Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 21

سورة البقرة

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾

O mankind, worship your Lord, who created you and those before you, that you may become righteous -

اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا یہی تمہارا بچاؤ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Tawhid Al-Uluhiyyah Allah says; يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ O mankind! Worship your Lord (Allah), Who created you and those who were before you so that you may acquire Taqwa. Allah mentioned His Oneness in divinity and stated that He has favored His servants by bringing them to life after they did not exist. He also surrounded them with blessings, both hidden and apparent.

تعارف اللہ بزبان اللہ یہاں سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی الوہیت کا بیان شروع ہوتا ہے وہی اپنے بندوں کو عدم سے وجود میں لایا ، اسی نے ہر طرح کی ظاہری و باطنی نعمتیں عطا فرمائیں ، اسی نے زمین کو فرش بنایا اور اس میں مضبوط پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اور آسمان کو چھت بنایا ۔ جیسے کہ دوسری آیت میں آیا کہ آیت ( وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ښ وَّهُمْ عَنْ اٰيٰـتِهَا مُعْرِضُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:32 ) یعنی آسمان کو محفوظ چھت بنایا اس کے باوجود وہ نشانیوں سے منہ موڑ لیتے ہیں ، آسمان سے پانی اتارنے کا مطلب بادل نازل فرمانا ہے ۔ اس وقت جبکہ لوگ اس کے پورے محتاج ہوں ۔ پھر اس پانی سے طرح طرح کے پھل پھول پیدا کرنا ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور ان کے جانور بھی ۔ جیسے کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا بیان آیا ہے ۔ ایک جگہ فرمایا ہے آیت ( اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ) 40 ۔ غافر:64 ) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہیں پیاری پیاری صورتیں عطا فرمائیں اور طرح طرح کی غذائیں پہنچائیں یہی اللہ ہے جو برکتوں والا اور تمام عالم کو پالنے والا ہے پس سب کا خالق ، سب کا رازق ، سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس لئے شرک سے مبرا ہر قسم کی عبادت کا وہی مستحق ہے ۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ کے شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم جانتے ہو ۔ صحیحین میں حدیث ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوچھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑا گناہ کونسا ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تمہارا خالق ہے کسی کو شریک ٹھہرانا حضرت معاذ والی حدیث میں ہے جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ یہ کہ اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کریں دوسری حدیث میں ہے تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یوں کہے جو کچھ اللہ اکیلا چاہے ۔ طفیل بن سنجرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوتیلے بھائی فرماتے ہیں میں نے خواب میں چند یہودیوں کو دیکھا اور ان سے پوچھا تم کون ہے؟ انہوں نے کہا تم بھی اچھے لوگ ہو لیکن افسوس تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں پھر میں نصرانیوں کی جماعت کے پاس گیا اور ان سے بھی اسی طرح پوچھا انہوں نے بھی یہی جواب دیا ۔ میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہو ۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا ۔ میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہو ۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا میں نے صبح اپنے اس خواب کا ذکر کچھ لوگوں سے کیا پھر دربار نبوی میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی خواب بیان کیا ۔ آپ نے پوچھا کیا کسی اور سے بھی تم نے اس کا ذکر کیا ہے؟ میں نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ کھڑے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا طفیل نے ایک خواب دیکھا اور تم میں سے بعض کو بیان بھی کیا میں چاہتا تھا کہ تمہیں اس کلمہ کے کہنے سے روک دوں لیکن فلاں فلاں کاموں کی وجہ سے میں اب تک نہ کہہ سکا ۔ یاد رکھو اب ہرگز ہرگز اللہ چاہے اور اس کا رسول کبھی نہ کہنا بلکہ یوں کہو کہ صرف اللہ تعالیٰ اکیلا جو چاہے ( ابن مردویہ ) ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ چاہیں ۔ آپ نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے یوں کہہ جو اللہ تعالیٰ اکیلا چاہے ( ابن مردویہ ) ایسے تمام کلمات توحید کے سراسر خلاف ہیں ۔ توحید باری کی اہمیت کے بارے میں یہ سب احادیث بیان ہوئی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ تمام کفار اور منافقوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور فرمایا اللہ کی عبادت کرو یعنی اس کی توحید کے پابند ہو جاؤ ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو جو نہ نفع دے سکے نہ نقصان پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اس کے سوا کوئی رب نہیں جو تمہیں روزی پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اس توحید کی طرف بلا رہے ہیں جس کے حق اور سچ ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ شرک اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے جیسے چیونٹی جو رات کے اندھیرے میں کسی صاف پتھر پر چل رہی ہو ، قسم ہے اللہ کی اور قسم ہے آپ کی حیات کی ، یہ بھی شرک ہے انسان کا یہ کہنا اگر یہ کتیا نہ ہوتی تو چور رات کو ہمارے گھر میں گھس آتے یہ بھی شرک ہے ۔ آدمی کا یہ قول کہ اگر بطخ گھر میں نہ ہوتی تو چوری ہو جاتی یہ بھی شرک کا کلمہ ہے کسی کا یہ قول کہ جو اللہ چاہے اور آپ یہ بھی شرک ہے کسی کا یہ کہنا کہ اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں نہ ہوتا ۔ یہ سب کلمات شرک ہیں صحیح حدیث میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں تو آپ نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے؟ دوسری حدیث میں ہے تم اچھے لوگ ہوتے اگر تم شرک نہ کرتے تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے ۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں انداد کے معنی شریک اور برابر کے ہیں ۔ مجاہد فرماتے ہیں تم توراۃ و انجیل پڑھتے ہو اور جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ایک اور لا شریک ہے ، پھر جانتے ہوئے کیوں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو؟ پانچ احکام٭٭ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو پانچ چیزوں کا حکم دیا کہ ان پر عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دو ، قریب تھا کہ وہ اس میں غفلت کریں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں یاد دلایا کہ آپ کو پروردگار عالم کا حکم تھا کہ ان پانچ چیزوں پر خود کاربند ہو کر دوسروں کو بھی حکم دو ۔ لہذا یا تو آپ کہہ دیجئے یا میں پہنچا دوں ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ سبقت لے گئے تو کہیں مجھے عذاب نہ دیا جائے یا زمین میں دھنسا نہ دیا جاؤں پس یحییٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس کی مسجد میں جمع کیا ، جب مسجد بھر گئی تو آپ اونچی جگہ پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم کیا ہے کہ خود بھی عمل کریں تم سے بھی ان پر عمل کراؤں ۔ ایک یہ کہ اللہ ایک کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص خاص اپنے مال سے کسی غلام کو خریدے اور غلام کام کاج کرے لیکن جو کچھ حاصل ہوا ہے اسے کسی اور کو دے دے کیا ۔ تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا غلام ایسا ہو؟ ٹھیک اسی طرح تمہارا پیدا کرنے والا ، تمہیں روزی دینے والا ، تمہارا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے ۔ پس تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ دوسری یہ کہ نماز کو ادا کرو اللہ تعالیٰ کی نگاہ بندے کی طرف ہوتی ہے ۔ جب تک کہ وہ نماز میں ادھر ادھر منہ پھیرے جب تم نماز میں ہو تو خبردار ادھر ادھر الفتات نہ کرنا ۔ تیسرا حکم یہ ہے کہ روزے رکھا کرو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کے پاس مشک کی تھیلی بھری ہوئی ہو جس سے اس کے تمام ساتھیوں کے دماغ معطر رہیں ۔ یاد رکھو روزے دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے ۔ چوتھا حکم یہ ہے کہ صدقہ دیتے رہا کرو ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو دشمنوں نے قید کر لیا اور گردن کے ساتھ اس کے ساتھ باندھ دئیے گردن مارنے کے لئے لے جانے لگے تو وہ کہنے لگا کہ تم مجھ سے فدیہ لے اور مجھے چھوڑ دو چنانچہ جو کچھ تھا کم زیادہ دے کر اپنی جان چھڑا لی ۔ پانچواں اس کا حکم یہ ہے کہ بہ کثرت اس کے نام کا ذکر کیا کرو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کے پیچھے تیزی کے ساتھ دشمن دوڑتا آتا ہے اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں گھس جاتا ہے اور وہاں امن و امان پا لیتا ہے اسی طرح بندہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے وقت شیطان سے بچا ہوا ہوتا ہے یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب میں بھی تمہیں پانچ باتوں کا حکم کرتا ہوں جن کا حکم جناب باری نے مجھے دیا ہے مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑے رہنا اللہ اور اس کے رسول اور مسلمان حاکم وقت کے احکام سننا ۔ اور جاننا ہجرت کرنا اور جہاد کرنا جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر نکل جائے گویا وہ اسلام کے پٹے کو اپنے گلے سے اتار پھینکے گا ہاں یہ اور بات ہے کہ رجوع کر لے جو شخص جاہلیت کی پکار پکارے وہ جہنم کا کوڑا کرکٹ ہے لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو فرمایا اگرچہ نماز پڑھتا ہو اور روزے بھی رکھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو ۔ مسلمانوں کو ان کے ان ناموں کے ساتھ پکارتے رہو جو خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے رکھے ہیں مسلمین مومنین اور عباد اللہ یہ حدیث حسن ہے اس آیت میں بھی یہی بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے وہی تمہیں روزی دیتا ہے پس عبادت بھی اسی کی کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عبادت میں توحید باری تعالیٰ کا پورا خیال رکھنا چاہیے کسی اور کی عبادت نہ کرنی چاہئے ہر ایک عبادت کے لائق صرف وہی ہے ۔ اثبات وجود الہ العلمین٭٭ امام رازی وغیرہ نے اللہ تعالیٰ کے وجود پر بھی اس آیت سے استدلال کیا ہے ۔ اور فی الواقع یہ آیت اللہ تعالیٰ کے وجود پر بہت بڑی دلیل ہے زمین اور آسمان کی مختلف شکل و صورت مختلف رنگ مختلف مزاج اور مختلف نفع کی موجودات ان میں سے ہر ایک کا نفع بخش ہونا اور خاص حکمت کا حامل ہونا ان کے خالق کے وجود کا اور اس کی عظیم الشان قدرت ، حکمت ، زبردست سطوت اور سلطنت کا ثبوت ہے کسی بدوی سے پوچھا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی موجودگی کی کیا دلیل ہے؟ تو اس نے کہا دعا ( یا سبحان اللہ ان البعر لیدل علی البعیر ۔ وان اثر الا قدام لیدل علی المسیر ۔ فسماء ذات ابراج وارض ذات فجاج ۔ وبحار ذات امواج الا یدل ذالک علی وجود اللطیف الخبیر ۔ ) یعنی مینگنی سے اونٹ معلوم ہو سکے اور پاؤں کے نشان زمین پر دیکھ کر معلوم ہو جائے کہ کوئی آدمی گیا ہے تو کیا یہ برجوں والا آسمان یہ راستوں والی زمین یہ موجیں مارنے والے سمندر اللہ تعالیٰ باریک بین اور باخبر کے وجود پر دلیل نہیں ہو سکتے؟ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ہارون رشید نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے آپ نے فرمایا زبانوں کا مختلف ہونا ، آوازوں کا جداگانہ ہونا ، نغموں کا الگ ہونا ، ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی سوال ہوتا ہے تو آپ جواب دیتے ہیں کہ چھوڑو میں کسی اور سوچ میں ہوں ۔ لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کی تجارتی چیزیں ہیں نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے باوجود اس کے وہ برابر آ جا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی پھاڑتی گزر جاتی ہے ٹھہرنے کی جگہ پر ٹھہر جاتی ہے چلنے کی جگہ چلتی رہتی ہے نہ اس کا کوئی ملاح ہے نہ منتظم ۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا آپ کس سوچ میں پڑ گئے کوئی عقلمند ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی اتنے بڑے نظام کے ساتھ تلاطم والے سمندر میں آئے جائے اور کوئی اس کا چلانے والا نہ ہو آپ نے فرمایا افسوس تمہاری عقلوں پر ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے لیکن یہ ساری دنیا آسمان و زمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے کام پر لگی رہیں اور ان کا مالک حاکم خالق کوئی نہ ہو؟ یہ جواب سن کر وہ لوگ ہکا بکا ہو گئے اور حق معلوم کر کے مسلمان ہو گئے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ توت کے پتے ایک ہی ہیں ایک ہی ذائقہ کے ہیں کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائیں بکریاں ہرن وغیرہ سب اس کو چباتے کھاتے اور چرتے چگتے ہیں اسی کو کھا کر ریشم کا کیڑا ریشم تیار کرتا ہے مکھی شہد بناتی ہے ، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے اور گائیں بکریاں مینگنیاں دیتی ہیں ۔ کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک پتے میں یہ مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ مانتے ہیں وہی موجد اور صانع ہے ۔ حضرت امام احمد بن حنل رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک مرتبہ وجود باری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا ۔ سنو یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں نہ کوئی راستہ ہے بلکہ سوراخ تک نہیں باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا خوبصورت شکل اور پیاری بولی والا چلتا پھرتا نکل آتا ہے ۔ بتاؤ اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو چاروں طرف سے بند ہے پھر اس میں پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے ۔ یہی دلیل ہے اللہ کے وجود پر اور اس کی توحید پر ۔ حضرت ابو نواس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا آسمان سے بارش برسنا ، اس سے درختوں کا پیدا ہونا اور ان ہری ہری شاخوں پر خوش ذائقہ میووں کا لگنا ہی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی کافی دلیل ہے ابن المعتز فرماتے ہیں افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی تکذیب پر لوگ کیسے دلیر ہو جاتے ہیں حالانکہ ہر چیز اس پروردگار کی موجود اور لاشریک ہونے پر گواہ ہے بزرگوں کا مقولہ ہے کہ آسمانوں کو دیکھو ان کی بلندی ان کی وسعت ، ان کے چھوٹے بڑے چمکیلے اور روشن ستاروں پر نظریں ڈالو ۔ ان کے چمکنے دمکنے ان کے چلنے پھرنے ، ٹھہر جانے ، ظاہر ہونے اور چھپ جانے کا مطالعہ کرو ۔ سمندروں کو دیکھو ، جو موجیں مارتے ہوئے زمین کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ اونچے نیچے مضبوط پہاڑوں کو دیکھو جو زمین میں گڑے ہوئے ہیں اور اسے ہلنے نہیں دیتے ، جن کے رنگ ، جن کی صورتیں مختلف ہیں ۔ قسم قسم کی دوسری مخلوقات پر نظر ڈالو ، ادھر سے ادھر پھر جانے والی کھیتیوں اور باغوں کو شاداب کرنے والی خوشنما نہروں کو دیکھو ۔ کھیتوں ، باغوں کی سبزیوں٠ اور ان کے طرح طرح کے پھل پھول مزے مزے کے میووں پر غور کرو زمین ایک پانی ایک ، لیکن شکلیں صورتیں ، خوشبوئیں ، رنگ ذائقہ ، فائدہ الگ الگ ۔ کیا یہ تمام مصنوعات تمہیں نہیں بتاتیں کہ ان کا صانع کوئی ہے؟ کیا یہ تمام موجودات با آواز بلند نہیں کہہ رہیں کہ ان کا موجد کوئی ہے؟ کیا یہ ساری مخلوق اپنے خالق کی ہستی اس کی ذات اور اس کی توحید پر دلالت نہیں کرتی ۔ یہ ہیں وہ زور دار دلائل جو اللہ جل و علا نے اپنی ذات کے منوانے کے لئے ہر نگاہ کے سامنے پیش کر دئیے ہیں جو اس کی زبردست قدرتوں ، اس کی پرزور حکمتوں ، اس کی لاثانی رحمتوں ، اس کے بےنظیر انعاموں ، اس کے لازوال احسانوں پر دلالت کرنے کے لئے کافی وافی ہیں ۔ ہم اقرار کرتے ہیں کہ نہ اس کا کوئی پالنے والا ہے ، نہ اس کے سوا کوئی پیدا کرنے اور حفاظت کرنے والا ، نہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہ اس کے سوا کوئی مسجود لاشک ۔ ہاں دنیا کے لوگو! سن لو میرا توکل اور بھروسہ اسی پر ہے میری انابت اور التجا اسی کی طرف ہے ، میرا جھکنا اور پست ہونا اسی کے سامنے ہے ، میری تمناؤں کا مرکز ، میری امیدوں کا آسرا ، میرا ماویٰ ، ملجا وہی ایک ہے اس کے دست رحمت کو تکتا ہوں اور اسی کا نام جپتا ہوں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] دلائل توحید :۔ مدینہ میں موجود تین طرح کے لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں سے مشترکہ خطاب فرما کر انہیں اسلام کی بنیادی دعوت کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ تم لوگ یہ خوب جانتے ہو کہ اللہ ہی نے تمہیں بھی اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی پیدا کیا۔ پھر تمہارے لیے زمین کو مستقر اور آسمان کو محفوظ چھت بنادیا کہ کوئی سیارہ اوپر سے گر کر زمین کو تہس نہس نہیں کردیتا۔ پھر تمہاری تمام ضروریات زندگی اسی زمین سے وابستہ کردیں اور گاہے گاہے آسمان سے بارش برسا کر تمہارے کھانے پینے کی چیزیں اور پھل وغیرہ بھی وہی تمہیں مہیا کرتا ہے، تو پھر تمہیں عبادت بھی صرف اسی کی کرنی چاہیے اور کسی دوسرے کو اس کے اقتدار و تصرف میں شریک سمجھ کر اس کی عبادت نہ کرنی چاہیے۔ اسی صورت میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ تم عذاب اخروی سے بچ سکو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اس سے پہلی آیت تک تو تمہید تھی کہ قرآن جو ہدایت کا اصلی سر چشمہ ہے اسے ماننے اور نہ ماننے کے اعتبار سے لوگ تین قسم کے ہیں، اب آگے براہ راست خطاب کے ساتھ تمام لوگوں کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جا رہی ہے جو اس کتاب کی دعوت کا حقیقی مقصد ہے، جس کے لیے کتابیں اتاری گئیں اور انبیاء بھیجے گئے وہ ہے دعوت توحید یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور اس کی عبادت اور دعا میں کسی کو شریک نہ کرنا۔ طبری نے ابن عباس (رض) سے (اعْبُدُوْا) کا معنی بیان کیا ہے : ” اَیْ وَحِّدُوْا رَبَّکُمْ “ یعنی اپنے رب کو ایک مانو۔ 3 توحید کے لیے پہلی دلیل یہ بیان فرمائی کہ میں تمہارا رب ہوں جو تمہاری پرورش کر رہا ہے اور تمہاری ہر ضرورت پوری کر رہا ہے۔ دوسری دلیل اس کی وہ نعمت ہے جو رب ہونے سے بھی پہلے کی ہے اور وہ ہے تمہیں پیدا کرنا۔ باقی تمام نعمتیں اس کے بعد ہیں، اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں قرآن مجید اس دلیل پر بہت زور دیتا ہے اور اسے بار بار دہراتا ہے۔ اس لیے کہ کفار بھی مانتے تھے کہ خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، فرمایا : (وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ) [ الزخرف : ٨٧ ]” اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ “ ” لَعَلَّ “ یہاں ” کَیْ “ یعنی ” تاکہ “ کے معنی میں ہے۔ ( تَتَّقُوْنَ ) بچ جاؤ یعنی اللہ کی گرفت سے اور جہنم سے بچ جاؤ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

A review of verses linked together The second verse of the Surah &Al-Baqarah& provides the answer to the prayer made in the Surah Al-Fatihah, اهْدِنَا الصِّرَ‌اطَ الْمُسْتَقِيمَ |"Guide us in the straight path|"- that is to say, the guidance man has prayed for is present in this book, for the Holy Qur&an is from the beginning to the end a detailed account of the straight path. Then, the Surah proceeds to divide men into three groups according to whether they accept the guidance of the Holy Qur&an or not. Three verses speak of the true and God-fearing Muslims, who not only accept but also act upon the guidance, and the next two verses of those disbelievers who oppose it openly. Then come thirteen verses dealing with the hypocrites who are hostile to this guidance, but, for the sake of petty worldly interests or in seeking to harm the Muslims, try to keep their disbelief concealed and to present themselves as Muslims. Thus, the first twenty verses of the Surah, in dividing men into three groups on the basis of their acceptance or rejection of the guidance, indicate that the proper criterion for dividing men into groups is neither race or colour, nor language nor geography, but religion. Hence those, who believe in Allah and follow the guidance He has provided in the Holy Qur&an, form one nation, and those who disbelieve form a different nation - the Holy Qur&an calls the former the &party of Allah& and the latter - the party of Satan شیطان & (58:19-22) Then, the present verses (21 and 22), addressing the three groups together, present the message for which the Holy Qur&an has been revealed. In asking men to give up the worship of created beings and to worship Allah alone, they adopt a mode of expression which not only makes an affirmation but also supports it with arguments so clear that even an average man, only if he uses his common sense, cannot help being convinced of the Oneness of God. Commentary: In starting the address, verse 21 uses the Arabic word An-nas, الناس which signifies man in general, or man as such - so, the word covers all the three groups we have just mentioned. And the message delivered by the verse is:& اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ |"Worship your Lord.|" The Arabic word عبادہ ` Ibadah (worship) connotes expending all energies one has in total obedience to somebody, and shunning all disobedience out of one&s awe and reverence. (Ruh-al-Bayan) We have earlier explained the meaning of the word Rabb رَبّ (one who gives nurture). Let us add that the choice of this particular name from among the Beautiful names of Allah is very meaningful in the present context, for the affirmation has thus been combined with the argument in a very short sentence. The word Rabb رَبّ indicates that only He is, or can be, worthy of being worshipped, He is the final and absolute Cause of nurturing man - Who changes man through gradual stages of development from a drop of water into healthy, sentient and rational being, and Who provides the means for his sustenance and growth. This truth is so obvious that even an ignorant or intellectually dull man would, on a little reflection, not fail to see and admit that such a power of nurturing can belong only to Allah, and not to a created being. What can a creature do for man, when it owes its very existence to the Creator? Can a needy one come to the help of another? And if it appears to be doing so, the act of nurturing must in reality and ultimately belong to the One Being on whom both have to depend in order to exist at all. So, who else but the Rabb رَبّ can be worthy of adoration and worship? The sentence is addressed to all the three groups of men, and for each it has a different meaning. اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ |"Worship your Lord|": the phrase calls upon the disbelievers to give up worshipping created beings and to turn to the Creator; it asks the hypocrites to be sincere and true in their faith; it commands the sinning Muslims to change their ways and try to be perfect in their obedience to Allah; and it encourages the God-fearing Muslims to be steadfast in their worship and obedience, and to make a greater effort in the way of Allah (Ruh-al-Bayan). The two verses proceed to enlarge upon the theme by specifying certain special qualities of the Rabb: الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ &&Who created you and those before you.|" This is a quality which one cannot even imagine to belong to a created being, for it can pertain only to the Creator - that is, the quality of giving existence to what did not exist before, and of producing from the darkness and filth of the mother&s womb a creature as lovely and noble as man. In adding to the phrase: الَّذِي خَلَقَكُمْ :|"who created you|" the words, الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ ; and those before you,|" the verse shows that Allah alone is the Creator of all mankind. It is also significant that the verse mentions only |"those before you|" and not |"those who will come after you|", and through this omission suggests that there will not be any Ummah (a traditional community formed by all the followers of a prophet) to succeed the Ummah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، for no prophet will be sent down after the Last Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and hence no new ` Ummah& will arise. The final phrase of verse 21 لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ has been translated here as |"so that you may become God-fearing|". It may also be translated to mean |"So that you may save yourselves from hell|", or |"So that you may guard yourselves against evil.|" But the point is that one can hope to attain salvation and paradise only when one worships Allah alone, and does not associate anyone else with Him. Before we proceed, we must clarify a very important doctrinal point. The phrase (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) which has been translated here as |"so that you may become God-fearing|" The Doctrine Of Tauhid توحید : A source of peace in human life Tauhid توحید ، the most fundamental doctrine of Islam, is not a mere theory, but the only effective way of making man a man in the real sense of the term - it is his first and last refuge and the panacea for all his ills. For the essence of this doctrine is that every possible change in the physical universe, its very birth and death is subject to the will of the One and Only Being, and a manifestation of His wisdom. When this doctrine takes hold of a man&s mind and heart, and becomes his permanent state, all dissension ceases to exist and the world itself changes into a paradise for him, as he knows that the enmity of the foe and the love of the friend equally proceed from Allah who rules over the hearts of both. Such a man lives his life in perfect peace, fearing none and expecting nothing from anyone: shower him with gold, or put him in irons, he would remain unmoved, for he knows where it comes from. This is the significance of the basic declaration of the Islamic creed, لَا الٰہَ الا اللہ (there is no God but Allah). But, obviously, it is not enough to affirm the Oneness of God orally; one must have a complete certitude, and must also have the truth always present close to one&s heart, for Tauhid توحید is to see God as one, and not merely to say that He is one. Today, the number of those who can respect this basic formula of the Islamic creed runs to millions all over the world - far more than it ever did, but mostly it is just an expense of breath: their lives do not show the colour of Tauhid توحید ; or otherwise, they should have been like their forefathers who were daunted neither by wealth nor by power, awed neither by numbers nor by pomp and show to turn their back upon the Truth - when a prophet could all by himself stand up against the world, and say: ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنظِرُ‌ونِ :|"So try your guile on me, then give me no respite|" (7 :195). If the blessed Companions and their successors came to dominate the world in a few years, the secret lay in this Tauhid توحید ، correctly understood and practised. May Allah bless all the Muslims with this great gift!

خلاصہ تفسیر : اے لوگو ! عبادت اختیار کرو اپنے پروردگار کی جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں عجب نہیں کہ تم دوزخ سے بچ جاؤ (شاہی محاورہ میں عجب نہیں کا لفظ وعدہ کے موقع پر بولا جاتا ہے) وہ ذات پاک ایسی ہے جس نے بنایا تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت اور برسایا آسمان سے پانی پھر (پردہ عدم سے) نکالا بذریعہ اس پانی کے پھلوں سے غذا کو تم لوگوں کے واسطے اب ٹھراؤ اللہ پاک کے مقابل اور تم تو جانتے بوجھتے ہو، (یعنی یہ جانتے ہو کہ یہ تمام تصرّفات خدا تعالیٰ کے سوا کوئی کرنے والا نہیں پھر خدا کے مقابلہ میں دوسری چیزوں کو معبود بنانا کیسے درست ہوسکتا ہے) معارف و مسائل : ربط آیات : سورة بقرہ کی دوسری آیت میں اس دعاء و درخواست کا جواب تھا جو سورة فاتحہ میں آئی ہے یعنی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ جو صراط مستقیم تم طلب کرتے ہو وہ اس کتاب میں ہے کیونکہ قرآن کریم اول سے آخر تک صراط مستقیم ہی تشریح ہے، اس کے بعد قرآنی ہدایات کو قبول کرنے اور نہ کرنے کے اعتبار سے انسان کے تین گروہوں کو بیان کیا گیا پہلی تین آیات میں مؤمنین متقین کا ذکر ہوا جنہوں نے ہدایات قرآنی کو اپنا نصب العین بنا لیا بعد کی دو آیتوں میں اس گروہ کا ذکر کیا جس نے کھلے طور پر اس ہدایت کی مخالفت کی اس کے بعد تیرہ آیتوں میں اس خطرناک گروہ کے حالات بیان کئے گئے جو حقیقت میں تو قرآنی ہدایات کے مخالف تھے مگر دنیا کی ذلیل اغراض یا مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے خیال سے اپنے کفر و مخالفت کو چھپا کر مسلمانوں میں شامل رہتے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے، اسی طرح سورة بقرہ کی ابتدائی بیس آیتوں میں ہدایت کے قبول کرنے اور نہ کرنے کے معیار پر کل انسانوں کو تین گروہوں میں بانٹ دیا گیا جس میں اس طرف بھی اشارہ پایا گیا کہ انسانوں کی گروہی اور قومی تقسیم نسب اور وطن یا زبان اور رنگ کی بنیادوں پر معقول نہیں بلکہ اس کی صحیح تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی ہدایات کو ماننے والے ایک قوم اور نہ ماننے والے دوسری قوم جن کو سورة مجادلہ میں حزب اللہ اور حزب الشیطان کا نام دیا گیا ، غرض سورة بقرہ کی ابتدائی بیس آیتوں میں قرآنی ہدایات کو ماننے یا نہ ماننے کی بنیاد پر انسان کو تین گروہوں میں تقسیم کرکے ہر ایک کا کچھ حال بیان فرمایا گیا، اس کے بعد مذکورہ اکیسویں اور بائیسویں آیتوں میں تینوں گروہوں کو خطاب کرکے وہ دعوت پیش کی گئی ہے جس کے لئے قرآن نازل ہوا اس میں مخلوق پرستی سے باز آنے اور ایک خدا کی عبادت کرنے کی طرف دعوت ایسے انداز سے دی گئی ہے کہ اس میں دعویٰ کے ساتھ اس کے واضح دلائل بھی موجود ہیں جن میں ادنٰی سمجھ بوجھ والا انسان بھی ذرا سا غور کرے تو توحید کے اقرار پر مجبور ہوجائے، پہلی آیت میں يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ سے خطاب شروع ہوا لفظ النَّاس عربی زبان میں مطلق انسان کے معنی میں آتا ہے اس لئے مذکورہ تینوں گروہ اسمیں داخل ہیں جن کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ عبادت کے معنی ہیں اپنی پوری طاقت مکمل فرمانبرداری میں صرف کرنا اور خوف و عظمت کے پیش نظر نافرمانی سے دور رہنا (روح البیان ص ٧٤ ج ١) اور لفظ رَبّ کے معنی پروردگار کے ہیں جس کی پوری تشریح پہلے گذر چکی ہے، ترجمہ یہ ہوا کہ عبادت کرو اپنے رب کی، یہاں پر لفظ رب کی جگہ لفظ اللہ یا اسما حسنیٰ میں سے کوئی اور نام بھی لایا جاسکتا تھا مگر ان میں سے اس جگہ لفظ رب کا انتخاب کرنے میں یہ حکمت ہے کہ اس مختصر سے جملے میں دعوے کے ساتھ دلیل بھی آگئی کیونکہ عبادت کی مستحق صرف وہ ذات ہوسکتی ہے جو انسان کی پرورش کی کفیل ہو جو اس کو ایک قطرہ سے تدریجی تربیت کے ساتھ ایک بھلا چنگا، سمیع وبصیر، عقل و ادراک والا ماہر انسان بنا دے اور اس کی بقا وارتقاء کے وسائل مہیا کرے اور یہ ظاہر ہے کہ انسان کتنا ہی جاہل ہو، اور اپنی بصیرت کو برباد کرچکا ہو جب بھی ذرا غور کرے گا تو اس کا یقین کرنے میں اسے ہرگز تامل نہیں ہوگا کہ یہ شان ربوبیت بجز حق تعالیٰ کے اور کسی میں نہیں اور انسان پر یہ مربّیانہ انعامات نہ کسی پتھر کے تراشے ہوئے بت نے کئے ہیں اور نہ کسی اور مخلوق نے اور وہ کیسے کرتے جب کہ وہ سب خود اپنے وجود اور بقاء میں اسی ذات واحد کے محتاج ہیں ایک محتاج دوسرے محتاج کی کیا حاجت روائی کرسکتا ہے ؟ اور اگر ظاہری طور پر کرے بھی تو وہ بھی درحقیقت اسی ذات کی تربیت ہوگی جس کی طرف یہ دونوں محتاج ہیں خلاصہ یہ ہے کہ اس جگہ لفظ رب لا کر یہ واضح کردیا گیا کہ جس ذات کی عبادت کی طرف دعوت دی گئی ہے اس کے سوا کوئی دوسری ہستی عبادت کی مستحق ہو ہی نہیں سکتی اس جملہ میں انسانوں کے تینوں گروہوں کو خطاب ہے، اور ہر مخاطب کیلئے اس جملہ کا معنی ومطلب جدا ہے مثلاً جب کہا گیا کہ اپنے رب کی عبادت کرو تو کفار کے لئے اس خطاب کے معنی یہ ہوئے کہ مخلوق پرستی چھوڑ کر توحید اختیار کرو، اور منافقین کے لئے اس کے یہ معنی ہوئے کہ نفاق چھوڑ کر اخلاص پیدا کرو گناہ گار مسلمانوں کے لئے معنی یہ ہوئے کہ گناہ سے باز آؤ اور کامل اطاعت اختیار کرو اور متقی مسلمانوں کے لئے اس جملہ کے یہ معنی ہوئے کہ اپنی اطاعت و عبادت پر ہمیشہ قائم رہو اور اس میں ترقی کی کوشش کرو (روح البیان) اس کے بعد رب کی چند صفات خاصہ کا ذکر کر کے اس مضمون کی مزید توضیح فرمادی گئی ارشاد ہوتا ہے الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ یعنی تمہارا پروردگار وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان قوموں کو بھی جو تم سے پہلے گذر چکی ہیں اس میں رب کی وہ صفت بتلائی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مخلوق میں پائے جانے کا کسی کو وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا کہ نیست سے ہست اور نابود سے بود کرنا پھر بطن مادر کی تاریکیوں اور گندگیوں میں ایسا حسین و جمیل پاک وصاف انسان بنادینا کہ فرشتے بھی اس کی پاکی پر رشک کریں یہ سوائے اس ذات حق کے کس کا کام ہوسکتا جو کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں اس آیت میں خَلَقَكُمْ کے ساتھ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ کا اضافہ کرکے ایک تو یہ بتلا دیا کہ تم اور تمہارے آباء و اجداد یعنی تمام بنی نوع انسان کا خالق وہی پروردگار ہے دوسرے صرف مِنْ قَبْلِكُمْ کا ذکر فرمایا مِنْ بَعدِكُمْ یعنی بعد میں پیدا ہونے والے لوگوں کا ذکر نہیں کیا اس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے بعد کوئی دوسری امت یا دوسری ملت نہیں ہوگی کیونکہ خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نہ کوئی نبی مبعوث ہوگا نہ اس کی کوئی جدید امت ہوگی اس کے بعد اسی آیت کا آخری جملہ ہے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ یعنی دنیا میں گمراہی اور آخرت میں عذاب سے نجات پانے کی امید تمہارے لئے صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ توحید کو اختیار کرو اور شرک سے باز آؤ کسی کا عمل اس کی نجات اور جنت کا یقینی سبب نہیں : لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ اس جملہ میں لفظ لَعَلَّ استعمال فرمایا ہے جو رجاء یعنی امید کے معنی میں آتا ہے اور ایسے مواقع پر بولا جاتا ہے جہاں کسی فعل کا وقوع یقینی نہ ہو حکم ایمان و توحید کے نتیجہ میں نجات اور جنت کا حصول وعدہ الیہہ کے مطابق یقینی ہے مگر اس یقینی شے کو امید ورجاء کے عنوان سے بیان کرنے میں حکمت یہ بتلانا ہے کہ انسان کا کوئی عمل اپنی ذات میں نجات وجنت کی قیمت نہیں بن سکتا بلکہ فضل خداوندی اس کا اصل سبب ہے ایمان وعمل کی توفیق ہونا اس فضل خداوندی کی علامت ہے علت نہیں۔ عقیدہ توحید ہی دنیا میں امن امان اور سکون و اطمینان کا ضامن ہے : عقیدہ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے یہ صرف ایک نظریہ نہیں بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ ہے جو انسان کی تمام مشکلات کا حل اور ہر حالت میں اس کے لئے پناہ گاہ اور ہر غم وفکر میں اس کا غمگسار ہے کیونکہ عقیدہ توحید کا حاصل یہ ہے کہ عناصر کے کون و فساد اور ان کے سارے تغیرات صرف ایک ہستی کی مشیت کے تابع اور اس کی حکمت کے مظاہر ہیں، ہر تغیر ہے غیب کی آواز ہر تجدد میں ہیں ہزاروں راز اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ کسی کے قلب و دماغ پر چھا جائے اور اس کا حال بن جائے تو یہ دنیا ہی اس کے لئے جنت بن جائے گی سارے جھگڑے فساد اور ہر فساد کی بنیاد ہی منہدم ہوجائیں گی کیونکہ اس کے سامنے یہ سبق ہوگا از خداداں خلاف دشمن ودوست کہ دل ہر دودر تصرف اوست اس عقیدہ کا مالک ساری دنیا سے بےنیاز ہر خوف وخطر سے بالا تر زندگی گذارتا ہے اس کا حال یہ ہوتا ہے ، موحد چہ برپائے ریزی زرش چہ فولاد ہندی نہی برسرش امید وہراسش نباشد زکس ہمیں است بنیاد توحید وبس کلمہ الا الہٰ الہ اللہ جو کلمہ توحید کہلاتا ہے اس کا یہی مفہوم ہے مگر یہ ظاہر ہے کہ توحید کا محض زبانی اقرار اسکے لئے کافی نہیں بلکہ سچے دل سے اس کا یقین اور یقین کے ساتھ استحضار ضروری ہے کیونکہ توحید خدا واحد دیدن بودنہ واحد گفتن، کلمہ لا الہٰ الّا اللہ کے پڑھنے والے دنیا میں کروڑوں ہیں اور اتنے ہیں کہ کسی زمانے میں اتنے نہیں ہوئے لیکن عام طور پر یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے توحید کا رنگ ان میں رچا نہیں ورنہ ان کا وہی حال ہوتا جو پہلے بزرگوں کا تھا کہ نہ کوئی بڑی سے بڑی قوت و طاقت ان کو مرعوب کرسکتی تھی اور نہ کسی قوم کی عددی اکثریت ان پر اثرانداز ہوسکتی تھی نہ کوئی بڑی سے بڑی دولت و سلطنت ان کے قلوب کو خلاف حق اپنی طرف جھکا سکتی تھی ایک پیغمبر کھڑا ہو کر ساری دنیا کو للکار کر کہہ دیتا تھا کہ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ انبیاء کے بعد صحابہ کرام اور تابعین جو تھوڑی سے مدت میں دنیا پر چھا گئے ان کی طاقت وقوت اسی حقیقی توحید میں مضمر تھی اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو یہ دولت نصیب فرمائے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 3 يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝ ٢١ ۙ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو : عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا وقال آخر : وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر : فکوني له کالسّمن ربّت بالأدم والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الحجر/ 2] . ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔ رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١) اس سے اہل مکہ اور یہودی بھی مراد ہیں، اپنے اس رب کی توحید بیان کرو جس نے تمہیں نطفہ سے پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی پیدا کیا تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے غصہ اور عذاب سے بچ جاؤ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

سورة البقرۃ کے تیسرے رکوع میں قرآن کی دعوت کا خلاصہ آگیا ہے کہ قرآن اپنے مخاطب کو کیا ماننے کی دعوت دیتا ہے اور اس کی پکار کیا ہے۔ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں ‘ سورة البقرۃ کے نزول سے قبل دو تہائی قرآن نازل ہوچکا تھا۔ ترتیب مصحف کے اعتبار سے وہ قرآن بعد میں آئے گا ‘ لیکن ترتیب نزولی کے اعتبار سے وہ پس منظر میں موجود ہے۔ لہٰذا سورة البقرۃ کے پہلے دو ‘ رکوعوں میں مکی قرآن کے مباحث کا خلاصہ بیان کردیا گیا ہے اور تیسرے رکوع میں قرآن مجید کی دعوت کا خلاصہ اور لب لبابّ آگیا ہے ‘ جبکہ قرآن مجید کا فلسفہ اور بعض نہایت اہم موضوعات و مسائل کا خلاصہ چوتھے رکوع میں بیان ہوا ہے۔ اب ہم تیسرے رکوع کا مطالعہ کر رہے ہیں : آیت ٢١ (یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) یہ قرآن کی دعوت کا خلاصہ ہے اور یہی تمام انبیاء و رسل ( علیہ السلام) کی دعوت تھی۔ سورة الاعراف اور سورة ہود میں ایک ایک رسول کا نام لے کر اس کی دعوت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے : (یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ) ” اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارا کوئی اور الٰہ اس کے سوا نہیں ہے “۔ سورة الشعراء میں رسولوں کی دعوت کے ضمن میں باربار یہ الفاظ آئے ہیں : (فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ) ” پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو “۔ سورة نوح میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت ان الفاظ میں بیان ہوئی : (اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ ) ” کہ اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو ! “ پھر ازروئے قرآن یہی عبادتِ رب انسان کی غایت تخلیق ہے : (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ الاَّ لِیَعْبُدُوْنِ ) (الذّٰریٰت) ” اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی صرف اس لیے کیا ہے کہ ہماری بندگی کریں “۔ چناچہ تمام رسولوں کی دعوت یہی ” عبادتِ ربّ “ ہے اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت بھی یہی ہے ‘ لیکن یہاں ایک بہت بڑا فرق واقع ہوگیا ہے۔ وہ یہ کہ باقی تمام رسولوں کی دعوت کے ضمن میں صیغۂ خطاب ” یٰقَوْمِ “ ہے۔ یعنی ” اے میری قوم کے لوگو ! “ جبکہ یہاں صیغۂ خطاب ہے : ” یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ “ یعنی ” اے بنی نوع انسان ! “ معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے تمام رسول ( علیہ السلام) صرف اپنی اپنی قوموں کی طرف آئے ‘ جبکہ پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے آخری اور کامل رسول ہیں جن کی دعوت آفاقی ہے۔ عام طور پر لوگ جو غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں اس پر اس دلیل سے جمے رہتے ہیں کہ ہمارے آباء و اَجداد کا راستہ یہی تھا۔ (الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ ) کے الفاظ میں اس دلیل کا ردّ بھی موجود ہے کہ جیسے تم مخلوق ہو ویسے ہی تمہارے آباء و اجداد بھی مخلوق تھے ‘ جیسے تم خطا کرسکتے ہو اسی طرح وہ بھی تو خطا کرسکتے تھے۔ لہٰذا یہ نہ دیکھو کہ آباء و اجداد کا راستہ کیا تھا ‘ بلکہ یہ دیکھو کہ حق کیا ہے۔ ( لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) ” تاکہ تم بچ سکو “۔ یعنی دنیا میں افراط وتفریط کے دھکوں سے بچ سکو اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچ سکو۔ ان دونوں سے اگر بچنا ہے تو اللہ کی بندگی کی روش اختیار کرو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21. Even though the message of the Qur'an is addressed to all, benefiting from it depends on ones willingness and on God's succour in relation to that willingness. This is why the Qur'an first explained which kind of people can and which kind of people cannot benefit from the Qur'an. As this has been explained in the foregoing verses, the quintessence of the message to which the Qur'an invites all mankind is now put forth. 22. So that you are saved from false beliefs and unrighteous conduct in this life, and from the punishment of God in the Next.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :21 اگرچہ قرآن کی دعوت تمام انسانوں کے لیے عام ہے ، مگر اس دعوت سے فائدہ اُٹھانا یا نہ اُٹھانا لوگوں کی اپنی آمادگی پر اور اس آمادگی کے مطابق اللہ کی توفیق پر منحصر ہے ۔ لہٰذا پہلے انسانوں کے درمیان فرق کر کے واضح کر دیا گیا کہ کس قسم کے لوگ اس کتاب کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھاسکتے ہیں اور کس قسم کے نہیں اُٹھا سکتے ۔ اس کے بعد اب تمام نوعِ انسانی کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جاتی ہے ، جس کی طرف بُلانے کے لیے قرآن آیا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :22 یعنی دنیا میں غلط بینی و غلط کاری سے اور آخرت میں خدا کے عذاب سے بچنے کی توقع ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(21 ۔ 22): حاصل یہ ہے کہ جب خالق رازق وہی ایک ذات وحدہٗ لا شریک ہے تو اس کو چھوڑ کر دوسرے کو پوجنا اس کی تعظیم اور عبادت میں دوسرے کو شریک کرنا بڑی نادانی اور ناشکرگذاری ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی نافرمانی اور گناہ دنیا میں نہیں ہے صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے اس کی تعظیم اور عبادت میں کسی کو شریک کرنا اس سے بڑھ کر کوئی گناہ دنیا میں نہیں ہے ١۔ اسی واسطے اللہ چاہے تو اور گناہوں کو بغیر توبہ کے معاف کر دیوے لیکن شرک بغیر خالص توبہ اور بغیر خالص عبادت الٰہی کے ہرگز نہیں معاف ہوسکتا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن مسعود اور سلف نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مکہ کے بت پرستوں منافقوں اور اہل کتاب سب کو ملا کر خالص عبادت الٰہی کی اور جس خالص توحید الٰہی کی ترغیب نبی آخر الزماں دلاتے تھے اس کے اتباع کی تاکید ان سب کو فرمائی ہے { وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ } سے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ ذرا غور کریں تو ان کو خود معلوم ہوجاوے گا کہ انسان اور اس کی راحت کا سامان سب کچھ جب خدا تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے تو خالص اس کی بندگی کو لازم ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:21) اعبدوا فعل امر، جمع مذکر حاضر، عبادۃ وعبودۃ مصدر (باب نصر) تم بندگی کرو، تم عبادت کرو ۔ لعلکم۔ لعل کی اصل وضع امید یا اندیشہ کے لئے ہے لیکن جس چیز کی امید کی جائے اس کا ممکن ہونا ضروری ہے۔ اسی لئے لعل الشباب یعود۔ کہنا غلط ہے کیونکہ جوانی کا لوٹنا ممکن نہیں۔ قرآن مجید میں فرعون کا جو قول لعلی ابلغ الاسباب ۔ (شاید میں آسمانی اسباب تک پہنچ جاؤں) آیا ہے۔ (حالانکہ اس کا آسمان تک پہنچانا ممکن تھا) اس کی یہ وجوہات دی گئی ہیں۔ (1) اس کی جہالت کہ وہ جانتا ہی نہ تھا کہ آسمان کہاں ہے اور یہ کہ اس کا وہاں تک پہنچانا ممکن ہے۔ (2) فرعون اہل دربار کو دھوکہ دینا چاہتا تھا۔ وہ فریب کے ساتھ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ اس کے لئے آسمان تک پہنچنا، ممکن ہے۔ اگرچہ لعل امید اور اندیشہ کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے لیکن جب اس کا استعمال اللہ تعالیٰ کے لئے ہو تو اس کے معنی میں قطعیت آجاتی ہے۔ کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشہ کے معنی مراد لینا صحیح نہیں۔ لعلکم : شاید کہ تم۔ امید ہے کہ تم۔ تتقون۔ مضارع جمع مذکر حاضر، اتقاء (افتعال) مصدر۔ تم بچتے ہو۔ تم پرہیز کرتے ہو، تم پرہیزگار ہوتے ہو۔ لعلکم تتقون ۔ شاید کہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یہاں تک تو تمہید تھی کہ قرآن جو ہدایت کا اصلی سر چشمہ ہے اسے ماننے اور نہ ماننے کے اعتبار سے تین قسم کے لوگ ہیں اب آگے بنی نوع انسان کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جا رہی ہے جو قرآنی دعوت کا حقیق نصب الیعن ہے اور جس کے لیے کتابوں کی تنزیل اور انبیاء کی بعثت کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہ ہے دعوت الہی التو حید یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور اس کی عبادت اور دعا میں کسی کو شریک نہ سمجھنا۔ 8 حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اعبدوا کے معنی ہیں وحدوا یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک مانو اور شرک سے بچو۔ (ابن کثیر) جب آیت سے مقصد یہی ہے تو خلق کا ذکر تو محض اقامت حجت کے طور پر ہے یعنی جس اللہ کو خالق کائنات مانتے ہو اور اس کا امور تکوینی پر تصرف اور اختیار تسلیم کرتے ہو عبادت بھی اسی کی کرو اور حاجت کے لی دعا بھی اسی ایک سے مانگو۔ ابن کثیر۔ فتح القدیر ) 9 اس کا تعلق اعبدوا سے ہے یعنی توحید کا عقیدہ اختیار کر لوگے تو یقینا تمہارے اندر تقوی پیدا ہوجائے گا۔ قرآن میں لعل کا اعتبار عموما یقین کے معنوں میں ہوا ہے۔ ( المنار)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 21 29 اسرارو معارف تفسیر : دنیا میں صرف دو قومیں ہیں : یا ایھا الناس اعبدوار بکم…وانتم تعلمون۔ ایمان وکفر کا فرق اور مومن کے اوصاف اور کافر کی عادات ارشاد فرما کر پوری آبادی میں صرف دو قومیں مقرر فرمائی ہیں۔ ایک مومن دوسری کافر جو محض دعویٰ کرنے سے نہیں بن سکتا بلکہ ایمان اور کفر کا معیار بھی ارشاد ہوا اور ایمان کا دعویٰ کرنے والے ان کافروں کی نشاندہی بھی فرما دی گئی جو عقائد تو کفر یہ رکھتے ہیں مگر مدعی اسلام کے ہیں ۔ ان کی حرکات فساد کا سبب ہیں جس کو وہ اصلاح کا نام دیتے ہیں یہ کفر ہی کی خطرناک تر قسم ہے کوئی تیسری قوم نہیں جب حق و باطل واضح ہوگیا تو اب صلائے عام ہے ساری نوع انسانی کو کہ سب طرح کی غلط روشیں چھوڑ کر حق کو اپنائو اور اس ہستی کی عبادت کرو ، یعنی اس کی اطاعت اختیار کرو جو تمہارا رب ہے۔ رب اس کو کہتے ہیں جو سب ضرورتمندوں کی تمام حاجات ہر وقت اور ہر جگہ پوری کررہا ہو اور بتدریج ہر شے کو اس کے کمال کی طرف لے جارہا ہو۔ عبادت کی حقیقت اطاعت ہے اور اطاعت کے لئے بنیادی جذبہ جلب منفت ہے یا پھر دوسرے درجے میں دفع ضرر اعمال انسانی کا محرک یہی جذبہ ہے دنیا میں کوئی شخص کوئی کام اس امید کے بغیر ہیں کرتا کہ اس کے کرنے سے فلاں طرح کا نفع حاصل کروں گا۔ جہاں یا جس ہستی سے اس کی امید وابستہ ہوگی وہیں اس کا سر تسلیم خم ہوگا۔ اگرچہ اللہ کریم اپنی ذات میں ایسا ہے کہ ہر حال میں عبادت کا مستحق اور معبود حقیقی ہے مگر یہ بات عام عقول سے بالاتر ہے لہٰذا دعوت عبادت کا سبب اس کی ربوبیت کو رکھا اور فرمایا اپنے رب کی عبادت کرو کہ وہ تمہارا خالق ہے اور تمہارے آبائو اجداد کا خالق ہے جب تخلیق اس کی ہے تو اس کی بقاء کا ذمہ دار بھی رہی ہے یہاں خالقیت کی دلیل ربوبیت بنایا ہے کہ جب پیدا اس نے کیا ہے تم کو تمہارے آبائو اجداد کو یا تم سے پہلے کی ساری مخلوق کو ، جن ہوں یا فرشتے جو کوئی بھی تم سے پہلے ہے سب اس کی مخلوق ہے۔ نیز من قبلکم سے یہ بھی واضح ہوا کہ امت آخری امت ہے پہلوں کا ذکر فرمایا مگر بعد والوں کے بارے میں اشارہ تک نہیں ملتا کہ اس کے بعد کوئی امت ہی نہیں۔ اس کی اکیلی ذات خالق ہے باقی سب مخلوق۔ اور مخلوق خود اپنی بقا میں محتاج ہوا کرتی ہے لہٰذا وہ تور ربوبیت کی یا دوسروں کی باقی رکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی تو لا محالہ وہی رب ہے اور رہی تمہاری بات تو تمہیں اس کی عظمت کا احساس اور ان کی ذات کی معرفت کا شمہ تب ہی نصیب ہوگا جب تم اس کی اطاعت اختیار کرو گے۔ لعلکم تتقون ، تاکہ تم متقی بن جائو تقویٰ کا ترجمہ ڈر بھی کیا جاتا ہے جو موقع کی مناسبت سے درست ہے مگر یہاں تقویٰ سے مراد ، دلی کیفیت ہے وہ جذبہ ہے جو صدق دل سے اطاعت الٰہی پر کار بند کردے اور اللہ کی ناراضگی انسان کے لئے ناقابل برداشت ہوجائے۔ انسان کی فضیلت کا سبب معرفت الٰہی ہے : انسان کو یہ استعداد اور قوت دی گئی ہے کہ وہ اللہ کی معرفت اختیار کرے ، باقی ساری مخلوق جو تکوینی طور پر اللہ کی اطاعت کررہی ہے اسے یہ استعداد نصیب نہیں ، سورج ہو یا چاند زمین ہو یا موسم اور ہوائیں حتیٰ کہ کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کی اطاعت پر کمر بستہ ہے مگر اطاعت صرف حکم کی کرتے ہیں حکم دیئے جاتے ہیں اور وہ بجا لاتے ہیں ان کے پاس سوائے تعمیل ارشاد کے چارہ نہیں مگر اس کے باوجود حاکم کیسا ہے اور اس کی صفات کیسی کامل اس کی ذات کیسی جمیل اور مصدر حسن و کمال ہے یہ وہ نہیں جانتے اور نہ انہیں اس کے جاننے کی طاقت ہی ملی ہے۔ یہ استعداد نبوت سے تعلق رکھتی ہے جس سے صرف انسانیت کو سرفراز فرمایا گیا ہے۔ انسان کی ذات دو حصوں میں منقسم ہے ایک میں تو اس کا حال ان سے مختلف نہیں مثلاً پیدا ہونا ، مرنا ، صحت وبیماری ، قد کاٹھ ، شکل و صورت فرمایا دہ ہونا ، امیری و غریبی یہ سب چیزیں اس کے بس میں نہیں۔ ان کے ساتھ یہ بھی تقدیر کے دھارے میں بہتا رہتا ہے مگر اس سب کے ساتھ اسے ایک خاص ذوق جمال ودیعت ہوا ہے اور اس کی تکمیل کے لئے مختلف اشیاء کو حاصل کرنے کا اختیار بھی مکان ، لباس اور غذا تک میں اس کا یہ جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ جہاں اس کے سامنے دنیا کا حسن بکھیر دیا ہے وہاں اسے معرفت ذات کی استعداد بھی دی ہے اگر یہ اس کو کھو دے تو اس کی ساری طلب دنیا کے حسن کو پانے میں صرف ہوتی ہے لیکن اگر یہ اس نقصان سے بچ جائے اور اسے کوئی شمہ معرفت باری کا نصیب ہو تو پھر سارے جہان کے حسن کو اس پہ نثار کردیتا ہے اس حالت کو اس شعر نے خوب بیان کیا ہے۔ ؎ رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یوں کہتے ہیں ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے اگر یہ پروانہ شمع دنیا پر قربان ہونے سے پیشتر رخ روشن کو دیکھ پائے جس کی استعداد اس میں رکھی گئی ہے تو پھر کبھی اس طرف سے نہیں پھرتا یہی اس کا مطلب ہے کہ العنافی ذرۃ اور یہ جذبہ جو اسے ہر حال جمال باری پہ قربان ہونے کو بےقرار کئے رکھتا ہے اس کو تقویٰ کہا گیا ہے اس کے حصول کا سبب اللہ کی عبادت کو قرار دیا ہے کہ اللہ کی ذات شعور وادراک کی وسعتوں سے بالاتر ہے اور کمند خیال کی رسائی سے باہر آنکھیں اس کو دیکھنے کی تاپ نہیں رکھتیں اور کسی چیز سے اس کی مثال دینا ممکن نہیں تو پھر اس کو پالینے کا طریقہ کیا ہے۔ یہی اس کی عبادت اور اطاعت کا واحد راستہ ہے جو جبین اس کی چوکھٹ پر جھکتی ہے وہ اس کے نور سے منور ہوجاتی ہے اور جو دل اس پہ نثار ہوتے ہیں اس کی تجلیات کے مہبط بن جاتے ہیں۔ نیز یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ معرفت کا مدار عبادت پر ہے کہ اور کوئی راستہ نہیں یہی اس کے حصوں کا سبب بھی ہے اور اگر شمہ معرفت کا نصیب ہوجائے تو یہی عبادت اس کا ماحصل بھی ہے کہ پھر سر اٹھانے کو جی نہیں چاہتا اگر کوئی عملاً اطاعت نہیں کرتا یا اپنی مرضی سے عبادات ایجاد کرتا ہے اور مدعی معرفت بھی تو اس کا اعتبار نہیں۔ یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ عبادات سے اگر واقعی معرفت ہو تب عبادت کی صحت کا اعتبار ، ورنہ اسکی صحت مشکوک رہے گی اور اگر معرفت نصیب ہوتی تو پھر مزید عبادت پہ مجبور کردے گی اور وقتی لذائذ اور عارضی کمالات کی طلب نہ رہے گی۔ اور نہ کشف و کرامات کا شوق اگرچہ یہ کمالات اس سے از خود حاصل ہوجاتے ہیں مگر یہ مقصود نہیں رہتے۔ یہ بھی بڑی کٹھن راہ ہے کہ بعض طالبوں کو جب کشف نصیب ہوتا ہے تو وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم نے منزل پالی اور ذوق عبادت کم ہوجاتے ہیں جو ان کی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے اور بعض تو اس میں اس قدر مبتلا ہوتے ہیں کہ بالآخر یہ کچھ بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ سالک کہ یہاں بہت زیادہ محتاط ہونا چاہیے اور کسی اللہ کے سوا کسی چیز پر مطمئن نہ ہونا چاہیے کہ سب راستے کے روڑے ہیں۔ اللھم رزقنا حبک وحب حبیک۔ امین الذی جعل لکم الرضا فراشا۔ وہ ایسا قادر ہے کہ زمین کو تمہارے لئے جائے آراز بنا دیا کہ باوجود اپنی کردی صورت کے ہر جگہ پہ کسی کے لئے سیدھی ہے اور سب کے بسنے کے پورے لوازمات لئے ہوئے ہے کھودو تو سوئی سے کھود سکتے ہو ایسی نرم ہے اور ایسی سخت کہ بڑے بڑے قلعے اٹھا کر کھڑ ہے دبنے کا نام نہیں لیتی۔ امین ایسی کہ ہر متنفس کو اس کا حصہ دے رہی ہے پہلوں کو پچھلوں کا حق نہیں دیتی۔ اور نہ ان کا چھین کر بعد والوں کے لئے رکھتی ہے خزانوں سے پہلے معمور اور آب حیات اس کی رگوں میں جاری ۔ فراش بچھونا یعنی جائے آرام ہے غذا دوا ، لباس ، مکان ہر ضرورت کی شے سے آراستہ ، مگر یاد رہے کہ بچھونا ہے یہاں چندے آرام کرکے اٹھ کر کام پہ بھی جانا ہے۔ یہ مستقل رہائش کی جگہ نہیں بلکہ سستانے کی جا ہے۔ آسمان کو چھت بنایا جو ساری دنیا کو سایہ فگن ہے مگر دنیا کے سہاروں سے بےنیاز ہیں جس سے سب مستفید ہو رہے ہیں مگر جس کی تعمیر یا مرمت کی کسی کو فکر نہیں ، جو سب کو دے رہا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے ذمے لگایا ہے مگر لیتا کسی سے کچھ نہیں۔ ایک ایسی چھت ، جو دم تعمیر سے قیامت تک ایستادہ ہے نہ دیواروں کی ضرورت نہ ستونوں کی احتیاج اور آسمانوں سے پانی اتارا۔ ایسا قادر ہے کہ پانی کو فضا میں یوں پھیلادیتا ہے جیسے چادر تنی ہو اور بادلوں کو ہوائیں گود میں لئے پھرتی ہیں مگر جب برستے ہیں تو جل تھل کردیتے ہیں۔ پانی ندیوں ، نالوں اور دریائوں سے اچھل اچھل کر باہر نکل پڑتا ہے۔ یہ اللہ ہی کی قدرت ہے کہ اسے ہوا میں معلق رکھا۔ محاورۃ اوپر سے آنے والی شے کو آسمان سے آنا کہہ دیا جاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اصل میں نزول ماء آسمان سے ہوا ہو۔ پھر صرف پانی کے رہنے میں کمال نہیں بلکہ اس کے زمین پر آنے سے گہائے رنگا رنگ کا ظہور ہوتا ہے فصلیں اگتی اور میوے پکتے ہیں ، بےرنگ وبے ذائقہ پانی طرح طرح کے رنگ اور ذائقے بکھیر دیتا ہے اور تمہاری غذاب کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے غرض تمہاری ذات کی تخلیق اور تمہارے سارے کمالات کی عطا زمین کی پیدائش اور اس کی خصوصیات آسمان کی بناوٹ اور اس کے سارے کمال پانی کا برسنا اور اس کے تمام اثرات یہ سب کیا ہے ؟ اللہ کی قدرت کاملہ کا ظہور ہے اور اس کی عظمت کی نشانیاں ہیں اور کمالات و انعامات خواہ انسان کی ذات میں ہوں جنہیں نفسی کہا جائے گا خواہ اس کے لرگد پیش جو آفاقی کہلائیں گے سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ اس کے سوا کوئی ہے جو شکم مادور ہی میں خون اور غلاظت میں انسانی صورتیں تخلیق کررہا ہے کس نے زمین بنائی آسمان کس کی صنعت ہے۔ اور کون پانی برسا کر ہریالی تقسیم کر را ہے ۔ اللہ اس کے سوا کوئی نہیں تو کیا تو اس کی اطاعت چھوڑ دے گا اور بادلوں ، پہاڑوں ، درختوں اور پتھروں کو پوجنے لگ جائے گا۔ اگر تو ان اسباب کے پیچھے بھاگا تو پھر یہ اس کثرت سے ہیں کہ تو سب کی پوجا نہیں کرسکے گا اور تجھے اس پوجا سے کچھ حاصل بھی نہ ہوگا کہ یہ سب کچھ خود اپنی ذات میں اللہ کا محتاج ہے۔ لہٰذا اللہ کا مقابل کسی کو نہ بنائو کہ اللہ کی عبادت میں کسی اور کو بھی شریک کر بیٹھو جبکہ یہ جملہ حقائق تم اچھی طرح جانتے بھی ہو اور خوب علم رکھتے ہو کہ یہ روز مرہ کی نشانیاں اسی پہ دلالت کررہی ہیں دراصل اسلام نام ہی توحید باری کا ہے اس کو ماننے کا ہے اس کے کمالات پر یقین رکھنے کا ہے اور دنیا میں امن و سکون کو پانے کا واحد راستہ بھی یہی ہے کہ کوئی بھی انقلاب انسان پر مایوسی طاری نہ کرسکے بلکہ ہر انقلاب میں اللہ کی عظمت کا نشان نظر آئے اور کبھی غیر اللہ یہ امید ہی قائم نہ ہو کہ پھر ناامیدی کا مقابلہ کرنا پڑے۔ ہمیشہ سے امیدوں کا مرکز ایک ذات ہو ۔ جب یہ حال حاصل ہوجائے تو پھر پائوں کی ٹھوکروں سے پہاڑ ہلائے جاسکتے ہیں کہ تائید باری شامل حال ہوتی ہے اور اگر اللہ سے تعلق استوار نہ ہو تو کسی بھی حالت میں آرام نصیب نہیں ہوتا۔ شاہ ہو یا گدا بےچینی اس کا مقدر ہے مگر اس توحید کی نشاندہی کس نے کی انسان کو اللہ کی عظمت سے کس نے روشناس کرایا ، وہ کون ہے ؟ جس نے انسانوں کو غیر اللہ کی پرستش سے نجات دلائی اور ان کی پیشانیوں کو خدائے واحد کے نور سے منور کردیا اور اس کے پاس کون سا نسخہ کیمیا تھا جس نے مس خام کو کندن بنادیا وہ ہستی ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نسخہ کیمیا ہے قرآن مجید۔ اب اگر کسی کے دل میں یہ بات ہو یا آئے کہ معاذ اللہ بیشمار لوگوں نے مذہب ایجاد کئے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان میں سے ایک ہوں گے اور چند عبادات کو ترتیب دے کر مذہب کا تانا بانا بن لیا ہے تو آئو اسی پر بات ہوجائے کہ اگر یہ کلام جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیش فرمایا ہے انسانی ہے تو تم بھی انسان ہو اسی طرح کا کلام بنا کر پیش کرو۔ سارا قرآن نہ سہی اس کی کسی چھوٹی سے چھوٹی سورت کے مقابل بنا لائو اکیلے نہ سہی کہ مبادایہ کہہ دو کہ اگر ہم پیش نہ کرسکیں تو دنیا میں ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو یہ کام کردکھائیں تو بھئی ! اللہ کے سوا جسے چاہو بلا لو اور سب مل کر اس کی نظیر تو پیش کرو۔ عرب کا ماحول ایسا تھا کہ سینہ صحرا میں چند بستیاں جہاں کالج نہ سکول ، بلکہ اونٹ اور بکریاں چرانا ان کا پیشہ ، مگر اس کے باوجود قدرتی طور پر فصاحت ، بلاغت ، اللہ نے ایسی عطافر مائی کہ ادنیٰ سے ادنیٰ لوگ ایسے حالی اشعار و مضامین کہہ جاتے تھے کہ دنیا کے ادیب حیران رہ جاتے ، ان ہی میں ایک ہستی جو ایک عالی خاندان میں پیدا ہوئی مگر یتیم جس نے کم عمری ہی میں والدہ ماجدہ کی مفارقت بھی دیکھی اور پھر دادا کی جدائی برداشت کی دنیاوی اعتبار سے نہایت حسرت میں بچپن گزرار اور کسی علمی مجلس یا شعروشاعری کی محفل میں کبھی شرکت نہ فرمائی بلکہ جسخاندان میں بچپن بسر فرمایا وہ بکریاں چراتے تھے اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہوش سنبھالا تو اپنے غریب چچا ابو طالب کی عیالداری دیکھ کر ان کی مدد کے لئے اجرت پر بکریاں چراتے تھے نہ کبھی کوئی شعرکہا نہ قصیدہ لکھا بلکہ قدرتی طور پر ایسا مزاج ودیعت ہوا تھا کہ کبھی ان چیزوں کی طرف مائل ہی نہ ہوئے۔ ہاں امی محض ہونے کے ساتھ وہ اخلاق فاضلہ اور دیانت وامانت کے ساتھ وہ فہم و فراست کہ ذات اقدس سب کے لئے باعث تعلیم اور صادق وامین کہلائی۔ اس طرح قوم کے ساتھ چالیس برس بسر کرنے کے بعد ، وہی ہستی ایسا کلام پیش فرمانے لگی جس کی فصاحت وبلاغت اور معنوی عظمت کے سامنے سب شعراء وادبار کے کلام دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ پھر اس کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذاتی شرافت اور صداقت ہی ایمان لانے کے لئے کافی تھی جیسا کہ ولید ابن مغیرہ (رض) نے اہل مکہ کے ایک اجلاس میں کہا تھا ، جو شخص چالیس برس تک کسی انسان پر جھوٹ نہیں بولتا وہ یکایک اللہ پر جھوٹ بولنا شروع کردے یہ بات عقل تسلیم نہیں کرتی اس کے باوجود اگر تمہیں اس کے کلام الٰہی ہونے کا شبہ ہے تو ، وان کنتم فی ریب ممانزلنا علی عبدنا……………اعات للکفرین۔ اس کے چھوٹے سے چھوٹے ٹکڑے کے مقابل کلا م پیش کرو اور سارے مل کر لائو جس میں یہ فصاحت وبلاغت بھی ہو جس میں پوری انسانی تہذیب بھی ہو جس میں سیاست و حکومت کی راہنمائی بھی ہو جس میں معاشرت اور تجارت بھی ہو ، خاندانی تعلقات سے بحث بھی ہو اور دوستی دشمنی کا معیار بھی۔ قرآن کریم نے وسیع مضامین چند لفظوں میں سمو دیئے ہیں اور پھر الفاظ کی بندش اور عبارات کی روانی ، اس سے بہتر کی بات ہی چھوڑو تم اس طرح کا اس کے مقابل کا کلام ہی پیش کرو ، اور اللہ کے سوا جس کو چاہو مدد کے لئے بلالو لیکن یادر کھو کہ اگر ساری دنیا مل کر بھی اس کی نظیر پیش نہ کرسکے جو یقینا پیش نہ کرسکے گی تو یہ کلام الٰہی ہے۔ اگر کسی انسانی ذہن نے اسے جمع کیا ہوتا تو یقینا دنیا کے اور انسان بھی اس کا مقابلہ کرتے ممکن ہے اس جیسا یا اس سے بہتر مضمون کہہ لیتے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے نہ ہوسکتا ہے کہ تخلیق باری اور صنعت انسانی میں بہت بڑا فرق ہے۔ انسان جیٹ طیارے تو بنا سکتا ہے مگر مجھی نہیں بنا سکتا۔ وہ اللہ پیدا کرسکتا ہے بلکہ گھاس کا ایک تنکا قدرتی طور پر اگ سکتا ہے کوئی مشین ان خصوصیات کا حامل نہیں بنا سکتی۔ جب صنعت میں یہ فرق ہے تو قرآن کریم تو اوصاف باری میں سے ہے۔ اور الل ہکا ذاتی کلام ہے غیر مخلوق ہے کہ جس طرح کی ذات قدیم ہے اسی طرح اس کا جملہ صفات بھی قدیم ہیں اس کے مقابلے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دنیا کی بڑی بڑی کتابیں کس یایک مضمون کو مکمل بیان نہیں کرپاتیں حالانکہ سب صرف انسانی پیدائش سے لے کر موت تک کی بات کرتے ہیں ۔ ان کے مقابل قرآن کریم جو قبل از پیدائش بلکہ اس کار گہ حیات کی تخلیق سے بھی قبل کی بات ارشاد فرماتا ہے اور پھر اس عالم کی پیدائش ، انسان کی پیدائش ، اس کی ضروریات ، ان کے پیدا کرنے کے طریقے اور تمدن و معاشرت سے بحث کرتا ہوا موت اور مابعد الموت کے حقائق بیان کرتا چلا جاتا ہے اور اس مختصر سی دنیاوی زندگی کو آخرت کی اس ابدی زندگی کی بنیاد کے طور پر ذکر کرتا ہے جس کا بیان صرف اور صرف اللہ کی کتاب کو ہی زیبا ہے پھر اس کے ساتھ دنیا میں انسانی عقول نے بیشمار ڈھنگ اپنائے اور طرح طرح کے طرز حیات اختیار کئے مگر ہے کوئی جو مثالی معاشرہ پیش کرسکے جو تعلیمات قرآنی پر عمل کرنے سے ظہور پذیر ہوا تھا۔ یہ صرف حکایت نہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے دشمنان اسلام بھی تسلیم کرنے کے سو ا کوئی راہ نہیں پاتے۔ پھر تہذیب ایک وقت کی ضرورت ہے جب وقت گزرتا ہے ضرورتوں میں تبدیلی آجاتی ہے تو تہذیبیں بھی بگڑتی چلی جاتی ہیں۔ انسان کا بنایا ہوا کوئی قانون ہمیشہ کے لئے کارآمد نہیں رہ سکتا بلکہ وہی قانون ساز ادارے یا افراد ، جو خود اس کو بناتے ہیں پھر اس میں تبدیلیاں لانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ قرآنی قوانین اور اس کی ارشاد کردہ تہذیب ابدی ہے نہ جغرافیائی حدود کی پابند ہے نہ مردار زمانہ سے متاثر ہوتی ہے بلکہ ہمیشہ ہر دور میں اور ہر ملک میں ہر قوم کے لئے یکساں مفید اور قابل عمل ہے صرف یہی نہیں بلکہ آپ کے کسی معاشرے میں جہاں کوئی خوبی نظر آئے گی ذرا غور کرنے سے پتہ چل جائے گا کہ اس امر میں ان کا طریق کار وہی ہے جو قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا ہے اس کے اصول اس قدر عظیم ہیں کہ اگر کافر بھی اپنا لے تو آخرت میں ایمان نہ ہونے کی وجہ سے محروم ہے مگر دنیاوی فوائد سے محروم نہیں رتا۔ پھر اس کے ساتھ گزشتہ تاریخی واقعات کا جو صرف بڑے بڑے علماء یہود ونصاریٰ ہی سے مل سکتے تھے ایک ایسی ہستی نے ارشاد فرمائے جس نے دنیا کے کسی مدرسہ میں قدم مبارک نہ رکھا تھا اور اس قدر درست ارشاد فرمائے کہ ان کی واقعی صورت آنکھوں میں پھر گئی۔ چلو ، یہ تو گزشتہ کی بات تھی آئندہ کی خبریں دیکھ لو کس قدر صحیح اور سچ ثابت ہوئیں مثلاً رومیوں کی شکست جو بظاہر ایسی تھی کہ اب کبھی سر نہ اٹھا سکیں گے مگر قرآن کریم نے خبر دی کہ یہ چند سالوں کی بات ہے پھر ان کو غلبہ ہوگا اس وقت یہ اس قدر محال نظر آتا تھا کہ کفار نے شرطیں لگائیں مگر ایسا ہو کر رہا۔ صلح حدیبیہ کے وقت فتح قریب کی بشارت کہ مکہ بھی فتح ہو کر رہے گا اور انشاء اللہ مومنین حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت میں بےخوف وخطر عمرہ ادا کریں گے نہ صرف یہ بلکہ اس سے پیشتر ایک اور بہت بڑی فتح نصیب ہوگی ، چودہ پندرہ سو افراد پر مشتمل ایک لشکر جسے اہل مکہ عمرہ کرنے سے مانع ہیں ان سے صلح کرکے بغیر عمرہ کئے واپس ہورہا ہے اور بظاہر ایسی شرائط صلح طے پائی ہیں کہ کفار پھولے نہیں سمائے اور مسلمان غمزدہ ہیں مگر قرآن نازل ہوتا ہے تو اسے فتح عظیم اور فتح مکہ کا پیش خیمہ قرار دے کر اور بڑی فتح کی بشارت دے رہا ہے اور چشم فلک نے دیکھا کہ حدیبیہ سے واپس آنے والا لشکر خیبر کو رواں ہے اور یہود کے قلعہ بند لشکروں کو تہ تیغ کرتا اور قلعوں کو روندتا ہوا اللہ کی عطا کردہ فتح پر سجدہ شکر ادا کررہا ہے اور اس کے بعد فتح مکہ کا نظارہ کرلو اور قرآن کریم کی پیشگوئیوں کی صداقت دیکھ لو پھر کتنی ایسی خبریں قرآن کریم نے دیں جو لوگوں کے دلوں میں پوشیدہ تھیں اور جن کا بعد میں ان لوگوں نے اقرار کیا اور پھر اس کی بیان میں نہ آسکنے والی ایک خاص لذت جو اس کے پڑھنے اور سننے سے نہ صرف مومن ہی کو نصیب ہوتی ہے بلکہ کفار کو بھی مسحور کردیتی ہے۔ اس کے علوم ومعارف جن کا احاطہ نہ آج تک ہوسکا اور نہ آئندہ کسی سے اس کا امکان ہے اپنے مختصر سے حجم میں کس قدراسرار رموز رکھتا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے پھر ایسے دعا دی کہ بظاہر جن کام پر یہ لوگ اختیار رکھتے ہوں اس کے بارے میں اعلان کہ یہ لوگ نہ کرسکیں گے جیسے یہود کو دعوت کہ ذرا موت کی تمنا کرکے دیکھو مگر تم کبھی ایسا نہ کرو گے اور پھر باجود انتہائی دشمنی کے وہ اس بارے میں قرآن کو نہ جھٹلا سکے یا اس کی حفاظت کا ذمہ کہ اللہ خود اس کا حافظ ہے اور اس کے دعوے کی صداقت خود قرآن موجود ہے میں ایک زبر یا زیر بھی سارا جہاں مل کر تبدیل نہ کرسکا بلکہ اللہ نے مومنین کے سینوں میں اس کی جگہ بنادی کوئی بڑے سے بڑا عالم اگر ذرا غلطی کر جائے تو بچے بھی پکڑ لیں گے کہ یہ لفظ ایسان نہیں بلکہ اس طرح سے ہے۔ ان تمام حقائق کے ساتھ یہ اعلان کہ تم سب مل کر اس کی کسی چھوٹی سی سورة کے مقابل لکھ نہیں سکتے کہ تم جو کہو گے وہ کلام انسان کا ہوگا اور یہ اللہ کا کلام ہے اور پھر سارا عرت اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہا حتیٰ کہ ممکن تھا کہ کوئی ایسی عبارت جو اس کی نظیر تو نہ ہوتی مگر وہ پیش کرکے یہ دعویٰ کردیتے کہ یہ اس کی نظیر ہے ایسا بھی نہ کرسکے اور نہ آج تک اللہ نے کسی کو اس کی بھی توفیق دی ہے کہ اگر کوئی ایسا واقعہ ہوتا تو کبھی بھی تاریخ سے ہٹایا نہ جاسکتا کہ جو لوگ جان ومال کو اسلام کے مٹانے پر صرف کر رہے ہیں ان کو چیلنج دیا گیا غیرت دلائی گئی۔ اگر ان کا ذرا بھی بس نہیں چلتا تو ضرور مقابلہ کرتے مگر وہ نہ کرسکے اور یہی نہیں بلکہ قرآن کا یہ دعویٰ اب بھی موجود ہے کہ دنیا کا کوئی شخص ایسا پاکیزہ اور انسانی مزاج کے مطابق ایک مکمل نظام پیش کرسکتا ہے جسے لوگ اپنے رواجات اور طریقے چھوڑ کر اپناتے چلے جائیں اور وہ تھوڑے عرصے میں دنیا پہ نافذ ہوجائے ہرگز نہیں ! تو پھر اس آگ سے ڈرو جس کی خبر اسی قرآن نے دی ہے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ایسے آدمی جو تعلیمات قرآنی کا انکار کریں جو تیار ہی انکار کرنے والوں کے لئے کی گئی ہے اور منکرین کے لئے آگ ہے تو ماننے والوں کو خوشخبری ہے۔ وبشرالذین امنوا…………وھم فیھا خلدون۔ کہ ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اقرار کیا توحید باری اور رسالت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور جنہوں نے اپنایا تعلیمات قرآن کو وعملوالصلحت ۔ یعنی قرآن کو اپنی عملی زندگی پہ نافذ کرلیا۔ وہ ایسے باغات میں ہوں گے جن کے تحت نہریں بہتی ہیں۔ یہاں ” تحت “ کا ترجمہ نیچے کیا جاتا ہے مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تحت سے تابع مراد ہے۔ من تحتھا کا مفہوم : دنیا میں جیسے باغ نہریں کے تابع ہیں یعنی باغ وہاں لگائے جاتے ہیں جہاں نہر ہو جنت میں نہریں باغوں کے تابع ہوں گی اور جہاں باغ ہوں گے وہاں نہر کو ضرور پہنچنا پڑے گا۔ اس کی تائید اس حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے جس میں ارشاد ہے کہ جنتی کا چشمہ ایک جگہ سے بہہ رہا ہوگا۔ وہ اسے کہہ دے گا کہ اب اس طرف سے بہنا شروع کردو تو وہ اس طرف سے بہنے لگے گا۔ پھر ان باغوں سے انہیں پھل کھانے کو عطا ہوں گے بالکل ایسے ہی دیکھنے میں کہ وہ پہچان کر کہیں گے کہ یہ تو دنیا میں بھی ہمیں ملا تھا اور اس کی صورت میں بھی مشابہت ہوگی مگر لذت جداگانہ ہوگی اور پھر ان کو پاک عورتیں عطا ہوں گی ، پاک عورتوں سے مراد وہ پاک عورتیں بھی ہیں ، جن کی تخلیق ہی جنت میں ہوئی اور وہ مومن عورتیں جو جنت میں داخل ہوگی ، جو عورت کسی کے نکاح میں فوت ہوئی اگر مرد بھی جنتی ہے تو اس کے ساتھ ہوگی اور پھر بعض مرد مومن ہوں گے مگر عورت کافر یا بعض عورتیں جنت میں ہوں گی مگر مرد کافر ، با بعض غیر شادی شادہ جنت میں ہوں گی تو اللہ کریم ان کے آپس میں نکاح فرمائیں گے رہا پاکیزہ ہونا تو یہ جنت کے اوصاف میں سے ہوگا کہ وہاں نہ فضلہ ہوگا نہ تھوک نہ بینڈھ۔ اسی طرح نہ ہی عورت کسی قسم کی ناپاکی سے دوچار ہوگی اور نہ اخلاقی گندگی ناک کو ہوگی بلکہ ہر طرح سے پاک صورت کے عیوب سے پاک ، سیرت کے عیوب سے مبرا۔ جسمانی نقائص سے بالاتر اور ہر طرح کی ناپاکی سے دور ۔ گویا جب جسم جنت میں داخل ہوں گے تو جسمانی ضروریات سیمت جائیں گے کھانا پینا ، لباس ، مکان ، شادی سب کچھ ہوگا اور بہت حسین اور ہر طرح کی ناپاکی سے مبرا ہوگا۔ وہاں نہ نسل چلے گی اور نہ اس کی ضرورت اور تمام نعمتیں ابدی ہوں گی حتیٰ کہ سب جنتی وقت دخول جوان بنادیئے جائیں گے اور جوانی کو بھی خلو اور ہمیشگی ہوگی۔ ان سب لذات پر غالب لذت دیدار باری کی ہوگی جیسے دنیا میں والذین امنواشد حبا اللہ ، ارشاد ہے جنت اس کی مظہر ہوئی گویا تمنائوں کے پورے ہونے کا مقام جنت ہے۔ یہ پاک عورتیں مزاد اخلاق اور شکل و صورت میں ہر طرح سے پاکیزہ ہوں گی اور وہ وبال ہمیشہ رہیں گے یعنی جس قدر نعمتیں انسان چاہتا ہے کہ رہنے کہ بہترین ٹھکانہ ہو رزق کی فراونی ہو ، صحت اور تندرستی ہو اور بہترین رفیق حیات اور یہ سب چیزیں کسی ضائع نہ ہوں تو یہ حقیقتاً اس کے اندر جنت کے حصول کی طلب ہے جو ابدی زندگی کا خاصہ ہے اور اپنی عملی زندگی پہ نافذ بھی کرے۔ امنوا وعملو الصلحت اگر چہ صرف ماننا بھی ایک عمل صالح ہے مگر اپنی بساط تک اس پر عمل کرنا ہی اصل ماننا ہے اور بغیر عمل کے ماننا اگرچہ نہ ماننے سے بہتر ہے مگر ماننے کی ایک کمزور صورت۔ یہاں جنت دوزخ کا اجمال ذکر ہے اور قرآن کا وہ نظریہ کہ انسان لافانی ہے یہ حیات چند روزہ زندگی کی منازل میں سے ایک منزل ہے جو امتحان کا درجہ رکھتی ہے اور اخروی اور ابدی زندگی کا مدارس پر ہے اگر تم نے اللہ کی اطاعت کی تو یقینا فلاح پائو گے ورنہ بہت بڑا خسارہ ۔ اس اخروی زندگی کو بطور نتیجہ ہے ثابت کرنے کے لئے ہی مخلوق کی تخلیق سے بحث کی گئی ہے اور یہ ثابت کیا گای ہے کہ جب تم کوئی ایسا کام کرنا پسند نہیں کرتے جس کا نتیجہ نہ ہو تو بھلا اس ساری کائنات کا خالق ایسا کیوں کرے گا کہ معاذ اللہ ایک عبث کام کرے اور ایسا فعل جس کا کوئی نتیجہ نہ ہو اسے زیب نہیں دیتا تو نتیجہ کیا ہے کہ یہی کہ اطاعت کرنے والوں کو اپنا قرب بخشے گا جس کا مظہر جنت ہے اور نافرمان بھی اپنے کرتوتوں کے صلہ میں رحمت باری سے دور ہوں جس کا مظہر دوزخ ہے اور تخلیق کا ذکر تے ہوئے ادنیٰ سے ادنیٰ مخلوق بھی بحیثیت مخلوق کے قدرت باری پہ گواہ ہے ، بھلا اس میں کیا حرج ہے کہ مچھر اور مکھی کی مثال دی جائے۔ کفار سے جب قرآن کے اس دعویٰ کا کہ لائو ، اس کی مثل اگر لاسکتے ہو ، جواب نہ بن پڑا تو کہنے لگے ، اللہ کا کلام ہوتا تو مچھر اور مکھی جیسی ادنیٰ مخلوق کا ذکر کرنے کی ضرورت کیا تھی قرآن میں بتوں کی بےبسی اس طرح بیان ہوئی کہ ان سے اگر مکھی بھی کوئی شے چھین لے تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے چہ جائیکہ تمہاری حاجت براری کریں مکھی کے ذکر سے بتوں کا عجز بیان کرنا مقصود تھا ، مگر یار لوگوں نے بات نکالی کہ لو اور دیکھو مکھیوں تک کا ذکر ہے اور کہتے ہیں اللہ کا کلام ہے بھلا اللہ کو اس کی کیا ضرورت تھی۔ اگرچہ اعتراض بےمحل تھا مگر پھر بھی جواباً ارشاد ہوا کہ اللہ مکھی اور مچھر کے ذکر سے بھلا کیوں شرمائے ، اگرچہ اپنے حجم میں تو یہ چھوٹی سی مخلوق ہے مگر بلحاظ صنعت تو بہت بڑی صنعت ہے۔ اور اس کی قدرت پر گواہ اپنی زندگی گزارنے کے سارے اسلوب جانتی ہے مچھر اپنے لئے غذا حاصل کرتا ہے گھر بناتا ہے ، انڈے اور بچے پیدا کرتا ہے اپنی مرضی سے اڑتا اور بیٹھتا ہے اتنے ننھے سے جسم میں اس قدر سمجھ اور اتنے احساسات کو کس نے جمع کردیا ہے اس کے ایک ایک پر میں رگ وریشے اور ان کی کارکردگی دیکھو۔ مکھی کے ذرا سے سر میں تو دیکھو ، دو آنکھیں جن میں ایک میں تقریباً اٹھارہ ہزار آنکھ ہے کس کی قدرت پر گواہی دے رہی ہیں کون ہے جس نے مکھیوں کو شہد کا چھتہ بنانا سکھایا پھولوں سے رس لے کر شہد بنانا ، ملکہ کا انتخاب اور اس کی اطاعت میں رہنا یا اپنی نسل کو باقی رکھنے کی تدابیر کرنا سکھایا بھلا اس میں شرمندہ ہونے کی کیا بات ہے یہ تو خود عظمت باری پہ گواہ ہیں ، یہ دوسری بات ہے کہ قرآن کریم کے ارشادات ابررحمت کی مثل ہیں ، جیسے بارش یکساں نور و برکت لے کر نازل ہوتی ہے مگر جہاں اس کے سبب باغوں میں پھول کھلتے ہیں وہاں گندگی کے ڈھیروں سے عفونت بھی اٹھتی ہے ۔ اسی طرح قرآن سے مومنین تو راحت و سکون پاتے ہیں اور بدکاروں کو کچھ سجھائی نہیں دیتا بلکہ اور گمراہ ہوجاتے ہیں اسی گمراہی کا سبب ان کا فسق وفجور بنتا ہے ان کی بدکاری بنتی ہے۔ ایسے لوگ سے جو اللہ وعدہ کرکے توڑ دیتے ہیں کہ ازل سے وعدہ لیا گیا۔ انت بربکم قالوا بلیٰ ، بیشک تو ہی ہماری ہر طرح کی پرورش کرنے والا ہے مگر دنیا میں آکر وعدہ خلافی کی ، اللہ کی اطاعت چھوڑ کر غیر اللہ کے دروازے پر ماتھے رگڑ رہے ہیں یا پھر یہاں ایمان کا دعویٰ کرکے عملاً بدکاری اختیار کرتے ہیں تو یہ لوگ بھی بڑی حد تک اسی وعید کی زد میں ہیں اور جن باتوں کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں چھوڑتے ہیں جنہیں جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین پر فساد پیدا کردیتے ہیں ۔ اپنے خیال کے مطابق خواہ کوئی آجائے کہ وہ قیام امن کے لئے کوشاں ہے اگر اس کا عقیدہ خلاف اسلام ہے تو عقیدہ کا فساد پیدا کرنے والا ہے اور اگر عمل خلاف اسلام ہے تو عملی طور پر مفسد ہے۔ اس بات پر تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں اگر امن نصیب ہوا یا انسانیت نے چین کا سانس لیا تو صرف اور صرف اسلام کی گھنی چھائوں میں ، ورنہ لوگ ہر طرف بارود کو آگ دکھا کر امن قائم کر رہے ہیں گناہ صرف گنہگار کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ فاس کا فسق روئے زمین پر تباہی کا باعث بنتا ہے اور اس کی نحوست کی وجہ سے دنیا میں تباہی و بربادی بپا ہوتی ہے جس کے لئے وہ اپنے حصے کے مطابق جوابدہ ہے اور یہ سب کچھ کرکے وہ اپنا نقصان کر رہے ہیں کہ اللہ کی زمین پر فساد پھیلنے والے کبھی اللہ کی بارگاہ میں سرخرو نہیں ہوسکتے۔ فرمایا ، اے لوگو ! تم اللہ کی عظمت کا اس کی ذات اور صفات کا انکار کس طرح کرسکتے ہو ؟ یعنی کبھی نہیں کرسکتے کہ تم تھے ہی نہیں اس نے تمہیں عدم سے پیدا فرمایا۔ کیف تکفرون باللہ………ثم الیہ ترجعون۔ تم مُردہ تھے ، تخلیق کائنات کے بعد بھی بےجان ذرآت تھے مختلف اغذیہ میں تمہارا وجود منتشر تھا تمہارے وجود کے آبی جز دنیا کے پانیوں میں شامل تھے۔ غرضیکہ آگ ، مٹی ، ہوا اور پانی کے مختلف ذخائر میں تمہارا وجوددور دور تک منتشر اجزاء پر مشتمل تھا پھر اس کی قدرت وسیع کاملہ نے ان کو مختلف مراحل پر جمع فرمایا اور تمہارا تخم صلب پدرا اور سینہ مادر میں جمع کیا پھر وہاں سے تمہارے وجود کی تعمیر شروع فرما کر تمہیں ایک خوبصورت وجود عطا کرکے زندگی بخشی اور اس کا انجام بھی ایک موت ہے جو دوبارہ اجزائے جسمانی کو منتشر کردیتی ہے یہ بات اکثریت کے حکم پر ہے ورنہ انبیاء (علیہم السلام) کے اجسام مبارک سلامت رہتے ہیں اسی طرح مشاہدہ سے بھی ثابت ہے کہ شہداء کے اجسام صحیح رہتے ہیں۔ دراصل یہاں برزخ کی زندگی بحث نہیں کہ وہ ایک طرح سے عارضی قیام ہے نہ وہاں دارالعمل ہے نہ دارالجزا بلکہ قیامت کا انتظار ہے اور قبر کا عذاب وثواب۔ دراصل اپنی اصلی حیثیت کے مطابق اس انتظار گاہ میں ٹھہرنا ہے۔ سو یہاں صرف مستقل زندگی زیر بحث ہے کہ تمہارے اجزا کو جمع فرما کر تمہیں پھر سے زندگی دے گا جس کے بعد تمہیں کوئی فرصت عمل نصیب نہ ہوگی بلکہ خالق حقیقی کے پاس لوٹ کے جانا ہوگا۔ اس کی بارگاہ میں حاضری دینا ہوگی اس کی پیشی میں کھڑا ہونا ہوگا۔ ھوالذی خلق لکم………وھوبکل شیء علیم۔ وہ ایسی کریم ذات ہے جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہاری خاطر اور خدمت کے لئے پیدا فرمائیں ، صرف اور صرف تمہاری خدمت کرنے کو تمام چیزیں پیدا کردیں اور پھر آسمانوں کی طرف توجہ فرمائی تو انہیں ٹھیک ٹھیک سات درجوں میں درست فرمایا اور وہ ہر شے سے واقف ہے۔ یہ ارض وسماء یہ ان کی نعمتیں دن رات ، سورج چاند ، پھول پھل ، کھیتی باڑی ، دریا ، سمندر ، بجلی اور ہوا یہ سب قوتیں مخلوق ہیں اسی نے پیدا فرمائی ہیں جو تمہارا خالق ہے تمہاری خدمت کے لئے پیدا کی ہیں اب کس طرح سے جائز ہوسکتا ہے کہ تم اپنے خالق کو چھوڑ کر اپنی خدمت پر مامور مخلوق کو اپنا معبود بنالو اور پھر لطف یہ کہ وہ سب کچھ دیکھ بھی رہا ہے ہر شے سے ہر وقت واقف ہے اور پھر بالآخر تمہیں اس کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنی زندگی کا حساب بھی دینا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 21 تا 24 (یایھا ) : اے (حرف ندا) کسی کو آواز دینے اور بلانے کے لئے یہ حرف استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کسی مونث کو ندا دی جائے تو ” یایتھا “ آئے گا۔ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ (اعبدوا): (اعبد) تم عبادت و بندگی کرو۔ عبادت صرف چند رسموں کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہر حکم کو عاجزی، ادب واحترام کے ساتھ ماننا، اطاعت و فرمان برداری کرتے ہوئے زندگی کو پوری طرح ادا کرنا عبادت ہے۔ (خلق): اس نے پیدا کیا۔ اسی خالق (پیدا کرنے والا) اور مخلوق (پیدا کیا گیا ) بھی آتا ہے۔ (قبل): پہلے۔ یہ لفظ اردو میں بھی اسی معنی میں بولا جاتا ہے۔ (لعلکم ): (لعل۔ کم ) شاید کہ تم، تا کہ تم ، امید ہے کہ تم۔ ۔۔ ۔ کسی توقع اور امید کے لئے بولا جاتا ہے ۔ (تتقون): تم تقویٰ اختیار کرو گے، اس سے ڈرو گے، شریعت کے ہر حکم پر چلنا اور دل میں خوف الٰہی رکھنا۔ (فراش): ہر وہ چیز جو ایسی ٹھوس ، برابر اور ہموار بچھی ہوئی ہو جس پر چلنا ، پھرنا اور راحت حاصل کرنا ممکن ہو۔ (انداد): (ند کی جمع ہے ) ۔ جس کے معنی شریک، مد مقابل، مخالف کے آتے ہیں عام طور پر اس ترجمہ شریک اور شرکا سے کیا جاتا ہے۔ (نزلنا): ہم نے اتارا، نازل کیا۔ تنزیل کے معنی آتے ہیں کسی چیز کو اوپر سے نیچے آہستہ آہستہ اتارنا۔ یہاں قرآن کریم کی طرف اشارہ ہے جو نبی مکرم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تھوڑا تھوڑا نازل ہو کر تئیس سال میں مکمل ہوا۔ (شھداء) : (شہید کی جمع ہے ) جس کے کئی معنی ہیں مددگار، حمایتی ، اور با خبر۔ (وقود): ایندھن، جلنے کی چیز۔ (الحجارۃ): الحجرہ کی جمع ہے اس سے مراد وہ بےجان بت ہیں جن کو انہوں نے اپنا خالق ومالک بنا رکھا تھا۔ فرمایا کہ یہ سب جہنم کا ایندھن ہیں۔ (اعدت): تیار کی گئی ہے۔ تشریح : آیت نمبر 21 تا 24 مومنوں ، کافروں اور منافقین کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور جماعتوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے لوگو ! اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے اندر تقویٰ جیسی عظیم صفت پیدا ہوجائے تو اس اللہ کی عبادت و بندگی کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے ان لوگوں کو پیدا کیا جن کو تمہارے اس دنیا میں آنے کا سبب بنایا ہے۔ وہ اللہ کہ جس نے تمام انسانوں کو جسم اور روح کا پیکر بنا کر جسم و روح کی تمام ضرورتوں اور تقاضوں کو پورا کرنے کے وسائل اور ذرائع بھی عطا کئے ہیں۔ روح کے لئے اس نے اپنا کلام اپنے پاکیزہ بندوں کے ذریعہ پہنچایا جس سے روح کی زندگی اور تابندگی ہے۔ اور جسم کے لئے زمین کو راحت و آرام کا ذریعہ بنا کر فرش کی طرح بچھا دیا ہے اور حفاظت کے لئے آسمان کو ان کے سروں پر چھت کی طرح تان دیا ہے اور بلندی سے بارشوں کو برسا کر ہر طرح کے پھل، پھول اور سبزے کو پیدا کیا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اللہ نے زمین کو نعمت کے طور پر اس طرح بنایا ہے کہ اس میں چلنا پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، کھیتی کہ زمین نہ تو اتنی نرم ہے کہ آدمی اس دھنس جائے یا اس کا چلنا پھر دشوار ہوجائے اور نہ لوہے کی طرح سخت بنایا ہے کہ اس کو استعمال کرنا آسانی سے ممکن نہ ہو بلکہ زمین نرم تو اتنی ہے کہ ایک بچہ بھی کھودتا چلا جائے اور مضبوط اتنی ہے کہ اربوں، کھربوں انسان، ان کی زندگی گزارنے کا سامان، بلند وبالا بلڈنگیں اور بڑے بڑے پہاڑوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، نہ جھکتی ہے ، نہ دبتی ہے، نہ دھنستی ہے۔ زمین کو ایسا کار آمد بنایا ہے کہ ایک کسان زمین میں ہل یا ٹریکٹر چلا کر اس میں چنددانے اور کھا ڈال کر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی سال بھر کی روزی پیدا کرلیتا ہے، ایک گٹھلی بو کر یا چند بیج بکھیر کر اس سے بیشمار پھل، پھول، سبزی ترکاریاں ، مزے دار میوے اناج اور غلے پیدا کرلیتا ہے۔ لوہا، گیس، تیل، لکڑی اور دوسری مع دنیات بھی اسی زمین سے حاصل کرتا ہے جس سے وہ تیز رفتار گاڑیاں اونچے مکانات اور بلند وبالا عمارتیں بناتا ہے۔ اللہ نے آسمان کو ہمارے سروں پر سائبان کی طرح تان دیا ہے جو ہمیں کائنات کی ہزاروں آفات اور ہلاک کردینے والے جراثیم سے محفوظ رکھتا ہے۔ جدید تحقیقات کے مطابق اس دنیا پر ایک چادر سی ڈال دی گئی ہے جس کو ” اوزون “ کہا جاتا ہے ۔ اس کے چند کام ہیں مثلاً موسموں کی تبدیلی میں یہ معاون اور فضاؤں سے آنے والے زہریلے جراثیم کو یہ اپنے اندر جذب کر کے دنیا کے انسانوں کو اس سے محفوظ رکھتا ہے۔ ممکن ہے کہ اسی اوزون کو اس جگہ ” السماء “ فرمایا گیا ہو جو چھت کی طرح ہمارے سروں پر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنا کر آسمان دنیا کو چاند، سورج اور ستاروں سے خوبصورتی اور زینت بخشی ہے یہ روشن و تاباں قندیلیں اور روشن ومنور چراغ اس دنیا کو حسین تربنا دیتے ہیں۔ فرمایا کہ اس اللہ نے بلندی سے پانی برسا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کی شکل میں پانی جما دیا جو سال بھر حسین چشموں، جھیلوں ، ندی نالوں کے ذریعہ بہہ کر کائنات کے حسن کو بھی بڑھاتا ہے اور کھیتوں کو ہرا بھرا اور درختوں کو پررونق بنا دیتا ہے اور یہی پانی انسانوں کی تمام ضرورتوں کو بھی پورا کرتا ہے۔ اسی کی قدرت ہے کہ پانی، ہوا مٹی، روشنی اور حرارت ایک جیسی ہے لیکن ہر اگنے والی چیز کی شکل ، صورت اور بناوٹ بالکل مختلف اور انوکھی ہوتی ہے اور ” گلہائے رنگا رنگ سے ہے رونق چمن “ کا سماں بندھ جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ زمین، آسمان، چاند، سورج، ستارے ، فضائیں ، ہوائیں اور بارشوں کا یہ نظام اس بات کی کھلی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ یہ اتنا بڑا نظام کائنات خودبخود نہیں چل رہا ہے بلکہ اس کا خالق ومالک اللہ ہے جو اس کو چلا رہا ہے۔ وہی خالق رازق مالک اور پروردگار ہے وہی تنہا عبادت و بندگی کے لائق ہے۔ اس کے سوا اور کوئی رب کائنات نہیں ہے اگر کوئی شخص ان حقیقتوں کے باوجود اللہ کے مقابلے میں کسی اور کو اپنا خالق، مالک اور رب قرار دیتا ہے یا اس کے مقابلے میں کسی اور کو اپنا اللہ مانتا ہے یا اس کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک کرنا، بےجان بتوں اور اپنی خواہشات کو معبود بنا لیتا ہے تو انسان کی یہ سب سے بڑی جہالت اور نادانی کی بات ہے۔ اس سارے کلام کا حاصل یہ ہے کہ اللہ نے اس ساری کائنات اور اس میں پائی جانے والی وہ چیزیں جن کے استعمال کی اللہ نے اجازت دی ہے انسان کے جسم و جان کے لئے پیدا کی ہیں لیکن روح کی پیاس بجھانے کے لئے اس نے اپنے محبوب بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا اور ان کے اوپر اس قرآن کریم کو اتارا جو ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اس کلام میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ نعوذ باللہ اس قرآن کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود گھڑ لیا ہے تو اس قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آئے۔ فرمایا کہ یہ بات کسی کے بس کی نہیں ہے لہٰذا اپنا وقت ضائع کر کے آخرت کو برباد کرنا اور جہنم کی آگ کا مستحق بن جانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے چند باتیں عرض ہیں تا کہ یہ بات سمجھ میں آجائے۔ جب نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت اگرچہ عرب میں رہنے والے دنیا کی اکثر قوموں سے بہت پیچھے تھے، اخلاقی اعتبار سے بالکل کھوکھلے، معاشرت اور معیشت میں سب سے پست ، صحیح دین و مذہب کے تصورات سے کورے ، جہالت ، ظلم، بربریت اور درندگی کے پیکر تھے۔ جنگ و جدل ، خون خرابہ، لوٹ کھسوٹ ان کی زندگی کا ایک حصہ بن چکا تھا۔ مگر اس سب کے باوجود انہیں اس بات پر ناز تھا کہ وہ عرب ہیں، زبان والے ہیں اور ساری دنیا ان کے مقابلے میں عجمی یعنی گونگی اور بےزبان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کو گونگا اور بےزبان کہنے والوں سے فرمایا کہ ہمارے حبیب پاک حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کا بچپن، جوانی اور زندگی کا ہر لمحہ تمہارے اندر ہی گزارا ہے ، تم اچھی طرح جانتے ہو کہ وہ نہ لکھنا جانتے ہیں اور نہ پڑھنا، نہ وہ دنیا میں کہیں گھومے اور پھر ہیں۔ اگر تم یہ کہتے ہو کہ اس قرآن کو انہوں نے گھڑ لیا ہے خود سے بنا لیا ہے، (نعوذ باللہ) تو اس قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ کیونکہ تمہیں تو اپنی زبان دانی اور شعر و شاعری پر بڑا ناز ہے۔ ہمیں اس سلسلہ میں قرآن کریم سے یہ تفصیل ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے تو ان کفار سے فرمایا کہ اس جیسا قرآن ہی بنا کرلے آؤ، پھر فرمایا کہ اس جیسی دس سورتیں ہی بنا کرلے آؤ اور آخر میں فرمایا کہ اچھا ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا کہ اس کام کے لئے دنیا بھر سے اپنے حمایتیوں اور مددگاروں کو بلا لاؤ مگر اس چیلنج کا جواب نہ اس وقت دیا گیا اور نہ آج تک دیا گیا ہے اور جن لوگوں نے کوشش کی تو ان کو منہ کی کھانا پڑی۔ فرمایا۔ (1) (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ جنات اور انسان سب مل کر ایک دوسرے کے مددگار بن کر اگر اس قرآن جیسا لانا چاہیں تو وہ ایسا نہ کرسکیں گے۔ ( سورة بنی اسرائیل) (2) کیا یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قرآن کو گھڑ لیا ہے تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرمادیجئے کہ تم اس جیسی دس سورتیں ہی بنا کرلے آؤ اور اللہ کو چھوڑ کر جس کو بھی اپنی مدد کے لئے بلانا چاہتے ہو اس کو بلا لاؤ اگر تم سچے ہو۔ ( سورة ہود) (3) (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ تم اس جیسی ایک سورت ہی بنا کرلے آؤ اگر تم سچے ہو۔ ( سورة یونس) یہ تینوں سورتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جہاں زیادہ تر کفار اور مشرکین سے خطاب تھا لیکن جب نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمایا تو وہاں سورة بقرہ میں یہود و نصاریٰ کو زیر مطالعہ آیت میں چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ : (4) اگر تمہیں اس میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے (حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے تو اس جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے تمام حمایتیوں کو بلا لاؤ اگر تم سچے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور (سن لو) کہ تم ایسا کر بھی نہیں سکتے تو اس آگ سے بچو جس میں انسان اور پتھر اس کا ایندھن بن جائیں گے وہ جہنم ایسے منکرین ہی کے لئے بنائی گئی ہے۔ ( سورة بقرہ) اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن جیسی ایک سورت کے لانے کے لئے چیلنج کیا ہے اور اس میں یہ شرط نہیں لگائی ہے کہ کون سی سورت بنا کرلے آؤ بلکہ قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی بنا کرلے آنے کے لئے فرمایا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ایک سورت بنا کر لانے کے لئے تین مرتبہ چیلنج کیا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ کفار مکہ اور مدینہ کے اہل کتاب ہر طرح کی مخالفت کرتے تھے مگر اس چیلنج کا جواب نہیں دیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قرآن کسی انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ قرآن کریم کا یہ چیلنج اس وقت بھی تھا اور آج ڈیڑھ ہزار سال گزرنے کے بعد بھی ہے نہ اس وقت جواب دیا گیا نہ آج کسی کی ہمت ہے۔ کہتے ہیں کہ خلیفہ ہارون رشید کے دور میں جبکہ عربی اپنے عروج اور کمال پر تھی اس وقت ابن مقنع نے اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں ناکام رہا۔ اس کے بعد لبنان کے کچھ عیسائیوں کے بڑے عالم و فاضل لوگوں نے ایک اور کوشش کی مگر برسوں محنت کے باوجود سورة فاتحہ کی سات آیتوں جیسی بھی نہ بنا سکے۔ قرآن کریم آج بھی ساری دنیا کے انسانوں کو یہ دعوت دے رہا ہے کہ اے لوگوآؤ نجات کا راستہ اور روح کی تسکین قرآن کے دامن میں ہی مل سکے گی، اس راستے کو چھوڑ کر جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا وہ انسانوں کو موت کے بھیانک غار کی طرف تو لے جائے گا لیکن زندگی کے ہر سکون سے اس کا دامن خالی ہوجائے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ شاہی محاورہ میں ” عجب نہیں “ کا لفظ وعدہ کے موقع پر بولا جاتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ایمانداروں، کفار اور منافقین کے ذکر کے بعد توحید اور عبادت کا بیان ہوتا ہے۔ قرآن مجید کا مرکزی پیغام ” اللہ “ کی توحید اور اس کی ربوبیت کا اقرار ہے جس کا منطقی نتیجہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ اکثر مفسرین نے عبادت کا معنی تذلّل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے کہ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو نا صرف زبان سے اقرار کرنے کے ساتھ اس کا پورا جسم خاموش گواہی دے کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجز و بےبس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے، دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ اس عہد کو نمازی پانچ وقت تشہد کی زبان میں دہراتا ہے کیوں کہ عبادت تین ہی طریقوں سے ہوسکتی ہے۔ (اَلتَّحَیَاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیِّبَاتُ ) (رواہ البخاری : باب التَّشَہُّدِ فِی الآخِرَۃِ ) ” تمام قسم کی قولی، فعلی اور مالی عبادات اللہ کے لیے ہیں۔ “ (قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ) (الانعام : ١٦٢ تا ١٦٣) ” کہہ دیجیے ! یقیناً میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے ‘ اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا اسلام لانے والا ہوں۔ “ اس تصور کے ساتھ قرآن مجید نے عبادت کا وسیع تر تخیل پیش کیا ہے کہ آدمی منڈی اور بازار میں ہو تو امانت و دیانت کا نمونہبن جائے، کسی کے ہاں مزدور اور خدمت گزار ہو تو وفاداری کا پیکر ہوجائے، حکمران ہو یا کوئی ذمہ داری اٹھائے تو قوم کا خادم اور مالک حقیقی کا غلام بن کر رہے۔ غرضیکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور شعبہ رب کی غلامی اور سرافگندگی کے لیے وقف کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ یہی انسان کی تخلیق کا مقصد اور اسی کے لیے انسان کا ہر عمل وقف ہونا چاہیے۔ انبیائے عظام ( علیہ السلام) اپنی دعوت کا آغاز اسی سے کیا کرتے تھے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مذکورہ بالا تین قسم کے لوگوں کی تصویر کشی کے بعد سیاق کلام اب پوری انسانیت کو دعوت دینے کی طرف مڑجاتا ہے ۔ پوری انسانیت سے کہا جاتا ہے کہ وہ ان تین تصاویر میں سے سیدھی اور شریفانہ ، پاک وخالص ، سرگرم عمل اور نفع بخش اور ہدایت یافتہ اور کامیاب تصویر یعنی متقین کی تصویر کو اختیار کرے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (٢١) الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (٢٢) ” اے لوگو ! بندگی اختیارکرو اپنے اس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ، ان سب کا خالق ہے ، تمہارے بچنے کی توقع اسی صورت میں ہوسکتی ہے ۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بچھایا ، آسمان کی چھت بنائی ۔ اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لئے رزق بہم پہنچایا ۔ پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مدمقابل نہ ٹھہراؤ۔ “ اب گویا یہ تمام لوگوں کو دعوت ہے کہ وہ اس رب واحد کی بندگی میں داخل ہوجائیں جس نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ اور اسی نے ان کے آباء واجداد کو بھی پیدا کیا ہے ۔ وہ ایسا رب ہے جو اکیلا اس کائنات کا خالق ہے لہٰذا صرف وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی بندگی کی جائے ۔ اور اس کی بندگی کا ایک خاص مقصد ہے اور توقع ہے کہ اللہ کی بندگی کرکے تمام لوگ اس مقصد تک جاپہنچیں اور اسے حاصل کرلیں ۔ اور وہ مقصد یہ ہے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ” تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔ “ تم انسانی زندگی کا وہ نقشہ اختیار کرلو جو پسندیدہ ہے اور جو اللہ کو پسند ہے ۔ یعنی اللہ کی بندگی کرنے والوں اور اس سے ڈرنے والوں کا نقش حیات ، جنہوں نے اللہ کی خالقیت اور ربوبیت کا حق صحیح طرح ادا کردیا ، صرف ایک خالق کی بندگی کی ، جو تم حاضر اور گذشتہ لوگوں کا خالق ہے ، اور جس نے آسمان و زمین کے وسائل کے ذریعہ ان کے رزق کا بندوبست کیا اور اس کام میں اس کا نہ کوئی مساوی ہے اور نہ شریک ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ فِرَاشًا ” جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بچھایا۔ “ اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انسانی حیات کو بےحد سہل بنایا ہے ۔ زمین کو اس طرح بنایا کہ وہ انسانوں کے لئے خوشگوار رہائش گاہوں اور فرش کی طرح محفوظ جائے قیام ہو۔ لیکن انسان چونکہ ایک طویل عرصہ تک یہاں رہتے ہیں ۔ اس لئے ان کے شعور سے زمین و آسمان کی یہ خوشگواری محو ہوجاتی ہے ۔ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے وسائل حیات فراہم کرنے کے واسطے اس زمین کے موسم کو ان کے لئے کیسا موافق اور خوشگوار بنایا ہے ، اور ان کے لئے اس جہاں میں آرام اور آسائش کے کیا کیا ذرائع بہم پہنچائے ہیں ۔ اگر یہ وسائل نہ ہوتے تو اس کرہ ارض پر ان کی زندگی اس قدر خوشگوار ، سہل اور پرسکون نہ ہوتی ۔ اس کائنات کے عناصرترکیبی میں سے اگر کوئی ایک عنصر بھی غائب ہوجائے تویہاں کا ماحول اس قدر تبدیل ہوجائے کہ اس میں اس پوری انسانیت کی نشوونما محال ہوجائے۔ صرف ہوا ہی کی مثال لیجئے کہ جن مقررہ عناصر پر یہ مشتمل ہے ، اگر ان میں ذرہ بھر کمی ہوجائے تو لوگوں کے لئے زمین پرسانس لینا دشوار ہوجائے ۔ اگرچہ انہوں نے ابھی زندہ رہنا ہے۔ وَالسَّمَاءَ بِنَاءً ” اور آسمان کو چھت بنایا “ یعنی آسمان ایک چھت کی طرح موزوں اور پختہ ہے ۔ اسی زمین میں انسان کی زندگی اور اس زندگی کی آسائشوں کے ساتھ آسمان کو گہرا ربط ہے۔ آسمان کی حرارت اجرام فلکی کی جاذبیت اور توازن وغیرہ غرض زمین و آسمان کے تمام طبعی روابط ممد حیات ہیں اور اس زمین میں قیام حیات کے لئے تمہید اور خشت اول ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جب بھی اس جہان کے خالق کی قدرت کا بیان ہوتا ہے ، انسان کے رازق کی کبریائی بیان ہوتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ تمام مخلوق اور تمام انسانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں ۔ چناچہ تمام ایسے مواقع پر اللہ کے احسانات کا ذکر ہوتا ہے ۔ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ ” اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لئے رزق بہم پہنچایا۔ “ اللہ جل شانہ کی قدرت اور اس کے انعامات کے تذکرے کے ضمن میں ، آسمان سے پانی برسانے اور اس کے ذریعے مختلف قسم کی پیداوار نکالنے کا ذکر قرآن مجید کے متعدد مقامات میں کیا گیا ہے ۔ چناچہ آسمان سے اترنے والا پانی ، طبعی نقطہ نظر سے بھی اس زمین پر قیام حیات کا بنیادی عنصر ہے ۔ زمین پر زندگی اپنی مختلف شکلوں اور درجوں میں ، اسی پانی کی رہین منت ہے ۔ قرآن مجید میں وَجَعَلنَا مِنَ المَآءِ کُلَّ شَیئٍ حَیٍّ ” اور ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندہ بنایا۔ “ کبھی تو پانی بارش کی صورت میں کھیتوں کو سیراب کرتا ہے ، کبھی وہ میٹھی ندیوں اور نہروں کی صورت میں بہتا ہے ۔ اور کبھی وہ زمین کی رگوں میں سرایت کرجاتا ہے اور چشموں اور کنووں کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور آلات کے ذریعے زراعت اور کھیتی باڑی کے کام میں استعمال ہوتا ہے ۔ زمین میں پانی کی اہمیت ، یہاں بقائے حیات میں اس کا کردار اور مختلف چیزوں کی زندگی کا اس پر موقوف ہونا ، ایک ایسی بدیہی اور مسلم بات ہے جس کی طرف اشارہ اور یاد دہانی ہی کافی ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ جو ہمارا خالق اور رازق ہے اور جس نے یہ تمام نعمتیں ہمیں بخشیں ہیں وہ اس بات کا مستحق ہے کہ ہم صرف اسی کی بندگی کریں ۔ اس طریقہ دعوت سے ، اسلامی تصور حیات کے دو اہم اصول خود بخود واضح ہوجاتے ہیں ، ایک یہ کہ اس پوری کائنات کا خالق ایک ہے ۔ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ ” جس نے تمہیں اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ، ان سب کو پیدا کیا۔ “ یعنی یہ کائنات ایک ہے ، اس کی اکائیوں اور اجزا کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے اور وہ انسان اور زندگی کے لے معین و مددگار ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دعوت توحید اور دلائل توحید مومنین مخلصین اور کافرین اور منافقین کا ذکر کرنے کے بعد اب دلائل کے ساتھ توحید کی دعوت دی گئی اور اللہ جل شانہٗ کی شان خالقیت اور شان ربوبیت بیان فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور نعمت کا تذکرہ فرمایا جس کا مظاہرہ سب کے سامنے ہے اور ایک کم سمجھ آدمی بھی اس کو دیکھتا ہے۔ (اوّل): تو یہ فرمایا کہ تم اپنے رب کی عبادت کرو جو تمہاری پرورش فرماتا ہے اور یہی نہیں کہ صرف پرورش فرماتا ہے بلکہ اس نے تم کو وجود بھی بخشا ہے، ممکن ہے کوئی ناسمجھ یہ کہنے لگتا کہ مجھے تو میرے ماں باپ نے پیدا کیا، اس وہم کو دفع فرمانے کے لیے فوراً ہی یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ تم سے پہلے ہیں ان سب کو اسی نے پیدا فرمایا ہے اس نے وجود بھی دیا اور وہ وجود کو باقی رکھے ہوئے بھی ہے اور وجود کے باقی رہنے کے جو اسباب ہیں وہ بھی اسی نے پیدا فرمائے ہیں، پھر یہ فرمایا کہ جب اسی ذات پاک کی عبادت کو اختیار کرو گے اسی میں لگو گے تو تم کو صفت تقویٰ حاصل ہوگی۔ تقویٰ عربی زبان میں بچنے اور پرہیز کرنے کو کہتے ہیں اور اس کے بہت سے درجات ہیں۔ سب سے بڑا درجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک کا مراقبہ رکھے اور ہر وقت اسی کی طرف دل و دماغ کو متوجہ رکھے، اس کے لیے جیئے اور اسی کے لیے مرے، چھوٹے بڑے گناہوں سے بچنا بھی تقویٰ کے مفہوم میں داخل ہے۔ جب کسی کو خلوت اور جلوت میں اللہ تعالیٰ شانہٗ کی ذات پاک کا استحضار رہے گا تو کہاں گناہ کرسکے گا اور جب گناہوں سے بچے گا تو ظاہر ہے دوزخ سے بھی محفوظ رہے گا۔ اسی لیے بعض مفسرین نے اس کا ترجمہ یوں لکھا ہے ” تاکہ تم دوزخ سے بچو “۔ سب سے بڑا گناہ شرک ہے۔ شرک سے بھی بچے اور توحید کو اختیار کرے جو سب سے بڑی عبادت ہے اور چھوٹے بڑے گناہوں سے بھی پرہیز کرے، ایسا کرے گا تو ظاہر ہے کہ دوزخ سے ضرور اس کی حفاظت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور شان خالقیت کا مظاہرہ تو ہر چھوٹی بڑی چیز میں ہوتا ہے لیکن بہت واضح چیزیں جو سب کے سامنے ہیں اور کم سمجھ بھی جن کو سمجھتا اور جانتا ہے ان میں سے تین چیزیں بیان فرمائیں۔ جن میں سے اوّل یہ ہے کہ اس نے زمین کو پیدا فرمایا۔ یہ زمین سب کے سامنے ہے اس پر بستے ہیں اور رہتے سہتے ہیں اگر کوئی نابینا ہو تو وہ بھی یہ تو جانتا ہی ہے کہ میں کس چیز پر آباد ہوں کس چیز پر چل پھر رہا ہوں، جو زمین ہے اس کا وجود ہی بتاتا ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا بڑی قدرت والا ہے پھر زمین کا وجود محض وجود ہی نہیں بلکہ انسانوں کے لئے اس کا وجود بہت بڑی نعمت ہے ساری زمین انسانوں کے لئے بچھونا ہے جس پر رہتے سہتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں اس کے اتنے بڑے پھیلاؤ میں انسانوں کے رہنے کے مکانات بنانے، چلنے پھرنے، سفر کرنے، حاجتیں پوری کرنے کے مواقع ہیں اگر زمین پر پہاڑ ہی پہاڑ ہوتے یا پانی ہی پانی ہوتا تو اس پر رہنا دشوار ہوجاتا۔ زمین کے ساتھ ہی آسمان کا ذکر فرمایا اور وہ یہ کہ آسمان کو تمہارے لیے چھت بنایا۔ یہ چھت ستاروں سے مزین ہے، دیکھنے میں بھلی معلوم ہوتی ہے اس کی طرف نظر کرنے سے فرحت اور بشاشت محسوس ہوتی ہے۔ صاحب بیان القرآن نے اپنے رسالہ رفع البناء کے آخر میں لکھا ہے کہ بعض حکماء کا قول ہے کہ آسمان کی طرف دیکھنے کے دس فائدے ہیں۔ (١) غم کا کم ہونا (٢) وسواس کی تقلیل (٣) وہم اور خوف کا ازالہ (٤) اللہ کی یاد (٥) قلب میں اللہ کی عظمت کا پھیل جانا (٦) افکار ردیہ کا جاتا رہنا (٧) سوداوی مرض کے لیے نافع ہے (٨) مشتاق کی تسلی (٩) محبین کا مونس ہونا (١٠) دعا کرنے والوں کا قبلہ ہے۔ ١ ھ نقلہ عن کتاب الحکمۃ للغزالی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

یہاں تک تمہید تھی جس میں ہدایت کے اصل سرچشمہ کی نشان دہی کی گئی اور ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے اوصاف اور ان کے انجام کا ذکر تھا۔ اب اگلی آیت سے دعوی توحید پیش کیا جا رہا ہے۔ دعوی توحید 47 ۔ تمہید میں تین جماعتوں یعنی مومنین، کفار اور منافقین کے اوصاف اور ان کی جزا وسزا بیان کرنے کے بعد اب یہاں ان سب کو مخاطب کر کے ان کے سامنے دعوت توحید بیان کی ہے۔ اس سورت میں دعویٰ توحید کو تین بار دہرایا گیا ہے جیسا کہ تفصیلاً پہلے گزر چکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ (رکوع 3) میں دعوی توحید کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌالخ (رکوع 19) میں پہلی بار اس کا اعادہ فرمایا اور پھر اللہ لَا الٰہَ اِلَّا ھُوَ (رکوع 34) میں دوبارہ اعادہ فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین تین قسم کا شرک کرتے ہیں (1) شرک فی الدعاء یعنی پکارنے میں شرک (2) نذرونیاز میں شرک (3) شفاعت قہری کے ذریعے یعنی اپنے معبودوں کو خدا کے یہاں شفیع غالب سمجھتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تین جگہ دعویٰ توحید کو عقلی دلائل سے مدلل فرما کر بالترتیب شرک کی مذکورہ بالا تینوں قسموں کی نفی فرمائی ہے۔ عبادت کے معنی " غایت خضوع " اور " انتہائی عاجزی کے ہیں۔ اس لفظ کا جامع مفہوم علامہ ابن قیم کی زبانی سنئے۔ العبادۃ عن الاعتقاد والشعور بان للمعبود سلطۃ غیبیۃ (ای فی العلم والتصرف) فوق الاسباب یقدر بھا علی النفع والضرر فکل دعاء وثناء وتعظیم ینشا من ھذا الاعتقاد فہی عبارۃ (مدارج السالکین ص 40 ج 1) یعنی یہ اعتقاد اور شعور کہ ہمارے حالات جاننے اور ان میں باختیار خود تصرف کرنے میں ہمارے معبود کا مافوق الاسباب غیبی قبضہ ہے۔ اور اسی اعتقاد کے تحت اپنے معبود کو پکارا جائے، اس کی حمد وثناء کی جائے، رکوع و سجود یا نذرونیاز سے اس کی تعظیم بجا لائی جائے تو یہ سب کچھ عبادت ہے، تو یہ عبادت بجمیع اقسامہ وانواعہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہاں عبادت سے، دعا، اور پکار مراد ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ الدعاء ھو العبادۃ (ابو داوٗد ص 208 ج 1، ترمذی ص 173 ج 2) یعنی دعاء ہی اصل عبادت ہے۔ اور دعویٰ توحید اعبدوا ربکم میں حصر اور تخصیص مراد ہے۔ یعنی صرف اللہ ہی کی عبادت کرو، صرف اسی کو پکارو۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ ای افردوا الطاعۃ والعبادۃ لربکم دون سائر خلقہ (ابن جریر ص 123 ج 1) یعنی طاعت اور عبادت صرف اپنے رب ہی کی کرو اور اس کی مخلوق کو اس کی طاعت اور عبادت میں شریک نہ بناؤ۔ عبادت سے وہی دعا اور پکار مراد ہے۔ اور حصر کا دوسرا قینہ وہ نتیجہ ہے جو دعوی توحید کے عقلی دلائل کے بعد مذکور ہے یعنی فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا۔۔۔۔ اَلَّذِیْ اب یہاں سے دعویٰ مذکور پر عقلی دلائل کی ابتداء ہوتی ہے۔ الموصول صفۃ مادحۃ للرب وفیھا ایضا تعلیل العبادۃ او الربوبیۃ علی ما قیل (روح ص 184 ج 1) یہاں دعوی توحید پر جو عقلی دلیل پیش کی گئی ہے وہ پانچ امور پر مشتمل ہے۔ اول۔ خَلَقَکُم۔ یعنی تمہیں پیدا کیا اور نعمت وجود سے سرفراز فرمایا۔ دوم وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ تمہارے آباء و اجداد، دوسرے تمام انسانوں، فرشتوں اور جنوں کا بھی وہی خالق ہے۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ کیونکہ توحید کی پابندی ہی سے تقویٰ حاصل ہوسکتا ہے۔ لَعَلَّ شک اور امید کیلئے موضوع ہے مگر جب اللہ کی طرف سے ہو تو یقین کے معنوں میں ہوتا ہے۔ قال سیبویہ لعل وعسی حرفا ترج وھما من اللہ واجب (معالم ص 23 ج 1) ۔ سوم مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ بارش کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کر کے اس سے تمہارے لیے روزی پیدا کی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ اے افراد انسانی تم اپنے اس پروردگار کی بندگی اور عبادت بجا لائو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ توقع ہے کہ تم خدا کے عذاب سے بچ جائو ، وہ پروردگار جس کی عبادت کے لئے تم کو دعوت دی جا رہی ہے وہ ایسا محسن ہے کہ اس نے تمہارے بسنے اور زندگی بسر کرنے کے لئے زمین اور آسمان کو چھت بنایا اور اس نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا ۔ اور اس پانی سے تمہاری غذا اور تمہارے کھانے کیلئے مختلف انواع و اقسام کے پھل اگائے، لہٰذا ایسے بڑے حقیقی محسن کا کسی کو ہمسر اور شریک نہ ٹھہرائو ، حالانکہ تم جانتے بوجھتے ہو۔ (تیسیر) اس آیت میں تمام بنی نوع انسانی کو اپنے پروردگار کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ، چونکہ عبادت انتہائی تذلل اور عاجزی اور خشوع و خضوع کا نام ہے اس لئے انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کی عبادت کا وہی مستحق ہوسکتا ہے۔ جو تمام مخلوق سے بالا اور برتر اور تمام مخلوق کا مربی اور محسن ہے ، زمین چونکہ پھیلی ہوئی ہے ۔ اس لئے اس کو فرش فرمایا اور آسمان چونکہ قبہ نما ہے اس لئے اسکو بناء سے تعبیر کیا ۔ تقویٰ کے معنی جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں پکنے اور احتیاط کرنے کے ہیں ۔ اس لئے ہم نے عذاب سے بچنے کے معنی کئے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس کا یہ مطلب ہو کہ تم متقیوں کے زمرے اور پرہیز گاروں کی جماعت میں شامل ہو جائو، جیسا کہ بیضاوی نے اختیار کیا ہے اور یہ جو فرمایا کہ توقع اور امید ہے کہ تم متقی ہو جائو اور اس پر یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں شاید اور توقع اور امید کے الفاظ کیوں ہیں وہ تو سب کچھ کرسکتے ہیں ۔ الو تو یہ بات کہ کلام میں وہی محاورے اور بول چال کا وہی طریقہ استعمال کیا ہے ۔ جو عام طور سے انسان بولتے اور سمجھتے ہیں نیز یہ کہ بادشاہوں کے کلام میں اس قسم کے الفاظ وعدے کے وقت بولے جاتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے کلام میں بھی عسٰی اور لعل اور مراد وعدہ ہی ہوتا ہے اور یہی ایک کریم کی شان ہے کہ جب وہ کہتا ہے اچھا دیکھا جائے گا یا یوں کہے اچھا دیکھو شاید ہوجائے یا یوں کہے امید ہے کہ ایسا ہوجائے تو ان سب کا مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ وعدہ ہوگیا ۔ اسی مطلب کے پیش نظر حضرت شاہ رفیع الدین صاحب (رح) ان الفاظ کا ترجمہ تاکہ فرمایا کرتے ہیں ۔ سماء اس چیز کو کہتے ہیں جو تمہارے اوپر سایہ فگن ہو یہاں آسمان مراد ہے کیونکہ وہ تمام عالم پر چھایا ہوا ہے ۔ آسمان کی جانب سے پانی نازل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ مفسرین فرماتے ہیں کہ آسمان سے غیر مرئی طریقہ پر بادلوں پر پانی نازل ہوتا ہے۔ پھر بادلوں سے زمین پر برستا ہے اور جو لوگ محض بخارات سے بارش کا تعلق سمجھتے ہیں ان کے لئے بھی ہمارا ترجمہ مضر نہیں ۔ پھر جو پانی پرستا ہے اس کے امتزاج اور زمین کے ساتھ ملنے سے مختلف پھل اور میوے پیدا ہوتے ہیں ند کے معنی مثل اور مخالف کے ہیں جس کو اردو میں جواب کہتے ہیں جیسے فلاں چیز فلاں چیز کا جواب اور مقابل ہے اور یا یہ چیز اس چیز کی مثل ہے اسی لئے اہل لغت نے مماثلت اور مشارکت کے معنی لئے ہیں ۔ ہم نے شاہ عبد العزیز صاحب (رح) دہلوی کا لفظ ہمسر اختیار کرلیا ہے کہ اس خدائے یکتا ئو یگانہ کا کوئی ہمسر نہ ٹھہرائو او جو فرمایا کہ تم جانتے بوجھتے ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہو ۔ اتنی بات ادنیٰ سے غور و فکر سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ جب اس کا رخانہ عالم میں سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی دوسرا متصرف اور کار فرما نہیں ہے تو اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو کیوں شریک وسہیم بنایا جائے ۔ اب آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن کی حقانیت کا ذکر فرماتے ہیں ۔ چوں کہ توحید باری کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن کی صداقت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے ۔ اس لئے توحید کی مناسبت سے رسالت اور قرآن کا ذکر فرماتے ہیں ۔ ( تسہیل)