Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
خَلَقَ |
يَخْلُقُ |
اُخْلُقْ |
خَالِق |
مَخْلُوْق |
خَلْق |
اَلْخَلْقُ: اصل میں خلق کے معنیٰ(کسی چیز کو بنانے کے لئے) پوری طرح اندازہ لگانا کے ہیں اور کبھی خلق بمعنیٰ ابداع بھی آجاتا ہے۔یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید پیدا کرنا چنانچہ آیت کریمہ: (خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ) (۱۶۔۳) اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی برحمت پیدا کیا۔میں خلق بمعنیٰ ابداع ہی ہے کیونکہ دوسرے مقام پر اسی کو (بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ) (۲۔۱۱۷) سے تعبیر کیا ہے۔نیز ایک چیز کو دوسری شے سے بنانے اور ایجاد کرنے کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔جیسے فرمایا: (خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ ) (۴۔۱) تم کو ایک شخص نے پیدا کیا۔ (خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ) (۱۶۔۴) اسی نے انسان کو نطفے سے بنایا۔ (خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ ) (۲۳۔۱۲) ہم نے انسان کو خلاصے سے پیدا کیا۔ (وَ لَقَدۡ خَلَقۡنٰکُمۡ ) (۷۔۱۱) اور تم کو ہم نے (ابتدا میں مٹی سے) پیدا کیا۔ (وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ ) (۵۵۔۱۵) اور جنات۔۔۔۔کوشعلے سے پیدا کیا۔خیال رہے کہ خلق بمعنیٰ ابداع ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔چنانچہ ذات باری تعالیٰ اور دوسروں کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے فرمایا: (اَفَمَنۡ یَّخۡلُقُ کَمَنۡ لَّا یَخۡلُقُ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ) (۱۶۔۱۷) تو جو(اتنی مخلوقات) پیدا کرے کیا وہ ویسا ہے جو کچھ بھی پیدا نہ کرسکے تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے۔البتہ خلق بصورت استحالہ کے ہوتا ہے بعض اوقات ذات باری تعالیٰ دوسروں کو بھی اس کا اختیار دے دیتی ہے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمائیں گے۔ ( اِذۡ تَخۡلُقُ مِنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ ) (۵۔۱۱۰) اور جب تم میرے حکم سے مٹی کا جانور بناکر اور عام لوگوں کے لئے خلق کا لفظ صرف دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (۱) اندازہ کرنا جیسا کہ شاعر نے کہا ہے(1) : (الکامل) (۱۴۵) وَلَانْتَ تَفْرِیْ مَاخَلَقْتَ وَبَعضُ القَوْمِ یَخْلُقُ ثُمَّ لَایَفْرِیْ تم جو سوچتے ہوکرگزرتے ہو اور بعض لوگ تجاویز کرتے رہتے ہیں مگر انہیں عملی جامہ نہیں پہناسکتے۔ (۲) جھوٹ بولنے کے معنیٰ میں فرمایا: (وَّ تَخۡلُقُوۡنَ اِفۡکًا) (۲۹۔۱۷) اور طوفان باندھتے ہو۔اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ آیت کریمہ: (فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ) (۲۳۔۱۴) تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا ہے بڑا بابرکت ہے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلق کے ساتھ خداتعالیٰ کے سوا دوسرے بھی متصف ہوسکتے ہیں تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہاں اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ بمعنیٰ اَحْسَنُ الْمُقَدِّرِیْنَ ہے یعنی اﷲ تعالیٰ سب بہتر اندازہ کرنے والا ہے(اور خلق بمعنیٰ تقدیر دوسروں کی صفت بھی آجاتا ہے) اور دوسرا جواب یہ ہے کہ یہاں اﷲ تعالیٰ پر اَحْسَنُ الْخَالِقْینَ کا اطلاق کفار کے اعتقاد کے اعتبار سے ہے۔ان کا زعم یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا دوسرے بھی پیدا کرتے ہیں تو پھر بھی ذات باری تعالیٰ ان کے اعتقاد کے بمو جب،ان سے بہتر پیدا کرنے والی ٹھہری جیسے فرمایا: ( خَلَقُوۡا کَخَلۡقِہٖ فَتَشَابَہَ الۡخَلۡقُ عَلَیۡہِمۡ ) (۱۳۔۱۶) کیا انہوں نے خدا کی سی مخلوقات پیدا کی ہے جس کے سبب ان پر مخلوقات مشتبہ ہوگئی ہے اور آیت کریمہ: (وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰہِ) (۴۔۱۱۹) اور (یہ بھی) کہتا رہوں گا کہ وہ خدا کی بنائی ہوئی صورتوں کو بدلتے رہیں۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خَلْقُ اﷲِ کی تغییر سے مراد خصاء (یعنی خصی ہونا) اور نتف اللحیۃ (داڑھی کے بال اکھاڑ ڈالنے) وغیرہ کے ذریعہ(فطرتی صلاحیتوں اور) صورتوں کو تبدیل کرنا مراد ہے۔اور بعض نے کہا ہے کہ احکام الہیٰ میں تحریف و تبدیل کرنا مراد ہے۔(2) (اس صورت میں خلق اﷲ سے مراد دین الہیٰ ہوگا) اور آیت کریمہ: (لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ) (۳۰۔۳۰) خدا کی بنائی ہوئی(فطرت) میں تغیر و تبدیل نہیں ہوسکتا۔میں بعض نے کہا ہے کہ ’’خلق اﷲ‘‘سے قضا و قدر الہیٰ مراد لی ہے اور بعض نے تغییر خِلفت یعنی شکل و صورت کا بدلنا مراد لیا ہے اور آیت کریمہ: (وَ تَذَرُوۡنَ مَا خَلَقَ لَکُمۡ رَبُّکُمۡ ) (۲۶۔۱۶۶) اور تمہارے پروردگار نے جو تمہارے لئے (بیبیاں) پیدا کی ہیں ان کو چھوڑدیتے ہو۔میں ’’مَا خَلَقَ‘‘سے کنایہ عورتوں کی شرمگاہیں مراد ہیں اور وہ ہر مقام جہاں خلق کا لفظ کلام کے متعلق استعمال ہوا ہے اس سے جھوٹ ہی مراد ہیں اس بنا پر اکثر لوگ قرآن پاک کے متعلق خلق کا لفظ استعمال نہیں کیا کرتے تھے چنانچہ اسی معنیٰ میں فرمایا: (اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الۡاَوَّلِیۡنَ ) (۲۶۔۱۳۷) یہ تو اگلوں کے ہی طریق ہیں اور ایک قرأت میں (اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الۡاَوَّلِیۡنَ ) (۲۶۔۱۳۷) بھی ہے یعنی یہ تو پہلے لوگوں کی ایجاد و اختراع ہے۔ (مَا سَمِعۡنَا بِہٰذَا فِی الۡمِلَّۃِ الۡاٰخِرَۃِ ۚ ۖ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا اخۡتِلَاقٌ ) (۳۸۔۷) یہ پچھلے مذہب میں ہم نے کبھی سنی ہی نہیں۔یہ بالکل بنائی ہوئی بات ہے۔ خَلْقٌ کا لفظ مخلوق کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔خَلَقٌ اور خُلْقٌ اصل میں دونوں ایک ہی ہیں۔جیسے شَرْبٌ وَشُرْبٌ وَصَرْمٌ وَصُرْمٌ مگر ان میںاتنا فرق ہے کہ خَلْقٌ بمعنیٰ خِلقت یعنی اس شکل و صورت پر بولا جاتا ہے جس کا تعلق ادراک بصر سے ہوتا ہے اور خْلْق کا لفظ قویٰ باطنہ اور عادات و خصائل کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے جن کا تعلق بصیرت سے ہے۔ (3) قرآن پاک میں ہے: (وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ ) (۶۸۔۴) اور اخلاق تمہارے بہت(عالی) ہیں۔ اَلْخَلَاقُ: وہ فضیلت جو انسان اپنے اخلاق سے حاصل کرتا ہے۔قرآن پاک میںہے: (وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ ) (۲۔۲۰۰) ایسے لوگوں کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ فُلَانٌ خَلِیْقٌ بِکَذَا: فلاں اس کا اہل ہے گویا وہ خوبی اس میں پیدا کی گئی ہے۔جیسا کہ فُلَانٌ مَّجْبُولٌ عَلٰی کَذَا وَمَدْعُوٌّ اِلیْہِ مِنْ جِھَۃِ الْخَلْقِ کا محاورہ ہے۔ خَلَقَ الثَّوبُ وَاَخْلَقَ: کپڑے کا پرانا ہوجانا اور پرانے کپڑے کو خَلَقٌ وَمُخْلَقٌ وَاَخْلاقٌ کہا جاتا ہے جیسا کہ حَبٌْ اَرْمَامَ وَاَرْمَاتٌ کا محاورہ ہے اور کپڑے کے پرانا ہونے سے ملائم اور چکنا ہونے کا معنیٰ لیا جاتا ہے۔چنانچہ کہا جاتا ہے۔ جَبَلٌ اَخْلَقُ وَصَخْرَۃٌ خَلْقَآئُ: چکنا پہاڑ یا چکنا پتھر۔ خَلَّقْتُ الثَّوابَ: میں نے کپڑے کو پرانا کیا۔ اخْلَولَقَ السَّحَابُ اَنْ تُمطِرَ: امید ہے کہ بارش ہوگی۔یہ یا تو خَلَّقْتُ الثَّوْبَ سے ماخوذ ہے یاھُو خَلِیْقٌ بِکَذَا کے محاورہ سے لیا گیا ہے۔ اَلْخَلُوقُ: ایک قسم کا خوشبو۔
Surah:2Verse:21 |
پیدا کیا تم کو
created you
|
|
Surah:2Verse:29 |
پیدا کیا
created
|
|
Surah:2Verse:228 |
پیدا کیا
(has been) created
|
|
Surah:3Verse:47 |
پیدا کرتا ہے
creates
|
|
Surah:3Verse:49 |
میں بنادیتا ہوں
[I] design
|
|
Surah:3Verse:59 |
اس نے پیدا کیا ان کو
He created him
|
|
Surah:3Verse:191 |
تو نے پیدا کیا
You have created
|
|
Surah:4Verse:1 |
پیدا کیا تم کو
created you
|
|
Surah:4Verse:1 |
اور پیدا کیا
and created
|
|
Surah:4Verse:28 |
اور پیدا کیا گیا
and was created
|