Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 155

سورة البقرة

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ

And We will surely test you with something of fear and hunger and a loss of wealth and lives and fruits, but give good tidings to the patient,

اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے ، دشمن کے ڈر سے ، بھوک پیاس سے ، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Believer is Patient with the Affliction and thus gains a Reward Allah says; وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ ... And certainly, We shall test you with something of fear, hunger, Allah informs us that He tests and tries His servants, just as He said in another Ayah: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَـهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّـبِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَـرَكُمْ And surely, We shall try you till We test those who strive hard (for the cause of Allah) and As-Sabirin (the patient), and We shall test your facts (i.e., the one who is a liar, and the one who is truthful). (47:31) Hence, He tests them with the bounty sometimes and sometimes with the afflictions of fear and hunger. Allah said in another Ayah: فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ So Allah made it taste extreme of hunger (famine) and fear. (16:112) The frightened and the hungry persons show the effects of the affliction outwardly and this is why Allah has used here the word `Libas' (cover or clothes) of fear and hunger. In the Ayat above, Allah used the words: بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ (with something of fear, hunger), meaning, a little of each. Then Allah said, ... وَنَقْصٍ مِّنَ الاَمَوَالِ ... loss of wealth, meaning, some of the wealth will be destroyed, ... وَالانفُسِ .... lives, meaning, losing friends, relatives and loved ones to death, ... وَالثَّمَرَاتِ ... and fruits, meaning, the gardens and the farms will not produce the usual or expected amounts. This is why Allah said next: ... بَشِّرِ الصَّابِرِينَ but give glad tidings to As-Sabirin (the patient). He then explained whom He meant by `the patient' whom He praised: الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

وفائے عہد کے آزمائش لازم ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی آزمائش ضرور کر لیا کرتا ہے کبھی ترقی اور بھلائی کسے ذریعہ اور کبھی تنزل اور برائی سے ، جیسے فرماتا ہے آیت ( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ ) 47 ۔ محمد:31 ) یعنی ہم آزما کر مجاہدوں اور صبر کرنے والوں کو معلوم کرلیں گے اور جگہ ہے آیت ( فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ) 6 ۔ النحل:112 ) مطلب یہ ہے کہ تھوڑا سا خوف ، کچھ بھوک ، کچھ مال کی کمی ، کچھ جانوں کی کمی یعنی اپنوں اور غیر خویش و اقارب ، دوست و احباب کی موت ، کبھی پھلوں اور پیداوار کی نقصان وغیرہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزما لیتا ہے ، صبر کرنے والوں کو نیک اجر اور اچھا بدلہ عنایت فرماتا ہے اور بےصبر جلد باز اور ناامیدی کرنے والوں پر اس کے عذاب اتر آتے ہیں ۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ یہاں خوف سے مراد اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے ، بھوک سے مراد روزوں کی بھوک ہے ، مال کی کمی سے مراد زکوٰۃ کی ادائیگی ہے ، جان کی کمی سے مراد بیماریاں ہیں ، پھلوں سے مراد اولاد ہے ، لیکن یہ تفسیر ذرا غور طلب ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩٥] یہ خطاب مسلمانوں سے ہے۔ خوف سے مراد وہ ہنگامی صورت حال ہے جو جنگ احزاب سے پہلے ہر وقت مدینہ کی آزاد چھوٹی سی ریاست کے گرد منڈلاتی رہتی تھی۔ ایک دفعہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کاش آج رات کوئی میرا پہرہ دے تاکہ میں سو سکوں۔ یہ سن کر حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) مسلح ہو کر آگئے اور کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں پہرہ دیتا ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو جائیں۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح آرام فرمایا۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب الحراسہ فی الغزو فی سبیل اللّٰہ عزوجل، بخاری کتاب التمنی باب قولہ النبی لیت کذا وکذا) اور ایک رات اہل مدینہ ایک خوفناک آواز سن کر گھبرا گئے، پھر وہ اس آواز کی طرف روانہ ہوئے تو دیکھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ادھر سے واپس آ رہے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پہلے ہی اس آواز کی جانب روانہ ہوگئے تھے اور خبر معلوم کر کے آ رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے کہا ڈرو نہیں، ڈرو نہیں۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب الحمائل و تعلیق السیف بالعنق اور مبادرۃ الامام عند الفزع اور مسلم کتاب الفضائل باب شجاعۃ النبی) اور اس دور میں مسلمانوں کی معاشی تنگ دستی کا حال درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ ١۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے صفہ والوں میں ستر آدمی ایسے دیکھے جن کے پاس چادر تک نہ تھی یا تو فقط تہبند تھا یا فقط کمبل۔ جسے انہوں نے گردن سے باندھ رکھا تھا۔ جو کسی کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچتا اور کسی کے ٹخنوں تک، جسے وہ اپنے ہاتھ سے سمیٹتے رہتے۔ اس ڈر سے کہ کہیں ان کا ستر نہ کھل جائے۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب نوم الرجال فی المسجد) ٢۔ حضرت عائشہ (رض) نے اپنے بھانجے عروہ بن زبیر (رض) سے کہا کہ : میرے بھانجے ہم پر ایسا وقت گزر چکا ہے کہ ہم ایک چاند دیکھتے، پھر دوسرا چاند، پھر تیسرا چاند یعنی دو دو مہینے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی۔ عروہ (رض) نے کہا : خالہ ! پھر تمہاری گزر کس چیز پر ہوتی تھی ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : انہی دو کالی چیزوں یعنی کھجور اور پانی پر۔ اتنا ضرور تھا کہ چند انصاری لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمسائے تھے جن کے پاس بکریاں تھیں۔ وہ آپ کے لیے بکریوں کا دودھ تحفہ کے طور پر بھیجا کرتے جس سے ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی پلاتے۔ && (بخاری۔ کتاب الھبۃ و فضلھا و التحریض علیھا) ٣۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل پر آپ کی وفات تک ایسا زمانہ نہیں گزرا کہ انہوں نے مسلسل تین دن پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہو۔ (بخاری، کتاب الاطعمہ باب قول اللہ تعالیٰ کلوا من طیبات مارزقنکم وکلوا من طیبات ما کسبتم) ٤۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے بھوک لگی ہوئی تھی۔ مجھے حضرت عمر (رض) ملے تو ان سے کہا کہ قرآن پاک کی فلاں آیت : ( وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا ۝) 76 ۔ الإنسان :8) مجھے پڑھ کر سناؤ، وہ اپنے گھر میں گئے اور یہ آیت مجھے پڑھ کر سنائی اور سمجھائی۔ آخر میں وہاں سے چلا۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ بھوک سے بےحال ہو کر اوندھے منہ گرپڑا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے سرہانے کھڑے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھایا اور پہچان گئے کہ بھوک کے مارے میرا یہ حال ہے۔ آپ مجھے گھر لے گئے اور میرے لیے دودھ کا پیالہ لانے کا حکم دیا۔ میں نے دودھ پیا، پھر فرمایا ابوہریرہ ! اور پی، میں نے اور پیا۔ پھر فرمایا : اور پی۔ میں نے اور پیا حتیٰ کہ میرا پیٹ تن کر سیدھا ہوگیا۔ پھر میں حضرت عمر (رض) سے ملا اور اپنا حال بیان کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میری بھوک دور کرنے کے لیے ایسے شخص کو بھیج دیا جو آپ سے اس بات کے زیادہ لائق تھے اللہ کی قسم ! میں نے آپ سے جونسی آیت پڑھ کر سنانے کو کہا تھا۔ وہ مجھے آپ سے زیادہ یاد تھی۔ حضرت عمر (رض) کہنے لگے، اللہ کی قسم ! اگر میں اس وقت تمہیں گھر لے جا کر کھانا کھلاتا تو سرخ اونٹوں کے ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔ (بخاری، کتاب قول اللّٰہ تعالیٰ کلوا من طیبات ما رزقناکم) ٥۔ سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ میں پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا اور ہم نے اپنے تئیں اس وقت جہاد کرتے پایا جب ہم کو حبلہ اور سمر (کانٹے دار درخت) کے پتوں کے سوا اور خوراک نہ ملتی۔ ہم لوگوں کو اس وقت بکری کی طرح سوکھی مینگنیاں آیا کرتیں جن میں تری نام کی کوئی چیز نہ ہوتی۔ (بخاری، کتاب الرقاق، (باب کیف کان عیش النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و اصحابہ۔۔ ) ٦۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک لڑائی کو نکلے۔ سواری کے لیے ہم سب کے پاس ایک ہی اونٹ تھا اور باری باری اس پر سوار ہوتے اور چلتے چلتے ہمارے پاؤں پھٹ گئے اور میرے تو پاؤں پھٹ کر ناخن بھی گرپڑے۔ اس حال میں ہم پاؤں پر چیتھڑے لپیٹ لیتے۔ اسی لیے اس لڑائی کا نام غزوہ ذات الرقاع (چیتھڑوں والی لڑائی پڑگیا (بخاری، کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع) ٧۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے ایک لشکر سمندر کے کنارے بھیجا جس میں تین سو آدمی اور سردار ابو عبیدہ بن الجراح (رض) تھے۔ ہمارا راشن ختم ہوگیا تو ابو عبیدہ (رض) نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا بچا ہوا راشن ایک جگہ جمع کریں۔ یہ سارا راشن کھجور کے دو تھیلے تھے ابو عبیدہ (رض) اس سے تھوڑا تھوڑا کھانے کو دیتے رہے۔ جب وہ بھی ختم ہوگیا تو ہمیں روزانہ صرف ایک کھجور کھانے کو ملا کرتی۔ وہب نے جابر (رض) سے پوچھا ! بھلا ایک کھجور سے کیا بنتا ہوگا۔ جابر (رض) کہنے لگے کہ وہ ایک کھجور بھی غنیمت تھی، جب وہ بھی نہ رہی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی۔ پھر ہم سمندر پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بڑی مچھلی ٹیلے کی طرح پڑی ہے۔ سارا لشکر اٹھارہ دن اس کا گوشت کھاتا رہا، جب ہم چلنے لگے تو ابو عبیدہ (رض) نے حکم دیا کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی جائیں وہ اتنی اونچی تھیں کہ اونٹ پر کجاوہ کسا گیا تو وہ ان کے نیچے سے نکل گیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی باب غزوۃ سیف البحر) خوف کے علاوہ فاقہ، جان و مال اور پھلوں میں خسارہ یہ سب ایسی صورتیں ہیں جو اسلام کی راہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو پیش آتی رہیں۔ اسی لیے انہیں صبر اور نماز سے مدد لینے کی ہدایت کی گئی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے انسان کو اذیت پہنچے، وہ خواہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ (قرطبی، شوکانی) (اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ) یہ ایک ایسا کلمہ ہے کہ دل کی حاضری سے کہا جائے تو اس میں اس بات کا اظہار بھی ہے کہ ہم اللہ کی ملکیت اور اس کے بندے ہیں اور اس کا بھی کہ ہمیں ہر حال میں اس کے پاس واپس جانا ہے۔ وہ جب چاہے، جسے چاہے واپس بلائے، اس پر شکوہ و شکایت کا کیا موقع ہے ؟ اس سے انسان کو صبر کی توفیق ملتی ہے اور صبر کرنے والوں کو تین نعمتیں ملتی ہیں : 1 رب کی مہربانیاں۔ 2 اس کی بہت بڑی رحمت ( َرَحْمَةٌ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے) ۔ اور ہدایت یافتہ ہونے کی سند۔ قرآن مجید میں صبر کا ذکر ستر (٧٠) دفعہ آیا ہے۔ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ اس میں لفظ ” اِذَآ “ میں اشارہ ہے کہ مصیبت پہنچتے ہی صبر کرنا اور ” اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ “ کہنا چاہیے، بعد میں رو دھو کر تو ہر شخص ہی صبر کرلیتا ہے۔ انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلٰی ) [ بخاری، الجنائز، باب زیارۃ القبور : ١٢٨٣ ] ” صبر صرف وہ ہے جو پہلی چوٹ کے وقت ہو۔ “ ام المومنین ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا : ” کوئی مسلمان جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ وہی کلمہ کہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے (یعنی یہ دعا پڑھے) : ( إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ، اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَ أَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا ) (یقیناً ہم اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، اے اللہ ! مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرما اور مجھے اس کی جگہ اس سے بہتر عطا فرما) تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عطا فرماتا ہے۔ “ ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ پھر جب (میرے خاوند) ابو سلمہ (رض) فوت ہوئے تو میں نے کہا مسلمانوں میں ابو سلمہ (رض) سے بہتر کون ہوگا ؟ پہلا گھرانہ جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کی۔ پھر میں نے یہ (مذکورہ بالا) کلمہ کہہ لیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عطا فرما دیے۔ [ مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ : ٩١٨ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝ ٠ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ۝ ١٥٥ ۙ بلی يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس/ 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] ( ب ل ی ) بلی الوکب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ جوع الجُوع : الألم الذي ينال الحیوان من خلّو المعدة من الطعام، والمَجَاعة : عبارة عن زمان الجدب، ويقال : رجل جائع وجوعان : إذا کثر جو عه . ( ج و ع ) الجوع ۔ وہ تکلیف جو کسی حیوان کو معدہ کے طعام سے خالی ہونے کی وجہ پہنجتی ہے المجاعۃ خشک سالی کا زمانہ ۔ کہا جاتا ہےء رجل جائع بھوکا آدمی اور جب بہت زیادہ بھوکا ہو تو اسے جو عان کہا جاتا ہے ۔ نقص النَّقْصُ : الخُسْرَانُ في الحَظِّ ، والنُّقْصَانُ المَصْدَرُ ، ونَقَصْتُهُ فهو مَنْقُوصٌ. قال تعالی: وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة/ 155] ، وقال : وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود/ 109] ، ( ن ق ص ) النقص ( اسم ) حق تلفی اور یہ نقصتہ ( ن ) فھو منقو ص کا مصدر بھی ہے جس کے معنی گھٹانے اور حق تلفی کر نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة/ 155] اور جانوں اور مالوں ۔۔۔۔ کے نقصان سے وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود/ 109] اور ہم ان کو ان کا حصہ پورا پوارا کم وکاست دینے والے ہیں ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ ثمر الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] ( ث م ر ) الثمر اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے : ولنبلونکم بشئی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالو ا انا للہ وانا الیہ راجعون ( اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدینوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، انہیں خوشخبری دے دو ( تا قول باری : واولئک ھم المھتدون ( اور یہی ہیں ہدایت یافتہ) عطاء الربیع اور حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ اس خطاب سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد الہجرۃ صحابہ کرام مراد ہیں۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ اللہ سبحانہ نے پہلے ہی ان سے وہ باتیں بیان کردیں جو ہجرت کے بعد انہیں اللہ کی راہ میں تکلیفوں اور سختیوں کی صورت میں پیش آنے والی تھیں۔ اس بیان کی دو وجہیں بیان ہوسکتی ہیں ۔ اول یہ کہ حضرات صحابہ کرام (رض) ان باتوں کے پیشگی سماع سے اپنی طبیعتوں کو سختیوں پر صبر کرنے کا عادی بنالیں تاکہ جب یہ مشکلات پیش آئیں تو ان پر بہ آسانی صبر کرسکیں۔ دوم یہ کہ نفس کا صبر کا عادی بنانے پر انہیں فوری طورپر اس کا ثواب مل جائے۔ قول باری وبشر الصابرین۔ یعنی ان لوگوں کو بشارت دیجئے جو مذکورہ شدائد پر صبر کرنے والے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٥) اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس آزمائش کا ذکر فرماتے ہیں جو اس نے مومنین کی آزمائش فرمائی ہے کہ ہم تمہیں دشمن کے خوف قحط سالی اور مالوں کے خاتمہ اور جانوں کے قتل ہوجانے اور مرجانے اور بیماریوں کے لاحق ہونے اور پھلوں کے ختم ہوجانے سے آزمائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٥ (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ ) دیکھ لو ‘ جس راہ میں تم نے قدم رکھا ہے یہاں اب آزمائشیں آئیں گی ‘ تکلیفیں آئیں گی۔ رشتہ دار ناراض ہوں گے ‘ شوہر اور بیوی کے درمیان تفریق ہوگی ‘ اولاد والدین سے جدا ہوگی ‘ فساد ہوگا ‘ فتور ہوگا ‘ تصادم ہوگا ‘ جان و مال کا نقصان ہوگا۔ ہم خوف کی کیفیت سے بھی تمہاری آزمائش کریں گے اور بھوک سے بھی۔ چناچہ صحابہ کرام (رض) نے کیسی کیسی سختیاں جھیلیں اور کئی کئی روز کے فاقے برداشت کیے۔ غزوۂ احزاب میں کیا حالات پیش آئے ہیں ! اس کے بعد جیش العسرۃ (غزوۂ تبوک) میں کیا کچھ ہوا ہے ! (وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ) مالی اور جانی نقصان بھی ہوں گے اور ثمرات کا نقصان بھی ہوگا۔ ثمرات یہاں دو معنی دے رہا ہے۔ مدینہ والوں کی معیشت کا دار و مدار زراعت اور باغبانی پر تھا۔ خاص طور پر کھجور ان کی پیداوار تھی ‘ جسے آج کی اصطلاح میں cash crop کہا جائے گا۔ اب ایسا بھی ہوا کہ فصل پک کر تیار کھڑی ہے اور اگر اسے درختوں سے اتارا نہ گیا تو ضائع ہوجائے گی ‘ ادھر سے غزوۂ تبوک کا حکم آگیا کہ نکلو اللہ کی راہ میں ! تو یہ امتحان ہے ثمرات کے نقصان کا۔ اس کے علاوہ ثمرات کا ایک اور مفہوم ہے۔ انسان بہت محنت کرتا ہے ‘ جدوجہد کرتا ہے ‘ ایک کیریئر اپناتا ہے اور اس میں اپنا ایک مقام بنا لیتا ہے۔ لیکن جب وہ دین کے راستے پر آتا ہے تو کچھ اور ہی شکل اختیار کرنی پڑتی ہے۔ چناچہ اپنی تجارت کے جمانے میں یا کسی پروفیشن میں اپنا مقام بنانے میں اس نے جو محنت کی تھی وہ سب کی سب صفر ہو کر رہ جاتی ہے ‘ اور اپنی محنت کے ثمرات سے بالکل تہی دامن ہو کر اسے اس وادی میں آنا پڑتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(155 ۔ 157) ۔ اوپر کی آیت میں مصیبت کے وقت صبر اور نماز سے مدد لینے کا ذکر فرما کر اسی کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں جو اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے جو شخص مصیبت کے وقت صبر کرے گا اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق اس کو پورا جر دے گا سورة الزمر میں آئے گا۔{ اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِحِسَابٍ } (٣٩: ١٠) جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر نیکی کا اجر دس درجہ سے لے کر سات سو تک ہے۔ مگر صبر جیسی مشکل چیز ہے اسی طرح اس کا ثواب بھی اندازہ سے باہر ہے صحیح ابن حبان وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ سے بسند معتبر روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عقبیٰ میں بڑادرجہ دینا چاہتا ہے۔ لیکن ان بندوں کے اعمال اس درجہ کے قابل نہیں ہوتے اس لئے ان کو بعض مصیبتوں سے آزماتا ہے اور جب وہ بندے ان مصیبتوں کے وقت صابر رہتے ہیں تو ان کے صبر کے اجر میں اللہ تعالیٰ ان اپنے بندوں کو عقبیٰ کے اس بڑے درجہ کے قابل کردیتا ہے ١۔ اسی طرح مصیبت کے وقت صبر کرنے سے گناہوں کے معاف ہونے کی حدیثیں بہت سی ہیں ٢۔ حاصل یہ ہے کہ دنیا اکثر اچھے لوگ مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تاکہ مصیبت کے وقت صبر کرنے سے ان کا درجہ بڑھے ان کے گناہ معاف ہوں۔ اس لئے مسلمان آدمی کو مصیبت سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ ایسے وقت پر صبر اور نماز سے مدد لینی چاہیے۔ مال کا نقصان یہ ہے کہ مثلاً کسی تجارت میں گھاٹا آجاوے یا کوئی چوری ہوجاوے جان کا نقصان رشتہ داروں یا دوستوں کا مر جاناخوف سے مراد دشمنوں کا خوف ہے بھوک سے مراد محتاجی و قحط میوہ کا نقصان باغ کے پیڑوں میں پھل کا نہ آنا یا کم آنا یا اولاد کی موت کیونکہ اولاد کو بھی پھل کہتے ہیں۔ چناچہ ترمذی وغیرہ میں ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کسی مسلمان شخص کی اولاد کا انتقال ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ملک الموت سے فرماتا ہے کہ جس وقت تو نے میرے بندے کے دل کے پھل کو اس سے چھین لیا تو اس میرے بندے نے کیا کہا فرشتہ جواب دیتا ہے یا اللہ اس وقت تیرے بندے نے { اِنَّا لِلّٰہِ } پڑھی اور تیری تعریف کی نہ کچھ بےصبر کی نہ کوئی ناجائز کلمہ منہ سے نکالا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے اچھا ایسے بندہ کے لئے جنت میں ایک گھر تیار کرو اور اس کا نام اللہ کی تعریف کا گھر رکھو ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے ٣۔ جو قابل ِاعتبار ہے اور مسند امام احمد کی روایت سے ترمذی کی روایت کو ایک طرح کی تقویت بھی حاصل ہوگی ہے۔ غرض صابروں کو بڑا اجر ملنے والا ہے۔ اسی واسطے آخر آیت میں فرمایا کہ ان لوگوں پر اللہ کی رحمت ہے اور انہیں لوگوں نے عقبیٰ کی نجات کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:155) لنبونکم۔ ل تاکید کا ہے نبلون۔ مضارع تاکید بانون ثقلیہ ۔ صیغہ جمع متکلم ۔ بلاء مصدر (باب نصر) بمعنی آزمائش، آزمائش میں ڈالنا۔ آزمانا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ ہم تم کو ضرور ضرور آزمائیں گے۔ الخوف۔ خوف سے مراد خوف اللہ تعالیٰ ۔ الجوع سے مراد صوم رمضان۔ ونقص من الاموال سے مراد زکوۃ و صدقات من الانفس سے مراد امراض اور من الثمرات سے مراد موت الاولاد ہے۔ یا بالترتیب خوف سے مراد خوف دشمن ۔ جوع سے مراد بھوک، قحط، نقص من الاموال سے مراد مالوں میں خسارہ یا بالکل بلاک ہونا اور نقص من الانفس سے مراد جانوں کی کمی یعنی قتل ہونا یا مرجانا یا امراض کا لاحق ہونا۔ یا بڑھاپا ہے اور پھلوں کی کمی یہ ہے کہ کوئی آفت آجائے جس سے پھل جاتے رہیں یا کم ہوجائیں۔ وغیرہ

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : غم اور آزمائش کی مختلف صورتیں۔ اسلام کے اوصاف حمیدہ میں یہ وصف بھی شامل ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو کسی مبالغہ آمیزی اور خوش فہمی کا شکار نہیں ہونے دیتا کہ جو نہی تم اپنی زبان سے کلمہ ادا کرو گے تو بہاریں لوٹنے کے ساتھ ہر قسم کی کامیابیاں تمہارے دامن میں سمٹ آئیں گی۔ اسلام اور کسی نظریے کی تاریخ بھی اس بات کی تائید نہیں کرتی کہ جو نہی کسی نے اسے قبول کیا تو ان کے لیے نعمتوں اور سہولتوں کے دروازے کھل گئے ہوں۔ اس کے برعکس یہ ہوا کرتا ہے کہ تحریک کے ابتدائی معاون بیش بہا قربانیاں پیش کیا کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں تو ایک وقت آیا کرتا ہے کہ اسی یا آئندہ نسل کے لیے دنیا میں آسانیوں کے راستے ہموار ہوجایا کرتے ہیں۔ شدید کشمکش اور قربانیوں سے پہلے ان سہولتوں کا تصور کرنا خوش فہمیوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ ایسی ہی صورت حال کے پیش نظر یہاں تحویل قبلہ کے احکامات کے دوران شہادتوں اور آزمائشوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ ترک وطن اور جانی قربانیوں کے ساتھ دشمن کا خوف، غربت و افلاس، مال و دولت کی کمی، اعزاء و اقرباء کی جدائی، موت کی صورت میں ہو یا ہجرت کی شکل میں اور اناج کی کمی سے تمہیں آزمایا جائے گا۔ یہاں پہلے شہادت کا ذکر فرما کر یہ تصوّر دیا کہ اللہ کے بندے جان کی پروا نہیں کرتے لہٰذا ان کے لیے دنیا کا مال ومتاع کیا حیثیت رکھتا ہے گویا کہ بڑی آزمائشوں سے گزرنے والے چھوٹی چھوٹی آزمائشوں سے نہیں گھبرایا کرتے۔ صحابہ کرام (رض) کو فتح مکہ تک پے درپے تمام امتحانات اور آزمائشوں سے گزارا گیا اور وہ ہر امتحان میں سرخرو ہوئے تب جا کر ان کے لیے کامیابیوں کے دروازے کھول دیئے گئے۔ آزمائش زندگی کا جز ولاینفک ہے ‘ بالخصوص دین اسلام کی سر بلندی کے لیے یہ اس قدر اہم اور ضروری ہے کہ اس کے لیے دو حرف تاکید استعمال کیے گئے ہیں۔ عربی کے طلبہ جانتے ہیں کہ جب بیک وقت لام مفتوح اور تشدید کے ساتھ نون آئے تو یہ تاکید مزید کا پتہ دیتے ہیں۔ جس کا مفہوم یہ ہوا کہ آزمائش کے کربناک مراحل سے تمہیں ہر حال میں گزرنا ہوگا۔ اسی بات کو قرآن مجید نے دوسرے انداز اور الفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے : ” کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ” اٰمَنَّا “ کہہ کر انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور آزمائش میں مبتلا نہ کیے جائیں گے ؟ ہم نے ان سے پہلوں کو بھی آزمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ سچوں اور جھوٹوں کو ضرور دیکھ لے گا۔ “ [ العنکبوت : ٢، ٣] یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش مومن کو ذلیل کرنے کے لیے نہیں آتی بلکہ آزمائش انسان کی خوابیدہ صلاحیتیں ابھارنے اور آخرت میں اس کے مراتب میں اضافہ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ دنیا میں مجرموں کے لیے مثال بنتی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو کر بھی اپنے رب کے احسان مند اور شکر گزار بننے کے لیے تیار نہیں ہو جب کہ اس کے بندے نعمتیں چھنوا کر بھی اس کے حضور صبروشکر کا مظاہرہ کیے ہوئے ہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا گیا ہے کہ آپ ایسے صبر و حوصلہ کرنے والوں کو دنیا اور آخرت میں مسرت و شادمانی کا پیغام دیجیے۔ کیونکہ یہ آزمائش کے وقت سر پیٹنے اور واویلا کرنے کے بجائے یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن اور حوصلہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ چھننے والی نعمت کیا چیز ہے ہماری جان عزیز بھی رب کریم کی امانت ہے۔ یہ نعمت تو آج مجھ سے رخصت ہورہی ہے جب کہ مقررہ وقت پر میں نے بھی اسی کے حضور لوٹنا ہے۔ صبر وہ نیکی ہے کہ آدمی کو جب بھی سابقہ تکلیف یاد آئے اور اس پر ” اِنَّا لِلّٰہِ “ کے الفاظ ادا کرے۔ اس کو پہلے کی طرح اجرِعظیم سے نوازاجائے گا۔ [ رواہ مسلم : کتاب الجنائز، باب مایقال عند المصیبۃ ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو خوف، غربت، مال کی کمی، پیاروں کی موت اور رزق کی قلّت کے ساتھ آزماتا ہے۔ ٢۔ مصائب پر صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ خوشخبری کا پیغام دیتا ہے۔ ٣۔ مصیبت کے وقت ” اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ “ پڑھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن آزمائش : ١۔ ایمان کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت : ٢) ٢۔ اللہ نے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا۔ (البقرۃ : ٢١٤) ٣۔ آزمائش میں ثابت قدمی کے بعد اللہ کی مدد یقینی اور قریب ہوا کرتی ہے۔ (البقرۃ : ٢١٤) ٤۔ جنت میں داخلے کے لیے آزمائش ضرور ہوتی ہے۔ (آل عمران : ١٤٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اس سبق میں تحریک اسلامی کو نئے واقعات اور نئی صورتحال کے مقابلے کے لئے تیار کیا جاتا ہے ۔ آنے والے واقعات کے سلسلے میں اسے ایک صحیح نقطہ نظر دیا جاتا ہے : تربیت کے لئے انسان کو مصائب کی بھٹی سے گزارا جاتا ہے ۔ خوف وخطر میں مبتلا کرکے ، جان ومال کا نقصان دے کر ، مصائب اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے ، اللہ طالب صادق کے عزم صمیم کا امتحان کرتے ہیں ۔ یہ آزمائشیں اس لئے ضروری ہیں کہ مؤمنین اسلامی نظریہ حیات کی ذمہ داریاں اچھی طرح پوری کرنے کے قابل ہوسکیں اور اسلامی نظریہ حیات کی راہ میں ، جتنا مصائب سے دوچار ہوں ، اسی قدر نظریہ حیات انہیں عزیز ہوتا چلاجائے۔ وہ نظریات جن کے لئے ان مجاہدین نے کوئی تکلیف نہ اٹھائی ہو نہ کوئی مصیبت برداشت کی ہو ، پائیدار نہیں ہوتے ۔ ایسے لوگ مصیبت کے پہلے مرحلے ہی میں انہیں الوداع کہہ دیتے ہیں ۔ آزمائشیں دراصل ایک نفسیاتی امتحان ہوتی ہیں ، جو ایک کارکن اپنے نظریہ حیات کے لئے پاس کرتا ہے اور اس کی وجہ سے دوسرے لوگوں سے پہلے یہ نظریہ اس کارکن کے لئے عزیز ترازجان ہوجاتا ہے ۔ کارکن نظریہ کی خاطر جب دکھ پائیں گے اور مال خرچ کریں گے تو پھر وہ اس کی قدر کریں گے اور اس کی حفاظت بھی کریں گے ۔ دوسرے لوگ بھی اس نظریے کی قدر تب ہی کریں گے جب وہ دیکھیں گے کہ اس نظریے کو ماننے والے ان پر جان دیتے ہیں اور اس کی وجہ سے آنے والی تمام مصیبتوں کو بخوشی برداشت کرتے ہیں ۔ اپنے نظریات کے لئے مصیبت اٹھانے والوں کو دیکھ کر عام تماشائی بھی یہ کہیں گے ” وہ نظریہ حیات جس کے لئے یہ لوگ لڑتے ہیں ، کوئی بڑی ہی قیمتی چیز ہے ، اگر وہ قیمتی نہ ہوتی تو یہ لوگ اس قدر عظیم قربانیاں ہرگز نہ دیتے اور ان عظیم مصائب وشدائد پر صبر نہ کرتے۔ “ ایسے حالات میں اس نظریہ حیات کے مخالفین بھی لاجواب ہوجاتے ہیں اور اس کے بارے میں تحقیق شروع کردیتے ، قدر کرنے لگتے ہیں اور خود بخود اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں ۔ یہ وہ مقام ہے جس تک پہنچ جانے کے بعد اللہ کی امداد اور نصرت آپہنچتی ہے اور لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوتے ہیں ۔ آزمائش بہت ضروری ہے اس سے نظریاتی لوگوں کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے ان کی کمر مضبوط ہوتی ہے ۔ مصائب وشداد سے ان کی خفیہ قوتیں جاگ اٹھتی ہیں ۔ ذخیرہ شدہ طاقتوں کے لئے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں جن کے بارے میں ، ان مصائب وشدائد سے پہلے مومن کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ اسلامی اقدار اور اسلامی تصورات اس وقت پختہ اور سیدھے نہیں ہوسکتے جب تک انہیں شدائد ومصائب کی بھٹی سے نہ گزاراجائے ۔ یہ مصائب کا نتیجہ ہی ہوتا ہے کہ کارکنوں کی آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں اور دلوں سے میل دورہوجاتا ہے ۔ اب سے اہم ، سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ مصائب وشدائد کی حالت میں تمام دنیاوی رابطے کٹ جاتے ہیں ۔ مختلف الاقسام اوہام اور تمنائیں غائب ہوجاتی ہیں ، دل اللہ کے لئے خالی ہوجاتا ہے بلکہ صرف اللہ کا سہارا باقی رہ جاتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے ، جہاں تمام پردے ہٹ جاتے ہیں ، بصیرت کے دروازے کھل جاتے ہیں ، مطلع دور تک صاف و شفاف ہوتا ہے ، اللہ کے سوا کوئی شئے نظر نہیں آتی ، اللہ کی قوت کے سوا کوئی قوت نظروں میں نہیں جچتی ، اللہ کے سوا کسی کا کوئی اختیار نظر نہیں آتا ، اللہ ہی کی پناہ ہوتی ہے ، اس کے سوا کسی کی پناہ نہیں ہوتی ۔ اس مقام پر پہنچ کر انسانی روح اس حقیقت کے ساتھ یکجا ہوجاتی ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں قرآن کریم کی یہ آیت نفس انسانی کا ایک حصہ بن جاتی ہے ۔ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (١٥٥) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ” اور خوشخبری سنائیں ان صبر کرنے والوں کو ، جن پر کبھی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ! ہم تو اللہ کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔ “ بیشک ہم اللہ کے لئے ہیں سب کے سب اللہ کے لئے ہیں ۔ ہمارے جسم کے اندر جو طاقتیں ہیں ، بلکہ ہمارا تمام وجود اور ہماری پوری شخصیت اللہ اور صرف اللہ کے لئے ہے ۔ ہم کو اللہ ہی طرف لوٹنا ہے ۔ تمام باتوں کا مرجع وہی ہے ۔ سر تسلیم خم ہے ۔ ہر معاملے میں سر تسلیم خم ہے ! گویا ہم صحیح تصور اور صحیح عقیدے کے ساتھ ، کائنات کی واحد سچائی اور حقیقت یعنی رب ذوالجلال کے سامنے کھڑے ہیں اور دست بدعا ہیں ۔ یہ ہیں وہ صابرین جنہیں جلیل القدر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، انعام واکرام کی خوش خبری دیتا ہے ۔ اس مقام ومرتبے کا اعلان خود رب جلیل کرتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مختلف طریقوں سے آزمائش ہوگی یہ دنیا دارالا بتلاء اور دارالامتحان ہے۔ موت اور حیات کی تخلیق ہی ابتلاء اور امتحان کے لیے ہے۔ جیسا کہ سورة ملک میں فرمایا (تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُنِ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا) (بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں پورا ملک ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جس نے پیدا فرمایا موت کو اور زندگی کو تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں کون عمل کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔ ) سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں فرمایا (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجَاہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصَّابِرِیْنَ وَنَبْلُوَ اَخْبَارَکُمْ ) (اور البتہ ہم تم کو ضرور جانچیں گے تاکہ معلوم کرلیں جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں اور جو صبر کرنے والے ہیں اور تاکہ ہم جانچ لیں تمہاری خبریں) ۔ مذکورہ بالا آیت میں بھی ابتلاء و امتحان کا ذکر فرمایا اور لام تاکید اور نون ثقیلہ کے ساتھ موکد کرکے فرمایا کہ ہم تم کو ضرور ضرور جانچ میں ڈالیں گے اور امتحان کریں گے۔ کبھی خوف ہوگا۔ کبھی بھوک سے دو چار ہوں گے۔ مال کم ہوگا، جانیں بھی کم ہوں گی۔ اعزاء و اقرباء اولاد اور احباب فوت ہوں گے پھلوں میں کمی ہوگی اس میں تمام امہات المصائب کا تذکرہ آگیا، دنیا میں دشمنوں کا خوف قحط سالی، سیلاب اور زلزلے، تجارتوں میں نقصان، مکانات کا گرجانا۔ اموال کا چوری ہونا، کہیں دفن کرکے بھول جانا۔ رکھے ہوئے مالوں کا تلف ہوجانا۔ کار خانوں کا بند ہوجانا۔ مشینوں کا خراب ہوجانا، بجلی کا بند ہوجانا، اعزہ و اقربا اور احباب کی موتیں ہونا، وبائی امراض کا پھیل جانا۔ باغوں میں پھل کا آنا یا بہت زیادہ پھل آکر آندھی سے گر جانا۔ کھیتوں میں کیڑا لگ جانا ٹڈی آجانا وغیرہ وغیرہ۔ ان سب امور کی طرف اشارہ ہوگیا۔ مومن بندے صبر سے کام لیتے ہیں جس طرح کی بھی کوئی مصیبت در پیش ہو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور اللہ کی قضا و قدر پر راضی رہتے ہیں اور ثواب کی امید رکھتے ہیں جو مصیبتیں درپیش ہوتی ہیں وہ گناہوں کی سزا کے طور پر بھی پیش آتی ہیں اور کفارہ سیئات کے لیے بھی ہوتی ہیں۔ امتحان کے لیے بھی ہوتی ہیں اور رفع درجات کے لیے بھی قرآن مجید سے اور احادیث شریفہ سے یہ باتیں واضح طور پر معلوم ہوتی ہیں۔ مومن بندوں کو مصائب کا فائدہ : سورة نساء میں فرمایا (مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءً یُّجْزَبِہٖ ) (جو شخص بھی کوئی برائی کرے گا اس کا بدلہ دیا جائے گا) تفسیر اور حدیث کی کتابوں میں یہ بات نقل کی گئی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد کیا اب کامیابی کی صورت ہے جبکہ ہر بدی کا بدلہ ملنا ضروری ہے آپ نے فرمایا اے ابوبکر اللہ تمہاری مغفرت فرمائے۔ کیا تم مریض نہیں ہوتے ہو، کیا تمہیں تکلیف نہیں پہنچتی۔ کیا تم رنجیدہ نہیں ہوتے، کیا تم کو کوئی مصیبت در پیش نہیں ہوتی عرض کیا ہاں یہ چیزیں تو پیش آتی ہیں، آپ نے فرمایا ان چیزوں کے ذریعہ گناہوں کا بدلہ ہوجاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا اے ابوبکر تم اور تمہارے اصحاب مومنین دنیا میں گناہوں کا بدلہ پالیں گے یہاں تک کہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کریں گے کہ کوئی گناہ باقی نہ ہوگا۔ لیکن دوسرے لوگ (یعنی کافر) ان کے سب گناہ جمع کئے جائیں گے۔ یہاں تک کہ ان سب کی سزا ان کو قیامت کے دن ملے گی۔ (ابن کثیر ص ٥٥٧۔ ٥٥٨ ج ١) سورۃ شوریٰ میں فرمایا (وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ ) (اور جو کوئی مصیبت تم کو پہنچے سو وہ بدلہ ہے اس کا جو کمایا ہے تمہارے ہاتھوں نے اور اللہ معاف فرما دیتا ہے بہت سے گناہ) ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس کسی بندے کو کوئی تھوڑی یا زیادہ تکلیف پہنچتی ہے وہ گناہ کی وجہ سے ہوتی ہے اور جو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں وہ بہت زیادہ ہے۔ پھر آپ نے آیت کریمہ (وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ ) تلاوت فرمائی۔ (رواہ الترمذی) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں اسے تکلیف میں مبتلا فرمادیتے ہیں۔ (صحیح بخاری ص ٨٤٣ ج ٢) ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلا شبہ جب بندے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی درجہ مقرر کردیا گیا جس درجہ میں وہ اپنے عمل کی وجہ سے نہ پہنچ سکتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو جسم یا مال میں یا اولاد میں (تکلیفوں کے ساتھ) مبتلا فرما دیتے ہیں پھر اس پر اس کو صبر دے دیتے ہیں یہاں تک کہ اسے اسی درجہ میں پہنچا دیتے ہیں جو پہلے سے اس کے لیے طے فرما دیا تھا۔ (رواہ احمد و ابوداؤد کمافی المشکوٰۃ ص ١٣٧) نیز حضرت ابو ہریرۃ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کو جو بھی کوئی تکلیف، مرض، فکر، رنج، اذیت غم پہنچ جائے یہاں تک کہ اگر کانٹا بھی لگ جائے تو اللہ تعالیٰ شانہ اس کے ذریعہ اس کے گناہوں کا کفارہ فرمادیتے ہیں۔ (صحیح بخاری ص ٨٤٣ ج ٢) ام السائب ایک صحابیہ تھیں۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس تشریف لے گئے وہ کپکپا رہی تھیں آپ نے فرمایا کیا بات ہے کیوں کپکپا رہی ہو ؟ انہوں نے کہا اس کا برا ہو بخار چڑھ گیا۔ آپ نے فرمایا بخار کو برا نہ کہو کیونکہ وہ بنی آدم کی خطاؤں کو اس طرح ختم کردیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو ختم کردیتی ہے۔ (صحیح مسلم ص ٣١٩ ج ٢) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو دنیا ہی میں سزا دے دیتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے گناہوں کی سزا کو روکے رکھتے ہیں یہاں تک کہ اس کو قیامت کے دن پوری سزا دے دیں گے۔ (رواہ التر مذی فی ابواب الزہد) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مومن مرد اور مومن عورت کو جان مال اور اولاد میں برابر تکلیف پہنچتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کریگا کہ اس کا کوئی گناہ بھی باقی نہ رہا ہوگا۔ (رواہ التر مذی فی ابواب الزہد) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی بھی مسلمان کے تین بچے فوت ہوگئے ہوں جو بالغ نہیں ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ ان بچوں پر رحمت فرمانے کی وجہ سے اس مسلمان کو (یعنی ان کے والدین کو) جنت میں داخل فرما دیں گے۔ (بخاری ص ١٦٧ ج ١) حضرت ابو سعید خدری (رض) نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ عورتیں جمع ہوئیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے وعظ و نصیحت کی باتیں فرمائیں اور یہ بھی فرمایا کہ جس کسی کے تین بچے فوت ہوگئے وہ اس کے لیے دوزخ سے بچانے کے لیے آڑ بن جائیں گے ایک عورت نے کہا کہ اگر کسی کے دو بچے فوت ہوئے ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کے دو بچے فوت ہوئے ہوں تو اس کا بھی یہی حکم ہے (بخاری ص ١٦٧ ج ١) حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ دو مسلمان (میاں بیوی) جن کے تین بچے فوت ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل فرما دے گا اپنی رحمت اور فضل سے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر دو بچے فوت ہوئے ہوں ؟ فرمایا دو کا بھی یہی حکم ہے عرض کیا اگر ایک بچہ فوت ہوا ہو۔ فرمایا ایک کا بھی یہی حکم ہے۔ پھر فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے بلاشبہ ادھورا بچہ اپنی ماں کو اپنی ناف کے ذریعہ کھینچتا ہوا لے جائے گا۔ یہاں تک کہ اس کو جنت میں داخل کر دے گا۔ اگر اس کی ماں نے اس کی موت پر ثواب کی پختہ امید رکھی ہو۔ (مشکوٰۃ ص ١٥٣) مومن بندوں کے لیے تکالیف اور مصائب کوئی گھبرانے اور پریشان ہونے کی چیزیں نہیں ہیں۔ یہ تو اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ فانی دنیا میں تھوڑی بہت تکلیفیں پہنچ گئیں اور آخرت کے مواخذہ سے بچ گیا اور وہاں کی نعمتوں سے مالامال ہوگیا تو اس کے حق میں یہ سراسر بہترہی بہتر ہے۔ اور نفع کا سودا ہے بس صبر کرے۔ ثواب کی امید رکھے۔ اللہ کی قضا اور قدر پر راضی رہے۔ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ مصیبت اور تکلیف دور ہونے کی دعا نہ کرے کیونکہ دعا بھی سنت ہے اور ہمیشہ اللہ سے عافیت کا سوال کرے مصیبت تکلیف اور مرض کا سوال بھی نہ کرے، آجائے تو صبر کرے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

289 بلآء کے معنی آزمانے اور امتحان لینے کے ہیں۔ والمعنی لنمتحننکم (قرطبی ص 173 ج 2) یعنی ہم تمہارا امتحان لیں گے۔ خوف سے مراد دشمن کا خوف ہے اور اس میں وہ تمام ڈراوے، دھکمیاں اور مشکلات ومصائب بھی داخل ہیں جو تحویل قبلہ کے سلسلہ میں ان کو یہود کی طرف سے پہنچیں گی۔ اور بھوک سے قحط سالی مراد ہے۔ اموال کی کمی سے مویشیوں اور کھیتیوں کا ضائع ہونا، جانوں کی کمی سے عزیزوں اور دوستوں کی موت اور پھلوں کی کمی سے باغات کی تباہی یا بچوں کی موت مراد ہے۔ کیونکہ بچہ انسان کا ایک عمدہ نتیجہ اور پیارا پھل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ تم پر اللہ کی طرف سے امتحان وابتلاء کے طور پر مشکلات ومصائب آئیں گی تاکہ کھرے کھوٹے میں امتیاز ہوجائے۔ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ ۔ یہاںحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب فرمایا کہ آپ مصائب میں صبر کرنے والوں اور اللہ پر بھروسہ رکھنے والوں کو خوشخبری سنا دیں اس سے معلوم ہوا کہ مصائب ومشکلات کے ذریعے مسلمانوں کا امتحان لے کر انہیں صبر و استقلال کا سبق سکھانا مقصود ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi