنے کے لیے مضبوط ترین دفاع کا بندوبست کرنا واضح ہوتا ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) نے بھی ملکہ سبا کو ہدیے بھیجنے پر ایسا ہی جواب بھیجا تھا : (فَمَآ اٰتٰىـنِۦ اللّٰهُ خَيْرٌ مِّمَّآ اٰتٰىكُمْ ) [ النمل : ٣٦ ] ” جو کچھ اللہ نے مجھے دیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے۔ “ رعایا کی زندگی کے ایک ایک لمحے تک پر ٹیکس لگا دینے والے جمہوری حکمران، جو ملوکیت کو گالی قرار دیتے ہیں، رعایا کے لیے اللہ کی رحمت بننے والے ملوک کے طرز عمل سے سبق حاصل کریں۔ فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُــوَّةٍ ۔۔ : ” رَدْمًا “ کا معنی خالی جگہ کو پتھروں سے پر کرنا اور پتھروں کی بنی ہوئی موٹی دیوار ہے، ” سَحَابٌ مُرْدَمٌ“ تہ بہ تہ بادل۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ مَا مَكَّــنِّيْ فِيْہِ رَبِّيْ خَيْرٌ فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُــوَّۃٍ اَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَہُمْ رَدْمًا۝ ٩٥ۙ مكن المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] ( م ک ن ) المکان اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا [ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ ردم الرَّدْمُ : سدّ الثّلمة بالحجر، قال تعالی: أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْماً [ الكهف/ 95] ، والرَّدْمُ : الْمَرْدُومُ ، وقیل : المُرْدَمُ ، قال الشاعر هل غادر الشّعراء من مُتَرَدَّمٍ«6» وأَرْدَمْتُ عليه الحمّى «7» ، وسحاب مُرَدَّمٌ «8» . ( ر دم ) الردم ۔ پتھروں سے کسی شگاف کو بند کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْماً [ الكهف/ 95] میں تم ( لوگوں ) میں اور ان ( لوگوں ) میں ایک روک بنا دوں ۔ ردم بمعنی مردم ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( الکامل ) (180) ھل غادر الشعراء میں متردم کیا شعراء قدیم نے کوئی قابل اصلاح مقام چھوڑا ہے ( جس پر طبع آزمائی کی جائے ) اردمت علیہ الحمی کسی کو دائمی بخار رہنا ۔ سحاب مردم ساکن اور ایک جگہ پر ٹھہرنے والا بادل ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٥ (قَالَ مَا مَكَّــنِّيْ فِيْهِ رَبِّيْ خَيْرٌ) کہ مجھے تمہارے خراج وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے بہتر مال تو میرے رب نے مجھے پہلے ہی عطا کر رکھا ہے۔ بہرحال تمہارے اس مسئلے کو میں حل کیے دیتا ہوں۔ اس جملے سے ذوالقرنین کے کردار کی عکاسی ہوتی ہے۔ (فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُــوَّةٍ اَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا) دیوار بنانے کے لیے جو مادی اسباب و وسائل درکار ہیں وہ میں مہیا کرلوں گا۔ آپ لوگ اس سلسلے میں محنت و مشقت اور افرادی قوت (man power) کے ذریعے میرا ہاتھ بٹاؤ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

70. That is, as a ruler it is my duty to protect you from the ravages of your enemies: therefore it is not lawful for me to levy any extra taxes on you for this purpose. The treasury that Allah has placed in my custody suffices for this purpose. You shall, however, have to help me with your manual labor.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :70 یعنی فرمانروا ہونے کی حیثیت سے میرا یہ فرض ہے کہ اپنی رعایا کو غارت گروں کے حملے سے بچاؤں ۔ اس ملک کے لیے تم پر کوئی الگ ٹیکس لگانا میرے لیے جائز نہیں ہے ۔ ملک کا جو خزانہ اللہ تعالیٰ نے میرے حوالے کیا ہے وہ اس خدمت کے لیے کافی ہے ۔ البتہ ہاتھ پاؤں کی محنت سے تم کو میری مدد کرنی ہوگی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:95) مکنی۔ اصل میں مکننی تھا۔ مکن واحد مذکر غائب ماضی۔ تمکین تفعیلمصدر۔ نون وقایہ یضمیر مفعول واحد متکلم۔ اس نے مجھے جگہ دی۔ اس نے مجھے با اقتدار بنایا۔ اس نے مجھے اختیار دیا۔ اس نے مجھے (جس سلطنت، مال و دولت و دیگر اسباب پر) قدرت دی ہے۔ ما مکنی فیہ ربی۔ وہ دولت و اقتدار ومال و اسباب جس پر میرے رب نے مجھے اختیار دیا ہے۔ اعینونی۔ اعانۃ مصدر سے امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ن وقایہ یضمیر واحد متکلم۔ بقوۃ۔ جسمانی مشقت۔ سخت۔ اجعل مضارع مجزوم واحد متکلم۔ مجزوم بوجہ جواب امر کے ہے۔ ردما۔ موٹی دیوار۔ سد محکم۔ ردم یردم (ضرب) کا مصدر ہے جس کا معنی رخنہ کو پتھروں سے بند کردینا ہے۔ یہاں مصدر بمعنی اسم مفعول ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

81:۔ ذو القرنین نے جواب دیا کہ مجھے دولت کی ضرورت نہیں جو دولت اللہ نے مجھے عطا فرمائی ہے، وہی کافی ہے تم لوگ صرف قوت بازو اور کام سے میری مدد کرو، میں اپنے خرچ سے ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا۔ ” ردما “ بہت بڑی اور مضبوط دیوار۔ ای حاجزا حصینا و حجابا متینا (روح ج 16 ص 40) ۔ بعض لوگ کہتے ہیں۔ اس سے دیوار چین مراد ہے۔ جو بارہ کوس لمبی ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

95 ذوالقرنین نے کہا کہ میرے پروردگار نے مجھے جس مال پر اقتدار اور اختیار دیا وہ بہتر اور کافی ہے یعنی چندہ جمع کرنے اور بچھ کا مال اکٹھا کرنے کی ضرورت نہیں البتہ تم اتنا کرو کہ ہاتھ پائوں سے میری امداد کروتو میں تمہارے اور … یاجوج ماجوج کے مابین ایک مضبوط دیوار بنا دوں اور اس درے کو بند کر دوں۔ یعنی میرے پروردگار نے مجھے جس مال پر تصرف کا اختیار دے رکھا ہے وہ کافی ہے مجھے تو ہاتھ بٹانے والوں کی ضرورت ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی مال میرے پاس بہت ہے مگر ہاتھ پائوں سے ہمارے ساتھ تم بھی محنت کرو۔ 12