Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 250

سورة البقرة

وَ لَمَّا بَرَزُوۡا لِجَالُوۡتَ وَ جُنُوۡدِہٖ قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۵۰﴾ؕ

And when they went forth to [face] Goliath and his soldiers, they said, "Our Lord, pour upon us patience and plant firmly our feet and give us victory over the disbelieving people."

جب ان کا جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو انہوں نے دعا مانگی کہ اے پروردگار ہمیں صبر دے ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah further tells; وَلَمَّا بَرَزُواْ لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ... And when they advanced to meet Jalut (Goliath) and his forces, When the faithful party, who were few under the command of Talut, faced their enemy, who were many under the command of Jalut, ... قَالُواْ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا ... they invoked: "Our Lord! Pour forth on us patience...," meaning, ... send down patience on us from You. ... وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا ... and set firm our feet, meaning, against the enemy and save us from running away and from feebleness, ... وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ and make us victorious over the disbelieving people.) Allah said:   Show more

جالوت مارا گیا یعنی جس وقت مسلمانوں کی اس مختصر جماعت نے کفار کے ٹڈی دل لشکر دیکھے تو جناب باری میں گڑگڑا کر دعائیں کرنی شروع کیں کہ اے اللہ ہمیں صبر و ثبات کا پہاڑ بنا دے ۔ لڑائی کے وقت ہمارے قدم جما دے ، منہ موڑنے اور بھاگنے سے ہمیں بچا لے اور ان دشمنوں پر ہمیں غالب کر ، چنانچہ ان کی عاجزانہ ... اور مخلصانہ دعائیں قبول ہوتی ہیں ، اللہ کی مدد نازل ہوتی ہے اور یہ مٹھی بھر جماعت اس ٹڈی دل لشکر کو تہس نہس کر دیتی ہے اور حضرت داؤد کے ہاتھوں مخالفین کا سردار اور سرتاج جالوت مارا جاتا ہے ، اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی مروی ہے کہ حضرت طالوت نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم جالوت کو قتل کرو گے تو میں اپنی بیٹی تمہارے نکاح میں دوں گا اور اپنا آدھا مال بھی تمہیں دے دوں گا اور حکومت میں بھی برابر شریک کر لوں گا ، چنانچہ حضرت داؤد نے پتھر کو فلاخن میں رکھ کر جالوت پر چلایا اور اسی سے وہ مارا گیا ، حضرت جالوت نے اپنا وعدہ پورا کیا ، بالآخر سلطنت کے مستقل سلطان آپ ہی ہو گئے اور پروردگار عالم کی طرف سے بھی نبوت جیسی زبردست نعمت عطا ہوئی اور حضرت شموئیل کے بعد یہ پیغمبر بھی بنے اور بادشاہ بھی ، حکمت سے مراد نبوت ہے اور بہت سے مخصوص علم بھی جو اللہ عزوجل نے چاہے اپنے اس نبی کو سکھائے ۔ پھر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ یوں پست لوگوں کی پستی نہ بدلتا جس طرح بنی اسرائیل کو طالوت جیسے مدبر بادشاہ اور داؤد جیسے دلیر سپہ سالار عطا فرما کر حکومت تبدیل نہ کرتا تو لوگ ہلاک ہو جاتے جیسے اور جگہ ہے آیت ( ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا ) یعنی یوں اگر ایک دوسرے کے دفیعہ نہ ہو تو عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام بہ کثرت ذِکر کیا جاتا ہے توڑ دی جائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک نیک بخت ایماندار کی وجہ سے اس کے آس پاس کے سو سو گھرانوں سے اللہ تعالیٰ بلاؤں کو دور کر دیتا ہے ۔ پھر راوی حدیث حضرت عبداللہ بن عمر نے اسی آیت کی تلاوت کی ( ابن جریر ) لیکن اس حدیث کی سند ضعیف ہے ، ابن جریر کی ایک اور غریب حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سچے مسلمان کی صلاحیت کی وجہ سے اس کی اولاد کی اولاد کو اس کے گھر والوں کو اور سنوار دیتا ہے اور اس کی موجودگی تک وہ سب اللہ کی حفاظت میں رہتے ہیں ، ابن مردویہ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت تک ہر زمانہ میں ساٹھ شخص تم میں ضرور ایسے رہیں گے جن کی وجہ سے تمہاری مدد کی جائے گی اور تم پر بارش برسائی جائے گی اور تمہیں روزی دی جائے گی ۔ ابن مردویہ کی دوسری حدیث میں ہے میری امت میں تیس ابدال ہوں گے جن کی وجہ سے تم روزیاں دئیے جاؤ گے ، تم پر بارش برسائی جائے گی اور تمہاری مدد کی جائے گی ۔ اس حدیث کے راوی حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے حضرت حسن بھی انہیں ابدال میں سے تھے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت اور اس کا احسان ہے کہ وہ ایک کو دوسرے سے دفع کرتا ہے ، وہی سچا حاکم ہے ، اس کے تمام کام حکمت سے پر ہوتے ہیں ، وہ اپنی دلیلیں اپنے بندوں پر واضح فرما رہا ہے ۔ وہ تمام مخلوق پر فضل و کرم کرتا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

250۔ 1 جالوت اس دشمن فوج کا کمانڈر اور سربراہ تھا جس سے طالوت اور ان کے رفقاء کا مقابلہ تھا یہ قوم عمالقہ تھی جو اپنے وقت کی بڑی جنگجو اور بہادر فوج سمجھی جاتی تھی ان کی اس شہرت کے پیش نظر عین معرکہ آرائی کے وقت اہل ایمان نے بارگاہ الٰہی میں صبرو اثبات اور کفر کے مقابلے میں ایمان کی فتح و کامیابی ک... ی دعا مانگی۔ گویا مادی اسباب کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ نصرت الٰہی کے لئے ایسے موقعوں پر بطور خاص طلبگار رہیں جیسے جنگ بدر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت آہو زاری سے فتح اور نصرت کی دعائیں مانگیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے منظور فرمایا اور مسلمانوں کی ایک نہایت قلیل تعداد کافروں کی بڑی تعداد پر غالب آئی۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥٠] یہی اللہ کے نیک بندوں کی علامت ہے کہ وہ اپنی ہمت اور سامان جنگ پر ہی بھروسہ نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عاجزی سے اللہ کو یاد کرتے اس سے صبر اور ثابت قدمی کی توفیق طلب کرتے اور اپنی فتح کے لیے دعائیں بھی کرتے ہیں اور جالوت کے اس مختصر سے لشکر نے بھی اللہ سے گڑگڑا کر ایسی دعائیں کیں جیسی جنگ...  بدر کے موقعہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کی تھیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفْرِغْ عَلَيْنَا : یہ باب افعال سے امر کا صیغہ ہے، جس کا معنی برتن انڈیل کر خالی کرنا ہے، یعنی انھوں نے دعا کی کہ اے ہمارے رب ! ہم پر پورا صبر انڈیل دے اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور کافروں پر ہماری مدد فرما۔ یہ بڑی جامع اور حسن ترتیب سے آراستہ دعا ہے، کیونکہ صبر آتا ہے تو ثابت قدمی ملتی ہے ثابت قدمی ... ہو تو نصرت الٰہی ملتی ہے۔ معلوم ہوا مومن کے لیے میدان جنگ میں بھی تیاری کے باوجود سب سے بڑا ہتھیار اللہ پر اعتماد اور اس سے دعا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۝ ٢٥٠ ۭ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثا... ني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکثرت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ برز البَرَاز : الفضاء، وبَرَزَ : حصل في براز، وذلک إمّا أن يظهر بذاته نحو : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] تنبيها أنه تبطل فيها الأبنية وسكّانها، ومنه : المبارزة للقتال، وهي الظهور من الصف، قال تعالی: لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] ، وقال عزّ وجلّ : وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] ، وإمّا أن يظهر بفضله، وهو أن يسبق في فعل محمود، وإمّا أن ينكشف عنه ما کان مستورا منه، ومنه قوله تعالی: وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] ، وقال تعالی: يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] ، وقوله : عزّ وجلّ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] تنبيها أنهم يعرضون عليها، ويقال : تَبَرَّزَ فلان، كناية عن التغوّط «1» . وامرأة بَرْزَة «2» ، عفیفة، لأنّ رفعتها بالعفة، لا أنّ اللفظة اقتضت ذلك . ( ب رز ) البراز کے معنی فضا یعنی کھلی جگہ کے ہیں ۔ اور برزرن کے معنی ہیں کھلی جگہ میں چلے جانا اور برود ( ظہور ) کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) خود کسی چیز کا ظاہر ہوجانا جیسے فرمایا : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] اور تم زمین کو صاف یہاں دیکھو گے ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ زمین پر سے عمارات اور ان کے ساکنین سب ختم ہوجائیں گے اسی سے مبارزۃ ہے جسکے معنی صفوف جنگ سے آگے نکل کر مقابلہ کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے بالمقابل میں آئے ۔ ( 2) دوم بروز کے معنی فضیلت ظاہر ہونے کے ہیں جو کسی محمود کام میں سبقت لے جانے سے حاصل ہوتی ہے ۔ ( 3 ) کسی مستور چیز کا منکشف ہو کر سامنے آجانا جیسے فرمایا : وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] اور سب لوگ خدائے یگا نہ زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ۔ { وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا } ( سورة إِبراهيم 21) اور قیامت کے دن سب لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] جس روز وہ نکل پڑیں گے ۔ اور آیت کریمہ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انہیں دو زخ کے سامنے لایا جائیگا محاورہ ہے تبرز فلان کنایہ از قضائے حاجت اور پاکدامن عورت کو امراءۃ برزۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رفعت پاک دامنی اور عفت میں مضمر ہوتی ہے نہ یہ کہ برزۃ کا لفظ اس معنی کا مقتضی ہے ۔ فرغ الفَرَاغُ : خلاف الشّغل، وقد فَرَغَ فَرَاغاً وفُرُوغاً ، وهو فَارِغٌ. قال تعالی: سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلانِ [ الرحمن/ 31] ، وقوله تعالی: وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] ، أي : كأنّما فَرَغَ من لبّها لما تداخلها من الخوف ( ف ر غ ) الفراغ یہ شغل کی ضد ہے ۔ اور فرغ ( ن ) فروغا خالی ہونا فارغ خالی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] اور موسٰی کی ماں کا دل بےصبر ہوگیا ۔ یعنی خوف کی وجہ سے گویا عقل سے خالی ہوچکا تھا أَفْرِغْ وأَفْرَغْتُ الدّلو : صببت ما فيه، ومنه استعیر : أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً [ الأعراف/ 126] اور افرغت الدلو کے معنی ڈول سے پانی بہا کر اسے خالی کردینا کے ہیں چناچہ آیت کریمہ : ۔ أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً [ الأعراف/ 126] ہم پر صبر کے دہانے کھول دے بھی اسی سے مستعار ہے ذھب دمہ فرغا اس کا خون رائیگاں گیا صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں ثبت الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ( ث ب ت ) الثبات یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥٠) چناچہ جب یہ جالوت اور اس کے لشکر کے سامنے آئے تو سچے حضرات دعا مانگنے لگے کہ پروردگار صبر کے ساتھ ہمیں عزت عطا فرما اور ہمیں لڑائی میں ثابت قدم رکھ اور جالوت اور اس کے لشکر پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥٠ (وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ ) بَرَزَ کے معنی ہیں ظاہر ہوجانا ‘ آمنے سامنے آجانا۔ اب دونوں لشکر میدان جنگ میں آمنے سامنے آئے۔ ادھر طالوت کا لشکر ہے اور ادھر جالوت کا۔ (قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا) اَفْرَغَ کا مفہوم ہے کسی برتن سے کسی کے اوپر پانی اس طرح گر... ا دینا کہ وہ برتن خالی ہوجائے۔ طالوت اور ان کے ساتھی اہل ایمان نے دشمن کے ّ مدمقابل آنے پر دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر صبر کا فیضان فرما ‘ صبر کی بارش فرما دے۔ (وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا) (وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ) ۔ یہ دعا گویا اہل ایمان کو تلقین کی جا رہی ہے کہ جب بدر کے موقع پر تمہارا کفارّ سے مقابلہ ہوگا تو تمہیں یہ دعا کرنی چاہیے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(250 ۔ 252) ۔ جب جالوت کے ایک بہت بڑے لشکر سے طالوت اور اصحاب طالوت کا مقابلہ ہوا اس وقت طالوت کے لشکر کے ایمان دار لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ صبر اور استقامت کی دعا مانگی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور دشمن کے لشکر پر ان کو فتح دی اور داؤد (علیہ السلام) نے جالوت کو قتل کیا اور پھر حضرت ش... مویل کے انتقال کے بعد نبوت اور طالوت کے انتقال کے بعد بادشاہت سب کچھ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے خاندان میں آگیا۔ اس کے بعد آیت میں ایک عادت الٰہی کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض سرکشوں کی سرکشی اپنے بعض بندوں کے ذریعہ سے ہمیشہ اسی طرح رفع کرتارہتا ہے جس طرح جالوت کی سرکشی جو بڑا جابر مشہور تھا طالوت کے ذریعہ سے رفع کی گئی۔ اور آخر کو پورے قصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی فرمائی کہ بغیر اہل کتاب کی مدد کے تم جو ان کے انبیاء اور ان کی کتابوں کے صحیح قصے بیان کرتے ہو یہ بات تمہارے نبی صاحب وحی ہونے کی پوری دلیل ہے جس کو اہل کتاب بھی اپنے دل میں خوب سمجھتے ہیں اور ظاہر میں جو وہ لوگ تمہاری نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ یہ محض ان کی ہٹ دھرمی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:250) برزوا۔ وہ لڑائی کے لئے نکلے۔ ماضی جمع مذکر غائب بروز (باب نصر) مصدر بمعنی کھلم کھلا ظاہر ہونا میدان جنگ میں صف سے مدمقابل سے لڑنے کے لئے نکلنے کو مبارزت کہتے ہیں۔ بروز۔ کی مختلف اقسام ہیں :۔ (1) بذاتہ کسی چیز کا خود ظاہر کرنا۔ جیسے وتری الارض باردۃ (18:47) اور تم دیکھے کہ زمین کھل گئی ۔ کیون... کہ اس روز مکان اور مکین اور مکین سب مٹ جائینگے۔ اور زمین ازخود کھل جائے گی۔ اسی لئے میدان جنگ میں صف سے نکلنے کو مبارزت کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے لبرز الذین کرب علیہم القتل الی مضاجعم (3:154) تو جن کی تقدیر میں قتل لکھ دیا گیا ہے وہ تو اپنے مقتلوں کی کی طرف نکل کر ہی رہیں گے۔ (2) چھپی ہوئی چیز کا کھل جانا۔ جیسے وبرزت الجحیم للغوین (26:91) اور گمراہوں کے لئے دوزخ ظاہر کردی جائے گی۔ افرغ علینا صبرا وافرغ۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ افراغ (افعال) مصدر بمعنی بہانا۔ دہانہ کھولنا۔ تو ہم پر دہانہ کھول دے۔ ای اصبب علینا صبرا۔ ہم پر صبر انڈیل دے۔ ہم کو (بہت) صبر عطا کر۔ صبرا۔ بوجہ مفعول بہ منصوب ہے۔ افرغ مادہ فرغ سے مشتق ہے الفراغ شغل کی ضد ہے اور فرغ یفرغ فروغ بمعنی خالی ہونا ہے ۔ فارغ خالی قرآن مجید میں ہے واصبح فؤاد ام موسیٰ فارغا (28:10) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اماں کا دل بےصبر ہوگیا۔ یعنی خوف کی وجہ سے گویا عقل سے خالی ہوگیا۔ بعض نے کہا کہ فارغا کے معنی موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال سے خالی ہونا ہے۔ یعنی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کا خیال ان کے دل سے بھلا دیا۔ حتیٰ کہ وہ مطمئن ہوگئی۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا میں ڈال دینا انہوں نے گوارا کرلیا۔ اور دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے فاذا فرغت فانصب (94:7) تو جب فارغ ہوا کرو عبادت میں محنت کیا کرو۔ اور فرغت الدلو کے معنی ڈول سے پانی بہا کر اسے خالی کردینا کے ہیں۔ چناچہ افرغ علینا صبرا (آیت ہذا میں) ہم پر صبر کے دہانے کھول دے۔ اسی سے مستعار ہے۔ ثبت۔ امر کا صیغہ واحد حاضر۔ تثبیت (تفعیل) مصدر۔ تو ثابت رکھ۔ تو قائم رکھ۔ اقدامنا۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول ثبت کا۔ انصرنا۔ انصر امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم۔ تو ہماری مدد فرما۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اس دعا کی ترتیب بڑی پاکیزہ ہے کہ غلبہ کے لیے چونکہ ثابت قدمی کی ضرورت ہے اس لیے پہلے اس کی دعا کی اور ثابت قدمی کا مدار ثابت قلب پر ہے اس لیے اس سے پہلے ثبات قلب کی دعا کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن جب طالوت کے لشکر کا جالوت کے لشکروں کے ساتھ آمنا سامنا ہوا تو جذبۂ ایمان سے سرشارمجاہد اپنے رب کے حضور دعائیں مانگنے لگے کہ بار الٰہا ! ہمیں حوصلہ، ثابت قدمی اور کفار پر غلبہ عطا فرما ! سو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ جناب داوٗد (علیہ السلام) نے کفار کے کمانڈر جالوت کو قتل کیا۔ جس کے بدلے ... میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داوٗد (علیہ السلام) کو بہت بڑی مملکت سونپتے ہوئے نبوت سے سرفراز فرمایا۔ یہ وہی داوٗد (علیہ السلام) ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا فرمایا جو پیغمبر بھی تھے اور حکمران بھی۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنا علم وفضل عطا کرتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے نہ ہٹائے تو زمین پر فساد عظیم برپا ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ اہل جہاں پر انتہائی فضل فرمانے والا ہے۔ بنی اسرائیل کے ان دو واقعات میں ایک طرف اہل مکہ کے مظالم کی طرف اشارہ ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو بتلایا جارہا ہے کہ تمہیں بنی اسرائیل کی طرح جنگ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ بیشک تمہارے ساتھ اہل مکہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو عمالقہ نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا تھا۔ ہاں اگر تم پر جنگ مسلط کردی جائے تو بنی اسرائیل کے ایمان دار مجاہدوں کی طرح تمہیں بھی پوری غیرت اور جرأت کے ساتھ ڈٹ جانا چاہیے۔ جیسے انہوں نے میدان کارزار میں اترنے سے پہلے اپنے رب سے نصرت و حمایت طلب کی تھی تمہیں بھی اپنے رب کی نصرت ودستگیری مانگنا چاہیے جس طرح بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں نے دشمن کے مدّ مقابل ہونے کے بعد اپنے کمانڈر سے غداری کی تھی۔ ایسے ہی حالات تمہیں بھی درپیش ہوسکتے ہیں جو تھوڑے ہی عرصہ کے بعد احد میں منافقین کے کردار کی وجہ سے پیش آئے۔ جب منافقین کفار کو دکھا دکھا کر ٹولیوں کی صورت میں مسلمانوں سے الگ ہوئے تھے۔ وہ طالوت کی سربراہی پر یہ کہہ کر معترض ہوئے تھے کہ اس کے پاس مال نہیں۔ منافق یہ کہہ کر الگ ہوئے تھے کہ اس موقع پر مدینہ میں رہ کر لڑنے کی ہماری تجویز تسلیم نہیں کی گئی ہے۔ حالانکہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کے حق میں تھے لیکن مسلمانوں کی بھاری اکثریت کا احترام کرتے ہوئے میدان احد میں تشریف لے گئے۔ طالوت کے ساتھیوں کی طرح مکہ والے بھی یہی کہتے تھے کہ یہ نبی تو غریب ہے پیغمبری تو ابو الحکم (ابوجہل) یا طائف کے سرداروں میں سے کسی کو ملنا چاہیے تھی۔ ازل سے اللہ تعالیٰ کا یہی دستور ہے کہ وہ جہاد اور دوسرے ذرائع سے ظالم اور سفّاک لوگوں کو کمزوروں اور مظلوموں کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا کرتا ہے۔ جس کی ایک حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوکررہ جائے جو اللہ تعالیٰ کو ہر گز گوارا نہیں۔ مسائل ١۔ قیادت کا انتخاب مال نہیں علمی اور جسمانی صلاحیت پر ہونا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کشادگی اور علم والا ہے۔ ٣۔ مجاہد کی تربیت اور آزمائش ہونا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھوڑے زیادہ پر غالب آیا کرتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ صابروں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ ٦۔ جنگ سے پہلے اور اس کے دوران اللہ تعالیٰ سے مدد اور حوصلہ مانگنا چاہیے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حکومت اور حکمت عطا کرتا ہے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ زمین میں امن قائم رکھنے کے لیے ظالم کو مظلوموں کے ذریعے ہٹایا کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن طالوت و جالوت کا واقعہ اور حکمران کے اوصاف : ١۔ بنی اسرائیل کا بادشاہ کی تقرری کے لیے درخواست کرنا۔ (البقرۃ : ٢٤٦) ٢۔ حکمران کے دو بڑے اوصاف۔ (البقرۃ : ٢٤٧) ٣۔ طالوت کے پاس بطور نشانی تابوت سکینہ کا آنا۔ (البقرۃ : ٢٤٨) ٤۔ لشکر کا کم ہمتی دکھانا۔ (البقرۃ : ٢٤٩) ٥۔ طالوت کا جالوت پر فتح حاصل کرنا۔ (البقرۃ : ٢٥٠، ٢٥١) ٦۔ فتح وشکست کا معیار کثرت وقلت نہیں ہے۔ (البقرۃ : ٢٤٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ہے صحیح طریقہ ” اے ہمارے رب ! ہم پر صبر کا فیضان کر۔ “ یہ ایسی تعبیر ہے جس سے فیضان صبر کا پورا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اللہ کی طرف سے فیضان اس طرح ہوتا ہے جس طرح ایک برتن بھر کر ان پر انڈیل دیا جائے اور ان کا پیالہ دل اس سے لبریز ہوجائے ۔ اس کے نتیجے میں ان پر طمانیت اور سکینت نازل ہوجاتی ... ہے اور وہ اس ہولناک معرکے کے تیارہوجاتے ہیں ۔” ہمارے قدم جمادے۔ “ اس لئے کہ قدم اس کے دست قدرت میں ہیں ۔ وہی ہے جو ان کو اپنی جگہ ثابت کرتا ہے کہ متزلزل نہ ہوں ، پھسلیں نہیں ، جگہ چھوڑ کر نہ جائیں ” اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب فرما۔ “ موقف واضح ہے ایمان کا مقابلہ کفر کے ساتھ ہے حق باطل کے مقابلے میں صف آراء ہے اسی لئے اللہ کو پکارا جاتا ہے کہ اللہ اپنے دوستوں کی مددفرما ، جو تیرے کافر دشمنوں کے مقابلے میں صف آراء ہیں ۔ ان لوگوں کے ضمیر میں کوئی شک وشبہ نہیں ، کوئی خلجان نہیں ، ان کی فکر میں کوئی کھوٹ نہیں اور نصب العین کی صحت اور طریق کار کے تعین میں کوئی شک نہیں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

491 بَرَزُوْ ا کے معنی ہیں صاروا فی البراز وھو الفیح من الارض المتسع (قرطبی ص 256 ج 3، بحر ص 267 ج 2) یعنی جب وہ کھلے میدان میں جالوت اور اس کے لشکر کے سامنے ہوئے تو چونکہ دشمن کی فوج 90 ہزار اور بروایت تین لاکھ سواروں پر مشتمل تھی اور مسلمان صرف 313 تھے اس لیے انہوں نے گڑ گڑا کر نہایت ہی عاجزی اور ... تضرع سے خدا سے دعا کی کہ اے اللہ ہمیں صبر و استقلال اور ثابت قدمی عطا کرنا اور کافروں کی اس فوج پر ہمیں فتح مند فرمانا۔ فَهَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۔ اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور ان کی مدد فرمائی چناچہ اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور ان کی مدد فرمائی چناچہ انہوں نے اللہ کی توفیق ونصرت سے ان کو شکست دیدی اس واقعہ میں یہ جملہ مقصودی ہے یعنی ان کی قلت کے باوجود اللہ نے ان کو کثیر لشکر پر فتح دی اس لیے تم بھی اللہ پر بھروسہ کر کے جہاد کرو۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور جب طالوت اور اس کے ساتھی مسلمان جالوت اور اس کی فوجوں کے بالمقابل کھلے میدان میں نکل کر آئے تو حضرت حق کی جناب میں دعا کرنے لگے اور انہوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہم پر صبر و استقلال انڈیل دے اور ہمارے قدم جمائے رکھ اور ہم کو ثابت قدم رکھ اور ا س کا فرقوم پر ہم کو غالب کر اور ہماری مدد فرما ... ۔ براز زمین کے کھلے میدان کو کہتے ہیں اور جو چیز کھلے میدان میں ہوتی ہے وہ نمایاں اور ظاہر ہوتی ہے اس لئے بزار کا ترجمہ ظہور کرتے ہیں ظاہر ہوئے سامنے آئے۔ مطلب یہ ہے کہ میدان جنگ میں نکل کر سامنے آئے۔ افراغ کے معنی میں انڈیلنا ، اردو میں بولا کرتے ہیں ے۔ ساری مشک انڈیل دو ، صراحی میں جو کچھ ہے سب انڈیل دو ۔ یہاں صبر کے طلب کرنے میں مبالغہ ہے یعنی ہمارے قلوب پر جتنا صبر ہو سب ۔۔۔ ڈال دے آخری ٹکڑے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے قہر کے ساتھ ہماری مدد فرما یعنی ان کافروں پر غالب کر دے۔ دعا کے الفاظ میں بہترین ترتیب ہے اور صبر و استقلال کی طلب ہے کہ ہمارے قلب پر بکثرت صبر نازل فرما صبر سے ثبات قدم حاصل ہوتا ہے پھر اس کی دعا کی اور آخر میں صبر و استقامت جو غلبہ کا موجب ہے اس غلبہ اور فتح کی دعا کی ۔ اور دعا کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قلت تعداد کی وجہ سے انتہائی اضطراب تھا ۔ کہاں تین سو تیرہ اور کہاں جالوت کی فوج لیکن پھر بھی ان لوگوں کی ہمت کو شابات ہے کہ انہوں نے صبر و استقلال کا دامن نہیں چھوڑا اور جناب باری کی درگاہ میں التجا کی اور عاجزانہ درخواست کی آگے اللہ تعالیٰ ان کی فتح و کامرانی کا تذکرہ فرماتا ہے اور اسلامی جہاد کا فلسفہ اور جنگ کی حکمت بیان فرماتا ہے۔ (تسہیل)  Show more