Surat Marium

Surah: 19

Verse: 82

سورة مريم

کَلَّا ؕ سَیَکۡفُرُوۡنَ بِعِبَادَتِہِمۡ وَ یَکُوۡنُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ ضِدًّا ﴿۸۲﴾٪  8

No! Those "gods" will deny their worship of them and will be against them opponents [on the Day of Judgement].

لیکن ایسا ہرگز نہیں ۔ وہ تو ان کی پوجا سے منکر ہوجائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

كَلَّ سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ ... Nay, but they will deny their worship of them, (on the Day of Judgement). ... وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا and will become their adversaries. This means that they will be foes in a state other than what they think about these gods. This is similar to Allah's statement, وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لاَّ يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَـمَةِ وَهُمْ عَن دُعَأيِهِمْ غَـفِلُونَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُواْ لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُواْ بِعِبَادَتِهِمْ كَـفِرِينَ And who is more astray than one who calls upon, besides Allah, such as will not answer him till the Day of Resurrection, and who are (even) unaware of their calls to them And when mankind are gathered, they will become their enemies and will deny their worshipping. (46:5-6) As-Suddi said, كَلَّ سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ (Nay, but they will deny their worship of them), "This means their worshipping of the idols. " Allah said, ... وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا and will become their adversaries, contrary to what they hoped for from these gods. As-Suddi said, "They will be in severe opposition and argument." Ad-Dahhak said, "This means enemies." The Power of the Devils over the Disbelievers Concerning Allah's statement, أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَوُزُّهُمْ أَزًّا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

82۔ 1 عِزًّا کا مطلب ہے یہ معبود ان کے لئے عزت کا باعث اور مددگار ہوں گے اور ضِدًّا کے معنی ہیں، دشمن، جھٹلانے والے اور ان کے خلاف دوسروں کے مددگار۔ یعنی یہ معبود ان کے گمان کے برعکس ان کے حمایتی ہونے کی بجائے، ان کے دشمن، ان کو جھٹلانے والے اور ان کے خلاف ہونگے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٥] یعنی وہ کہہ دیں گے کہ ہم نے ان سے کب کہا تھا کہ وہ ہماری عبادت کیا کریں۔ نیز ہمیں تو آج تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ ہماری عبادت کرتے بھی رہے ہیں یا نہیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَلَّا ۭ سَيَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ : انکار اس معنی میں کریں گے کہ وہ کہیں گے، ہم نے کبھی ان سے نہیں کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو، یا ہمیں مصیبت کے وقت پکارو اور نہ ہمیں یہ خبر تھی کہ وہ ہماری عبادت کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات کئی جگہ بیان فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة یونس (٢٨، ٢٩) ، نحل (٨٦) ، قصص (٦٣) ، فاطر (١٣، ١٤) اور احقاف (٥، ٦) اسی طرح کفار بھی اپنے معبودوں کی عبادت سے مکر جائیں گے اور ان کے خلاف ہوجائیں گے، بلکہ قسم کھا کر کہیں گے کہ اللہ کی قسم ! ہم مشرک نہیں تھے۔ دیکھیے سورة انعام (٢٣) بلکہ وہ اور ان کے معبود ایک دوسرے کو لعنت کریں گے۔ دیکھیے عنکبوت (٢٥) اور سورة بقرہ (١٦٦، ١٦٧) ۔ وَيَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا : یعنی بجائے اس کے کہ وہ ان کے لیے بچاؤ یا عزت کا سبب بنیں، الٹا ان کی پکڑ کا سبب بنیں گے اور قیامت کے دن ان کے شدید مخالف اور ان کے لیے باعث حسرت ہوں گے۔ بیشمار معبودوں کے لیے ” ضِدًّا “ واحد کا لفظ استعمال فرمایا، کیونکہ ” ضِدًّا “ کا لفظ مصدر ہے، جو واحد و جمع اور مذکر و مؤنث سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان پوجنے والوں کے خلاف ان کے معبودوں کے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے ان کو ” شَیْءٌ وَاحِدٌ“ (ایک ہی چیز) فرض کرکے واحد کا صیغہ لایا گیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام مسلمانوں کے متعلق فرمایا : ( وَ ھُمْ یَدٌ عَلٰی مَنْ سِوَاھُمْ ) [ أبوداوٗد، الدیات، باب أیُقاد المسلم من الکافر ؟ : ٤٥٣٠۔ نسائی : ٤٧٣٨۔ صحیح الجامع : ٦٦٦٦ ] ” وہ اپنے سوا سب کے مقابلے میں ایک ہاتھ ہوتے ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا |"And they will be just the opposite for them|" - 19:82. The idols and the false gods whom the infidels worshipped in the hope of winning their help will turn against them on the Day of Judgment. God will grant speech to them and they will say, |"0 God! Finish these sinners because they turned away from you and made us the objects of their worship.|"

وَيَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا، یعنی یہ خود تراشیدہ بت اور معبود باطل جن کی عبادت اس لئے کرتے تھے کہ یہ ان کے مددگار ثابت ہوں گے محشر میں اس کے برعکس یہ ان کے دشمن ہوجاویں گے اللہ تعالیٰ ان کو نطق و زبان عطا فرماویں گے اور یہ بولیں گے کہ یا اللہ ان کو عذاب و سزا دیجئے کہ انہوں نے تجھ کو چھوڑ کر ہمیں معبود بنا لیا تھا۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَلَّا۝ ٠ۭ سَيَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَيَكُوْنُوْنَ عَلَيْہِمْ ضِدًّا۝ ٨٢ۧ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ ضد قال قوم : الضِّدَّانِ الشيئان اللّذان تحت جنس واحدٍ «2» ، وينافي كلّ واحد منهما الآخر في أوصافه الخاصّة، وبینهما أبعد البعد کالسّواد والبیاض، والشّرّ والخیر، وما لم يکونا تحت جنس واحد لا يقال لهما ضِدَّانِ ، کالحلاوة والحرکة . قالوا : والضِّدُّ هو أحد المتقابلات، فإنّ المتقابلین هما الشيئان المختلفان، اللّذان کلّ واحد قبالة الآخر، ولا يجتمعان في شيء واحد في وقت واحد، وذلک أربعة أشياء : الضِّدَّانِ کالبیاض والسّواد، والمتناقضان : کالضّعف والنّصف، والوجود والعدم، کالبصر والعمی، والموجبة والسّالبة في الأخبار، نحو : كلّ إنسان هاهنا، ولیس کلّ إنسان هاهنا «3» . وكثير من المتکلّمين وأهل اللغة يجعلون کلّ ذلک من المُتَضَادَّاتِ ، ويقولون : الضِّدَّانِ ما لا يصحّ اجتماعهما في محلّ واحد . وقیل : اللہ تعالیٰ لا ندّ له ولا ضِدَّ ، لأنَّ النِّدَّ هو الاشتراک في الجوهر، والضِّدَّ هو أن يعتقب الشيئان المتنافیان علی جنس واحد، والله تعالیٰ منزّه عن أن يكون جوهرا، فإذا لا ضِدَّ له ولا ندّ ، وقوله : وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا [ مریم/ 82] ، أي : منافین لهم . ( ض دد ) بعض نے کہا ہے ضدان ان دو چیزوں کو کہا جاتا ہے جو ایک جنس کے تحت ہوں مگر ان میں سے ہر ایک اپنے خصوصی اوصاف کے باعث دوسری سے مخالف ہو اور ان میں انتہائی بعد پایا جائے ۔ جیسے سفیدی وسیاہی اور خیروشر اور جو دومتغایر چیزیں ایک جنس کے تحت نہ ہوں انہیں ضدان نہیں کہا جاتا ہے جیسے حلاوت اور حرکت ۔ علماء نے کہا ہے کہ ضد متقابلات کی ایک قسم کا نام ہے کیونکہ وہ دو چیزیں جن میں ذاتی اختلاف ہو اور یہ دونوں بیک وقت ایک جگہ میں اکٹھی نہ ہوسکتی ہوں انہیں متقابلین کہاجاتا ہے اور تقابل چار قسم پر ہے (1) تقابل تضاد جیسے سفیدی اور سیاہی (2) تقابل تناقض جیسے ضعف ( دوچند ) اور نصف (3) تقابل عدم ملکہ جیسے بصر و عمی ۔ (4) تقابل ایجاب وسلب جو جملہ خبریہ میں ہوتا ہے جیسے اکثر متکلمین اور ا ہل لغت ان سب کو تقابل تضاد کی فہرست میں شامل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ضدان ان دوچیزوں کو کہاجا تا ہے جو ایک محل میں جمع نہ ہوسکتی ہوں اور ذات باری تعالیٰ کے متعلق لاندلہ ولا ضلہ لہ کہہ کر دونوں کو نفی کی جاتی ہے کیونکہ ند شریک فی الجوہر کو کہتے ہیں اور ان دو متخالف چیزوں کو ایک دوسری کی ضد کہاجاتا ہے جو ایک جنس کے تحت علی سبیل التعاقب پائی جاتی ہوں اور چونکہ ذات باری تعالیٰ جو ہریت اور جنسیت دونوں سے منزہ ہے اس لئے نہ اس کا کوئی ندہوسکتا ہے اور ضد اور آیت کریمہ : وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا [ مریم/ 82] اور وہ انکے دشمن اور مخالف ہوں گے ۔ میں ضد کے معنی دشمن اور مخالف کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٢) ہرگز یہ بت ان کی عذاب الہی سے حفاظت نہیں کرسکتے بلکہ ان کے وہ معبود تو ان کی عبادت ہی کا انکار کردیں گے اور ان کے یہ بت ان کفار کے خلاف اور ان کے عذاب کی زیادتی کی حمایت کریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٢ (کَلَّاط سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ ) ” یہ مضمون قرآن میں بار بار آیا ہے کہ وہ ہستیاں جنہیں یہ لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے رہے ہوں گے ‘ وہ فرشتے ہوں ‘ اولیاء اللہ ہوں یا انبیاء ہوں ‘ قیامت کے دن وہ سب ایسے مشرکین سے اظہار برا ءت کردیں گے اور کہیں گے کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ تم لوگ دنیا میں ہماری پرستش کرتے رہے ہو ‘ ہم سے دعائیں مانگتے رہے ہو اور سمجھتے رہے ہو کہ ہم تم لوگوں کو اللہ کے عذاب سے چھڑا لیں گے !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50. That is, they will say: We never asked them to worship us nor were we aware that these foolish people were worshiping us.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :50 یعنی وہ کہیں گے کہ نہ ہم نے کبھی ان سے کہا تھا ہماری عبادت کرو ، اور نہ ہمیں یہ خبر تھی کہ یہ احمق لوگ ہماری عبادت کر رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:82) کلا۔ حرف ردع وزجر۔ ہرگز نہیں۔ ضدا۔ مخالف۔ دشمن۔ واحد اور جمع دونوں کے لئے ہے۔ بوجہ حال کے منصوب ہے۔ سیکفرون میں ضمیر فاعل معبودان باطل کے لئے ہے۔ بعبادتہم میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب غیر اللہ کو پوجنے والوں کی طرف راجع ہے۔ یکونون میں ضمیر فاعل جمع مذکر غائب پھر معبودان باطل کے لئے ہے۔ اور علیہم میں ہم ضمیر کا مرجع وہی غیر اللہ کو پوجنے والے ہیں۔ ترجمہ ہوگا :۔ وہ معبودان باطل ان کی عبادت سے انکار کریں گے اور (الٹے) ان کے دشمن ہوجائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی بجائے اس کے کہ وہ ان کے لئے بچائو کا سبب بنیں الٹا ان کی پکڑ کا سبب بنیں گے اور باعث حسرت، ان معبودوں کے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے ان کوشی واحد فرض کر کے ” ضدا “ صیغہ واحد کا لا گیا ہے کہ حدیث میں ہے، وھم ید علی من سواھم (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ویکونون علیھ ضدا (٩١ : ٢٨) ” اور یہ الٹے ان کے مخالف بن جائیں گے “۔ یعنی ان سے بری الذمہ ہوجائیں گے اور ان کے خلاف شہادت دیں گے “۔ جو شیاطین ان کو اس کام پر اکسا رہے ہیں ‘ یہ ہم نے ان پر مسلط کیے ہیں۔ ان کو اللہ نے اجازت دے رکھی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ورغلا سکتے ہیں اور یہ اس وقت سے ماذون ہیں جب سے ابلیس نے اللہ سے اجازت چاہی کہ مجھے مہلت دیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

57:۔ یہ مشرکین کا رد ہے کہ جس غرض کے لیے انہوں نے اللہ کے نیک بندوں کو خدا کا شریک بنا رکھا ہے۔ وہ غرض انہیں کبھی میسر نہیں ہوگی۔ اللہ کے بندے ان کی عبادت پر خوش ہونے کے بجائے قیامت کے دن ان کی عبادت اور پکار کا انکار کریں گے اور ان مشرکین کے خلاف ہوجائیں گے۔ یہ آیت انبیاء علیہم السلام، اولیاء کرام اور فرشتوں کے حق میں ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

82 ایسا ہرگز نہیں ہوگا بلکہ وہ معبود تو قیامت میں ان مشرکوں کی عبادت ہی سے انکار کردیں گے۔ اور وہ معبودان باطلہ ان مشرکوں کے مخالف اور دشمن ہوجائیں گے۔ یعنی جن کی پرستش کیا کرتے تھے وہ مدد تو کیا خاک کرتے اور عزت تو کیا نصیب ہوتی ان کے طرز عمل سے اور ذلت و روسائی ہو گیوہ ان کی پرستش کا ہی انکار کریں گے کہ ہم تو ان کو جانتے بھی نہیں کیسی عبادت ان کنا عن عبادتکم لغافلین اور مزید برآں وہ ان مشرکوں سے لڑنے کو تیار ہوجائیں گے اور ان کے دشمن اور سخت مخالف ہوجائیں گے۔ واذا حشر الناس کانوا لھم اعداء وکانوا بعبادتھم کافرین غیروں کی عبادت کا ان مشرکوں کو یہ صلہ ملے گا کہ جن سے عزت و نصرت کی امید باندھی تھی وہی موجب ذلت اور موجب شکست ہوں گے۔