Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 264

سورة البقرة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی ۙ کَالَّذِیۡ یُنۡفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِؕ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفۡوَانٍ عَلَیۡہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلۡدًا ؕ لَا یَقۡدِرُوۡنَ عَلٰی شَیۡءٍ مِّمَّا کَسَبُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۶۴﴾

O you who have believed, do not invalidate your charities with reminders or injury as does one who spends his wealth [only] to be seen by the people and does not believe in Allah and the Last Day. His example is like that of a [large] smooth stone upon which is dust and is hit by a downpour that leaves it bare. They are unable [to keep] anything of what they have earned. And Allah does not guide the disbelieving people.

اے ایمان والو !اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو !جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالٰی پر ایمان رکھے نہ قیامت پر ، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالٰی کافروں کی قوم کو ( سیدھی ) راہ نہیں دکھاتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالاذَى ... O you who believe! Do not render in vain your Sadaqah (charity) by reminders of your generosity or by injury, stating that the charity will be rendered in vain if it is followed by harm or reminders. In this case, the reward of giving away charity is not sufficient enough to nullify the harm and reminders. Allah then said, ... كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِيَاء النَّاسِ ... like him who spends his wealth to be seen of men, meaning, "Do not nullify your acts of charity by following them with reminders and harm, just like the charity of those who give it to show off to people." The boasting person pretends to give away charity for Allah's sake, but in reality seeks to gain people's praise and the reputation of being kind or generous, or other material gains of this life. All the while, he does not think about Allah or gaining His pleasure and generous rewards, and this is why Allah said, ... وَلاَ يُوْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ ... and he does not believe in Allah, nor in the Last Day. Allah next set the example of whoever gives charity to show off. Ad-Dahhak commented that the example fits one who follows his acts of charity with reminders or harm. Allah said, ... فََََمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ ... His likeness is the likeness of Safwan, where Safwan, from is Safwanah, meaning `the smooth rocks,' ... عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ ... on which is little dust; on it falls a Wabil, meaning, heavy rain. ... فَتَرَكَهُ صَلْدًا ... which leaves it bare. This Ayah means that heavy rain left the Safwan completely barren of dust. Such is the case with Allah's action regarding the work of those who show off, as their deeds are bound to vanish and disappear, even though people think that these deeds are as plentiful as specks of dust. So Allah said, ... لااَّ يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُواْ وَاللّهُ لااَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ They are not able to do anything with what they have earned. And Allah does not guide the disbelieving people.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

264۔ 1 اس میں ایک تو یہ کہا گیا ہے صدقہ اور خیرات کر کے احسان جتلانا اور تکلیف دہ باتیں کرنا اہل ایمان کا شیوا نہیں بلکہ ان لوگوں کا وطیرہ ہے جو منافق ہیں اور ریاکاری کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ دوسرے ایسے خرچ کی مثال صاف پتھر چٹان کی طرح ہے جس پر مٹی ہو کوئی شخص پیداوار حاصل کرنے کے لئے اس میں بیج بو دے لیکن بارش کا ایک جھٹکا پڑتے ہی وہ ساری مٹی اس سے اتر جائے اور وہ پتھر مٹی سے بالکل صاف ہوجائے۔ یعنی جس طرح بارش اس پتھر کے لئے نفع بخش ثابت نہیں ہوئی اس طرح ریا کار کو بھی اس کے صدقے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨٠] ریا کار کی چونکہ نیت ہی درست نہیں ہوتی اور نیت ہی اصل بیج ہے۔ لہذا ایسا بیج بار آور نہیں ہوسکتا۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی۔ جیسے ایک صاف چکنا سا پتھر ہو جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو، اس میں وہ اپنا بیج ڈالتا ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو پانی مٹی کو بھی بہا لے جاتا ہے اور بیج بھی اس مٹی کے ساتھ بہہ جاتا ہے۔ لہذا اب پیداوار کیا ہوسکتی ہے ؟ ریاکار کا دراصل اللہ پر اور روز آخرت پر پوری طرح ایمان ہی نہیں ہوتا وہ تو لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہی عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر وثواب پانے کی اس کی نیت ہی نہیں ہوتی۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ قیامت کے دن پہلا آدمی جس کا فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہوگا۔ اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں جتلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : && تو پھر تم نے کیا عمل کیا ؟ && وہ کہے گا : میں تیری راہ میں لڑتا رہا حتیٰ کہ شہید ہوگیا۔ && اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جھوٹ کہتے ہو۔ && تم تو اس لیے لڑتے رہے کہ لوگ تجھے بہادر کہیں اور وہ دنیا میں کہلوا چکے۔ && پھر اللہ فرشتوں کو حکم دے گا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم میں جا پھینکیں گے۔ پھر ایک اور شخص کو لایا جائے گا جس نے دین کا علم سیکھا اور لوگوں کو سکھلایا اور قرآن پڑھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتیں جتلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اسے پوچھے گا : پھر تو نے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا۔ میں نے خود علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور قرآن پڑھتا پڑھاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جھوٹ کہتے ہو۔ تم نے تو علم اس لیے سیکھا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن اس لیے پڑھتا تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں اور تجھے دنیا میں عالم اور قاری کہا جا چکا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا جو اسے گھسیٹتے ہوئے دوزخ میں جا پھینکیں گے۔ پھر ایک اور شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ نے ہر قسم کے اموال سے نوازا تھا۔ اللہ اسے اپنی نعمتیں جتلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ پھر اللہ اس سے پوچھے گا : پھر تو نے کیا عمل کیا ؟ && وہ کہے گا۔ میں نے ہر اس راہ میں مال خرچ کیا جس میں تو پسند کرتا تھا۔ && اللہ تعالیٰ فرمائے گا && جھوٹ کہتے ہو تم تو اس لیے خرچ کرتے تھے کہ لوگ تمہیں سخی کہیں اور وہ تم کو دنیا میں کہا جا چکا پھر فرشتوں کو حکم ہوگا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم میں جا پھینکیں گے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ باب من قاتل للریاء والسمعہ استحق النار)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بالْمَنِّ وَالْاَذٰى ۙ ۔۔ : یعنی کسی کو صدقہ دینے کے بعد اس پر احسان جتلا کر یا اسے تکلیف دے کر اس منافق کی طرح اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو جو صرف ریا کاری کے جذبہ کے تحت اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ (ابن کثیر) كَمَثَلِ صَفْوَانٍ : یعنی یہ ریا کار بظاہر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اس کی مثال اس صاف چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی جمی ہوئی ہو (” تُرَابٌ“ کی تنوین تقلیل کے لیے ہے) اور دیکھنے والا اسے قابل کاشت زمین خیال کرے، لیکن جونہی بارش ہو اس کی تمام مٹی دھل جائے اور وہ صاف چٹان کی چٹان رہ جائے، اسی طرح ریا کاروں کے عمل ان کے صحیفۂ اعمال سے مٹ جائیں گے اور وہ ان سے نہ کوئی فائدہ اٹھا سکیں گے اور نہ انھیں ان کا کوئی اجر ملے گا۔ اوپر کی آیت میں مثال تھی مخلص مومن کے صدقہ و خیرات کی، جو محض رضائے الٰہی کے لیے خرچ کرتا ہے اور یہ مثال ہے ریا کار کے خرچ کرنے کی، جس کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the fourth verse, the same subject has been taken up differently with a little more emphasis. It was said: Do not waste your charities: verbally -- by causing your favour to be known; or practically by causing pain. This makes it clear that any form of favour-flashing or needy-bashing, after an act of charity renders such charity null and void. There is no reward for it. In this verse, one more condition governing the acceptance of sadaqah صدقہ has been added by saying that one who spends for public exposure, for name and fame, and does not believe in Allah Almighty and the Day of Resurrection, can be likened to be acting in a situation where he sows a grain on a clean rock which has collected a layer of soil, then comes the rain and washes the whole thing clean. Such people will never reap what they have sown and Allah Almighty will not let the disbelievers see the way. From this we know the condition that governs the acceptance of sadaqah صدقہ and khayrat خیرات۔- spend only to seek the good pleasure of Allah Almighty and with the intention of getting thawab ثواب (reward) in the akhirah آخرۃ (Hereafter). Never do it with the intention of having public exposure, name and fame. Spending with the intention of earning name and fame is wasting what you spend. And should a true Muslim, who does believe in the Hereafter, expend something simply for name, fame, and under hypocritical motivation, he too, would not get any thawab ثواب (reward) for it. Moreover, there is a hint here in the use of the additional sentence ولا یؤمن باللہ ، (And does not believe in Allah); perhaps, it aims to suggest that hypocrisy and name-seeking is not just the sort of thing a person who believes in Allah Almighty and the Day of Resurrection would ever do since hypocrisy is a sign of something being wrong with his faith. The meaning of وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِي &Allah Almighty will not show disbelievers the way& towards the end of verse 264 is that the Qur&anic guidance is universal. It is common to all human beings. But, disbelievers do not take notice of this guidance, rather go a step farther and make fun of it. As a result, Allah Almighty lets them be deprived of the very taufiq توفیق ، the ability to accept guidance. The effect is that they do not accept any guidance.

چوتھی آیت میں اسی مضمون کو دوسرے عنوان سے اور بھی تاکید کے ساتھ اس طرح ارشاد فرمایا کہ اپنے صدقات کو برباد نہ کرو زبان سے احسان جتلا کر یا برتاؤ سے ایذاء پہنچا کر۔ اس سے واضح ہوگیا کہ جس صدقہ و خیرات کے بعد احسان جتلانے یا مستحقین کو ایذاء پہنچانے کی صورت ہوجائے وہ صدقہ باطل کالعدم ہے اس پر کوئی ثواب نہیں، اس آیت میں صدقہ کے قبول ہونے کی ایک اور شرط کا اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جو شخص لوگوں کے دکھاوے اور نام ونمود کے واسطے خرچ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی صاف پتھر پر کچھ مٹی جم جائے اور اس میں کوئی دانہ بوئے پھر اس پر زور کی بارش پڑجائے اور وہ اس کو بالکل صاف کردے ایسے لوگوں کو اپنی کمائی ذرا بھی ہاتھ نہ لگے گی اور اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو راستہ نہ دکھلائیں گے اس سے قبولیت صدقہ و خیرات کی یہ شرط معلوم ہوئی کہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اور ثواب آخرت کی نیت سے خرچ کرے، دکھلاوے یا نام ونمود کی نیت سے نہ ہو، نام ونمود کی نیت سے خرچ کرنا اپنے مال کو برباد کرنا ہے اور آخرت پر ایمان رکھنے والا مومن بھی اگر کوئی خیرات محض نام ونمود اور ریاء کے لئے کرتا ہے تو اس کا بھی یہی حال ہے کہ اس کو کوئی ثواب نہیں ملتا پھر اس جگہ لَا يُؤ ْمِنُ کے اضافہ سے شاید اس طرف اشارہ کرنا منظور ہے کہ ریاء کاری اور نام ونمود کے لئے کام کرنا اس شخص سے متصور ہی نہیں جو اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے ریاء کاری اس کے ایمان میں خلل کی علامت ہے۔ آیت کے آخر میں جو یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو راستہ نہ دکھائیں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایات اور آیات جو سب انسانوں کے لئے عام ہیں کافر جو ان ہدایات پر نظر نہیں کرتے بلکہ تمسخر اور استہزاء کرتے ہیں اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان کو توفیق سے محروم کردیتے ہیں جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی ہدایت قبول نہیں کرتے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۝ ٠ ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝ ٠ ۭ فَمَثَلُہٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَكَہٗ صَلْدًا۝ ٠ ۭ لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۝ ٢٦٤ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ ریاء قوله : «لا تَتَرَاءَى نارهما» ومنازلهم رِئَاءٌ ، أي : متقابلة . وفعل ذلک رِئَاءُ الناس، أي : مُرَاءَاةً وتشيّعا . والْمِرْآةُ ما يرى فيه صورة الأشياء، وهي مفعلة من : رأيت، نحو : المصحف من صحفت، وجمعها مَرَائِي، رئائ۔ راء ی یرائی ( باب مفاعلۃ) مراء ۃ ورئاء مصدر ( ر ء ی مادہ) خلاف اصل و خلاف حقیقت دکھانا۔ دکھاوا۔ خود نمائی۔ کسی کو دکھانے کے لئے کسی کام کا کرنا۔ رئاء الناس۔ مضاف مضاف الیہ۔ لوگوں کے دکھاوے کے لئے۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ صَفْوانٍ والصَّفْوَانُ کالصَّفَا، الواحدةُ : صَفْوَانَةٌ ، قال تعالی: كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ [ البقرة/ 264] ، ويقال : يوم صَفْوَانٌ: صَافِي الشّمسِ ، شدید البرد . اور الصفا کی طرح صفوان کے معنی بھی بڑا صاف اور چکنا پتھر کے ہیں اس کا واحد صفوانۃ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ [ البقرة/ 264] اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو ۔ یوم صفوان خنک دن میں سورج صاف ہو ( یعنی بادل اور غبارہ نہ ہو ) ترب التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد/ 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] ، الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] . وتَرِبَ : افتقر، كأنه لصق بالتراب، قال تعالی: أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد/ 16] ، أي : ذا لصوق بالتراب لفقره . وأَتْرَبَ : استغنی، كأنه صار له المال بقدر التراب، والتَّرْبَاء : الأرض نفسها، والتَّيْرَب واحد التَّيَارب، والتَّوْرَب والتَّوْرَاب : التراب، وریح تَرِبَة : تأتي بالتراب، ومنه قوله عليه السلام : «عليك بذات الدّين تَرِبَتْ يداك» تنبيها علی أنه لا يفوتنّك ذات الدین، فلا يحصل لک ما ترومه فتفتقر من حيث لا تشعر . وبارح تَرِبٌ: ريح فيها تراب، والترائب : ضلوع الصدر، الواحدة : تَرِيبَة . قال تعالی: يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق/ 7] ، وقوله : أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة/ 36- 37] ، وَكَواعِبَ أَتْراباً [ النبأ/ 33] ، وَعِنْدَهُمْ قاصِراتُ الطَّرْفِ أَتْرابٌ [ ص/ 52] ، أي : لدات، تنشأن معا تشبيها في التساوي والتماثل بالترائب التي هي ضلوع الصدر، أو لوقوعهنّ معا علی الأرض، وقیل : لأنهنّ في حال الصبا يلعبن بالتراب معا . ( ت ر ب ) التراب کے معنی میا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] کہ اس نے تمہیں میب سے پیدا کیا ۔ الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ ترب کے معنی فقیر ہونے کے ہیں کیونکہ فقر بھی انسان کو خاک آلودہ کردیتا ہے ۔ فرمایا :۔ أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد/ 16] یا فقیر خاکسار کو ۔ یعنی جو بوجہ فقر و فاقہ کے خاک آلودہ رہتا ہے ۔ اترب ( افعال ) کے معنی مال دار ہونے کے ہیں ۔ گویا اس کے پاس مٹی کی طرح مال ہے نیز تراب کے معنی زمین کے بھی آتے ہیں اور اس میں التیراب ( ج) تیارب اور التوراب والتورب والتوراب وغیرہ دس لغات ہیں ۔ ریح تربۃ خاک اڑانے والی ہو ۔ اسی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے (50) علیک بذاب الدین تربت یداک کہ شادی کے لئے دیندار عورت تلاش کرو ۔ تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ دیندار عورت تیرے ہاتھ سے نہ جانے پائے ورنہ تمہارا مقصد حاصل نہیں ہوگا اور تم غیر شعوری طورپر فقیر ہوجاو گے ۔ بارح ترب خاک اڑانے والی ہو ۔ ترائب سینہ کی پسلیاں ( مفرد ت ربیۃ ) قرآن میں ہے ۔ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق/ 7] جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة/ 36- 37] کنواریاں اور شوہروں کی پیاریاں اور ہم عمر ۔ اور ہم نوجوان عورتیں ۔ اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی ( اور ) ہم عمر ( عورتیں ) ہوں گی ۔ میں اتراب کے معنی ہیں ہم عمر جنہوں اکٹھی تربیت پائی ہوگی گو یا وہ عورتیں اپنے خاوندوں کے اس طرح مساوی اور مماثل یعنی ہم مزاج ہوں گی جیسے سینوں کی ہڈیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور ریا اس لئے کہ گو یا زمین پر بیک وقت واقع ہوئی ہیں اور بعض نے یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ وہ اکٹھی مٹی میں ایک ساتھ کھیلتی رہی ہیں ۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ وبل الوَبْلُ والْوَابِلُ : المطر الثّقيل القطار . قال تعالی: فَأَصابَهُ وابِلٌ [ البقرة/ 264] ، كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصابَها وابِلٌ [ البقرة/ 265] ولمراعاة الثّقل قيل للأمر الذي يخاف ضرره : وَبَالٌ. قال تعالی: فَذاقُوا وَبالَ أَمْرِهِمْ [ التغابن/ 5] ، ويقال طعام وَبِيلٌ ، وكلأ وَبِيلٌ: يخاف وباله . قال تعالی: فَأَخَذْناهُ أَخْذاً وَبِيلًا[ المزمل/ 16] . ( و ب ل ) الوابل والوابل کے منی بڑی اور بھاری بوندوں والی بارش کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَأَصابَهُ وابِلٌ [ البقرة/ 264] مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو ( جب ) اس پر بارش ہو ۔ پھر معنی ثقل کے لحاظ سے ہر اس چیز کو وبال کہا جاتا ہے ۔ جس سے ضرر پہنچے کا اندیشہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَذاقُوا وَبالَ أَمْرِهِمْ [ التغابن/ 5] اپنے کاموں کی سزا کا مزہ چکھ چکے ہیں ۔ وبیل ۔ وہ طعام یا گھاس جس کے کھانے سے بد ہضمی اور ضرر کا اندیشہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَأَخَذْناهُ أَخْذاً وَبِيلًا[ المزمل/ 16] تو ہم نے اس کو بڑے وبال میں پکڑلیا ۔ ترك تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] ( ت ر ک) ترک الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔ صلد قال تعالی: فَتَرَكَهُ صَلْداً [ البقرة/ 264] ، أي : حجرا صلبا وهو لا ينبت، ومنه قيل : رأس صَلْدٌ: لا ينبت شعرا، وناقة صَلُودٌ ومِصْلَادٌ: قلیلة اللّبن، وفرس صَلُودٌ: لا يعرق، وصَلَدَ الزَّنْدُ : لا يخرج ناره . ( ص ل د) الصلد کے معنی ٹھوس اور چکنا پتھر کے ہیں جس پر کچھ پیدا نہ ہوسکے ۔ قرآن میں ہے : فَتَرَكَهُ صَلْداً [ البقرة/ 264] تو اسے صاف کر ڈالے اسی سے راس صلد ہے یعنی وہ سرجس پر بالکل بال نہ ہو ۔ ثاقۃ صلود وصلاد کم دودھ والی اونٹنی فرس صلود وہ گھوڑے جسے پسینہ نہ آئے صلد الزند چقماق سے آگ نہ نکلنا ۔ قادر الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه . ( ق د ر ) القدرۃ ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦٤) احسان جتلانے والے اور مشرک کے صدقہ کی مثال چکنے پتھر کی طرح ہے جس پر کچھ مٹی آگئی ہو اور پھر اس پرزور کی بارش پڑگئی تو اس نے جیسا وہ چکنا صاف تھا، پھر اسی طرح کردیا، دنیا میں اس طرح کے خرچ کرنے والوں کو آخرت میں کسی بھی قسم کا ثواب نہیں ملے گا، اور اللہ تعالیٰ منافقین اور لوگوں کے دکھلاوے لیے خرچ کرنے والوں اور اسی طرح صدقہ خیرات پر احسان جتانے والوں کو ان کے صدقات پر کسی قسم کا کوئی ثواب نہیں عطا کریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦٤ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بالْمَنِّ وَالْاَذٰیلا) (کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ رِءَآء النَّاسِ ) اگرچہ اپنا مال خرچ کر رہا ہے ‘ لوگوں کو صدقات دے رہا ہے ‘ بڑے بڑے خیراتی ادارے قائم کردیے ہیں ‘ لیکن یہ سب کچھ ریاکاری کے لیے ‘ سرکار دربار میں رسائی کے لیے ‘ کچھ اپنے ٹیکس بچانے کے لیے اور کچھ اپنی ناموری کے لیے ہے۔ یہ سارے کام جو ہوتے ہیں اللہ جانتا ہے کہ ان میں کس کی کیا نیت ہے۔ (وَلاَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط) جو کوئی ریاکاری کر رہا ہے وہ حقیقت میں اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ ریا اور ایمان ایک دوسرے کی ضد ہیں ‘ جیسا کہ یہ حدیث ہم متعدد بار پڑھ چکے ہیں : (مَنْ صَلّٰی یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ ‘ وَمَنْ صَامَ یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ ) (٣٥) جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ‘ جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا ‘ اور جس نے دکھاوے کے لیے لوگوں کو صدقہ و خیرات دیا اس نے شرک کیا۔ (فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ) اگر کسی چٹان پر مٹی کی تھوڑی سی تہہ جم گئی ہو اور وہاں آپ نے کچھ بیج ڈال دیے ہوں تو ہوسکتا ہے کہ وہاں کوئی فصل بھی اگ آئے ‘ لیکن وہ انتہائی ناپائیدار ہوگی۔ (فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلْدًا ط) بارش کے ایک ہی زوردار چھینٹے میں چٹان کے اوپر جمی ہوئی مٹی کی تہہ بھی بہہ گئی ‘ آپ کی محنت بھی ضائع ہوگئی ‘ آپ کا بیج بھی اکارت گیا اور آپ کی فصل بھی گئی۔ بارش سے دھل کر وہ چٹان اندر سے بالکل صاف اور چٹیل نکل آئی۔ یعنی سب کچھ گیا اور کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاکاری کا یہی انجام ہوتا ہے کہ ہاتھ سے مال بھی دیا اور حاصل کچھ نہ ہوا۔ اللہ کے ہاں کسی اجر وثواب کا سوال ہی نہیں۔ (لاَ یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْءٍ مِّمَّا کَسَبُوْا ط) ایسے لوگ اپنے تئیں صدقہ و خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں اس میں سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا۔ (وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ) وہ ناشکروں اور منکرین نعمت کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا اور انہیں بامراد نہیں کرتا۔ اگلی آیت میں فوری تقابل (simultaneous contrast) کے طور پر ان لوگوں کے لیے بھی مثال بیان کی جا رہی ہے جو واقعتا اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے خلوص و اخلاص سے خرچ کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

303. The desire to display one's good deeds itself proves that the person concerned does not truly believe in God and the Hereafter. One who does good merely in order to impress people with his righteousness clearly regards those persons as his god. Such a person neither expects reward from God nor is he concerned that his good deeds will some day be reckoned to his credit. 304. In this parable, 'heavy rain' signifies charity, and 'rock' the wicked intent and motive which lie behind external acts of charity. The expression, 'with a thin coating of earth upon it' signifies the external aspect of charity which conceals the wicked intent and motive of a man. These explanations make the significance and purport of the parable clear. The natural effect of rainfall should be the growth of plants and harvest. But if the earth, which is the repository of fertility, is insignificant in quantity, for example only a coating of it on some rock, the result will be that instead of yielding any beneficial result the rainfall may even prove harmful. Similarly, charity has the capacity to generate goodness and benevolence in human beings. Man's potential for goodness, however, is conditional on sincerity. Devoid of that charity leads to sheer loss and waste. 305. Here the term kafir is used in the sense of the ungrateful person who refuses to acknowledge benevolence. People who either make use of the bounties of God in order to seek the gratitude of God's creatures rather than God's good pleasure, or who spend on others and then hurt them by stressing their acts of benevolence and kindness, are ungrateful to God for His bounties and favours. Since such people do not seek to please God, God does not care to direct them to the way that leads to His good pleasure.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :303 اس کی ریاکاری خود ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا ۔ اس کا محض لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کرنا صریحاً یہ معنی رکھتا ہے کہ خلق ہی اس کی خدا ہے جس سے وہ اجر چاہتا ہے ، اللہ سے نہ اس کو اجر کی توقع ہے اور نہ اسے یقین ہے کہ ایک روز اعمال کا حساب ہوگا اور اجر عطا کیے جائیں گے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :304 اس تمثیل میں بارش سے مراد خیرات ہے ۔ چٹان سے مراد اس نیت اور اس جذبے کی خرابی ہے ، جس کے ساتھ خیرات کی گئی ہے ۔ مٹی کی ہلکی تہہ سے مراد نیکی کی وہ ظاہری شکل ہے ، جس کے نیچے نیت کی خرابی چھپی ہوئی ہے ۔ اس توضیح کے بعد مثال اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے ۔ بارش کا فطری اقتضا تو یہی ہے کہ اس سے روئیدگی ہو اور کھیتی نشونما پائے ۔ لیکن جب روئیدگی قبول کرنے والی زمین محض برائے نام اوپر ہی اوپر ہو ، اور اس اوپری تہہ کے نیچے نری پتھر کی ایک چٹان رکھی ہوئی ہو ، تو بارش مفید ہونے کے بجائے الٹی مضر ہوگی ۔ اسی طرح خیرات بھی اگرچہ بھلائیوں کو نشونما دینے کی قوت رکھتی ہے ، مگر اس کے نافع ہونے کے لیے حقیقی نیک نیتی شرط ہے ۔ نیت نیک نہ ہو تو ابر کرم کا فیضان بجز اس کے کہ محض ضیاع مال ہے اور کچھ نہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :305 یہاں” کافر“ لفظ ناشکرے اور منکر نعمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ جو شخص اللہ کی دی ہوئی نعمت کو اس کی راہ میں اس کی رضا کے لیے خرچ کرنے کے بجائے خلق کی خوشنودی کے لیے صرف کرتا ہے ، یا اگر خدا کی راہ میں کچھ مال دیتا بھی ہے ، تو اس کے ساتھ اذیت بھی دیتا ہے ، وہ دراصل ناشکرا اور اپنے خدا کا احسان فراموش ہے ۔ اور جب کہ وہ خود ہی خدا کی رضا کا طالب نہیں ہے تو اللہ اس سے بے نیاز ہے کہ اسے خواہ مخواہ اپنی رضا کا راستہ دکھائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

180: چٹان پر اگر مٹی جمی ہو تو یہ امید ہوسکتی ہے کہ اس پر کوئی چیز کاشت کرلی جائے ؛ لیکن اگر بارش مٹی کو بہالے جائے تو چٹان کے چکنے پتھر کاشت کے قابل نہیں رہتے، اسی طرح صدقہ خیرات سے آخرت کے ثواب کی امید ہوتی ہے ؛ لیکن اگر اس کے ساتھ ریا کاری یا احسان جتانے کی خرابی لگ جائے تو وہ صدقے کو بہالے جاتی ہے اور ثواب کی کوئی امید نہیں رہتی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:264) لاتبطلوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ ابطال (افعال) مصدر۔ تم باطل مت کرو۔ تم ضائع مت کرو۔ تم رائیگاں مت کرو۔ کالذی۔ میں ک حرف تشبیہ ہے۔ محل نصب میں ہے۔ نصب یا تو مفعول مطلق ہونے کی صورت میں ہے ای ابطالا کا بطال الذی ینفق۔ ترجمہ ہوگا : اس شخص کے ثواب کو رائیگاں کرنے کی طرح اپنے ثواب کو اکارت نہ کرو جو ۔۔ الخ۔ یا حال ہونے کی بناء پر۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا : کہ ثواب کو برباد کرنے میں اس شخص کی مانند نہ ہوجاؤ۔ ینفق مالہ رئاء الناس۔ رئاء کے منصوب ہونے کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں : (1) منصوب مفعول لہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ یعنی لوگوں کو دکھانے کی غرض سے وہ خرچ کرتا ہے۔ (2) حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ یعنی لوگوں کو دکھاتے ہوئے خرچ کرتا ہے۔ (3) مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی لوگوں کی دکھاوٹ کا خرچ کرنا۔ رئائ۔ راءی یرائی (باب مفاعلۃ) مراءۃ ورئاء مصدر (ر ء ی مادہ) خلاف اصل و خلاف حقیقت دکھانا۔ دکھاوا۔ خود نمائی۔ کسی کو دکھانے کے لئے کسی کام کا کرنا۔ رئاء الناس۔ مضاف مضاف الیہ۔ لوگوں کے دکھاوے کے لئے۔ ولا یؤمن باللہ والیوم الاخر۔ جملہ حالیہ ہے بمعنی : حالانکہ اس کا ایمان نہ اللہ پر ہوتا ہے اور نہ یوم آخرت پر۔ فائدہ : ولا یؤمن باللہ ولا بالیوم الاخر۔ انفاق صدقہ کی قید نہیں ہے کیونکہ ریاکاری خیرات کا ثواب بہرحال برباد ہوجاتا ہے خواہ ریاکاری کرنے والا مومن ہو بلکہ اس جملہ کا ذکر حقیقت میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ دکھاوٹ کے لئے خیرات کرنا مومن کی شان نہیں ہے بلکہ یہ منافق کی خصوصیت ہے۔ (مظہری) صفوان۔ صاف اور چکنا پتھر۔ اس کا واحد صفوانۃ ہے (ص ف و مادہ) ۔ اصابہ۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ اصابۃ (افعال) وہ پہنچا۔ وہ آپڑا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب ۔ وہ اس پر آپڑا۔ وابل۔ اسم ۔ سخت بارش۔ موسلا دھار بارش۔ بڑے بڑے قطروں کی بارش ۔ وبل (آسمان کا) بہت بارش برسانا۔ (گھوڑے کا) بےتحاشا دوڑنا۔ فاصابہ و ابل۔ پھر اس پر زور کا مینہ برس گیا۔ اس پر زور کی بارش برسی۔ صلدا۔ سپاٹ اور سخت پتھر جس پر کچھ نہ اگے۔ صلد کی جمع اصلاد ہے۔ لا یقدرون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ نہیں قدرت رکھتے وہ۔ علی شیئ۔ کسی چیز پر۔ مما۔ مرکب ہے من اور ما موصولہ سے۔ کسبوا۔ انہوں نے کمایا۔ یعنی اس اسپاٹ پتھر پر جو بھی انہوں نے محنت کی تھی جو کہ سخت بارش کے آنے سے دھل بہ کر صاف ہوگئی۔ اور ان کی قسمت میں ان کی کمائی میں سے کچھ بھی نہ آیا۔ ای طرح ریاکار پر مرور دہرا اور موت کا مینہ برسے گا تو ان کے اعمال سخت پتھر کی طرح دھل جائیں گے اور آخرت میں ان کی کمائی میں سے ان کو کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ چونکہ الذی سے جنس یا جمع مراد ہے گو لفظ مفرد ہے اس لئے معنوی لحاظ سے لا یقدرون کی ضمیر جمع الذی کی طرف راجع ہے۔ القوم الکافرین۔ موصوف و صفت مل کر لا یھدی کا مفعول ہے۔ اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی کسی کو صدقہ دینے کے بعد اس پر احسان جتلا کرے اسے تکلیف دے کر اس منافع کی طر اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو جو صرف ریاکاری کے جذبہ کے تحت اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ (ابن کثیر) سف 4 یعنی یہ ریا کار بظاہر اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں وہ صدقہ اس مٹی کی طرح ہے جو کسی صاف چٹان پر جمع ہوئی ہو اور دیکھنے والا اسے قابل کاشت زمین خیال کرے لیکن جو نہی بارش ہو اس کی تمام مٹی دھل جائے اور وہ صاف چٹان کی چٹان رہ جائے ہ اسی طرح ریاکاروں کے عمل ان کے صحیفہ اعمال سے مٹ جائیں گے اور نہ انھیں ان کا کوئی اجر ملے گا۔ اوپر کی آتی میں مثال تھی مخلص مومن کے صدقہ و خیرات کی جو محض رضائے الہی کے لیے خرچ کرتا ہے اور مثال ہے ریاکار کے خرچ کرنے کی جس کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ معلوم ہوتا ہے کہ انفاق کے لیے ایمان کے ساتھ ایک شرط صحت اخلاص بھی ہے اور ترک من واذی شرط بقاء ہے اس لیے منافق اور مرائی کے انفاق کو باطل کہا گیا اس میں شرط صحت مفقوف ہے اور من واذی کو بھی مبطل کہا گیا کہ اس میں شرط بقا مفقود ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے عمومی انداز میں سمجھایا گیا تھا کہ اللہ کے لیے خرچ کرو اور صدقہ لینے والے کو تکلیف نہ دو اور نہ ہی اس پر احسان جتلاؤ۔ یاد رکھو کہ حقیقی غنی وہ ذات اقدس ہے جس نے اپنی غنا کے خزانوں سے تمہیں عطا فرمایا ہے۔ تم تو تھوڑا سادے کر بےحوصلہ ہوجاتے ہو اس مالک کی طرف دیکھو جو تمہیں صبح وشام کھلانے پلانے اور خزانے عطا کرنے کے باوجود تمہاری گستاخیاں اور نافرمانیاں برداشت کرتا ہے۔ اب براہ راست صاحب ایمان لوگوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ ایذاء رسانی اور احسان جتلا کر اپنے صدقات کو ہرگز ضائع نہ کرنا۔ کیونکہ جس حاجت مند کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا جائے اس کے دل میں صدقہ دینے والے کے بارے میں دعا اور ہمدردی کے بجائے نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ احسان جتلانے اور ایذاء پہنچانے والے آدمی کے بارے میں معاشرہ میں نفرت اور حقارت پیدا ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنے آپ کو تبدیل نہ کرے تو ایسارویّہ اس کی کمینگی کی علامت بن جاتا ہے۔ معاشرہ میں صدقہ کرنے سے جو مثبت اثرات پیدا ہونے تھے۔ اس کی بجائے منفی اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ گویا کہ اس طرز عمل سے صدقہ دینے والے کی عزت اور خدمت برباد ہوجاتی ہے۔ آخرت کے بارے میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو نظر کرم کے ساتھ نہیں دیکھے گا۔ [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار والمن بالعطیۃ ] صدقہ کرنے کے بعد ایذا پہنچانے والے شخص کو ریا کار کے ساتھ تشبیہ دی جارہی ہے۔ جس کا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں ہوتا کیونکہ اگر اس کا اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان ہوتا تو اسے نمودو نمائش کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس نے آخرت میں اپنے رب سے اجر لینے کے بجائے لوگوں سے تحسین اور شہرت کی صورت میں اجر لینے کی کوشش کی ہے۔ اس کے اس عمل کی مثال تو ایسی ہے جس طرح ایک چٹان کے اوپر معمولی سی مٹی ہو جو ہلکی سی بارش سے صاف ہوجائے۔ اس چٹان پر گل و گلزار کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے ؟ یہی حالت ریا کار اور اس شخص کی ہے جو صدقہ کرنے کے بعد احسان اور ایذارسانی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ اس کا کردار تو کفار کے ساتھ ملتا جلتا ہے کیونکہ کافر نہ آخرت پر یقین رکھتا ہے نہ ہی اس کا اللہ تعالیٰ پر ایمان ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے تین آدمیوں کا فیصلہ کیا جائے گا ایک شہید ہوگا اس کو اللہ کے دربار میں پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں یاد کروائے گا وہ ان نعمتوں کا اعتراف کرے گا پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم نے ان نعمتوں سے کیا فائدہ اٹھایا ؟ وہ کہے گا : میں نے تیرے راستے میں جہاد کیا یہاں تک کہ میں شہید ہوگیا۔ اللہ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو نے تو اس لیے جہاد کیا تھا تاکہ کہا جائے تو بڑا بہادر ہے۔ دنیا میں تجھے بہادر کہہ دیا گیا۔ اس کے بعد اس کو الٹے منہ گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اسی طرح ایک عالم اور ایک سخی کو بھی لایا جائے گا جنہوں نے دکھلاوے کی خاطر علم پڑھا اور پڑھایا اور صدقہ کیا پھر ان کے ریاکاری کرنے کی وجہ سے ان کو بھی الٹے منہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ ] مسائل ١۔ تکلیف دینے اور احسان جتلانے سے صدقہ ضائع ہوجاتا ہے۔ ٢۔ ریا کار اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان نہیں رکھتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن ریا کاری اور احسان جتلانا : ١۔ ریاکاری دھوکہ ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٢۔ ریاکار نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے۔ (الماعون : ٦) ٣۔ ریاکاری کفار کرتے ہیں۔ (الانفال : ٤٧) ٤۔ منافق ریاکار ہوتے ہیں۔ (النساء : ١٤٢) ٥۔ کسی سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے احسان نہیں کرنا چاہیے۔ (المدثر : ٦) ٦۔ احسان جتلانے سے ثواب ضائع ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٦٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ہے وہ پہلا منظر یہ ایک مکمل اور دواجزاء سے مرکب منظر ہے ، جو اپنی شکل وضع اور اپنے نتائج کے اعتبار سے ایک دوسرے کے متضاد مناظر ہیں ۔ ہر منظر کے پھر مختلف اجزاء ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ متناسق ہیں ۔ وہ تعبیر اور مشاہدے کے اعتبار سے بھی باہم متوافق اور ہم رنگ ہیں ۔ اور معانی اور جذبات کے اعتبار سے بھی جو معانی اور جو جذبات اس منظر کشی سے پیدا کرنے مطلوب تھے ۔ جن کا اظہار اس پوری منظرکشی سے مطلوب تھا یا جو شعور ان مناظر کی وجہ سے پیدا کیا جانا مطلوب تھا۔ پہلے منظر میں ہمیں ایک ایسے دل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو پتھر سے بھی سخت ہے۔ كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ................ ” اس شخص کی طرح جو اپنے مال کو محض لوگوں کو دکھاوے کے لئے خرچ کرتا ہے ۔ نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ آخرت پر ۔ “ اسے ایمان کی تروتازگی اور مٹھاس کا شعور نہیں ہوتا لیکن وہ اپنی اس سنگ دلی پر ریاکاری کا پردہ ڈالتا ہے ۔ یہ دل جس پر ریاکاری کا پردہ ہوتا ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان ہو اور اس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی ہو ۔ ایک ایسا پتھر جس پر کوئی تروتازگی نہ ہو ، جس میں کوئی نرمی نہ ہو ۔ اس پر مٹی کی ایک ہلکی سی تہہ ہو اور اس کی سختی اور درشتی کو اس تہہ نے چھپارکھا ہو ۔ بعینہ اسی طرح جس طرح ایک شخص اپنی ریاکاری کی وجہ سے اپنے دل کی کیفیت کو چھپالیتا ہے جو ایمان سے خالی ہو۔ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ................ ” اس پر زور کا مینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان رہ گئی ۔ “ موسلا دھار بارش نے مٹی کی اس خفیف تہہ کو ختم کردیا۔ چٹان ظاہر ہوگئی اور وہ کیا تھی ؟ ایک سخت اور مضبوط اور کرخت چٹان ۔ جس پر کوئی روئیدگی ممکن نہ تھی۔ نہ اس سے کسی قسم کی پیداوار حاصل ہوسکتی تھی ۔ یہی مثال اس دل کی ہے جو اپنا مال محض ریاکاری کے طور پر خرچ کرتا ہے ۔ جس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا دنیا میں اور نہ آخرت میں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

522 اب یہاں نہایت تاکید کے ساتھ من اور اذی سے منع فرمایا ہے اور واضح کردیا ہے کہ من اور اذی سے صدقہ باطل ہوجتا ہے اور اس کا کوئی ثواب نہیں ملتا۔ الَّذِيْ يُنْفِقُسے مراد منافق یا مشرک ہے۔ و غالب المفسرین قال ان المراد بہ المنافق (روح ص 35 ج 3) رئاء۔ ینفق کا مفعول لہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک منافق ریا کار کی مثال دے کر ایمان والوں کو سمجھایا کہ جس طرح وہ منافق محض لوگوں کے دکھلاوے کے لیے خیرات کرتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ پر اس کا ایمان ہے اور نہ محاسبہ آخرت پر طو ظاہر ہے کہ رضائے الٰہی اور ثواب آخرت کی طلب کا تو اس کے دل میں کھٹکا تک نہیں ہوگا تو جس طرح اس ریا کار منافق کی خیرات بالکل رائیگاں اور اکارت ہے اور اس کیلئے کوئی ثواب نہیں۔ اے ایمان والو ! اسی طرح تم بھی اپنے صدقات کو من اور اذی کے ذریعے باطل نہ کرو جس طرح اس ریاکار نے ریاکاری سے اپنا عمل باطل کردیا۔ 523 فَمَثَلُهٗ کی ضمیر سے ریاکار خرچ کنندہ مراد ہے۔ صفوان کے معنی ہموار اور صاف پتھر وابل۔ شدید بارش اور صلد وہ صاف پتھر جس پر کوئی گردوغبار نہ ہو۔ جو شخص ریاکاری سے مال خرچ کرتا ہے۔ اس کے عمل کے رائیگاں اور بےنتیجہ ہونے کی مثال یہ ہے کہ جس طرح ایک بالکل صاف اور نرم پتھر ہو ہو اور اس پر معمولی سی مٹی ہو پھر اس پر سخت زور کی بارش ہوجائے تو وہ پتھر مٹی سے بالکل صآف ہوجاتا ہے اور اس پر مٹی کا ایک ذرہ بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ یہی حال ریاکاروں کے غیر مخلصانہ اور ریا کارانہ اعمال کا ہے کہ وہ ریاکاری کے سیلاب میں بہہ کر ضائع ہوجاتے ہیں اور ان پر کوئی ثواب نہیں ملتا۔ لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا ۭ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ کیا ہے مگر آخرت میں کوئی چیز ہاتھ نہیں آئے گی۔ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ ۔ جن کو اللہ نے عقل وبصیرت کی دولت دی۔ مگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اور جان بوجھ کر کفر اختیار کیا۔ ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ ایمان کی توفیق چھین لیتا ہے اور انہیں ہدایت نہیں دیتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اے ایمان والو ! تم احسان جتا کر یا سائل کو ایذا پہنچا کر اپنے صدقات کے ثواب کو اس شخص کی طرح ضائع نہ کرو جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور وہ نہ تو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ یوم آخرت پر اس کو یقین ہے، لہٰذا اس منافق کی حالت ایسی ہے جیسے فرض کرو ایک صاف چکنا پتھر کہ اس پر تھوڑی سی مٹی جمع ہوئی ہو پھر اس پتھر پر زور کی بارش ہوجائے اور وہ بارش اس پتھر کو بالکل صاف کر کے چھوڑ دے یعنی جیسا تھا ویسا ہی کر دے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو اپنی کمائی میں سے کچھ بھی نفع حاصل نہ ہوگا اور یہ لوگ اپنے کئے ہوئے کاموں سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکیں گے اور ا ن کی کمائی ذرا بھی ان کے ہاتھ نہ لگے گی اور اللہ تعالیٰ ایسے منکر اور ناسپاس لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ (تیسیر) صفوان صاف چکنا اور سخت پتھر، جو حجم میں بڑا ہو، صلد بالکل صاف پتھر جس پر کوئی غبار وغیرہ نہ ہو، وابل، موٹی موٹی بوندوں کی تیز اور بکثرت بارش ، چونکہ بارش کے مختلف حالات ہوتے ہیں ، کبھی پھوار، کبھی ذرا تیز، کبھی بہت زور کی، اس لئے عرب کے لوگ ہر قسم کی بارش کا علیحدہ علیحدہ نام رکھتے ہیں۔ ترتیب یوں ہے (رش، طش، طل، نفخ، ھطل ، ویل) اوپر کی آیت میں من اور اذی کی تفصیل ہم عرض کرچکے ہیں اس آیت میں بھی اگر ایذا رسانی کو عام لے لیا جائے اور ہر قسم کی ایذا رسانی مراد ہو تو من کے معنی یہ ہوں گے کہ لوگوں پر احسان جتاتا پھرے، جیسے بعض شیخی خوروں کی عادت ہوتی ہے کہ میں نے یہ کیا اور میں نے وہ کیا یا یہ کہ صدقہ دے کر اللہ پر احسان رکھے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس کا یہی قول ہے اور اگر ایذا رسانی کو عام نہ لیا جائے تو پھر یہ مطلب ہوگا کہ سائل پر احسان جتا کر اور سا کو ایذا پہنچا کر اپنے صدقات کو باطل نہ رو اور ابطال ثواب کے لئے دونوں باتوں کا ہونا ضروری نہیں بلکہ صرف احسان جتانا یا فقط تکلیف پہنچانا بھی ابطال اجر کے لئے کافی ہے اسی لئے ہم نے تیسری میں وائو کا ترجمہ یا کیا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان دونوں باتوں میں سے ہر ایک بات ثواب کو کھو دیتی ہے۔ صدقات کے باطل ہوجانے سے مراد ثواب کا باطل ہوجانا ہے ثواب کے باطل ہوجانے میں کئی قول ہیں۔ بعض حضرات نے کہا ہے احسان جتانے یا تکلیف پہنچانے سے ثواب ضائع ہوجاتا ہے اور گناہ قائم ہوجاتا ہے بعض نے کہا نہ ثواب ہوتا ہے اور نہ گناہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آیت میں ابطال سے ثواب کا بڑھنا اور زیادہ ہونا مراد ہے مطلب یہ ہے کہ ثواب کا بڑھنا باطل ہوجاتا ہے اور احسان جتانے کا گناہ باقی رہتا ہے کرخی نے اسی کو راجح کہا ہے ۔ (واللہ اعلم) خلاصہ یہ ہے کہ کسی نیکی اور طاعت کی صحت اور بقا کے لئے کچھ شرطیں ہیں۔ مثلا ً ہر انسان کے لئے طاعت کی صحت اور بقا کے لئے ایمان شرط ہے اگر ایمان نہ ہو تو نہ نیکی صحیح ہے اور نہ اس کا ثواب باقی ہے چناچہ کافر کسی نیکی کا کوئی ثمرہ نہیں اگر کوئی مسلمان مرتد ہوجائے تو اس کے تمام نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے اسی کو حبط کہتے ہیں پھر جس طرح طاعت کی صحت و بقا کے لئے ایمان شرط ہے اسی طرح ایمان کے بعد کچھ اور بھی قیود ہیں۔ مثلاً ایک مسلمان کی طاعت جب صحیح ہو گ جب اس میں اخلاص ہو۔ اسی طرح کسی طاعت مثلاً صدقہ کا ثواب جب باقی رہے گا۔ جب اس میں من اور اذی نہ ہو، لہٰذا منافق کا صدقہ تو اس وجہ سے باطل ہوا کہ وہاں ایمان ہی نہ تھا اور مومن کے صدقات کا اجر اس لئے ضائع ہوا کہ وہاں اخلاص اور ترک من و اذی موجود نہ تھا، اگر اخلاص ہو تو صدقہ صحیح ہوگا لیکن ترک من و اذی نہ ہو تو صدقہ کا ثواب باقی نہ رہے گا، لہٰذا منافق کی طاعت تو شرط صحت یعنی ایمان کے موجود نہ ہونے سے ضائع ہوئی اور مسلمان کی طاعت اگرچہ ایمان کی وجہ سے صحیح تو ہوئی لیکن شرط بقا یعنی ترک من و اذی کے موجود نہ ہونے سے ضائع ہوئی اور اس کو بقا میسر نہ ہوا۔ اس موقعہ پر بعض معتزلہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ سیات بھی کفر کی طرح حسنات کو ضائع کر دیا کرتے ہیں جیسا کہ من اور اذی نے صدقہ کے اجر کو باطل کردیا، ہم نے جو تقریر اوپر کی ہے اس سے معتزلہ کا یہ استدلال بیکار ہوجاتا ہے کیونکہ کسی مخصوص حسنہ میں اگر بقا کی شرط مفقود ہوجانے کی وجہ سے اس حسنہ کو کوئی مخصوص سیہ حبط اور باطل کر دے تو اس مخصوص جزیہ سے معتزلہ کا وہ کلیہ کس طرح ثابت ہوسکتا ہے کہ ہر سیئہ ہر حسنہ کو اسی طرح ضائع کردیتی ہے جس طرح کفر اور ارتداد حسنات کو ضائع کردیتا ہے اس مقام پر اس تقریر کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے جو فقیر نے پہلے پارے میں بلے من کسب سیہ و احاطت بہ خطیئہ کی تفسیر کرتے ہوئے عرض کی تھی اور یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ یہاں شرط بقا کے مفقود ہونے کی وجہ سے مسلمان کا ثواب ضائع ہوا۔ یہ مطلب نہیں کہ ہر سیئہ ہر حسنہ کے لئے موجب حبط ہے اور یہاں منافق و ریا کار کے ساتھ تشبیہہ بھی صرف اس بات میں ہے کہ ثواب سے دونوں محروم رہے اگرچہ مشبہ بہ میں محرومی کی وجہ نفاق اور ریا ہے اور مشبہ کی محرومی کی وجہ من اور اذی ہے یہ اس وقت ہے جب مشبہ مومن اور مشبہ بہ منافق ہو اور اگر مشبہ بہ کافرو منافق نہ ہو اور عدم ایمان باللہ اور عدم ایمان بالآخر ت کی قید … حقیقی نہ ہو جیسا کہ بعض نے کہا ہے تو پھر مطلب یہ ہوگا کہ ریا کار ہونا مومن کی شان سے بعید ہے اور ریا کاری منافق کے قابل ہے، مشبہ اور مشبہ بہ میں عقائد کا فر ق نہ ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اور اوپر مثال فرمائی خیرات کی جیسے ایک دانہ بویا اور سات بالیں نکلیں سات سودا نے ملے یہاں فرمایا کہ نیت شرط ہے اگر دکھاوے کی نیت سے خرچ کیا تو جیسے دانہ بویا پتھر میں جس پر تھوڑی سی مٹی نظر آتی تھی جب مینہ پڑا تو وہ صاف ہوگیا اس میں کیا اگے گا۔ (موضح القرآن) بغوی نے محمود بن لبید سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مجھ کو تمہارے متعلق بڑا خطرہ شرک اصغر کا ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ شرک اصغر کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ دیا ہے جس دن بندوں کو ان کے اعمال کا صلہ ملے گا تو اس دن اللہ تعالیٰ ریا کاروں سے فرمائے گا تم ان ہی لوگوں کے پاس جائو جن کے دکھانے کو اعمال کیا کرتے تھے، اپنا ثواب ان ہی سے حاصل کرو۔ بعض حضرات نے معتزلہ کا رد اور طریقہ پر بھی کیا ہے۔ ہم نے صرف مختصراً یہاں اپنے اکابر سے سنی ہوئی تقریر کو دہرا دیا ہے اگر کسی صاحب کو مزید تحقیق مطلوب ہو تو وہ روح البیان اور روح المعانی اک مطالعہ فرمائیں۔ اب آگے ان مخلصین کی خیرات کا ذکر فرماتے ہیں جو محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنے نفس کو طاعات الٰہی پر آمادہ کرنے کی غرض سے صدقہ دیتے ہیں۔ (تسہیل)