Noun

بِنَآءً

a canopy

چھت

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
بَنَى
يَبْنِى
اِبْنِ
بَانٍ
مَبْنِىّ
بِنَاءً/بُنْيَان
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَنَیْتُ اَبْنِیْ بِنَائٌ وَبِنْیَۃً وَبُنْیًا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (وَّ بَنَیۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعًا شِدَادًا ) (۷۸:۱۲) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے۔ (وَ السَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡىدٍ ) (۵۱:۴۷) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا۔ (وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰہَا ۪) (۹۱:۵) اور آسمان اور اس ذات کی (قسم) جس نے اسے بنایا۔ اَلْبُنْیَانُ: یہ واحد ہے جمع نہیں ہے، جیساکہ آیات: (لَا یَزَالُ بُنۡیَانُہُمُ الَّذِیۡ بَنَوۡا رِیۡبَۃً فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ) (۹:۱۱۰) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں (موجب) خلجان رہے گی۔ (کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ) (۶۱:۴) کہ گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ (قَالُوا ابۡنُوۡا لَہٗ بُنۡیَانًا) (۳۷:۹۷) وہ کہنے لگے کہ اس کے لیے ایک عمارت بناؤ۔ سے معلوم ہوتا ہے: بعض کے نزدیک یہ بُنْیَانَۃٌ کی جمع ہے اور یہ: شَعِیْرٌ وَشَعِیْرَۃٌ وَتَمْرٌ وَتَمْرَۃٌ وَنَخْلٌ وَنَخْلَۃٌ کی طرح ہے (یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں) اور جمع کی اس قسم میں تذکیر و تانیث دونوں جائز ہوتے ہیں۔ (لَہُمۡ غُرَفٌ مِّنۡ فَوۡقِہَا غُرَفٌ مَّبۡنِیَّۃٌ ) (۳۹:۲۰) ان کے لیے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالاخانے بنے ہوئے ہیں۔ بِنَائٌ: (مصدر بمعنی مفعول) عمارت ج اَبْنِیَۃٌ اَلْبَنِیَّۃٌ سے بیت اﷲ مراد لیا جاتا ہے۔ (1) اَلْاِبْنُ یہ اصل میں بَنَوٌ ہے(2) کیونکہ اس کی جمع اَبْنَائٌ اور تصغیر بُنَیٌّ آتی ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (ٰبُنَیَّ لَا تَقۡصُصۡ رُءۡیَاکَ عَلٰۤی اِخۡوَتِکَ ) (۱۲:۵) کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔ (یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ ) (۳۷:۱۰۲) کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) تم کو ذبح کررہا ہوں۔ (یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ) (۳۱:۱۳) کہ بیٹا خدا کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ (یا بنی لا تعبد الشیطان) بیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے، اس لیے اسے ابن کہا جاتا ہے۔ کیونکہ باپ کو اﷲ تعالیٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تخلیق میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسری کے سبب اس کی تربیت، دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہو اسے بھی اس کا ابن کہہ دیا جاتا ہے، جیسے فُلَانٌ ابْنُ حَرْبِ۔ فلاں جنگجو ہے۔ اِبْنَ السَّبِیل: مسافر۔ اِبْنُ اللَّیل: چور۔ اِبْنُ الْعِلم: پروردۂ علم۔ شاعر نے کہا ہے(3) (۶۶) اُوْلَاکَ بَنُوْ خَیْرٍ وَشَرٍّ کَلَیْھِمَا یہ لوگ خیروشر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں۔ فُلَانٌ ابْنُ بَطْنِہٖ: پیٹ پرست۔ فُلَانٌ ابْنُ فَرْجِہٖ: شہوت پرست۔ اِبْنُ یَوْمِہٖ: جو کل کی فکر نہ کرے۔ قرآن میں ہے: (وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ) (۹:۳۰) اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں۔ (اِنَّ ابۡنِیۡ مِنۡ اَہۡلِیۡ ) (۱۱:۴۵) میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے۔ (اِنَّ ابۡنَکَ سَرَقَ) (۱۲:۸۱) کہ ابا! آپ کے صاحبزادے نے (وہاں جاکر) چوری کی۔ اِبْنٌ کی جمع اَبْنَاء اور بَنُونٌ آتی ہے۔ قرآن میں ہے: (وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ بَنِیۡنَ وَ حَفَدَۃً ) (۱۶:۷۲) اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے۔ (یٰبَنِیَّ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ ) (۱۲:۶۷) کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا۔ (یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ ) (۷:۳۱) اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنے تئیں مزین کیا کرو۔ (یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ لَا یَفۡتِنَنَّکُمُ الشَّیۡطٰنُ ) (۷:۲۷) اے بنی آدم! (دیکھنا کہیں) شیطان تمہیں بہکا نہ دے۔ اور اِبْنٌ کی مؤنث اِبْنَۃٌ وَبِنْتٌ اور ان کی جمع بَنَاتٌ آتی ہے، قرآن پاک میں ہے: (ہٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیۡ ہُنَّ اَطۡہَرُ لَکُمۡ ) (۱۱:۷۸) یہ (جو) میری (قوم کی) لڑکیاں ہیں، تمہارے لیے (جائز اور) پاک ہیں۔ (لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا لَنَا فِیۡ بَنٰتِکَ مِنۡ حَقٍّ ) (۱۱:۷۹) کہ تمہاری (قوم کی) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں۔ بعض کہتے ہیں(4) کہ حضرت لوط علیہ السلام نے اکابر قوم کو خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے(5) کہ بَنَاتِی سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بَنَاتِیْ اس لیے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لیے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیساکہ اَبٌ کی تشریح میں گزرچکا ہے اور آیت کریمہ: (وَ یَجۡعَلُوۡنَ لِلّٰہِ الۡبَنٰتِ ) (۱۶:۵۷) اور یہ لوگ خدا کے لیے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اﷲ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔

Lemma/Derivative

2 Results
بِناء