Surat Marium

Surah: 19

Verse: 83

سورة مريم

اَلَمۡ تَرَ اَنَّـاۤ اَرۡسَلۡنَا الشَّیٰطِیۡنَ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ تَؤُزُّہُمۡ اَزًّا ﴿ۙ۸۳﴾

Do you not see that We have sent the devils upon the disbelievers, inciting them to [evil] with [constant] incitement?

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ہم کافروں کے پاس شیطانوں کو بھیجتے ہیں جو انہیں خوب اکساتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

See you not that We have sent the Shayatin against the disbelievers to push them to do evil. Ali bin Abi Talhah said that Ibn Abbas said, "They will lead them astray with temptation." Al-Awfi said that Ibn Abbas said, "They will incite them against Muhammad and his Companions." Qatadah said, "They will harass them and disturb them until they disobey Allah." Abdur-Rahman bin Zayd said, "This is similar to Allah's statement, وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَـنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَاناً فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ And whosoever turns away blindly from the remembrance of the Most Gracious, We appoint for him a Shaytan to be a companion for him." (43:36) Concerning Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

83۔ 1 یعنی گمراہ کرتے، بہکاتے اور گناہ کی طرف کھینچ کرلے جاتے ہیں

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۧاَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ ۔۔ :” اَزَّا “ قاموس میں ہے : ” أَزَّ یَءِزُّ “ اور ” اَزَّ یَؤُزُّ اَزًّا “ (ض، ن) ” أَزَّ الشَّیْءَ “ اس نے کسی چیز کو سخت حرکت دی۔ ” اَزَّ النَّارَ “ اس نے آگ کو بھڑکایا۔ ” اَزَّتِ الْقِدْرُ “ ہانڈی سخت ابلنے لگی۔ ” أَزِیْزٌ کَأَزِیْزِ الْمِرْجَلِ “ ہانڈی ابلنے جیسی آواز۔ یعنی کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کافر لوگ، جنھوں نے طے کر رکھا ہے کہ انھوں نے کسی صورت حق کو تسلیم نہیں کرنا، ہم نے ان پر شیاطین کو مسلط کردیا ہے، جو انھیں برائی پر شدت سے ابھارتے رہتے ہیں اور انھیں گناہوں کی آگ میں اس طرح مسلسل جھونکے رکھتے ہیں کہ وہ اسی پیچ و تاب میں ہانڈی کی طرح ابلتے اور شعلوں کی طرح بھڑکتے رہتے ہیں۔ (بقاعی) اس آیت کی ہم معنی اور وضاحت کرنے والی آیات کے لیے دیکھیے سورة زخرف (٣٦، ٣٧) ، حم السجدہ (٢٥) ، اعراف (٢٠٢) اور بنی اسرائیل (٦٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary تَؤُزُّهُمْ أَزًّا |"Inciting them with all their incitements|" - 19:83. In Arabic language the words حَضّ – فَزّ – اَزّ - ھَزّ are synonymous, differing only in shade or degree, and mean to urge, incite, instigate. The word اَزّ means to apply strong pressure, to persuade somebody to do something. The sense of this verse is that the Devils instigate the unbelievers to persist in their evil ways by presenting before their eyes the benefits and hiding from them the wickedness of their evil deeds.

خلاصہ تفسیر (آپ جو ان کی گمراہی سے غم کرتے ہیں تو) کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہم نے شیاطین کو کفار پر (ابتلاءً ) چھوڑ رکھا ہے کہ وہ ان کو (کفر و ضلال پر) خوب ابھارتے (اور اکساتے) رہتے ہیں (پھر جو خود ہی اپنے اختیار سے اپنے بدخواہ کے بہکانے میں آجاوے اس کا کیوں غم کیا جاوے) سو (جب شیاطین ابتلاءً مسلط ہوئے ہیں اور تعجیل سزائے مستحق میں ابتلاء رہتا نہیں تو) آپ ان کے لئے جلدی (عذاب ہونے کی درخواست) نہ کیجئے ہم ان کی باتیں (جن پر سزا ہوگی) خود شمار کر رہے ہیں، (اور وہ سزا ان روز واقع ہوگی) جس روز ہم متقیوں کو رحمٰن (کے دار النعیم) کی طرف مہمان بنا کر جمع کریں گے اور مجرموں کو دوزخ کی طرف پیاسا ہانکیں گے (اور کوئی ان کا سفارشی بھی نہ ہوگا کیونکہ وہاں) کوئی سفارش کا اختیار نہ رکھے گا مگر ہاں جس نے رحمان کے پاس سے اجازت لی ہے (وہ انبیاء و صلحاء ہیں اور اجازت خاص ہے مومنین کے ساتھ پس کفار محل شفاعت نہ ہوئے) ۔ معارف ومسائل تَـــؤ ُ زُّهُمْ اَزًّا، عربی لغت میں لفظ ھَزَّ ، اَزَّ ، فَزَّ ، حَضَّ ، سب ایک معنی میں ہیں یعنی کسی کام کے لئے ابھارنا اور آمادہ کرنا۔ خفت و شدت اور کمی زیادتی کے لحاظ سے ان میں باہمی فرق ہے۔ لفظ اَزَّ کے معنی پوری قوت اور تدبیر و تحریک کے ذریعہ کسی شخص کو کسی کام کے لئے آمادہ بلکہ مجبور کردینے کے ہیں معنی آیت کے یہ ہیں کہ شیاطین ان کو اعمال بد پر ابھارتے رہتے ہیں اور ان کی خوبیاں ان کے دل پر مسلط کردیتے ہیں خرابیوں پر نظر نہیں ہونے دیتے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ تَـــؤُزُّہُمْ اَزًّا۝ ٨٣ۙ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ أزّ قال تعالی: تَؤُزُّهُمْ أَزًّا[ مریم/ 83] أي : ترجعهم إرجاع القدر إذا أزّت، أي : اشتدّ غلیانها . وروي أنّه عليه الصلاة والسلام : «كان يصلّي ولجوفه أزيز كأزيز المرجل» وأزّه أبلغ من هزّه . ( ا زز ) آیت کریمہ ؛۔ { تَؤُزُّهُمْ أَزًّا } ( سورة مریم 83) کے معنی ہیں کہ وہ ان کو برا نگیختہ کرتے رہتے ہیں یہ ازت القدر سے ہے جس کے معنی ہیں :۔ ہانڈی میں جوش اور ابال آگیا ( اسی مناسبت سے در غلانا یا ابھارنا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ) ایک روایت میں ہے ؛۔ (7) انہ (علیہ الصلوۃ والسلام) کان یصلی ولجوفہ ازیر کا زیر المرجل کہ آنحضرت نماز پڑھتے تو آپ کے اندروں سے ہانڈی کے کھدکھارنے کی ( طرح رونے کی ) آواز آتی ۔ ازہ اس کو بھر کا یا اور جھنجھوڑا یہ ھذہ سے ابلغ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٣۔ ٨٤) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہم نے شیاطین کو کفار پر مسلط کر رکھا ہے وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر خوب اکساتے اور ان کو گمراہ کرتے رہتے ہیں تو آپ ان پر جلدی نزول عذاب کی درخواست نہ کیجیے ہم ان میں سے ایک کو شمار کر رہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٣ (اَلَمْ تَرَ اَ نَّآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ تَؤُزُّہُمْ اَزًّا ) ” چونکہ ایسے لوگ خود شیاطین کی رفاقت اختیار کرتے ہیں اس لیے ہم شیاطین کو ان پر مستقل طور پر مسلط کردیتے ہیں تاکہ وہ انہیں گناہوں اور سرکشی پر مسلسل ابھارتے رہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٣۔ ٨٦:۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے منکرین حشر کا ذکر فرمایا تھا اس آیت میں ان کے انکار کا سبب فرمایا ہے کہ ان کے کفر کے سبب سے شیطان ان پر ایسا مسلط ہوگیا ہے کہ ان کی عقل بالکل جاتی رہی ہے کیسی ہی موٹی اور ظاہر بات کیوں نہ ہو شیطان ان کو کسی بات کے سمجھنے کا موقع نہیں دیتا دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی عقل کا آدمی کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام کرتا ہے تو کوئی فائدہ اس کام کا ضرور سوچ لیتا ہے مکان کوئی بناتا ہے تو رہنے کے خیال سے کنواں کوئی کھدواتا ہے تو پانی پینے کے خیال سے اتنا بڑا، جہاں اللہ تعالیٰ جیسے صاحب حکمت نے کیا بےفائدہ پیدا کیا ہے کہ عمر بھر جو اللہ کی فرمانبرداری کرے اور دنیا بھی اس کی کچھ خوشحالی سے نہ گزرتی ہو اس کی مٹی بھی یونہی اکارت جائے نہ حشر ہو نہ قیامت نہ کبھی اس کی نیکی کی جزا کا موقع اس کو ملے اور جس شخص نے عمر بھر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہو اور دنیا میں بھی مال سے اولاد سے وہ خوش رہا ہو اس کی مٹی بھی یونہی اکارت کبھی کوئی پرستش کا موقع ہی نہیں۔ خدا کی خدائی تو دنیا کے شروع سے اب تک قائم ہے دنیا کی چار دن کی سلطنت میں بھی کوئی اندھا دھن کرے کہ نیک وبد کو ایک ہی لکڑی سے ہانکے تو چار دن بھی سلطنت نہ چل سکے غرض ایسی ایسی موٹی باتیں شیطان ان منکرین حشر کو سمجھنے نہیں دیتا لیکن اے رسول اللہ کے ایسے لوگوں پر عذاب کی جلدی نہ کرو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے حال سے غافل نہیں ہے دن دن گھڑی گھڑی ان کی عمر کی اس کے روبرو ہے جس دوزخ کا ان کو اب انکار ہے آنکھ بند ہوتے ہی جب اس دوزخ میں جھونک دیئے جائیں گے اور فرشتے ان کو قائل کریں گے کہیں گے (ھذہ النار التی کنتم بھا تکذبون) جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہی دوزخ ہے جس کو تم لوگ دنیا میں جھٹلاتے تھے تو پھر قائل ہوجانے کے بعد ان کا یہ سب انکار نکل جائے گا اور یہی پکاریں گے کہ کاش ہم پھر دوبارہ دنیا میں بھیجے جائیں تاکہ نیک عمل کریں یہ بھی ذرا یاد رہے کہ دنیا میں ایسے مسلمان بھی ہیں کہ رات دن شیطان ان پر ایسا مسلط ہے کہ اگرچہ وہ کافروں کی طرح حشر و قیامت کا زبان سے صاف انکار تو نہیں کرتے مگر رات دن کے عمل ان کے ایسے ہیں کہ گویا آخرت کی سزا وجزا ان کے نزدیک کوئی چیز نہیں ہے ان کو بھی ذرا اس آیت کے مضمون سے عبرت پکڑنی چاہیے اور شیطان کو اپنا دشمن جانی گننا چاہیے دوست جانی گن کر رات دن اس کے کہنے میں نہ رہنا چاہیے کوئی گھڑی تو اپنے پیدا کرنے والے کا کہنا بھی مان لینا چاہیے یہ تو معلوم ہے کہ شیطان نے ان کو پیدا نہیں کیا پیدا کرنے والا تو اور ہی ہے اس سے بھی ذرا معاملہ اچھا رکھنا چاہیے جس حشر کے یہ لوگ منکر تھے آگے کی آیت میں اس کا ذکر فرمایا کہ اس دن شریعت کے پابند پرہیزگار لوگ قبروں سے اٹھ کر مہمانوں کی طرح سواریوں پر میدان محشر تک جائیں گے اور منکر شریعت لوگوں کو قیدیوں کی طرح دوزخ کی آگ گھیر کر میدان محشر تک لیجائے گی۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے جو روایت ہے اس میں ان دونوں گروہوں کا ذکر تفصیل سے ہے ١ ؎۔ سورج کے پاس آجانے اور دوزخ کے میدان محشر میں لائے جانے سے میدان حشر میں بہت گرمی ہوگی جس کے سبب سے پیاس تو سب کو لگے گی مگر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرہیز گار لوگوں کو حوض کوثر کا پانی پلاویں گے اس واسطے جنت میں جانے سے پہلے ان لوگوں کی پیاس تو بجھ جائے گی اور منکر شریعت لوگوں کو اسی پیاس کی حالت میں دوزخ کا جھونکا نصیب ہوگا اسی کا ذکر آیت کے آخر میں ہے میدان حشر کی گرمی کا اور سورج کے پاس آجانے کا ذکر مسند امام احمد صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم کی عقبہ بن عامر کی معتبر روایت میں ہے ٢ ؎۔ اسی طرح دوزخ کے میدان محشر میں لائے جانے کا ذکر صحیح مسلم کی عبد اللہ بن مسعود کی روایت میں ہے ٣ ؎۔ اور نیک لوگوں کو حوض کوثر کا پانی پلانے کا ذکر عبداللہ بن عمر (رض) کی صحیح روایت سے مسند امام احمد میں ہے ٤ ؎۔ سورة الکرثر میں آئے گا کہ یہ حوض کوثر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملی ہے جس کو معراج کی رات میں آپ نے دیکھا ہے حشر کے دن اس نہر میں سے اس حوض میں پانی آئے گا اس لیے اس کو حوض کوثر کہتے ہیں۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٣٨٤ ج ٢ باب فناء الدنیا وبیان الحشر۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٢٩٥ ج ٢ فصل فی الحشر۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٠٢ باب صفۃ النار واہلہا ١٢۔ ٤ ؎ الترغیب ص ٣٠٤ فصل فی الحوض الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:83) تؤزہم۔ (وہ شیاطین) ان کو ابھارتے ہیں۔ ازیؤز (باب نصر) مضارع واحد مؤنث غائب از مصدر۔ جس کے اصل معنی دیگ کے جوش مارنے کے ہیں۔ اور پھر اسی مناسبت سے ورغلانے۔ ابھارنے ۔ ترغیب دلانے۔ آپس میں گتھ جانے اور اوپر اچھال دینے کے بھی آتے ہیں۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب کافرین کی طرف راجع ہے اور ضمیر فاعل واحد مؤنث غائب شیاطین کے لئے ہے۔ وہ شیاطین ان کافروں کو (اسلام کے خلاف) خوب ابھارتے رہتے ہیں۔ مصدر کو تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی وساوس اور تسویلات سے حق تعالیٰ کی مخالفت پر اکساتے اور برے کاموں کی رغبت دلاتے رہتے ہیں (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٦) اسرارومعارف (انسان پر شیطان کا تسلط) یہ ان کے کردار سے ظاہر ہے کہ اللہ جل جلالہ نے ان کے بداعمال اور کفر کی سزا کے طور پر شیطانوں کو ان پر غلبہ دے دیا ہے اور وہ شیطان انہیں ہر لمحہ برُائی پر ابھارتے رہتے ہیں اور اسی کو ان کی نگاہوں میں سجاتے رہتے ہیں ۔ لہذا جلدی کی تو کوئی بات نہیں کہ پہلے ہی انسان کے پاس بہت محدود سی زندگی ہے اور وہ اوقات تو اسے پورا کرنے کی اجازت ہے نیز یہ اس روز قابل دید حال میں ہوں گے جب مومینن بہت عزت واحترام کے ساتھ اللہ کریم جو بہت رحم کرنے والا ہے کہ بارگاہ میں مہمانی سے مشرف ہو رہے ہوں گے اور یہ بدکار جہنم کی طرف پیاسے ہانکے جا رہے ہوں گے ایسی حالت میں کہ کوئی ان کا سفارشی اور ان کی طرفداری میں بات کرنے والا بھی نہ ہوگا کہ وہاں شفاعت بھی اللہ کے وعدے اور اجازت سے ہوگی اور اس نے کفار کی شفاعت سے بھی روک دیا ہے ۔ ان کے ذلیل ہو کر جہنم میں گرنے کی بات پہ حیرت ہونی چاہیے کہ ان کا جرم بھی اتنا ہی بڑا ہے یہ دعوے کرتے تھے کہ اللہ جل جلالہ کا بیٹا ہے اور یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائے زمین شق ہوجائے اور پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجائیں ، اگر انہیں کہا جائے کہ کہو اللہ جل جلالہ کا بیٹا ہے ۔ (ہر شے میں زندگی ہے اور شعور بھی) گویا آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں تک میں زندگی بھی ہے اور شعور بھی اور کفر کرنے سے وہ بھی لرزہ براندام ہوتے ہیں اور اگر ذکر ہی سے غافل ہوں تو تباہ ہوجاتے ہیں ، چہ جائیکہ کفر کریں ، اللہ کریم کی عظمت کو بیٹا کب زیبا ہے یہ تو اس کی شان ہی کے خلاف ہے کہ بیٹا تو باپ ہی کی مثل ہوتا ہے اور وہ اپنی ذات میں بھی اور صفات میں بھی یکتا ہے ، زمینوں اور آسمانوں کی ساری مخلوق تو اس کی غلام ہے جن کی زندگی کے لمحات کو بھی اس نے شمار کر رکھا ہے اور سب مخلوق نے فردا فردا اس کے سامنے روز حشر کو جواب دینا ہے اگر بیٹا ہوتا تو غلام نہ ہوتا ایک اور مالک ہوتا جو کبھی بھی ممکن نہیں ۔ (خلوص سے محبت مقبولیت کی دلیل ہے) جو لوگ ایمان لاتے ہیں یعنی درست عقیدہ اختیار کرتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں ان میں رب کریم محبت پیدا کردیں گے یوم حشر جب کفار ایک دوسرے کو الزام دیں گے یہ ایک دوسرے کی سفارش کا سبب ہوں گے نیز نیک لوگوں کو دنیا میں بھی آپس میں خلوص کے ساتھ اور بےلوث محبت نصیب ہوجاتی ہے ورنہ تعلقات اغراض کے محتاج رہتے ہیں ۔ (قرآن کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی سمجھا جاسکتا ہے) اور اے میرے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ قرآن آپ کی زبان پر سہل کردیا گیا ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمجھائیں تو بہت آسان ہے ورنہ انسانی شعور سے بالاتر ہے کہ کوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے الگ ہو کر سمجھنا چاہے تو تاریخ گواہ ہے ایسے لوگ گمراہ ہوگئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیک بندوں کو بشارت دیں اور جھگڑنے والے بدکاروں اور کفار کو آنے والے برے انجام سے بروقت ڈرائیں کفر اور بدکاری کا دنیاوی انجام تو ان کے سامنے بھی ہے کہ اس جرم میں کیسی کیسی نامور قومیں تباہ ہوئیں کیا اب کوئی ان کی بھنک بھی پاتا ہے ؟ یعنی صفحہ ہستی سے یوں مٹ گئیں جیسے تھیں ہی نہیں اور آخرت کے عذاب اس پر مزید ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفر و شرک کا بنیادی محرّک اور سبب شیطان ہوتا ہے۔ جب شیطان انسان پر مسلط ہوجائے تو انسان غیر اللہ کی عبادت کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ ہم شیاطین کو کفار کی طرف بھیجتے ہیں جو انھیں کفر و شرک پر ابھارتے ہیں۔ شیاطین سے مراد جناّت اور وہ انسان ہیں جو لوگوں کو برائی اور کفر و شرک پر آمادہ کرتے ہیں۔ ان میں وہ علماء، پیر اور حکمران بھی شامل ہیں جو لوگوں کو شرک و بدعت کا سبق دیتے ہیں یا ایساماحول بناتے ہیں جس سے شرک و بدعت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کی سزا کے بارے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں مہلت دے رکھی ہے لیکن اس کا یہ معنٰی نہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی دسترس سے باہر اور اس کے علم میں نہیں ہیں، ایسا ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال اور دن شمار کر رہا ہے۔ قیامت کے دن انھیں ایک ایک عمل کا حساب چکا دیا جائے گا۔ دن شمار کرنا ہر زبان میں ایک محاورہ ہے جو دھمکی کے معنٰی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیطان بھیجنے کا معنی ڈھیل دینے کے مترادف ہے۔ (وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ وَاِِنَّہُمْ لَیَصُدُّونَہُمْ عَنْ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُہْتَدُوْنَ )[ الزخرف : ٣٦۔ ٣٧] ” اور جو شخص اللہ کی یاد سے منہ موڑتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلّط کردیتے ہیں۔ وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے۔ اور یقیناً شیطان ان کو راستے سے روکتے رہتے ہیں۔ گمراہ لو گسمجھتے ہیں کہ وہ سیدھی راہ پر گامزن ہیں۔ “ مسائل ١۔ کفر و شرک اختیار کرنے والوں پر شیطان مسلّط ہوتا ہے۔ ٢۔ شیطان انسان کو شرک و بدعت اور برائی کے راستہ پر ڈالتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا (اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ ) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیاطین کو کافروں پر چھوڑ دیا ہے جو انھیں خوب ابھارتے رہتے ہیں سو آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کیجیے ہم ان کی باتوں کو خوب شمار کر رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے کافروں پر شیاطین کو چھوڑ رکھا ہے وہ انھیں کفر پر اور برے اعمال پر خوب ابھارتے ہیں یہ لوگ اللہ کی ہدایت کو نہیں مانتے جو اس نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کے ذریعہ بھیجی ہے بلکہ شیاطین کے بہکانے اور ورغلانے ہی کو اچھا سمجھتے ہیں اور ان کے بہکاوے میں آجاتے ہیں حق کو چھوڑ کر باطل پر جمے رہتے ہیں لہٰذا یہ لوگ عذاب کے مستحق ہیں وقت مقررہ پر ان پر عذاب آ ہی جائے گا آپ جلدی عذاب آجانے کی درخواست نہ کریں ان کی جو باتیں ہیں ہم انھیں خوب شمار کر رہے ہیں ان کے جو اعمال شرکیہ اور اعمال سیۂ اوراقوال باطلہ ہیں ہمیں ان سب کا علم ہے اور ہم ان سب کو لکھ رہے ہیں اجل مقررہ پر عذاب آجائے گا ان کے افعال اور اعمال اقوال سب کی سزا دے دی جائے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

58:۔ ہم نے ان پر شیاطین کو مسلط کر رکھا ہے۔ جو انہیں گناہوں کی ترغیب دیتے اور انہیں کفر و شرک پر اکساتے رہتے ہیں۔ ” تؤزھم ازا “ ای تغریھم و تھیجھم علی المعاصی (روح ج 16 ص 134) ۔ ” فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْھِمْ “ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے کہ آپ یہ خیال نہ فرمائیں کہ ان کے تمرد وعناد اور ان کے معاصی کے پیش نظر تو انہیں اب تک عذاب خداوندی سے ہلاک ہوجانا چاہئے تھا۔ ” اِنَّمَا نَعُدُّ لَھُمْ عَدًّا الخ “ یہ ماقبل کی علت یعنی اب ان کی ہلاکت و تباہی کا وقت بالکل قریب آچکا ہے اور معدودے چند ایام باقی رہ گئے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

83 اے پیغمبر کیا آپ کو م علوم نہیں کہ ہم نے شیاطین کو ان کافروں پر چھوڑ رکھا ہے جو ان کو خوب اکساتے رہتے ہیں۔ یعنی اے پیغمبر آپ ان منکروں کی حرکات ناشائستہ سے متاثر نہ ہوں کیونکہ یہ مخالف قوتوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں شیاطین جو ان کے صریح دشمن ہیں اور ان کو اچھالتے اور اکساتے رہتے ہیں اور یہ ان کے کہنے میں آ کر دین حق کی مخالفت کیا کرتے ہیں تو جن کی یہ حالت ہو کہ وہ اپنے اختیار سے دشمنوں کے آلہ کار بن رہے ہوں ان کی حرکتا شنیعہ سے آپ کیوں متاثر ہوں۔