Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 14

سورة البقرة

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚ ۖ وَ اِذَا خَلَوۡا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمۡ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ ۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۱۴﴾

And when they meet those who believe, they say, "We believe"; but when they are alone with their evil ones, they say, "Indeed, we are with you; we were only mockers."

اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان سے صر ف مذاق کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Hypocrites' Cunning and Deceit Allah said, وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ امَنُواْ قَالُواْ امَنَّا ... And when they meet those who believe, they say: "We believe," Allah said that when the hypocrites meet the believers, they proclaim their faith and pretend to be believers, loyalists and friends. They do this to misdirect, mislead and deceive the believers. The hypocrites also want to have a share of the benefits and gains that the believers might possibly acquire. Yet, ... وَإِذَا خَلَوْاْ إِلَى شَيَاطِينِهِمْ ... But when they are alone with their Shayatin, meaning, if they are alone with their devils, such as their leaders and masters among the rabbis of the Jews, hypocrites and idolators. Human and Jinn Devils Ibn Jarir said, "The devils of every creation are the mischievous among them. There are both human devils and Jinn devils. Allah said, وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نِبِىٍّ عَدُوّاً شَيَـطِينَ الاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِى بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً And so We have appointed for every Prophet enemies ـ Shayatin (devils) among mankind and Jinn, inspiring one another with adorned speech as a delusion (or by way of deception). (6:112) The Meaning of `Mocking Allah said, ... قَالُواْ إِنَّا مَعَكْمْ ... They say: "Truly, we are with you". Muhammad bin Ishaq reported that Ibn Abbas said that the Ayah means, "We are with you, إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِوُونَ (Verily, we were but mocking), meaning, we only mock people (the believers) and deceive them." ... إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِوُونَ Verily, we were but mocking, Ad-Dahhak said that Ibn Abbas said that the Ayah, means, "We (meaning the hypocrites) were mocking the Companions of Muhammad." Also, Ar-Rabi` bin Anas and Qatadah said similarly. Allah's statement, اللّهُ يَسْتَهْزِىءُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

فریب زدہ لوگ مطلب یہ ہے کہ یہ بدباطن مسلمانوں کے پاس آ کر اپنی ایمان دوستی اور خیر خواہی ظاہر کر کے انہیں دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ مال و جان کا بچاؤ بھی ہو جائے ، بھلائی اور غنیمت کے مال میں حصہ بھی قائم ہو جائے ۔ اور جب اپنے ہم مشربوں میں ہوتے ہیں تو ان ہی کی سی کہنے لگتے ہیں ۔ خلوا کے معنی یہاں ہیں انصرفوا اذھبوا خلصوا اور مضوا یعنی لوٹتے ہیں اور پہنچتے ہیں اور تنہائی میں ہوتے ہیں ۔ اور جاتے ہیں پس خلوا جو کہ الیٰ کے ساتھ متعدی ہے اس کے معنی لوٹ جانے کے ہیں ۔ فعل مضمر اور ملفوظ دونوں پر یہ دلالت کرتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں الیٰ معنی میں مع کے مترادف ہے مگر اول ہی ٹھیک ہے ، ابن جریر کے کلام کا خلاصہ بھی یہ ہے کہ شیاطین سے مراد رؤسا بڑے اور سردار ہیں جیسے یہود علماء اور سرداران کفار قریش و منافقین ۔ حضرت ابن عباس اور ابن مسعود اور دیگر صحابہ کا قول ہے کہ یہ شیاطین ان کے امیر امراء اور سرداران کفر تھے اور ان کے ہم عقیدہ لوگ بھی ۔ شیاطین یہود بھی انہیں پیغمبری کے جھٹلانے اور قرآن کی تکذیب کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے ۔ مجاہد کہتے ہیں شیاطین سے مراد ان کے وہ ساتھی ہیں جو یا تو مشرک تھے یا منافق ۔ قتادہ فرماتے ہیں ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو برائیوں میں اور شرک میں ان کے سردار تھے ۔ ابو العالیہ ، سدی ، ربیع بن انس بھی یہی تفسیر کرتے ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ہر بہکانے اور سرکشی کرنے والے کو شیطان کہتے ہیں ۔ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے ۔ قرآن میں بھی آیت ( شیاطین الانس والجن ) آیا ہے حدیث شریف میں ہے کہ ہم جنوں اور انسانوں کے شیطانوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ کیا انسان کے شیطان بھی ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں جب یہ منافق مسلمان سے ملتے تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں یعنی جیسے تم ہو ویسے ہی ہم ہیں ۔ اور اپنوں سے کہتے ہیں کہ ہم تو ان کے ساتھ ہنسی کھیل کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس ربیع بن انس اور قتادہ کی یہی تفسیر ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتے ہوئے ان کے اس مکروہ فعل کے مقابلہ میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے ٹھٹھا کرے گا اور انہیں ان کی سرکشی میں بہکنے دے گا جیسے دوسری جگہ ہے ، کہ قیامت کے روز منافق مرد و عورت ایمان والوں سے کہیں گے ذرا ٹھہر جاؤ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں ۔ کہا جائے گا اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور کی تلاش کرو ۔ اس کے لوٹتے ہی درمیان میں ایک اونچی دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازہ ہو گا ، اس طرف تو رحمت ہو گی اور دوسری طرف عذاب ہو گا ۔ فرمان الٰہی ہے کافر ہماری ڈھیل کو اپنے حق میں بہتر نہ جانیں ۔ اس تاخیر میں وہ اپنی بد کرداریوں میں اور بڑھ جاتے ہیں پس قرآن میں جہاں استہزاء مسخریت یعنی مذاق ، مکر ، خدیعت یعنی دھوکہ کے الفاظ آئے ہیں وہاں یہی مراد ہے ۔ ایک اور جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہہ کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں ان کی بدکرداریوں اور کفر و شرک پر انہیں ملامت کی گئی ہے ۔ اور مفسرین کہتے ہیں یہ الفاظ صرف جواب میں لائے گئے ہیں جیسے کوئی بھلا آدمی کسی مکار کے فریب سے بچ کر اس پر غالب آ کر کہتا ہے کہو میں نے کیسا فریب دیا حالانکہ اس کی طرف سے فریب نہیں ہوتا ۔ اسی طرح یہ فرمان الٰہی ہے کہ آیت ( وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللّٰهُ ۭ وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:54 ) اور آیت ( اَللّٰهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّھُمْ فِىْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَھُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:15 ) ورنہ اللہ کی ذات مکر اور مذاق سے پاک ہے مطلب یہ ہے کہ ان کا فن فریب انہی کو برباد کرتا ہے ۔ ان الفاظ کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ان کی ہنسی ، دھوکہ ، تمسخر اور بھول کا ان کو بدلہ دیگا تو بدلے میں بھی وہی الفاظ استعمال کئے گئے دونوں لفظوں کے دونوں جگہ معنی جدا جدا ہیں ۔ دیکھئے قرآن کریم میں ہے آیت ( جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا ) 10 ۔ یونس:27 ) یعنی برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے آیت ( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ ) جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو تو ظاہر ہے کہ برائی کا بدلہ لینا حقیقتاً برائی نہیں ۔ زیادتی کے مقابلہ میں بدلہ لینا زیادتی نہیں ۔ لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے حالانکہ پہلی برائی اور زیادتی ظلم ہے اور دوسری برائی اور زیادتی عدل ہے لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے ۔ اسی طرح جہاں جہاں کلام اللہ میں ایسی عبارتیں ہیں وہاں یہی مطلب ہے ۔ ایک اور مطلب بھی سنئے دنیا میں یہ منافق اپنی اس ناپاک پالیسی سے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے تھے اللہ نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا کہ دنیا میں انہیں امن و امان مل گیا اور یہ مست ہوگئے حالانکہ یہ عارضی امن ہے ، قیامت والے دن انہیں کوئی امن نہیں ملے گا گو یہاں ان کے مال اور جانیں بچ گئیں لیکن اللہ کے ہاں یہ دردناک عذاب کا شکار بنیں گے ۔ امام ابن جریر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور اس کی بہت تائید کی ہے اس لئے کہ مکر ، دھوکہ اور مذاق جو بلاوجہ ہو اس سے تو اللہ کی ذات پاک ہے ہاں انتقام ، مقابلے اور بدلے کے طور پر یہ الفاظ اللہ کی نسبت کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ ان کا بدلہ اور سزا ہے ۔ یمدھم کا مطلب ڈھیل دینا اور بڑھانا بیان کیا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ ) 23 ۔ المومنون:55 ) یعنی کیا یہ یوں سمھ بیٹھے ہیں کہ ان کے مال اور اولاد کی کثرت ان کے لئے باعث خیر ہے نہیں!نہیں! نہیں! صحیح شعور ہی نہیں اور آیت ( سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف:182 ) اس طرح ہم انہیں آہستہ آہستہ پکڑیں گے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے غرض کہ ادھر یہ گناہ کرتے ہیں ادھر دنیوی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں جن پر یہ پھولے نہیں سماتے حالانکہ وہ حقیقت میں عذاب ہی کی ایک صورت ہوتی ہے ۔ قرآن پاک نے اور جگہ فرمایا آیت ( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ 44؀ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۭوَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 45؀ ) 6 ۔ الانعام:45-44 ) یعنی جب لوگوں نے نصیحت بھلا دی ہم نے ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ وہ اپنی چیزوں پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا ، اب گھبرا گئے ، ظالموں کی بربادی ہوئی اور کہہ دیا گیا کہ تعریفیں رب العالمین کے لئے ہی ہیں ۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ انہیں ڈھیل دینے اور انہیں اپنی سرکشی اور بغاوت میں بڑھنے کے لئے ان کو مہلت دی جاتی ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:110 ) طغیان کہتے ہیں کسی چیز میں گھس جانے کو ۔ جیسے فرمایا آیت ( اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ ) 69 ۔ الحاقۃ:11 ) ابن عباس فرماتے ہیں وہ اپنے کفر میں گرے جاتے ہیں ۔ عمہ کہتے ہیں گمراہی کو ۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ضلالت و کفر میں ڈوب گئے اور اس ناپاکی نے انہیں گھیر لیا اب یہ اسی دلدل میں اترتے جاتے ہیں ، اسی ناپاکی میں پھنسے جاتے ہیں اور اس سے نجات کی تمام راہیں ان پر بند ہو جاتی ہیں ۔ بھلا ایسی دلدل میں جو ہو اور پھر اندھا بہرا اور بیوقوف ہو وہ کیسے نجات پا سکتا ہے ۔ آنکھوں کے اندھے پن کے لئے عربی میں عمی کا لفظ آتا ہے اور دل کے اندھاپے کے لئے عمہ کا لیکن کبھی دل کے اندھے پن کے لئے بھی عمی کا لفظ آتا ہے جیسے قرآن میں ہے آیت ( وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ ) 22 ۔ الحج:46 )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 شیٰطین سے مراد سرداران قریش و یہود ہیں۔ جن کی ایماء پر وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے یا منافقین کے اپنے سردار۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

شیاطین سے مراد کفر کے سردار ہیں، خواہ مشرکین و یہود سے ہوں یا خود ان منافقین سے۔ شیطان ہر سرکش اور فسادی شخص کو کہتے ہیں، شیاطین جنوں اور انسانوں دونوں سے ہوتے ہیں، فرمایا : (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ) [ الأنعام : ١١٢ ] ” اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو دشمن بنادیا، ان کا بعض بعض کی طرف ملمع کی ہوئی بات دھوکا دینے کے لیے دل میں ڈالتا رہتا ہے۔ “ لفظ شیطان شَطَنَ سے مشتق ہے جس کے معنی بعد کے ہیں، یعنی وہ جو ہر خیر سے دور ہو۔ وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا) اس سے ظاہر ہے کہ اہل ایمان سے ان کی ملاقات سرسری ہوتی ہے، کبھی کسی مجلس میں، کبھی سر راہ، مگر اپنے شیطانوں کے ساتھ اہتمام کے ساتھ خلوت ہوتی ہے۔ پھر اہل ایمان کو تاکید کے کسی لفظ کے بغیر صرف ” اٰمَنَّا “ کہتے ہیں اور اپنے شیاطین کو ” اِنَّا “ اور ” اِنَّمَا “ کی تاکید کے ساتھ اپنے کفر کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ ہم عقیدے میں بلا شک و شبہ تمہارے ساتھی ہیں، رہا ہمارا ایمان کا اقرار و اظہار تو وہ محض مذاق ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

As we have seen, the Surah Al-Baqarah opens with the declaration that the Holy Qur&an is beyond all doubt. The first twenty verses of the Surah delineate the features of those who believe in the Holy Qur&an and of those who do not -- the first five dealing with the former, under the title of Al-Muttaqun المتقون (the God-fearing); the next two with those disbelievers who were quite open and violent in their hostility -- that is, Al-Kafirun الکافرون (the disbelievers or the infidels), and the following thirteen with those crafty disbelievers who claimed to be Muslims but, in reality, were not so. This second variety of the disbelievers has received from the Holy Qur&an the name of Al-Munafiqun المنافقون (the hypocrities). Of these thirteen verses, the first two define the characteristic behaviour of the hypocrites thus: وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ And among men there are some who say, &We believe in Allah and in the Last Day&, Yet they are no believers. They try to deceive Allah and those who believe, when they are deceiving none but their own selves, and they are not aware. These verses expose their claim to be Muslims as false and deceitful, and show that they are only trying to be clever. Obviously, no one can deceive Allah - probably they themselves could not have had such a delusion. But the Holy Qur&an equates, in a way, their attempt to deceive the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the Muslims with the desire to deceive Allah Himself (See Qurtubi) Such a desire, the Holy Qur&an points out, can have only one consequence - they end up by deceiving no one but themselves, for Allah Himself cannot possibly be deceived, and Divine Revelation protects the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) from all trickery and deceit, so that the hypocrites themselves will have to bear, in the other world as well as in this, the punishment for their presumptuousness. As for Allah making them grow in their malady, it means that they are jealous of the growing strength of the Muslims, but it is Allah&s will to make the position of the Muslims even stronger, as they can see for themselves, which feeds their bile and keeps the disease of their hearts growing. These two verses, thus, describe the state of their insensitivity and ignorance - they regard their defects as merits. The sixth verse shows the other aspect of this depravity - the merit of others (that is, the unalloyed faith of the Muslims) changes into a defect, and even becomes contemptible in their eyes.5 5. As for the hypocrites declaring openly that they were not prepared to believe as others did believe, and as for their dubbing the Muslims as fools, it is obvious that they could have been so outspoken only before the poor among the Muslims, otherwise they used to be very careful about keeping their disbelief concealed.) (2) A little reflection on these verses would reveal the true nature of Islam and Iman ایمان (faith) and also that of kufr کفر (disbelief), for the Holy Qur&an reports the claim of the hypocrites to be Muslims: اٰمَنَّا بِاللّٰهِ :|"we believe in Allah|", (2:8), forthwith refutes this claim: مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ :|"yet they are no believers|". In order to understand fully the implications of these verses, one should bear in one&s mind the fact that the hypocrites in question were actually Jews. Now, belief in Allah and in Hereafter is, no doubt, an essential part of their creed as well; what was not included in their creed, as defined by their religious scholars, was the belief in the prophethood of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . In declaring their faith in Islam, the Jews very cleverly used to leave out the belief in the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and mention only two elements: belief in Allah and belief in the Hereafter. So far as such a declaration goes, they cannot be called liars, and yet the Holy Qur&an refutes their claim to be Muslims, and regards them as liars. Why? The fact is that, for one to be a Muslim, it is not sufficient merely to declare one&s faith in Allah and the Hereafter in any form or manner which suits one&s individual or collective fancy. As for that, associators of all kinds do, in one way or another, believe in Allah and consider Him to be Omnipotent& but the Holy Qur&an does not allow any of these things to pass for Iman ایمان (faith). Iman ایمان or faith in Allah must, in order to be valid and worthy of the name, conform to what the Holy Qur&an specifically lays down with regards to the divine names and attributes; similarly, belief in the Hereafter can be valid only when it is true to the specifications of the Holy Qur&an and the Hadith.7 6. Even peoples described by the Westerners as |"savages|" or |"primitives - though |"degenerates|" would be far closer to the mark - have at least a vague notion of a Supreme Deity, and ususally very vivid ideas about the other world. 7. There is no end to the making of books, and no end to the making of gods and to the naming of gods - above all, in our own day. Reason, Nature, Man, Life, all having served their turn and grown rusty, are being replaced by more fancy names - |"the ground of being|" of the so-called Christian Existentialism, the ultimate |"archetype of the Collective Unconscious|" of Jungian psychology, and what not. They have lately invented a goldless theology too. In the light of this explanation one can see that the Jews who pretended to be Muslims believed neither in Allah nor in the Hereafter according to these definite requirements. For, on the one hand, they regarded the Prophet ` Uzair or Ezra (علیہ السلام) as the son of God, and, on the other, cherished the fond belief that the progeny of the prophets, no matter how it acted, would always remain &the chosen of God&, and would not be called to account on the Day of Judgment, or at the worst receive only a token punishment. These being their beliefs, the Holy Qur&an rightly rejects their claims to faith in Allah and the Hereafter. (3) As we have already said, verse 13 defines what Iman ایمان (faith) really is: اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ :|"Believe as other men have believed|". In other words, the criterion for judging one&s claim to &lman ایمان is the & lman ایمان of the blessed Companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and any claim to Iman ایمان which does not conform to it is not acceptable to Allah and to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . If a man has the presumption8 to interpret an Islamic doctrine or verse of the Holy Qur&an in a way which departs from the explicit and clear explanation provided by the Holy Qur&an itself or by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، his individual opinion and belief, no matter how much it titillates the palate of his contemporaries or feeds their fancy, will have no value or validity in the eyes of the Shari&ah. For example, the Qadianis قادیانی 9 claim that like Muslims they too believe in the doctrine of the Finality of the Prophethood of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، but in this respect they deviate from what the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has himself stated, and what the Companions believed in, and distort the doctrine so.as so as to make room for the prophethood of Mirza Ghulam Ahmad of Qadian; so, according to the indication of the Holy Qur&an, they come under this indictment: مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ :|"They are no believers.|" 8. As is all too common these days. 9. Who style themselves as Ahmadis. In short, if a man interprets an Islamic doctrine in a way which is repugnant to the Iman ایمان of the blessed Companions, and yet claims to be a Muslim on the basis of his adherence to this doctrine and also performs his religious duties exactly like Muslims, he will not be considered a Mu&min مومنین (true Muslim) until and unless he agrees to conform to the criterion of Iman ایمان laid down by the Holy Qur&an. Removal of a doubt We may also dispel a misunderstanding which often arises - and is more often made to arise with an ulterior motive - with regard to the famous dictum in the Hadith and Fiqh (Islamic Jurisprudence) that the &people of the Ka&bah& کعبہ (Ahl al-Qiblah), that is, those who turn towards the Ka&bah کعبہ in offering prescribed Salah نماز cannot be branded as infidels. The verse under discussion clearly defines the meaning of the phrase, Ahl al-Qiblah. The term pertains only to those who do not deny any of the basic essential doctrines and commandments of Islam which are called the Daruriat ضروریات (essentials). For that matter even the hypocrites mentioned in the Holy Qur&an used to offer their prayers exactly as the Muslims did; but turning towards Ka&bah کعبہ while praying was not taken to be sufficient to make them acceptable as true Muslims, simply because they did not have faith in all the essentials of Islam as the blessed Companions did.

ساتویں آیت میں منافقین کے نفاق اور دو رخی پالیسی کا اس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ یہ لوگ جب مسلمانوں سے ملتے تو کہتے تھے کہ ہم مومن مسلمان ہوگئے اور جب اپنی قوم کے کافر لوگوں سے ملتے جو کہتے تھے کہ ہم تو تمہارے ہی ساتھ ہیں اور تمہاری قوم کے فرد ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ تو محض تمسخر و استہزاء کے لئے یعنی ان کو بیوقوف بنانے کے لئے ملتے ہیں (٢) ایمان و کفر کی حقیقت : آیات مذکورہ میں غور کرنے سے ایمان واسلام کی پوری حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور اس کے بالمقابل کفر کی بھی کیونکہ ان آیات میں منافقین کی طرف سے ایمان کا دعوٰی اٰمَنَّابِاللہ میں اور قرآن کریم کی طرف سے ان کے اس دعوے کا غلط ہونا وَمَا ھُمْ بِمُؤ ْمِنِيْنَ میں ذکر کیا گیا ہے یہاں چند باتیں غور طلب ہیں ؛ اول یہ کہ جن منافقین کا حال قرآن کریم میں بیان فرمایا گیا ہے وہ اصل میں یہودی تھے اور اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان لانا یہود کے مذہب میں بھی ثابت اور مسلم ہے اور جو چیز ان کے عقیدہ میں نہیں تھی یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت ونبوت کو ماننا اور آپ پر ایمان لانا اس کو انہوں نے اپنے بیان میں ذکر نہیں کیا بلکہ صرف دو چیزیں ذکر کیں، ایمان باللہ، ایمان بالیوم الآخر، جس میں ان کو جھوٹا نہیں کہا جاسکتا پھر قرآن کریم میں ان کو جھوٹا قرار دینا اور ان کے ایمان کا انکار کرنا کس بنا پر ہے ؟ بات یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنی من مانی صورتوں میں خدا تعالیٰ یا آخرت کا اقرار کرلینا ایمان نہیں یوں تو مشرکین بھی کسی نہ کسی انداز سے اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور سب سے بڑا قادر مطلق مانتے ہیں، اور مشرکین ہندوستان تو پر لو کا نام دے کر قیامت کا ایک نمونہ بھی تسلیم کرتے ہیں مگر قرآن کی نظر میں یہ ایمان نہیں بلکہ وہ ایمان معتبر ہے جو اس کی بتلائی ہوئی تمام صفات کے ساتھ ہو، اور آخرت پر ایمان وہ معتبر ہے جو قرآن کریم اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتلائے ہوئے حالات داد صاف کے ساتھ ہو، ظاہر ہے کہ یہود اس معنیٰ کے اعتبار سے نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت پر کیونکہ ایک طرف تو وہ حضرت عزیز (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور آخرت کے معاملہ میں بھی یہ غلط اعتقاد رکھتے ہیں کہ انبیاء کی اولاد کچھ بھی کرتی رہے وہ بہرحال اللہ تعالیٰ کی محبوب ہے ان سے آخرت میں کوئی باز پرس نہ ہوگی، اور کچھ عذاب ہوا بھی تو بہت معمولی ہوگا اس لئے قرآنی اصطلاح کے اعتبار سے ان کا یہ کہنا کہ ہم اللہ اور روز قیامت پر ایمان لائے ہیں غلط اور جھوٹ ہوا۔ (٣) کفر و ایمان کا ضابطہ قرآن کی اصطلاح میں ایمان وہ ہے جس کا ذکر اوپر سورة بقرہ کی تیرہویں آیت میں آچکا ہے وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ جس سے معلوم ہوا کہ ایمان کا دعوٰی صحیح یا غلط کے جانچنے کا معیار صحابہ کرام کا ایمان ہے جو اس کے مطابق نہیں وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک ایمان نہیں، اگر کوئی شخص قرآنی عقیدہ کا مفہوم قرآنی تصریح یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریح کے خلاف قرار دے کر یہ کہے کہ میں تو اس عقیدہ کو مانتا ہوں تو یہ ماننا شرعا معتبر نہیں جیسا کہ آجکل قادیانی گروہ کہتا ہے کہ ہم بھی عقیدہ ختم نبوت کو ماننے ہیں مگر اس عقیدہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصریحات اور صحابہ کرام کے ایمان سے بالکل مختلف تحریف کرتے ہیں مرزا غلام احمد کی نبوت کیلئے جگہ نکالتے ہیں قرآن کریم کی اس تصریح کے مطابق وہ اسی کے مستحق ہیں کہ ان کو وَمَا ھُمْ بِمُؤ ْمِنِيْنَ کہا جائے یعنی وہ ہرگز مومن نہیں، خلاصہ یہ کہ ایمان صحابہ کے خلاف کوئی شخص کسی عقیدہ کا نیا مفہوم بنائے اور اس عقیدہ کا پابند ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو مومن مسلمان بتلائے اور مسلمانوں کے نماز روزہ میں شریک بھی ہو مگر جب تک وہ قرآن کے اس بتلائے ہوئے معیار کے مطابق ایمان نہیں لائے گا اس وقت تک وہ قرآن کی اصطلاح میں مومن نہیں کہلائے گا، ایک شبہ کا ازالہ : حدیث وفقہ کا یہ مشہور مقولہ کہ اہل قبلہ کو کافر نہیں کہا جاسکتا اس کا مطلب بھی آیت مذکورہ کے تحت میں یہ متعین ہوگیا کہ اہل قبلہ سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو ضروریات دین میں سے کسی چیز کے منکر نہیں ورنہ یہ منافقین بھی تو قبلہ کی طرف سب مسلمانوں کی طرح نماز پڑہتے تھے مگر یہ صرف رو بقبلہ نماز پڑھنا ان کے ایمان کے لئے اس بناء پر کافی نہ ہوا کہ ان کا ایمان صحابہ کرام کی طرح تمام ضروریات دین پر نہیں تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا۝ ٠ ۚۖ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِہِمْ۝ ٠ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ۝ ٠ ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِءُوْنَ۝ ١٤ ( لقی) تلقی السّماحة منه والنّدى خلقاویقال : لَقِيتُه بکذا : إذا استقبلته به، قال تعالی: وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] ، وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] . وتَلَقَّاهُ كذا، أي : لقيه . قال : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] ، وقال : وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] وتلقی السماحۃ منہ والندیٰ خلقا سخاوت اور بخشش کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ۔ لقیت بکذا ۔ میں فلاں چیز کے ساتھ اس کے سامنے پہنچا۔ قرآن میں ہے : وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] اور وہاں ان کا استقبال دعاوسلام کے ساتھ کیا جائے گا ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] اور تازگی اور شادمانی سے ہمکنار فرمائے گا ۔ تلقاہ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے ۔ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے ۔ خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلاتُ [ الرعد/ 6] ، تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ [ البقرة/ 141] ، قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ [ آل عمران/ 137] ، إِلَّا خَلا فِيها نَذِيرٌ [ فاطر/ 24] ، مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ [ البقرة/ 214] ، وَإِذا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ مِنَ الْغَيْظِ [ آل عمران/ 119] ، وقوله : يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ [يوسف/ 9] ، أي : تحصل لکم مودّة أبيكم وإقباله عليكم . وخَلَا الإنسان : صار خَالِياً ، وخَلَا فلان بفلان : صار معه في خَلَاءٍ ، وخَلَا إليه : انتهى إليه في خلوة، قال تعالی: وَإِذا خَلَوْا إِلى شَياطِينِهِمْ [ البقرة/ 14] ، وخلّيت فلانا : تركته في خَلَاءٍ ، ثم يقال لكلّ ترک تخلية، نحو : فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ [ التوبة/ 5] ، وناقة خَلِيَّة : مُخْلَاة عن الحلب، وامرأة خَلِيَّة : مخلاة عن الزّوج، وقیل للسّفينة المتروکة بلا ربّان خَلِيَّة، والخَلِيُّ : من خلّاه الهمّ ، نحو المطلّقة في قول الشاعر : مطلّقة طورا وطورا تراجع والخلَاءُ : الحشیش المتروک حتّى ييبس، ويقال : خَلَيْتُ الخَلَاءَ : جززته، وخَلَيْتُ الدّابة : جززت لها، ومنه استعیر : سيف يَخْتَلِي، أي : يقطع ما يضرب به قطعه للخلا . ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلاتُ [ الرعد/ 6] حالانکہ اس سے پہلے عذاب ( واقع ) ہوچکے ہیں ۔ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ [ البقرة/ 141] یہ جماعت گزر چگی ۔ تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں ۔ إِلَّا خَلا فِيها نَذِيرٌ [ فاطر/ 24] مگر اس میں ہدایت کرنے والا گزر چکا ہے ۔ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ [ البقرة/ 214] تم کو پہلے لوگوں کی سی ۔ وَإِذا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ مِنَ الْغَيْظِ [ آل عمران/ 119] اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصے کے سبب انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ [يوسف/ 9] پھر ابا کی توجہ تمہاری طرف ہوجائے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ پھر تمہارے ابا کی محبت اور توجہ صرف تمہارے ہی لئے ۔ رہ جائے گی ۔ خلا الانسان ۔ تنہا ہونا ۔ خلافلان بفلان کسی کے ساتھ تنہا ہونا ۔ خلا الیہ کسی کے پاس خلوت میں پہنچنا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِذا خَلَوْا إِلى شَياطِينِهِمْ [ البقرة/ 14] اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں ۔ خلت فلانا کے اصل معنی کسی کو خالی جگہ میں چھوڑ دینے کے ہیں ۔ پھر عام چھوڑ دینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ فرمایا :۔ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ [ التوبة/ 5] تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔ ناقۃ خلیۃ ۔ اونٹنی کو دودھ دوہنے سے آزاد چھوڑ دینا ۔ امراءۃ خلیۃ مطلقہ عورت جو خاوند کی طرف سے آزاد چھوڑ دی اور جو کشتی ملاحوں کے بغیر چل رہی ہو اسے بھی خلیۃ کہا جاتا ہے ۔ الخلی جو غم سے خالی ہو ۔ جیسا کہ مطلقۃ کا لفظ سکون و اطمینان کے معنی میں آجاتا ہے ۔ چناچہ شاعر نے ( طویل ) (146) تطلقۃ طورا طورا تراجع میں ( کسی اسے سکون ہوجاتا ہے اور کبھی وہ دو ( عود کر آتی ہے ) میں تطلقۃ کا لفظ اسی معنی میں استعمال کیا ہے ۔ الخلاء ۔ خشک گھاس ۔ کہاجاتا ہے :۔ خلیت الخلاء ۔ میں نے خشک گھاس کاٹی ۔ خلیت الدابۃ ۔ جانور کو خشک گھاس ڈالی ۔ سیف یختلی ۔ تیز تلوار جو گھاس کی طرح ہر چیز کو کاٹ ڈالے ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو اسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ . ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] . الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) منافقین جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور دوسرے صحابہ کرام (رض) سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی صدق دل سے اسی طرح ایمان لائے ہیں جس طرح کہ تم لوگ ایمان لائے ہو اور تم لوگوں نے تصدیق کی ہے اور جب اپنے بڑوں اور سرداروں کے پاس جاتے ہیں اور وہ پانچ آدمی ہیں، مدینہ منورہ میں کعب بن اشرف، بنی اسلم میں ابوبردہ اسلمی، ابن السوداشام میں، جہینہ میں عبدالدار اور بنی عامر میں عوف بن عامر تو ان سے آکر کہتے ہیں کہ اصل میں ہم تم لوگوں کے ہی دین پر ہیں ہم تو کلمہ لا الہ الا اللہ۔ زبان سے کہہ کر (معاذ اللہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی جماعت سے ٹھٹھہ کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْآ اٰمَنَّا ج) عام یہودی بھی کہتے تھے کہ ہم بھی تو آخر اللہ کو اور آخرت کو مانتے ہیں ‘ جبکہ منافق تو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو بھی مانتے تھے۔ (وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ لا) یہاں ” شیاطین “ سے مرادیہود کے علماء بھی ہوسکتے ہیں اور منافقین کے سردار بھی۔ عبداللہ بن ابی منافقین مدینہ کا سردار تھا۔ اگر وہ کبھی انہیں ملامت کرتا کہ معلوم ہوتا ہے تم تو بالکل پوری طرح سے مسلمانوں میں شامل ہی ہوگئے ہو ‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر بات مان رہے ہو ‘ تو اب انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے کہنا پڑتا تھا کہ نہیں نہیں ‘ ہم تو مسلمانوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں ‘ ہم ان سے ذرا تمسخر کر رہے ہیں ‘ ہم آپ ہی کے ساتھ ہیں ‘ آپ فکر نہ کریں۔ منافق تو ہوتا ہی دو رخا ہے۔ ” نفق “ کہتے ہیں سرنگ کو ‘ جس کے دو راستے ہوتے ہیں۔ ” نافقاء “ گوہ کے ِ بل کو کہا جاتا ہے۔ گوہ اپنے بل کے دو منہ رکھتا ہے کہ اگر کتا شکار کے لیے ایک طرف سے داخل ہوجائے تو وہ دوسری طرف سے نکل بھاگے۔ تو منافق بھی ایسا شخص ہے جس کے دو رخ ہوتے ہیں۔ سورة النساء میں منافقین کے بارے میں کہا گیا ہے : (مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لاآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ وَلَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ ط) (آیت ١٤٣) یعنی کفر و ایمان کے درمیان ڈانوا ڈول ہیں ‘ مذبذب ہو کر رہ گئے ہیں۔ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے ہیں۔ لفظ ” شَیْطٰن “ کے بارے میں دو رائیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا مادہ ” ش ط ن “ ہے اور دوسری یہ کہ یہ ” ش و ط “ مادہ سے ہے۔ شَطَنَ کے معنی ہیں تَبَعَّدَ یعنی بہت دور ہوگیا۔ پس شیطان سے مراد ہے جو اللہ کی رحمت سے بہت دور ہوگیا۔ جبکہ شاط یَشُوْطُ کے معنی ہیں اِحْتَرَقَ غَضَبًا وَحَسَدًا یعنی کوئی شخص غصے ّ اور حسد کے اندر جل اٹھا۔ اس سے فَعْلَان کے وزن پر ” شیطان “ ہے ‘ یعنی وہ جو حسد اور غضب کی آگ میں جل رہا ہے۔ چناچہ ایک تو شیطان وہ ہے جو جناتّ میں سے ہے ‘ جس کا نام پہلے ” عزازیل “ تھا ‘ اب ہم اسے ابلیس کے نام سے جانتے ہیں۔ پھر یہ کہ دنیا میں جو بھی اس کے پیروکار ہیں اور اس کے مشن میں شریک کار ہیں ‘ خواہ انسانوں میں سے ہوں یا جنوں میں سے ‘ وہ بھی شیاطین ہیں۔ اسی طرح اہل کفر اور اہل زیغ کے جو بڑے بڑے سردار ہوتے ہیں ان کو بھی شیاطین سے تعبیر کیا گیا۔ آیت زیر مطالعہ میں شیاطین سے یہی سردار مراد ہیں۔ (قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ لا اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِءُ ‘ وْنَ ) جب وہ علیحدگی میں اپنے شیطانوں یعنی سرداروں سے ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں ‘ ان مسلمانوں کو تو ہم بیوقوف بنا رہے ہیں ‘ ان سے استہزاء اور تمسخر کر رہے ہیں جو ان کے سامنے ” اٰمَنَّا “ کہہ دیتے ہیں کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15. 'Satan' in Arabic means refractory, rebellious and headstrong, and is used for both human beings and jinn. Although this word is generally used in the Qur'an for the satans amongst the jinn, it is also used occasionally for human beings possessing satanic characteristics. The context generally explains whether the word 'satan' refers to jinn or to human beings. In this particular case the word 'satans' refers to those influential leaders of the time who were in the vanguard of opposition and hostility to Islam

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :15 شیطان عربی زبان میں سرکش ، متمرّد اور شوریدہ سر کو کہتے ہیں ۔ انسان اور جِنّ دونوں کے لیے یہ لفظ مستعمل ہوتا ہے ۔ اگر چہ قرآن میں یہ لفظ زیادہ تر شیاطین جِنّ کے لیے آیا ہے ، لیکن بعض مقامات پر شیطان صفت انسانوں کے لیے بھی یہ استعمال کیا گیا ہے اور سیاق و سباق سے بآسانی معلوم ہو جا تا ہے کہ کہاں شیطان سے انسان مراد ہیں اور کہاں جِنّ ۔ اس مقام پر شیاطین کا لفظ ان بڑے بڑے سرداروں کے لیے استعمال ہوا ہے ، جو اس وقت اسلام کی مخالفت میں پیش پیش تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13’’ اپنے شیطانوں‘‘ سے مراد وہ سردار ہیں جو ان منافقین کی سازشوں میں ان کے سربراہ اور رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:14) لقوا : ماضی جمع مذکر غائب ، لقی ولقاء (باب سمع) مصدر، لقوا اصل میں لقیوا تھا۔ ی پر ضمہ دشوار تھا۔ ماقبل کو دیا۔ ی بسبب اجتماع ساکنین گرگئی۔ لقوا ہوگیا۔ جب وہ ملتے ہیں، جب وہ سامنے آتے ہیں ۔ لقوا ماضی کا صیغہ ہے۔ لیکن حرف شرط کے بعد آنے کی وجہ سے بمعنی مضارع آیا ہے۔ ملاحظہ ہو (2:11) ۔ الذین : اسم موصول ۔ امنوا صلہ موصول اپنے صلہ سے مل کر لقوا کا مفعول ہے۔ خلوا۔ ماضی جمع مذکر غائب ۔ (ماضی بمعنی مضارع بحوالہ (2:11) خلا یخل (باب نصر) خلاء مصدر وہ تنہا ہوا۔ وہ اکیلا ہوا۔ خلاء خلوت میں ہونا یا اکیلا ہونا۔ خلا الی۔ کسی کے ساتھ اکیلا ہونا۔ یا خلوت میں ہونا واذا خلوا الیٰ شیاطینھم ۔ اور جب وہ اپنے شیطان ساتھیوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں، یعنی جب اہل ایمان ان کے پاس نہیں ہوتے۔ مستھزء ون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ استھزاء (استفعال) مصدر ، ھزئ۔ مادہ ۔ مذاق کرنے والے، ٹھٹھا کرنے والے۔ مذاق بنا کر انکار کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقت کے سبب اور حقیقی شعور سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے کردار میں کھوکھلہ پن پیدا ہوجاتا ہے۔ جس وجہ سے منافق ایسی گفتگو کرتا ہے۔ منافق جب ایمان داروں سے ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اسلام کی خوبیاں، رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف اور مومنوں کے حسن کردار کا ذکر کرتے ہوئے ایمان کے دعویدار بنتے ہیں۔ لیکن جب اپنے لیڈروں کی طرف پلٹتے ہیں تو ان کو تسلی دیتے ہیں کہ ہمارے بارے میں فکر نہ کرنا ہم تمہارے ہی ہیں ہم تو مسلمانوں کے ساتھ شغل اور دکھاوے کے لیے ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہاں قرآن مجید نے ان کے بڑوں کو شیطان قرار دیا ہے کیونکہ ان کے بڑے شیطان کی طرح نہ صرف خود گمراہ ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ منافق اخلاقی لحاظ سے اس قدر سفلہ مزاجی کا شکار ہوتا ہے کہ وہ ایمان جیسے گراں قدر اور حساس معاملے کو بھی مذاق سمجھتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ان کے گناہ کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ اپنی خفت مٹانے اور شرمندگی چھپانے کے لیے کہتے ہیں کہ تم تو خواہ مخواہ سنجیدہ ہو رہے ہو ہم تو خوش طبعی کے طور ایسا کر رہے تھے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَجِدُ مِنْ شَرِّ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ اللَّہِ ذَا الْوَجْہَیْنِ ، الَّذِی یَأْتِی ہَؤُلاَءِ بِوَجْہٍ وَہَؤُلاَءِ بِوَجْہٍ ) (رواہ البخاری : باب ما قیل فی ذی الوجہین) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں سے بدترین شخص دو چہروں والا (منافق) ہوگا۔ جو اس طرف ایک چہرے کے ساتھ آتا ہے اور دوسری طرف دوسرے چہرے سے۔ “ مسائل ١۔ منافق دوغلی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ ٢۔ بڑے منافق شیطان کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ ٣۔ منافق اللہ اور اہل ایمان کو مذاق کرتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سوال یہ ہے کہ کوئی بیوقوف کبھی یہ سمجھا ہے کہ وہ بیوقوف ہے ، یا کوئی گمراہ کبھی یہ شعور رکھتا ہے کہ وہ جادہ مستقیم سے ہٹ چکا ہے ۔ اس کے اب منافقین کی آخری صفت کو بیان کیا جاتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ صرف جھوٹ ، فریب کاری ، تحقیر مسلمین اور ادعاء وتعلی ہی میں مبتلا نہیں بلکہ ان مذموم صفات کے ساتھ وہ پست ہمت ، لئیم ، سازشی اور مکار بھی ہیں ۔ ان کی حالت یہ ہے کہ وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ ” جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کررہے ہیں ۔ “ بعض لوگ اس ذلت اور کمینگی کو قوت اور حکمت سمجھتے ہیں ، مکروفریب ان کے پر خیال میں غایت درجے کی فراست وسیاست ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ چیز درحقیقت بےچارگی اور خسیس پنے کی آخری حد ہوتی ہے ۔ ایک پرشوکت اور قوی انسان کبھی کمینہ اور خبیث النفس نہیں ہوسکتا۔ نہ اسے مکر و فریب کی ضرورت پڑتی ہے ۔ نہ اسے اس بات کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ تنہائی میں چغل خوریاں کرے اور طعنے اور طنز سے دل کا غبار نکالے ۔ ان منافقین کا یہ حال تھا کہ وہ کھلم کھلا مسلمانوں کا سامنا کرنے سے کترا رہے تھے اور مومنین سے مل کر اپنی طرف سے بھی اس بات کا اظہار کررہے تھے کہ ہم مومن ہیں تاکہ اس طرح وہ مومنین کی جانب سے ہر قسم کی اذیت سے محفوظ رہیں اور اس طرح محفوظ ومامون ہو کر مومنین کے خلاف نیش زنی کرتے رہیں ۔ یہ لوگ جب اپنے شیاطین کے پاس جاتے ، جو غالباً (یہود ہوا کرتے تھے ، اور جنہیں ایسے لوگوں میں سے ایسے کئی افراد مل جاتے تھے جو اسلامی صفوں میں انتشار واختلاف پھیلانے کے لئے استعمال ہوں ۔ دوسری طرف یہودی بھی ایسے لوگوں کے لئے ایک سہارے اور ملجاوماویٰ کا کام کرتے تھے ۔ چناچہ یہ منافقین ” جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے تو کہتے کہ اصل میں ہم تو تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کررہے ہیں ۔ “ مومنین سے ان کا مذاق یہ تھا کہ وہ ایمان اور تصدیق قلبی کا اقرار کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ بس مومنین کیا جانتے ہیں کہ ہم کیا ہیں ۔ ان کی اس عیارانہ گفتگو اور مکارانہ طر زعمل کی وضاحت کے فوراً بعد قرآن کریم انہیں ایسی سخت ڈانٹ پلاتا ہے کہ اگر احساس ہو تو پہاڑ بھی مارے خوف کے کانپ اٹھیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27 ۔ یہ منافقوں کی تیسری خباثت ہے کہ جب وہ بااثر اور مخلص مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم خالص ایمان لا چکے ہیں آمنا سے منافقین مسلمانوں کو اس بات کا یقین دلانا چاہتے تھے کہ اب انہوں نے نفاق چھوڑ دیا ہے اور دل سے خالص ایمان قبول کرلیا ہے کیونکہ ان کا زبانی ایمان تو مسلمانوں کو پہلے بھی معلوم تھا۔ فالمراد اخلصنا بالقلب والدلیل علیہ انا الاقرار باللسان کان معلوما منھم (کبیر ص 309 ج 1) مگر یہی لفظ ان کے نفاق کی غمازی کرتا ہے کیونکہ مسلمانوں کو پہلے سے اس نفاق کا علم تھا اب اس کی تردید کیلئے اور ان کے دلوں میں اپنے اخلاص کا سکہ بٹھانے کے لئے انہیں کوئی تاکیدی جملہ استعمال کرنا چاہئے تھا مگر اس کے باوجود وہ سرسری طور پر صرف اٰمَنَّا کا لفظ استعمال کرتے ہیں اس لیے کہ نفاق قلبی کی وجہ سے وہ تاکیدی جملے کو گوارا نہیں کرسکتے۔ 28 ۔ خلا کا صلہ عام طور پر با آتا ہے مگر یہاں الی آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں خلا ذہاب کے معنوں کو متضمن ہے اور مطلب یہ ہے کہ منافقین مسلمانوں سے ملنے کے بعد جب اپنے لیڈروں کے پاس جاتے ہیں تو وہاں مسلمانوں کے سامنے کئے ہوئے اقرار کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ اس تضمین کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے منافقین کی منافقت خوب عیاں ہوجاتی ہے۔ لہذا الی ذاھبین محذوف سے متعلق ہے جو خلوا کے فاعل سے حال ہے۔ ای خلوا ذاھبین الی شیاطینہم۔ اور شیاطین سے علمائے یہود، اور شرک وکفر کے لیڈر مراد ہیں۔ شیاطینھمسادتھم وکبراءھم و رؤساء ھم من احبار الیھود رءوس المشرکین والمنافقین (ابن کثیر ص 501 ج 1) 29 ۔ یعنی دین اور ایمان اور عقیدہ میں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ انا صاحبوکم وموافقوکم علی دینکم (مدارک ص 17، 18 ج 1) 30 ۔ یعنی ہم دل سے تھوڑے مسلمان ہیں۔ دل سے تو تمہارے ساتھ ہیں۔ مسلمانوں کے سامنے ایمان کا اظہار محض استہزاء اور تمسخر کے طور پر اور انہیں بیوقوف بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ تاکہ وہ ہمیں مسلمان سمجھیں اور ہم سے مسلمانوں کا سا معاملہ کریں۔ ہمارا مال وجان محفوظ ہوجائے اور ہمیں مال غنیمت وغیرہ میں سے حصہ مل جایا کرے۔ انما نستخف بھم فی ذلک القول لصون دمائنا واموالنا وذریاتنا (نہر ص 70 ج 1) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi