Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 231

سورة البقرة

وَ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ سَرِّحُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ ۪ وَ لَا تُمۡسِکُوۡہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعۡتَدُوۡا ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَہٗ ؕ وَ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًا ۫ وَّ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ الۡکِتٰبِ وَ الۡحِکۡمَۃِ یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۲۳۱﴾٪  13 الثلٰثۃ

And when you divorce women and they have [nearly] fulfilled their term, either retain them according to acceptable terms or release them according to acceptable terms, and do not keep them, intending harm, to transgress [against them]. And whoever does that has certainly wronged himself. And do not take the verses of Allah in jest. And remember the favor of Allah upon you and what has been revealed to you of the Book and wisdom by which He instructs you. And fear Allah and know that Allah is Knowing of all things.

جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدّت ختم کرنے پر آئیں تو اب انہیں اچھی طرح بساؤ ، یا بھلائی کے ساتھ الگ کر دو اور انہیں تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم وزیادتی کے لئے نہ روکو ، جو شخص ایسا کرے اس نے اپنی جان پر ظلم کیا تم اللہ کے احکام کو ہنسی کھیل نہ بناؤ اور اللہ کا احسان جو تم پر ہے یاد کرو اور جو کچھ کتاب و حکمت اس نے نازل فرمائی ہے جس سے تمہیں نصیحت کر رہا ہے ، اسےبھی ۔ اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی ہرچیز کو جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Being Kind to the Divorced Wife Allah Says; وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النَّسَاء فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ And when you have divorced women and they have fulfilled the term of their prescribed period, either take them back on a reasonable basis or set them free on a reasonable basis. This is a command from Allah to men that when one of them divorces his wife with a reversible divorce, he should treat her kindly. So when her term of Iddah (waiting period) nears its end, he either takes her back in a way that is better, including having witnesses that he has taken her back, and he lives with her with kindness. Or, he should release her after her Iddah finishes and then kindly asks her to depart from his house, without disputing, fighting with her or using foul words. Allah then said: وَلاَ تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لَّتَعْتَدُواْ But do not take them back to hurt them, Ibn Abbas, Mujahid, Masruq, Al-Hasan, Qatadah, Ad-Dahhak, Ar-Rabi and Muqatil bin Hayyan said that; a man used to divorce his wife, and when her Iddah came near its end, he would take her back to harm her and to stop her from marrying someone else. He then divorced her and she would begin her Iddah and when her Iddah term neared its end, he would take her back again, so that the term of Iddah would be prolonged for her. After that, Allah prohibited this practice. Allah has also threatened those who indulge in such practices, when He said; وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ...and whoever does that, then he has wronged himself. meaning, by defying Allah's commandments. Allah then said: وَلاَ تَتَّخِذُوَاْ ايَاتِ اللّهِ هُزُوًا And treat not the verses (Laws) of Allah in a jest, Ibn Jarir said that Abu Musa (Al-Ashari) narrated that; Allah's Messenger once became angry at the Ashari tribe. Abu Musa went to him and said, "O Messenger of Allah! Are you angry with the Ash`ariyyin" The Prophet said: يَقُولُ أَحَدُكُمْ قَدْ طَلَّقْتُ قَدْ رَاجَعْتُ لَيْسَ هَذَا طَلَقُ الْمُسْلِمِينَ طَلِّقُوا الْمَرْأَةَ فِي قُبُلِ عِدَّتِهَا One of you says, `I divorced her' -then says- `I took her back!' This is not the appropriate way Muslims conduct divorce. Divorce the woman when she has fulfilled the term of the prescribed period. Masruq said that; the Ayah refers to the man who harms his wife by divorcing her and then taking her back, so that the Iddah term is prolonged for her. Al-Hasan, Qatadah, Ata Al-Khurasani, Ar-Rabi and Muqatil bin Hayyan said, "He is the man who divorces his wife and says, `I was joking.' Or he frees a servant or gets married and says, `I was only joking.' Allah revealed: وَلاَ تَتَّخِذُوَاْ ايَاتِ اللّهِ هُزُوًا (And treat not the verses (Laws) of Allah in a jest). Then such men were made to bear the consequences of their actions. Allah then said: وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ ...but remember Allah's favors on you, meaning, by His sending His Messenger with the right guidance and clear signs to you. وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ ...and that which He has sent down to you of the Book (i.e., the Qur'an) and Al-Hikmah) (meaning the Sunnah), يَعِظُكُم بِهِ ...whereby He instructs you. meaning, commands you, forbids you and threatens you for transgressing His prohibitions. Allah said: وَاتَّقُواْ اللّهَ And fear Allah, meaning, concerning what you perform and what you avoid. وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ and know that Allah is All-Aware of everything. none of your secret or public affairs ever escapes His knowledge, and He will treat you accordingly.

آئین طلاق کی وضاحت: مردوں کو حکم ہو رہا ہے کہ جب وہ اپنی بیویوں کو طلاق دیں جن حالتوں میں لوٹا لینے کا حق انہیں حاصل ہے اور عدت ختم ہونے کے قریب پہنچ جائے یا عمدگی کے ساتھ لوٹائے یعنی رجعت پر گواہ مقرر کرے اور اچھائی سے بسانے کی نیت رکھے یا اسے عمدگی سے چھوڑ دے اور عدت ختم ہونے کے بعد اپنے ہاں بغیر اختلاف جھگڑے دشمنی اور بد زبانی کے نکال دے ، جاہلیت کے اس دستور کو اسلام نے ختم کر دیا کہ طلاق دے دی ، عدت ختم ہونے کے قریب رجوع کر لیا ، پھر طلاق دے دی پھر رجوع کر لیا ، یونہی اس دُکھیا عورت کی عمر برباد کر دیتے تھے کہ نہ وہ سہاگن ہی رہے نہ بیوہ ، تو اس سے اللہ نے روکا اور فرمایا کہ ایسا کرنے والا ظالم ہے ۔ پھر فرمایا اللہ کی آیتوں کو ہنسی نہ بناؤ ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشعری قبیلہ پر ناراض ہوئے تو حضرت ابو موسیٰ اشعری نے حاضرِ خدمت ہو کر ( ان اصلاحات طلاق کے بارے میں ) سبب دریافت کیا ، آپ نے فرمایا کیونکہ یہ لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ میں نے طلاق دی ، میں نے رجوع کیا ۔ یاد رکھو مسلمانوں کی یہ طلاقیں نہیں ۔ عورتوں کی عدت کے مطابق طلاقیں دو ۔ اس حکم کا یہ بھی مطلب لیا گیا ہے کہ ایک شخص ہے جو بلاوجہ طلاق دیتا ہے اور عورت کو ضرر پہنچانے کیلئے اور اس کی عدت لمبی کرنے کیلئے رجوع ہی کرتا چلا جاتا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک شخص ہے جو طلاق دے یا آزاد کرے یا نکاح کرے پھر کہہ دے کہ میں نے تو ہنسی ہنسی میں یہ کیا ۔ ایسی صورتوں میں یہ تینوں کام فی الحقیقت واضح ہو جائیں گے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی پھر کہہ دیا کہ میں نے تو مذاق کیا تھا ، اس پر یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ طلاق ہو گئی ( ابن مردویہ ) حسن بصری فرماتے ہیں کہ لوگ طلاق دے دیتے ، آزاد کر دیتے ، نکاح کر لیتے اور پھر کہہ دیتے کہ ہم نے بطور دِل لگی کے یہ کیا تھا ، اس پر یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو طلاق یا غلام آزاد کرے یا نکاح کرا دے خواہ پختگی کے ساتھ خواہ ہنسی مذاق میں وہ سب ہو گیا ( ابن ابی حاتم ) یہ حدیث مرسل اور موقوف کئی سندوں سے مروی ہے ۔ ابو داؤد ترمذی اور ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ پکے ارادے سے ہوں ، دِل لگی سے ہوں تو تینوں پر اطلاق ہو جائے گا ۔ نکاح ، طلاق اور رجعت ۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں ۔ اللہ کی نعمت یاد کرو کہ اس نے رسول بھیجے ہدایت اور دلیلیں نازل فرمائیں ، کتاب اور سنت سکھائی حکم بھی کئے ، منع بھی کئے وغیرہ وغیرہ ۔ جو کام کرو اور جو کام نہ کرو ہر ایک میں اللہ جل شانہ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ اور ہر ظاہر کو بخوبی جانتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

231۔ 1 (الطلاق مرتن) میں بتلایا گیا تھا کہ دو طلاق تک رجوع کرنے کا اختیار ہے اس آیت میں کہا جا رہا ہے کہ رجوع عدت کے اندر اندر ہوسکتا ہے عدت گزرنے کے بعد نہیں اس لئے یہ تکرار نہیں ہے جس طرح کے بظاہر ہے۔ 132۔ 2 بعض لوگ مذاق میں طلاق دے دیتے یا نکاح کرلیتے یا آزاد کردیتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں میں نے تو مذاق کیا تھا اللہ نے اسے آیات الٰہی سے استہزاء قرار دیا جس سے مقصود اس سے روکنا ہے اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مذاق سے بھی اگر کوئی مذکورہ کام کرے گا تو وہ حقیقت ہی سمجھا جائے گا اور مذاق کی طلاق یا نکاح یا آزادی نافذ ہوجائے گی (تفسیر ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١٣] یہاں اس معاشرتی برائی کا بیان ہے۔ جس کا ذکر پہلے آیت نمبر ٢٢٩ کے حاشیہ نمبر ١ میں کردیا گیا ہے۔ یعنی جب تم ایک یا دو طلاقیں دے چکو پھر ان کی عدت پوری ہونے کو آئے تو اس وقت تمہارے لیے دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ خلوص نیت سے ان سے رجوع کرو اس ارادہ سے کہ آئندہ اسے درست طور پر بسانا ہے یا پھر انہیں کچھ دے دلا کر شریفانہ طور پر رخصت کرو۔ اور اگر تم نے رجوع کر کے انہیں تنگ کرنے، ستانے اور ان پر زیادتی کرنے کی روش اختیار کی تو یاد رکھو اس ظلم و زیادتی کا وبال تمہیں اللہ کے ہاں بھگتنا پڑے گا۔ [٣١٤] مذاق اڑانے کا مطلب یہ ہے کہ طرح طرح کی حیلہ سازیوں سے اللہ تعالیٰ کی آیات اور احکام کا ایسا مطلب نکالا جائے جو اس کے واضح مفہوم اور اس کی روح کے منافی ہو اور ایسا مذاق اڑانے کی واضح مثال نکاح حلالہ ہے اور اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں ایک شخص نے اپنی عورت کو بیک وقت تین طلاقیں دے دیں۔ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو غصہ کی وجہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میری زندگی میں اللہ کے احکام سے یوں کھیلا جانے لگا ہے۔ جب کہ ابھی میں تم میں موجود ہوں۔ (نسائی، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث المتفرقہ) اس طرح تو اپنی اغراض کی خاطر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم سے اس کی اصل روح کو فنا کر کے اسے الفاظ کی قید میں مقید کر کے اور فقہی موشگافیاں پیدا کر کے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے اور اسی بات پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہہ فرمائی ہے کہ اللہ نے ان احکام میں جو حکمتیں اور مصلحتیں رکھی ہیں۔ ان احکام کا مذاق اڑا کر ان کا ستیاناس ہی نہ کردینا اور اس سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ اس کا مطلب عدت ختم ہونا نہیں، بلکہ عدت ختم ہونے کے قریب ہونا ہے۔ اس کی دلیل پیچھے گزرا ہوا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (ۭوَبُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِيْ ذٰلِكَ ) [ البقرۃ : ٢٢٨ ]” اور ان کے خاوند اس مدت میں انھیں واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔ “ وَبُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِيْ ذٰلِكَ یعنی اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق رجعی دو تو ان کی عدت پوری ہونے سے پہلے پہلے تمہیں رجوع کا حق پہنچتا ہے، مگر یہ رجوع محض انھیں ستانے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے نہ ہو، کیونکہ ایسا کرنا ظلم و زیادتی اور احکام الٰہی سے مذاق کرنا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تین چیزیں ایسی ہیں کہ جنھیں کوئی سنجیدگی سے کہے تو وہ سنجیدہ ہیں اور ہنسی مذاق میں کہے تب بھی وہ سنجیدہ ہیں، نکاح، طلاق اور رجوع۔ “ [ أبو داوٗد، الطلاق، باب فی الطلاق علی الھزل : ٢١٩٤۔ ابن ماجہ : ٢٠٣٩۔ ترمذی، ابن حجر، سیوطی اور البانی (رح) نے اسے حسن کہا ہے ] مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَةِ : یہاں ” وَالْحِكْمَةِ “ سے مراد سنت ہے، یعنی کتاب و سنت کی جو نعمت تم پر نازل کی ہے اسے مت بھولو۔ یہ دونوں وحی الٰہی ہیں اور دلیل ہونے میں دونوں برابر ہیں۔ لہٰذا منکر حدیث کا بھی وہی حکم ہے جو منکر قرآن کا ہے، مطلب یہ کہ ان آیات میں بیان کردہ گھریلو مسائل کو حدیث پاک کی روشنی میں زیر عمل لانا ضروری ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary: In the previous two verses, it will be recalled, important rules of the law of talaq (divorce) were given. Also delineated there was the just and moderate system of divorce in Islam. Now some other relevant injunctions and rulings have been mentioned in the verses under discussion (231 - 232). Special instructions for revocation of divorce or annulment of marriage The first rule given in the first verse is: When women divorced revocably reach near the completion of their ` iddah (waiting period), the husband has two choices; either he may revoke his divorce and let her continue to be married to him or he may not revoke his divorce, discontinue the nikah relationship and release her totally. But along with both these choices, the noble Qur&an places a restriction which requires that a wife, if retained, must be retained in accordance with a manner well-recognized and should it come to a parting of ways, even then, the parting should be in accordance with the rule as approved by the Shari&ah. Here, the word (in fairness), which appears separately at both the places, suggests that there are some conditions and rules governing the choice of retaining, similarly as there are, in the choice of releasing. When choice is made from either of the two options, it must be done in accordance with the method prescribed by the Shari` ah and not under the heat of spot anger or sentiments. Some of these rules of Islamic law appear in the Qur&an itself. Rest of the details have been given by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) For instance, should the thought of ugly consequences of separation after the incident of divorce produce a change of heart in favour of revoking it and keeping the marriage intact, then the Shari&ah has a method. It stipulates that the purpose in doing so should be to wash out past anger and displeasure and resolve to live anew in good family relationship with intention to give her the due rights. The purpose should not be to hold the woman in captivity or to harass and torture her. Therefore, the following words were said in the verse under reference: وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَ‌ارً‌ا لِّتَعْتَدُوا ، that is, &do not retain them with intent to harm them unjustly&. The other method of rajah (revocation) has been mentioned in Surah Al-Talaq: وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّـهِ And let two trustworthy persons from amongst you be wit¬nesses; then, let witness be given if needed, precisely for the sake of Allah, (without fear or favour). (65:2) It means that anyone intending to take his wife back by raj&a راجع (revocation) should invite two trustworthy Muslims to act as witnesses. Out of the many advantages it has, one is the possible use of these witnesses in case there is a legal claim against raj’ a راجع filed by the woman. Moreover, if the rule of having witnesses on raj’ a راجع is not observed there is a possibility that someone, out of selfishness or Satanic instigation, comes up with a claim, even after the ` iddah has expired, that he had already done his raj’ a راجع (revocation) before the expiry of ` iddah (waiting period). In Order to eradicate these evils, the Holy Qur&an has directed that the act of revocation should have two trustworthy witnesses. Looking at the other side of the matter, it is also possible that hearts remain heavy and anger does not go away even after the long span of ` iddah which has given them sufficient time for thinking. So, a termination of relationship may seem to be the choice, in which case the danger of hostile emotions flaring up is acute, which again may become contagious -- starting from two persons, it could envelope two families and could become, for both, a danger for both this world and the Hereafter. To offset this danger, it was briefly said: أَوْ سَرِّ‌حُوهُنَّ بِمَعْرُ‌وفٍ ‘Or release them in fairness,& that is, if you have to leave or free a wife and sever your relationship with her, that too, must be done in accordance with the recognised method. Some details of this method are given in the noble Qur&an itself; rest of the details stand proved through what the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said and did. For instance, in the preceding verse, it was said: وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا that is, do not take back (without a valid ground admitted by the Islamic Law) that which you have already given to the woman as mahr (dower), in return for the divorce, or go about demanding some other compensation. Then, in the following verse, it was said: وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُ‌وفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿٢٤١﴾, that is, &for all divorced women, there is some benefit as recognized rightly due on those who fear Allah&. The explanation of: مَتَاعٌ mata` or compensatory benefit to be given to a divorced wife is that she should be given some present or cash or a set of clothing at the least. Thus the fulfillment of some rights of the divorced wife has been made mandatory for the divorcing husband while the fulfillment of some others has been assigned to him in the form of kind treatment and good conduct. This is a chaste lesson in high morals and social manners which points to the fact that, just as the marriage was a transaction and mutual contract, the divorce is the termination of a transaction. There is no reason why the termination of this transaction should be a hotbed of enmity and hostility. The final annulment of the transaction should also be done decently and compassionately, that is, following talaq, the divorced wife should be given some benefits. The details of this &benefit° are that he should allow her to stay in the family house during ` iddah, pay for her total sustenance, pay the full amount of mahr (dower) if still unpaid while intercourse has already occurred; and in case the incident of divorce has occurred before intercourse, then half of the dower should be paid in good cheer. All these are obligatory rights which have to be given to a divorced woman necessarily; however, it is not only desirable but excellent as well, if the divorced wife, on her parting day, goes with some cash or at the least, with a set of clothing as parting gift. Subhan Allah سبحان اللہ ، what a decent teaching it is -- all that customarily causes quarrels and fights and takes families to ruin has been so wisely transformed into everlasting goodwill and peace. After all these injunctions, it was said: وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ that is, anyone who acts against these divine commands will harm none but himself. It is obvious that Hereafter (the life to come) will be the place where every injustice and cruelty will be avenged in the sight of Allah and the oppressor is not going to move one step forward unless the oppressed is avenged. If we ponder with discernment and hindsight, we shall discover that, if some oppressor gets away with his cruelty against the oppressed, the evil consequences of this act do disgrace him, more than often, right here in this world. He may or may not comprehend it, but fairly often, he is overtaken by misfortunes which make him taste at least some retribution of his oppression during his life of the mortal world. This is what Shaykh Sa&di, mercy be on him, said in a Persian couplet: پیداشت ستمگر کہ جفا برما کرد برگردنِ ---- بماند و برما بگزشت The oppressor presumed that he had hit me. But his weapon boomeranged back into his neck while it sailed past me! The noble Qur&an has an approach which is wise, and a style that is special, when it does not describe law in the manner penal laws of the world are described. It rather explains its injunctions in a sympathetic and persuasive manner, showing its wisdom and describing the series of losses man suffers while acting against it, which, if duly understood, will render one incapable of embarking on such crimes. So, behind every law there comes the reminder that man must fear Allah and that man should never forget his accountability in the Hereafter. Do not make a marriage and divorce a plaything The second rule presented in this verse is that the word of Allah should not be taken lightly as some amusement: وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّـهِ هُزُوًا ‘And do not take the verses of Allah in jest.& According to one explanation of the expression -- playing games with the verses of Allah or making a mockery of it -- means acting against Divine ordinances in matters of marriage and divorce. The second explanation reported from Sayyidna Abu al-Darda& (رض) is that some people during pre-Islam Arabia would give divorce or free a slave, then they would go back on their word and start saying that this was all in fun; talaq (divorce) or ` itaq (to free a slave) was not intended. Thereupon, this verse was revealed which gave the ruling that anyone going through divorce and marriage, even if it be playfully or jokingly, would find these enforced and the plea of &having no intention& will not be accepted as valid. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said that there are three things in which acting seriously, or in jest, are both equal: One -- talaq (divorce); two - ` itaq (to free a slave); three -- nikah (marriage) (reported by Ibn Marduwayh from Ibn al-&Abbas and Ibn a1-Mundhir from ` Ubadah ibn al-Samit). This hadith has been reported from Sayyidna Abu Hurayrah (رض) in the following words: ثلاث جدھن جَد و ھزلھن جَد : النکاح و الطلاق والرجعۃ It means that there are three things which take effect equally whether done seriously or jokingly. These are: The marriage, the divorce and the revocation of divorce. (Mazhari) The Islamic law governing these three is: Should a man and a woman go through the process of offer and acceptance before witnesses, even if it be without any intention or just in jest, the marriage stands solemnized anyway. Similarly, if divorce is given in clear words, without any intention, or just in jest, divorce takes effect; or revocation, if done, becomes valid too. Similarly again, if a slave is playfully declared to be free, the slave becomes free. Jest or fun are not taken as valid excuses. After stating this injunction, the noble Qur&an then educates man, in its unique style, how he should obey Allah Almighty and fear the consequences of the life to come (akhirah). It was said: وَاذْكُرُ‌وا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿٢٣١﴾ That is, And remember the grace of Allah on you and what He has revealed to you of the Book and the wisdom giving you good counsel thereby. And fear Allah, and be sure that Allah is all-knowing in respect of everything& It means: He knows the secrets hidden in your hearts, your intentions and your purposes. Therefore, when you have to release your wife from your marriage bond by giving divorce, you should do so with the intention of avoiding mutual disputes, loss of mutual rights and doing injustice, and not with the intention of releasing anger on your wife or disgracing or hurting her. The basic rules of giving a divorce The third rule identified in this verse is: Should a man be left with no other option but divorce, then the basic and true method in the view of Shari&ah and Sunnah is that he should give one revocable divorce in clear and unambiguous words so that the choice of taking the wife back remains open. Words that cause sudden severance of marriage relationship should not be spoken. This is known as al-talaq al-ba` in الطلاق الباین ، the divorce that cannot be revoked. In addition to this, reaching three talaqs must be avoided following which even fresh marriage between the couple becomes haram (unlawful). This point is indicated by the use of the universal and unqualified words in طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ (when you have divorced women), because the injunction contained in this verse covers only one or two revocable talaqs. It does not concern the irrevocable three talaqs; but the Holy Qur&an, by not mentioning any related qualification, has suggested that the real talaq (divorce) is none other than the revocable talaq as approved by the Shari&ah. Other forms are not devoid of repugnance or undesirability.

خلاصہ تفسیر : حکم نمبر ٢٨ عورتوں کو معلق رکھنے کی ممانعت : اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی ہو پھر وہ اپنی عدت گزرنے کے قریب پہنچ جائیں تو تم ان کو قاعدہ کے موافق (رجعت کرکے) نکاح میں رہنے دو یا قاعدے کے موافق ان کو رہائی دو اور ان کو تکلیف پہنچانے کی غرض سے مت روکو اس ارادہ سے کہ ان پر ظلم کیا جائے اور جو شخص ایسا برتاؤ کرے گا تو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اور حق تعالیٰ کے احکام کو کھیل نہ بناؤ اور حق تعالیٰ کی جو تم پر نعمتیں ہیں ان کو یاد کرو اور خصوصاً کتاب و حکمت کی باتوں کو جو اللہ تعالیٰ نے تم پر (اس حیثیت سے) نازل فرمائی کہ ان کے ذریعے تم کو نصیحت فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یقین رکھو کا اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں۔ حکم نمبر ٢٩ عورتوں کو نکاح ثانی سے منع کرنے کی ممانعت : اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دو اور عورتیں اپنی میعاد عدت پوری کرچکیں تو تم ان کو اس امر سے مت روکو کہ وہ اپنے (تجویز کئے ہوئے) شوہروں سے نکاح کرلیں جبکہ باہم سب رضامند ہوجائیں قاعدہ کے موافق اس مضمون سے نصیحت کی جاتی ہے اس شخص کو جو تم میں سے اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر یقین رکھتا ہو اس نصیحت کا قبول کرنا تمہارے لئے زیادہ صفائی اور زیادہ پاکی کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ (تمہاری مصلحتوں کو) جانتے ہیں تم نہیں جانتے۔ معارف و مسائل : ان سے پہلے بھی دو آیتوں میں قانون طلاق کی اہم دفعات اور اسلام میں طلاق کا عادلانہ اور معتدلانہ نظام قرآن کریم کے حکیمانہ اسلوب کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے اب مذکور الصدر دو آیتوں میں چند احکام و مسائل مذکور ہیں۔ احکام طلاق کے بعد رجعت یا انقطاع نکاح دونوں کے لئے خاص ہدایات : پہلی آیت میں پہلا مسئلہ یہ ارشاد ہوا ہے کہ جب مطلقہ رجعی عورتوں کی عدت گذرنے کے قریب آئے تو شوہر کو دو اختیار حاصل ہیں، ایک یہ کہ رجعت کرکے اس کو اپنے نکاح میں رہنے دے دوسرے یہ کہ رجعت نہ کرے اور تعلق نکاح ختم کرکے اس کو بالکل آزاد کردے۔ لیکن دونوں اختیاروں کے ساتھ قرآن کریم نے یہ قید لگائی کہ رکھنا ہو تو قاعدہ کے مطابق رکھا جائے اور چھوڑنا ہو تب بھی شرعی قاعدے کے مطابق چھوڑا جائے اس میں بالْمَعْرُوْفِ کا لفظ دونوں جگہ علیٰحدہ علیٰحدہ لاکر اس کی طرف اشارہ فرمادیا ہے کہ رجعت کے بھی کچھ شرائط اور قواعد ہیں اور آزاد کرنے کے لئے بھی دونوں حالتوں میں سے جس کو بھی اختیار کرے شرعی قاعدے کے موافق کرے محض وقتی غصے یا جذبات کے ماتحت نہ کرے دونوں صورتوں کے شرعی قواعد کا کچھ حصہ تو خود قرآن میں بیان کردیا گیا ہے باقی تفصیلات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی ہیں۔ مثلا اگر واقعہ طلاق کے بعد مفارقت کے ناگوار عواقب کا خیال کرکے رائے یہ ہوجائے کہ رجعت کرکے نکاح قائم رکھنا ہے تو اس کے لئے شریعت کا قاعدہ یہ ہے کہ پچھلے غصہ وناراضی کو دل سے نکال کر حسن معاشرت کے ساتھ زندگی گذارنا اور حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھنا پیش نظر ہو عورت کو اپنی قید میں رکھ کر ستانا اور تکلیف پہنچانا مقصود نہ ہو اسی کے لئے آیت متذکرہ میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے گئے، وَلَا تُمْسِكُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا یعنی عورتوں کو اپنے نکاح میں اس لئے نہ روکو کہ ان پر ظلم کرو۔ دوسرا قاعدہ رجعت کا یہ ہے جو سورة طلاق میں ذکر کیا گیا ہے، وَّاَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ وَاَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ (٢: ٦٥) اور آپس میں سے دو معتبر شخصوں کو گواہ کرلو پھر اگر گواہی کی حاجت پڑے تو ٹھیک ٹھیک اللہ کے واسطے بلا رو رعایت گواہی دو ۔ مطلب یہ ہے جب رجعت کا ارادہ کرو تو اس پر دو معتبر مسلمانوں کو گواہ بنالو اس میں کئی فائدے ہیں ایک یہ کہ اگر عورت کی طرف سے رجعت کے خلاف کوئی دعویٰ ہو تو اس گواہی سے کام لیا جاسکے۔ دوسرے خود انسان کو اپنے نفس پر بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے اگر رجعت پر شہادت کا قاعدہ نہ جاری کیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص عدت پوری گزر جانے کے بعد بھی اپنی غرض یا شیطانی اغواء سے یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ میں نے عدت گذرنے سے پہلے رجعت کرلی تھی۔ ان مفاسد کے انسداد کے لئے قرآن نے یہ قاعدہ مقرر فرمادیا کہ رجعت کرو تو اس پر دو معتبر گواہ بنالو۔ معاملہ کا دوسرا رخ یہ تھا کہ عدت کی مہلت اور غور وفکر کا وقت ملنے کے باوجود دلوں کا انقباض اور ناراضی ختم نہ ہوئی اور قطع تعلق ہی برقرار رکھنا ہے تو اس صورت میں بہت اندیشہ ہوتا ہے کہ دشمنی اور انتقامی جذبے بھڑک اٹھیں جن کا اثر دو شخصوں سے متعدی ہو کردو خاندانوں تک پہنچ سکتا ہے اور طرفین کی دنیا وآخرت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اس کے انسداد کے لئے مختصر طور پر تو یہی ارشاد فرمایا گیا کہ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ یعنی چھوڑنا اور قطع کرنا ہی ہو تو وہ بھی قاعدے کے موافق کریں اس قاعدے کی کچھ تفصیلات خود قرآن کریم میں مذکور ہیں باقی تفصیلات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قولی اور عملی بیان سے ثابت ہیں۔ مثلاً اس سے پہلی آیت میں ارشاد فرمایا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا یعنی بلا کسی عذر شرعی کے ایسا نہ کرو کہ عورت سے طلاق کے معاوضہ میں اپنا دیا ہوا سامان یا مہر واپس لے لو یا کچھ اور معاوضہ طلب کرو۔ اور اس کے بعد کی ایک آیت میں ارشاد فرمایا، وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭحَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ (٢٤١: ٢) سب طلاق دی ہوئی عورتوں کے لئے کچھ فائدہ پہنچانا قاعدہ کے موافق مقرر ہوا ہے، ان پر جو اللہ سے ڈرتے ہیں |" فائدہ پہنچانے کی تفسیر، رخصت کے وقت مطلقہ عورت کو کچھ تحفہ نقد یا کم از کم ایک ایک جوڑا کپڑے کا دینا ہے اس میں طلاق دینے والے شوہر پر مطلقہ بی بی کے کچھ حقوق واجب و لازم کرکے اور کچھ بطور احسان و سلوک کے عائد کردیئے گئے ہیں جو بلند اخلاق اور حسن معاشرت کی پاکیزہ تعلیم اور جس میں اس طرف ہدایت ہے کہ جس طرح نکاح ایک معاملہ اور باہمی معاہدہ تھا اسی طرح طلاق بھی ایک معاملہ کا ختم کرنا ہے اس فسخ معاملہ کو دشمنی اور جنگ وجدل کا سامان بنانے کی کوئی وجہ نہیں، معاملہ کا انقطاع بھی خوب صورتی اور حسن سلوک کے ساتھ ہونا چاہئے کہ طلاق کے بعد مطلقہ بی بی کو فائدہ پہنچایا جائے۔ اس فائدہ کی تفصیل یہ ہے کہ ایام عدت میں اس کو اپنے گھر میں رہنے دے اس کا پورا خرچ برداشت کرے اگر مہر اب تک نہیں دیا ہے اور خلوت ہوچکی تو پورا مہر ادا کرے اور خلوت سے پہلے ہی طلاق کا واقعہ پیش آگیا ہے تو آدھا مہر خوش دلی کے ساتھ ادا کرے، یہ تو سب حقوق واجبہ ہیں جو طلاق دینے والے کو لازمی طور ادا کرنا ہیں اور مستحب اور افضل یہ بھی ہے کہ مطلقہ بی بی کو رخصت کرنے کے وقت کچھ نقد یا کم ازکم ایک جوڑا دے کر رخصت کیا جائے، سبحان اللہ کیا پاکیزہ تعلیم ہے کہ جو چیزیں عرفا جنگ وجدال اور لڑائی جھگڑے کے اسباب اور خاندانوں کی تباہی تک پہنچانے والی ہیں ان کو دائمی محبت ومسرت میں تبدیل کردیا گیا۔ ان سب احکام کے بعد ارشاد فرمایا : وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ یعنی جو شخص ان حدود خداوندی کے خلاف کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا آخرت میں تو ظاہر ہے کہ وہاں ہر ظلم وجور کا انتقام بارگاہ خداوندی میں لیا جائے گا اور جب تک مظلوم کا بدلہ ظالم سے نہ لے لیا جائے گا آگے نہ بڑھے گا۔ اور دنیا میں بھی اگر بصیرت اور تجربہ کے ساتھ غور کیا جائے تو نظر آئے گا کوئی ظالم بظاہر تو مظلوم پر ظلم کرکے اپنا دل ٹھنڈا کرلیتا ہے، لیکن اس کے نتائج بد اس دنیا میں بھی اس کو اکثر ذلیل و خوار کرتے ہیں، اور وہ سمجھے یا نہ سمجھے اکثر ایسی آفتوں میں مبتلا ہوتا ہے کہ ظلم کا نتیجہ اس کو دنیا میں بھی کچھ نہ کچھ چکھنا پڑتا ہے، اسی کو شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے فرمایا : پنداشت ستمگر کہ جفا برما کرد بر گردن وے بماند وبرما بگذشت قرآن کریم کا اسلوب حکیم اور خاص انداز بیان ہے کہ وہ قانون کو دنیا کے قوانین تعزیرات کی طرح بیان نہیں کرتا بلکہ مربیانہ انداز میں قانون کا بیان اس کی حکمت و مصلحت کی وضاحت اس کے خلاف کرنے میں انسان کی مضرت و نقصان کا ایسا سلسلہ بیان کرتا ہے جس کو دیکھ کر کوئی انسان جو انسانیت کے جامے سے باہر نہ ہو ان جرائم پر اقدام کر ہی نہیں سکتا ہر قانون کے پیچھے خدا کا خوف وآخرت کا حساب دلایا جاتا ہے۔ نکاح و طلاق کو کھیل نہ بناؤ : دوسرامسئلہ : اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو کھیل نہ بناؤ وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰيٰتِ اللّٰهِ ھُزُوًا کھیل بنانے کی ایک تفسیر تو یہ ہے کہ نکاح و طلاق کے لئے اللہ تعالیٰ نے حدود وشروط مقرر کردیئے ہیں ان کی خلاف ورزی کرنا اور دوسری تفسیر حضرت ابوالدرداء سے منقول ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بعض لوگ طلاق دے کر یا غلام آزاد کرکے مکر جاتے اور کہتے تھے کہ میں نے تو ہنسی مذاق میں کہہ دیا تھا طلاق یا عتاق کی نیت نہیں تھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے یہ فیصلہ کردیا کہ طلاق ونکاح کو اگر کسی نے کھیل یا مذاق میں بھی پورا کردیا تو وہ نافذ ہوجائیں گے نیت نہ کرنے کا عذر مسموع نہ ہوگا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں ہنسی کے طور پر کرنا اور واقعی طور پر کرنا دونوں برابر ہیں۔ ایک طلاق دوسرے عتاق، تیسرے نکاح (اخرجہ ابن مردویہ عن ابن عباس وابن المنذر عن عبادۃ بن الصامت) اور حضرت ابوہریرہ سے اس حدیث میں یہ الفاظ منقول ہیں : ثلاث جدہن جد وھز لھن جد النکاح والطلاق والرجعۃ۔ |" یعنی تین چیزیں ایسی ہیں جن کو قصد و ارادہ سے کہنا اور ہنسی مذاق کے طور پر کہنا برابر ہے ایک نکاح دوسرے طلاق تیسری رجعت (مظہری) ان تینوں چیزوں میں حکم شرعی یہ ہے کہ دو مرد و عورت اگر بلاقصد نکاح ہنسی ہنسی میں گواہوں کے سامنے نکاح کا ایجاب و قبول کرلیں تو بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے اسی طرح اگر بلاقصد ہنسی ہنسی میں صریح طور پر طلاق دیدے تو طلاق ہوجاتی ہے یا رجعت کرے تو رجعت ہوجاتی ہے ایسے ہی کسی غلام کو ہنسی میں آزاد کرنے کو کہہ دے تو غلام باندی آزاد ہوجاتے ہیں ہنسی مذاق کوئی عذر نہیں مانا جاتا۔ اس حکم کے بیان کے بعد پھر قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز میں انسان کو حق تعالیٰ کی اطاعت اور آخرت کے خوف کا سبق دیا ارشاد فرمایا : وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهٖ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ یعنی یاد کرو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو جو تم پر نازل فرمائی اور یاد کرو اس خاص نعمت کو جو کتاب و حکمت کی صورت میں تمہیں دی گئی اور اللہ سے ڈرو اور یہ سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں تمہاری نیتوں اور ارادوں اور دلوں میں چھپے ہوئے بھیدوں سے باخبر ہیں اس لئے اگر بیوی کو طلاق دے کر آزاد ہی کرنا ہو تو باہمی نزاع اور ایک دوسرے کی حق تلفی اور ظلم سے بچنے بچانے کی نیت سے کرو غصہ کے انتقام یا بیوی کو ذلیل و رسوا کرنے یا تکلیف پہنچانے کی نیت سے نہ کرو۔ طلاق میں اصل یہی ہے کہ صریح اور رجعی طلاق دی جائے : تیسرا مسئلہ : جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ شریعت وسنت کی نظر میں اصل یہی ہے کہ کوئی آدمی اگر طلاق دینے پر مجبور ہی ہوجائے تو صاف وصریح لفظوں میں ایک طلاق رجعی دیدے تاکہ عدت تک رجعت کا حق باقی رہے ایسے الفاظ نہ بولے جن سے فوری طور پر تعلق زوجیت منقطع ہوجائے جس کو طلاق بائن کہتے ہیں اور نہ تین طلاق تک پہنچے جس کے بعد آپس میں نکاح جدید بھی حرام ہوجائے۔ یہ اشارہ لفظ، طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ کو مطلق بلاقید کے ذکر کرنے سے حاصل ہوا کیونکہ جو حکم اس آیت میں بتلایا ہے وہ اگرچہ صرف طلاق رجعی ایک دو تک کے لئے ہے طلاق بائن یا تین طلاق کا یہ حکم نہیں مگر قرآن کریم نے کوئی قید اس کی ذکر نہ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ اصل طلاق مشروع رجعی طلاق ہی ہے دوسری صورتیں کراہت یا ناپسندیدگی سے خالی نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِكُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ۝ ٠ ۠ وَلَا تُمْسِكُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا۝ ٠ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۝ ٠ ۭ وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰيٰتِ اللہِ ھُزُوًا۝ ٠ ۡ وَّاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَۃِ يَعِظُكُمْ بِہٖ۝ ٠ ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝ ٢٣١ ۧ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ مسك إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] ، أي : يحفظها، ( م س ک ) امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہتہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے سرح السَّرْحُ : شجر له ثمر، الواحدة : سَرْحَةٌ ، وسَرَّحْتُ الإبل، أصله : أن ترعيه السَّرْحَ ، ثمّ جعل لكلّ إرسال في الرّعي، قال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ [ النحل/ 6] ، والسَّارِحُ : الرّاعي، والسَّرْحُ جمع کا لشّرب «2» ، والتَّسْرِيحُ في الطّلاق، نحو قوله تعالی: أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] ، وقوله : وَسَرِّحُوهُنَّ سَراحاً جَمِيلًا [ الأحزاب/ 49] ، مستعار من تَسْرِيحِ الإبل، کالطّلاق في كونه مستعارا من إطلاق الإبل، واعتبر من السّرح المضيّ ، فقیل : ناقة سَرْحٌ: تسرح في سيرها، ومضی سرحا سهلا . والْمُنْسَرِحُ : ضرب من الشّعر استعیر لفظه من ذلك . ( س ر ح) السرح ایک قسم کا پھلدار درخت ہے اس کا واحد سرحۃ ہے اور سرحت الابل کے اصل معنی تو اونٹ کو سرح ، ، درخت چرانے کے ہیں بعدہ چراگاہ میں چرنے کے لئے کھلا چھوڑ دینے پر اس کا استعمال ہونے لگا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ [ النحل/ 6] اور جب شام کو انہیں ( جنگل سے ) لاتے ہو اور جب صبح کو ( جنگل ) چرانے لے جاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت وشان ہے ۔ اور چروا ہے کو ، ، سارح کہاجاتا ہے اس کی جمع سرح ہے جیسے شارب کی جمع شرب ( اور راکب کی جمع رکب ) آتی ہے اور تسریح کا لفظ طلاق دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا : أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔ اور اسی طرح آیت : وَسَرِّحُوهُنَّ سَراحاً جَمِيلًا[ الأحزاب/ 49] اور ان کو کچھ فائدہ ( یعنی خرچ ) دے کر اچھی طرح سرے رخصت کردو ۔ میں بھی سرحوھن کے معنی طلاق دینے کے ہیں اور یہ تسریح سے مستعار ہے جس کے معنی جانوروں کو چرنے کے لئے چھوڑ دینا کے ہیں ۔ جیسا کہ خود طلاق کا لفظ اطلاق الابل ( اونٹ کا پائے بند کھولنا) کے محاورہ سے مستعا رہے ۔ اور کبھی سرح ، ، میں تیز روی کے معنی کا اعتبار کر کے تیز رو اور سہل رفتار اونٹنی کو ناقۃ سرح کہاجاتا ہے اور اسی سے بطور ستعارہ شعر کے ایک بحر کا نام منسرح رکھا گیا ہے ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ هزؤ والاسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ( ھ ز ء ) الھزء الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ وعظ الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] ( و ع ظ ) الوعظ کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مطلقہ بیوی سے رجوع کرنے میں نقصان کا ارادہ نہ ہونا قول باری ہے (و اذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف، اور جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو معروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے انہیں رخصت کر دو ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (بلغن اجلھن) سے مراد حقیقت اجل نہیں جو عدت ہے بلکہ اس سے مراد اس کے خاتمے کے قریب پہنچ جانا ہے کیونکہ حقیقی معنی لینے کی صورت میں اجل کو پہنچ جانے کا مطلب عدت کا گزر جانا ہوگا جبکہ عدت کے گزر جانے کے بعد رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ عدت کو لفظ اجل سے متعدد مقامات پر تعبیر کیا گیا ہے۔ ان میں سے یہ قول باری (فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او فارقوھن بمعروف) اس کا معنی بھی وہی ہے جو درج بالا آیت کا ہے۔ اسی طرح قول باری ہے (وا ولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ اسی طرح قول باری ہے (واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن اور جب عورتوں کو طلاق دے دو تو انہیں نہ روکو…) نیز فرمایا (ولا تعزموا عقدۃ النکاح حتیٰ یبلغ الکتاب اجلہ اور نکاح کی گرہ کو پختہ نہ کر وجب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے) ان تمام آیات میں جہاں جہاں لفظ اجل ذکر ہوا ہے اس سے مراد عدت ہے جب اللہ تعالیٰ نے اجل کا ذکر اپنے قول (فاذا بلغن اجلھن) میں بھی کیا ہے تو اس سے مراد اجل کا ختم ہوجانا نہیں بلکہ اس کا قرب الاختتام ہونا ہے۔ قرآن مجید اور محاورات میں اس کے بہت سے نظائر موجود ہیں چناچہ ارشاد باری ہے (اذا طلقتم النساء فطلقوھن بعدتھن) اس کا معنی ہے جب تم طلاق کا ارادہ کرو اور طلاق دینے کے قریب پہچ جائو تو عدت پر طلاق دو ۔ اسی طرح ارشاد باری ہے (فاذا اقرات القرآن فاستعذ باللہ جب تم قرآن کی تلاوت کرنے لگو تو استفادہ کرلو) اس کا معنی ہے کہ جب تم قرآن پڑھنے کا ارادہ کرو۔ اسی طرح قول باری ہے (واذا قلتم فاعدلوا۔ جب تم بات کرو تو انصاف کی بات کرو) اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ بات کرنے کے بعد عدل کرو بلکہ بات کرنے سے پہلے یہ عزم کرو کہ انصاف پر مبنی بات کے سوا اور کوئی بات نہیں کریں گے۔ اسی طرح زیر بحث آیت میں بلوغ اجل کا ذکر کر کے اس سے عدت کا قریب الاختتام ہونا مراد لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معروف طریقے سے بیوی کو روکے رکھنے کا حکم دیتے وقت عدت کے قریب الاختتام ونے کا ذکر کیا ہے حالانکہ معروف طریقے سے بیوی کو روکے رکھنا نکاح کے بقاء کے تمام احوال میں شوہر پر لازم ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ معروف طریقے سے امساک کے ذکر کے ساتھ تسریح یعنی بھلے طریقے سے رخصل کردینے کا بھی ذکر کیا ہے جس کا مفہوم عدت کا اختتام ہے۔ اور پھر دونوں کو امر کے تحت جمع کردیا ہے اور چونکہ تسریح کی صرف ایک حالت ہوتی ہے جو زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہتی اس لئے بلوغ اجل یعنی عدت کے قریب الاختتام ہونے والی حالت کو اس کے ساتھ خاص کردیا تاکہ معروف یعنی بھلے طریقے کا تعلق دونوں معاملوں (امساک اور تسریح) کے ساتھ ہوجائے۔ قول باری (فامسکوھن بمعروف) سے مراد عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلینا ہے۔ یہی قول حضرت ابن عباس (رض) ، حسن بصری، مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے۔ اب رہا قول باری (او سرحومن بمعروف) تو اس کا معنی یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے۔ اللہ تعالیٰ نے امساک بالمعروف کو مباح کردیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر اس کے ضروری حقوق ادا کرے جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا، نیز بھلے طریقے سے تسریح کو بھی مباح کردیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ رجوع کے ذریعے اس کی عدت کی مدت کو طویل تر کر کے اسے نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ کرے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے (او سرحوھن) کے ذکر کے فوراً بعد (ولا تمسکوھن ضرارا) کے ذکر سے بیان فرمائی ہے۔ اس میں اس تاویل کی بھی گنجائش ہے کہ معروف طریقے سے رخصل کردینے کی شکل یہ ہو تو اسے متاع یعنی سامان وغیرہ دے کر رخصت کرے۔ اس آیت سے نیز قول باری (ذامساک بمعروف او تسریح باحسان) سے کسی نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر شوہر اتنا مفلوک الحال ہو کہ بیوی کو نان و نفقہ دینے سے بھی عاجز ہو تو ایسی صورت میں ان دونوں کے درمیان علیحدگی واج بہو جاتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو دو میں سے ایک بات کا اختیار دیا ہے یا تو معروف طریقے سے اسے اپنی بیوی بنائے رکھے یا پھر بھلے طریقے سے اسے رخصت کر دے اور ظاہر ہے کہ نان و نفقہ مہیا نہ کر سکنا معروف میں داخ ل نہیں ہے اس لئے جب شوہر اس سے عاجز ہوجائے گا تو دوسر یبات یعنی تسریح اس پر لازم آ جائے گی اور حاکم دونوں کو علیحدہ کر دے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جس کسی نے یہ بات کہی اور آیت سے اس پر استدل کیا ہے یہ اس کی جہالت ہے۔ اس لئے کہ ایسا شوہر جو اپنی بیوی کو نان و نفقہ دینے سے عاجز ہو وہ بھی اسے معروف طریقے سے اپنی بیوی بنائے رکھ سکتا ہے کیونکہ وہ اس حالت میں انفاق کا مکلف ہی نہیں ہوتا۔ قول باری ہے (ومن قدر علیہ رزقہ فلیتفق مما اتاہ اللہ لا یکلف اللہ تفسا الا ما اتاھا سیجعل اللہ بعد عسر یسرا۔ جسے اللہ تعالیٰ رزق میں تنگی دے دے تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو مکلف نہیں بناتا مگر صرف اسی چیز کا جو اس نے اسے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تنگدستی کے بعد فراخی دینے والا ہے ) اس بناء پر کہنا درست نہیں کہ تنگدست شوہر اپنی بیوی کو معروف طریقے سے نہیں سنبھالے ہوئے ہے کیونکہ دراصل معروف طریقے سے نہ رکھنا قابل مذمت ہے اور جو شخص تنگدست ہو اس کا انفاق نہ کرنا قابل مذمت نہیں ہے۔ اگر یہ صورت ہوتی تو پھر اصحاب صفہ اور فقراء صحابہ جو تنگدستی کی بناء پر اپنے اوپر خرچ کرنے سے عاجز تھے چہ جائیکہ اپنی بیویوں پر خرچ کریں سب کے سب معروف طریقے سے اپنی بیویوں کو نہ بسانے والے شمار ہوتے۔ نیز ہمیں یہ معلوم ہے کہ ایسا شوہر جو انفاق کی قدرت رکھتے ہوئے بھی انفاق کے لئے تیار نہ ہو، وہ معروف طریقے سے نہ بسانے والا شمار نہیں ہوتا اور یہ بھی متفقہ مسئلہ ہے کہ ایسی صورت میں بھی وہ بیوی سے علیحدہ کردیئے جانے کا مستحق نہیں ہوتا تو یہ کیسے جائز ہوسکتا کہ انفاق سے عاجز شوہر کی تفریق کے وجوب پر آیت سے استدلال کیا جائے، اور نفاق پر قادر کی تفریق پر استدلال نہ کیا جائے جبکہ عاجز حقیقت میں معروف طریقے سے بیوی کو بسانے والا ہوتا ہے اور قادر بسانے والا نہیں ہوتا۔ اس قول سے استدلال کرنے والے کے استدلال میں تخلف لازم آگیا جس کی وجہ سے اس کا استدلال ہی باطل ہوگا۔ قول باری ہے (ولا تمکوھن ضرارا لتعتدوا اور تم ان کو نقصان پہنچانے کی غرض سے نہ روکو کہ پھر ان پر زیادتی کے مرتکب ہو جائو) اس آیت کی تاویل میں مسروق، سن بصری مجاہد، قتادہ اور ابراہیم نخعی سے منقول ہے کہ اس سے مراد رجوع کے ذریعے اس کی عدت کی مدت کو طویل تو کردینا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب اس کی عدت قریب الاختتام ہو تو رجوع کر کے پھر طلاق دے دے تاکہ وہ بےچاری نئے سرے سے عدت شروع کرے اور پھر جب عدت قریب الاختتام ہو تو رجوع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ بیو کو معروف طریقے سے عقد زوجیت میں رکھے اور عدت کی مدت کو طویل تر بنا کے اسے نقصان نہ پہنچائے۔ قول باری ہے (ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسہ، اور جو شخص ایسا کرے گا وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا) یہ فقرہ اس پر دلالت کر رہا ہے کہ خواہ وہ نقصان پہنچانے کی نیت سے رجوع کرے اس کا رجوع درست ہوجائے گا کیونکہ اگر یہ مفہوم نہ ہوتا تو وہ ظالم قرار نہ دیا جاتا کیونکہ اس صورت میں رجوع کا حکم ثابت نہ ہوتا اور اس کا یہ فعل بیکار جاتا۔ قول باری ہے (ولا تتخذوا آیات اللہ ھزوا اور اللہ کی آیات کو مذاق نہ بنائو) حضرت عمر (رض) اور حضرت ابوالدرداء سے بروایت حسن بصری یہ منقول ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا اور پھر رجوع کرلیتا اور کہتا کہ میں نے مذاق کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اعلان فرما دیا کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی یا غلام آزاد کردیا یا کسی سے نکاح کرلیا اور پھر یہ کہہ دیا کہ میں نے تو مذاق کیا تھا تو اس کے اس عمل کو مذاق پر نہیں بلکہ سنجیدگی اور قصد پر محمول کیا جائے گا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں (من طلق او حررا و نکح فقال کنت لا عما فھو جاد) ۔ حضرت ابوالدرداء (رض) نے یہ خبر دی کہ آیت کی تاویل یہ ہے اور آیت اس بارے میں نازل ہوئی۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ مذاق اور سنجیدگی دونوں صورتوں میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ یہی حکم رجوع کرنے کا بھی ہے کیونکہ اس کا ذکر امساک یا تسریح کے ذکر کے بعد ہوا ہے اس لئے یہ ان دونوں کی طرف راجع ہوگا نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول سے اس کی تاکید بھی کردی ہے۔ عبدالرحمن بن حبیب نے عطاء بن ابی رباح سے، انہوں نے ابن مالک سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ثلاث جدھن جدوھلن جد الطلاق والنکاح والرجعۃ۔ طلاق، نکاح اور رجعت ایسی تین باتیں ہیں کہ اگر یہ سنجیدگی سے کی جائیں تو ان کا وہی حکم ہے جو اگر مذاق کے طور پر کی جائیں، یعنی دونوں صورتوں میں یہ واقع ہوجاتی ہیں۔ سعید بن المسیب نے حضرت عمر (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ چار باتیں ایسی ہیں جو اگر کوئی شخص اپنی زبان سے کہہ بیٹھے تو وہ اس پر لازم ہوجاتی ہیں۔ غلام آزاد کرنا، طلاق دینا، نکاح کرنا اور نذر مان لینا۔ جابر نے عبداللہ بن لحی سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے یہ قول نقل کیا ہے کہ ’ دتین باتیں ایسی ہیں کہ ان میں مذاق کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ نکاح، طلاق اور صدقہ۔ “ قاسم بن عبدالرحمن نے حضرت عبداللہ سے روایت کی ہے کہ جب تم کسی سے نکاح کرنے کی بات اپنے منہ سے نکال دو تو پھر خواہ تم نے مذاق سے یہ بات کہی ہے یا سنجیدگی سے دونوں کا حکم یکساں ہوگا یعنی دونوں صورتوں میں اس کا نفاذ ہوجائے گا۔ یہی بات تابعین کی ایک جماعت سے مروی ہے اور ہمیں اس بارے میں فقاء امصار کے کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ زبردستی کی طلاق یہ بات مکرہ (وہ شخص جسے مجبور کیا جائے) کی دی ہوئی طلاق کے واقع ہوجانے میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے کہ طلاق کے معاملے میں سنجیدہ اور مذاق کرنے والے دونوں کا حکم یکساں ہے۔ باوجودیکہ دونوں قصد اور ارادے سے یہ بات زبان پر لاتے ہیں دونوں میں صرف اس لحاظ سے فرق ہے کہ ایک کا ارادہ زبان پر لائے ہوئے لفظ کے حکم کو وقاع کرنے کا ہوتا ہے اور دوسرے کا یہ ارادہ نہیں ہوتا تو اس سے معلوم ہوا کہ اس حکم کو دور کرنے میں نیت کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اب مکرہ ایک طرف تو ارادے اور قصد سے طلاق کا لفظ زبان پر لاتا ہے لیکن اس کے حکم کا اسے ارادہ نہیں ہوتا تو اس کی نیت کا فقدان طلاق کے حکم کو دور کرنے میں کوئی اثر نہیں دکھائے گا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ طلاق واقع ہونے کی شرط یہ کہ مکلف ایسے الفاظ اپنی زبان پر لائے جن سے طلاق واقع ہوجائے۔ واللہ اعلم !

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣١) اور جب تم عورتوں کو طلاق رجعی دے دو اور وہ عدت کے قریب پہنچیں تو تیسرے حیض میں غسل سے قبل تو خواہ حسن صحبت اور معاشرت کے معاشرت کے ساتھ ان اسے رجوع کرلو یا ان کے حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے ان کو چھوڑ دو تاکہ وہ غسل کرلیں اور ان کی عدت پوری ہوجائے اور ان کو تکلیف پہنچانے اور ظلم کرنے کے ارادہ سے نہ رکھو کہ ان پر عدت کو دراز کردو اور جو اس عمل سے تکلیف پہنچانے کا کام کرے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے، احکام الہی کو مذاق مت بناؤ کہ تم اس کو جانتے ہی نہیں اور اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دولت عطا کر کے جو تم پر احسان کیا ہے اور جو کچھ کتاب اللہ میں اوامرو نواہی اور حلال و حرام کو بیان کیا گیا ہے ان سب باتوں کو یاد کرو اور کسی کو بےجا تکلیف پہنچانے کے متعلق اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے اور کسی کو تکلیف پہنچانے پر یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ اس چیز کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” واذا طلقتم النساء “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے عوفی (رح) کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو طلاق دیتا تھا پھر عدت پوری ہونے سے پہلے اس سے رجوع کرلیتا تھا اس کے بعد پھر اسے طلاق دے دیتا تھا، اس طرح اس کو نقصان پہنچاتا اور لٹکائے رکھتا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور ابن جریر (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ ثابت بن یسار نامی انصار میں ایک شخص تھا اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی جب اس کی عدت پوری ہونے میں دو یا تین دن رہ گئے تو اس سے رجوع کرلیا پھر اسے تکلیف پہنچانے کی خاطر طلاق دے دی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ولا تمسکوھن (الخ) شان نزول : (آیت) ” ولا تتخذوا ایات اللہ “۔ (الخ) ابن ابی عمر (رض) نے اپنی مسند میں اور ابن مردویہ (رح) نے ابوالدرداء (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی طلاق دیتا تھا پھر اس کے بعد کہتا کہ میں تو کھیل کر رہا ہوں اور غلام کو آزاد کرتا اور کہتا کہ میں تو مذاق کررہا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ اتاری فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو مذاق نہ سمجھو اور ابن منذر (رح) نے عبادہ بن صامت (رض) سے اسی طرح روایت کیا ہے اور ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس (رض) سے اور ابن جریر (رح) سے حسن (رح) سے مرسل ایسے ہی روایت نقل کی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣١ (وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ ) (فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍص) تو یا تو معروف طریقے سے انہیں روک لو یا اچھے انداز سے انہیں رخصت کر دو ۔ (وَلاَ تُمْسِکُوْہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا ج) ۔ دیکھو ایسا مت کرو کہ تم انہیں تنگ کرنے کے لیے روک لو کہ میں اس کی ذرا اور خبر لے لوں ‘ اگر طلاق ہوجائے گی تو یہ آزاد ہوجائے گی۔ غصہ اتنا چڑھا ہوا ہے کہ ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہو رہا اور وہ اس لیے رجوع کر رہا ہے تاکہ عورت کو مزید پریشان کرے ‘ اسے اور تکلیفیں پہنچائے۔ اس طرح تو اس نے قانون کا مذاق اڑایا اور اللہ کی دی ہوئی اس اجازت کا ناجائز استعمال کیا۔ (وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ط) (وَلاَ تَتَّخِذُوْْٓا اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًاز) ۔ ضروری ہے کہ احکام شریعت پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں خاص طور پر ازدواجی زندگی کے ضمن میں بار بار اللہ کے خوف اور تقویٰ کی تاکید کی گئی ہے۔ اگر تمہارے دل اس سے خالی ہوں گے تو تم اللہ کی شریعت کو کھیل تماشا بنا دو گے ‘ ٹھٹھا اور مذاق بنا دو گے۔ (وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ) (وَمَآ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَالْحِکْمَۃِ ) (یَعِظُکُمْ بِہٖ ط) ۔ اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمتیں پانے کے بعد بھی اگر تم نے اس کی حدود کو توڑا اور اس کی شریعت کو مذاق بنایا تو پھر تمہیں اس کی گرفت سے ڈرنا چاہیے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

254. It is absolutely improper that a person should revoke the divorce he pronounced on his wife before the lapse of the period of waiting merely in order to use this revocation as a pretext to harass and torment her . God commands that if a person revokes the divorce this decision should be prompted by a sincere desire to live together amicably. Should that intention be lacking, it is better to part company in a graceful manner (see further n. 250 above) . 255. Muslims should not forget that by teaching them the Book and Wisdom, God entrusted them with the glorious task of guiding the world. They should also not forget that they were appointed the 'community, of the middle way' and appointed as witnesses to good and righteousness (see verse 143 above) . It does not become them, therefore, to indulge in sophistry and to play with the verses of the Book of God, to exploit the words of the Law to their advantage in achieving ends counter to its spirit, and to slump into injustice and other evil behaviour instead of directing the world to the Right Way.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :254 “یعنی ایسا کرنا درست نہیں ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دے اور عدت گزرنے سے پہلے محض اس لیے رجوع کر لے کہ اسے پھر ستانے اور دق کرنے کا موقع ہاتھ آجائے ۔ اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے کہ رجوع کرتے ہو تو اس نیت سے کرو کہ اب حُسنِ سلوک سے رہنا ہے ۔ ورنہ بہتر ہے کہ شریفانہ طریقے سے رخصت کر دو ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۲۵۰ ) سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :255 یعنی اس حقیقت کو فراموش نہ کر دو کہ اللہ نے تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے کر دنیا کی رہنمائی کے عظیم الشان منصب پر مامور کیا ہے ۔ تم”اُمّتِ وَسَط“ بنائے گئے ہو ۔ تمہیں نیکی اور راستی کا گواہ بنا کر کھڑا کیا گیا ہے ۔ تمہارا یہ کام نہیں ہے کہ حیلہ بازیوں سے آیات الہٰی کا کھیل بناؤ ، قانون کے الفاظ سے روح قانون کے خلاف ناجائز فائدے اٹھاؤ اور دنیا کو راہ راست دکھانے کے بجائے خود اپنے گھروں میں ظالم اور بد راہ بن کر رہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

152: جاہلیت میں ایک ظالمانہ طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دیتے اور جب عدت گزرنے کے قریب ہوتی تو رجوع کرلیتے، تاکہ وہ دوسرا نکاح نہ کرسکے، پھر اس کے حقوق ادا کرنے کے بجائے کچھ عرصے کے بعد پھر طلاق دیتے اور عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلیتے اور اس طرح وہ غریب بیچ میں لٹکی رہتی نہ کسی اور سے نکاح کرسکتی اور نہ شوہر سے اپنے حقوق حاصل کرسکتی یہ آیت اس ظالمانہ طریقے کو حرام قرار دے رہی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اس آیت میں بھی دو حکم ہیں ایک تو یہ کہ دو طلاقوں کے بعد عدت کے اندر جو کوئی طلاق سے رجوع کر کے اس عورت کو اپنے پاس پھر رکھنا چاہیے تو حسن معاشرت سے اس کو رکھے تا پھر ناموافقت اور طلاق کی نوبت نہ پہونچے دوسرے یہ کہ عدت نزدیک پہونچنے کے وقت خاص عورت کے ستانے کی غرض سے طلاق نہ دے جس طرح عدت کی مدت بڑھانے کے لئے مثلاً ثابت بن یسار (رض) اور لوگوں نے گھڑی گھڑی طلاق دینا اور عدت کے اندررجوع کرنا شروع کیا تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں روکا ہے۔ ان دو حکموں کے سبب سے ان دونوں شان نزول کو ابوجعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔ تفسیر ابن منذر میں عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ لوگ طلاق و عتاق کا پہلے اقرار کر کے پھر کہہ دیتے تھے کہ ہم نے تو ہنسی سے کہا تھا ١ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جتلادیا کہ اللہ تعالیٰ کی تم پر یہ نعمت ہے کہ رسول وقت تم میں موجود ہیں طرح طرح کے احکام اترتے ہیں اگر تم ان احکام کو جو آیات الٰہی میں ہیں ٹھٹھا ٹھہراؤ گے تو یہ یاد رکھو کہ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے یا تو وہ اپنے علم کے سبب سے یہاں دنیا میں تمہارے عتاب کا ایسا کوئی حکم نازل فرمائے گا کہ اس ہنسی کے بدلے تم کو بہت شرمندگی اٹھانی پڑے گی یا عاقبت میں اس ہنسی کا مواخذہ ہوجائے گا۔ ابو داؤد ابن ماجہ مستدرک حاکم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نکاح، طلاق اور طلاق رجعی سے عدت میں رجوع کرنا ان تین چیزوں میں ہنسی کا کچھ دخل نہیں ہیں۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کیا ہے ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:231) بلغن۔ ماضی جمع مؤنث غائب۔ بلوغ (باب نصر) وہ پہنچیں۔ وہ پہنچ جائیں۔ اجلہن۔ مضاف۔ مضاف الیہ۔ ان کی مدت مقررہ۔ اجل۔ مدت مقررہ۔ اسی وجہ سے موت کو بھی اجل کہتے ہیں۔ اجال جمع۔ امسکوھن۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ھن۔ ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب۔ ان عورتوں کو روک رکھو۔ ان کو رکھ لو۔ سرحوھن۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ھن ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب تسریح (تفعیل) مصدر۔ تم ان عورتوں کو رخصت کردو۔ تم ان عورتوں کو چھوڑ دو ۔ بمعروف۔ معروف طریقہ پر۔ شرافت اور عزت کے ساتھ۔ لا تمسکوھن۔ فعل نہی۔ جمع مذکر حاضر۔ ھن ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب۔ ان کو مت روک رکھو۔ ضراراً ۔ مفعول لہ۔ ضار یضار۔ ضرارا ومضارۃ مصدر (باب مفاعلہ) ایذا دینا۔ تکلیف پہنچانا۔ ضرور پہنچانا۔ ایک دوسرے کو گزند پہنچانا۔ لتعتدوا۔ یہ لام لا تمسکوھن کے متعلق ہے اور یہ بھی مفعول لہ ہوکر ضرارا کا بیان ہے۔ ولا تمسکوا ۔۔ لتعتدوا۔ اور تکلیف دینے کے لئے انہیں نہ روکو۔ کہ پھر (ان پر) زیادتی کرنے لگے۔ یعنی زیادہ دنوں تک رکھنے اور کچھ دینے پر مجبور کرنے کے ساتھ ان پر ظلم کرو۔ تعدوا۔ مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اعتداء (افتعال) مصدر۔ تم زیادتی کرنے لگو۔ تم حد سے گذر جاؤ۔ لا تتخذوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ اتخاذ (افتعال) مصدر۔ نون اعرابی حذف ہوگیا ہے ۔ تم مت بناؤ ۔ تم مت پکڑو۔ ھزوا۔ ھزا۔ یھزأ (باب فتح) وھزی۔ یھزا (باب سمع) کا ھزو مصدر ہے۔ مذاق اڑانا۔ ٹھٹھا کرنا۔ یہاں بطور اسم مفعول ہے۔ وہ جس کا مذاق اڑایا جائے۔ اور اللہ کی آیات کو ہدف مذاق مت بناؤ۔ وما انزل میں ما کا عطف نعمت اللہ پر ہے۔ ای واذکروا ما انزل ۔۔ یعنی اللہ نے جو نعمتیں تم پر نازل کیں۔ ان کو یاد کرو اور (اس) کتاب اور حکمت کو بھی یاد کرو جو اس نے (اپنے رسولوں کی معرفت) تم پر نازل کیں۔ یعظکم بہ۔ جس کے ذریعہ وہ تم کو نصیحت کرتا رہتا ہے۔ بہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب ما انزل کی طرف راجع ہے۔ اتقوا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر۔ اتقاء (افتعال) مصدر۔ تم ڈرو۔ تم پرہیزگاری اختیار کرو اتقوا اللہ۔ تم اللہ سے ڈرتے رہو۔ تم اللہ سے ڈرو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ایعنی اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق رجعی دو ، ان کی عدت پوری ہونے سے پہلے تمہیں رجوع کا حق پہنچتا ہے مگر یہ رجوع محض ان ستانے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے نہ ہو کیونکہ ایسا کر ناظلم و زیادتی اور احکام الہی سے مذاق کرنا ہے ،۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے مذاق مذاق میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ای لا تتخذو الخ مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طلاق کا نافذ فرمادیا۔ (ابن کثیر) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ تین چیزوں میں مذاق بھی سنجیدگی قرار پائیگی یعنی نکاح، طلاق۔ اور رجوع، (ابن کثیر بحوالہ جامع ترمذی)4 یہاں الحکمت سے مراد سنت ہے یعنی کتاب وسنت کی جو نعمت تم پر نازل کی ہے اسے مت بھو لو، یہ دونوں وحی الہی میں اور دلیل ہونے میں دونوں برابر ہیں لہذا منکر حدیث کا بھی وہی حکم ہے جو منکر قرآن کا ہے۔ ) ترجمان) مطلب یہ ہے کہ ان آیات میں بیان کردہ عائلی مسائل کو حدیث پاکی روشنی میں زیر عمل لانا ضروری ہے۔ (م، ع) حضرت معقل بن یسار کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ میری بہن کو اس کے شوہر نے ایک طلاق دیدی اور جوع نہ کیا حتی کی عدت گزر گئی پھر دونوں نے باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا۔ جب وہ میرے پاس پیغام لے کر آیا تو میں نے اسے خوب برا بھلا کہا اور قسم کھائی کہ اب تم دونوں کا دوبارہ نکاح ہونے دوں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لہذا میں نے نکاح کی اجازت دے دی اور قسم کا کفارہ ادا کردیا۔ (صحیح بخاری) اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورت خود بخود اپنا نکاح نہیں کرسکتی بلکہ ولی کی اجا زت ضروری ہے۔ حدیث میں ہے : لا تروج الموء ہ المرءہ ولا تزوج المرء ہ نفسھا فان الزنیتہھی التی تزوج نفسھا۔ یعنی کوئی عورت نہ خود اپنا نکاح کرسکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کا نکاح کرسکتی ہے جو عورت ولی کے بغیر ازخود اپنا نکاح کر التی ہے وہ زانیہ ہے۔ (ابن کثیر) اگر عورت خود اپنا نکاح کرسکتی تو عورت کے اولیاء کو قرآن مخاطب نہ کرتا تم ان کو مت روکو۔ (معالم )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ بیوی کو طلاق دینا جائز قرار دینے کے باوجود اسلام میں اس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے کہ آدمی طلاق دینے سے پہلے بار بار اس پر غور اور اس کے مضرات سمجھنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ شریعت کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو میاں بیوی کے درمیان یہ بابرکت اور پاکیزہ بندھن ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے : ( أَ بْغَضُ الْحَلَالِ إِلَی اللّٰہِ الطَّلَاقُ ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الطلاق ‘ باب فی کراھیۃ الطلاق ] ” اللہ تعالیٰ کے ہاں طلاق جائز ہونے کے باوجود ناپسندیدہ عمل ہے۔ “ لہٰذا اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی اور نااتفاقی کا ماحول پیدا ہوجائے تو اس خلیج کو پاٹنے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے کئی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ ان پر عمل کیے بغیر کوئی طلاق دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک طرح کا مجرم تصور ہوگا۔ کیونکہ عام تعلقات اور رشتہ داریوں کے بارے میں ارشاد ہے کہ جس نے رشتہ داری اور صلہ رحمی کو منقطع کیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اپنے رشتۂ رحمت سے کاٹ دے گا۔ [ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب من وصل وصلہ اللّٰہ ] شریعت نے طلاق سے پہلے جو اقدامات تجویز فرمائے ہیں وہ مرحلہ وار ایک طویل سلسلہ ہے جس کا اختصار پیش کیا جاتا ہے۔ بیوی کو مسلسل نصیحت کرنا۔ بیوی کی عادت پسند نہیں تو پھر بھی گزارا کرنا۔ بستر الگ کردینا۔ ہلکی پھلکی سزا دینا۔ فریقین کے خاندان میں سے دو ثالث مقرر کرنا۔ طلاق طہر کی حالت میں دینا۔ مطلقہ اپنے خاوند کے گھر میں عدّت گزارنے کی مجاز ہے۔ حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل تک اپنے خاوند کے گھر رہنے کا اسے حق دینا ہے۔ اس صورت میں وضع حمل تک خاوند اپنی بیوی کے نان ونفقہ اور دیگر ضروریات کا ذمہ دار ہوگا۔ طلاق رجعی کی صورت میں رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے۔ تاکہ نباہ کی کوئی نہ کوئی شکل پیدا ہوجائے اور انہیں بار بار سمجھنے ‘ سوچنے اور حالات کو نارمل کرنے کا موقع میسر آئے یہ سب کے سب اقدامات اگر بےنتیجہ ثابت ہوتے ہیں تو پھر حکم ہے کہ اچھے طریقے کے ساتھ اسے الوداع کیا جائے اور خاوند کے لیے حکم ہے کہ وہ عورت کو تکلیف دینے کے لیے عورت کے آگے نکاح کرنے میں کسی قسم کی منفی حرکت اور رکاوٹ پیدا نہ کرے۔ جس نے ایسا کیا حقیقتاً وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ ظاہر ہے کوئی عقل مند اپنے آپ پر ظلم نہیں کیا کرتا اپنے آپ پر ظلم کا معنیٰ ہے دنیا میں اس کی عزت میں فرق آئے گا اور قیامت کے دن پکڑ ہوگی اس ظلم سے باز رکھنے کے لیے مختلف انداز سے چار دفعہ سمجھایا گیا ہے۔ جب کہ پچھلی آیات میں میاں بیوی کے درمیان اخلاقی قدروں اور ازدواجی بندھن کو حدود اللہ قراردیا گیا ہے۔ یہاں انتباہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مذاق سمجھنے کی جرأت نہ کرنا۔ اس نے جو تمہیں باہم رہنے کے اصول اور تنازعات ختم کرنے کے ضابطے اور اکٹھا رہنے کے بار بار مواقع فراہم کیے ہیں۔ یہ سراسر اس کی طرف سے انعامات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اپنی کتاب اور پر حکمت احکام اس لیے عطا فرماتا ہے کہ وہ ان سے استفادہ اور نصیحت حاصل کرے۔ پھر انتباہ کرتے ہوئے اپنی ذات سے ڈرایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر رہنا سیکھو اور جانو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری گھریلو اور پبلک زندگی کی ہر ہر حرکت سے واقف ہے۔ مسائل ١۔ عدّت کے دوران عورت کو اچھے انداز سے رکھنا یا اچھے انداز سے فارغ کرنا چاہیے۔ ٢۔ عورت کو کسی دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے سے روکنا اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مذاق نہیں بنانا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو یاد رکھنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے کتاب و حکمت اس لیے نازل فرمائے کہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ ٦۔ ہر دم اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

زندگی کے رشتے کٹ رہے ہوں یا جڑ رہے ہوں ، ہر صورت میں اسلام یہ ہدایات دیتا ہے کہ احسان ، حسن سلوک اور معروف و مستحسن طرز عمل کو فضا پر غالب رہنا چاہئے۔ اگر رشتے ٹوٹ رہے ہوں تو نیت یہ نہ ہو کہ فریق مخالف کو اذیت دی جائے ، اسے بطور پالیسی دکھ پہنچایا جائے ۔ جدائی اور طلاق کی فضا میں نفوس اور مزاج ایک دوسرے سے کھنچے رہتے ہیں ، ایسے حالات میں حسن سلوک کا یہ اعلیٰ وارفع معیار صرف اس صورت میں قائم کیا جاسکتا ہے کہ اس کی اساس کسی ایسے اصول پر رکھی گئی ہو جو اس دنیاوی زندگی کے حالات سے بلند تر ہو ۔ ایسا اصول جو دلوں سے حسد اور بغض اور کینہ نکال دے ، زندگی کے آفاق کو وسیع تر کردے ، زندگی کو موجود اور حاضر سے وسیع کرکے غیر موجود اور دوسرے جہاں کو وسیع کردے ۔ یہ اساس صرف اللہ پر ایمان کی اساس ہوسکتی ہے ۔ آخرت پر ایمان کی اساس ہوسکتی ہے ۔ یہ اساس ہوسکتی ہے کہ انسان انعامات الٰہی پر غور کرے ۔ جن میں سب سے بڑی نعمت ، نعمت ایمان ہے ۔ پھر اس نے ہر شخص کو قدر کے مطابق جو فراخی رزق دیا ہے اس پر غور کرے ۔ پھر ہر شخص کو جو صحت اور توانائی دی ہے ، اس پر غور کرے تو انسان کے سوچ کی سطح بلند ہوسکتی ہے ۔ پھر اللہ کا خوف دل میں موجود ہو ، اور یہ امید بھی ہو کہ جو ازدواجی زندگی ناکام ہوگئی ہے جو نقصانات و اخراجات ضائع ہوچکے ، ان کے عوض اللہ تعالیٰ نعم البدل عطا کرسکتا ہے ۔ غرض یہ ہے وہ اساس جسے وہ آیات پیش کررہی ہیں ، جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ رشتہ کٹ رہا ہو یا جڑ رہا ہو ، ہر صورت میں ایثار ، بھلائی اور احسان کا رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔ زمانہ جاہلیت میں عورت پر جو مظالم ممکن تھے ، ہوا کرتے تھے ۔ بچپن میں اس پر مظالم ہوتے تھے ، اسے زندہ درگور کردیا جاتا ، اگر زندہ دفن کرنے سے بچ جاتی تو وہ ذلت ، مشقت اور سخت اہانت کی زندگی بسر کرتی ۔ پھر جب وہ ازدواجی زندگی میں قدم رکھتی تو اسے مرد کے عام سامان اور مال کی طرح ایک مال ہی سمجھا جاتا ہے ۔ مال بھی اس درجے کا کہ اس مقابلے میں گھوڑے کی قیمت زیادہ ہوتی ۔ بہت زیادہ اگر ناچاقی کے نتیجے میں خاوند اسے طلاق دے دیتا تو یہ عضو معطل کی طرح پابند رہتی اور جب تک طلاق دینے والا خاوند رحم کھا کر اسے اجازت نہ دیتا وہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرسکتی یا اس کے اہل خاندان غیرت میں آکر اسے بند کردے ۔ اور اگر طلاق دینے والا شخص پشیمان ہوکر رجوع کرنا چاہتا تو یہ لوگ اسے اس کے پاس واپس جانے سے روکتے۔ عمومی طور پر عورت کو حقارت آمیز نظروں سے دیکھا جاتا ۔ معاشرے میں اسے گھٹیا درجے کی شئے تصور کیا جاتا ۔ غرض عرب معاشرہ میں عورت کی وہی حیثیت تھی جس طرح اس دور کے دوسرے جاہل معاشروں میں عورت کی حیثیت تھی ۔ ایسے حالات میں اسلامی نظام کا نزول ہوتا ہے ۔ اب ریگستان عرب کی طوفانی اور گرم ہواؤں کے بجائے ۔ مصیبت زدہ عورت باد نسیم کے خوشگوار جھونکے محسوس کرتی ہے ، جس کے کچھ نمونے ان آیات میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اب عورت کے بارے میں یہ نقطہ نظر دیا جاتا ہے کہ مرد و عورت دونوں ہی ایک ہی نفس سے پیدا کئے گئے ہیں ۔ دونوں کا خالق ایک ہے ۔ ازدواجی تعلقات کو محض ذریعہ لذت کے بجائے عبادت اور احسان کا درجہ دیا گیا ۔ اسے فریضہ حیات کا درجہ دیا گیا۔ یہ اس وقت اور ایسے حالات میں دیا گیا جبکہ عورتوں کی کسی انجمن نے کوئی مطالبہ نہ کیا تھا ، نہ عورت اس وقت ان حقوق کی اہمیت سے واقف تھی ۔ نہ اس وقت عورت کے سرپرست مردوں نے عورت کے حقوق کے لئے کوئی مطالبہ کیا تھا ، نہ ایسا کوئی مطالبہ ان کے تصور ہی میں تھا ، یہ تو اللہ کی رحمت اور فضل کی ایک عام بارش تھی ، جس سے بیک وقت مرد اور عورت دونوں فیض یاب ہوئے اور پوری انسانیت اور انسانی زندگی کو سیراب کیا۔ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا ” اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آجائے ، تو بھلے طریقے سے انہیں روک لو ، یا بھلے طریقے سے رخصت کردو ۔ محض ستانے کی خاطر انہیں نہ روکے رکھنا کہ یہ زیادتی ہوگی۔ “ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّکا مفہوم یہ ہے کہ وہ میعاد جو گزشتہ آیت میں مقرر کی گئی ہے ، وہ پوری ہونے کو آجائے ۔ اگر عدت ختم ہونے کو آجائے تو پھر دو طریقے ہیں یا تو معروف طریقے سے ۔ اصلاح احوال کی نیت سے روک لو ، یعنی طلاق سے رجوع کرلو۔ امساک معروف کا یہی مفہوم ہے ۔ اگر اصلاح نیت سے روکنا مطلوب نہیں ہے تو پھر رجوع نہ کرو اور عدت پوری ہونے دو تاکہ عورت کی طلاق ، طلاق بائنہ ہوجائے ۔ یہ ہے معنی تسریح باحسان کا ۔ یعنی بغیر کسی قسم کی ایذارسانی کے ، بغیر فدیہ طلب کرنے کے اور بغیر کسی قسم کی جاہلانہ پابندی کے کہ وہ فلاں جگہ شادی نہ کرے گی یا فلاں حدود کے اندر شادی نہ کرے گی ۔ وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا ” محض ستانے کی خاطر انہیں روکے نہ رکھنا۔ “ جیسا کہ ہم اوپر ایک انصاری کی روایت نقل کر آئے ہیں جس نے اپنی بیوی سے کہا تھا کہ نہ تو میں تمہیں زوجیت میں لوں گا اور نہ ہی تمہیں طلاق دوں گا ۔ یہ ہے برے طریقے سے روکے رکھنا۔ محض ستانے کے لئے روکے رکھنا ۔ اسلام ایسے روکنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس سلسلے میں ان آیات میں باربار نہیں آئی ہے ۔ یہ مکرر تاکید اس لئے ہے کہ اس وقت کی ععربی سوسائٹی میں یہ ظلم عام تھا۔ بلکہ یہ ظلم ہر اس سوسائٹی میں عام ہوسکتا ہے جسے اسلام نے مہذب نہ بنایا ہو اور جسے ایمان نے اونچا نہ کردیا ہو۔ یہاں اب قرآن مجید انسان کے فہم و شعور میں جوش پیدا کرتا ہے ، انسان کے جذبات شرم وحیا کو بیدار کرتا ہے ۔ اور ساتھ ساتھ انہیں اپنے برے انجام سے بھی ڈراتا ہے۔ یہ سب ذرائع محض اس لئے استعمال کئے جارہے ہیں کہ انسان کی زندگی سے جاہلیت کے آثار کو ایک ایک کرکے مٹادیا جائے اور اسے شرافت وعزت کے اس بلند مقام تک پہنچادیا جائے جہاں تک اسے اسلامی نظام زندگی ہاتھ پکڑ کرلے جانا چاہتا ہے۔ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” اور جو ایسا کرے گا وہ درحقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا ۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمیٰ سے تمہیں سرفراز کیا ہے ۔ اور وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اس نے تم پر نازل کی ہے ، اس کا احترام ملحوظ رکھو ۔ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے۔ “ جو شخص عدت گزرنے والی عورت کو محض ستانے کے لئے یا اسے نقصان پہنچانے کے لئے روکے رکھتا ہے ، وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتا ہے۔ آخر یہ بیچاری عورت بھی تو بنت آدم ہے اور اس طرح اس کی بہن ہے ۔ اس کی جنس ہے ۔ اگر یہ اس پر ظلم کرتا ہے تو گویا خود اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے ۔ پھر وہ اپنی جان پر بھی ظلم کرتا ہے کہ وہ معصیت کرکے اسے مستوجب سزا رٹھہرارہا ہے ۔ اور راہ اطاعت اسے ہٹارہا ہے ۔ یہ ہے وہ پہلا احساس جو ان آیات میں لایا جارہا ہے۔ معاشرت اور طلاق کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے جو آیات بیان کی ہیں وہ بین ہیں ، ظاہر ہیں ، اور بالکل سیدھی ہیں ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کی تنظیم صداقت اور سنجیدگی پر ہونا چاہئے ۔ کوئی شخص ان آیات کو کھیل نہ بنائے ، انہیں عورت کو محض تکلیف دینے اور اسے ایذاپہنچانے کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ یہ رخصتیں تو اللہ تعالیٰ نے اس لئے دیں کہ معاشرتی زندگی امن وقرار کی جگہ بن جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو رجوع کرنے کا حق اس لئے دیا ہے میاں بیوی کی شکر رنجی ختم ہوجائے اور ان کے درمیان ازدواجی زندگی کا از سر نو آغاز ہوجائے ۔ اس لئے نہیں کہ مرد اس حق کا ناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے اس عورت کو ایذا دینے اور اس پر تشدد کرنے کے لئے استعمال کرے ۔ اگر کوئی شخص اس حق کو اس مطلب کے لئے استعمال کرے گا تو وہ آیات الٰہی کا کھیل بنارہا ہے اور ان سے مذاق کررہا ہے ۔ یہ صورت حال ہمارے موجودہ جاہلی معاشرے میں بہت عام ہے ۔ لوگ فقہی رخصتوں اور فقہی مسائل کو آڑ بناکر ان کی بناپر دھوکہ ، ایذا رسانی اور شر و فساد کا کام کررہے ہیں ۔ نیز مرد کو جو طلاق اور جعت کا حق دیا گیا ہے ، اس سے بھی یہ لوگ بہت ہی غلط فائدہ اٹھاتے ہیں ، ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ کی آیات کا کھیل بناتے ہیں اور انہیں اپنی حیلہ سازیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس سارے عمل میں انہیں شرم بھی نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ یہاں انسان کے جذبہ حیا اور اعتراف نعمت کو بیدار فرماتے ہیں۔ انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ ان پر اللہ نے جو انعام واکرام کیا ہے ذرا اس پر بھی غور کریں ۔ ان پر اس نے اپنی کتاب نازل فرمائی ، حکمت و دانائی کے ذخائر سے انہیں نوازا ۔ اس وقت کے اہل ایمان کو نعمت الٰہی کا یاددلانا ۔ دراصل اس عظیم انقلاب کی طرف ان کو متوجہ کرنا تھا ، جو ان کی پوری زندگی میں تحریک اسلامی کی وجہ سے رونما ہوگیا تھا۔ ان مسلمانوں کے لئے انعامات الٰہی کا یاد دلایا جانا ایک گہرے مفہوم کا حامل تھا۔ شاید آج کے لوگ اس کا اچھی طرح تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ اہل ایمان ، یہ محسوس کرتے تھے کہ انعامات الٰہی میں سے پہلاانعام ان پر یہ ہے کہ جو اس کرہ ارض پر ایک امت کی حیثیت سے موجود ہیں ، ذرا غور کریں کہ عرب اور اعراب اسلام کے آنے سے پہلے تھے کیا ؟ ان کی کیا حقیقت تھی ؟ ان کی کوئی قابل ذکر حیثیت نہ تھی ۔ ان کو دنیا نہ جانتی تھی اور نہ ہی دنیا عربوں کو کچھ سمجھتی تھی ۔ وہ قبائل کی شکل میں ٹکڑے ٹکرے تھے ۔ نہ ان کا کوئی وزن تھا اور نہ کوئی قیمت تھی۔ ان کے پاس کوئی پیغام نہ تھا کہ وہ یہ پیغام انسانیت کو دیتے اور یوں وہ پہچانے جاتے ۔ بلکہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جو وہ خود استعمال کرتے اور دوسری اقوام سے کم ازکم بےنیاز تو ہوجاتے ۔ غرض وہ تہی دامن تھے ، کچھ بھی نہ تھا ان کے پاس ۔ نہ کوئی مادی چیز ان کے پاس تھی ، نہ کوئی معنوی چیز ، نہ مصنوعات اور نہ ہی نظریات ۔ وہ فقراء کی طرح غربت کی زندگی بسر کرتے تھے ۔ ایک قلیل تعداد ایسی تھی جنہیں خوشحال کہا جاسکتا تھا ، لیکن اسکی خوشحالی بھی ایسی تھی جیسے بدویانہ زندگی ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی بدوی کسی ایسی جگہ خیمہ زن ہو جہاں زیادہ شکار ملتا ہو ، یعنی یہ خوشحالی بھی بہت سادہ اور ابتدائی قسم کی تھی ، جسے آج کی دنیا میں خوش حال بھی نہیں کہا جاسکتا۔ عقل ، روح اور ضمیر کے لحاظ سے وہ بالکل تہی دامن تھے ۔ عقائد بالکل مہمل ، بےہودہ اور بہت ہی سادہ قسم کے تھے ۔ زندگی کا تصور ان کے دماغ میں تھا ، وہ بالکل سادہ ، ابتدائی اور قبائلی قسم کا تھا ۔ ان کی زندگی کا ہم مشغلہ لوٹ مار اور ڈاکے ڈکیتی تک محدود تھا ۔ اس سے اگر زیادہ کوئی چیز تھی تو وہ یہ تھی کہ لوگ سخت منتقم المزاج تھے ۔ لہو ولعب ، شراب وکباب اور جوئے اور قمار کے دلدادہ تھے ۔ غرض زندگی کے ہر پہلو میں یہ لوگ بالکل ابتدائی حالت میں تھے۔ یہ تھا قعر مذلت جس میں عرب گرے ہوئے تھے اور یہ تھا اسلام جس نے اس سے انہیں نجات دلائی بلکہ انہیں از سرنو پیدا کیا ۔ نئی زندگی دی ۔ انہیں پیدا کیا اور عظیم وجود انہیں عطا کیا ۔ ایسا وجود جسے پوری انسانیت سے پہچانا ۔ اسلام نے انہیں ایک ایسا پیغام دیا ، جو انہوں نے پوری انسانیت کو عطا کیا ۔ یوں عرب بھی اس پیغام کی وجہ سے نامور ہوگئے ۔ اسلام نے ان کو ایک عظیم نظریہ حیات دیا ، مکمل نظریہ حیات ۔ اس نظریہ حیات نے اس کائنات کی وہ تشریح ، دل لگتی تشریح کی جو اس سے قبل کسی نظریہ حیات نے نہ کی تھی ۔ اس نظریہ حیات نے انہیں قیادت کا مقام عطا کیا اور انہوں نے انسانی تاریخ میں پوری انسانیت کی قیادت کی ۔ بہت اعلیٰ وارفع قیادت کی ۔ برادری اقوام میں ان کی کوئی حیثیت نہ تھی ۔ اس نظریہ حیات اور اس پیغام کی بدولت انہوں نے اقوام عالم کی صف میں ایک عالی مقام اور مرتبہ بلند حاصل کیا بلکہ ان کی شخصیت امور عالم میں ممتاز شخصیت بن گئی ۔ پھر اس نظریہ حیات نے انہیں ایک ایسی عظیم قوت کی شکل میں نمودار کیا کہ پوری دنیا اس قوت سے خائف ہوگئی اور اسے قابل قدر اہمیت دینے لگی ۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ عربوں کے اردگرد پھیلی شہنشاہیتوں کے خدام سمجھے جاتے تھے ۔ یا ایسی گری پڑی قوم اور بدوی قبائل سمجھے جاتے تھے ، جن کی طرف سرے سے کوئی متوجہ ہی ہوتا۔ اور پھر سب سے ممتاز چیز یہ کہ اس فقر کے مقابلے میں اسلام نے ان لوگوں کو عظیم دولت و ثروت سے نوازا۔ دولت کے دروازے ہر طرف سے کھل گئے اور تمام دنیا کی ثروت ان کے پاس جمع ہوگئی ۔ اور سب سے بڑی چیز یہ کہ اسلام نے امن وسلامتی دی ۔ نفس کی سلامتی ، گھر کا امن اور معاشرے کا سکوں دیاجس میں عیش و عشرت سے زندگی بسر کرنے لگے ۔ ان کے دل مطمئن ہوگئے ، ان کے شعور وضمیر میں فرحت آگئی اور جو نظام زندگی انہوں نے پایا وہ اس پر جم گئے ۔ اور انہیں وہ سربلندی دی ، وہ اونچا مقام دیا کہ جہاں سے وہ پوری انسانیت کے گم کردہ راہوں پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ جاہلیت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں راہ حیات گم کئے ہوئے ہیں اور ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور پوری دنیا کی یہی حالت ہے ۔ اس مقام بلند پر انہیں احساس ہوجاتا ہے کہ فی الواقعہ وہی اعلون ہیں ، وہی سربلند ہیں اور اللہ نے انہیں دولت دی ہے جس سے پوری آباد دنیا محروم ہے۔ ان حالات میں جب قرآن مجید اہل ایمان عربوں کو اپنے انعامات یاددلاتا ہے تو ان انعامات کی فہرست دینے یا اس دعوت تذکیر پر ان کو زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ خود ان کی پوری زندگی ہی انعامات الٰہیہ کی ایک نمونہ تھی ۔ وہی لوگ تھے جو جاہلیت کے زمانے میں ایک عرصے تک پس رہے تھے اور وہی ہیں جو اب اسلامی نظام حیات کی برکات سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔ وہ اپنی آنکھوں سے اس عظیم انقلاب کا مشاہدہ کررہے تھے جس کے بارے میں انسان تصور بھی نہ کرسکتا تھا اور جو اسلام اور قرآن کا ایک زندہ معجزہ تھا ۔ وہ اللہ کی کتاب اور اس میں بیان کردہ حکیمانہ فلسفہ حیات کی صورت میں اس نعمت عظمیٰ کا یاد کیا ، دیکھ ہی رہے تھے وہ اس کا زندہ نمونہ تھے ۔ قرآن انہیں خطاب کرکے کہہ رہا تھا وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْجو تم پر نازل کیا گیا ، انہیں مخاطب کرکے کہا گیا تم پر ، تاکہ وہ اس انعام کی عظمت کا شعور پیدا کرسکیں ۔ اس کی گہرائی تک پہنچ سکیں اور یہ دیکھ سکیں کہ یہ انعام الٰہی ان کے لئے ہے ، ان پر حاوی ہے اور ان کے ساتھ چمٹا ہوا ہے ۔ اللہ یہ آیات حکمت ان پر نازل کررہا ہے جو آیات اسلامی نظام زندگی کی تشریح وتکمیل کررہی ہیں اور مسلمانوں کا عائلی ضابطہ بھی اسی ربانی نظام کا ایک حصہ ہے ۔ اب ذرا آخری احساس دیکھئے ۔ آخری بار چٹکی بھری جاتی ہے۔ متنبہ کیا جاتا ہے کہ جاگو ، سوچو کہ اللہ تو علیم بذات الصدور ہے ۔ جانو کہ وہ جاننے والا ہے ، سنبھل کر رہو وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے ۔ “ حیا اور شکر کے بعد اب یہاں خوف اور خبرداری کے جذبات کو بیدار کیا جارہا ہے۔ یوں نفس انسانی کو ہر طرف سے گھیر کر اسے حسن سلوک ، مشفقانہ طرز عمل اور سچائی کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مطلقہ عورتوں کو ضرر پہنچانے کی ممانعت اس آیت میں چند باتوں پر تنبیہ فرمائی۔ اول یہ کہ جو لوگ اپنی عورتوں کو طلاق رجعی دے دیں اگر انہیں رغبت نہیں ہے۔ اور اب بیوی بنا کر رکھنا گوارا نہیں ہے تو خوش اسلوبی کے ساتھ اسے چھوڑ دیں۔ جب عدت گزرنے کے قریب ہوجائے تو رجوع کیے بغیر عدت ختم ہونے دیں تاکہ عدت ختم ہوتے ہی طلاق بائن ہوجائے اور عورت کسی دوسری جگہ اپنا نکاح کرسکے، ایسا نہ کریں کہ جب عدت گزرنے کے قریب ہو تو رجوع کرلیں اور اس کے بعد پھر طلاق دے دیں اور جب عدت گزرنے کے قریب ہو پھر لوٹا لیں، ایسا کرنے سے خواہ مخواہ عورت کو تکلیف ہوگی اور ضرر پہنچے گی۔ تفسیر روح المعانی ص ١٤٢ ج ٢ میں ہے کہ انصار میں سے ایک شخص نے اپنی بیوی کے ساتھ یہی معاملہ کیا حتیٰ کہ اسی طرح نو مہینے گزر گئے، اللہ جل شانہ نے آیت بالا نازل فرمائی اور فرمایا : (فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ ) ان کو اگر اپنے نکاح میں رکھنا ہے تو اچھے طریقہ پر روک لو، اور نکاح میں نہیں رکھنا تو خوبی کے ساتھ اسے چھوڑ دو ، اور صرف اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ مزید فرمایا (وَ لَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا) کہ ان کو ضرر پہنچانے اور دکھ دینے کے لیے روک کر نہ رکھو تاکہ ان پر ظلم کرو۔ اور مزید فرمایا : (وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ) کہ جو شخص ایسا کرے گا اس نے اپنی جان پر ظلم کیا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرکے ایک مومن عورت کو ضرر پہنچانے کی نیت کرکے اپنی جان کو آخرت کے عذاب کے لیے پیش کردیا اور اللہ کے حکم کی فرماں برداری پر جو ثواب مل سکتا تھا اس سے محروم ہوگیا، کسی بھی مومن کو ضرر پہنچانا حلال نہیں ہے حدیث شریف میں ہے۔ (مَلْعُوْنٌ مَنْ ضَارَّ مُؤْمِنًاأَوْمَکَرَبِہٖ ) (یعنی وہ شخص ملعون ہے جو کسی مومن کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر کرے) ۔ (رواہ الترمذی) اللہ کی آیات کا مذاق بنانے کی ممانعت : دوسری تنبیہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : (وَلاَتَتَّخِذُوْٓا اٰیَات اللّٰہِ ھُزُوًا) کہ اللہ کی آیات کو اور اس کے احکام کو کھیل اور مذاق مخول ٹھٹھا نہ بناؤ۔ ایسا نہ کرو کہ جی چاہا عمل کیا چاہا نہ کیا اور احکام کی رعایت کا دھیان نہ رکھا۔ بلکہ آیات قرآنیہ میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں ان کی پابندی کرو اور عزم و ہمت و ارادہ کے ساتھ عمل پیرا ہو۔ حضرت محمود بن لبید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک شخص کے بارے میں خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیں۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصہ میں کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اللہ عزوجل کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جائے گا حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔ آپ کا غصہ دیکھ کر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا میں اس شخص کو قتل نہ کر دوں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٨٤ ج) اکٹھی تین طلاقیں دینا شرعاً مذموم ہے۔ ایک سے زیادہ طلاق دے تو الگ الگ کر کے دے، اور ہر طہر میں (پاکی کے زمانے میں) ایک ایک طلاق دے۔ کیونکہ اس شخص نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں۔ اس لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت ناگواری ہوئی۔ موطا امام مالک میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا تیری بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور ستانوے طلاقوں کے ذریعہ تو نے اللہ کی آیات کا مذاق بنایا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٨٢) اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو : تیسری بات یہ فرمائی کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور جو کچھ اس نے تمہارے اوپر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اس کو بھی یاد کرو۔ یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا شکر ادا کرو نعمتوں کے ذریعہ گناہ نہ کرو۔ اور آیات قرآنیہ پر عمل کرو۔ اللہ کے احکام میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں۔ ان میں خیر سمجھو۔ پھر فرمایا : یَعِظُکُمْ بِہٖیہ جو کچھ اللہ نے نازل فرمایا وہ اس کے ذریعہ تم کو نصیحت فرماتا ہے۔ خلاف ورزی کرکے نصیحت سے منہ موڑ نے والے نہ بنو۔ پھر فرمایا : (وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْمٌ) ” اور اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔ “ سب کے اعمال کو وہ جانتا ہے ان کے مطابق جزا و سزا دے گا اور جن چیزوں میں تمہارے لیے مصلحت ہے ان کو بھی جانتا ہے، اس کے حکموں میں تمہاری مصلحت مضمر ہے۔ مخالفت کرکے اپنے لیے خرابی کا راستہ اختیار نہ کرو۔ مسئلہ : اگر کوئی شخص مذاق میں طلاق دے دے تو اس سے بھی طلاق ہوجاتی ہے جیسا کہ اس کی تصریح حدیث شریف میں موجود ہے۔ فقد روی أبو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلاَثٌ جِدُّھُنَّ جَدٌّ وَھَذْلُھُنَّ جِدٌّ، اَلنِّکَاحُ وَ الطَّلاَقُ وَالرَّجْعَۃُ ۔ (رواہ الترمذی ص ١٩١ ج ١ وحسنہ و أخرجہ الحاکم ایضا فی المستدرک ص ١٩٨ ج ٢ و صححہ) فائدہ : ارشاد باری تعالیٰ (لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰیٰتِ اللّٰہِ ھُزُوًا) اگرچہ مسائل طلاق کے ذیل میں وارد ہوا ہے لیکن الفاظ کا عموم اس بات کو بتارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور احکام کا مذاق بنانا بدترین گناہ ہے بلکہ قصداً وارادۃً اگر آیات و احکام کا مذاق بنایا جائے تو کفر ہے۔ سورة مائدہ میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ الْکُفَّارَ اَوْلِیَآءَ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْھَا ھُزُوًا وَّ لَعِبًا ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ ) ” اے ایمان والو ! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا لیا، یعنی وہ لوگ جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان کے علاوہ دوسرے کافروں کو بھی دوست نہ بناؤ، اور اللہ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو، اور جب تم نماز کی طرف بلاتے ہو تو نماز کا مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں یہ اس لیے کہ وہ لوگ سمجھتے نہیں۔ “ سورۃ الجاثیہ میں اہل دوزخ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (ذٰلِکُمْ بِاَنَّکُمُ اتَّخَذْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ ھُزُوًا وَّغَرَّتْکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا) ” یہ عذاب اس لیے ہے کہ تم نے اللہ کی آیات کو مذاق بنا لیا تھا۔ اور تم کو دنیا والی زندگی نے دھوکہ میں ڈالا تھا۔ “ بہت سے لوگ مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں لیکن قرآن اور احادیث شریفہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنتوں کا مذاق بناتے ہیں ایسے لوگ اگرچہ مدعی اسلام ہوں لیکن اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، بہت سے لوگ حج کے احکام و افعال کو فلماتے ہیں اور سینما میں لہو و لعب کے پردہ پر دکھاتے ہیں اور دیکھنے والے دیکھتے ہیں کعبۃ اللہ شریف کے چاروں طرف جو نماز ہوتی ہے اس کے فوٹو لیے جاتے ہیں۔ حجر اسود کا استلام کرتے ہوئے فوٹو لیے جاتے ہیں۔ منیٰ میں تصویر کشی ہے۔ عرفات میں کیمرے لیے کھڑے ہیں۔ فوٹو کھینچے جا رہے ہیں۔ نیک کام کو معصیت کیساتھ مکدر کیا جا رہا ہے۔ حضرات صحابہ کرام (رض) کے ...... ٹیلیویژن میں ڈرامے آ رہے ہیں۔ ان اکابر دین کی داڑھیاں منڈی اور مونچھیں خوب زیادہ بڑھی ہوئی دکھائی جا رہی ہیں۔ ان حضرات کے علم و عمل کو لہو و لعب اور تماشہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ سب دین اور دینیات کے ساتھ استہزاء اور تمسخر ہے جو لہو و لعب میں شامل ہے۔ عوام الناس نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ اس سے دین کی تبلیغ ہوگی حالانکہ اس کی حیثیت لہو و لعب سے زیادہ نہیں ہے۔ قرأت قرآن کی مجلسیں ہیں۔ قاریوں کی تصویریں کھینچی جا رہی ہیں اور اخبارات میں چھپ رہی ہیں۔ قرآن کے نام پر اجتماعات ہیں۔ فوٹو گرافی ہو رہی ہے۔ فلمیں دکھائی جا رہی ہیں۔ کالج یونیورسٹی میں اسلامیات کی کلاسیں ہیں۔ لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ بےپردہ بیٹھی ہوتی ہیں۔ عین اسلامی عنوان کے پریڈ میں احکام قرآن کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، سودی لین دین ہے بینک کا نام اسلامی ہے۔ حرام مال سے ایصال ثواب کیا جا رہا ہے اسی سے حج وعمرہ ہو رہا ہے۔ داڑھی مونڈنے کی دکانیں ہیں۔ اسلامی صالون یا صالون الحرمین کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ سب اعمال و افعال ایسے ہیں جن سے احکام اسلام کی توہین اور تضحیک ہوتی ہے، اسلام کے نام پر مذاق ہے۔ گناہ کرنا بہت بڑی بدبختی ہے جس کا لوگوں کو بالکل احساس نہیں، داڑھیوں کا، داڑھی رکھنے والوں کا تمسخر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنتوں پر چلنے والوں پر پھبتیاں ہیں، اور یہ سب کچھ ان لوگوں سے صادر ہورہا ہے جو مسلمان ہونے کے مدعی ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہ سب کو صحیح سمجھ دے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

458 اَجَلَھُنَّ میں اجل سے مراد عدت ہے اور بلوغ اجل سے عدت کا قریب الاختتام ہونا مراد ہے بقرینة فامسکوھن بمعروف الخ کیونکہ رجعت تو عدت کے اندر ہی ہوسکتی ہے۔ اختتام عدت کے بعد نہیں ہوسکتی المراد مقاربتہ دون انقضائہ (احکام القرآن جصاص) طلاق رجعی کے بعد خاوند کو دو اختیار دئیے گئے ہیں۔ اگر وہ چاہے تو عدت کے اندر رجوع کر کے مطلقہ بیوی کو پھر اپنے گھر میں آباد کرلے۔ یا عدت میں رجوع نہ کرے اور اسے چھوڑ دے مگر اللہ تعالیٰ کو یہ ہرگز پسند نہیں کہ عورت کو کسی صورت میں تنگ کیا جائے۔ اگر دوبارہ اس سے زوجیت کے تعلقات استوار کیے جائیں تو اسے دوبارہ اپنی زوجیت میں لا کر تنگ کرنا مقصود نہ ہو۔ اسی طرح اگر اسے چھوڑ دینے ہی کا فیصلہ کیا جائے تو بھی شرعی حدود کی پابندی سے باہمی نزاعات کو ختم کرنے کے لیے کیا جائے نہ کہ عورت کو ذلیل کرنے اور اس کی دل شکنی کے لیے اور ممکن ہے کہ تسریح بمعروف سے مطلقہ کو ثیاب متعہ دینے کی طرف اشارہ ہو جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ اس آیت کا مفہوم بعینہ وہی ہے جو الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان میں مذکور ہوچکا ہے۔ پھر اس کا اعادہ کیوں کیا گیا ؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے تو عام حکم دیا کہ رجعی طلاق کے بعد عدت کے زمانہ میں جو تم نے مطلقہ کے متعلق فیصلہ کیا ہے۔ اختتام عدت کے قریب اس پر ایک دفعہ پھر غورفکر کرلو۔۔ ممکن ہے کہ پہلے فیصلہ کی نسبت اب زیادہ بہتر اور زیادہ مفید فیصلہ کرسکو۔ ھذا تفصیل ما اشار الیہ الشیخ (رح) تعالیٰ ۔459 یہ حکم ماقبل کی تاکید اور توضیح ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بعض لوگ اپنی بیوی کو تنگ کرنے کیلئے انہیں طلاق دے دیتے۔ جب ان کی عدت قریب الاختتام ہوتی تو رجوع کرلیتے پھر کچھ عرصہ بعد طلاق دیدیتے اور رجوع کرلیتے یہ سلسلہ جاری رکھتے تاکہ وہ بچاری نہ اس کے پاس آرام اور سکون کی زندگی گذار سکے اور نہ ہی کسی دوسرے خاوند سے نکاح کرسکے تو اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ اگر مطلقہ رجعیہ کو واپس لانا چاہو تو حسن معاشرت کی نیت سے واپس لاؤ تنگ کرنے اور اسے تکلیف پہنچانے کی غرض سے ایسا نہ کرو۔ روی مالک عن ثور بن زید الدیلی ان الرجل کان یطلق تہ ثم یراجعہا ولا حاجۃ لہ بھا ولا یرید امساکھا کی ما یطول بذلک علدۃ ولیضارھا فانزل اللہ تعالیٰ ولا تمسکوھن ضرارا الایۃ (قرطبی ص 156 ج 3) نقلہ ابن کثیر ص 281 ج 1، عن ابن عباس و مجاھد ومسروق والحسن وقتادة والضحاک والربیع ومقاتل بن حیان وغیر واحد۔460 حقوق زوجیت میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے یہ ایک وعید شدید ہے۔ یعنی جو بیوی کو محض تنگ کرنے کی غرض سے اپنے پاس روکے گا وہ ظالم ہے اور اپنی جان پر ظلم کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ اس بد سلوکی کی دنیا یا آخرت یا دونوں میں سخت سزا پائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ اور جب تم نے اپنی عورتوں کو رجعی طلاق دے دی ہو اور وہ مطلقہ عورتیں اپن عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو پھر دو باتوں میں سے ایک بات پروری ہے کہ ان کو یا تو شرعی دستور کے موافق روک لو اور ان سے رجوع کرلو یا ان کو شرعی قاعدے سے خوش اسلوبی کے ساتھ چھوڑ دو اور ان کو ستانے اور تکلف پہنچانے کی غرض سے کہ ان پر ظلم و زیادتی کیا کرو گے نہ روک رکھو اور جو شخص ایسا کرے گا کہ ظلم اور زیادتی کے ارادے سے ان کو ستانے کے لئے روکے گا تو و ہ اپنے حق میں برا کرے گا اور خود ہی اپنا نقصان کرے گا اور آیات الٰہی اور احکام الٰہی کو ہنسی کھیل نہ ٹھہرائو اور اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کو یاد کرتے رہو جو اس نے تم پر کئے ہیں اور بالخصوص اس کتاب کو اور حکمت و دانائی کی باتوں کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس غرض سے نازل فرمائی ہیں اور ان کی وجہ سے تم کو نصیحت فرمائے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔ ( تیسیر) حضرت ابن عباس ، مجاہد ، مسروق ، حسن قتادہ اور ضحاک وغیرہم نے فرمایا ہے کہ بعض لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی عورت کو رجعی طلاق دے دیتے اور وہ جب اپنی عدت پوری کرنیکے قریب ہوتی تو رجوع کرلیتے اور چند دن بعد پھر طلاق دے دیتے اور جب وہ عدت پوری کرنے کے لگ بھلگ ہوتی تو پھر رجوع کرلیتے اور چند دن بعد پھر طلاق دے دیتے غرض اس طرح اسکو تنگ کرتے کہ بجائے تین حیض کے نو حیض میں اسکا پیچھا چھوٹتا زمانہ جاہلیت میں اس سے زیادہ بری حالت تھی اس دور میں طلاق کا کوئی شمار ہی نہیں تھا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ عورتوں کو تنگ کرنے سے محفوظ رکھا جائے اگرچہ یہ مسئلہ اوپر بھی آیا ہے لیکن وہاں ضمنا ً ذکر فرمایا تھا ۔ یہاں مستقلاً بیان کرنا مقصود ہے اس لئے تکرار نہیں ہے ، نیزاوپر کی آیت سے صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ طلاق رجعی کے بعد رجوع کا حق ہے اور ایک یاد دو طلاقوں کے بعد رجوع ہوسکتا ہے۔ اس آیت میں اسکی تصریح ہے جو رجعت عدت کے اندر ہونی چاہئے اور مقصود رجعت سے گھرکرنا اور آئندہ حسن سلوک سیرہنا ہو محض عورت کو ستانا اور عدت کو طویل کرنا نہ ہو ۔ ابن ابی حاتم نے حضرت عروہ سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں تجھ کو طلاق بھی نہیں دوں گا اور تیرے پاس بھی نہیں جائوں گا ۔ اس نے پوچھا یہ کیونکر ہوگا اس نے جواب دیا طلاق دوں گا اور جب عدت پوری ہونے لگی گی رجوع کرلوں گا ۔ اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے خاوند کی بات سنائی اس وقت تک غالباً طلاق کی تجدید نازل نہیں ہوئی تھی ۔ اس واقعہ کے بعد اوپر والی آیت بھی نازل ہوئی کہ طلاق رجعی دو مرتبہ ہے اور یہ آیت بھی نازل ہوئی کہ اس قسم کی قانون گجائش نکال کر عورت کو ضرور پہنچانا اپنے اوپر خود ظلم کرنا ہے اور احکام الٰہی کے ساتھ مذاق کرنا ہے۔ قانون کا منشا دیکھنا چاہئے تم نے قانون گنجائش نکال کر اس کے اصل منشا کے خلاف کرنا شروع کردیا تو ایسا کرنا آیات الٰہی کے ساتھ استہزا کرنا ہے۔ اسی لئے فرمایا ۔ فقد ظلم نفسہ۔ ابن جریرنے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشعر یین پر خفگی کا اظہار فرمایا۔ اس پر میں نے عرض کیا ۔ یا رسول لالہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اشعر والوں پر کیوں ناراض ہوتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! تم میں کچھ لوگ ادھر طلاق دیتے ہیں ادھر رجوع کرتے ہیں ۔ یہ طلاق کا طریقہ مسلمانوں کا نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ یہ اللہ کے احکام کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ امساک اور تسریح کی بحث ہم اوپر کرچکے ہیں یعنی رجوع کرو تو نیت یہ ہو کہ اچھا سلوک کرو گے اور آئندہ پہلے طورطریق پر نبھائو گے اور چھوڑو تو خوش اسلوبی کے ساتھ اس کے حقوق دے کر اسے رخصت کردو۔ رجوع اس غرض سے نہ ہو کہ عورت کی عدت طویل کردو تا کہ اس پر تعدی اور زیادتی کرو یا رجوع کر کے کوئی اور تکلیف پہنچائو۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی آیات سے مذاق کرنا ہے ۔ حسن ، قتادہ ، مقاتل اور ربیع کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے وہ شخص مراد ہے جو طلاق دے کر کہتا ہے کہ میں نے تو ہنسی سے کہہ دیا تھا اور ہزل کیا تھا عبادہ بن صامت کا قول ہے کہ کوئی آدمی کسی سے کہتا کہ میں نے اپنی لڑکی کو تیرے نکاح میں دیا پھر کہہ دیتا میں تو ہنسی سے کہہ رہا تھا ۔ اسی طرح بعض لوگ غلام کو آزاد کردیتے اور کہتے ہم نے تو یوں ہی ہنسی میں کہا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے احکام کو ہنسی اور کھیل نہ بنائو ۔ ہزل کا یہ مطلب ہے کہ لفظ تو ارادے سے کہے اور مقصود یہ ہو کہ اس لفظ کا اثر واقع نہ ہو ۔ طلاق ، عتاق اور نکاح میں ہزل کو شریعت نے جد کے قائم مقام کردیا ہے۔ یعنی اگر ہنسی میں بھی کہو گے تو طلاق واقع ہوجائے گی ۔ اسی طرح نکاح اور عتاق کو سمجھنا چاہئے۔ بعض روایات میں رجعت کا لفظ بھی آیا ہے۔ بعض میں بجائے عتاق کے رجعت ہے، لیکن ترمذی میں صرف طلاق عتاق اور نکاح کو فرمایا ہے۔ ہمارے زمانے میں جو فتنوں کا زمانہ ہے ۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ غصے میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ، حالانکہ یہ بھی غلط ہے ۔ آیات الٰہی کو مذاق بنانے کا ۔ بعض حضرات نے یہ مفہوم لیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت بغیر تدبیر اور غور و فکر کی جائے اور بدون خشوع اور خضوع کے قرآن کو پڑھنے اور تلاوت کے آداب کی رعایت نہ کرے تو یہ بھی آیات الٰہی کا مذاق ہے ۔ کتاب سے مراد یہاں قرآن ہے۔ جیسا کہ ہم نے تیسیر میں عرض کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات بیشمار ہیں ۔ عام انعامات کے ساتھ خصوصی احسان کا ذکر فرمایا ۔ قرآن و حکمت کا نزول بندوں پر روحانی اور باطنی احسان ہیں۔ حکمت کی تفسیر ہم اوپر بیان کرچکے ہیں ۔ علمائے سلف تو حکمت کے معنی سنت کرتے ہیں۔ یعنی قرآن و سنت کے احسان کو یاد کرو اور اسرار قرآنی بھی ہوسکتے ہیں اور احکام قرآن کی علتیں اور مصلحتیں بھی ہوسکتی ہیں ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلمات طیبات اور ان کے غوامض و اسرار بھی ہوسکتے ہیں ، چونکہ آیت میں بعض امور قبیحہ سے ممانعت فرمائی تھی ۔ اس لئے آخر میں فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس بات کو سمجھ لو کہ اسے ہر بات کی خبر ہے وہ تمہاری نیت اور تمہارے ارادوں سے بخوبی واقف ہے۔ اگر عورتوں کو ضرر پہنچانے کی غرض سے رجوع کرو گے اور احکام الٰہی کا مذاق اڑائو گے تو وہ تم کو سخت سزا دے گا اور تمہارے اعمال پر شدید مواخذہ کرے گا ۔ ( تسہیل)