Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 251

سورة البقرة

فَہَزَمُوۡہُمۡ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۟ ۙ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَ اٰتٰىہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الۡاَرۡضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۵۱﴾

So they defeated them by permission of Allah , and David killed Goliath, and Allah gave him the kingship and prophethood and taught him from that which He willed. And if it were not for Allah checking [some] people by means of others, the earth would have been corrupted, but Allah is full of bounty to the worlds.

چناچہ اللہ تعالٰی کے حکم سے انہوں نے جالوتیوں کو شکست دے دی اور ( حضرت ) ( داؤد علیہ اسلام ) کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا اور اللہ تعالٰی نے داؤد ( علیہ السلام ) کو مملکت و حکمت اور جتنا کچھ چاہا علم بھی عطا فرمایا ۔ اگر اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن اللہ تعالٰی دنیا والوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللّهِ ... So they routed them by Allah's leave, meaning, they defeated and overwhelmed them by Allah's aid and support. Then, ... وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ ... and Dawud killed Jalut. Israelite accounts claimed that (Prophet) David killed Goliath with a slingshot that he had, which he launched at Goliath causing his death. Talut promised that whoever killed Jalut, would marry his daughter and would share his kingship and authority. He kept his promise. Later, the kingship was transferred to Prophet Dawud in addition to being granted Prophethood by Allah. So, Allah said: ... وَاتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ ... ...and Allah gave him (Dawud) the kingdom, that Talut had and, ... وَالْحِكْمَةَ ... and Al-Hikmah, that comes with the Prophethood, meaning, after Shamwil. Allah then said, ... وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاء ... and taught him of that which He willed. meaning, what He willed of the knowledge that He bestowed on (Prophet) Dawud. Next, Allah said: ... وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الاَرْضُ ... And if Allah did not check one set of people by means of another, the earth would indeed be full of mischief. This Ayah indicates that if it were not for the fact that Allah checks one set of people with another, such as when Talut and the bravery of Dawud helped the Children of Israel (against Goliath), then people would have perished. Similarly, Allah said: وَلَوْلاَ دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَمِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَتٌ وَمَسَـجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسمُ اللَّهِ كَثِيراً For had it not been that Allah checks one set of people by means of another, monasteries, churches, synagogues, and Masjids, wherein the Name of Allah is mentioned much, would surely, have been pulled down. (22:40) Allah then said: ... وَلَـكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ But Allah is full of bounty to the Alamin (mankind, Jinn and all that exists), meaning, by His mercy and favor He fixes some of them by some others. Surely, Allah has the wisdom, the supreme authority and the clear proof against His creation in all of His actions and statements. Allah said: تِلْكَ ايَاتُ اللّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

251۔ 1 حضرت داؤد (علیہ السلام) جو ابھی پیغمبر نہ بادشاہ تھے اس لشکر طالوت میں ایک سپاہی کے طور پر شامل تھے ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے جالوت کا خاتمہ کیا اور تھوڑے سے اہل ایمان کے ذریعے ایک بڑی قوم کو شکست فاش دلوائی۔ 251۔ 2 اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بادشاہت بھی عطا فرمائی اور نبوت بھی لفظ حکمت سے بعض نے نبوت بعض نے صنعت آہن گری اور بعض نے ان امور کی سمجھ مراد لی جو اس موقع جنگ پر اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادے سے فیصلہ کن ثابت ہوئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥١] حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے بکریاں چرایا کرتے تھے، پھرتیلا، مضبوط اور چست بدن تھا۔ بہت اچھے نشانہ باز تھے اور جو وحشی جانور بکریوں کے ریوڑ پر حملہ آور ہوتے۔ پتھروں کے ذریعہ ہی انہیں مار ڈالتے یا مار بھگاتے تھے۔ وہ اتنے جرات مند اور طاقتور تھے کہ اگر کوئی درندہ ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو اس کے نچلے جبڑے پر پاؤں رکھ کر اوپر کے جبڑے کو اس زور سے کھینچتے تھے کہ اسے چیر کے رکھ دیتے تھے۔ [٣٥٢] جب مقابلہ شروع ہوا تو جالوت خود سامنے آیا، اور آ کر دعوت مبارزت دینے لگا وہ سارے کا سارا لوہے میں ڈوبا ہوا تھا، صرف چہرہ اور آنکھیں ننگی تھیں۔ داؤد (علیہ السلام) نے راہ میں سے دو تین پتھر اس غرض سے اٹھا لیے تھے۔ آپ نے یکے بعد دیگرے یہ تینوں پتھر فلاخن میں رکھ کر ان سے جالوت پر حملہ کیا جو اس کی پیشانی پر لگے اور اس کے سر کو چیرتے ہوئے پیچھے گدی تک نکل گئے، جس سے جالوت مر کر گرپڑا۔ اس واقعہ سے جالوت کے لشکر کے حوصلے پست ہوگئے اور طالوت کے اس مختصر لشکر کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔ بعد میں وہ بنی اسرائیل کا متفق علیہ اور بلا شرکت غیرے بادشاہ بن گئے۔ [٣٥٣] اس واقعہ کے بعد طالوت نے اپنی بیٹی کا داؤد (علیہ السلام) سے نکاح کردیا اور طالوت کے بعد داؤد (علیہ السلام) ہی اس کے جانشین ہوئے پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبوت سے بھی سرفراز فرمایا۔ [٣٥٤] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمین کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے اپنا ضابطہ بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ کسی قوم کو ایک خاص حد تک زمین میں غلبہ و طاقت حاصل کرنے کی قوت و توفیق عطا فرماتا ہے۔ پھر جب وہ قوم فساد فی الارض میں مبتلا ہو کر اس حد خاص سے آگے بڑھنے لگتی ہے تو کسی دوسری قوم کے ذریعہ اس کا زور توڑ دیتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا اور ایک ہی قوم یا پارٹی کا اقتدار زمین میں ہمیشہ قائم رکھا جاتا تو اس کا ظلم و تشدد انتہا کو پہنچ جاتا اور اللہ تعالیٰ کے ملک میں فساد عظیم بپا ہوجاتا۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا یہ ضابطہ تمام اقوام پر اس کی بہت مہربانی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَهَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ : چناچہ ان تھوڑے سے مسلمانوں نے جالوت کے لشکروں کو اللہ کے حکم سے شکست دی اور داؤد (علیہ السلام) نے، جو اس وقت ایک سپاہی تھے، کفار کے بادشاہ جالوت کو قتل کردیا، جس کے نتیجے میں طالوت کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں سلطنت اور حکمت یعنی نبوت عطا فرمائی اور جو چاہا سکھایا، ان کو سکھائے گئے علوم میں سے قرآن مجید میں ان کے اسلحہ سازی کے علم، پرندوں کی بولی کے علم اور حکم یعنی قوت فیصلہ کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ان کی خوش الحانی اور پرندوں اور پہاڑوں کے ان کے ساتھ تسبیح کرنے کا بھی ذکر ہے۔ نادان لوگ کہتے ہیں کہ لڑائی کرنا نبیوں کا کام نہیں، اس قصہ سے معلوم ہوا کہ جہاد ہمیشہ سے رہا ہے اور اگر جہاد نہ ہو تو مفسد لوگ شہروں کو ویران کر ڈالیں۔ (موضح) وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۙ۔۔ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی گروہ قوت و اقتدار کے نشے میں بدمست ہو کر انسانی حد سے آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کسی دوسرے گروہ کو اٹھا کر اس کی سرکوبی کروا دیتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین میں امن قائم نہ ہوسکتا۔ مزید دیکھیے سورة حج (٤٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَہَزَمُوْھُمْ بِـاِذْنِ اللہِ۝ ٠ ۣ ۙ وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَاٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا يَشَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ۝ ٠ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝ ٢٥١ هزم أصل الهَزْمِ : غمز الشیء الیابس حتی ينحطم، كَهَزْمِ الشّنّ ، وهَزْمِ القثّاء والبطّيخ، ومنه : الهَزِيمَةُ لأنه كما يعبّر عنه بذلک يعبّر عنه بالحطم والکسر . قال تعالی: فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ [ البقرة/ 251] ، جُنْدٌ ما هُنالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزابِ [ ص/ 11] وأصابته هَازِمَةُ الدّهر . أي : کا سرة کقولهم : فاقرة، وهَزَمَ الرّعد : تكسّر صوته، والْمِهْزَامُ : عود يجعل الصّبيان في رأسه نارا فيلعبون به، كأنّهم يَهْزِمُونَ به الصّبيان . ويقولون للرّجل الطّبع : هَزَمَ واهْتَزَمَ. ( ھ ز م ) الھزم کے اصل معنی کسی خشک چیز کو دبا کر توڑ دینے کے ہیں ۔ خشک اور پرانے مشکیزے کو دبا کر توڑڈالنے یا تربوز ککڑی وغیرہ کے توڑنے پر ھزم کا لفظ بولاجاتا ہے اور اسی سے ہزیمت ( بمعنی شکست ) ہے جس طرح حطم ماکسر کا لفظ مجازا شکست کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اسی طرح ھزم کا لفظ بھی اس معنی میں بو لاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ [ البقرة/ 251] تو طالوت کی فوج نے خدا کے حکم سے ان کو ہزیمت دی جُنْدٌ ما هُنالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزابِ [ ص/ 11] یہاں شکست کھائے ہوئے گروہوں میں سے بھی ایک لشکر ہے ۔ اور فاقرۃ کی طرح ھازمتہ بھی بڑی مصیبت کو کہتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ اصابتہ ھازمتہ الدمرات بڑی مصیبت پہنچی ۔ ھزمالرعد گرج کی آواز کا شکستہ ہونا المھزام ایک لکڑی جس کے سرے پر آگ لگا کر بچے کھیلتے ہیں ۔ گویا وہ اس سے دوسرے لڑکوں کو ہزیمیت دیتے ہیں اور کمینے ( وفی ) شخص کے متعلق ھزم واھتزم کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ داود داود اسم أعجميّ. ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے ) جلت قال تعالی: وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] ، وذلک أعجميّ لا أصل له في العربية . ( ج ل ت ) جالوت یہ اسم عجمی ہے عربی میں اس کی اصل نہیں قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابل میں آئے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ دفع الدَّفْعُ إذا عدّي بإلى اقتضی معنی الإنالة، نحو قوله تعالی: فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 6] ، وإذا عدّي بعن اقتضی معنی الحماية، نحو : إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا [ الحج/ 38] ، وقال : وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج/ 40] ، وقوله : لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 2- 3] ، أي : حام، والمُدَفَّع : الذي يدفعه كلّ أحد «3» ، والدُّفْعَة من المطر، والدُّفَّاع من السّيل . ( د ف ع ) الدفع ( دفع کرنا ، ہٹا دینا ) جب اس کا تعدیہ بذریعہ الیٰ ہو تو اس کے معنی دے دینے اور حوالے کردینا ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 6] تو ان کا مال ان کے حوالے کردو ۔ اور جب بذریعہ عن متعدی ہو تو اس کے معنی مدافعت اور حمایت کرنا ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا[ الحج/ 38] خدا تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا تا تا رہتا ہے ہے ۔ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج/ 40] اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے ( پر چڑھائی اور حملہ کرنے ) سے ہٹاتا نہ رہتا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 2- 3] کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا ۔ اور وہ ) خدائے صاحب درجات کی طرف سے ( نازل ہوگا ) میں دافع کے معنی حامی اور محافظ کے ہیں ۔ المدقع ۔ ہر جگہ سے دھتکار ہوا ۔ ذلیل ار سوار ۔ الدفعۃ ۔ بارش کی بوچھاڑ ۔ الدفاع سیلاب کا زور ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥١) چناچہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی مدد سے ان کو شکست دے دی اور داؤد (علیہ السلام) نے جالوت جو کافروں کا سرغنہ تھا کہ مار ڈالا، اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی بادشاہت عطا فرمائی اور ان کو فہم اور نبوت عطا فرمائی اور بغیر آلات کے ذرہ بنانا سکھایا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ذریعہ بنی اسرائیل سے جالوت کے شر کو رفع کیا اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین تمام تر فساد سے بھر جاتی یعنی اللہ تعالیٰ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذریعے مومنین سے ان کے دشمنوں کے شر کو اور مجاہدین کے ذریعہ اہل باطل کے شرکو دور فرماتے ہیں اگر ایسا نہ ہو تو روئے زمین فساد سے پر ہوجائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥١ (فَہَزَمُوْہُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ قف) ۔ اہل ایمان نے اللہ کے اذن سے اور اللہ کی مشیتّ سے دشمنوں کو شکست دی۔ (وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ ) یہ داؤد وہی حضرت داؤد (علیہ السلام) ہیں جو جلیل القدر نبی اور بادشاہ ہوئے۔ ان کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) تھے۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ داؤد ایک گڈریے تھے اور جنگل میں اپنی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے۔ ان کے پاس ایک گوپیا ہوتا تھا ‘ جس کے اندر پتھر رکھ کر وہ اس کو گھما کر مارتے تھے۔ نشانہ اتنا صحیح تھا کہ اس سے وہ اپنی بکریوں پر حملہ کرنے والے جنگلی جانوروں کے جبڑے توڑ دیا کرتے تھے۔ جب طالوت اور جالوت کے لشکر آمنے سامنے تھے تو داؤد اتفاقاً وہاں آ نکلے۔ انہوں نے دیکھا کہ جالوت للکار رہا ہے کہ ہے کوئی جو میرے مقابلہ میں آئے ؟ لیکن ادھر سب کے سب سہمے کھڑے ہیں ‘ کوئی آگے نہیں بڑھ رہا۔ یہ دیکھ کر ان کی غیرت کو جوش آگیا۔ انہوں نے طالوت سے اس کے مقابلے کی اجازت مانگی اور کہنے لگے کہ میں تو اپنے گوپیے سے شیروں کے جبڑے توڑ دیا کرتا ہوں ‘ بھلا اس نامختون کی کیا حیثیت ہے ‘ میں ابھی اس کو کیفر کردار تک پہنچاتا ہوں۔ (واضح رہے کہ ختنہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے اور یہّ ملت ابراہیمی میں ہمیشہ رائج رہا ہے۔ لیکن کفار اور مشرکین کے ہاں ختنہ کا رواج نہیں تھا۔ چناچہ نامختون بنی اسرائیل کے ہاں سب سے بڑی گالی تھی۔ ) داؤد ( علیہ السلام) نے سپہ سالار کی اجازت سے اپنا گوپیا اور چند پتھر اٹھائے اور دیوہیکل جالوت کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ جالوت نے ان کا مذاق اڑایا ‘ لیکن انہوں نے اپنے گوپیے میں ایک پتھر رکھ کر ایسے گھما کر چھوڑا کہ وہ سیدھا آنکھ کے سوراخ سے پار ہو کر اس کے بھیجے کے اندر اتر گیا اور جالوت وہیں ڈھیر ہوگیا۔ (وَاٰتٰٹہ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ ط) ۔ طالوت نے داؤد ( علیہ السلام) سے اپنی بیٹی کا نکاح کردیا ‘ اس طرح وہ طالوت کے داماد ہوگئے۔ پھر طالوت نے انہی کو اپنا وارث بنایا اور یہ بادشاہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ( علیہ السلام) کو حکومت و سلطنت بھی عطا فرمائی اور حکمت و نبوت سے بھی نوازا۔ ان دونوں اعتبارات سے اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کو سرفراز فرمایا۔ یہ سب انعامات اس واقعے کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) پر ہوئے۔ ان سب پر مستزاد یہ کہ اللہ نے انہیں سکھایا جو کچھ کہ اللہ نے چاہا۔ (وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ ) زمین میں جب بھی فساد ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کوئی شکل ایسی پیدا کرتا ہے کہ کسی اور گروہ کو سامنے لا کر مفسدوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین میں فساد ہی فساد پھیل گیا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے جنگوں کے ذریعہ سے فسادی گروہوں کا خاتمہ فرمایا ہے۔ ہر بڑا فرعون جو آتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے مقابل کسی موسیٰ کو کھڑا کردیتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر سرکش اور فسادی کے لیے کوئی نہ کوئی علاج تجویز کیا ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

273. David was then in the early years of his youth. By chance he joined the army of Saul just when the mighty champion of the Philistine army had challenged the Israelite army to combat. None of the Israelites had the courage to take up the challenge. On seeing this, David took on Goliath in a duel and slew him. From then on, David could do no wrong in the eyes of the Israelites. Saul gave him the hand of his daughter in marriage and ultimately he became the ruler of the Israelites. (For details see 1 Samuel, chapters 17 and I8.) 274. This enunciates the principle according to which God treats the nations as a part of the Divine system governing the world. He allows various nations to attain power and strength within certain limits. But when any nation begins to commit wrongs and exceed reasonable limits. God brings forth another nation as a counterweight, Were the dominion of one nation or party to endure for ever, and were its capacity to perpetrate wrongs granted in perpetuity, God's earth would become full of corruption and wickedness.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :273 داؤد علیہ السّلام اس وقت ایک کم سن نوجوان تھے ۔ اتفاق سے طالوت کے لشکر میں عین اس وقت پہنچے ، جبکہ فلسطینیوں کی فوج کا گراں ڈیل پہلوان جالوت ( جولِیَت ) بنی اسرائیل کی فوج کو دعوت مبارزت دے رہا تھا اور اسرائیلیوں میں سے کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ اس کے مقابلے کو نکلے ۔ حضرت داؤد یہ رنگ دیکھ کر بے محابا اس کے مقابلے پر میدان میں جا پہنچے اور اس کو قتل کر دیا ۔ اس واقعے نے انہیں تمام اسرائیلیوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا ، طالوت نے اپنی بیٹی ان سے بیاہ دی اور آخر کار وہی اسرائیلیوں کے فرمانروا ہوئے ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سموئیل اوّل ۔ باب ۱۷ و ۱۸ ) سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :274 یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے یہ ضابطہ بنا رکھا ہے کہ وہ انسانوں کے مختلف گروہوں کو ایک حد خاص تک تو زمین میں غلبہ و طاقت حاصل کرنے دیتا ہے ، مگر جب کوئی گروہ حد سے بڑھنے لگتا ہے ، تو کسی دوسرے گروہ کے ذریعے سے وہ اس کا زور توڑ دیتا ہے ۔ اگر کہیں ایسا ہوتا کہ ایک قوم اور ایک پارٹی ہی کا اقتدار زمین میں ہمیشہ قائم رکھا جاتا اور اس کی قہرمانی لازوال ہوتی ، تو یقیناً ملک خدا میں فساد عظیم برپا ہو جاتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

168: جالوت دشمن کی فوج کا بڑا قوی ہیکل پہلوان تھا، سموئیل (علیہ السلام) کے نام پر جو پہلی کتاب بائبل میں ہے اس میں مذکور ہے کہ وہ کئی روز تک بنی اسرائیل کو چیلنج دیتا رہا کہ کوئی اس کے مقابلے کے لئے آئے، مگر کسی کو اس سے دوبدو لڑنے کی جرأت نہ ہوئی، داؤد (علیہ السلام) اس وقت نوعمر نوجوان تھے، ان کے تین بھائی جنگ میں شریک تھے، مگر وہ چونکہ سب سے چھوٹے تھے اس لئے اپنے بوڑھے والد کی خدمت کے لئے ان کے پاس رہ گئے تھے، جب جنگ شروع ہوئے کئی دن گزر گئے تو ان کے والد نے انہیں اپنے تین بھائیوں کی خبر لینے کے لئے میدان جنگ بھیجا، یہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ جالوت مسلسل چیلنج دے رہا ہے اور کوئی اس سے لڑنے کے لئے آگے نہیں بڑھ رہا ہے، تو انہیں غیرت آئی اور انہوں نے طالوت سے اجازت مانگی کہ وہ جالوت کے مقابلے کے لئے جانا چاہتے ہیں، ان کی نوعمری کے پیش نظر شروع میں طالوت اور دوسرے لوگوں کو بھی تردد ہوا، لیکن ان کے اصرار پر انہیں اجازت مل گئی، انہوں نے جالوت کے سامنے جاکر اللہ کا نام لیا اور ایک پتھر اس کی پیشانی پر مارا جو اس کے سر میں گھس گیا اور وہ زمین پر گر پڑا، یہ اس کے پاس گئے اور خود اسی کی تلوار لے کر اس کا سر قلم کردیا،(١۔ سموئیل، باب ١٧) یہاں تک بائبل اور قرآن کریم کے بیان میں کوئی تعارض نہیں ہے ؛ لیکن اس کے بعد بائبل میں یہ کہا گیا ہے کہ طالوت (یا ساؤل) کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کی مقبولیت سے حسد ہوگیا تھا ؛ چنانچہ بائبل میں ان کے خلاف بہت سی ناقابل یقین باتیں ذکر کی گئی ہیں، بظاہر یہ داستانیں ان بنی اسرائیل کی کاروائی ہے جو شروع سے طالوت کے مخالف تھے، قرآن کریم نے جن الفاظ میں طالوت کی تعریف کی ہے ان میں حسد جیسی بیماری کی گنجائش نہیں ہے، بہر حال حضرت داؤد (علیہ السلام) کے اس کارنامے نے انہیں ایسی مقبولیت عطا کی کہ بعد میں وہ بنی اسرائیل کے بادشاہ بھی بنے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت سے بھی سرفراز فرمایا اور ان کے ذریعے پہلی بار ایسا ہوا کہ نبوت اور بادشاہت ایک ہی ذات میں جمع ہوئیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:251) فھزموھم باذن اللہ۔ ای ان اللہ تعالیٰ استجاب الدعاء المؤمنین فافرغ علیہم الصبر وثبت اقدامھم ونصرھم علی القوم الکافرین حین التقوا فھزموھم باذن اللہ یعنی بقضائہ وارادتہ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی دعا قبول فرمالی ان پر صبر کے دہانے کھول دیئے۔ ان کو ثابت قدمی عطا کی۔ اور قوم کفار کے ساتھ مڈ بھیڑ ہونے پر اپنے ارادہ و حکم سے فتح نصیب فرمائی۔ ھذموھم۔ فعل ماضی جمع مذکر غائب ضمیر فاعل مؤمنون کی طرف راجع ہے ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب کافروں کے لئے ہے۔ ھزم (باب ضرب) مصدر۔ انہوں نے ان کو شکست دی۔ اتہ اللہ۔ انی ماضی واحد مذکر غائب ایتاء (افعال) مصدر۔ اس نے دیا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع داؤد ہے۔ الملک۔ بادشاہت۔ منصوب بوجہ مفعول الحکمۃ۔ ای النبوۃ۔ منصوب بوجہ مفعول حضرت داؤد (علیہ السلام) (حضرت علیمان (علیہ السلام) کے والد) حضرت طالوت کی فوج میں بطور سپاہی شامل تھے۔ حضرت طالوت نے اپنی بیٹی کی شادی حضرت داؤد (علیہ السلام) سے کردی اور سلطنت بھی ان کے حوالہ کردی۔ بعد میں جب بنوت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی تو سلطنت اور نبوت دونوں ایک خاندان میں جمع ہوگئیں۔ وعلمہ مما یشائ۔ اور اس کو سکھایا جو کچھ چاہا۔ یعنی منطق الطیر۔ خوش الحانی۔ علم زبور۔ علم سیاست و علم سلطنت۔ صنعت الدروع (زرہ کا بنانا) اور جو کچھ کہ خداوند تعالیٰ نے چاہا ۔ مما۔ من اور ما سے مرکب ہے۔ من یہاں تبعیضیہ نہیں ہے بلکہ ابتدائیہ ہے۔ ما موصولہ ہے۔ یشائ۔ مضارع واحد مذکر غائب مشیۃ (باب فتح) مصدر۔ وہ چاہتا ہے۔ اس نے چاہا۔ (بمعنی ماضی) ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض۔ لو حرف شرط ہے ۔ لا نافیہ ۔ دفع مصدر مبنی للفاعل مضاف۔ اللہ مضاف الیہ۔ الناس مفعول۔ اور بعضھم ہے بدل ہے الناس سے۔ ببعض مفعول ثانی۔ یہ سارا جملہ شرطیہ ہے اور اگلا جملہ لفسدت الارض جواب شرط۔ لام جواب شرط کے لئے ہے۔ فسدت ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ ترجمہ : اور اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا تو (روئے) زمین پر فساد برپا ہوجائے۔ دفع۔ اگر الیٰ کے صلہ کے ساتھ آئے۔ تو حوالہ کردینے کے معنی ہوتے ہیں۔ مثلاً فاذا دفعتم الیہم اموالہم (4:6) اور جب تم ان کا مال ان کے حوالہ کرنے لگو۔ اور جب اس کا استعمال عن کے صلہ کے ساتھ ہو تو دفع کے معنی دفع کرنے ۔۔ دور کرنے یا ہٹانے کے آتے ہیں۔ مثلاً ان اللہ یدافع عن الذین امنوا (22:38) بیشک خدا مؤمنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹاتا رہتا ہے۔ ذوفضل۔ مضاف مضاف الیہ۔ فضل والا۔ صاحب فضل۔ ذو۔ اسماء ستہ مکبرہ میں سے ہے یعنی ان چھ حروف میں سے ہے جن کی تصغیر نہیں آتی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 انہی تین سو تیرہ میں سے ایک حضرت داؤد (علیہ السلام) تھے۔ اسرائیل روایات میں ہے کہ ان کے ہاتھ میں غلیل تھی جس سے انہوں نے یکے بعد دیگرے جالوت کو تین پتھر مارے جو اس کے ماتھے پر لگے اور وہ مرگیا۔ طالوت نے ان سے وعدہ کررکھا تھا کہا گر وہ جالوت کو قتل کردیں گے تو ان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دے گا اور سلطنت میں انہیں اپنا سہیم بنالے گا چناچہ طالوت نے اپنا وعدہ پورا کیا اللہ تعالیٰ نے حضرت دادؤد کے متعلق فرمایا : اور اللہ تعالیٰ نے اسے سلطنت دی، یعنی حضرت شمو ئیل (علیہ السلام) کے بعد نبوت (ابن کثیر) اور علمہ ممایشاء سے ان آیات کی طرف اشارہ ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) کو عطا ہوئی تھیں۔ (معالم) علاوہ ازیں مطلق علم دین بھی مراد ہوسکتا ہے۔ ( رازی)5 نادان لوگ کہتے ہیں کہ لڑائی کرنا نبیوں کا کام نہیں۔ اس قصہ سے معلوم ہوا کہ جہاد ہمیشہ سے رہا ہے اور اگر جہاد نہ ہو تو مفسد لوگ شہروں کو ویران کر ڈالیں (موضح) اور جملہ ولو لا دفع اللہ الناس۔ الخ۔ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی گروہ قوت واقتدا کے نشے میں بد مست ہو کر انسانی حد سے آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کسی دوسرے گروہ کو اٹھا کر اس کی سرکوبی کرا دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین میں کبھی امن قائم نہ ہوسکتا۔ سلسلہ بیان کے لیے دیکھئے سورت حج آیت 40 ۔ (ابن کثیر) آیت میں مدافعت کرنے والوں سے انبیاء ائمہ اور نیک بادشاہ مراد ہیں جو شرائع کی حفاظت اور اس سے مدافعت کرتے رہتے ہیں۔ (رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ چونکہ قرآن کے اعظم مقاصد میں اثبات نبوت محمدیہ بھی ہے اس لیے اکثر جس جگہ کسی مضمون کے ساتھ مناسبت ہونے سے موقع ہوتا ہے وہاں اس کا اعادہ کیا جاتا ہے چناچہ اس مقام پر اس واقعہ کی صحیح خبردینا ایسے طور پر کہ نہ آپ نے کہیں پڑھا نہ کسی سے سنا نہ آپ نے دیکھا بوجہ معجزہ ہونے کے صریح دلیل ہے صدق دعوئے نبوت کی۔ اس لیے آگے رسول اللہ کی نبوت پر استدلال فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

نتیجہ وہی ہوا جس کے وہ منتظر تھے ، جس کا انہیں پوری طرح یقین تھا فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِآخر کار انہوں نے کافروں کو مار بھگایا ” اللہ کے اذن سے “ کا لفظ استعمال کرکے یہ بتایا جاتا ہے کہ فتح ونصرت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اور مسلمانوں کو اس معاملے میں اپنا ذہن اچھی طرح صاف کرلینا چاہئے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کے اذن سے ہوتا ہے ، اس قوت کی منشا کے مطابق ہوتا ہے جو اس کائنات کو چلارہی ہے ۔ مومن تو دراصل قدرت کا ایک ہاتھ ہیں ۔ ان کے ذریعے اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، جو چاہتا ہے ان کے ذریعے نافذ کرتا ہے ۔ وہ خود مختار نہیں ہیں نہ ان کے ہاتھ میں کوئی قدرت ہے ۔ نہ ان کے پاس کوئی طاقت ہے ۔ اللہ ان کے ذریعے اپنی مشئیت نافذ کرتا ہے ۔ اس لئے وہ جو چاہتا ہے ، ان کے ذریعے وہ چیز صادرہوجاتی ہے ۔ یہ ہے وہ حقیقت جو مرد مومن کے دل کو ایمان ، اطمینان اور یقین و سکون سے بھردیتی ہے ۔ مومن اللہ کا غلام ہے ۔ اللہ نے اسے اہم رول ادا کرنے کے لئے استعمال کیا ہے ۔ اور یہ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس نے اس اہم روک کے لئے مومنین کا انتخاب کیا تاکہ وہ اس قدر اہم رول ادا کرے ۔ یعنی وہ اللہ کی تقدیر کو حقیقت بنانے والا ہو۔ اس اہم رول کے لئے اسے چن لینے کے بعد اللہ مزید فضل وکرم کا اظہار یوں کرتا ہے کہ یہ اہم رول ادا کرنے کا اعزاز حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ اسے اس کا ثواب بھی عطا کرتا ہے ۔ اگر اللہ کا یہ کرم نہ ہوتا تو ہرگز ایسا نہ کرتا ۔ اور اگر اللہ کی کرم نوازی نہ ہوتی تو اس پر وہ ثواب نہ دیتا ۔ پھر مرد مومن کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ضرور اپنی منزل مقصود تک پہنچے گا ۔ اس کا مقصد پاک ہوتا ہے ۔ اس کا طریقہ کار پاکیزہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ سے اس کی کوئی ذاتی غرض وابستہ نہیں ہوتی ۔ وہ تو اللہ کی مشیئت کا نافذ کنندہ ہوتا ہے ۔ اس کے ارادے کا تابع ہوتا ہے اور اس مقام کا وہ مستحق بھی اس لئے ہوا کہ اس کی نیت صاف ہے ۔ وہ اطاعت کا عزم صمیم کئے ہوئے ہے اور پر خلوص طریقے سے اللہ کی طرف متوجہ ہے۔ قرآن مجید حضرت داؤد کا نام لے کر کہتا ہے وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ ” اور داؤد نے جالوت کو قتل کردیا “ داؤد بنی اسرائیل کا ایک چھوٹا سا لڑکا تھا ۔ جبکہ جالوت ایک شہنشاہ اور خوفناک قائد تھا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیئت تھی کہ وہ مسلمانوں کو موقع پر ہی یہ سبق دے دے کہ معاملات ہمیشہ اس طرح نہیں چلتے رہتے جس طرح بظاہر نظر آتے ہیں ۔ بلکہ معاملات کا فیصلہ حقائق کے مطابق ہوتا ہے۔ اور حقائق کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے۔ واقعات کی قدریں اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں ۔ مومنین کا فرض یہ ہے کہ ان کے ذمے جو ڈیوٹی ہے وہ بس اسے ادا کردیں۔ اللہ کے ساتھ انہوں نے جو عہد باندھا ہوا ہے اسے پورا کردیں ، اس کے بعد فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیں ، وہ جو چاہتا ہے وہی ہوگا۔ دیکھئے اللہ نے چاہا کہ اس جبار اور طاقتور بادشاہ کا کام اس چھوٹے سے نوجوان کے ہاتھوں تمام کردے ۔ چناچہ ایسا ہی ہوا ، تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ وہ جبار وقہار لوگ جن سے ضعفاء ڈرتے رہتے ہیں ، جب اللہ چاہتا ہے کہ وہ ختم ہوجائیں تو ایسے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں ۔ ایک دوسری پوشیدہ حکمت یہ تھی کہ مشیئت الٰہی میں یہ بات طے شدہ تھی کہ طالوت کے بعد داؤد نظام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں اور اس کے بعد داؤد کے بیٹے سلیمان تک یہ نظام پہنچے تاکہ سلیمان (علیہ السلام) اور داؤد (علیہ السلام) کا دور بنی اسرائیل کا سنہری دور بنے ۔ اس لئے کہ بنی اسرائیل محض اسلامی نظریہ حیات لے کر اٹھے ۔ بڑے عرصہ تک وہ گمراہی کی حالت میں پھرتے رہے ۔ بار بار نقص عہد اور نافرمانی کرتے رہے ، لیکن جب بھی انہوں نے اسلامی نظریہ حیات کے مطابق انقلاب برپا کیا تو بطور جزاء اللہ تعالیٰ نے انہیں بام عروج پر پہنچایا وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ” اور اللہ نے اسے سلطنت و حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا اس کو علم دیا۔ “ حضرت داؤد بیک وقت نبی اور بادشاہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو زرہ اور دوسرا سامان جنگ کی تیاری کی مہارت دی تھی ، جن کی تفصیلات قرآن مجید نے دوسری جگہ دی ہیں ۔ یہاں اس قصے کو لانے کا مقصد چونکہ اور ہے اس لئے یہاں تفصیلات ترک کردی ہیں ۔ جب بات یہاں تک پہنچ گئی اور اعلان ہوگیا کہ فتح نظریہ حیات اور پختہ عقائد کی ہوگی ، مادیت کو شکست ہوگی ، کثرت تعداد کو نہیں بلکہ ہمت بلند کو کامرانی ہوگی ۔ اس لئے یہاں وہ بلند حکمت بیان کردی جاتی ہے ۔ وہ فلسفہ بتایا جاتا ہے ، جو حق و باطل کے اس ٹکراؤ کے پس پشت کارفرما ہے۔ اللہ نے جہاد و قتال اس لئے نہیں فرض کیا کہ مال غنیمت حاصل کیا جائے ، لوٹ مار کی جائے ، دنیا میں عزت و برتری حاصل کی جائے ، بلکہ اسلام کا فلسفہ جنگ یہ ہے کہ یہ جنگ دراصل بھلائی اور شر کا ٹکراؤ ہے ۔ یہ اس لئے کہ کرہ ارض پر حق وصداقت اور خیر کو غلبہ حاصل ہو اور شر مغلوب ہو۔ اس لئے ہے کہ طاقت کو اصلاح فی الارض کے لئے استعمال کیا جائے ۔ اب اشخاص پس منظر میں چلے جاتے ہیں ۔ واقعات اختتام پذیر ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے ایک مختصر فقرے میں ، اس کرہ ارض پر مختلف طاقتوں کے ٹکراؤ ، مختلف قوتوں کی باہمی منافست اور زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے کی سعی اور جدوجہد کا عظیم فلسفہ بیان کردیتے ہیں ۔ اب اسکرین پر کرہ ارض کا وسیع و عریض میدان ہے ۔ اس میدان میں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے ۔ دھکم پیل شروع ہے ، کھینچا تانی شروع ہے ، مختلف لوگوں کے سامنے مختلف مقاصد ہیں اور حصول مقاصد کے لئے ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ ہر شخص کی یہ کوشش ہے کہ وہ گیند لے جائے لیکن سب کی ڈوری اللہ جل شانہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ جسے چاہتا ہے آگے بڑھا دیتا ہے ، جسے چاہتا ہے ڈوری کھینچ لیتا ہے ۔ اس اژدہام میں جو لوگ بھلائی اصلاح اور ترقی کے لئے کوشش کررہے ہیں آخر کار نتیجہ یہ ہے کہ وہ آگے بڑھ جاتے ہیں اور دست قدرت تمام اہل باطل کی لگام کھینچ لیتا ہے۔ اگر لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء نہ ہوتے اور ان کا مزاج ، جس پر انہیں پیدا کیا گیا ہے ایک دوسرے سے مختلف نہ ہوتا ، ان کے ظاہری رجحانات اور ان کے قریبی مقاصد باہم متعارض نہ ہوتے ، تو زندگی باسی ہوکر متعفن ہوجاتی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے مزاج مختلف بنائے تاکہ وہ اپنی تمام قوتوں کو کام میں لاکر ایک دوسرے کی مزاحمت کریں ، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے پر غالب آنے کی سعی کریں وہ سستی اور جمود کو ختم کریں ، اپنی خفیہ قوتوں کو بیدار کریں ، ہر وقت چوکنے رہیں ۔ زمین کے خفیہ ذخائر کی تلاش کریں ۔ زمین کی خفیہ قوتوں اور پوشیدہ اسرار کو دریافت کریں اور آخر کار اصلاح ، بھلائی اور ترقی کا دور دورہ ہو۔ لیکن یہ سارا کام اللہ تعالیٰ کس طرح کرتے ہیں ؟ ایک صالح ، ہدایات یافتہ اور مخلص جماعت کے قیام سے ، جو اس سچائی سے واقف ہو ، جسے اللہ تعالیٰ نے سچائی قرار دیا ہو ، وہ اس طریقہ کار سے بھی واقف ہو ، جو طریقہ کار اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے ۔ اسے یہ یقین ہو کہ وہ اس کرہ ارض پر سچائی کو غالب کرنے اور باطل کا مقابلہ کرنے کے لئے من جانب اللہ مامور ہے ۔ اسے یہ یقین ہو کہ اس کی نجات اسی میں ہے کہ وہ بلند رول ادا کرے ۔ وہ صرف اسی صورت میں نجات پاسکتی ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لئے مشکلات برداشت کرے ۔ اور یہ سب کچھ وہ اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے اور حصول رضائے الٰہی کے لئے کرے۔ جب ایسی جماعت قائم ہوتی ہے اور جدوجہد کرتی ہے تو پھر امر ونہی نافذ ہوتا ہے ، اللہ کی تقدیر ظاہر ہوتی ہے ۔ سچائی ، بھلائی اور اصلاح کا کلمہ بلند ہوجاتا ہے۔ اس کشمکش ، باہمی منافست اور باہمی مدافعت کا حاصل اس قوت کے ہاتھ آتا ہے جو اس کرہ ارض پر بھلائی اور تعمیر کی علمبردار ہوتی ہے ، وہ اس کشمکش کے نتیجے میں آگے بڑھتے ہیں اور ان کو درجات کمال کی انتہاؤں کو پہنچادیا جاتا ہے جو ان کے لئے مقرر اور مقدر تھا ۔ سب سے آخر میں ، اس پورے قصے پر ایک تعقیب ہے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

492 داؤد سے حضرت داؤد بن ایشا پیغمبر مراد ہیں اور حکمت سے مراد نبوت ہے یا عام ہے۔ جو حکومت وسلطنت کیلئے ضروری دانائی اور نبوت کو بھی شامل ہے اور مایشاء ان تمام جنگی اور صنعتی علوم وفنون کو شامل ہے جو اللہ نے ان کو عطا فرمائے تھے فلسطینی عمالقہ کا سردار جالوت حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ہاتھوں مارا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بنی اسرائیل کی حکومت دی اور نبوت سے سرفراز فرمایا اور مختلف علوم وفنون سکھائے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) ابھی کمسن نوجوان تھے۔ اور اپنی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ یہ طالوت کی فوج میں پہلے شامل نہیں تھے البتہ ان کے ساتھ انکے بڑے بھائی شریک جہاد تھے۔ یہ تو محض لڑائی دیکھنے کیلئے وہاں چلے گئے لیکن جب وہاں پہنچے جو جالوت اپنے مقابلہ میں مبارز طلب کر رہا تھا۔ بنی اسرائیل میں سے جب کوئی اس کے مقابلے میں نہیں نکل رہا تھا تو حضرت داؤد نے ایک پتھر سے اس کا کام تمام کردیا (قرطبی ص 257 ج 3 وغیرہ) ۔493 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکومتوں کے انقلابات اور فتح وشکست کی تکوینی مصلحت اور حکمت بیان فرمائی ہے کہ جب کسی قوم یا حکومت کی طرف سے دوسروں پر ظلم وستم اور جبروتشدد کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس ظلم وتشدد کو ختم کرنے کے لیے دوسری قوم کو کھڑا کردیتا ہے اور اس طرح ظلم وتعدی اور شروفساد سے زمین کو بچالیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور ظالم و جابر کو کھلا چھوڑ دیا جاتا تو زمین شروفساد کا گہوارہ بن کر رہ جاتی۔ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ۔ لیکن دنیا والوں پر اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ وہ ایسے انقلابات سے عدل و انصاف اور امن و سکون کو قائم ودائم رکھے ہوئے ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اس دعا کے بعد طالوت کے ساتھیوں نے جالوت والوں کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے چکنا چور کردیا اور ان کو شکست دے دی اور ایشیا کے لڑکے دائود نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد دائود کو سلطنت اور حکمت یعنی نبوت عطا کی اور بھی جو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا دائود کے لئے مناسب سمجھا اس کو تعلیم کردیا اور سکھا دیا اور اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو یعنی اہل باطل کو بعض لوگوں یعنی اہل حق کے ہاتھوں دفع نہ کرائے اور اہل باطل کو شکست نہ دلاتا رہے تو زمین تبا ہ ہوجائے اور زمین اہل شر و فساد کی شرارتوں اور فساد سے بھر جائے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ اہل عالم پر بڑا صاحب فضل ہے کہ بروں کو اچھوں کے ہاتھوں دفع کرا دیتا ہے اور بروں کو مغلوب کرتا رہتا ہے۔ ( تیسیر) ہزم کے معنی ہیں توڑنے کے یہاں مقاتل کی شکست مراد ہے۔ ہم نے تیسیر میں دونوں رعایتیں رکھی ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں لشکر جب بالمقابل ہوئے تو جالوت اپنا فوجی لباس پہن کر تنہا آگے بڑھا اور کہنے لگا تم سب کو میں اکیلا ہی کافی ہوں آئو پہلے مجھ سے مقابلہ کرو اس وقت شمویل بنی کے کہنے سے طالو ت نے ایشیا کو بلایا اور ان سے دریافت کیا کہ تمہارے کتنے لڑکے ہیں ۔ انہوں نے عرض کیا میرے چھ لڑکے ہیں ۔ حضرت دائود کا ذکر نہیں کیا کیونکہ وہ چھوٹے تھے اور اس وقت میدان جنگ میں بھی نہیں تھے ، بلکہ وہ بکریاں چرانے گئے ہوئے تھے۔ مگر شمویل نبی کے حکم سے دائود کو بلایا گیا ۔ جب دائود حسب طلب آ رہے تھے تو راہ میں ان کو تین پتھروں نے آواز دے کر کہا ۔ اے دائود ہم کو تو اٹھا لے ہم تجھے کام دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے وہ پتھر اٹھا لئے اور جب شمویل نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو شمویل نبی نے جالوت کے مقابلہ کے لئے ان کو منتخب کیا ۔ چناچہ انہوں نے وہ تینوں پتھر اپنے گوپیہ میں رکھ لئے اور آگے بڑھے اور جالوت کو للکارا جالوت نے کہامجھ کو تجھ پر رحم آتا ہے تو کیوں میرے ہاتھ سے مرنے کی خواہش کرتا ہے۔ حضرت دائود نے فرمایا نہیں میں ہی تیرا مقابلہ کروں گا ۔ چناچہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے اپناگوپیا پھرا کر وہ تینوں پتھر اس کے ماتھے پر مارے اس کا ماتھا ہی صرف کھلا ہوا تھا۔ باقی تمام بدن زرہ بکتر سے ڈھکا ہوا تھا۔ حسن اتفاق سے وہ پتھر اس کے سر میں گھس گئے سرپاش پاش ہوگیا ۔ جالوت کے مرتے ہی اس کا لشکر فرار ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فتح دی اور ان کا ملک واپس ہوا ۔ اس واقعہ کے بعد طالوت نے اپنی بیٹی کی شادی حضرت دائود (علیہ السلام) سے کردی اور طالوت کے بعد وہ بادشاہ ہوئے اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کو ملک بھی عنایت کیا اور نبوت بھی عطا فرمائی۔ حکمت کا مفہوم وسیع ہے ۔ اور سب سے بڑی دانش اور فہم صحیح نبوت ہے یہاں وہی مراد ہے اور جو کچھ سکھایا وہ لوہے کی زرع بنانا اور پہاڑوں کو اور پرندوں کو مسخر کرنا وغیرہ ہوگا یا حسن صوت ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ تدبیر سلطنت اور انتظام حکومت ہو۔ ( واللہ اعلم) اور یہ جو فرمایا بعض کو بعض سے دفع کراتے رہتے ہیں اس کا مفہوم بھی عام ہے ایک تو یہی شریروں کو نیکوں کے ہاتھوں دباتے رہتے ہیں اور کافروں کو جو مفسد ہیں اور مسلمان جو مصلح ہیں ان کے ہاتھوں مغلوب کرتے رہتے ہیں ۔ اگر ایسا نہ کرتے رہیں تو زمین کفر و شرک کی آلودگی سے لبریز ہوجائے اور یہی سب سے بڑا فساد ہے کہ خدا کی زمین کو شرک سے تباہ کیا جائے چونکہ اللہ تعالیٰ بڑا صاحب فضل ہے اس لئے اہل باطل کو ایسا موقع نہیں دیتا کہ وہ زمین کو اپنے افعال قبیحہ اور مفاسد کی آماجگاہ بنالیں اور کبھی کبھی جو مسلمان مغلوب ہوجاتے ہیں تو وہ عارضی مغلوبیت ہوتی ہے یا کسی غلطی یا جرم کی پاداش میں ایسا ہوجاتا ہے اور جب سزا کی مدت پوری ہوجاتی ہے اور مسلمان اپنی کمزوریوں کو دور کرلیتے ہیں تو پھر انہی کو غلبہ عطا ہوجاتا ہے۔ بہر حال ایک معنی تو یہی ہیں جو عام طور سے بیان کئے جاتے ہیں اور ایک معنی اور بھی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر برے لوگوں پر سے بلائیں اور آفات اور مصائب اچھے لوگوں کی برکت سے دفع نہ کرتا رہے تو سب دنیا والے اپنے اعمال کی سزائوں میں مبتلا کردیئے جائیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ جہان والوں کی مصیبتوں کو اپنے نیک بندوں کے صدقے میں اور نیک بندوں کی برکت سے ٹالتا رہتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نمازیوں کی برکت سے بےنمازیوں کی اور حج کرنے والوں کی برکت سے حج نہ کرنے والوں کی اور اپنی اصلاح کرنے والوں کی برکت سے اصلاح نہ کرنے والوں کی مدافعت ہوتی رہتی ہے۔ ابن عدی نے ابن عمر سے مرفوعاًنقل کیا ہے اگرچہ سند میں ضعیف ہے کہ فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ اللہ تعالیٰ ایک نیک مسلمان کی برکت سے اس کے آس پاس پڑوس کے سو گھروں کی بلا دور کردیا کرتا ہے پھر ابن عمر (رض) نے استشہاد کے طور پر یہ آیت پڑھی ۔ ولو لا دفع اللہ الناس (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں تین سو تیرہ آدمیوں میں حضرت دائود (علیہ السلام) کا باپ اور یہ ان کے چھ بھائی تھے ان کی راہ میں تین پتھر ملے اور بولے کہ ہم کو اٹھا لے جالوت کو ہم ماریں گے ۔ جب مقابلہ ہوا جالوت خود باہرنکلا ، کہا تم سب کو میں کفایت ہوں میرے سامنے آتے جائو ۔ پیغمبر نے دائود کے والد کو بلایا کہ اپنے بیٹے مجھ کو دکھا۔ اس نے چھ بیٹے دکھائے جو قدآور تھے۔ حضرت دائود کو نہ دکھایا وہ قدر آور نہ تھے اور بکریاں چراتے تھے پیغمبر نے ان کو بلوایا اور پوچھا کہ تو جالوت کو مارے گا ۔ انہوں نے کہا ماروں گا پھر اس کے سامنے گئے وہ تین پتھر فلاخن میں رکھ کر مارے اس کا ماتھا کھلا تھا اور تمام بدن لوہے میں غرق تھا ماتھے کو لگے اور پیچھے کو نکل گئے۔ فائدہ بعد اس طالوت نے اپنی بیٹی ان کو نکاح کردی بعد طالوت کے یہ بادشاہ ہوئے۔ فائدہ نادان لوگ کہتے ہیں کہ لڑائی کرنی نبیوں کا کام نہیں ۔ اس قصے سے معلوم ہوا کہ جہاد ہمیشہ رہا ہے اور اگر جہاد نہ ہو تو مفسد لوگ ملک کو ویران کردیں۔ ( موضح القرآن) یہ ممکن ہے کہ حضرت شاہ صاحب (رح) کے زمانے میں بھی ایسے لوگ ہوں جنہوں نے جہاد کا انکار کیا ہو اور حضرت شاہ اسماعیل شہید کے جہاد پر اعتراض کیا ہو ۔ شاہ صاحب (رح) نے اس کا جواب دیا ہو اور ہمارے زمانے میں تو انگریزی تسلط اور یورپین تعلیم کے باعث لوگوں نے جہاد کے خلاف اتنی کتابیں لکھ ڈالیں کہ پچاسوں الماریاں ان ہفوات سے بھر جائیں اور حکومت متسلطہ کو خوش کرنے کی غرض سے ایسی رکیک اور بعید از عقل تاویلیں کی کہ اعاذنا اللہ منھا بہر حال ان ضمنی واقعات کو بیان کرنے کے بعد اصل مضمون جو توحید و رسالت ہے اس کا اعادہ فرماتے ہیں اور پہلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت کی تصدیق فرماتے ہیں۔ (تسہیل)