Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
أَجَّلَ |
يُؤَجِّلُ |
أَجِّلْ |
مُؤَجِّل |
مُؤَجَّل |
تَأْجِیْل |
اَلْاَجَلُ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے : (وَ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَجَلًا مُّسَمًّی) (۴۰:۶۷) اور تاکہ تم (موت کے) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ۔ (اَیَّمَا الۡاَجَلَیۡنِ قَضَیۡتُ ) (۲۸:۲۸) ان دو معینہ مدتوں میں سے جونسی مدت میں پوری کردوں۔ محاورہ ہے دَیْنُہٗ مُؤجَّل اس کے قرصہ وصول کرنے کے لیے ایک مدت معین ہے قَدْ اَجَّلْتُہٗ میں نے اس کے لیے مدت مقرر کردی اور انسان کی زندگی کے لیے جو مدت مقرر ہوتی ہے، اسے بھی اَجَلٌ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ محاورہ ہے، دَنَا اَجَلُہٗ یعنی اس کی موت کا وقت قریب آپہنچا۔ اصل میں اس کے معنی مدتِ حیاۃ (زندگی) پورا کرلینا ہیں۔ قران پاک میں ہے : (وَّ بَلَغۡنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیۡۤ اَجَّلۡتَ لَنَا ) (۶:۱۲۸) اور (آخر) ہم اس وقت معین کو پہنچ گئے جو تونے ہمارے لیے مقرر کیا تھا۔ یہاں اَجَلٌ سے مراد حدِّ موت ہے اور بعض نے بڑھاپے کی انتہا مراد لی ہے درحقیقت ان دونوں کا ایک مفہوم ہے (کیونکہ) جب انسان بڑھاپے کی انتہاء کو پہنچ جائے تو موت کے قریب ہوجاتا ہے او رآیت کریمہ : (ثُمَّ قَضٰۤی اَجَلًا ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی ) (۶:۲) میں اجل اول سے حیات دنیوی اور اجل ثانی سے بقائِ اخروی مراد ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اوّل سے دنیا میں بقا او رثانی سے (برزخی زندگی مراد ہے جو) موت سے لے کر حشر تک کا زمانہ مراد ہے، یہ حسنؒ سے مروی ہے۔ ابن عباسؓ نے کہا ہے کہ یہ آیت کریمہ (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا) (۳۹:۴۲) میں جو دو موتیں مذکور ہیں ان کی طرف اشارہ ہے یعنی اوّل اجل سے نیند اور ثانی سے موت مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ دونوں جگہ اَجَلٌ سے مراد موت ہی ہے لیکن بعض کی موت کسی حادثہ مثلاً قتل، آتش زدگی، غرق وغیرہ ناموافق اسباب کی وجہ سے جو اس کی زندگی کے خاتمہ کا باعث بنتے ہیں اور بعض ان حوادث سے محفوظ اور عافیت کی زندگی بسر کرتے ہیں حتیٰ کہ ان کو طبعی موت آجاتی ہے۔ انہی دونوں قسم کی موت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا(1) (مَنْ اَخْطَأَتْہُ سَھْمُ الزَّزِیَّۃِ لَمْ تُخْطِئْہُ سَھْمُ الْمَنِیَّۃِ۔) اگر کوئی مصیبت کے تیر سے بچ بھی جائے تو موت کا تیر اس سے خطانہیںکرے گا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ انسان کی اجل (یعنی موت) دو قسم پر ہے۔ بعض جوانی کی حالت میں (کسی حادثہ کی وجہ سے) مرجاتے ہیں اور بعض عمر کی اس انتہا کو پہنچ کر مرتے ہیں جو اﷲتعالیٰ نے انسان کی طبعی زندگی کی آخری حد مقرر کی ہے۔ چنانچہ ان دونوں قسم کی موت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: (وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّتَوَفّٰی وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرَدُّ اِلٰۤی اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ ) (۲۲:۵) اور بعض (قبلاز پیری) مرجاتے ہیں اور بعض (شیخ فانی ہوجاتی اور بڑھاپے کی) نہایت خراب عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ اور شاعر نے کہا ہے۔ (2) (طویل) (۸) رَأیت المنایا خَبْطَ عشواء من تُصِبْ تُمِیْہُ۔ ’’موت اندھی اونٹنی کی طرح مخبوط پھر رہی ہیں جس کو پہنچ جائیں اسے ختم کر ڈالتی ہیں۔‘‘ اسی طرح دوسرے شاعر نے کہا ہے(3) (المنسبرح) (۹) مَنْ لَّمْ یَمُتْ عَبْطَۃً یَمُتْ ھَرْمًا ’’جو شخص جوانی میں فوت نہ ہو آخرکار پیر فرتوت ہوکر مرجائے گا۔‘‘ اَلْاٰجِلُ (دیر سے ہونے والا) یہ عَاجِلٌ کی ضد ہے اور ہر اس جنایۃ کو اِجْل کہہ دیا جاتا ہے جس کے انجام بد کا جلد ہی اندیشہ نہ ہو۔ اس اعتبار سے ہر اجل جنایۃ ہوتا ہے لیکن ہر جنایۃ اجل نہیں ہے محاورہ ہے : فَعَلْتُ کَذَا مِنْ اَجْلِہٖ میں نے فلاں کی وجہ سے یہ کام کیا۔ قرآن میں ہے : (مِنۡ اَجۡلِ ذٰلِکَ ۚ ۛ ؔ کَتَبۡنَا عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ) (۵:۳۲) اس (قتل) کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا۔ یعنی اس قتل کے ارتکاب کی وجہ سے، ایک قراء ت میں اِجْل (بکسرہ الہمزہ) ہے (4) یعنی اس جرم کی وجہ سے۔ اَجَلْ (ہاں بے شک) یہ حرف ایجاب ہے اور کسی خبر کی تصدیق کے لیے آتا ہے(5) او رآیت کریمہ : (وَ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ ) اور جب تم عورتوں کو (دو دفعہ) طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو انہیں نکاح میں رہنے دو۔ (۲:۲۳۱) میں بلوغ الاجل سے وہ مدت مراد ہے جو طلاق اور انقضاء عدت کے درمیان ہوتی ہے (نیز بلوغ اجل سے عدت کا ختم ہونا یا عدت کے ختم ہونے تک کی مدت کے قریب پہنچ جانا مراد ہے) او رآیت کریمہ : (فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ ) (۲:۲۳۲) میں بھی انقضاء عدت کی طرف اشارہ ہے یعنی اس وقت (فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ ) (۲:۲۳۴) ان پر کچھ گناہ نہیں ہے کہ اپنے حق میں جو پسند کریں کرگزریں۔
Surah:2Verse:231 |
اپنی مدت کو
their (waiting) term
|
|
Surah:2Verse:232 |
اپنی مدت کو
their (waiting) term
|
|
Surah:2Verse:234 |
اپنی عدت کو
their (specified) term
|
|
Surah:2Verse:235 |
اپنی مدت کو
its end
|
|
Surah:2Verse:282 |
وقت مقررہ۔ طے شدہ (مقررہ وقت تک)
a term
|
|
Surah:2Verse:282 |
اس کے مقرر وقت کے
its term
|
|
Surah:4Verse:77 |
وقت
a term"
|
|
Surah:6Verse:2 |
ایک مدت
a term -
|
|
Surah:6Verse:2 |
اور ایک مدت
and a term
|
|
Surah:6Verse:60 |
وقت
(the) term
|