Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 268

سورة البقرة

اَلشَّیۡطٰنُ یَعِدُکُمُ الۡفَقۡرَ وَ یَاۡمُرُکُمۡ بِالۡفَحۡشَآءِ ۚ وَ اللّٰہُ یَعِدُکُمۡ مَّغۡفِرَۃً مِّنۡہُ وَ فَضۡلًا ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۸﴾ۖۙ

Satan threatens you with poverty and orders you to immorality, while Allah promises you forgiveness from Him and bounty. And Allah is all-Encompassing and Knowing.

شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالٰی تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اللہ تعالٰی وسعت والا اور علم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاء وَاللّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلً ... Shaytan threatens you with poverty and orders you to commit Fahishah'; whereas Allah promises you forgiveness from Himself and bounty, and Allah is All-Sufficient for His creatures' needs, All-Knower. Ibn Abi Hatim recorded that Abdullah bin Mas`ud said that the Messeng... er of Allah said, إِنَّ لِلشَّيْطَانِ لَمَّةً بِابْنِ ادَمَ وَلِلْمَلَكِ لَمَّةً فَأَمَّا لَمَّةُ الشَّيطَانِ فَإِيعَادٌ بِالشَّرِّ وَتَكْذِيبٌ بِالْحَقِّ وَ أَمَّا لَمَّةُ الْمَلَكِ فَإِيعَادٌ بِالْخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالْحَقِّ فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ فَلْيَعْلَمْ أَنَّهُ مِنَ اللهِ فَلْيَحْمَدِ اللهَ وَمَنْ وَجَدَ الاُْخْرَى فَلْيَتَعَوَّذْ مِنَ الشَّيْطَان Shaytan has an effect on the son of Adam, and the angel also has an effect. As for the effect of Shaytan, it is by his threatening with evil repercussions and rejecting the truth. As for the effect of the angel, it is by his promise of a good end and believing in the truth. Whoever finds the latter, let him know that it is coming from Allah and let him thank Allah for it. Whoever finds the former, let him seek refuge - with Allah - from Shaytan. The Prophet then recited, الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاء وَاللّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلً Shaytan threatens you with poverty and orders you to commit Fahishah'; whereas Allah promises you forgiveness from Himself and bounty. This is the narration that At-Tirmidhi and An-Nasa'i collected in the book of Tafsir in their Sunan collections. Allah said, الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ ... Shaytan threatens you with poverty, so that you hold on to whatever you have and refrain from spending it in Allah's pleasure. ... وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاء ... And orders you to commit Fahishah', meaning, "Shaytan forbids you from spending in charity because of the false fear of becoming poor, and he encourages evil deeds, sins, indulging in what is prohibited, and immoral conduct." Allah said, ... وَاللّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ ... Whereas Allah promises you forgiveness from Himself, instead of the evil that Shaytan enjoins on you. ... وَفَضْلً ... And Bounty, as opposed to the poverty that Shaytan frightens you with. ... وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ And Allah is All-Sufficient for His creatures' needs, All-Knower. The Meaning of Al-Hikmah Allah said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

268۔ 1 یعنی بھلے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہے کہ مفلس اور قلاش ہوجاؤ گے لیکن برے کام پر خرچ کرنا ہو تو ایسے اندیشوں کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتا بلکہ ان برے کاموں کو اس طرح سجا اور سنوار کر پیش کرتا ہے جس پر انسان بڑی سے بڑی رقم بےدھڑک خرچ کر ڈالتا ہے دیکھا گیا ہے کہ مسجد، مدرسے یا اور کس... ی کار خیر کے لئے کوئی چندہ لینے پہنچ جائے تو صاحب مال سو دو سو کے لئے بار بار اپنے حساب کی جانچ پڑتال کرتا ہے مانگنے والے کو بسا اوقات کئی کئی بار دوڑاتا اور پلٹاتا ہے لیکن یہی شخص سینما شراب، بدکاری اور مقدمے بازی وغیرہ کے جال میں پھنستا ہے تو اپنا مال بےتحاشہ خرچ کرتا ہے اور اسے کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تردد کا ظہور نہیں ہوتا۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨٤] معلوم ہوا کہ اگر صدقہ کرتے وقت کسی کے دل میں احتیاج، دوسری ضرورتوں اور مفلسی یا کسی بری بات کا خیال آئے تو یہ شیطانی وسوسہ ہوتا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ شیطان کی تو ہم نے کبھی صورت تک نہیں دیکھی۔ اس کا حکم قبول کرنا دور کی بات ہے اور اگر کسی کو ایسا خیال آئے کہ اس سے گناہ معاف ہوں گے اور مال...  میں بھی ترقی اور برکت ہوگی تو سمجھ لے کہ یہ بات اللہ کی طرف سے القاء ہوتا ہے۔ چناچہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ 39؀) 34 ۔ سبأ :39) یعنی تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا فرما دے گا۔ کیونکہ اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : ہر روز صبح کے وقت دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک اس طرح دعا کرتا ہے : اے اللہ خرچ کرنے والے کو اور زیادہ عطا کر اور دوسرا اس طرح بددعا کرتا ہے : اے اللہ ! ہاتھ روکنے والے کو تلف کر دے۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ۔ باب قول اللہ عزوجل فاما من اعطی واتقی و صدق بالحسنی۔۔ الخ )   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بِالْفَحْشَاۗءِ ۚ : کوئی بھی قول یا فعل جس میں بہت بڑی قباحت ہو (راغب) مثلاً زنا، قوم لوط کا عمل وغیرہ، یہاں بہت قبیح درجے کا بخل مراد ہے۔ اوپر کی آیت میں عمدہ مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی تھی، اب یہاں شیطان کے وسوسے سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ( رازی) اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ :...  یعنی انسان کے دل میں وہم اور وسوسے پیدا کرتا رہتا ہے کہ اگر نیک کاموں میں خرچ کرو گے تو فقیر ہوجاؤ گے اور ” فَحْشَاءُ “ یعنی شرمناک بخل کی ترغیب دیتا اور اس پر اکساتا رہتا ہے۔ ” فَحْشَاءُ “ سے بےحیائی اور بدکاری کے کام بھی مراد ہوسکتے ہیں کہ شیطان ان میں مال صرف کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ صدقہ و خیرات تمہارے گناہوں کا کفارہ بھی ہوگا اور اس پر تمہیں کئی گنا زیادہ اجر بھی ملے گا اور مال میں برکت بھی ہوگی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہر روز جب بندے صبح کرتے ہیں تو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک دعا کرتا ہے، اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اس کی جگہ اور دے اور دوسرا بد دعا کرتا ہے کہ اے اللہ ! (ہاتھ) روکنے والے کے مال کو تلف کر دے۔ “ [ بخاری، الزکاۃ، باب قول اللہ تعالیٰ : ( فأما من أعطی۔۔ ) : ١٤٤٢، عن أبی ہریرۃ (رض) ] اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَّالٍ ) ” صدقہ مال کو کچھ بھی کم نہیں کرتا۔ “ [ مسلم، البروالصلۃ، باب استحباب العفو والتواضع : ٢٥٨٨، عن أبی ہریرۃ (رض) ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

(2) Verses 268-269: وَمَا يَذَّكَّرُ‌ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ‌ (الٰی قولہ): |"Satan frightens you of poverty ... and only the men of understanding do observe the advice.|" When a person is obsessed with the idea that spending in charity will cause him poverty, when he does not pick up the courage to go ahead and spend - even after hearing the warning of Allah...  Almighty - and continues feeling that he should not spend out of what he has, and when, turning away from the Divine promise, his mind takes him to rely on the promise of Satan, he should better be sure that this apprehension of his is being generated by Satan. He should never say that he has never seen Satan, so how could he take orders from him? Conversely, should he come to think that not only his sins will be forgiven by spending in charities, but also his wealth will be blessed with increase - he should then be sure that this thought has come from Allah for which he should be grateful to Him. Allah&s treasure never runs short. He knows fully well - the open, the hidden, the intentions, the deeds - everything about everyone.  Show more

اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ (الیٰ قولہ) وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ جب کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ اگر کروں گا تو مفلس ہوجاؤں گا اور حق تعالیٰ کی تاکید سن کر بھی اس کی ہمت نہ ہو اور دل چاہے کہ اپنا مال خرچ نہ کرے اور وعدہ الہٰی سے اعراض کرکے وعدہ شیطانی پر طبیعت کو میلان اور...  اعتماد ہو تو اس کو یقین کرلینا چاہئے کہ یہ مضمون شیطان کی طرف سے ہے، یہ نہ کہے کہ شیطان کی تو ہم نے کبھی صورت بھی نہیں دیکھی حکم کرنا تو درکنار رہا اور اگر یہ خیال آوے کہ صدقہ و خیرات سے گناہ بخشے جائیں گے اور مال میں بھی ترقی اور برکت ہوگی تو جان لے کہ یہ مضمون اللہ کی طرف سے آیا ہے، اور خدا کا شکر کرے اور اللہ کے خزانے میں کمی نہیں سب کے ظاہر و باطن نیت وعمل کو خوب جانتا ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ۝ ٠ ۚ وَاللہُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا۝ ٠ ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝ ٢٦٨ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه ز... ائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ فقر الفَقْرُ يستعمل علی أربعة أوجه : الأوّل : وجود الحاجة الضّرورية، وذلک عامّ للإنسان ما دام في دار الدّنيا بل عامّ للموجودات کلّها، وعلی هذا قوله تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر/ 15] ، وإلى هذا الفَقْرِ أشار بقوله في وصف الإنسان : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] . والثاني : عدم المقتنیات، وهو المذکور في قوله : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة/ 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة/ 273] ، إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور/ 32] . وقوله : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة/ 60] . الثالث : فَقْرُ النّفس، وهو الشّره المعنيّ بقوله عليه الصلاة والسلام : «كاد الفَقْرُ أن يكون کفرا» «1» وهو المقابل بقوله : «الغنی غنی النّفس» «1» والمعنيّ بقولهم : من عدم القناعة لم يفده المال غنی. الرابع : الفَقْرُ إلى اللہ المشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : ( اللهمّ أغنني بِالافْتِقَارِ إليك، ولا تُفْقِرْنِي بالاستغناء عنك) «2» ، وإيّاه عني بقوله تعالی: رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] ، وبهذا ألمّ الشاعر فقال : 354- ويعجبني فقري إليك ولم يكن ... ليعجبني لولا محبّتک الفقر ويقال : افْتَقَرَ فهو مُفْتَقِرٌ وفَقِيرٌ ، ولا يكاد يقال : فَقَرَ ، وإن کان القیاس يقتضيه . وأصل الفَقِيرِ : هو المکسورُ الْفِقَارِ ، يقال : فَقَرَتْهُ فَاقِرَةٌ ، أي داهية تکسر الفِقَارَ ، وأَفْقَرَكَ الصّيدُ فارمه، أي : أمكنک من فِقَارِهِ ، وقیل : هو من الْفُقْرَةِ أي : الحفرة، ومنه قيل لكلّ حفیرة يجتمع فيها الماء : فَقِيرٌ ، وفَقَّرْتُ للفسیل : حفرت له حفیرة غرسته فيها، قال الشاعر : ما ليلة الفقیر إلّا شيطان فقیل : هو اسم بئر، وفَقَرْتُ الخَرَزَ : ثقبته، وأَفْقَرْتُ البعیر : ثقبت خطمه . ( ف ق ر ) الفقر کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا اس اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر و محتاج ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر/ 15] لوگو ! تم سب خدا کے محتاج ہو ۔ اور الانسان میں اسی قسم کے احتیاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں ۔ ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا چناچہ اس معنی میں فرمایا : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة/ 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة/ 273] تو ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کے راہ میں رے بیٹھے ہیں ۔إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور/ 32] اگر وہ مفلس ہونگے تو خدا ان گو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں اور محتاجوں ۔۔۔ کا حق ہے ۔ فقرالنفس : یعنی مال کی ہوس۔ چناچہ فقر کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : کا دالفقر ان یکون کفرا ۔ کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر کی حد تک پہنچادے اس کے بلمقابل غنی کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنیٰ عنی النفس کو غنا تو نفس کی بےنیازی کا نام ہے ۔ اور اسی معنی میں حکماء نے کہا ہے ۔ من عدم القناعۃ لم یفدہ المال غنی جو شخص قیامت کی دولت سے محروم ہوا سے مالداری کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج جس کی طرف آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (73) اللھم اغننی بالافتقار الیک ولا تفتونی بالاستغناء عنک ( اے اللہ مجھے اپنا محتاج بناکر غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کرکے فقیر نہ بنا ) اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (342) ویعجبنی فقری الیک ولم یکن لیعجبنی لولا محبتک الفقر مجھے تمہارا محتاج رہنا اچھا لگتا ہے اگر تمہاری محبت نہ ہوتی تو یہ بھلا معلوم نہ ہوتا ) اور اس معنی میں افتقر فھو منتقر و فقیر استعمال ہوتا ہے اور فقر کا لفظ ) اگر چہ قیاس کے مطابق ہے لیکن لغت میں مستعمل نہیں ہوتا ۔ الفقیر دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو چناچہ محاورہ ہے ۔ فقرتہ فاقرہ : یعنی مصیبت نے اس کی کمر توڑدی افقرک الصید فارمہ : یعنیشکار نے تجھے اپنی کمر پر قدرت دی ہے لہذا تیر ماریئے بعض نے کہا ہے کہ یہ افقر سے ہے جس کے معنی حفرۃ یعنی گڑھے کے ہیں اور اسی سے فقیر ہر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ فقرت اللفسیل : میں نے پودا لگانے کے لئے گڑھا کھودا شاعر نے کہا ہے ( الرجز) (343) مالیلۃ الفقیر الاالشیطان کہ فقیر میں رات بھی شیطان کی مثل ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں الفقیر ایک کنویں کا نام ہے۔ فقرت الخرز : میں نے منکوں میں سوراخ کیا ۔ افقرت البیعر اونٹ کی ناک چھید کر اس میں مہار ڈالنا ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے فحش الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] ( ف ح ش ) الفحش والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (الشیطان یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشاء، (a) شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے) اس کے متعلق ایک قول ہے کہ لفظ فحشاء، (a) کا اطلاق کئی معانی پر ہوتا ہے لیکن اس جگہ اس سے مراد بخل ہے۔ عرب کے لوگ بخیل کو ’ فاحش ‘ (a) اور بخل کو ’ فحش ‘ (a) کہتے ہیں۔...  ایک شاعر کا شعر ہے۔ ادی الموت یعتام الکرام ویصطفی عقیلۃ مال الفاحش المتشدد (a) میں موت کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ عمدہ صفات کے حامل افراد کو چن لیتی ہے۔ یعنی انہیں جلد موت آجاتی ہے جس طرح کہ سخت قسم کے بخیل انسان کے مال مویشی میں سے عمدہ جانور چن لئے جائیں۔ یہاں شاعر نے الفاحش کو بخیل کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ اس آیت میں بخیل اور بخل دونوں کی مذمت کی گئی ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦٨) شیطان صدقہ وخرات کے وقت تمہیں محتاجی سے ڈراتا ہے اور اس طریقہ پر زکوٰۃ سے منع کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ زکوٰۃ و خیرات کی ادائیگی پر گناہوں کی معافی، اموال کی زیادتی اور آخرت میں ثواب کا وعدہ فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بخششوں اور گناہوں کی معافی میں بہت وسعت اور فراخی والے اور تمہاری نیتوں اور تمہ... ارے صدقات کو اچھی طرح جاننے والے ہیں۔ شان نزول : یا ایھا الذین امنوا انفقوا (الخ) امام حاکم (رح) ، ترمذی (رح) ، ابن ماجہ (رح) وغیرہ نے حضرت براء (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ہم انصاریوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ ہم کھجوروں کے باغوں والے تھے ہم میں سے ہر ایک شخص اپنی کھجوروں میں سے ان کی کمی زیادتی کے لحاظ سے اللہ کی راہ میں دینے کے لیے لایا کرتا تھا اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ وہ اس قسم کے نیک کاموں میں کوئی خاص دلچسپی کا اظہار کرتے تھے چناچہ ان میں سے کوئی شخص ایسا خوشہ لے کر آتا تھا جس میں معمولی اور ہلکی قسم کی کھجوریں لگی ہوتی تھیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی کہ اے ایمان والو اپنی کمائی میں سے بہترین چیز خرچ کرو۔ “۔ اور ابوداؤد (رح) نسائی (رح) اور حاکم (رح) نے سہل بن حنیف (رح) سے روایت کیا ہے کہ لوگ اپنے پھلوں میں سے برا اور ردی پھل صدقہ و خیرات کے لیے نکالا کرتے تھے، اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ ” بےکار چیز کی طرف نیت مت لے جایا کرو کہ اس میں سے تم خرچ کرو “۔ اور امام حاکم (رح) نے جابر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں کھجوروں کا ایک صاع دینے کا حکم فرمایا تو ایک شخص ردی کھجوریں لے کر آیا، اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ” یا ایھا الذین امنوا (الخ) اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) کھانے کی سستی چیزیں خرید کر ان کو صدقہ کیا کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦٨ (اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بالْفَحْشَآءِ ج) (وَاللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلاً ط) اب دیکھ لو ‘ تمہیں کون سا طرز عمل اختیار کرنا ہے : ؂ رُخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے ! شیطان تمہیں اللہ کی راہ می... ں خرچ کرنے سے روکتا ہے کہ اس طرح تمہارا مال کم ہوجائے گا اور تم فقر و فاقہ میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ اب اگر واقعی تم یہ خوف رکھتے ہو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ پر فقر آجائے ‘ لہٰذا مجھے اپنا مال سنبھال سنبھال کر ‘ سینت سینت کر رکھنا چاہیے تو تم شیطان کے جال میں پھنس چکے ہو ‘ تم اس کی پیروی کر رہے ہو۔ اور اگر تم نے اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے کہ وہ میری ساری حاجتیں آج بھی پوری کر رہا ہے ‘ کل بھی پوری کرے گا (اِن شاء اللہ) تو اللہ کی طرف سے مغفرت اور فضل کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ (وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) تم اس کے خزانوں کی محدودیتّ کا کوئی تصور اپنے ذہن میں نہ رکھو۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:268) یعدکم الفقر۔ یعد فعل کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر الفقر مفعول ثانی۔ یعد مضارع واحد مذکر غائب وعد (باب ضرب) مصدر بمعنی ڈرانا۔ وہ تم کو محتاجی سے ڈراتا ہے وہ تم کو تنگ دستی کا خوف دلاتا ہے۔ الفقر۔ اسم فعل اور مصدر۔ تنگ دستی۔ ناداری۔ مفلسی۔ محتاجی۔ امام راغب نے لکھا ہے کہ فقہ کا استعمال چار طور...  پر ہوا ہے :۔ (1) زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا۔ اسی اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر (محتاج) ہے۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا ہے : یایھا الناس انتم الفقراء الی اللہ (35:15) لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو۔ (2) ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا۔ مثلاً للفقراء الذین احصروا ۔۔ من التفعع (2:273) تو ان حاجتمندوں کے لئے جو خدا کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں۔ (3) فقر نفس۔ یعنی مال کی ہوس ۔ کتنا ہی مال ہو مگر نفس حریص رہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ : کاد الفقران یکون کفرا (کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر تک پہنچا دے) ۔ (4) اللہ کی طرف احتیاج۔ ایسا فقر ہر آدمی ہر جانور بلکہ کائنات کی ہر چیز میں ہے سب اللہ کے محتاج ہیں۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے : رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر (28:24) اے میرے پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے۔ الفخشائ۔ اسم تفضیل واحد مؤنث اس سے واحد مذکر افحش آئے گا اور جمع فحش۔ فحش مادہ بھی ہے۔ بمعنی برا کام ۔ وہ قول و عمل جس کی برائی کھلی ہو۔ اور اس کا سننا یا کرنا برا لگے۔ بےحیائی امر قبیح، بمعنی زنا بھی آیا ہے۔ واللہ یعدکم۔ اوپر آیا ہے۔ الشیطن یعدکم الفقر۔ شیطان تمہیں محتاجی سے ڈراتا ہے یہاں ارشاد ہے واللہ یعدکم مغفرۃ۔ اور اللہ تم سے مغفرت کا وعدہ کرتا ہے۔ وعد یعد بمعنی ڈرانا اور وعدہ کرنا ہر دو معنی میں مستعمل ہے۔ فضلا۔ اسم فعل (حالت بوجہ مفعول) فضل کے معنی ہیں مہربانی۔ برتری، بڑھوتری، مال ، قوت، حسن، رتبہ، عزت، حکومت، عقل، علم، حلم وغیرہ میں زیادتی۔ واسع۔ اسم فاعل۔ واحد مذکر۔ سعۃ مصدر باب سمع۔ وسیع فضل والا۔ کشادہ بخشش والا ۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ علیم۔ فعیل کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ بڑا دانا۔ خوب جاننے والا۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اوپر کی آیت میں عمدہ مال خرچ کرنے کی تر غیب دی گئی تھی۔ اب یہاں شیطان کے وسوسہ سے ہو شیار رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ (کبیر) ڈراتا ہے محتا جی سے " یعنی انسان کے دل میں وہم اور سوسہ سے پیدا کرتا رہتا ہے کہ اگر نیک کاموں میں خرچ کروگے تو فقیر ہوجاؤ گے اور فحشاء یعنی بخل کی ترغیب دیتا ہے اور اس پر ... اکساتا رہتا ہے۔ اور فحشاء سے بدکاری اور بےحیائی کے کام بھی مراد ہوسکتے ہیں کہ شیطان ان میں مال صرف کرنے کی ترغیب دیتا ہے مگر اس کے مقا بلہ میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ صدقہ خیرات تمہارے گناہوں کا کفارہ بھی ہوگا اور اس پر کئی گنا زیادہ اجر بھی ملے گا اور مال میں برکت بھی ہوگی۔ حدیث میں ہے کہ ہر رات فرشتہ پکارتا ہے الھم اعاط کل منفق خلفا کہ اے اللہ خرچ کرنے والے کو اور زیادہ دے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا (ابن کثیر۔ رازی )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

شیطان تمہیں فقر اور تنگ دستی کا خوف دلاتا ہے ۔ اس وجہ سے تمہارے نفوس کے اندر حرص ، بخل پیدا کرتا ہے ۔ شیطان تمہیں فحاشی کا حکم دیتا ہے ۔ عربی زبان میں فحاشی ہر اس معصیت کو کہتے ہیں ، جس میں انسان حد سے تجاوز کرجائے ۔ اگرچہ زیادہ تر اس کا استعمال ایک خاص معصیت میں ہوتا ہے ۔ تاہم یہ لفظ عام ہے ۔ تنگدس... تی کا یہ خوف ہی تھا ، جس کی وجہ سے ایام جاہلیت میں اقوام عرب اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے جو ایک قسم کی فحاشی تھی ۔ اسی طرح زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کا جذبہ انہیں سود خوری پر آمادہ کرتا تھا ۔ جو ایک قسم کی فحاشی تھا ۔ نیز یہ خوف کہ انفاق فی سبیل اللہ سے وہ تنگدست ہوجائیں گے بجائے خود فحاشی ہے ۔ ایک طرف شیطان تمہیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور فحشاء پر آمادہ کرتا ہے ، جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ تمہیں مغفرت کا یقین دلاتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ پر وہ تمہیں اجر عطا کرے گا وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلا ................ ” لیکن اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے۔ “ یہاں لفظ مغفرت کو پہلے لایا گیا ہے ، اس لئے کہ کہ فضل وکرم مغفرت کے بعد ہوتا ہے ۔ اور اس فضل وکرم میں اس سرزمین پر وسائل رزق بھی شامل ہیں یعنی بطور جزائے انفاق فی سبیل اللہ اس دنیا میں بھی رزق فراواں ہوگا ۔ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ................ ” اللہ بہت بڑا فراخ دست اور دانا ہے۔ “ وہ اپنی وسعت اور فراخ دستی سے عطا کرتا ہے ، وہ تمام دلی خلجانات کو بخوبی جانتا ہے ۔ وہ انسانی ضمیر کے تمام میلانات اور رجحانات سے بھی واقف ہے ، اس لئے وہ فقط مال ہی عطا نہیں کرتا ، فقط مغفرت ہی نہیں کرتا بلکہ وہ حکمت ودانشمندی بھی عطا کرتا ہے۔ اور دانشمندی اور حکمت سے انسان میں توازن اور اعتدال پیدا ہوتا ہے ۔ انسان اسباب اور مقاصد کے ادراک سے بہرہ ور ہوتا ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں انسان ہر چیز کو ماہیت کے مطابق مقام عطا کرتا ہے ۔ اور وہ تمام فیصلے فہم و فراست کے ساتھ سوچ سمجھ کر کرتا ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

شیطان تنگدستی سے ڈراتا ہے اور اللہ تعالیٰ مغفرت اور فضل کا وعدہ فرماتا ہے اس آیت شریفہ میں ہدایت فرمائی ہے کہ شیطان کے بہکانے اور ڈرانے میں نہ آئیں جب تم اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ارادہ کرو گے تو شیطان تمہارے دل میں وسوسے ڈالے گا۔ اور یوں کہے گا کہ صدقہ دو گے تو مال کم ہوجائے گا۔ تنگدستی آجائے گی...  اپنی کل کی ضرورت کے لیے مال بچا کر رکھو، بچوں کے کام آئے گا، اگر خرچ کرنے ہی لگو گے تو پھر وہ گھٹیا مال خرچ کرنے کی ترغیب دے گا وہ تنگدستی سے ڈراتا ہے۔ بخل پر ابھارتا ہے اور اس کے علاوہ بےحیائی کے کاموں کا بھی حکم کرتا ہے وہ گناہوں کی ترغیب دیتا ہے، تم اس کے کہنے میں نہ آؤ، اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھو، اس نے تم سے جو مغفرت اور فضل کا وعدہ فرمایا ہے اس کے امید اوار رہو اور یقین جانو کہ وہ اپنے سب وعدے پورے فرمائے گا، اپنے خالق ومالک کے وعدوں کو بھول جانا اور دشمن شیطان کی باتوں میں آجانا سمجھ داری کی بات نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تھوڑا سا دو گے تو بہت ملے گا آخرت میں تو اجر وثواب ہے ہی دنیا میں بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بڑے بڑے منافع ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن پر میں قسم کھاتا ہوں ایک تو یہ ہے کہ صدقہ کرنے سے کسی بندہ کا مال کم نہ ہوگا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جس کسی بندہ پر بھی ظلم کیا جائے وہ اس پر صبر کرلے گا تو اللہ اس کی وجہ سے اس کو ضرور عزت عطا فرمائے گا اور تیسری بات یہ ہے کہ جو بھی شخص بندوں سے مانگنے کا دروازہ کھولے گا تو اس کے لیے ضرور تنگدستی کا دروازہ کھل جائے گا۔ (رواہ الترمذی کمافی المشکوٰۃ ص ٤٥١ ج ١) زکوٰۃ اور صدقات سے مال گھٹتا نہیں ہے بڑھتا ہی ہے اور اس سے مال کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اپنے مالوں کو زکوٰۃ ادا کرکے ضائع ہونے سے محفوظ کرو اور اپنے مریضوں کے علاج کے لیے صدقہ دیا کرو (کیونکہ یہ بہت بڑا علاج ہے) اور مصیبت کی موجوں کا مقابلہ دعاء سے اور تضرع وزاری سے کرو۔ (رواہ ابو داؤد فی المراسیل) حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ابن آدم تو (مخلوق پر) خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ (صحیح بخاری) حضرت اسماء (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم خرچ کرتی رہو اور گن کر مت رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی گن کر دے گا اور بند کرکے نہ رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی اپنی داد و دہش بند فرما دے گا جو بھی تھوڑا بہت ہو خرچ کرتی رہو۔ (صحیح بخاری ص ١٩٣ ج ١) شیطان چاہتا ہے کہ اللہ کے بندے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کریں نفس بھی ہچکچاتا ہے کہ خرچ ہوجائے گا تو آگے کیا ہوگا، کہاں سے آئے گا اور ایسے ہی وقت میں صدقہ کرنے کی زیادہ فضیلت ہے جبکہ نفس کنجوسی کی طرف جاتا ہو۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ کونسا صدقہ ثواب سے اعتبار سے زیادہ بڑا ہے۔ آپ نے فرمایا ایسا صدقہ کہ صدقہ کرتے وقت تندرست ہو۔ (مرض الموت میں نہ ہو) خرچ کرنے کو دل نہ چاہتا ہو۔ تنگدستی سے ڈرتا ہو اور پیسہ پاس رکھنے کی آرزو رکھتا ہو یہ صدقہ ثواب کے اعتبار سے سب سے بڑا ہے اور خرچ کرنے میں تو دیر نہ لگا یہاں تک کہ جب موت آجائے اور جان حلق کو پہنچ جائے تو کہنے لگے کہ فلاں کو اتنا اور فلاں کو اتنا (اب فلاں کو کیا دلوا رہا ہے) اب تو دوسروں کا ہو ہی چکا۔ (صحیح بخاری ص ١٩١ ج ١) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی تو اس کی وجہ سے مال کا شر چلا گیا (یعنی مال کی وجہ سے جس کسی شرکا اندیشہ تھا اس سے حفاظت ہوگئی) ۔ (الترغیب و الترہیب ص ٥١٩ ج ١) شیطان انسان کا بہت بڑا دشمن ہے یہی نہیں کہ صرف اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے روکتا ہے بلکہ طرح طرح کی مشکلات سامنے لا کر پریشان کرتا ہے اور ڈراتا ہے اور حق کو جھٹلاتا ہے اور بندوں کے ایمان کو متزلزل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بنی آدم کے دل پر شیطان کی پہنچ بھی ہوتی ہے اور فرشتے کا نزول بھی ہوتا ہے۔ شیطان (تنگدستی وغیرہ سامنے لا کر) ڈراتا ہے اور حق کو جھٹلاتا ہے۔ اور فرشتہ خیر کے واقع ہونے کی امیدیں دلاتا ہے اور حق کی تصدیق کرتا ہے۔ سو تم میں سے جو شخص بھی اسے محسوس کرے تو جان لے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے لہٰذا اللہ کی حمد کرے اور جو شخص دوسری بات (یعنی شیطان کی سمجھائی ہوئی چیز) محسوس کرے وہ شیطان سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگے۔ یہ بات فرماکر آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ہی آیت (اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُکُمْ بالْفَحْشَآءِ ) تلاوت فرمائی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٨ ج ١) آیت کے ختم پر فرمایا : ( وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ) کہ اللہ تعالیٰ وسیع رحمت وسیع فضل، وسیع علم والا ہے۔ سب کے صدقات کو اور نیتوں کو جانتا ہے۔ وہ خوب زیادہ دے گا پھر فرمایا (یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآءُ ) کہ اللہ تعالیٰ حکمت عطا فرماتا ہے جس کو چاہے، لفظ حکمت مضبوط چیز کے معنی میں آتا ہے، علم عمل قول جس میں بھی اتقان ہو وہ سب حکمت ہے یہ لفظ قرآن مجید میں بہت سی جگہ وارد ہوا ہے۔ روح المعانی ص ٤١ جَ ٣ میں تفسیر البحر المحیط سے نقل کیا ہے کہ اس میں حضرات علماء کرام کے انتیس (٢٩) اقوال ہیں اور تقریباً سب کا مرجع ایک ہی ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس سے فقہ فی القرآن مراد ہے، حضرت قتادہ وغیرہ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے، حضرت ابو الدرداء (رض) نے فرمایا کہ قرآن کو پڑھنا اور اس میں فکر کرنا یہ حکمت ہے، انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ حکمت سے وہ علم مراد ہے جس کا نفع بہت بڑا ہو اور فائدہ خوب زیادہ ہو، حضرت عطاء نے فرمایا کہ اللہ کی معرفت کا نام حکمت ہے۔ حضرت ابو عثمان نے فرمایا کہ حکمت ایک نور ہے جس کے ذریعہ وساوس اور الہام صحیح میں فرق ہوتا ہے، جو بھی معنی لیا جائے ہر ایک مناسب معلوم ہوتا ہے، بلکہ سب کا مرجع تقریباً ایک ہی ہے، علم محکم اور علم نافع اور عمل صحیح اور قول صحیح اجمالی طور پر یہ معنی مراد لے لیے جائیں تو آیت کا مفہوم واضح ہوجا تا ہے، اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے حکمت عطا فرمائے۔ پھر فرمایا کہ جسے حکمت عطا کی گئی اسے بہت زیادہ خیر عطا کردی گئی، کیونکہ حکمت اس کے لیے دنیا و آخرت کی خیر حاصل ہونے کا ذریعہ بنے گی جس کے اقوال و اعمال ٹھیک ہوں علم محکم کے مطابق ہوں۔ صحیح بخاری ص ١٧ ج ١ میں حضرت ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رشک کے قابل صرف دو ہی آدمی ہیں ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا پھر اسے حق کے کاموں میں خوب زیادہ خرچ کرنے پر مسلط فرمایا دیا، اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے حکمت دی اور وہ اس کے ذریعہ فیصلے کرتا ہے اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ آیت کے ختم پر فرمایا : (وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ ) کہ عقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں جو اوہام سے اور اتباع ھویٰ کی تاریکیوں سے دور ہیں۔ اللہ کی آیات میں غور و فکر کرتے ہیں، اور یہ غور و فکر ان کے لیے ذریعہ موعظت و نصیحت بنتا ہے۔ (وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ) (الآیۃ) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

528 یعد، وعد سے مشتق ہے اور وعد اصل لغت کے اعتبار سے خیر وشر دونوں میں مستعمل ہے۔ یہاں بقرینہ ما بعد شر کے لیے ہے اور اس کے معنی تخویف یعنی ڈرانے کے ہیں اور الفحشاء ہر بری خصلت کو کہتے ہیں۔ مگر یہاں اس سے بخل مراد ہے۔ ای الخصلۃ الفحشاء وھی البخل وترک الصدقات (روح ص 40 جلد 3) المراد بھا فی حذا الموضع...  البخل (جصاص) حضرت شیخ (رح) نے فرمایا کہ فحشاء سے یہاں بخل مراد ہے اور باقی اکثر جگہوں میں اس سے زنا مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شیطان تمہارے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ اگر مال خرچ کریں گے تو دولت کم ہوجائے گی اور مفلس ہوجاؤ گے۔ اس قسم کے وسوسے ڈال کر بخل اور کنجوسی پر اکساتا ہے۔ وَاللّٰهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۭ۔ لیکن اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ مال خرچ کرنے پر گناہوں کی معافی اور دولت میں اضافہ کا وعدہ فرماتا ہے۔ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۔ اللہ تعالیٰ وسعت والا ہے وہ خرچ کرنے کی ہمت اور خرچ کرنے پر فراخی عطا کرتا ہے۔ ور وہ غیب وشہادت کا جاننے والا ہے اسے معلوم ہے کہ کون خرچ کرتا ہے اور کہاں اور کس نیت سے خرچ کرتا ہے۔ والمراد ھنا انہ سبحانہ وتعالیٰ یعطی من سعۃ ویعلم حیث یضع ذالک ویعلم الغیب والشھادۃ (قرطبی ص 329 ج 3)  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi