Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
اَلْاُنْثٰی (مادہ) بہ ذَکَرٌ یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثٰی وذکر عورت او رمرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے (مجازاً) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں۔ قرآن میں ہے : (وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی ) جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت۔ (۴:۱۲۴) اور چونکہ تمام حیوانات میں مادہ بنسبت نر کے کمزور ہوتی ہے لہٰذا اس میں معنی ضعف کا اعتبار کرکے ہر ضعیف الاثر چیز کو انثٰی کہہ دیا جاتا ہے چنانچہ کمزور لوہے کو حَدِیْدٌ اَنِیْثٌ کہا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے۔ (1) (۲۸) عِندی جراز لا افَلٌّ ولا أَنِثٌ میرے پاس شمشیر براں ہے جو کند اور کمزور نہیں ہے۔ اور انثٰی (مادہ) کے ساتھ تشبیہ دے کر نرم اور زرخیز زمین کو بھی ارض انیث کہہ دیا جاتا ہے یہ تشبیہ یا تو محض نرمی کے اعتبار سے ہے۔ اور یا عمدہ اور پیداوار دینے کے اعتبار سے اسے انیث کہا گیا ہے جیساکہ زمین کو عمدہ اور پیداوار کے اعتبار سے حرۃ اور وَلُود کہا جاتا ہے۔ پھر بعض اشیاء کو لفظوں میں مذکر کے ساتھ تشبیہ دے کر اس کے لیے صیغہ مذکر استعمال کیا جاتا ہے اور بعض کو مؤنث کے ساتھ تشبیہ دے کر صیغہ تانیث استعمال کرتے ہیں۔ جیسے یَدٌ، اُذُنٌ اور خُصْیَۃٌ چنانچہ خصیتین پر تانیث لفظی کی وجہ سے انثیین کا لفظ بولا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے(2) (۲۹) وَمَا ذَکَرٌ وَاِنْ یَسْمَنْ فَاُنْثٰی۔ اور کونسا مذکر ہے کہ اگر وہ موٹا ہوجائے تو مؤنث ہوجاتا ہے۔ اس سے مراد قراد یعنی چیچڑ ہے کہ جب وہ بڑھ کر خوب موٹا ہوجاتا ہے تو اسے حلَمَۃٌ بلفظ مؤنث کہا جاتا ہے، اسی طرح آیت کریمہ : (اِنۡ یَّدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا ۚ وَ) (۴:۱۱۷) وہ خدا کے سوا جن کی بھی پرستش کرتے ہیں وہ مادہ ہیں، (میں اِنَاثَ، اُنْثٰی کی جمع ہے) بعض مفسرین نے احکام لفظیہ کا اعتبار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشرکین اپنے بتوں کو جن اسماء سے پکارتے تھے جیسے لات، عزیٰ، منات الثالثہ یہ سب مؤنث ہیں اس لیے قرآن نے اناث کہہ کر پکارا ہے(3) اور بعض نے معنی کا اعتبار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر منفعل او رضیف چیز کو انیث کہا جاتا ہے، جیسے کمزور لوہے پر انیث کا لفظ بولتے ہیں اس کی تفصیل یہ ہے کہ موجودات کی باہمی نسبت کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں۔ (۱) فاعل غیرمنفعل، یہ صفت صرف ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے۔ (۲) منفعل غیر منفعل، یہ خاصہ جمادات کا ہے۔ (۳) ایک اعتبار سے فاعل اور دوسرے اعتبار سے منفعل جیسے جن و انس اور ملائکہ یہ اﷲ تعالیٰ کے اعتبار سے فاعل سے منفعل اور اپنی مصنوعات کے لحاظ سے فاعل ہے اور چونکہ ان کے معبود جمادات کی قسم سے تھے جو منفعل محض ہے لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے انہیں اثاث کہہ کر پکارا ہے اور اس سے ان کی اعتقادی جہالت پر تنبیہ کی ہے کہ جن کو تم نے معبود بنا رکھا ہے ان میں نہ عقل ہے نہ سمجھ، نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں بلکہ کسی حیثیت سے بھی کوئی کام سرانجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے (توحید کی طرف دعوت کے سلسلہ میں) اپنے باپ سے کہا۔ (یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعۡبُدُ مَا لَا یَسۡمَعُ وَ لَا یُبۡصِرُ وَ لَا یُغۡنِیۡ عَنۡکَ شَیۡئًا ) (۱۹:۴۲) کہ ابا! آپ ایسی چیزوںکو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں لیکن آیت کریمہ : (وَ جَعَلُوا الۡمَلٰٓئِکَۃَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عِبٰدُ الرَّحۡمٰنِ اِنَاثًا ) (۴۳:۱۹) اور انہوں نے فرشتوں کو کہ وہ بھی خدا کے بندے ہیں (مادہ، خدا کی بیٹیاں) بنادیا۔ میں ملائکہ ک واناث قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔
Surah:53Verse:27 |
عورتوں والے
(of) female
|
|
Surah:53Verse:45 |
اور مادہ (کی شکل میں)
and the female
|
|
Surah:75Verse:39 |
اورعورت
and the female
|
|
Surah:92Verse:3 |
اور مادہ کو
and the female
|