Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 258

سورة البقرة

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡ حَآجَّ اِبۡرٰہٖمَ فِیۡ رَبِّہٖۤ اَنۡ اٰتٰىہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ ۘ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحۡیٖ وَ اُمِیۡتُ ؕ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاۡتِیۡ بِالشَّمۡسِ مِنَ الۡمَشۡرِقِ فَاۡتِ بِہَا مِنَ الۡمَغۡرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۲۵۸﴾ۚ

Have you not considered the one who argued with Abraham about his Lord [merely] because Allah had given him kingship? When Abraham said, "My Lord is the one who gives life and causes death," he said, "I give life and cause death." Abraham said, "Indeed, Allah brings up the sun from the east, so bring it up from the west." So the disbeliever was overwhelmed [by astonishment], and Allah does not guide the wrongdoing people.

کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم ( علیہ السلام ) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا ، جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے ، وہ کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں ابراہیم ( علیہ السلام ) نے کہا کہ اللہ تعالٰی سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا ، اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Debate Between Ibrahim Al-Khalil and King Nimrod The king who disputed with Ibrahim was King Nimrod, son of Canaan, son of Kush, son of Sam, son of Noah, as Mujahid stated. It was also said that he was Nimrod, son of Falikh, son of Abir, son of Shalikh, son of Arfakhshand, son of Sam, son of Noah. Mujahid said, "The kings who ruled the eastern and western parts of the world are four, two believers and two disbelievers. As for the two believing kings, they were; Suleiman bin Dawud and Dhul-Qarnayn. As for the two disbelieving kings, they were; Nimrod and Nebuchadnezzar." Allah knows best. Allah said, أَلَمْ تَرَ ... Have you not looked, meaning, "With your heart, O Muhammad!" ... إِلَى الَّذِي حَأجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رِبِّهِ ... at him who disputed with Ibrahim about his Lord, meaning, about the existence of Allah. Nimrod denied the existence of a god other than himself, as he claimed, just as Fir`awn said later to his people, مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرِى I know not that you have a god other than me. (28:38) What made Nimrod commit this transgression, utter disbelief and arrant rebellion was his tyranny and the fact that he ruled for a long time. This is why the Ayah continued, ... أَنْ اتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ ... Because Allah had given him the kingdom. It appears that Nimrod asked Ibrahim to produce proof that Allah exists. ... إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِـي وَيُمِيتُ ... When Ibrahim said (to him): "My Lord is He Who gives life and causes death", meaning, "The proof of Allah's existence is the creations that exist after they were nothing and perish after they had existed. This only proves the existence of the Creator, Who does what He wills, for these things could not have occurred on their own without a Creator who created them, and He is the Lord that I call to for worship, Alone without a partner." This is when Nimrod said, ... قَالَ أَنَا أُحْيِـي وَأُمِيتُ ... He said, "I give life and cause death". Qatadah, Muhammad bin Ishaq and As-Suddi said that he meant, "Two men who deserved execution were to be brought before me, and I would command that one of them be killed, and he would be killed. I would command that the second man be pardoned, and he would be pardoned. This is how I bring life and death." However, it appears that since Nimrod did not deny the existence of a Creator, his statement did not mean what Qatadah said it meant. This explanation does not provide an answer to what Ibrahim said. Nimrod arrogantly and defiantly claimed that he was the creator and pretended that it was he who brings life and death. Later on, Fir`awn imitated him and announced, مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرِى I know not that you have a god other than me. (28: 38) This is why Ibrahim said to Nimrod, ... قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ ... Ibrahim said, "Verily, Allah brings the sun from the east; then bring it you from the west". This Ayah means, "You claim that it is you who brings life and death. He who brings life and death controls the existence and creates whatever is in it, including controlling its planets and their movements. For instance, the sun rises everyday from the east. Therefore, if you were god, as you claimed, bringing life and death, then bring the sun from the west." Since the king was aware of his weakness, inadequacy and that he was not able to reply to Ibrahim's request, he was idle, silent and unable to comment. Therefore, the proof was established against him. ... فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ... So the disbeliever was utterly defeated. Allah said, ... وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ And Allah guides not the people, who are wrongdoers. meaning, Allah deprives the unjust people of any valid proof or argument. Furthermore, their false proof and arguments are annulled by their Lord, and they have earned His anger and will suffer severe torment. The meaning that we provided is better than the meaning that some philosophers offered, claiming that Ibrahim used the second argument because it was clearer than the first one. Rather, our explanation asserts that Ibrahim refuted both claims of Nimrod, all praise is due to Allah. As-Suddi stated that the debate between Ibrahim and Nimrod occurred after Ibrahim was thrown in the fire, for Ibrahim did not meet the king before that day.

ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا آمنا سامنا اس بادشاہ کا نام نمرود بن کنعان بن سام بن نوح تھا اس کا پایہ تخت بابل تھا اس کے نسب میں کچھ اختلاف بھی ہے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں دنیا کی مشرق مغرب کی سلطنت رکھنے والے چار ہوئے جن میں سے دو مومن اور دو کافر ، حضرت سلیمان بن داؤد اور حضرت ذوالقرنین ، اور کافروں میں نمرود اور بخت نصر ، فرمان ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم نے اسے نہیں دیکھا ، جو حضرت ابراہیم سے وجود باری تعالیٰ میں مباحثہ کرنے لگا ، یہ شخص خود اللہ ہونے کا مدعی تھا ، جیسا اس کے بعد فرعون نے بھی اپنے والوں میں دعویٰ کیا تھا کہ میں اپنے سوا کسی کو تمہارا رب نہیں جانتا ، چونکہ ایک مدت مدید اور عرصہ بعید سے یہ بادشاہ چلا آتا تھا اس لئے دماغ میں رعونت اور انانیت آ گئی تھی ، سرکشی اور تکبر ، نخوت اور غرور طبیعت میں سما گیا تھا ، بعض لوگ کہتے ہیں چار سو سال تک حکومت کرتا رہا تھا ، حضرت ابراہیم سے جب اس نے وجود باری تعالیٰ پر دلیل مانگی تو آپ نے نیست سے ہست اور ہست سے نیست کرنے کی دلیل دی جو ایک بدیہی اور مثل آفتاب روشن دلیل تھی کہ موجودات کا پہلے کچھ نہ ہونا پھر ہونا پھر مٹ جانا کھلی دلیل ہے ۔ موجد اور پیدا کرنے والے کے موجود ہونے کی اور وہی اللہ ہے ، نمرود نے جواباً کہا کہ یہ تو میں بھی کرتا ہوں ، یہ کہہ کر دو شخصوں کو اس نے بلوایا جو واجب القتل تھے ، ایک کو قتل کر دیا اور دوسرے کو رہا کر دیا ، دراصل یہ جواب اور دعویٰ کس قدر لچر اور بےمعنی ہے اس کے بیان کی بھی ضرورت نہیں ، حضرت ابراہیم نے تو صفات باری میں سے ایک صفت پیدا کرنا اور پھر نیست کر دینا بیان کی تھی اور اس نے نہ تو انہیں پیدا کیا اور نہ ان کی یا اپنی موت حیات پر اسے قدرت ، لیکن جہلاء کو بھڑکانے کیلئے اور اپنی علمیت جتانے کیلئے باوجود اپنی غلطی اور مباحثہ کے اصول سے طریقہ فرار کو جانتے ہوئے صرف ایک بات بنالی ، ابراہیم بھی اس کو سمجھ گئے اور آپ نے کند ذہن کے سامنے ایسی دلیل پیش کر دی کہ صورتاً بھی اس کی مشابہت نہ کرسکے ، چنانچہ فرمایا کہ جب تو پیدائش اور موت تک کا اختیار رکھتا ہے تو مخلوق پر تصرف تیرا پورا ہونا چاہئے ، میرے اللہ نے تو یہ تصرف کیا کہ سورج کو حکم دے دیا ہے کہ وہ مشرق کی طرف سے نکلا کرے چنانچہ وہ نکل رہا ہے ، اب تو اسے حکم دے کہ وہ مغرب کی طرف سے نکلے اس کا کوئی ظاہری ٹوٹا پھوٹا جواب بھی نہ اس سے بن پڑا اور بےزبان ہو کر اپنی عاجزی کا معترف ہو گیا اور اللہ کی حجت اس پر پوری ہو گئی لیکن چونکہ ہدایت نصیب نہ تھی راہ یافتہ نہ ہو سکا ، ایسے بدوضع لوگوں کو اللہ کوئی دلیل نہیں سمجھاتا اور وہ حق کے مقابلے میں بغلیں جھانکتے ہی نظر آتے ہیں ، ان پر اللہ کا غضب و غصہ اور ناراضگی ہوتی ہے اور اس کیلئے اس جہاں میں بھی سخت عذات ہوتے ہیں ، بعض منطقیوں نے کہا ہے کہ حضرت خلیل اللہ نے یہاں ایک واضح دلیل کے بعد دوسری اس سے بھی زیادہ واضح دلیل پیش کر دی ، لیکن درحقیت یوں نہیں بلکہ پہلی دلیل دوسری کا مقدمہ تھی اور ان دونوں میں سے نمرود کے دعویٰ کا بطلان بالکل واضح ہو گیا ، اصل دلیل پیدائش و موت ہی ہے چونکہ اس کا دعویٰ اس ناسمجھ مشت خاک نے بھی کیا تو لازم تھا کہ جو بنانے بگاڑنے پر نہ صرف قادر ہو بلکہ بناؤ بگاڑ کا بھی خالق ہو اس کی ملکیت پوری طرح اسی کے قبضہ میں ہونی چاہئے اور جس طرح موت و حیات کے احکام اس کے جاری ہو جاتے ہیں اسی طرح دوسرے احکام بھی جاری ہو جائیں ، پھر کیا وجہ ہے کہ سورج جو کہ ایک مخلوق ہے اس کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری نہ کرے اور اس کے کہنے سے مشرق کی بجائے مغرب سے نہ نکلے؟ پس ابراہیم نے اس پر اس مباحثہ میں کھلا غلبہ پایا اور اسے بالکل لاجواب کر دیا فالحمدللہ ۔ حضرت سدی فرماتے ہیں یہ مناظرہ حضرت ابراہیم کے آگ سے نکل آنے کے بعد ہوا تھا اس سے پہلے آپ کی اس ظالم بادشاہ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی ، زید بن اسلم کا قول ہے کہ قحط سالی تھی ، لوگ نمرود کے پاس جاتے تھے اور غلہ لے آتے تھے ، حضرت خلیل اللہ بھی گئے ، وہاں یہ مناظرہ ہو گیا بدبخت نے آپ کو غلہ نہ دیا ، آپ خالی ہاتھ واپس آئے ، گھر کے قریب پہنچ کر آپ نے دونوں بوریوں میں ریت بھر لی کہ گھر والے سمجھیں کچھ لے آئے ، گھر آتے ہی بوریاں رکھ کر سو گئے ، آپ کی بیوی صاحبہ حضرت سارہ اٹھیں بوریوں کو کھولا تو دیکھا کہ عمدہ اناج سے دونوں پر ہیں ، کھانا پکا کر تیار کیا ، آپ کی بھی آنکھ کھلی دیکھا کہ کھانا تیار ہے ، پوچھا اناج کہاں سے آیا ، کہا دو بوریاں جو آپ بھر کر لائے ہیں ، انہیں میں سے یہ اناج نکالا تھا ، آپ سمجھ گئے کہ یہ اللہ جل شانہ کی طرف سے برکت اور اس کی رحمت ہے ، اس ناہنجار بادشاہ کے پاس اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا اس نے آکر اسے توحید کی دعوت دی لیکن اس نے قبول نہ کی ، دوبارہ دعوت دی لیکن انکار کیا تیسری مرتبہ اللہ کی طرف بلایا لیکن پھر بھی یہ منکر ہی رہا ۔ اس بار بار کے انکار کے بعد فرشتے نے اس سے کہا اچھا تو اپنا لشکر تیار کر میں بھی اپنا لشکر لے آتا ہوں ، نمرود نے بڑا بھاری لشکر تیار کیا اور زبردست فوج کو لے کر سورج نکلنے کے میدان میں آ ڈٹا ، ادھر اللہ تعالیٰ نے مچھروں کا ایک دروازہ کھول دیا ، بڑے بڑے مچھر اس کثرت سے آئے کہ لوگوں کو سورج بھی نظر نہ آتا تھا ، اللہ کی یہ فوج نمرودیوں پر گری اور تھوڑی دیر میں ان کا خون تو کیا ان کا گوشت پوست سب کھا گئی اور سارے کے سارے یہیں ہلاک ہوگئے ، ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا ، انہی مچھروں میں سے ایک نمرود کے نتھنے میں گھس گیا اور چارسو سال تک اس کا دماغ چاٹتا رہا ایسے عذاب میں وہ رہا کہ اس سے موت ہزاروں درجے بہتر تھی اپنا سر دیواروں اور پتھروں پر مارتا پھرتا تھا ، ہتھوڑوں سے کچلواتا تھا ، یونہی رینگ رینگ کر بدنصیب نے ہلاکت پائی ۔ اعاذنا اللہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦٨] یہ شخص نمرود بادشاہ عراق تھا اور اس کا دارالخلافہ بابل تھا جہاں آج کل کوفہ آباد ہے خدائی کا دعویدار تھا یہ خود اور اس کی رعایا سب مشرک تھے۔ نمرود کی خدائی کس قسم کی تھی ؟ یہ جاننے کے لیے تھوڑی سی تفصیل ضروری معلوم ہوتی ہے۔ شرک کی تین اقسام ہیں :۔ ١۔ شرک فی الربوبیت :۔ ایسا شرک عموماً کوئی بھی نہیں کرتا۔ مشرکین مکہ ہوں یا نمرود ہو یا فرعون ہو کسی سے بھی پوچھا جائے کہ یہ آسمان و زمین کس نے بنائے۔ زمین سے پیداوار کون اگاتا ہے۔ کائنات کو کس نے پیدا کیا اور شمس و قمر کا نظام چلانے والا کون ہے تو سب یہی جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہے۔ البتہ ربوبیت کے منکر ضرور موجود رہے ہیں یعنی دہریہ قسم کے لوگ یا فلکیات کے ماہرین جو ساری کائنات کو مادہ کی بدلی ہوئی شکلیں اور ارتقائی پیداوار کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ دوسری قسم شرک فی الصفات ہے۔ آگے اس کی پھر دو قسمیں ہیں، ایک وہ جس کا تعلق مافوق الفطری اسباب سے ہوتا ہے۔ مثلاً دعائیں سننا اور انہیں قبول کرنا، حاجت روائی اور مشکل کشائی کسی کے رزق میں تنگی اور فراخی پیدا کرنا، بارش برسانا، کسی کو اولاد دینا وغیرہ وغیرہ، ایسا شرک عام پایا جاتا ہے۔ مشرکین مکہ کے ہوں یا عراق کے ہوں، مصر کے ہوں یا ہندوستان کے، انہوں نے ایسے کاموں کے لیے لاتعداد دیوی یا دیوتا بنا رکھے تھے اور مندرجہ بالا کام انہیں کے سپرد تھے اور ان کے بتوں اور مجسموں کی پوجا کی جاتی تھی۔ اس قسم کا شرک ہم مسلمانوں میں بھی عام پایا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے ہم نے امور اپنے پیروں فقیروں اور بزعم خود اولیاء اللہ کے سپرد کر رکھے ہیں خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ ہوچکے ہوں۔ اور شرک کی تیسری قسم وہ ہے جس کا تعلق شرک فی الصفات کی دوسری قسم سے ہے اور وہ فطری اسباب سے ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر طاغوت یا طواغیت سے ہوتا ہے جس کا ذکر پچھلی آیت میں آیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اپنی حکمرانی تسلیم کرواتے ہیں۔ آج کی زبان میں اسے اقتدار اعلیٰ کہتے ہیں۔ نمرود بھی اس قسم کا خدا تھا اور فرعون بھی اور ان جیسے اور بھی کئی خدائی کے وعدے کرچکے اور کر رہے ہیں۔ پھر اقتدار اعلیٰ کی بھی دو قسمیں ہیں، قانونی اقتدار اعلیٰ اور سیاسی اقتدار اعلیٰ دونوں قسم کا یہ اقتدار اعلیٰ ایسے حکمرانوں کے پاس ہی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ہر لفظ قانون ہوتا ہے اور ان کے حکم کے آگے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ہوتی اور ایسے ممالک جہاں آج کل جمہوریت رائج ہے وہاں بھی اکثر شرک کی یہ قسم پائی جاتی ہے۔ کیونکہ ان ملکوں میں سیاسی اقتدار اعلیٰ تو عوام کے پاس ہوتا ہے یعنی طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔ وہی جسے چاہیں اپنی رائے سے نمائندہ یا حکمران بنادیں اور قانونی اقتدار اعلیٰ اسمبلی یا پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے (یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ اسمبلی یا پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے (یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ کوئی انسان یا کوئی ادارہ ہی ہوسکتا ہے) جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے قانونی اور سیاسی مقتدر اعلیٰ کوئی فرد یا ادارہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسا مقتدر اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جمہوری ممالک میں کوئی بڑی سے بڑی عدالت بھی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے سامنے دم نہیں مار سکتی۔ اس لحاظ سے نمرود کی خدائی اور جمہوریت کی خدائی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نمرود ہی کے دربار میں حضرت ابراہیم کا باپ شاہی مہنت تھا جو بت گر بھی تھا اور بت فروش بھی اور نمرود کے مقربین میں سے تھا۔ اسی بنا پر باپ نے حضرت ابراہیم کو گھر سے نکالا تھا اور جب حضرت ابراہیم نے ان لوگوں کے بت توڑے تھے تو اسی باپ نے اپنے بیٹے کا مقدمہ نمرود کے دربار میں پیش کیا تھا۔ [٣٦٩] دربار میں پیشی ہوئی تو زیر بحث مسئلہ && خدائی && ہی کا تھا۔ دوران بحث حضرت ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے تو نمرود کہنے لگا کہ یہ دونوں کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ چناچہ اس نے ایک بےقصور آدمی کو بلاوجہ قتل کروا دیا اور ایک ایسے قیدی کو جسے سزائے موت ہوچکی تھی آزاد کردیا۔ [٣٧٠] حضرت ابراہیم نمردو کے اس کام کا یہ جواب دے سکتے تھے کہ جس شخص کو تو نے مروا ڈالا ہے اسے زندہ کر کے دکھا تو جانیں۔ مگر حضرت ابراہیم نے اس میدان کو چھوڑ دیا اور ربوبیت کے میدان میں آگئے اور کہا کہ میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کے دکھا۔ اب چونکہ نمرود یہ سمجھتا تھا کہ کائنات کے نظام میں میرا کوئی دخل اور اختیار نہیں۔ لہذا وہ فوراً لاجواب ہوگیا۔ حالانکہ اگر وہ سوچتا تو کہہ سکتا تھا کہ اگر میں سورج کو مغرب سے نہیں نکال سکتا تو تم اپنے رب سے کہو کہ مغرب سے نکال کے دکھائے، اور اس صورت میں عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھلا بھی دیتے۔ مگر چونکہ نمرود کا پختہ عقیدہ تھا کہ کائنات کا نظام اللہ ہی چلاتا ہے اور وہ چاہے تو ایسا بھی کرسکتا ہے۔ لہذا سوائے خاموشی اور حیرانگی کے اس سے کچھ بھی بن نہ پڑا اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے بھرے دربار میں نمرود پر یہ بات واضح کردی کہ میرا خدا یا معبود تو نہیں، بلکہ وہ معبود حقیقی ہے جس کا پوری کائنات میں تصرف و اختیار چلتا ہے اس مباحثہ میں لاجواب ہونے کے باوجود نمرود کو کسی قیمت پر بھی اپنے خدائی کے دعوے سے دستبردار ہونا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہدایت پر توجہ کرنا گوارا نہ ہوا اور جو لوگ گمراہی میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہوں انہیں ہدایت کی راہ نصیب بھی نہیں ہوتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ : یعنی اس بادشاہ کے رب تعالیٰ کے متعلق ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑے کی وجہ یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکومت عطا فرمائی، اس کا شکر اس نے یہ ادا کیا کہ خود رب بن بیٹھا اور جس نے اسے حکومت عطا فرمائی تھی اس کا انکار کردیا۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے فقیر بنا دیتا تو کبھی یہ جسارت نہ کرتا۔ ابراہیم (علیہ السلام) عراق کے رہنے والے تھے، ان کے زمانے میں عراق کے اندر شرک تقریباً اپنی ساری صورتوں کے ساتھ موجود تھا، بتوں کو وہ پوجتے تھے، سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش وہ کرتے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ بادشاہ وقت کو بھی رب مانتے تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے ذمے ان سب صورتوں کی تردید کرکے لوگوں کو اکیلے رب کی عبادت کی دعوت دینا تھا۔ چناچہ انھوں نے اپنے والد اور قوم کو بت پرستی چھوڑ کر ایک رب کی عبادت کی دعوت دی، نتیجے میں گھر سے نکلنا پڑا، پھر نہایت حکیمانہ طریقے سے سورج، چاند اور ستاروں کا رب نہ ہونا ایسا واضح کیا کہ قوم لاجواب ہوگئی۔ ( دیکھیے انعام : ٧٦ تا ٨٢ ) نتیجے میں قوم کے جھگڑے اور سورج، چاند اور ستاروں کے غضب کا نشانہ بننے کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے سمجھا کہ محض نصیحت سے بتوں کی بےبسی ماننے پر یہ لوگ تیار نہیں تو میلے والے دن ان کے بڑے بت کو چھوڑ کر باقی سارے بت توڑ دیے۔ تفتیش ہوئی، ابراہیم (علیہ السلام) مجرم قرار پائے، اس موقع پر ساری قوم کے سامنے بتوں کی بےبسی ایسی واضح فرمائی کہ وہ اپنے دلوں میں مان گئے کہ ظالم وہ خود ہی ہیں، ابراہیم (علیہ السلام) کا کچھ قصور نہیں۔ اب حق کو قبول کرنے کے بجائے الٹاکہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو۔ (دیکھیے انبیاء : ٥١ تا ٧٠) اب ظاہر ہے کہ عوام جتنے بھی ہوں کسی کو سزا دینا تو حکومت کا کام ہے، اس لیے انھیں وقت کے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا، وہ اپنی سلطنت میں بت پرستی، ستارہ پرستی کو برداشت کرتا تھا، بلکہ اس کی پشت پناہی کرتا تھا، کیونکہ وہ خود بھی مشرک تھا اور اپنے رب ہونے کا بھی دعویدار تھا۔ اس موقع پر بادشاہ کے ساتھ یہ مناظرہ ہوا، جس میں لاجواب ہو کر اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھنکوا دیا۔ یہ واقعہ اور بعد والے دونوں واقعات اس بات کی مثال اور دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو کس طرح اندھیرے سے روشنی کی طرف لاتا ہے اور طاغوت اپنے دوستوں کو کس طرح روشنی سے اندھیرے کی طرف لے جاتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اس بادشاہ کے رب ہونے سے انکار کیا تو اس نے پوچھا : ” تمہارا رب کون ہے ؟ “ آپ نے فرمایا : ” میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ “ اس نے کہا : ” میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ “ بعض تابعین سے منقول ہے کہ اس نے دو قیدی منگوائے، ایک کو قتل کردیا، ایک کو چھوڑ دیا اور کہا : ” دیکھو ! انھیں زندہ رکھنا یا مارنا میرے ہاتھ میں ہے۔ “ تابعین کی بات اسرائیلی روایت ہی ہوسکتی ہے کیونکہ وہ خود تو اس وقت موجود نہیں تھے اور اس کی ضرورت اس وقت ہے جب وہ بادشاہ متقی اور ہمیشہ سچ بولنے والا ہو۔ ایک جھوٹا شخص کوئی غلط بات کہے تو اسے تاویل کے ساتھ صحیح ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جو شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں رب ہوں، اسے یہ دعویٰ کرنے میں کیا چیز مانع ہے کہ میں ہی سب کو زندہ کرتا ہوں اور میں ہی مارتا ہوں۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ یہ کج بحثی پر اترا ہوا ہے تو پہلی دلیل چھوڑ کر دوسری دلیل سورج والی دی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلی دلیل چھوڑی نہیں، بلکہ اس کے ذریعے سے اس کے منہ سے اس دعویٰ کا اقرار کروا لیا کہ میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ اب اس دعویٰ پر دوسری دلیل کی بنیاد رکھی کہ جب تم میں اتنی قوت ہے کہ تمھی سب کو پیدا کرتے ہو اور تمھی مارتے ہو تو اس کے مقابلے میں ایک معمولی سا کام کرکے دکھاؤ، یہ کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے، جب سارا اختیار تمہارے پاس ہے تو سورج کو مغرب سے طلوع کرکے دکھا دو ، اس پر وہ بےایمان حیرت زدہ ہو کر بالکل لاجواب ہوگیا اور ایسے ظالموں کو اللہ تعالیٰ بھی راہ راست پر آنے کی توفیق نہیں دیتا۔ نمرود کی ناک میں مچھر کے گھسنے اور چار سو سال تک ہتھوڑوں سے اپنے آپ کو پٹوانے کے واقعات نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہیں نہ کسی صحابی سے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The verse refers to Namrud نمرود ، the emperor of Babylon, who denied the very existence of God and had a debate with Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) on this issue. Allah has given him political power over a large territory. He should have been grateful to his Lord. But, on the con¬trary, his political power inflated him with pride and arrogance; he started denying the very existence of Him. It is in this context that the Holy Qur&an says: &the one who argued with Ibrahim about his Lord, because Allah had given him kingship.|" In the course of argument, he asked Ibrahim (علیہ السلام) about the basic attributes of God. He replied, |"My Lord is the One who gives life and brings death.|" The foolish king did not understand the real nature of &giving life& and &bringing death.& Therefore, he argued that he, too, can kill anyone through his order and bring thereby death to him and can also let off a person sentenced to death and give thereby life to him. Obviously, his argument was totally absurd, because &giving life& means to give life to something lifeless56. 56. And &bringing death& means power which may remove the life from every living creature without a necessary intervention of an apparent cause. When Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) felt that his addressee is unable to understand the real nature of &giving life& and &bringing death,& he switched over to another argument and said, |"Allah brings the sun out from the East, now, you bring it out from the West.|" Here the king was baffled and could not answer the Abrahimic argument. But even after the truth became clear to him, he did not accept the guidance. Hence the Qur&anic statement: |"And Allah does not put the unjust people on the right path.|" Injunctions and related considerations 1. It is evident from the words used in the verse that if an infidel is given political power or a high worldly status, there is no harm (for a Muslim) in referring to him as a holder of that position (Qurtubi). 2. The verse also affirms the permissibility of having debate with such an infidel in order to manifest the difference between right and wrong. 3. Some people doubt the validity of the last argument of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، because Namrud نمرود could have refuted it by a counter demand from Ibrahim (علیہ السلام) and could have said, |"If there is a God, let Him bring the sun out from the West.|" But it is obvious that he could not come out with this counter-demand. The reason is that as soon as he heard the argument, he came to the conclusion that (he himself or anybody else cannot bring out the sun from the East or the West and) it is surely a divine func¬tion which proves the existence of God. And once it is proved that it is God who brings the sun out from the East, it necessarily follows from it that He has the power to bring it out from the West also. The king also came to the conclusion that Ibrahim (علیہ السلام) ، ac is the messenger of Allah, and if the prayed Allah to bring out the sun from the. West, Al¬lah will do it, in which case such a miraculous event may bring a revo¬lution against him and he may be deprived of his kingdom. Therefore, he did not make such a demand and having no other answer, was baffled with the argument. (Bayin al-Qur&an)

خلاصہ تفسیر : (اے مخاطب) کیا تجھ کو اس شخص کا قصہ تحقیق نہیں ہوا (یعنی نمرود کا) جس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے مباحثہ کیا تھا اپنے پروردگار کے (وجود کے) بارے میں (یعنی توبہ توبہ وہ خدا کے وجود ہی کا منکر تھا) اس وجہ سے کہ خدا تعالیٰ نے اس کو سلطنت دی تھی (یعنی چاہئے تو یہ تھا کہ نعمت سلطنت پر احسان مانتا اور ایمان لاتا اس کے برعکس انکار اور کفر شروع کردیا اور یہ مباحثہ اس وقت شروع ہوا تھا) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے (اس کے پوچھنے پر کہ خدا کیسا ہے جواب میں) فرمایا کہ میرا پروردگار ایسا ہے کہ وہ جلاتا ہے اور مارتا ہے (یعنی زندہ کرنا اور مارنا اس کی قدرت میں ہے وہ کوڑھ مغز جلانے مارنے کا مطلب تو سمجھا نہیں) کہنے لگا کہ (یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں کہ) میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں (چنانچہ جس کو چاہوں قتل کردوں یہ تو مارنا ہے اور جس کو چاہوں قتل سے معاف کردوں یہ جلانا ہے) ابراہیم (علیہ السلام) نے (جب دیکھا کہ بالکل ہی بھدّی عقل کا ہے کہ اس کو جلانا اور مارنا سمجھتا ہے حالانکہ جلانے کی حقیقت بےجان چیز میں جان ڈال دینا ہے اسی طرح مارنے کا معاملہ سمجھو اور قرائن سے یہ معلوم ہوگیا کہ یہ جلانے اور مارنے کی حقیقت سمجھے گا نہیں اس لئے اس ضرورت سے دوسرے جواب کی طرف متوجہ ہوئے اور) فرمایا کہ (اچھا) اللہ تعالیٰ آفتاب کو (روزانہ) مشرق سے نکالتا ہے تو (ایک ہی دن) مغرب سے نکال (کر دکھلا) اس پر متحیر رہ گیا وہ کافر (اور کچھ جواب نہ بن آیا اس کا متقضی یہ تھا کہ وہ ہدایت کو قبول کرتا مگر وہ اپنی گمراہی پر جما رہا اس لئے ہدایت نہ ہوئی) اور اللہ تعالیٰ (کی عادت ہے کہ) ایسے بےجا راہ چلنے والوں کو ہدایت نہیں فرماتے۔ معارف و مسائل : اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کافر کو دنیاوی عزت وشرف اور ملک و سلطنت عطاء کردیں تو اس نام سے تعبیر کرنا جائز ہے نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت مناظرہ اور مجادلہ کرنا بھی جائز ہے تاکہ حق و باطل میں فرق ظاہر ہوجائے۔ (قرطبی) بعضوں کو یہ شبہ ہوا کہ اس کو یہ کہنے کی گنجائش تھی کہ اگر خدا موجود ہے وہی مغرب سے نکالے دفع اس شبہ کا یہ ہے کہ اس کے قلب میں بلا اختیار یہ بات پڑگئی کہ خدا ضرور ہے اور یہ مشرق سے نکالنا اسی کا فعل ہے اور وہ مغرب سے بھی نکال سکتا ہے اور یہ شخص پغمبر ہے اس کے کہنے سے ضرور ایسا ہوگا اور ایسا ہونے سے انقلاب عظیم عالم میں پیدا ہوگا کہیں اور لینے کے دینے نہ پڑجائیں مثلا لوگ اس معجزے کو دیکھ کر مجھ سے منحرف ہو کر ان کی راہ پر ہولیں ذرا سی حجت میں سلطنت جاتی رہے، یہ جواب تو اس لئے نہ دیا اور دوسرا کوئی جواب تھا نہیں اس لئے حیران رہ گیا (بیان القرآن )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ۝ ٠ ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۝ ٠ ۙ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَاُمِيْتُ۝ ٠ ۭ قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللہَ يَاْتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِيْ كَفَرَ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ٢٥٨ ۚ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ حاجَّة : أن يطلب کلّ واحد أن يردّ الآخر عن حجّته ومحجّته، قال تعالی: وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام/ 80] ، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران/ 61] ، وقال تعالی: لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 65] ، وقال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران/ 66] ، وقال تعالی: وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر/ 47] ، وسمّي سبر الجراحة حجّا، قال الشاعر : 105 ۔ يحجّ مأمومة في قعرها لجف ۔ الحاجۃ ۔ اس جھگڑے کو کہتے ہیں جس میں ہر ایک دوسرے کو اس کی دلیل اور مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام/ 80] اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں ( کیا بحث کرتے ہو ۔ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران/ 61] پھر اگر یہ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چکی ہے ۔ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 65] تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران/ 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں ۔ وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر/ 47] اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے ۔ اور حج کے معنی زخم کی گہرائی ناپنا بھی آتے ہیں شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) یحج مامومۃ فی قھرھا لجف وہ سر کے زخم کو سلائی سے ناپتا ہے جس کا قعر نہایت وسیع ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مین مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ شمس الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] ، وقال : الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها . ( ش م س ) الشمس کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ شرق شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ( ش ر ق ) شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) غرب الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] ، وقیل لكلّ متباعد : غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ. ( غ رب ) الغرب ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔ بهت قال اللہ عزّ وجل : فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة/ 258] ، أي : دهش وتحيّر، وقد بَهَتَهُ. قال عزّ وجل : هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور/ 16] أي : كذب يبهت سامعه لفظاعته . قال تعالی: وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة/ 12] ، كناية عن الزنا «2» ، وقیل : بل ذلک لکل فعل مستبشع يتعاطینه بالید والرّجل من تناول ما لا يجوز والمشي إلى ما يقبح، ويقال : جاء بالبَهِيتَةِ ، أي : بالکذب . ( ب ھ ت ) بھت ( س ) حیران وششدرہ جانا نا سے مبہوث کردیا : قرآن میں ہے فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة/ 258] یہ سن کر کافر حیران رہ گیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور/ 16] یہ تو ( بہت ) بڑا بہتان ہے ۔ میں بہتان کے معنی ایسے الزام کے ہیں جسے سن کر انسان ششد ر و حیرانوی جائے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة/ 12] نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی ۔ میں بہتان زنا سے کنایہ ہے ۔ بعض نے کہا ہے نہیں بلکہ اس سے ہر وہ عمل شنیع مراد ہے جسے ہا اور پاؤں سے سر انجام دیا جائے ۔ مثلا ہاتھ سے کسی نادا چیز کو پکڑنا یا کسی عمل شنیع کا ارتکاب کرنے کے لئے اس کی طرف چل کر جانا اس نے جھوٹ بولا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس شخص کا واقعہ یاد نہیں، جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے پروردگار کے دین کے بارے میں جھگڑا کیا تھا اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حکومت وسلطنت عطا کی تھی اور وہ نمرود بن کنعان ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ اور زندوں کو موت دیتا ہے اس نے بھی یہی دعوی کیا تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اس کا ثبوت پیش کرو، چناچہ اس نے قید خانہ سے دو آدمی بلائے، ایک کو قتل کردیا اور دوسرے کو سزا معاف کرکے چھور دیا اور کہنے لگا یہ اس بات کی دلیل ہے، اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوسری دلیل کی جانب متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ سورج مشرق سے نکالتا ہے تو مغرب سے نکال کر دکھا، تو یہ کافر بغیر کسی دلیل کے خاموش ہوگیا، اور کافروں یعنی نمرود کو دلیل کی رسائی نہیں ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥٨ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰٹہ اللّٰہُ الْمُلْکَ ٧ ) یہ بابل (عراق) کا بادشاہ نمرود تھا۔ یہ ذہن میں رکھیے کہ نمرود اصل میں لقب تھا ‘ کسی کا نام نہیں تھا۔ جیسے فرعون (ج فراعنہ) مصر کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا اسی طرح نمرود (ج نماردہ) بابل (عراق) کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیدائش ار میں ہوئی تھی جو بابل ‘ (Babylonia) کا ایک شہر تھا اور وہاں نمرود کی بادشاہت تھی۔ جیسے فرعون نے مصر میں اپنی بادشاہت اور اپنی خدائی کا دعویٰ کیا تھا اسی طرح کا دعویٰ نمرود کا بھی تھا۔ فرعون اور نمرود کا خدائی کا دعویٰ درحقیقت سیاسی بادشاہت اور اقتدار کا دعویٰ تھا کہ اختیار مطلق ہمارے ہاتھ میں ہے ‘ ہم جس چیز کو چاہیں غلط قرار دے دیں اور جس چیز کو چاہیں صحیح قرار دے دیں۔ یہی اصل میں خدائی اختیار ہے جو انہوں نے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ تحلیل و تحریم اللہ تعالیٰ کا حق ہے ‘ کسی شے کو حلال کرنے یا کسی شے کو حرام کرنے کا اختیار واحد اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور جس شخص نے بھی قانون سازی کا یہ اختیار اللہ کے قانون سے آزاد ہو کر اپنے ہاتھ میں لے لیا وہی طاغوت ہے ‘ وہی شیطان ہے ‘ وہی نمرود ہے ‘ وہی فرعون ہے۔ ورنہ فرعون اور نمرود نے یہ دعویٰ تو نہیں کیا تھا کہ یہ دنیا ہم نے پیدا کی ہے۔ ( اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ لا قال اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ ط ) نمرود نے جیل سے سزائے موت کے دو قیدی منگوائے ‘ ان میں سے ایک کی گردن وہیں اڑا دی اور دوسرے کی سزائے موت معاف کرتے ہوئے اسے رہا کردیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہنے لگا کہ دیکھو ‘ میں نے جس کو چاہا زندہ رکھا اور جس کو چاہا مار دیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ یہ کٹ حجتی پر اترا ہوا ہے ‘ اسے ایسا جواب دیا جانا چاہیے جو اس کو چپ کرا دے۔ (قَالَ اِبْرٰہٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ ) (فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ ط) اب اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ یہ بات سن کر بھونچکا اور ششدر ہو کر رہ گیا۔ (وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ) اللہ نے اسے راہ یاب نہیں کیا ‘ لیکن وہ چپ ہوگیا ‘ اس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بات کا کوئی جواب نہیں بن پڑا۔ اس کے بعد اس نے بت کدے کے پجاریوں کے مشورے سے یہ فیصلہ کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جھونک دیا جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

289. It was stated earlier that God is the protector and supporter of the man of faith and brings him out of darkness into light whereas the protectors and supporters of the unbelievers are taghut who lead him out of light into darkness. It is to illustrate this that three examples are cited here. The first is that of a person before whom truth was put with such clear and impressive arguments that he could not refute it, but since he had placed his reins in the hands of taghut, he still could not believe in it. The two subsequent examples are those of two people who clung to God as their support, and God drew them out of darkness so that they were enabled to perceive directly those realities which are beyond the reach of man's perception. 290. Here the reference is to Nimrod the ruler of the land of Abrahams birth, Iraq. The event which is referred to here is not mentioned at all in the Bible. However, the whole story occurs in the Talmud and is largely in harmony with the Qur'anic version. In the Talmudic version it is said that the father of Abraham occupied the highest office in Nimrod's government. When Abraham denounced polytheism, preached the doctrine of the unity of God and smashed the idols of the temple, his own father lodged a complaint against him before the king. This was followed by a conversation which is mentioned here. 291. The dispute was over the question: Whom did he acknowledge as his Lord? The reason why this dispute arose was that God had granted kingship to the remonstrator, namely Nimrod. In order to comprehend fully the nature of the dispute hinted at in these statements, it is necessary to bear in mind the following: (1) All polytheistic societies from the earliest times till today share one characteristic: they acknowledge God to be the Lord of lords, the greatest of all deities. They are unwilling to acknowledge Him, however, as the only God, the only object of man's worship and service. (2) Polytheists tend to divide godhead into two categories. One of these belongs to the supernatural stratum. The being invested with godhead at this stratum rules over the entire system of causation and is the one to whom man turns for the fulfilment of his needs and for solutions to his problems. With this godhead the polytheists associate spirits, angels, jinn, heavenly bodies and several other beings. To them they address their prayers. They regard them as the objects of their worship. It is at their altars that offerings and sacrifices are placed. The second category of godhead belongs to the social and political stratum, and refers to the being who has the privilege of absolute sovereignty: the one who is entitled to make the rules of conduct for human life, the one who is entitled to unreserved obedience, the one who has unlimited authority to command in worldy matters. Polytheists of all ages have either wrested this godhead from God altogether, or they have had this godhead distributed, in addition to God, among many others such as royal dynastics, religious divines and the venerated personalities of society, whether they belonged to the past or to their own times. Many royal families have laid claim to godhead of the second category and, in order to consolidate their claim, they have pretended to be the offspring of gods in the former sense. In general there has been collusion between the religious and the ruling classes on this question. (3) Nimrod's claim to godhead belong to this second category. He did not deny the existence of God, and he did not deny that He was the creator of the heavens and the earth, and that He alone governed the entire universe. Nimrod did not claim for himself that he held the reins of the entire realm of causation in his hands; he claimed rather that he was the absolute sovereign of Chaldaea and its inhabitants, that in his realm his word was law, that there was no authority superior to his own to which he was answerable. Any Chaldaean who did not either acknowledge him to be his lord or took anyone other than him to be so, was a rebel and a traitor. (4) Abraham asserted that he acknowledged none else but the creator of the universe as his God, the only object worthy of his worship. He also denied categorically the godhead and overlordship of anyone else. This raised the question of how far the new creed could be tolerated, in so far as it was opposed to the tenets of the national religion and rejected the current ideas regarding the deities it worshipped. It also alerted the establishment in so far as Abraham's ideas might constitute a serious threat to the national state and to the position and privelege of its ruling coterie. 292. Even though it was clear from Abraham's very first sentence that none other than God could legitimately be regarded as the Lord, Nimrod resorted to an unreasonable reply. But Abraham's second statement left no room even for Nimrod's brazenness. He knew well enough that the sun and the moon were subjected to the overlordship of the same God as Abraham had acknowledged as his Lord. What, then, could he say in reply? To accept the Truth which Abraham had made crystal clear by his argument meant that Nimrod ought to part with his absolutist despotism. The devil within him was not prepared for that. Hence he was left wonderstruck, unable to get out of the darkness of self-adoration to the light of Truth. If he had taken God rather than the Evil One as his patron and supporter, the true path would have been opened to him after Abraham's preaching. According to the Talmud, Abraham was interned in prison on the orders of this king. He remained in prison for ten days, after which the king decided to have him burnt alive. It was then that the famous incident of Abraham being thrown into the fire took place (see Qur'an 21:51 f f.; 29:16; 37:83) .

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :289 اوپر دعویٰ کیا گیا تھا کہ مومن کا حامی و مددگار اللہ ہوتا ہے اور وہ اسے تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور کافر کے مددگار طاغوت ہوتے ہیں اور وہ اسے روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں ۔ اب اسی کی توضیح کے لیے تین واقعات مثال کے طور پر پیش کیے جارہےہیں ۔ ان میں سے پہلی مثال ایک ایسے شخص کی ہے ، جس کے سامنے واضح دلائل کے ساتھ حقیقت پیش کی گئی اور وہ اس کے سامنے لاجواب بھی ہوگیا ۔ مگر چونکہ اس نے طاغوت کے ہاتھ میں اپنی نکیل دے رکھی تھی ، اس لیے وضوح حق کے بعد بھی وہ روشنی میں نہ آیا اور تاریکیوں ہی میں بھٹکتا رہ گیا ۔ بعد کی دو مثالیں دو ایسے اشخاص کی ہیں ، جنہوں نے اللہ کا سہارا پکڑا تھا ، سو اللہ ان کو تاریکیوں سے اس طرح روشنی میں نکال لایا کہ پردہ غیب میں چھپی ہوئی حقیقتوں تک کا ان کو عینی مشاہدہ کرا دیا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :290 اس شخص سے مراد نمرود ہے ، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وطن ( عراق ) کا بادشاہ تھا ۔ جس واقعے کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ، اس کی طرف کوئی اشارہ بائیبل میں نہیں ہے ۔ مگر تَلْموُد میں یہ پورا واقعہ موجود ہے اور بڑی حد تک قرآن کے مطابق ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ نمرود کے ہاں سلطنت کے سب سے بڑے عہدے دار ( Chief Officer Of The State ) کا منصب رکھتا تھا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب کھلم کھلا شرک کی مخالفت اور توحید کی تبلیغ شروع کی اور بت خانے میں گھس کر بتوں کو توڑ ڈالا ، تو ان کے باپ نے خود ان کا مقدمہ بادشاہ کے دربار میں پیش کیا اور پھر وہ گفتگو ہوئی ، جو یہاں بیان کی گئی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :291 یعنی اس جھگڑنے میں جو بات ما بہ النزاع تھی ، وہ یہ تھی کہ ابراہیم علیہ السلام اپنا رب کس کو مانتے ہیں ۔ اور یہ نزاع اس وجہ سے پیدا ہوئی تھی کہ اس جھگڑنے والے شخص ، یعنی نمرود کو خدا نے حکومت عطا کر رکھی تھی ۔ ان دو فقروں میں جھگڑے کی نوعیت کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے ، اس کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل حقیقتوں پر نگاہ رہنی ضروری ہے: ( ۱ ) قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام مشرک سوسائیٹیوں کی یہ مشترک خصوصیت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو رب الارباب اور خدائے خدائیگان کی حیثیت سے تو مانتے ہیں ، مگر صرف اسی کو رب اور تنہا اسی کو خدا اور معبود نہیں مانتے ۔ ( ۲ ) خدائی کو مشرکین نے ہمیشہ دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ ایک فوق الفطری ( Supernatural ) خدائی ، جو سلسلہ اسباب پر حکمراں ہے اور جس کی طرف انسان اپنی حاجات اور مشکلات میں دستگیری کے لیے رجوع کرتا ہے ۔ اس خدائی میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ارواح اور فرشتوں اور جنوں اور سیاروں اور دوسری بہت سی ہستیوں کو شریک ٹھیراتے ہیں ، ان سے دعائیں مانگتے ہیں ، ان کے سامنے مراسم پرستش بجا لاتے ہیں ، اور ان کے آستانوں پر نذر و نیاز پیش کرتے ہیں ۔ دوسری تمدنی اور سیاسی معاملات کی خدائی ( یعنی حاکمیت ) ، جو قوانین حیات مقرر کر نے کی مجاز اور اطاعت امر کی مستحق ہو ، اور جسے دنیوی معاملات میں فرماں روائی کے مطلق اختیارات حاصل ہوں ۔ اس دوسری قسم کی خدائی کو دنیا کے تمام مشرکین نے قریب قریب ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ سے سلب کر کے ، یا اس کے ساتھ ، شاہی خاندانوں اور مذہبی اور سوسائیٹی کے اگلے پچھلے بڑوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ اکثر شاہی خاندان اسی دوسرے معنی میں خدائی کے مدعی ہوئے ہیں ، اور اسے مستحکم کرنے کے لیے انہوں نے بالعموم پہلے معنی والے خداؤں کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے ، اور مذہبی طبقے اس معاملے میں ان کے ساتھ شریک سازش رہے ہیں ۔ ( ۳ ) نمرود کا دعوائے خدائی بھی اسی دوسری قسم کا تھا ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر نہ تھا ۔ اس کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ زمین و آسمان کا خالق اور کائنات کا مدبر وہ خود ہے ۔ اس کا کہنا یہ نہیں تھا کہ اسباب عالم کے پورے سلسلے پر اسی کی حکومت چل رہی ہے ۔ بلکہ اسے دعویٰ اس امر کا تھا کہ اس ملک عراق کا اور اس کے باشندوں کا حاکم مطلق میں ہوں ، میری زبان قانون ہے ، میرے اوپر کوئی بالاتر اقتدار نہیں ہے جس کے سامنے میں جواب دہ ہوں ، اور عراق کا ہر وہ باشندہ باغی و غدار ہے جو اس حیثیت سے مجھے اپنا رب نہ مانے یا میرے سوا کسی اور کو رب تسلیم کرے ۔ ( ٤ ) ابراہیم علیہ السلام نے جب کہا کہ میں صرف ایک رب العالمین ہی کو خدا اور معبود اور رب مانتا ہوں ، اور اس کے سوا سب کی خدائی اور ربوبیت کا قطعی طور پر منکر ہوں ، تو سوال صرف یہی پیدا نہیں ہوا کہ قومی مذہب اور مذہبی معبودوں کے بارے میں ان کا یہ نیا عقیدہ کہاں تک قابل برداشت ہے ، بلکہ یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا کہ قومی ریاست اور اس کے مرکزی اقتدار پر اس عقیدے کی جو زد پڑتی ہے ، اسے کیونکر نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جرم بغاوت کے الزام میں نمرود کے سامنے پیش کیے گئے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :292 اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے فقرے ہی سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ رب اللہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ، تاہم نمرود اس کا جواب ڈھٹائی سے دے گیا ۔ لیکن دوسرے فقرے کے بعد اس کے لیے مزید ڈھٹائی سے کچھ کہنا مشکل ہو گیا ۔ وہ خود بھی جانتا تھا کہ آفتاب و ماہتاب اسی خدا کے زیر فرمان ہیں ، جس کو ابراہیم علیہ السلام نے رب مانا ہے ۔ پھر وہ کہتا ، تو آخر کیا کہتا ؟ مگر اس طرح جو حقیقت اس کے سامنے بے نقاب ہو رہی تھی ، اس کو تسلیم کر لینے کے معنی اپنی مطلق العنان فرماں روائی سے دست بردار ہو جانے کے تھے ، جس کے لیے اس کے نفس کا طاغوت تیار نہ تھا ۔ لہٰذا وہ صرف ششدر ہی ہو کر رہ گیا ، خود پرستی کی تاریکی سے نکل کر حق پرستی کی روشنی میں نہ آیا ۔ اگر اس طاغوت کے بجائے اس نے خدا کو اپنا ولی و مددگار بنایا ہوتا ، تو اس کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس تبلیغ کے بعد راہ راست کھل جاتی ۔ تلمود کا بیان ہے کہ اس کے بعد اس بادشاہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام قید کر دیے گئے ۔ دس روز تک وہ جیل میں رہے ۔ پھر بادشاہ کی کونسل نے ان کو زندہ جلانے کا فیصلہ کیا اور ان کے آگ میں پھینکے جانے کا وہ واقعہ پیش آیا ، جو سورہ انبیاء ، رکوع ۵ ، العنکبوت ، رکوع ۳-۲ ، اور الصافات ، رکوع ٤ میں بیان ہوا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

174: یہ بابل کا بادشاہ نمرود تھا جو خدائی کا بھی دعوے دار تھا، اس نے جو دعوی کیا کہ میں زندگی اور موت دیتا ہوں اس کا مطلب یہ تھا کہ بادشاہ ہونے کی وجہ سے جس کو چاہوں موت کے گھاٹ اتاردوں اور جس کو چاہوں موت کا مستحق ہونے کے باوجود معاف کرکے آزاد کردوں، اور اس طرح اسے زندگی دے دوں، ظاہر ہے کہ اس کا جواب قطعی طور پر غیر متعلق تھا، اس لئے کہ گفتگو زندگی اور موت کے اسباب سے نہیں ان کی تخلیق سے ہورہی تھی ؛ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ وہ یا تو موت اور حیات کی تخلیق کا مطلب ہی نہیں سمجھتا یا کٹ حجتی پر اترآیا ہے، اس لئے انہوں نے ایک ایسی بات فرمائی جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا، مگر لاجواب ہو کر حق کو قبول کرنے کے بجائے اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قید کیا، پھر آگ میں ڈالنے کا حکم دیا، جس کا ذکر قرآن کریم نے سورۃ انبیاء (٦٨ تا ٧١) سورۂ عنکبوت (٢٤) اور سورۂ صافات (٩٧) میں فرمایا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

یہ بادشاہ جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے کے باب میں بحث کی اس کا نام نمرود بن کنعان تھا یہ بابل کا بادشاہ تھا اور چار سو برس کے قریب اس نے سلطنت کی ہے یہ ملعون خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اسی واسطے اس نے حضرت ابراہیم سے اس طرح کی بحث کی چار بادشاہ روئے زمین پر بہت بڑے ہوئے ہیں دو مسلمان حضرت سلیمان اور ذروالقرنین اور دو کافر نمرود اور بحث نصریہ مباحثہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نمرود کا اس وقت ہوا ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس آگ سے نجات دی ہے جو نمرود اور اس کی قوم نے بتوں کے توڑنے کی سزا کے طور پر جلائی تھی جس کا پورا قصہ سورة انبیاء میں آئے گا جب نمرود نے سنا کہ حضرت ابرہیم (علیہ السلام) اور لوگوں کی طرح نمرود کو خدا نہیں کہتے تو حضرت ابراہیم سے مباحثہ کیا اور سورج کو مغرب کی طرف سے نکالنے کی قدرت اپنے آپ میں نہ پاکر آخر کو قائل ہوگیا۔ اس واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ظالم لوگ اللہ کے حکم سے غالب ہونے کا راستہ نہیں پاسکتے قطع حجت کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سورج کے مغرب سے نکالنے کی دلیل پیش کی ورنہ پہلی دلیل میں کسی مردہ کے جلنے کی حجت ابراہیم (علیہ السلام) پیش کرسکتے تھے اور اس حجت میں بھی وہ کافر عاجز ہوسکتا تھا بعض مفسروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نمرود سے یہ کہا کہ میرا رب وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے تو نمرود نے کہا کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے کوئی مردہ زندہ ہوا ہے اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت سورج کو مغرب سے نکالنے کی دلیل سے اس کافر کو قائل کردیا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کی کہ یا اللہ تو مجھ کو کسی مردہ کو جلا کر دکھادے چناچہ اس کا قصہ آگے آتا ہے اس مباحثہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو حضرت لوط اور سارہ کو ساتھ لے کر ملک عراق سے شام کی طرف چلے گئے اور اللہ تعالیٰ نے حجت تمام کرنے کو ایک فرشتہ نمرود کی ہدایت کے لئے بھیجا اور باوجود ہدایت کے جب نمرود راہ راست پر نہ آیا تو مچھروں کا عذاب بھیج کر اس کو اور اس کے لشکر کو غارت کردیا اور لوگ تو مچھروں کے ناک میں گھس جانے اور دماغ میں کاٹنے سے فورا مرگئے۔ مگر خدا کی پھٹکار کے سبب سے نمرود اس حالت میں بھی مدت تک جیا اور جب مچھر اس کے دماغ میں کاٹتا تو اس کے سر پر طرح طرح کی مار پڑتی تھی خدا تعالیٰ کو یہ ذلت اس ملعون کو دینی تھی اس لئے اس بےحیا زیست سے اس کو ایک مدت زندہ رکھا اہل کتاب اور مشرکین عرب میں سے جو لوگ اس آیت کے نازل ہونے تک اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت سے باز نہیں آئے تھے ان کی تنبیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے تاکہ یہ لوگ خوب اچھی طرح سمجھ لیویں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت ایسی بری چیز ہے جس نے نمرود جیسے صاحب حشمت بادشاہ کو ایسی ذلت و خواری سے مع اس کے لشکر غارت کردیا ان لوگوں کی کیا اصل و بنیاد ہے جو انہوں نے رسول وقت کی مخالفت پر کمر باندھی ہے باوجود فہمایش کے اگر یہ لوگ اپنی عادت سے باز نہ آئے تو ان پر بھی نمرود جیسا کوئی وبال پڑنے والا ہے اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے اس تنبیہ کا جو کچھ نتیجہ اہل کتاب و مشرکین مکہ دونوں کے حق میں ہوا اس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے کہ کچھ لوگ ان میں ذلت سے قتل اور قید ہوئے اور کچھ جلاوطن۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:258) الم تر الی الذی۔ کیا تو نے نہیں دیکھا ۔ کیا تجھے خبر ہے اس شخص کی۔ حاج۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ محاجۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ اس نے جھگڑا کیا۔ اس نے بحث کی حجت کی۔ حجت کرنا۔ یعنی ہر ایک کا دوسرے کو اس کی دلیل اور راہ سے ہٹانے کی خواہش کرنا۔ ان اتہ اللہ الملک۔ ان سے پہلے لام تعلیل محذوف ہے گویا عبارت ہے لان اتہ اللہ الملک۔ جھگڑا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حکومت عطا کی تھی۔ اس لئے اس نے سرکشی کی۔ حکومت کا غرور اس کے جھگڑا کرنے کی علت تھا ۔ یعنی اس نے عطاء خداوندی کے تقاضے کے خلاف کیا۔ عطا کا لازمی تقاضا یہ تھا کہ وہ شکر کرتا مگر کیا اس نے اس کے برعکس۔ عرب کہتے ہیں کہ عادیتنی لانی احسنت الیک تو میرا دشمن اس لئے ہوگیا کہ میں نے تجھ سے بھلائی کی۔ (یہ طنزیہ کلام ہے) ۔ فات بھا۔ ات امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ اتیان (باب ضرب) مصدر بمعنی آنا۔ لیکن جب اس کا تعدیہ یا کے ساتھ ہو تو بمعنی لانے کے ہوں گے۔ ات ب۔ تو لا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب الشمس کے لئے ہے تو اسے (نکال) لے آ۔ بھت۔ ماضی مجہول۔ امر کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ بھت (باب سمع و کرم) مصدر۔ بمعنی حیران و ششدر رہ جانا۔ وہ حیران رہ گیا۔ وہ مبہوت ہوگیا۔ یہاں فعل مجہول فعل معروف کے معنی میں ہی آیا ہے۔ واللہ لایھدی القوم الظلمین۔ اللہ فاعل۔ لا یھدی مضارع منفی واحد مذکر غائب فعل۔ القوم الظلمین۔ موصوف و صفت مل کر مفعول۔ اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اوپر کی آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہل ایمان اصحاب نور ہیں اور اہل کفر اصحاب ظلمت ہیں۔ اب تین قصے بیان کئے جن سے اہل ایمان اور اہل کفر کے احوال پر روشنی پڑتی ہے۔ امام رازی لکھتے ہیں پہلے قصہ سے صانع کا اور دوسرے دونوں قصوں سے حشر ونشر کا اثبات مقصود ہے اور کافر ان دونوں (مبد ومعد کے منکر ہیں۔ کبیر تبصرف) مفسرین نے اس بادشاہ کا نام نمرود بن کنعان لکھا ہے جو اہل (عراق) کا بادشاہ تھا اور صانع کی ہستی کا منکر تھا۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یہ منا ظرہ وجود با ری تعالیٰ میں تھا کہ اس علام کا کوئی صانع موجود ہے یا نہیں چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے وجود باری تعالیٰ کی یہ دلیل دی کہ دنیا میں انسان سمیت تمام چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر وجود سے عدم چلی جاتی ہیں۔ اس معلوم ہوا کہ کوئی فاعل مختار ہستی موجود ہے جس کے تصرف سے یہ سب کچھ ہورہا ہے کیونکہ جہاں میں وجود فنا کا یہ سلسلہ از خود قائم نہیں ہوسکتا۔ نمرود دلیل کو سمجھ لینے کے باوجود ہٹ دھرمی اور ضد سے کام لیا اور جواب دیا کہ میں بھی یہ سب کچھ کرسکتا ہوں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی ضد اور ہٹ دھرمی بھانپ کر دوسری دلیل پیش کی کہ اللہ تعالیٰ تو رسورج کو مشرق سے مغرت کی طرف لے جارہا ہے اگر تم باوجود منکر اور خود خدائی کے دعویدار ہو تو اس نظام شمسی کو ذرابد کر دکھاؤ یعنی سورج کو مغرب سے مشرق کی طرف لے آؤ۔ اس پر وہ قطعی لاجواب ہو کر رہ گیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے منا ظرہ کی یہ نہایت بہتر ہے یہاں پہلی دلیل چھوڑ کر دوسری دلیل اختیار نہیں کی بلکہ پہلی دلیل کو دوسری دلیل کے لیے بمنزلہ مقدمہ قرار دے کر نمرود کے دعوی کا کلیتہ بطلان ظاہر کیا ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ مناظرہ آگ سے خروج کے بعد ہوا تھا اور بعض نے کہا ہے کہ بتوں کو توڑنے کے بعد کا واقعہ ہے۔ (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 258 260 اسرارو معارف الم ترالی الذی حآج ابراھیم…………واللہ لا یھدی القوم الظلمین۔ ایمان مسلط اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو اللہ کی طرف سے دل پر وارد ہوتی ہے اور جس کا درود کا سبب وہ خواہش ہے جسے کتاب اللہ نے انابت کا نام دیا ہے اگر کسی دل میں انابت ہی نہ ہو تو لاکھ کوشش اور ہزار حجت کے بعد بھی اسے ایمان نصیب نہیں ہوتا۔ پھر یہاں زبردستی کیسی ؟ اس ضمن میں بطور مثال ارشاد ہے کہ……ذرا اسی شخص کے حالات دیکھئے جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑا کیا اور وہ بھی ربوبیت باری میں۔ حالانکہ اللہ نے ہی اسے ملک عطا کیا تھا یعنی خود اس کی ذات اور اس کی بہت بڑی سلطنت ربوبیت باری ہی کے تو مظہر ہیں اور حق یہ تھا کہ وہ شکر ادا کرتا مگر اس نے سرکشی اختیار کی خود خدا ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں سے کہا ” تمہارا رب میں ہوں مجھے سجدہ کرو ! “ جب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے بت توڑے اور اعلان نبوت فرمایا تو اس نے دربار میں طلب کرکے پوچھا ، آپ کس رب کی طرف دعوت دے رہے ہیں ؟ سب کا رب تو میں ہوں اور تمام لوگوں کی ضروریات تو میری حکومت پوری کر ہی ہے۔ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا ، میرا رب وہ ہے یا میں اس رب کی طرف دعوت دیتا ہوں جو زندگی بخشتا ہے ، جو خالق ہے اور جو موت دیتا ہے کہ وقت مقرر پر ہر کوئی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے حتیٰ کہ ربوبیت کے جھوٹے مدعی بھی پیدا ہوتے ہیں اور مرجاتے ہیں ، کائنات کے نظام کو نہ ان کی پیدائش متاثر کرسکتی ہے نہ موت۔ اگر تو اور تیرے جیسے بندے رب ہوتے تو یقینا ان کے سوا یہ عالم قائم نہ رہ سکتا۔ حالانکہ واقعہ اس کے برعکس ہے حقیقی رب وہی ہے جو زندگی اور موت کا بھی دینے والا ہے “۔ اس کے جواب میں نمرود نے دو قیدی منگوائے ایک کو بری کردیا اور دوسرے کو قتل کرادیا۔ اور کہنے لگا ، میں بھی تو زندگی اور موت کا دینے والا ہوں۔ کسی قدر احمقانہ جواب تھا مگر یہ بات نمرود بھی جانتا تھا کہ مناظرے کے جج عوام ہوا کرتے ہیں جن کی اکثریت علم سے عاری اور محض باتوں پر فدا ہوتی ہے سو کٹ حجتی کر گیا ، مگر اللہ کے رسولوں کے پاس دلائل بھی تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ اللہ ساری کائنات کا خالق ہے اس کے سارے نظام کا بنانے والا اور چلانے والا ہے اس نے سورج کو مشرق سے نکل کر مغرب کی طرف غروب ہونے پر مقرر فرمایا ہے۔ اگر تو رب ہے اور اس کائنات کو تو چلارہا ہے تو ذرا اس نظام کو بدل دے اور سورج کو الٹے چکر پر لگا ، مشرق سے طلوع ہونے کی بجائے مغرب سے نکل آئے۔ تو بوکھلا اٹھا وہ جان گیا کہ اگر یہ سوال حضرت پہ لوٹا دوں تو یقینا جو رب مشرق سے طلوع کرتا ہے وہ مغرب سے طلوع کرنے پر قادر ہے اگر ان کی دعا سے ایسا ہوگیا تو غضب ہوجائے گا لوگ ان کی بات قبول کرلیں گے۔ اس کے علاوہ کوئی جواب نہ تھا ، بھڑک اٹھا اور آگ میں پھینکنے کا حکم دیا۔ روایت میں ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب نمرود نے حضرت کو آگ میں ڈالنے کے لئے جیل سے طلب کیا اور پھر آگ میں ڈال کر آگ کو گلزار بنتے دیکھ لیا مگر کافر ہی رہا کہ اللہ ظالموں کو کبھی ہدایت اور ایمان نصیب نہیں فرماتا۔ دل جو صرف طلب الٰہی کے لئے ہے اس میں دنیا یا جاہ و حشمت کی طلب بھر دینا ، کیا یہ بہت بڑا ظلم نہیں ہے ؟ ایسے ظالم کبھی ہدایت نہیں پاتے۔ اوکا الذی ھر علی قریۃ……………ان اللہ علی کل شیء قدیر۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کا واقعہ : یا پھر ایسا ہی عجیب قصہ اس شخص کا ہے جس کا گزر ایک اجڑے ہوئے شہر سے ہوا۔ یہ شخص حضرت عزیر (علیہ السلام) تھے اور تباہ شدہ بستی بیت المقدس۔ جسے بخت نصر نامی بادشاہ نے بری طرح برباد کردیا تھا۔ جب بنی اسرائیل کی بدکاریاں حد سے بڑھیں تو اللہ نے بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا جو بہت ظالم تھا اس نے شہر کو تاراج کردیا۔ تو رات کے تمام نسخے جلا ڈالے اور بیشمار لوگوں کو قتل کیا جو بچ رہے ، انہیں قیدی بنا کرلے گیا۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) جو تباہی کے وقت جنگل کو نکل گئے تھے جیسا کہ قاعدہ ہے کہ جب قوموں پر عذاب نازل ہوا تو اللہ کے بندوں کو ان سے جدا کردیا جاتا ہے۔ بخت نصر کی واپسی کے بعد جب شہر کو لوٹے تو سخت بربادی نظر آئی نہ سبزہ تھا نہ درخت باقی ، نہ مکان تھے نہ مکینوں کا پتہ۔ کھنڈر انسانی وجودوں کے کٹے پھٹے متعفن ٹکڑوں سے بھرے پڑے تھے اور گلی سڑی لاشیں بربادی پہ نوحہ خواں تھیں تو بےساختہ پکاراٹھے کہ ان لوگوں کو اللہ کیسے زندہ فرمائیں گے یعنی ان کی دوبارہ زندگی کی کیا صورت ہوگی ؟ جن کے اجزائے جسم درندے لے اڑے ، پرندوں نے نوچے ، آگ میں جلے اور مکان کی راکھ میں مل گئے یا ہوا لے اڑی۔ غرض بہت بری طرح تباہ ہوئے اب یہ کیونکر زندہ ہوں گے ، یہ ایک اظہار حیرت تھا۔ اللہ کی قدرت پر ، ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ ایسا ضرور ہوگا۔ مگر اس ہونے کی کیفیت کیا ہوگی ، یہ اللہ ہی جانے۔ اسی سوچ میں آرام کرنے کو لیٹ گئے ، سواری کا گدھا باندھا اور کچھ انگوروں کا رس اور انجیر وغیرہ کا توشہ جو جنگل سے لائے تھے رکھ دیا۔ سو اللہ نے ان پر ایسی نیند مسلط فرمادی جو موت کی طرح تھی۔ واقعتاً فوت نہ ہوئے تھے کہ برزخ سے لوٹ کر آدمی مکلف نہیں ہوتا حالانکہ آپ نے دوبارہ دنیا کو اللہ کی طرف دعوت دینے کا فریضہ ادا فرمایا۔ نہ تو روح قبض ہو کر برزخ میں پہنچی اور نہ زندوں کے ساتھ کوئی تعلق رہا۔ بلکہ ان کی کیفیت اس کے درمیان رہی۔ اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے نہ صرف ان کے باوجود کی حفاظت فرمائی بلکہ ان کے کھانے اور شربت کو بھی محفوظ رکھا کہ ایک صدی کا طویل فاصلہ بھی اسے خراب نہ کرسکا اور چشم عالم سے پوشیدہ بھی رکھا کہ کسی نے سو سال میں ان کا وجود یا کھانا پینا دیکھا نہ اس پر مٹی یا دھول جمی بلکہ ایسے ہی محفوظ رہے۔ جب اللہ نے اٹھایا تو خود ان کو اپنے وجود یا لباس میں کوئی ذرہ بھر تغیر نظر نہ آیا۔ گویا ایک صدی بیت گئی اور دوسری طرف ایک لمحہ بھی نہ گزرا۔ بالکل ایسے ہی جیسے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شب معراج تشریف لے گئے۔ بیت المقدس اور پھر آسمانوں پر اور پھر آگے اور پھر جنت دوزخ کا مشاہدہ فرما کر واپس لوٹے تو وہی وقت تھا۔ کنڈی بل رہی تھی اور بستر گرم ، یعنی ایں جانب لمحہ بھی نہ گزرا تھا خواہ ادھر سالوں بیت گئے ہوں۔ ایک صدی کے بعد اللہ نے اٹھایا۔ دریں اثناء تقریباً ستر سال بعد بنی اسرائیل قیدوبند سے چھوٹے۔ بخت نصر کو ہلاک کیا اور انہیں دوبارہ آباد ہونے کی توفیق بخشی تیس سالوں میں شہر خوب آباد ہوا۔ ادھر حضرت عزیر (علیہ السلام) اٹھے تو اللہ نے استفسار فرمایا کہ آپ یہاں کتنی دیر ٹھہرے ؟ عرض کیا ، دن بھر ، یا اس سے بھی کچھ کم دیر رکا ہوں۔ تو ارشاد ہوا کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے بلکہ آپ سو سال یہاں ٹھہرے ہیں اور ہماری قدرت کا تماشا دیکھیں کہ آپ اس طویل مدت کو محسوس تک نہیں کر پائے۔ اسی طرح آپ کا توشہ بھی محفوظ ہے نہ کسی ذی روح نے چھیڑا ہے نہ ہی بادل یا بارش اور نہ ہی تیز ہوائیں اس کا کچھ بگاڑ سکیں اور نہ سو سال تک تمازت آفتاب نے اسے متاثر کیا ہے اس کے ساتھ آپ کا گدھا تھا۔ جو حوادثات کی نظر ہوا۔ اس کی حفاظت نہیں کی گئی کہ آپ خوددیکھ سکیں کہ مردے کس طرح سے جی اٹھیں گے۔ اور کیا کیفیت ہوگی۔ اسکی ہڈیوں کو دیکھیں کس طرح یکجا ہوتی ہیں اور پھر کس طرح سے اس کے جسم کے ذرات جو ہوائیں لے اڑی تھیں یا جانوروں اور پرندوں کی غذائیں بن گئے تھے یا آبی طوفانوں کی نظر ہوئے۔ واپس لوٹ کر پھر سے گوشت اور چمڑا بن کر اپنی اصلی جگہ پر آتے ہیں اور یہ سب عجائبات کا مشاہدہ اس لئے کرایا گیا کہ آپ اپنے سوال کا جواب بھی پالیں۔ یعنی دوبارہ جی اٹھنے کی کیفیت بھی دیکھ لیں اور خودآپ کا وجود لوگوں کے لئے قدرت باری کی دلیل بن جائے۔ سماع موتیٰ : آج کل سماع موتیٰ اور عدم سماع کی بحث چل نکلی ہے اور عدم سماع کے قائل حضرات یہاں سے بھی دلیل پکڑتے ہیں کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو کوئی پتہ نہ چل سکا۔ اس لئے برزخ والے کچھ سن نہیں سکتے یہاں سے استدلال بےجا ہے کہ نہ حضرت عزیر (علیہ السلام) پر طبعی موت وارد ہوئی اور نہ آپ برزخ میں پہنچے ، اور نہ اخذ ثواب کی نوبت آئی ، قطع نظر اس کے کہ مرنے والے کچھ سن سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہاں سے دلیل نہیں دی جاسکتی بلکہ حیات بعد الموت کا انکار ۔ یہی کفار کے کفر پہ قائم رہنے کا سبب تھا اور ہے۔ اور یہ اس لئے ہے کہ عقل انسانی سے یہ سب کچھ بالاتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی طرح سے اپنی قدرت کا اظہار فرمادیا کہ کھانا پانی اپنی اصلی حالت میں محفوظ رکھا اور چشم عالم سے پنہاں بھی اپنے نبی کی وجود ، لباس غرضیکہ ہر شے کو محفوظ بھی رکھا ، چشم عالم سے پوشیدہ بھی اور خود نبی کو بھی پورے سو سال کے گزرنے کی خبر تک نہ ہونے دی۔ ساتھ میں گدھے پر موت آئی جسم گلا ، سڑا ، منتشر ہوا اور ایک صدی کا طویل عرصہ بیت گیا۔ پھر اسے اپنے نبی کے روبرو بنایا۔ زندگی بخشی اور فرمایا اب خود تیری ذات میری قدرت کاملہ کی دلیل ہے اور وہ بستی جس کی بربادی پر آپ حیران ہوئے تھے دوبارہ آباد ہوچکی ہے اب اسے بھی دلکھ لو ! چنانچہ آپ تشریف لے گئے اور لوگوں سے فرمایا میں عزیز نبی ہوں۔ طویل روایات ملتی ہیں کہ لوگوں نے نشانیاں طلب کیں اور سب سے بڑی نشانی کی بنی اسرائیل کے پاس سو سال سے تورات کا کوئی نسخہ نہ تھا سب بخت نصر نے جلا دیئے تھے۔ اللہ نے عزیز (علیہ السلام) کے قلب میں ڈال دی اور آپ نے دوبارہ لکھوا دی۔ یہ سب سامان ہدایت تھا اور بہت بڑا معجزہ تھا۔ مگر ہوا کیا کہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا بنادیا۔ ان کے دل میں انابت نہ تھی کہ ہدایت پاتے ، اللہ نے انہیں اپنے قرب سے اپنی معرفت سے محروم فرمادیا اور ادھر حضرت عزیر (علیہ السلام) نے یہ سب دیکھ کر فرمایا کہ میں تو یہ بات سب سے زیادہ جانتا ہوں کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے۔ ایسے ہی جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا ، اذ قال ابرھم…………ان اللہ عزیز حکیم۔ اور اس موضوع پر بہت بڑی دلیل وہ واقعہ بھی ہے جب حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے عرض کیا تھا کہ اے پروردگار ! مجھے یہ چیز دکھادے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا ؟ فرمایا : ” کیا تجھے اس بات پر یقین نہیں ؟ “ عرض کیا ، ” یا اللہ ! یقین کیوں نہیں ، ضرور یقین ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ اس کیفیت کو آنکھوں سے دیکھوں تاکہ دلی اطمینان کا بہت اعلیٰ درجہ حاصل ہو “۔ دنیا دار عمل ہے اور یہاں اسباب کو بہت دخل ہے حتیٰ کہ خود رب کریم اسباب پیدا فرما کر نتائج کو ان کے ثمر کے طور پر پیدا فرماتا ہے۔ اسی طرح دیکھنا سکون قلبی اور کیفیات قلبی کے لئے بہ نسبت سننے کے زیادہ موثر ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی قوم کی گو سالہ پرستی کی خبر تو ہوگئی مگر الواح نہ پھینکیں۔ اگرچہ بہت دکھ بھی لگا۔ غصے بھی ضرور ہوئے ہوں گے۔ لیکن جیسے ہی آنکھوں سے قوم کو اس برائی میں ملوث دیکھا تو الواح پھینک دیں ، حضرت ہارون (علیہ السلام) کی داڑھی کھینچ لی۔ اسی طرح سیدنا ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ یا اللہ ! بذریعہ وحی معلوم ہے ، یقین ہے ، جانتا ہوں لیکن اے پروردگار ! اے اسباب کے پیدا کرنے والے ! جو تاثیر تو نے مشاہدہ میں رکھی ہے ، اس کا طلب گار ہوں ، اپنے کرم سے مجھے مردوں کے زندہ ہونے کی کیفیات کا مشاہدہ کرادے۔ دعا کا سلیقہ : اللہ کی بارگاہ بہت عالی ہے اور طالب کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے دیکھیں حضرت عزیر (علیہ السلام) کی طلب بھی اسی کیفیت کے بارے تھے مگر الفاظ جو عرض کئے وہ اور تھے۔ ان میں حیرت تھی ، کہ نامعلوم اللہ کیسے زندہ فرمائے گا ، تو اللہ نے سو سال انہیں ایک ایسی کیفیت میں رکھا کہ نہ زندہ تھے اور نہ مردوں میں اور تب اس کیفیت کا مشاہدہ ہوا۔ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دوسرے انداز میں عرض کیا کہ اللہ ! جس طرح تو مردوں کو زندہ فرمائے گا مجھے دکھادے۔ تو فوراً مشاہدہ کرایا گیا۔ لہٰذا عرض حال کے لئے بہت زیادہ احتیاط وادب کی ضرورت ہے۔ فرمایا ، چار پرندے لے لیں اور انہیں اپنے ساتھ خوب ہلالیں کہ ایک تو ان کی پہچان اچھی طرح سے ہوجائے دوسرے آپ سے مانوس ہو کر آپ کی آواز پر لبیک کہیں۔ یہاں بھی اسباب کو درمیان میں رکھا کہ مانوس ہوں تب ہی جاکر آواز پر حاضر ہوں اسی طرح نبی کی ذات سے انس پیدا نہ ہو تو ایمان نصیب نہیں ہوتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ذاتی طور پر نبی کا دشمن ہو اور پھر مسلمان بھی رہے حتیٰ کہ ذات نبی سے دشمنی خواہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں سے دشمنی کی صورت میں ہو یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابعداروں سے دشمنی کی صورت میں ہو اس کا حامل کافر ہوجاتا ہے۔ یہی حال اخذ فیض کے لئے شیخ کی ذات کا ہے جب تک ذات سے انس نہ ہوگا فیض حاصل نہ ہوگا۔ اولیاء اللہ سے دشمنی کفر نہیں ہے کہ ان کا ماننا نہ تو فرض ہے اور نہ کسی ولی کی بالیقین ولی کہا جاسکتا ہے ۔ مگر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ تعالیٰ کا ارشاد بڑا درست ہے کہ اولیاء اللہ سے دشمنی کفر تو نہیں مگر ایسے لوگ مرتے عموماً کفر پر ہی ہیں۔ جب پرندے آپ کے ساتھ ہل جائیں تو انہیں ذبح کریں اور سب کو ملا کر کوٹ لیں۔ پھر ان اجزائے ابدان کو مختلف پہاڑوں پر پھینک دیں ، اور اس کے بعد ان کو اپنی طرف بلائیں اور دیکھیں کہ دوڑے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوں گے حضرت نے ایسا ہی کیا اور روایت ہے کہ سر اپنے پاس رکھتے ہوئے تھے جس پرندے کو آواز دیتے اس کے قطرہ ہائے خون خواہ پتھروں پہ گرے تھے یا زمین میں جذب تھے یا دوسرے پرندوں کے خون میں مل گئے تھے جدا ہو ہو کر آنے لگے۔ ایسے ہی گوشت پوست ، ہڈیوں اور پروں کے ٹکڑے آ آ کر اپنے اپنے اجزاء کے ساتھ مل کروجود بن گئے اور پھر سروں کے ساتھ جڑ کر زندہ پرندے ، اور ارشاد ہوا کہ اچھی طرح جان لیں کہ اللہ زبردست ہے ، جیسے چاہے کرسکتا ہے مگر بہت بڑا حکیم ہے اور اپنی حکمت سے ہر کام کا وقت مقرر فرمادیا ہے۔ ویسے انسان اپنے پیدا ہونے سے قبل اپنے وجود کے اجزاء کو دیکھے تو دنیا میں اس قدر منتشرنظر آتے ہیں کہ بعد مرگ اتنا پھیلنا محال دکھائی دیتا ہے ، یہ اغذیہ ، یہ ادویہ جو کچھ بھی ہم کھاتے ہیں سب مٹی ہے ، پانی ہے ، آگ اور ہوا ہے اسی کے مختلف روپ ہیں۔ کہیں غلہ ، کہیں چاول ، کہیں گنا اور کھانڈ ، کہیں مرچ اور مصالحہ ، کسی جگہ سبز چارے کی شکل میں ہے تو کہیں بھوسہ بن رہی ہے جسے جانور کھاتے ہیں۔ پھر دودھ یا مکھن کی صورت میں انسان کو نصیب ہوتی ہے۔ اس تمام عمل میں اتفاقات کا دخل نہیں بلکہ عنداللہ جو ذرہ خاک جس جسم کے لئے مقدر ہے اسی کی طرف مائل بہ پرواز ہے۔ حتیٰ کہ انسان اپنے حصے کے اجزا اپنے وجود پر چڑھا لیتا ہے مگر اولاد کے حصہ کے اجزا اس کے صلب میں محفوظ ہوجاتے ہیں جو اس کے بدن کی تعمیر پر صرف ہوتے ہیں جس کا وہ حصہ ہوتے ہیں اسی طر ح ماں غذا کھاتی ہے گر وجود کے اندر حل ہونے کے بعد بھی تقسیم ہوجاتی ہے اور بچے کا حصہ اس کا جزوبدن نہیں بنتا بلکہ اس بدن تک پہنچتا ہے جس کا حصہ اسے اللہ نے مقرر فرمادیا ہے۔ آخرت کی تعمیر اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ، اور وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ کسی بدن کے اجزاء کہیں پہنچ جائیں تو انہیں ثواب یا عذاب پہنچتا رہے خواہ کسی دوسرے بدن کا حصہ ہی کیوں نہ بن چکے ہوں۔ اس عالم میں مکلف بالذات بدن ہے لیکن ہر لذت وہر الم اپنا اثرروح پر بھی چھوڑتا ہے اسی طرح برزخ میں مکلف بالذات روح ہے مگر اسے پہنچنے والی لذت یا دکھ کا اثر ہر اس ذرے پر بھی وارد ہوتا ہے جو اس کے اجزائے بدن سے ہو اور میدان حشر میں ، اور اس کے بعد دونوں برابر برابر شریک ہوں گے۔ کفار کا اللہ کی اطاعت سے منحرف ہونااسی سبب سے ہے کہ وہ حیات بعد الموت کا ناممکن سمجھتے ہیں جس کا اثبات ان تین واقعات میں ارشاد فرما کر اب ان لوگوں کی تمثیل ارشاد ہوتی ہے جو اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں جو ایماندار ہیں حیات بعدالموت پہ یقین رکھتے ہیں اور اپنی بہترین کوششوں کو اس کے لئے وقف کردیتے ہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 258 حاج (جو جھگڑا) ۔ اتہ اللہ (اس کو اللہ نے دیا تھا) ۔ الملک (سلطنت، حکومت) ۔ یحییٰ (زندہ کرتا ہے) ۔ یمیت (مارتا ہے) ۔ انا احی (میں زندہ کرتا ہوں) ۔ امیت (میں موت دیتا ہوں) ۔ یاتی (لاتا ہے وہ۔ وہ آتا ہے) ۔ الشمس (سورج) ۔ بھت (حیران رہ گیا) تشریح : آیت نمبر 258 نمرود عراق کا بادشاہ تھا جس کی بڑی وسیع سلطنت تھی مگر اقتدار کا نشہ کچھ ایسی بری چیز ہے کہ وہ انسان کو اللہ سے غافل کردیتا ہے، نمرود نے اسی اقتدار کے نشہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ ابراہیم تم کس رب کی بات کرتے ہو ؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا میرا رب وہ ہے جس کے ہاتھ میں زندگی ہے اور موت بھی ہے۔ جسے چاہتا ہے وہ زندگی دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کا سلسلہ حیات منقطع کردیتا ہے نمرود کہنے لگا اے ابراہیم یہ تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ اس نے دو قیدیوں کو بلوایا ایک وہ تھا جس کے قتل کا حکم دیا جا چکا تھا۔ دوسرا وہ جس کی رہائی کا حکم ہوچکا تھا۔ نمرود نے بےگناہ کو قتل کرا دیا اور جس کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا اس کو رہا کردیا اور کہنے لگا یہ زندگی اور موت تو میں بھی دے سکتا ہوں۔ ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ یہ بےعقل انسان ہے اس کو سمجھانے کے لئے دوسرا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اچھا میرا پروردگار وہ ہے جو روزانہ مشرق سے سورج نکالتا ہے تو ایک دن مغرب سے سورج نکال دے۔ یہ سن کر نمرود لا جواب ہوگیا۔ یہ واقعہ جہاد کے سلسلہ میں اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ ہر مسلمان اس بات اچھی طرح ذہن نشین کرلے کہ زندگی اور موت کے سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا زندگی کی بےجا فکر اور موت کا خوف ایک مومن کو اپنے دل سے نکال دینا چاہئے۔ اس کے بعد کی آیات میں دو واقعات بھی بیان کئے جا رہے ہیں جو اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں جن میں موت وحیات کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام :ٰ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ روح کو نور ایمان سے زندہ کرتا ہے اسی طرح وہ مردہ جسم کو دوبارہ زندگی عطا کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کو لوگوں کو زندہ فرمائے گا جس کی امثال پیش کی جارہی ہیں۔ ایک دنیا پرست اور کوتاہ نظر انسان کی عادت ہوتی ہے کہ جونہی اسے کوئی نعمت و افر مقدار میں میسر ہو تو اس کی فطرت بغاوت پر اتر آتی ہے۔ جن نعمتوں کے ملنے کے بعد آدمی بہت جلد غرور اور تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے ان نعمتوں میں اقتدار اور اختیار ایسی چیز ہے جب اس کا نشہ دماغ پر غالب آتا ہے تو آدمی اپنے محسنوں کو بھول ہی نہیں جاتا بلکہ بسا اوقات ان کی جان کا دشمن بن جاتا ہے۔ خیر خواہی کرنے والوں کو مخالف اور چاپلوسی کرنے والوں کو خیر خواہ سمجھتا ہے۔ ایسے شخص کے پاس زیادہ عرصہ اقتدار رہے تو وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ سب کچھ میری ذاتی صلاحیتوں اور کارکردگی کا نتیجہ ہے بالآخر وہ عملاً اپنے آپ کو خدائی مقام پر فائز سمجھتا ہے۔ نمرود جب اس خمار میں مبتلا ہوا تو اس نے اپنے آپ کو زمین پر خدائی اوتار کے طور پر متعارف کروایا۔ اس قسم کے حکمرانوں کی بنیادی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ہر قانون ان کے تابع ہو اور دین کا دنیاوی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس کو آج کل کی زبان میں یوں کہا جاتا ہے کہ سیاست اور دین دو متضاد چیزیں ہیں۔ دین کا ریاست اور سیاست کے معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کے بقول دین ملک کی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود سے واسطہ پڑا جو کہ نبوت کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) عوام الناس کو تبلیغ کیا کرتے تھے اور کسی حکمران کے ساتھ دین کے حوالے سے بالمشافہ گفتگو کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ جونہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے اللہ تعالیٰ کی توحید پیش فرمائی تو اس نے اپنے سیاسی تحفظات کی بنا پر رب کائنات کی ہستی کا انکار کیا اور پھر اپنے مؤقف کے بارے میں باطل اور فرسودہ دلائل دینے لگا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سمجھایا کہ میں اس خالق حقیقی کی بات کر رہا ہوں جو موت وحیات کا مالک ہے۔ اللہ کا باغی کہنے لگا یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ میں چاہوں تو جلاد کو حکم دوں کہ فلاں آدمی کو قتل کردیا جائے۔ جب جلاّد تلوار اٹھائے تو میں اسے ایسا کرنے سے روک دوں لہٰذا مارنا اور زندہ کرنا کونسا مشکل کام ہے۔ اکثر مفسّرین نے لکھا ہے کہ اس نے موت کی سزاپانے والے قیدی کو رہا کردیا اور رہا ہونے والے کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کا تکبر اور ہٹ دھرمی دیکھ کر اپنی دلیل کی لطافت سمجھانے اور اس کے ساتھ الجھنے کے بجائے یک دم فرمایا میں اس رب کی بات کر رہا ہوں جو سورج کو مشرق سے طلوع کر کے مغرب میں غروب کرتا ہے اگر تو اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے تو سورج کو مغرب سے طلوع کر۔ یہ ایسی اچانک، واضح اور ٹھوس دلیل تھی جس کا وہ جواب نہ دے سکا۔ یہاں بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اگر وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہتا کہ تیرا رب سورج کو مغرب سے طلوع کرکے دکھائے تو اللہ تعالیٰ اس کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تائید میں ایسا کردیتے لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے دلیل کی تاب نہ لاکر نمرود اس قدر بوکھلا چکا تھا کہ اس کے حواس ٹھکانے نہ رہے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بات کرنے کا سلیقہ معجزہ کے طور پر عطا ہوا تھا۔[ الشعراء : ٨٣] جب وہ اپنے مخالفوں سے بات کرتے تو لوگ ان کے سامنے دم بخود رہ جاتے تھے۔ چناچہ نمرود کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ یہی سچے دین کی خوبی ہے کہ وہ ہر دور میں علمی برتری اور ٹھوس دلائل کے حوالے سے باطل نظریات پر غالب رہا ہے اور ہمیشہ بالادست رہے گا۔ جو لوگ حقائق کے سامنے لاجواب ہو کر بھی حق قبول نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا کیونکہ ہدایت کے لیے عاجزی اور سچی طلب ضروری ہوا کرتی ہے۔ مسائل ١۔ موت وحیات کا صرف اللہ ہی مالک ہے۔ ٢۔ شمس و قمر سمیت اللہ کے نظام میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ ٣۔ اللہ کے منکروں کو بالآخر پریشانی اٹھاناپڑتی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی موت وحیات کا مالک ہے : ١۔ اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٦) ٢۔ اللہ ہی موت وحیات کا خالق ہے۔ (الملک : ٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کرتا ہے۔ (آل عمران : ٢٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ مارنے کے بعد زندہ کرے گا۔ (البقرۃ : ٧٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس ١٨ ایک نظر میں یہ تین آیات ہیں اور ان کا موضوع ایک ہے یعنی زندگی اور موت کی حقیقت کیا ہے ؟ اور موت کے بعد زندگی کا راز کیا ہے ؟ حیات بعد الممات اسلامی نظریات کا ایک اہم پہلو ہے ۔ جس پر قرآن مجید میں بحث کی گئی ہے ۔ اور اس پارہ کے آغاز ہی سے جابجا اس پر بحث کی گئی ہے ۔ نیز ان آیات کا ان صفات الٰہی کے ساتھ بھی براہ راست تعلق ہے جو آیت الکرسی میں بیان کی گئی ہیں ۔ اور ان سب آیات سے قرآن کریم کی اس واضح جدوجہد کا اظہار ہوتا ہے ، جو قرآن مجید ، ایک مسلمان کے شعور وادراک میں ، ایک صحیح اسلامی تصور حیات کے پیدا کرنے کے لئے آرہا ہے ۔ اور انسانی زندگی کے بصیرت افروز جائزے کی خاطر اس بات کی ضرورت ہے کہ ذہن انسانی میں اس کا صاف ستھرا تصور موجود ہو ، جو اس کائنات کے حقیقی مشاہدے پر مبنی ہو ۔ اور جو مضبوط اور دل نشین اعتقاد پر مبنی ہو۔ اس لئے کہ انسان کے پورے نظام زندگی ، انسان کے مکمل طرز عمل اور اس کے تمام اخلاق وآداب کے قواعد و ضوابط کا ایک گہرا تعلق اگر اس عقائد ونظریات اور اس کے مکمل تصور کائنات کے ساتھ نہ ہو تو وہ نظام زندگی نہ تو مضبوط ومستحکم ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ایک مستقل معیار ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے تطہیر افکار اور عقائد و تصورات کی توضیح اور پختگی پر بڑا زو دیا ہے اور قرآن کریم کا مکی دور زیدہ تر اسی پر مشتمل ہے ۔ اور یہی رنگ مدنی دور کی آیات میں بھی نظر آتا ہے ۔ جہاں تفصیلی ہدایات اور قانون سازی بھی ہورہی ہے ۔ ان میں سے پہلی آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے دور کے بادشاہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کو نقل کیا گیا ہے ۔ یہاں بادشاہ کا نام نہیں دیا گیا ، اس لئے کہ یہاں اس کے نام کے ذکر سے اصل بات میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا ۔ یہاں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جماعت مسلمہ کے سامنے استعجاب کے ساتھ اس گفتگو کو پیش کیا جاتا ہے کہ اس شخص نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ رب کائنات کے بارے میں یہ مناظرہ کیا اور کس قدر احمقانہ موقف اختیار کیا ۔ اس نے اور قرآن کریم نے اپنے خاص بلیغانہ انداز میں اس مباحثے کو نقل کیا ہے ۔ یہ شخص جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ یہ مباحثہ کیا وہ وجود باری کا منکر نہ تھا۔ وہ اگر منکر تھا تو اللہ کی وحدانیت اور ربوبیت کا منکر تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کو اس کائنات میں واحد متصرف اور واحد مدبر ماننے کے لئے تیار نہ تھا۔ اسی طرح جس طرح جاہلیت کے گمراہ لوگوں میں سے بعض ایسے تھے جو وجود باری کے معترف تھے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بعض دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے ۔ بعض افعال واقعات کو ان شریکوں کی طرف منسوب کرتے تھے ۔ اسی طرح یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی صفت حاکمیت کے بھی منکر تھے ۔ اسلامی تصور کائنات کے مطابق جس طرح اس کائنات کے تکوینی امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اسی طرح یہاں قانون سازی اور اجتماعی امور کے فیصلے کا اختیار بھی اللہ کے پاس ہے اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ یہ منکر حق بادشاہ بہت ہی ہٹ دھرم تھا اور یہ اس سبب کی وجہ سے منکر حق تھا کہ اسے اللہ نے حکومت دی رکھی تھی۔ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ................ حالانکہ اس سبب کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اس کی وجہ سے پکا مومن ہوتا اور شکر گزار ہوتا اور اللہ کے احسانات کا معترف ہوتا لیکن اس نے اس قتدار اور بادشاہت کی وجہ سے کفر و طغیان کا راستہ اختیار کیا ۔ اور اللہ کے اس انعام کی ناقدری کی اور اس انعام واکرام کی اصل حقیقت اور اس کے حقیقی تصور کو نہ پاسکا ۔ شکر کی جگہ اس نے کفر کی روش اختیار کی ۔ اور جو بات ان کی ہدایت کا سبب ہونا چاہئے تھی ، اس کی وجہ سے وہ گمراہ ہوگئے ۔ وہ حاکم اس لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاکم بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاکم اس لئے نہیں بنایا کہ وہ عوام کو خود اپنا بندہ بنالیں ۔ اور خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کی پیروی کرائیں۔ وہ تو خود اللہ کے بندے ہیں جس طرح دوسرے لوگ اللہ کے بندے ہیں ۔ وہ بھی ان کی طرح اللہ سے شریعت پانے والے ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرکے نہ حاکم رہتے ہیں اور نہ کوئی قانون بناسکتے ہیں ۔ یہ حکام تو خلفاء ہیں اصل حاکم نہیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ بادشاہ نبی وقت کے ساتھ مباحثہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ طرز عمل عجیب نظر آتا ہے ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ................ ” کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑا کیا تھا۔ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیم کا رب کون ہے ؟ اس بناپر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی ۔ “ کیا تو نے نہیں دیکھا ! یہ قابل مذمت رویے اور حقارت آمیز طرز عمل پر استعجاب کا اظہار ہے ۔ انکار اور استنکار اپنے لفظی اور معنوی ہم آہنگی کی وجہ سے ایک ساتھ چلتے ہیں ۔ اس بادشاہ کی یہ حرکت فی الحقیقت ناپسندیدہ ہے ۔ اس لئے کہ انعام واکرام پانے کے سبب اگر کوئی جدل وجدال شروع کردے تو یقیناً قابل مذمت ہوتا ہے۔ نیز یہ بات بھی قابل مذمت ہے کہ کوئی رب کائنات کی صفات اپنے لئے مخصوص کرے ۔ اور کوئی حاکم اپنی خواہشات نفس کے مطابق عوام الناس پر حکمرانی کرے اور تقنین وتشریح کے کام میں اللہ سے ہدایت نہ لے ۔ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ................ ” جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے ۔ “ زندگی اور موت ایسے واقعات ہیں جن کا اعادہ ہر لحظہ ہوتا رہتا ہے ، یہ حقائق ہر وقت انسانی احساس اور انسانی عقل کے سامنے آتے رہتے ہیں لیکن باوجود اس تکرار اور کثرت وقوع کے زندگی اور موت ایک حیرت انگیز راز ہیں ۔ اس سربستہ راز کے حل کے لئے عقل انسانی ایک ایسے سرچشمے کی طرف رجوع کرتی ہے جو بشریت سے وراء ہے ۔ اور ایک ایسے مرجع اور مصدر کی رجوع جس کا اس مخلوقات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ لہٰذا اس ناقابل حل پہیلی کے صحیح حل کے لئے ضروری ہے کہ انسان ذات باری کی طرف رجوع کرے جو پیدا کرنے پر بھی قادر ہے اور فنا کرنے پر بھی قادر ہے ۔ آج تک ہم موت وحیات کی حقیقت نہیں پاسکے ۔ البتہ زندوں میں ہم زندگی کے آثار سمجھ لیتے ہیں اور مردوں سے ہم موت کی خصوصیات جان لیتے ہیں ۔ اس لئے ہم مجبور ہیں کہ موت وحیات کی حقیقت اس حقیقی قوت کے حوالے کردیں جو ان تمام قوتوں سے وراء ہے جن کو ہم جانتے ہیں یعنی قوت الٰہیہ ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی ایک ایسی صفت بیان کی جس میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے ۔ نہ کسی کو یہ زعم ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں شریک کار ہوسکتا ہے ۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) سے اس بادشاہ نے پوچھا کہ تمہارا رب کون ہے جو تمہارے لئے قانون بناتا ہے ، ، جس کے پاس اقتدار اعلیٰ ہے اور جسے قانون سازی کے پورے اختیارات حاصل ہیں ؟ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میرا رب وہ ہے جس کے ہاتھ میں موت وحیات ہے ۔ لہٰذا وہی ہے جو حاکم اور قانون ساز ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) موت وحیات کی حقیقت سے خوب واقف تھے ۔ اور موت اور زندگی سے ان کی مراد یہ تھی کہ اللہ ان حقائق کا خالق ہے ۔ اس لئے کہ وہ رسول تھے اور انہیں وہ لدنی اسرار و رموز عطاکئے گئے تھے جن کے بارے میں ہم نے حصہ اول میں بحث کی ہے ۔ اور موت وحیات کی تخلیق ایک ایسا عمل ہے جس میں اللہ کے ساتھ اس کے بندوں میں سے کوئی شریک نہیں ہے لیکن جو بادشاہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ مباحثہ کررہا تھا وہ یہ سمجھتا تھا کہ وہ اپنی قوم کا حاکم مختار ہے۔ اس کی قوم پر اس کے پورے احکام نافذ ہوتے ہیں ۔ وہ سزائے موت بھی دے سکتا ہے اور معاف بھی کرسکتا ہے ۔ تو گویا یہ بھی ایک قسم کی ربوبیت ہے ۔ اس لئے اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا :” میں اس قوم کا سردار ہوں ۔ ان کے معاملات میرے ہاتھ میں ہیں ۔ اس لئے میں ہی ایک قسم کا رب ہوں۔ جس کے سامنے تمہیں بھی جھکنا چاہئے اور مری حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرنا چاہئے ۔ “ چناچہ اس نے کہا أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ................” زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے ۔ “ اس موقعہ پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ وہ اس کے ساتھ حقیقت موت وحیات کے موضوع پر تفصیلی بات چیت شروع کردیں ۔ خصوصاً ایسے شخص کے ساتھ جو حقیقت موت وحیات میں بذات خوداشتباہ میں تھا اور ڈانواں ڈول تھا ۔ جو ہمیشہ ایک مشکل مسئلہ رہی ہے ۔ یعنی یہ مشیئت کہ اللہ تعالیٰ انسان کو کس طرح زندگی عطا کرتے ہیں اور کس طرح اس پر موت طاری کردیتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا راز ہے جس تک پوری انسانیت کی رسائی آج تک نہیں ہوسکی ہے ۔ اس لئے اس مقام پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مناسب سمجھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس مشکل تکوینی حقیقت سے ذرا ہٹ کر ایسی ظاہری سنت کا سہارالیں جو ہر وقت اس شخص کے مشاہدے میں آتی رہتی ہے ۔ پہلے تو آپ نے صرف تکوینی سنت الٰہیہ کو پیش کیا کہ اللہ وہ ہے جو زندگی اور موت عطا کرتا ہے ۔ اب انہوں نے اپنے مخالف کے لئے ظاہری چیلنج کا راستہ اختیار کیا کہ تم اللہ کی قدرت کے بارے میں جھگڑتے ہو تو اللہ کی سنن میں سے کسی سنت کو تبدیل کرکے دیکھ لو ۔ اور یہ چیلنج انہوں نے یہ دکھانے کے لئے دیا کہ رب وہ نہیں ہوتا جو انسانی زندگی کے کسی ایک شعبے میں حاکم ہو یا کسی ایک خطے میں حاکم ہو وہ تو اس پوری کائنات میں متصرف ہوتا ہے اور اس کی عمومی ربوبیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ تمام لوگوں کے لئے قانون ساز بھی ہو اس لئے کہ وہ ان کا رب ہے ۔ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ................ ” ابراہیم نے کہا :” اچھا اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، تو ذرا اسے مغرب سے نکال لا۔ “ یہ بھی ایک مسلسل وقوع پذیر ہونے والی کائناتی حقیقت ہے ۔ ہماری نظر روز یہ نظارہ دیکھتی ہے اور ہماری قوت مدرکہ روز اسے پاتی ہے اور کبھی بھی اس نظام میں کوئی تعطل یا تاخیر واقعہ نہیں ہوتی ۔ یہ کائنات ایک شہادت ہے جو ہماری فطرت کو اپیل کرتی ہے ۔ اگرچہ ہم اس کائنات کی طبیعت اور مزاج کو اچھی طرح نہ سمجھ پا رہے ہوں ۔ اگرچہ ہم نے فلکیات کے بارے میں مختلف نظریات کا علم حاصل نہ کیا ہو ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جس قدر انبیاء مبعوث فرمائے ہیں انہوں نے ہمیشہ انسانی فطرت کو مخاطب کیا ہے ۔ چاہے فطرت انسانی اپنی علمی اور عقلی ترقی کے تاریخی مراحل میں سے جس مرحلے میں بھی ہو اور فطرت انسانی نے اجتماعی لحاظ سے ترقی کے جو مدارج بھی طے کئے ہوں انبیاء نے فطرت انسانی کا ہاتھ پکڑا ہے ۔ اور اسے ترقی کے اگلے مدارج تک پہنچایا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بادشاہ کو چیلنج دیا اور جو مطالعہ فطرت پر مبنی تھا وہ لاجواب تھا ۔ اور نتیجہ یہ نکلا فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ................ ” تو وہ منکر حق ششدر رہ گیا۔ “ یہ چیلنج اس منکر حق کے سامنے کھڑا تھا ۔ بات بالکل واضح تھی ، کسی غلط فہمی کی کوئی گنجائش نہ تھی ۔ مناسب رویہ تو یہ تھا کہ وہ سیدھی طرح ایمان لے آتا اور سر تسلیم خم کردیتا لیکن جو شخص کافرانہ رویہ اختیار کرلیتا ہے اور پھر متکبر بھی ہوتا ہے ۔ یہ صفات اسے رجوع الی الحق سے روک لیتی ہیں اور وہ حیران رہ جاتا ہے ، پریشان ہوتا ہے اور متحیر ہوجاتا ہے ۔ اسے نہیں سوجھتا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے ۔ لیکن اسے اللہ تعالیٰ راہ حق اس لئے نہیں سجھاتے کہ وہ ہدایت کا متلاشی ہی نہیں ہوتا ۔ اسے راہ حق کی طرف آنے کا شوق نہیں ہوتا ۔ وہ سیدھی راہ نہیں پکڑتا تاکہ منزل مقصود پائے ۔ اس لئے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ................ ” مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔ “ اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی پہلی جماعت ، جماعت مسلمہ کے سامنے ، بغض عناد اور ضلالت اور ہٹ دھرمی کی مثال کے طور پر پیش فرمایا۔ نیز ان لوگوں کے لئے بھی جو دور جدید میں دعوت اسلامی کا کام کرتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی تجربہ کے طور پر قرآن مجید میں درج کردیا گیا کہ اہل دعوت منکرین حق کا مقابلہ کس طرح کریں۔ سیاق کلام ایسے حقائق کو لے کے آگے بڑھتا جو ایمان ویقین کے ساتھ ایک واضح تصور کے عناصر ترکیبی ہیں ۔” میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں موت وحیات ہے۔ “ اور ” اللہ تو سورج کو مشرق سے نکال کر لاتے ہیں ، تم ذرا اسے مغرب سے نکال کر دکھاؤ۔ “ ایک حقیقت ایسی ہے جو نفوس انسانی میں پائی جاتی ہے ۔ دوسری حقیقت ایسی ہے جو آفاق کائنات میں عیاں ہے ۔ دونوں عظیم تکوینی حقیقتیں ہیں لیکن اپنی عظمت کے ساتھ ساتھ پیش پا افتادہ ہیں ۔ روز کے مشاہدے میں ہیں ۔ رات دن فکر ونظر کی آماجگاہ ہیں اور ان حقائق کے پانے کے لئے کسی بڑی علمی استعداد کی ضرورت نہیں ہے ۔ اور نہ کسی طویل غور وفکر کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحیم و کریم ہے ۔ وہ اللہ پر ایمان لانے اور اللہ کی جانب ہدایت پانے کے مسئلے پر اس قسم کی علمی اور منطقی بحث نہیں کرتا کہ جو کم علم آدمی کی دسترس سے باہر ہو یا ایسے لوگوں کی استعداد فکری کے دائرے سے باہر ہو جو غوروفکر کے معاملے میں طفل مکتب ہوں۔ یہ ایک زندہ اور اہم معاملہ ہے ۔ انسانی فطرت کے لئے وہ لابدی ہے ۔ اس کے بغیر انسانی زندگی استوار ہوسکتی ہے نہ انسانی معاشرہ اس کے بغیر منظم ہوسکتا ہے ۔ اس کے بغیر انسان یہ پہچان حاصل نہیں کرسکتے کہ ان کے اجتماعی نظام اور اعلیٰ اقتدار اور آداب کا ماخذ کیا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ایمان کے مسئلہ میں انسان کے ساتھ ایسے حقائق کو پیش نظر رکھ کر بات کرتا ہے ، جو سب کے سامنے ہوتے ہیں اور جن کا تعلق فطرت انسانی سے ہوتا ہے۔ اور وہ حقائق ایسے ہوتے ہیں جو ہر فطرت سلیمہ سے اپنے آپ کو خود تسلیم کراتے ہیں ۔ ان حقائق اور مشاہدات کے اشارات اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ ان کی گرفت سے انسان بمشکل نکل سکتا ہے ۔ اور ان سے دامن چھڑانے کے لئے اسے انتہائی محنت ، مشقت ، کبر و غرور اور عناد ومکابرہ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اعتقادات اور ایمانیات کے علاوہ بھی انسانی زندگی کے وہ معاملات جن پر حیات انسانی مکمل طور پر موقوف ہے ، ان میں بھی انسان راہ فطرت اپناتا ہے اور اشارات فطرت کے دائرے میں رہتا ہے ۔ مثلاً تلاش معاش ، ہوا ، پانی ، تناسل وتکاثر وغیرہ ان اہم معاملات میں بھی انسان کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا گیا ۔ یہاں تک کہ اس کی سوچ مکمل اور پختہ ہوگئی ۔ اس کا علم ترقی کر گیا اور پختہ ہوگیا۔ اگر اسے یونہی چھوڑ دیا جاتا تو وہ کب کا ہلاک وبرباد ہوگیا ہوتا۔ ایمان انسان کے لئے اسی قدر اہم اور ضروری ہے جس قدر اس کی زندگی کے لئے کھانا ، پینا اور ہوا ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان موضوعات پر اللہ تعالیٰ فطرت انسانی کے تقاضوں کے مطابق بات کرتا ہے اور ایسے آثار و شواہد پیش کرتا ہے جو انسان کے اردگرد صفحہ کائنات پر پھیلے ہوئے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ایک کافر بادشاہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مباحثہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پیدائشی وطن شہر بابل کے آس پاس تھا ان کے زمانہ کا بادشاہ نمرود تھا جو اس علاقہ پر حکمران تھا۔ دنیا میں کفر و شرک پھیلا ہو تھا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ بھی بت پرست تھا جس کا تذکرہ سورة الانعام (ع ٨) اور سورة مریم (ع ٣) میں فرمایا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب توحید کی دعوت دی اور پوری قوم کو بتایا کہ تم گمراہی پر ہو تو سب کو برا لگا، نمرود بھی کافر تھا نہ صرف کافر تھا بلکہ داعی کفر تھا اور اپنے آپ کو معبود بتاتا تھا، جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے توحید کی دعوت دی تو وہ کٹ حجتی کرنے لگا اور کہنے لگا کہ میرے خیال میں تو میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ملک اور مال دیا تھا اسی لیے اس کے گھمنڈ میں اس نے ایسی بات کہی، اور حضرت ابراہیم نبیناو (علیہ السلام) سے دلیل مانگی کہ آپ جس رب کی توحید کی دعوت دیتے ہیں اس کے وجود پر کیا دلیل ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا (رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ ) کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ فرماتا ہے۔ اور موت دیتا ہے۔ درحقیقت یہ بہت بڑی دلیل تھی۔ جتنے بھی خدائی کے دعوے دار ہوتے ہیں اور جتنے ان کے ماننے والے ہیں سب کو معلوم ہے کہ زندہ کرنے اور موت دینے کا کام ان میں سے کسی کے بس کا بھی نہیں ہے لا محالہ کوئی ذات ہے جس کے تصرف میں ساری مخلوق ہے اور جلانا اور موت دینا اسی کا کام ہے۔ جو خدائی کے دعوے دار ہوئے وہ اپنی جان کو تو بچا ہی نہیں سکے وہ کسی دوسرے کو کیا زندہ کرتے، ایسی واضح موٹی بات نمرود نے یا تو بےعقل ہونے کی وجہ سے نہ سمجھی یا بطور کٹ حجتی کے یوں ہی بحث جاری رکھنے کے لیے اس نے جواب میں یوں کہہ دیا کہ (اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ ) کہ میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ اپنی بات کی دلیل کے لیے اس نے یہ کیا کہ دو آدمیوں کو بلایا جن کے قتل کا حکم ہوچکا تھا ان میں سے ایک کو قتل کر وا دیا، اور ایک کو چھوڑ دیا، اس کی جہالت کا جواب تو یہ تھا کہ تو یہ بتا کہ جسے تو نے قتل کیا ہے اس میں جان کس نے ڈالی تھی اور جسے تو نے چھوڑ دیا یہ موت کے بعد زندہ کرنا ہوا یا زندہ کو چھوڑ دینا ہوا لیکن سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کے عناد اور سفاہت و جہالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے خالق کائنات جل مجدہ کے وجود پر اور کائنات میں اس کے تصرفات پر دوسری دلیل دیدی اور فرمایا : (فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ ) کہ اللہ تعالیٰ روزانہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اگر معبود ہونے کا مدعی ہے تو سورج کو پچھم سے لا کر دکھا دے، میرے رب کے حکم سے روزانہ سورج پچھم کی جانب غروب ہوجاتا ہے تو اسی جانب سے اسے واپس کر دے یہ سنتے ہی خدائی کا دعویٰ دار نمرود مبہوت اور حیران رہ گیا اور بالکل ہی گونگا بن گیا، آگے ایک کلمہ بھی نہ بول سکا۔ پھر فرمایا : (وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ) کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کی رہبری نہیں فرماتا وہ کسی نبی یا نبی کے نائبین کے سامنے حجت اور دلیل سے نہیں جیت سکتے۔ سورۃ شوریٰ میں فرمایا : (وَالَّذِیْنَ یُحَاجُّوْنَ فِی اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مَا اسْتُجِیْبَ لَہٗ حُجَّتُہُمْ دَاحِضَۃٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ وَّلَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ) (اور جو لوگ جھگڑتے ہیں اللہ کے بارے میں اس کے بعد کہ اس کا معبود ہونا تسلیم کرلیا گیا ہے (یعنی اصحاب علم و فہم اس پر ایمان لا چکے ہیں) ان لوگوں کی حجت ان کے رب کے نزدیک باطل ہے، اور ان پر غضب ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے۔ ) بعض علماء تفسیر نے فرمایا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا رب سورج مشرق سے لاتا ہے تو مغرب سے لا کر دکھا دے تو وہ کہہ سکتا تھا کہ میں مشرق سے لاتا ہوں تو اپنے رب سے کہہ کہ وہ مغرب سے لائے لیکن وہ ابراہیم کے جواب سے ایسا مبہوت و متحیر ہوچکا تھا کہ اس کی سمجھ میں اور کچھ نہ آیا۔ اہل حق کے مقابلہ میں اہل باطل دلیل کے ساتھ چل ہی نہیں سکتے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو مغرب سے نکال کرلے آ، اس کی وجہ سے اس کو یہ یقین ہوگیا کہ واقعی اس پوری دنیا کا کوئی خالق ومالک متصرف ضرور ہے اور یہ شخص جو برملا مجھ سے سوال و جواب کر رہا ہے ضرور اسی ذات پاک کا پیغمبر ہے جو ہر چیز کا خالق ومالک ہے اور جس کے تصرف میں ساری مخلوق ہے اور اس کی یہ دلیل بہت زیادہ وزن دار ہے اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں مشرق سے سورج لاتا ہوں تو اپنے رب سے کہہ کر مغرب سے لے آ، تو حاضرین میں سے کوئی اس کو نہیں مانے گا اور جو میرے ماننے والے ہیں وہ اس کی طرف ہوجائیں گے۔ تھوڑی سی جو جھوٹی سلطنت ہے وہ بھی جاتی رہے گی اس لیے اس نے دم بخود ہوجانا ہی مناسب جانا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

508 یہ پہلا واقعہ ہے جو دوسرے قاعدے پر متفرع ہے۔ اور اس پر بطور تمثیل ذکر کیا گیا ہے کہ ضدی اور معاند آدمی کو وضوع حق کے باوجود قبول حق کی توفیق نہیں ملتی۔ جیسا کہ نمرود کے سامنے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ٹھوس اور اطمینان بخش دلائل سے خدا کی توحید واضح کر کے اس پر حجت خداوندی قائم کردی۔ مگر اس کے باوجود اس نے اسے قبول نہ کیا کیونکہ وہ ضد وعناد کی وجہ سے قبول حق کی استعداد سے محروم ہوچکا تھا اور اپنے کو خدا کا اوتار سمجھتا تھا۔ ھذا الذی حاج ابراہیم فی ربہ وھو ملک بابل نمرود بن کنعان بن کوش بن سام بن نوح (ابن کثیر ص 313 ج 1، قرطبی ص 283 ج 3) ان سے پہلے لام تعلیلیہ محذوف ہے۔ یعنی خدا کے بارے میں اس کے جھگڑنے کا سبب یہ تھا کہ خدا نے اس کو حکومت دی، اقتدار بخشا اور وہ نشہ اقتدار سے مخمور ہو کر غرور کرنے لگا اور خدا شریک بن بیٹھا۔ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ یعنی ان ایتاء الملک ابطرہ واورثہ الکبر مخاج لذالک (مدارک ص 102 ج 1)509 اِذْ ظرف حاج کے متعلق ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول نمرود کے سوال کا جواب ہے۔ نمرود نے سوال کیا تھا کہ وہ رب کونسا ہے جس کی توحید کی تو دعوت دیتا ہے۔ قالہ اثر قول نمرود من ربک الذی تدعو الیہ (روح ص 16 ج 3) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں اللہ کی دو ایسی صفتوں کا ذکر کیا جو بالکل واضح تھیں اور جن کا روز مرہ کی زندگی میں نمرود بھی مشاہدہ کرتا تھا۔ یعنی زندہ کرنا، پیدا کرنا اور مارنا۔ موت وحیات خدا کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہتا ہے زندگی عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے زندگی سلب کرلیتا ہے۔ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَاُمِيْتُ ۔ اس ضدی ملعون نے ان کو قول کو غلط مفہوم میں لیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ جس کو زندگی دیتا یا جس سے زندگی چھینتا ہے۔ وہ ظاہری اسباب ہی کے ذریعے ایسا کرتا ہے اور اسطرح ظاہری اسباب کے ذریعے تو میں بھی ایسا کرسکتا ہوں۔ مثلاً جسے چاہوں معاف کردوں اور جسے چاہوں قتل کرا دوں۔ نمرود خوب جانتا تھا کہ موت وحیات اس کے قبضہ میں نہیں۔ مگر محض ضدوعناد اور ڈھٹائی کی بناء پر اس نے یہ جواب دیا۔ وانا اراد ان یدعی لنفسہ ھذا المقام عنادا ومکابرة (ابن کثیر ص 313 ج 1) ۔510 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ وہ ضد اور ڈھٹائی پر تلا ہوا ہے۔ اس لیے فوراً ایسی دلیل پیش کردی جس کے سامنے وہ بالکل بےبس ہوگیا اور اس کی ضد اور ڈھٹائی کی بھی پیش نہ چل سکی۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا ان کی پہلی دلیل اس سرکش پر کارگر نہیں ہوئی تو فوراً دوسری دلیل پیش فرما دی جس طرح طبیب حاذق جب دیکھتا ہے کہ مریض کو ایک نسخہ سے فائدہ نہیں ہوا تو اس کیلئے دوسرا نسخہ تجویز کردیتا ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ تعالیٰ تو سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے اگر تو خدا ہے تو اسے مغرب کی طرف سے نکال کر دکھادے۔ فَبُهِتَ الَّذِيْ كَفَرَ ۔ اس پر وہ کافر جھگڑالو حیرت زدہ ہوگیا اور اپنا سا منہ لیکر رہ گیا۔ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ۔ جو لوگ ضدوعناد کیوجہ سے حق قبول نہیں کرتے اور اپنے لیے عذاب جہنم کا سامان مہیا کرتے ہیں ایسے ظالموں کو خدا ہدایت قبول کرنے کی توفیق نہیں دیتا۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں یعنی جو لوگ ضد اور عناد کی وجہ سے توحید کی مخالفت کرتے ہیں اور اللہ کی طرف انابت نہیں کرتے ان کے دلوں پر مہر جباریت لگ جاتی ہے اور وہ کسی صورت میں راہ راست پر نہیں آسکتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے نبی کیا آپ کو اس نا سپاس شخص کا واقعہ معلوم نہیں ہوا اور آپ نے اس کا قصہ ملاحظہ نہیں فرمایا جس نے اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حکومت اور سلطنت عطا فرمائی تھی ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے رب کے بارے میں جھگڑا اور مجادلہ کیا تھا یہ جھگڑا اس وقت پیش آیا جبکہ وجود باری کے سلسلے میں اس کا سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا پروردگار ایسا ہے جو جلاتا اور مارتا ہے اس پر نہ ناسپاس شخص بولا بھی جلاتا اور مارتا ہو۔ یہ سن کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بیوقوف اور موٹی عقل کے انسان سے فرمایا اچھا اللہ تعالیٰ آفتاب کو روزہ مشرق سے نکالا کرتا ہے تو کسی دن مغرب سے نکال کرلے آ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ بات سن کر وہ کافر وناسپاس مبہوت و متحیر رہ گیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ وہ ایسے ناانصاف اور بےجا روش اختیار کرنے والوں کی کسی طرح رہنمائی نہیں فرماتا۔ ( تیسیر) کہا جاتا ہے کہ یہ بادشاہ نمرود بن کنعان بن سام بن نوح تھا جس کی سلطنت بابل اور اطراف بابل میں پھیلی ہوئی تھی یہ بادشاہ بڑا متکبر تھا اور اپنی خدائی کا مدعی تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسی بادشاہ کے عہد میں مبعوث فرمایا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بت شکنی کے بعد یا کسی اور موقعہ پر اس بادشاہ سے م کاملہ ہوگیا کہتے ہیں انہوں نے اس کو سجدہ نہ کیا جب اس نے اعتراض کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو صرف اپنے رب ہی کو سجدہ کرتا ہوں ۔ اس پر گفتگو بڑھ گئی اس نالائق نے اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ نے اسکو سلطنت عطا کی تھی بجائے شکر اور احسان ماننے کے معاندانہ روش اختیار کی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے حق تعالیٰ کے وجود کی دلیل طلب کی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا رب جلاتا اور مارتا ہے یعنی استدلال کا وہ طریقہ اختیار کیا جس کو خواص الشی علی وجو وہ کہتے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ اجسام و اجساد کو زندگی عطا کرنا اور ان کی حیات کو سلب کرنا میرے پروردگار کی صفات کے خواص میں سے ہے اور جب تابع ثابت ہے تو متبوع بھی ثابت ہے ، ورنہ لازم آئے گا کہ شی موجود نہ ہو اور اس کی صفت کے خواص موجود ہوجائیں نمرود نے اس استدلال پر ایک احمقانہ نقص وارد کردیا اور کہا میں بھی جلاتا اور مارتاہوں ، یعنی ان خواص کو اپنے لئے ثابت کیا اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ یہ بیوقوف جلانے اور مارنے کے معنی ہی نہیں سمجھاجلانے کے یہ معنی نہیں کہ کسی زندہ کو زندہ چھوڑ دے اور کسی زندہ کو قتل کر دے اور اس کی جان نکل جائے جیسا کہ اس احمق نے یہ فعل کر کے بھی دکھایا کہ دو شخصوں کو بلایا ایک واجب القتل کو معاف کردیا اور ایک بےگناہ کو قتل کردیا ، حالانکہ زندگی عطا کرنے اور مارنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بےجان کو جان عطا فرمائے اور کسی جاندار کی جان اپنے اختیار سے نکالے یہ نہیں کہ ا س کی گردن جدا کر دے اور وہ مرجائے اور گردن جدا کرنے کے بعد اس کو زندہ بھی رکھناچا ہے تو زندہ نہ رکھ سکے۔ غرض حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دیکھ کر جلانے اور مارنے کی حقیقت کو تو یہ سمجھ نہیں سکتا ایک اور جواب دیا کہ اچھا اللہ تعالیٰ آفتاب کو مشرق سے طلوع کرتا ہے تو اس کو مغرب سے نکال کر دکھا اس پر وہ کافر پھونچکا ہو کر رہ گیا ۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کے ظالموں اور نا انصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ، ہم نے اس موقع پر مختصر خلاصہ کردیا ہے ورنہ اس موقع پر مفسرین نے جو مباحث کئے ہیں وہ بہت طویل اور عجیب و غریب ہیں اگر کسی صاحب کو ان تمام مباحث کے ملاحظہ کرنے کا شوق ہو تو وہ تفسیر کبیر اور روح المعانی کا مطالعہ کریں۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے دلائل سیدھے سادھے اور عام موشگافیوں سے بالا تر ہوتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ ربی الذی یحییٰ ویمیت دلیل ہو جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ مثال ہو جیسا کہ بیضاوی نے اختیار کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نمرود اس امر کا مدعی ہو کہ میں وہ سب کچھ کرسکتا ہوں جو خدا کرسکتا ہے ۔ اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نقض کے طورپر یہ واجب دیا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نمرود خدا کا منکر نہ ہو بلکہ مشرک اور کواکب پرست ہو ، اگر یہ صورت ہو تو اب ساری بحث کا رخ دوسرا ہوگا ۔ اور یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ فلک الافلاک کی حرکت کو فاعل مختار سمجھتا ہو اور اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کے سامنے آفتاب کا ذکر ہو ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا استدلال سے منشا یہ ہو کہ کارخانہ حیات و ممات کا تمام نظم میرے پروردگار کے اختیار میں ہے ۔ احیا اور امانت صرف اسی کے قبضہ میں ہے اس بیوقوف نے استدلال کے صغری پر نقض پیش کردیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس نقض پر منع وارد کیا کہ اگر تو ایسا کرسکتا ہے تو اچھا ۔ آفتاب روز شام کو مرتا اور صبح کو زندہ ہوتا ہے ۔ آفتاب کے غروب کو مرنا اور طلوع کو زندہ ہونا محاور ہے۔ حدیث میں الشمس حیۃ آتا ہے لہٰذا دلیل سے عدول نہ ہوا بلکہ زندہ کرنے کا ایک اور مطالبہ پیش کردیا کہ اچھا اگر تیرا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ تو بھی احیا اور امانت کا مالک ہے تو آفتاب کو مرتے ہی زندہ کر دے جس وقت آفتاب مر رہاہو اور مغرب کے افق میں دفن ہو رہا ہو تو اسی وقت اس کو زندہ کر کے واپس لے آ اس پر وہ مبہوت ہوگیا میں نے شاید اپنی دوسری تقریر سیرت میں اس پر مفصل تبرہ کیا ہے۔ بہر حال اوپر کی آیت میں مومنوں کا ولی اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو فرمایا تھا اور کافروں کا ولی مجازاً طاعوت کو فرما دیا تھا۔ دونوں کا نتیجہ ظاہرہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی سرپرسی اور اعانت چوں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حاصل تھی ۔ وہ کامیاب ہوئے اور طاغوت کے ہمدرد اور پیرو رسوا اور ذلیل ہوئے اور نمرود ایسا مبہوت ہوا کہ اس کے منہ سے یہ بھی نہ نکلا کہ ابراہیم تم پہ کام اللہ تعالیٰ سے کرا دو کہ وہ آفتاب کو مغرب سے طلوع کر دے اس کے دل میں غالباً یہ ڈر بیٹھ گیا کہ اگر میں نے ایسا کہا تو یہ پیغمبر ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بات ہوجائے اور اگر کہیں آفتاب مغرب سے نکل آیا تو ابھی تو صرف سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگوں میں بےعزتی ہوئی ہے ۔ پھر عوام میں بھی میری ہوا کر کر ہوجائے گی۔ شاید واللہ لا یھدی القوم الظلمین میں اسی جانب اشارہ ہو کہ اس قسم کے لوگوں کو ہدایت نصیب نہیں ہوا کرتی ۔ یہ ہدایت خواہ استدلال کی ہو یا یہ ہدایت اسلام کی ہو یا یہ ہدایت نجات کے طریقہ کی ہو یا قیامت میں جنت کی راہ مراد ہو تمام احتمالات ہیں۔ اس لئے ہم نے تیسیر میں عرض کیا ہے کہ کسی طرح رہنمائی نہیں فرماتا کیونکہ یہ وہ بدقسمت ہیں جو حجت قائم ہوجانے اور دلیل ظاہر ہوجانے بلکہ لا جواب ہوجانے کے بعد بھی قبول حق کا ارادہ نہیں کرتے اور حضر ت حق کا دستور یہ ہے کہ جب کوئی بندہ قبول حق کا ارادہ کرتا ہے تو ہو ہدایت کو پیدا کردیتے ہیں۔ بعض حضرات نے ربہ کی ضمیر نمرود کی طرف لوٹائی ہے لیکن اکثر مفسرین نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کو ضمیر کا مرجع قرار دیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ، ایک بادشاہ تھا وہ اپنے تئیں سجدہ کرواتا تھا۔ سلطنت کے غرور سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو سجدہ نہ کیا ۔ اس نے پوچھا، انہوں نے کہا کہ میں اپنے رب ہی کو سجدہ کرتا ہوں ۔ اس نے کہا رب تو میں ہوں ۔ انہوں نے کہا میں رب حاکم کو نہیں کہتا رب وہ ہے جو جلادے اور مارے اس نے دو قیدی منگائے جس کو جلانا پہنچتا تھا قتل کر ڈالا اور جس کو مارنا پہنچنا تھا چھوڑ دیا ۔ تب انہوں نے آفتاب کی دلیل سے لا جواب کیا ۔ ( موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) کا رجحات بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات دلیل کے طور پر فرمائی تھی لیکن جب وہ نہ سمجھا اور یہ معلوم ہوگیا کہ یہ بہت موٹی عقل کا انسان ہے تو انہوں نے دوسرا جواب دے کر اس کو لا جواب کردیا اور حضرت حق تعالیٰ کے وجود یا ا س کی وحدانیت کو ثابت کردیا گیا جو اصل مدعا اور مطلوب تھا۔ یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے قریب آفتاب مغر ب سے طلوع ہوگا اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ خلیل (علیہ السلام) کے محاجہ میں اس کا تذکرہ آیا تھا اور حضرت خلیل نے نمرود سے فرمایا تھا کہ تو آفتاب کو مغرب سے نکال کردکھا۔ ( واللہ اعلم) اب آگے ایک اور شخص کا ذکر فرماتے ہیں جس کے ذکر سے قیامت کے دن قبروں سے مردوں کا زندہ ہونا اور بعث بعد الموت کا مسئلہ واضح ہوتا ہے اور توحید و رسالت کے ساتھ اس مسئلے کو خصوصی تعلق ہے اور اعتقادی مسائل میں نہایت اہم مسئلہ ہے۔ جس میں تمام دنیا کے کافر ایک طرف ہیں اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ان کے متبعین ایک طرف ہیں۔ ( تسہیل)