Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 16

سورة البقرة

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالۡہُدٰی ۪ فَمَا رَبِحَتۡ تِّجَارَتُہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۶﴾

Those are the ones who have purchased error [in exchange] for guidance, so their transaction has brought no profit, nor were they guided.

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں خرید لیا پس نہ تو ان کی تجارت نے ان کو فائدہ پہنچایا اور نہ یہ ہدایت والے ہوئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said, أُوْلَـيِكَ الَّذِينَ اشْتَرُوُاْ الضَّلَلَةَ بِالْهُدَى ... These are they who have purchased error with guidance, In his Tafsir, As-Suddi reported that Ibn Abbas and Ibn Mas`ud commented saying it means, "They pursued misguidance and abandoned guidance." Mujahid said, "They believed and then disbelieved," while Qatadah said, "They preferred deviation to guidan... ce." This statement is similar in meaning to Allah's statement about Thamud, وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَـهُمْ فَاسْتَحَبُّواْ الْعَمَى عَلَى الْهُدَى And as for Thamud, We granted them guidance, but they preferred blindness to guidance. (41:17) In summary, the statements that we have mentioned from the scholars of Tafsir indicate that the hypocrites deviate from the true guidance and prefer misguidance, substituting wickedness in place of righteousness. This meaning explains Allah's statement, أُوْلَـيِكَ الَّذِينَ اشْتَرُوُاْ الضَّلَلَةَ بِالْهُدَى (These are they who have purchased error with guidance), meaning, they exchanged guidance to buy misguidance. This meaning includes those who first believed, then later disbelieved, whom Allah described, ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ ءَامَنُواّ ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ That is because they believed, and then disbelieved; therefore their hearts are sealed. (63:3) The Ayah also includes those who preferred deviation over guidance. The hypocrites fall into several categories. This is why Allah said, ... فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ So their commerce was profitless. And they were not guided, meaning their trade did not succeed nor were they righteous or rightly guided throughout all this. In addition, Ibn Jarir narrated that Qatadah commented on the Ayah, "By Allah! I have seen them leaving guidance for deviation, leaving the Jama`ah (the community of the believers) for the sects, leaving safety for fear, and the Sunnah for innovation." Ibn Abi Hatim also reported other similar statements.   Show more

ایمان فروش لوگ حضرت ابن عباس ، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہے کہ انہوں نے ہدایت چھوڑ دی اور گمراہی لے لی ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں انہوں نے ایمان کے بدلے کفر قبول کیا ۔ مجاہد فرماتے ہیں ایمان لائے پھر کافر ہو گئے ۔ قتادہ فرماتے ہیں ہدایت پر گمراہی کو پسند کرتے ہیں ... ۔ جیسے اور جگہ قوم ثمود کے بارے میں ہے آیت ( وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْهُدٰى فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ) 41 ۔ فصلت:17 ) یعنی باوجود اس کے کہ ہم نے قوم ثمود کو ہدایت سے روشناس کر دیا مگر پھر بھی انہوں نے اس رہنمائی کی جگہ اندھے پن کو پسند کیا ۔ مطلب یہ ہوا کہ منافقین ہدایت سے ہٹ کر گمراہی پر آ گئے اور ہدایت کے بدلے گمراہی لے لی گویا ہدایت کو بیچ کر گمراہی خرید لی ۔ اب ایمان لا کر پھر کافر ہوئے ہوں خواہ سرے سے ایمان ہی نصیب نہ ہوا ہو اور ان منافقین میں دونوں قسم کے لوگ تھے ۔ چنانچہ قرآن میں ہے آیت ( ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ ) 63 ۔ المنافقون:3 ) یہ اس لئے ہے کہ یہ لوگ ایمان لا کر پھر کافر ہو گئے پس ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اور ایسے بھی منافق تھے جنہیں ایمان نصیب ہی نہ ہوا پس نہ تو انہیں اس سودے میں فائدہ ہوا ، نہ راہ ملی ، بلکہ ہدایت کے چمنستان سے نکل کر گمراہی کے خارزار میں ، جماعت کے مضبوط قلعہ سے نکل کر تنہائیوں کی تنگ جیل میں ، امن کے وسیع میدان سے نکل کر خوف کی اندھیری کوٹھری میں اور سنت کے پاکیزہ گلشن سے نکل کر بدعت کے سنسان جنگل میں آ گئے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 تجارت سے مراد ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کرنا ہے۔ جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ منافقین نے نفاق کا جامہ پہن کر ہی گھاٹے والی تجارت کی۔ لیکن یہ گھاٹا آخرت کا گھاٹا ہے ضروری نہیں کہ دنیا ہی میں اس گھاٹے کا انہیں علم ہوجائے۔ بلکہ دنیا میں تو اس نفاق کے ذریعے سے انہیں جو فوری فائدے حاصل ہوتے تھے، اس ... پر وہ بڑے خوش ہوتے اور اس کی بنیاد پر اپنے آپ کو بہت دانا اور مسلمانوں کو عقل فہم سے عاری سمجھتے تھے۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The ninth verse shows the basic denseness of the hypocrites - how they failed to make use of the ordinary sense of discrimination. They had grown up in a pagan society, and knew very well what the way of the infidels was. Now they had become familiar enough with Islam too, and could easily see the difference. But, in their greed, and for the sake of petty worldly profit, they still chose disbelief...  as against Islam, and bartered away something as invaluable as Iman ایمان (faith) for something as worthless, and even harmful as kufr کفر (infidelity). In giving the name of &trade& or &commerce& to this action, the Holy Qur&an suggests that these worldly-wise men had no understanding even of the art of trading.  Show more

نویں آیت میں منافقین کے اس حال کا ذکر ہے کہ انہوں نے اسلام کو بھی قریب سے دیکھا اس کا ذائقہ بھی چکھا اور کفر میں تو پہلے سے مبتلا ہی تھے پھر کفر واسلام دونوں کو دیکھنے سمجھنے کے بعد انہوں نے اپنی ذلیل دنیاوی اغراض کی خاطر اسلام کے بدلے کفر ہی کو ترجیح دی ان کے اس عمل کو قرآن کریم نے تجارت (بیوپار) ... کا نام دے کر یہ بتلایا کہ ان لوگوں کو بیوپار کا بھی سلیقہ نہ آیا کہ بہترین قیمتی چیز یعنی ایمان دے کر ردی اور تکلیف دہ چیز یعنی کفر خرید لیا،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰى۝ ٠ ۠ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ وَمَا كَانُوْا مُہْتَدِيْنَ۝ ١٦ شری الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بي... ع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] ، أي : باعوه، ( ش ر ی ) شراء اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» «1» وقال بعض الحکماء : کو ننا مصیبین من وجه وکوننا ضَالِّينَ من وجوه كثيرة، فإنّ الاستقامة والصّواب يجري مجری المقرطس من المرمی، وما عداه من الجوانب کلّها ضَلَالٌ. ولما قلنا روي عن بعض الصالحین أنه رأى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في منامه فقال : يا رسول اللہ يروی لنا أنّك قلت : «شيّبتني سورة هود وأخواتها فما الذي شيّبک منها ؟ فقال : قوله : فَاسْتَقِمْ كَما أُمِرْتَ» والضَّلَالُ من وجه آخر ضربان : ضَلَالٌ في العلوم النّظريّة، کا لضَّلَالِ في معرفة اللہ ووحدانيّته، ومعرفة النّبوّة، ونحوهما المشار إليهما بقوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 136] . وضَلَالٌ في العلوم العمليّة، کمعرفة الأحكام الشّرعيّة التي هي العبادات، والضَّلَالُ البعیدُ إشارةٌ إلى ما هو کفر کقوله علی ما تقدّم من قوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ [ النساء/ 136] ، وقوله : إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] ، وکقوله : فِي الْعَذابِ وَالضَّلالِ الْبَعِيدِ [ سبأ/ 8] ، أي : في عقوبة الضَّلَالِ البعیدِ ، وعلی ذلک قوله : إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلالٍ كَبِيرٍ [ الملک/ 9] ، قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيراً وَضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبِيلِ [ المائدة/ 77] ، وقوله : أَإِذا ضَلَلْنا فِي الْأَرْضِ [ السجدة/ 10] ، كناية عن الموت واستحالة البدن . وقوله : وَلَا الضَّالِّينَ [ الفاتحة/ 7] ، فقد قيل : عني بِالضَّالِّينَ النّصاری «1» . وقوله : فِي كِتابٍ لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى[ طه/ 52] ، أي : لا يَضِلُّ عن ربّي، ولا يَضِلُّ ربّي عنه : أي : لا يغفله، وقوله : أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ [ الفیل/ 2] ، أي : في باطل وإِضْلَالٍ لأنفسهم . ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ حکماء نے کہا ہے کہ صحت دراستی کی راہ تو صرف ایک ہی ہے مگر گمراہی کے متعدد راستے ہیں کیونکہ استقامت اور صواب کی مثال تیر کے ٹھیک نشانہ پر بیٹھ جانے کی ہے اور صحیح نشانہ کے علاوہ ہر جہت کا نام ضلالت ہے ۔ ہمارے اس قول کی تائید بعض صالحین کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا اور عرض کی یارسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب کے اس فرمان کے کیا معنی ہیں (12) شیبتنی سورة ھود واخواتھا کہ سورة ہود اور اس کی ہم مثل دوسری سورتوں نے مجھے بوڑھا کردیا ہے ۔ تو آنحضرت نے فرمایا سورة ھود کی جس آیت نے مجھے بوڑھا کردیا : فَاسْتَقِمْ كَما أُمِرْتَ» «2»ہے یعنی اے پیغمبر ٹھیک اسی طرح سیدھے رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے ۔ ایک دوسرے اعتبار سے ضلالۃ کی دو قسمیں ہیں (1) علوم نظریہ تو حید و نبوات وغیرہما کی معرفت میں غلطی کرنا چناچہ آیت کریمہ : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 136 اور جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور روز قیامت سے انکار کرے وہ رستے سے بھٹک کر دور جاپڑا ۔ میں اس قسم کی گمراہی کو ضلالا بعیدا کہا گیا ہے ۔ (2) علوم عملیہ میں ضلالۃ ہے جس کے معنی ہیں احکام شرعیہ یعنی عبادات ( اور معاملات ) کی معرفت میں غلطی کرنا اور آیت مذکورہ میں ضلالا بعید اسے اس کے کفر ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت کے ابتداء ومن یکفر اور آیت :إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] جن لوگوں نے کفر کیا اور دوسروں کو خدا کے رستے سے روکا وہ رستے سے بھٹک کر دور جا پڑے سے معلوم ہوتا ہے ۔ اور آیت فِي الْعَذابِ وَالضَّلالِ الْبَعِيدِ [ سبأ/ 8] میں بھی معنی مراد ہیں اور فی کے معنی یہ ہیں کہ اس گمراہی کی سزا میں گرفتارہوں گے اور یہی معنی آیت : إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلالٍ كَبِيرٍ [ الملک/ 9] میں مراد ہیں ۔ نیز فرمایا : قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيراً وَضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبِيلِ [ المائدة/ 77] جو ( خود بھی ) پہلے گمراہ ہوئے اور بھی اکثروں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بھٹک کئے ۔ اور آیت کریمہ : أَإِذا ضَلَلْنا فِي الْأَرْضِ [ السجدة/ 10] کے معنی یہ ہیں ک جب مرنے کے بعد مٹی میں مل کر ضائع ہوجائیں گے اور آیت : وَلَا الضَّالِّينَ [ الفاتحة/ 7] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ اس سے نصارٰی مراد ہیں ۔ اور آیت لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى[ طه/ 52] کے معنی ہیں : ہیں یعنی میرے پروردگار کو کوئی چیز غافل نہیں کرتی اور آیت : أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ [ الفیل/ 2] کیا ان کی تدبیر کو ضائع نہیں کیا ( گیا) میں فی تضلیل کے معنی ضائع کردینا اور غلط راہ لگا دینا کے ہیں ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ربح الرّبح : الزّيادة الحاصلة في المبایعة، ثمّ يتجوّز به في كلّ ما يعود من ثمرة عمل، وينسب الرّبح تارة إلى صاحب السّلعة، وتارة إلى السّلعة نفسها، نحو قوله تعالی: فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة/ 16] وقول الشاعر : قروا أضيافهم ربحا ببحّ فقد قيل : الرُّبَحُ : الطائر، وقیل : هو الشجر . وعندي أنّ الرُّبَحَ هاهنا اسم لما يحصل من الرّبح، نحو : النّقص، وبحّ : اسم للقداح التي کانوا يستقسمون بها، والمعنی: قروا أضيافهم ما حصّلوا منه الحمد الذي هو أعظم الرّبح، وذلک کقول الآخر : فأوسعني حمدا وأوسعته قری ... وأرخص بحمد کان کا سبه الأكل ( ر ب ح ) الربح وہ فائدہ جو خرید وفروخت سے حاصل ہو مجازا ثمرہ اعمال کو بھی ربح کہا جاتا ہے ۔ اس کی نسبت کبھی سامان تجارت کی طرف ہوتی ہے ۔ اور کبھی صاحب سامان کی طرف ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة/ 16] سو نہ تو ان کی تجارت سود مند ہوئی ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ( 171 ) قروا أضيافهم ربحا ببحّ بعض نے کہا ہے کہ ربح ایک پرندے کا نام ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ربح بمعنی چربی سے لیکن ہمارے خیال میں ربح سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جو ربح سے حاصل ہوئی ہو جیسا کہ نقص سے جو اثر ظاہر ہوتا ہے اسے نقص کہا جاتا ہے اور بح قرعہ اندازی یا قماری بازی کے تیز کو کہتے ہیں ۔ تو شعر کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اپنے مہمانوں کی مہمانداری سے تعریف کا بہت بڑا فائدہ حاصل کیا ۔ جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) فأوسعني حمدا وأوسعته قری ... وأرخص بحمد کان کا سبه الأكل اس نے میری تعریف میں فروگذاشت نہ کی اور میں نے بھی اس کی خوب مہمان نوازی کی ۔ وہ تعریف کتنی سستی ہے جو چند لقموں سے حاصل ہوجائے تجر التِّجَارَة : التصرّف في رأس المال طلبا للربح، يقال : تَجَرَ يَتْجُرُ ، وتَاجِر وتَجْر، کصاحب وصحب، قال : ولیس في کلامهم تاء بعدها جيم غير هذا اللفظ «1» ، فأمّا تجاه فأصله وجاه، وتجوب التاء للمضارعة، وقوله تعالی: هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف/ 10] ، فقد فسّر هذه التجارة بقوله : تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف/ 11] ، إلى آخر الآية . وقال : اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة/ 16] ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء/ 29] ، تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة/ 282] . قال ابن الأعرابي «3» : فلان تاجر بکذا، أي : حاذق به، عارف الوجه المکتسب منه . ( ت ج ر ) تجر ( ن ) تجرا وتجارۃ کے معنی نفع کمانے کے لئے المال کو کاروبار میں لگانے کے ہیں ۔ صیغہ صفت تاجر وتجور جیسے صاحب وصحت یاد رہے ۔ کہ عربی زبان میں اس کے سو ا اور کوئی لفظ ایسا نہیں ہے ۔ جس تاء ( اصل ) کے بعد جیم ہو ۔ رہا تجاۃ تو اصل میں وجاہ ہے اور تجوب وغیرہ میں تاء اصلی نہیں ہے بلکہ نحل مضارع کی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف/ 10] میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو عذاب الیم سے مخلص دے ۔ میں لفظ تجارہ کی تفسیر خود قرآن نے بعد کی آیت ؛ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف/ 11] آلایہ میں بیان فرمادی ہے ۔ نیز فرمایا ؛ اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة/ 16] ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی تو نہ ان کی تجارت ہی نہیں کچھ نفع دیا ۔ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء/ 29] ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کالین دین ہو ( اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہوجائے تو وہ جائز ہے ) تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة/ 282] سود ا وست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو ۔ ابن لاعرابی کہتے ہیں کہ فلان تاجر بکذا کے معنی ہیں کہ فلاں اس چیز میں ماہر ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا جانتا ہے ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦) اللہ تعالیٰ دنیاوی زندگی میں بھی ان کے کفر اور گمراہی میں اتنی ڈھیل دیتا ہے کہ جس پر انکی بصیرت کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور سچائی کا امتیاز باقی نہیں رہتا، یہ اس طرح کے لوگ ہیں جنہوں نے ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کرلیا ہے اور ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، لیکن انکو اپنی اس تجارت میں کوئی فائدہ ن... ہیں ہوا بلکہ نقصان ہی میں مبتلا ہوئے اور اب یہ گمراہی سے سیدھی راہ پر نہیں آئیں گے۔ شان نزول : (آیت) ” واذا لقوالذین امنوا “۔ الخ) واحدی (رح) اور ثعلبی (رح) نے بواسطہ محمد بن مروان، سدی صیغر، کلبی، ابوصالح، ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ آیت کریمہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نزول کا سبب یہ ہے کہ ایک دن منافقین کی جماعت نکلی، راستہ میں ان لوگوں کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ صحابہ کرام (رض) نظر آئے، عبداللہ بن ابی نے اپنے دوستوں سے کہا کہ دیکھو کس طرح میں تم سے (العیاذ باللہ) ان بیوقوفوں کو ہٹاتا ہوں، چناچہ عبداللہ بن ابی نے آکر حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا صدیق اکبر (رض) بنی تمیم کے سردار، مسلمانوں کے بزرگ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رفیق غار، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اپنی جان اور مال کو خرچ کرنے والے آپ کو خوش آمدید ہو۔ پھر اس نامراد نے حضرت عمر فاروق (رض) کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا عدی بن کعب کے سردار فاروق اعظم (رض) اللہ تعالیٰ کے دین میں بہت جری اور بہادر، اپنی جان ومال رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے خرچ کرنے والے آپ کو خوش آمدید ہو، پھر اس نے حضرت علی (رض) کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد بھائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے داماد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ بنی ہاشم کے سردار، مرحبا۔ اس کے بعد عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم نے دیکھا میں نے کیا کیا جب تم ان لوگوں کو دیکھو تو تم بھی میری طرح ان سے پیش آؤ، یہ سن کر اس کے منافق ساتھیوں نے اس کی تعریف کی۔ یہ جماعت صحابہ کریم (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں آئی، اور آپ کو سارے واقعہ کی تفصیل سے آگاہ کیا اس وقت یہ آیت اتری، اس روایت کی یہ سند بہت ہی کمزور ہے کیوں کہ سدی صغیر اور اسی طرح کلبی دونوں کذاب ہیں اور ابوصالح ضعیف ہے، (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بالْھُدٰیص) یہ بڑا پیارا انداز بیان ہے۔ ان کے سامنے دونوں options تھے۔ ایک شخص نے گمراہی کو چھوڑا اور ہدایت لے لی۔ اسے اس کی بھاری قیمت دینا پڑی۔ اسے تکلیفیں اٹھانی پڑیں ‘ آزمائشوں میں سے گزرنا پڑا ‘ قربانیاں دینا پڑیں۔ اس نے یہ سب کچھ منظور کیا...  اور ہدایت لے لی۔ جبکہ ایک شخص نے ہدایت دے کر گمراہی لے لی ہے۔ آسانی تو ہوگئی ‘ فوری تکلیف سے تو بچ گئے ‘ دونوں طرف سے اپنے مفادات کو بچالیا ‘ لیکن حقیقت میں سب سے زیادہ گھاٹے کا سودا یہی ہے۔ (فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ ) ” رَبِحَ یَرْبَحُ “ کے معنی ہیں تجارت وغیرہ میں نفع اٹھانا ‘ جو ایک صحیح اور جائز نفع ہے ‘ جبکہ ” رب و “ مادہ سے رَبَا یَرْبُوْکے معنی بھی مال میں اضافہ اور بڑھوتری کے ہیں ‘ لیکن وہ حرام ہے۔ تجارت کے اندر جو نفع ہوجائے وہ ” رِبح “ ہے ‘ جو جائز نفع ہے اور اپنا مال کسی کو قرض دے کر اس سے سود وصول کرنا ” رِبا “ ہے جو حرام ہے۔ اب یہاں دو بڑی پیاری تمثیلیں آرہی ہیں۔ پہلی تمثیل کفار کے بارے میں ہے اور دوسری تمثیل منافقین کے بارے میں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:16) اولئک اسم اشارہ۔ جمع مذکر۔ وہ لوگ، یہی وہ لوگ ہیں۔ اشتروا۔ ماضی جمع مذکر غائب ۔ اشتراء (افتعال) مصدر ، بیچنے اور خریدنے ہر دو معنوں میں آتا ہے اور یہاں بمعنی خرید کرنا ہے۔ انہوں نے خرید کیا۔ انہوں نے مول لیا۔ مشتری خرید کرنے والا۔ الضللۃ۔ گمراہی، بھٹکنا، گمراہ ہونا۔ جل یضل (باب ضرب) کا مصدر...  ہے بمعنی گمراہ ہونا۔ راہ حق سے بھٹک جانا۔ ھدایۃ کی ضد ہے اشتروا کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ بالھدی : ب عوض اور بدلہ کے لئے ہے۔ ھدی۔ بمعنی ہدایت، یعنی انہوں نے ہدایت دے کر اس کے بدلہ میں گمراہی مول لے لی۔ فما ۔ ف۔ تفریعیہ (مستنبط ) ۔ ما نافیہ۔ ربحت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ رنج و رباح (باب سمع) کا مصدر ۔ (تجارت کا) نفع دینا (آدمی کا تجارت میں) نفع کمانا۔ تجارتھم۔ مضاف، مضاف الیہ۔ ان کی تجارت (پس ان کی تجارت نفع آور نہ ہوئی) مھتدین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ بحالت نصب، ہدایت پانے والے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ہدایت و ایمان کی راہ چھوڑکر اور کفر و ضلالت کی راہ اختیار کر کے انہوں نے بجائے فائے کے نقصان اٹھا یا ہے جو سنت کی راہ چھوڑ کر بد عت کی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی ان کو تجارت کا سلیقہ نہ ہوا کہ ہدایت کی سی اچھی چیز چھوڑ دی اور گمراہی کی بری چیز پالی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے سورة الصف میں ایمان، نیک اعمال اور جہاد کو اپنے ساتھ تجارت کرنے کے مترادف قرار دیا ہے منافق ایمان اور اعمال میں مخلص نہیں ہوتے اس لیے وہ اس تجارت میں ہدایت کے بدلے گمراہی کے خریدار بن جاتے ہیں اور دھوکہ باز کی تجارت دینی ہو یا دنیوی اس کا انجام آخر خسارہ ہوتا ہے... ۔ ایمان کے جھوٹے دعوے اور اس جھوٹ کے ذریعے مومنوں کو دھوکہ دینے کی بنا پر منافقوں کے دل ایمان کی روشنی اور صحیح فیصلہ کرنے کی بصیرت سے محروم ہوچکے ہیں۔ منافق کی حالت اس شخص جیسی ہوچکی ہے جو نقص بصر کی وجہ سے ہر چیز کو ٹیڑھا دیکھتا ہے۔ اسی بنا پر منافق ایمان اور بصیرت سے محروم ہونے کی وجہ سے فساد کو اصلاح اور صحابہ کے ایمان کو غیر دانشمندانہ اقدام اور بےوقوفی قرار دیتے ہیں۔ مزید برآں کہ اللہ کی طرف سے ان کی رسی دراز ہوچکی ہے۔ جس بنا پر یہ عقل و دانش سے اندھے حقیقی اور دائمی نفع و نقصان میں فرق کرنے کی صلاحیت سے تہی دامن ہوچکے ہیں۔ اس وجہ سے نفع کی بجائے نقصان پانے والے سوداگر بن چکے ہیں۔ حالانکہ کم سے کم عقل رکھنے والا انسان بھی وہ کام کرتا ہے جس میں اسے زیادہ سے زیادہ فائدہ دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو نفع و نقصان کا اس قدر شعور بخشا ہے کہ ایک گنوار اور اَن پڑھ ریڑھی لگانے والے محنت کش کو معلوم ہوجائے کہ اس کے مال کی قیمت فلاں بازار یا شہر میں زیادہ ہے۔ تو وہ وہاں جانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ لیکن اللہ اور اس کے بندوں کو دھوکہ دینے والے منافق اس قدر کوتاہ چشمی کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں کہ انہیں ایمان وایقان اور کفر و نفاق، آخرت اور دنیا کی نعمتوں میں فرق دکھائی نہیں دیتا۔ جب کہ دنیا آخرت کی کھیتی اور نیک اعمال آخرت کی نعمتوں کی قیمت ہیں۔ دنیا دارالعمل اور تجارت گاہ ہے اس بنا پر فطری طور پر انسان کے ہر عمل کے پیچھے نفع اور نقصان کی سوچ کار فرما ہوتی ہے۔ اچھی سوچ کے بدلے ہدایت نصیب ہوتی ہے ہدایت اور نیک عمل کے بدلے جنت عطا ہوگی۔ قرآن مجید نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور مال و جان کے ساتھ دین کی سر بلندی کے لیے کوشش کرنے کو بہترین نیکی اور تجارت قرار دیا ہے۔ (الصف : ١١ تا ١٣) قتال فی سبیل کے بیان میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانوں کے بدلے جنت کا سودا کرلیا ہے۔ (التوبۃ : ١١١) مومن اپنے رب کی تابعداری کرکے اس کی رضا کا طلب گار اور جنت کا خریدار بن جاتا ہے۔ منافق اپنی منافقت اور کافر اپنے کفر کی وجہ سے اس سودا گری میں دنیا کی ذلت اور آخرت کی سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ منافق جس عارضی عزت اور منفعت کے لیے جو کچھ کرتا ہے وہ حقیقت میں نقصان اور ہدایت سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ جب کوئی شخص جان بوجھ کر خسارے کی تجارت کرنے سے باز نہ آئے تو اسے نفع کیونکر ہوسکتا ہے ؟ یہی ہدایت کا معاملہ ہے لہٰذا گمراہی کا طالب ہدایت کس طرح پاسکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتے رہنا چاہیے : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ کَانَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْہُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی) (رواہ البخاری : باب التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ یَعْمَلْ ) ” حضرت عبداللہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، تندرستی اور خوشحالی کا سوال کرتا ہوں۔ “ سابقہ آیات میں منافقین کی نشانیاں : ١۔ منافق دعوی ایمان میں جھوٹا ہوتا ہے۔ ٢۔ منافق شعور سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے۔ ٣۔ منافقت دل کی بیماری ہے۔ ٤۔ منافق اصلاح کے نام پر فساد پھیلاتا ہے۔ ٥۔ منافق احمق ہونے کے باوجود مومنوں کو بےعقل سمجھتا ہے۔ ٦۔ منافق ایمان جیسی گراں قدر نعمت کو مذاق سمجھتا ہے۔ ٧۔ منافق ہدایت کی بجائے گمراہی کا طلب گار ہوتا ہے۔ مسائل ١۔ منافقین ہدایت کے بدلے گمراہی کے خریدار ہیں۔ ٢۔ منافقین کی یہ تجارت سود مند نہ ہوگی۔ تفسیر بالقرآن منافق کا کردار اور انجام : ١۔ منافق دغا باز، ریا کار اور بےتوجہگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٢۔ منافق کے کلمہ پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ (المنافقون : ١) ٣۔ منافق کی قسم پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ (المنافقون : ٢) ٤۔ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب قرآن کریم چند آخری کلمات میں ان کی حقیقت حال اور ان کے اس خسارے کو بیان کرتا ہے جو ان کی اس روش کی وجہ سے انہیں پہنچ رہا ہے ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ” یہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے مگر یہ س... ودا ان کے لئے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں ۔ “ اگر وہ چاہتے تو ہدایت کی راہ ان کے پاس تھی ۔ ان پر ہدایت کے دریا بہادیئے گئے تھے ۔ یہ ان کے ہاتھ میں تھی لیکن انہوں نے اپنی مرضی سے ہدایت دے کر اس کے بدلے ضلالت خرید لی ۔ جیسا کہ ایک غافل تاجر کا انجام ہوتا ہے ۔ ویسا ہی انجام ان کا بھی ہوا۔ اس سودے میں انہیں کوئی نفع نہ ہوا اور ہدایت بھی ہاتھ سے جاتی رہی ۔ آپ نے دیکھا کہ قرآن نے ان آیات میں تین قسم کے لوگوں کی تصویر کشی کی ہے ۔ ان میں سے اس تیسرے فریق نے لوح قرطاس میں نسبتاً زیادہ وسیع جگہ لی ۔ اس کے وسیع خاکے میں ہمیں مختلف رنگ بھرے ہوئے نظر آتے ہیں ، جو پہلی اور دوسری تصویر میں نہیں ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی اور دوسری تصویر میں جو لوگ دکھائے گئے ہیں ان کی راہ ورسم کسی نہ کسی شکل میں متعین ہے۔ وہ سیدھی طرح ایک مخصوص روش پر قائم ہیں ۔ پہلی تصویر میں ایک ایسا کردار نظر آتا ہے جو فکر مستقیم کا مالک ہے ۔ ایک سیدھی راہ ہے جس پر وہ بالکل سیدھا جارہا ہے ۔ دوسری تصویر میں ایک نابینا شخص دکھایا گیا ہے جو حیران وسرگردان ہے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماررہا ہے ۔ لیکن تیسرے شخص کی نفسیاتی حالت اس قدر پیچیدہ اس کا دل اس قدر بیمار ہے اور فکر اس قدر پریشان ہے کہ اس پر مزید آخری ، ایک آخری تبصرے کی ضرورت ہے ۔ اس تصویر میں کچھ مزید خاکے ہیں اور ان میں رنگ بھرے گئے ہیں تاکہ اس گروہ کی مکروہ اور متلون شخصیت کے خدوخال اچھی طرح واضح ہوسکیں ۔ اس تفصیلی بحث سے ایک طرف تو وہ کردار بھی اچھی طرح ہمارے سامنے آجاتا ہے جو منافقین مدینہ ، فدائیان اسلام کی ایذارسانی ، ان کے اندرانتشار اور بےچینی پھیلانے کے سلسلے میں ادا کررہے تھے ۔ دوسری طرف اسلامی جماعت کو متنبہ کردیا جاتا ہے کہ ہر دور میں ایک منافق ، نظم جماعت کے لئے کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔ اور اسلامی جماعت میں ان منافقین کی پردہ وری اور ان کی سازشوں کو بےنقاب کرنے کی کتنی اہمیت و ضرورت ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین نے ہدایت کے بدلہ گمراہی خریدلی اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے ہر شخص کو فطرت ایمان پر پیدا فرمایا پھر عقل اور ہوش بھی دیا۔ اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ کتابیں نازل فرمائیں اس سب کے باوجود اگر کوئی شخص ہدایت کو اختیار نہ کرے اور گمراہی کو اختیار کرے تو یہ ہدایت کے بدلے گمراہی خرید... نے والا بن گیا اس نے اپنی عقل و بصیرت کی پونجی کو جس کے ذریعہ ہدایت پر چل سکتا تھا، ضائع کردیا اور گمراہی اختیار کرلی۔ یعنی اپنی پونجی گمراہی حاصل کرنے میں لگا دی ایسے لوگوں کی یہ تجارت نفع مند نہیں، بلکہ سراسر نقصان اور خسران کا باعث ہے۔ حقیر دنیا کے لیے گمراہی لی، ہدایت سے منہ موڑا، آخرت کی بربادی کو خریدا، فطرت سلیمہ جو ان کی پونجی تھی اس کو برباد کیا، ایسی تجارت میں نفع کہاں ؟ نقصان کو نفع سمجھنا بہت بڑی حماقت اور خود فریبی ہے۔ اہل ایمان کو دھوکہ دیا ان کی بیوقوف بتایا اور خود ہی دھوکہ میں پڑے اور برباد ہوئے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33 ۔ اُولٰۗىِٕكَ سے مذکورہ منافقین کی طرف اشارہ ہے جن کی خباثتوں کا ابھی ابھی ذکر ہوا ہے۔ ان کی تمام خباثتوں کا سرچشمہ اختیاری گمراہی ہے۔ انہوں نے راہ ہدایت کو چھوڑ کر راہ ضلالت پر چلنے کی ٹھان لی ہے۔ اشتراء کے معنی خریدے کے ہیں اور ظاہر ہے کہ خریداری کیلئے ضروری ہے کہ قیمت خریدار کے پاس موجود ہو۔ ی... ہاں ہدایت کو گمراہی کی قیمت قرار دیا گیا ہے جس کے عوض منافقوں نے گمراہی مول لی تو اس سے لازم آتا ہے کہ منافقین پہلے ہدایت پر تھے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ شروع ہی سے منافقانہ طور پر ایمان لائے تھے تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہاں اشتراء بمعنی استبدال نہیں بلکہ محض ترجیح اور اختیار کے معنی میں ہے ان الاشتراء مجاز عن الاختیار فکانہ تعالیٰ قال اختاروا الضلالۃ علی الھدی (روح ص 191 ج 1) یعنی انہوں نے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دی اور ہدایت کی بجائے گمراہی کو اختیار کیا۔ لیکن اس صورت میں بالہدای کی باء بمعنی علی ہوگی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اشتراء اپنے حقیقی معنوں ہی میں ہے اور ہدایت سے مراد وہ فطری ہدایت ہے جو اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھی ہے۔ المراد بالھدی الجبلی وقد کان حاصلا لھم حقیقۃ فان کل مولود یولد علی الفطرۃ (روح ص 191 ج 1) اس صورت میں تمام الفاظ اپنی حقیقت پر رہتے ہیں اور کسی قسم کے مجاز کا ارتکاب کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ 34 ۔ مگر یہ سودا ان کیلئے نفع بخش ثابت نہ ہوا اور ہوتا بھی کیسے انہوں نے یہ سودا ہی بےعقلی اور بےبصیرتی سے کیا ہے اور ایک ایسی چیز خرید لی ہے جس میں سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صحیح راہ کو چھوڑ کر گمراہی اور کج روی اختیار کرلی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہ تو ان کی یہ تجارت اور کاروبار کچھ سود مند ثابت ہوا اور نہ وہ راہ یافتہ ہوکر رہے۔ ( تیسیر) بیع اور شرا کی اصل تو یہ ہے کہ جو شخص مال دیکر کوئی چیز خریدے تو خریدنے والے کو مشتری اور فروخت کرنیوالے کو ب... ائع کہتے ہیں لیکن کثرت استعمال کی وجہ سے معنی میں توسیع ہوگئی اور اب اشیاء دے کر اشیاء کے حاصل کرنے کو بھی بیع شرا کہتے ہیں ۔ حتیٰ کہ دو چیزوں میں سے ایک چیز کو بےرغبتی سے چھوڑ کر دوسری چیز کو رغبت کے ساتھ اختیار کرلینے پر بھی بیع شرا بولتے ہیں ۔ قرآن میں عام طور پر انسانی زندگی کے لئے اور اس کے نیک و بد اعمال کے لئے تجارتی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یوں سمجھنا چاہئے کہ انسانی زندگی ہر انسان کا ایک سرمایہ ہے اسے اگر اچھے کام میں لگا دیا تو نفع کمائے گا اور اگر کسی بدبخت نے اپنی زندگی کے اس المال اور سرمایہ کو برے کا م میں خرچ کردیا تو اس کو گھاٹا ہوگا اور وہ دیوالیہ ہوجائے گا ، گویا برے کام کرنے والے نے اپنے سرمایہ سے نقصان اور گھاٹے کا مال خریدا اور اچھے کام کرنے والوں نے نفع کا مال خریدا جس نے نقصان کا سودا کیا وہ دیوالیہ ہوا ۔ اس کو قرآن کی اصطلاح میں خاسر کہتے ہیں ۔ اس اصطلاح کو اگر محفوظ رکھا گیا تو انشاء اللہ اس قسم کی تمام آیتوں کا مطلب سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوگی ۔ اس آیت میں منافقین کی اسی حالت کا ذکر فرمایا ہے کہ ان کو سرمایہ زندگی اور فطری استعداد عطا ہوئی تھی ۔ چاہتے تو ایمان لا کر نفع کما سکتے تھے ، لیکن نفع کا مال چھوڑ کر اس کے مقابلے میں کفر خرید لیا ۔ اب ظاہر ہے کہ جو گھاٹے کا سودا کرنے والوں کا انجام ہوتا ہے وہی انجام ان کا بھی ہوا ۔ دنیا میں بھی یہی رسوا ہوئے کہ ان کے نفاق کا حال کھل گیا اور آخرت میں بھی دیوالیوں کے گروہ میں اٹھیں گے۔ ان کو تجارت کرتے وقت اتنی سمجھ بھی نہ آئی کہ وہ ایمان جس کا خالی زبان سے اظہار کیا جائے وہ نفع بخش نہیں ہوتا بلکہ قلب میں بھی وہی اعتقاد ہو جو زبان سے ظاہر کیا جا رہا ہے چونکہ ان بدبختوں نے مال خریدتے وقت صحیح سوجھ بوجھے سے کام نہیں لیا اس لئے فرمایا وما کانوا مھتدین اب آگے انہی منافقین کی دو مثالیں بیان فرماتے ہیں تا کہ ان منافقین کا معاملہ اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔ ( تسہیل )  Show more