Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 29

سورة البقرة

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ٭ ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰىہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿٪۲۹﴾  3

It is He who created for you all of that which is on the earth. Then He directed Himself to the heaven, [His being above all creation], and made them seven heavens, and He is Knowing of all things.

وہ اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان کی طرف قصد کیا اور ان کو ٹھیک ٹھاک سات آسمان بنایا اور وہ ہرچیز کو جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Evidence of Allah's Ability After Allah mentioned the proofs of His creating them, and what they can witness in themselves as proof of that, He mentioned another proof that they can witness, that is, the creation of the heavens and earth. Allah said, هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الاَرْضِ جَمِيعاً ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاء فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ... He it is Who created for you all that is on earth. Then He Istawa ila the heaven and made them seven heavens. meaning, He turned towards the heaven, فَسَوَّاهُنَّ (And made them) meaning, that He made the heaven, seven heavens. Allah said, ... فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ And made them seven heavens and He is the Knower of everything. meaning, His knowledge encompasses all His creation, just as He said in another Ayah, أَلاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ Should not He Who has created know! (67:14) The Beginning of the Creation This Ayah (2:29) is explained in detail in Surah As-Sajdah where Allah said; قُلْ أَءِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِى خَلَقَ الاٌّرْضَ فِى يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَاداً ذَلِكَ رَبُّ الْعَـلَمِينَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِىَ مِن فَوْقِهَا وَبَـرَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَأ أَقْوَتَهَا فِى أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّأيِلِينَ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَأءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلٌّرْضِ ايْتِيَا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً قَالَتَأ أَتَيْنَا طَأيِعِينَ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَـوَتٍ فِى يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِى كُلِّ سَمَأءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَأءَ الدُّنْيَا بِمَصَـبِيحَ وَحِفْظاً ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ Say (O Muhammad): "Do you verily disbelieve in Him Who created the earth in two Days And you set up rivals (in worship) with Him! That is the Lord of all that exists. He placed therein (i.e. the earth) firm mountains from above it, and He blessed it, and measured therein its sustenance (for its dwellers) in four Days equal (i.e. all these four `days' were equal in the length of time) for all those who ask (about its creation). Then He Istawa ila the heaven when it was smoke, and said to it and to the earth: "Come both of you willingly or unwillingly." They both said: "We come willingly." Then He finished them (as) seven heavens in two Days and He made in each heaven its affair. And We adorned the nearest (lowest) heaven with lamps (stars) to be an adornment as well as to guard (from the devils by using them as missiles against the devils). Such is the decree of the Almighty, the Knower. (41:9-12). These Ayat indicate that Allah started creation by creating earth, then He made heaven into seven heavens. This is how building usually starts, with the lower floors first and then the top floors, as the scholars of Tafsir reiterated, as we will come to know, Allah willing. Allah also said, أَءَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقاً أَمِ السَّمَأءُ بَنَـهَا رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَـهَا وَالاٌّرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَـهَا أَخْرَجَ مِنْهَا مَأءَهَا وَمَرْعَـهَا وَالْجِبَالَ أَرْسَـهَا مَتَـعاً لَّكُمْ وَلاًّنْعَـمِكُمْ Are you more difficult to create or is the heaven that He constructed He raised its height, and has perfected it. Its night He covers with darkness and its forenoon He brings out (with light). And the earth, after that, He spread it out. And brought forth therefrom its water and its pasture. And the mountains He has fixed firmly. (To be) a provision and benefit for you and your cattle. (79:27-33) It is said that "Then" in the Ayah (2:29) relates only to the order of reciting the information being given, it does not relate to the order that the events being mentioned took place, this was reported from Ibn Abbas by Ali bin Abi Talhah. The Earth was created before Heaven Mujahid commented on Allah's statement, هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الاَرْضِ جَمِيعاً (He it is Who created for you all that is on earth), "Allah created the earth before heaven, and when He created the earth, smoke burst out of it. This is why Allah said, ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاء وَهِيَ دُخَانٌ (Then He Istawa ila (turned towards) the heaven when it was smoke. (41:11), فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ (And made them seven heavens) means, one above the other, while the `seven earths' means, one below the other." This Ayah testifies to the fact that the earth was created before heaven, as Allah has indicated in the Ayat in Surah As-Sajdah. Spreading the Earth out after the Heavens were created Sahih Al-Bukhari records that; when Ibn Abbas was questioned about this matter, he said that the earth was created before heaven, and the earth was spread out only after the creation of the heaven. Several Tafsir scholars of old and recent times also said similarly, as we have elaborated on in the Tafsir of Surah An-Nazi`at. The result of that discussion is that the word Daha (translated above as "spread") is mentioned and explained in Allah's statement, وَالاٌّرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَـهَا أَخْرَجَ مِنْهَا مَأءَهَا وَمَرْعَـهَا وَالْجِبَالَ أَرْسَـهَا And the earth, after that, He spread it out. And brought forth therefrom its water and its pasture. And the mountains He has fixed firmly. (79:30-32) Therefore, Daha means that the earth's treasures were brought to its surface after finishing the job of creating whatever will reside on earth and heaven. When the earth became Daha, the water burst out to its surface and the various types, colors, shapes and kinds of plants grew. The stars started rotating along with the planets that rotate around them. And Allah knows best.

کچھ اور دلائل اوپر کی آیات میں ان دلائل قدرت کا بیان تھا جو خود انسان کے اندر ہیں اب اس مبارک آیت میں ان دلائل کا بیان ہو رہا ہے جو روز مرہ آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ استوا یہاں قصد کرنے اور متوجہ ہونے کے معنی میں ہے اس لئے کہ اس کا صلہ الی ہے سوھن کے معنی درست کرنے اور ساتوں آسمان بنانے کے ہیں سماء اسم جنس ہے ۔ پھر بیان فرمایا کہ اس کا علم محیط کل ہے جیسے ارشاد آیت ( اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ) 67 ۔ الملک:14 ) وہ بےعلم ہو کیسے سکتا ہے جو خالق ہو؟ سورۃ سجدہ کی آیت ( ائنکم لتکفرون ) گویا اس آیت کی تفصیل ہے جس میں فرمایا ہے کیا تم اس اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ جس نے زمین کو صرف دو دن میں پیدا کیا تم اس کے لئے شریک ٹھہراتے ہو؟ جو رب العالمین ہے جس نے زمین میں مضبوط پہاڑ اوپر سے گاڑ دئیے جس نے زمین میں برکتیں اور روزیاں رکھیں اور چار دن میں زمین کی سب چیزیں درست کر دیں ۔ جس میں دریافت کرنے والوں کی تشفی ہے پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہو کر جو دھویں کی شکل میں تھے فرمایا کہ اے زمینو اور آسمانو خوشی یا ناخوشی سے آؤ تو دونوں نے کہا باری تعالیٰ ہم تو برضا و خوشی حاضر ہیں ۔ دو دن میں ان ساتوں آسمانوں کو پورا کر دیا اور ہر آسمان میں اس کا کام بانٹ دیا اور دنیا کے آسمان کو ستاروں کے ساتھ مزین کر دیا اور انہیں ( شیطانوں سے ) بچاؤں کا سبب بنایا ۔ یہ ہے اندازہ اس اللہ کا جو بہت بڑا غالب اور بہت بڑے علم والا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے زمین پیدا کی پھر ساتوں آسمان ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر عمارت کا یہی قاعدہ ہے کہ پہلے نیچے کا حصہ بنایا جائے پھر اوپر کا مفسرین نے بھی اس کی تصریح کی ہے جس کا بیان بھی ابھی آئے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ لیکن یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔ آیت ( ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ بَنٰىهَا ) 79 ۔ النازعات:27 ) تمہاری پیدائش مشکل ہے یا آسمانوں کی؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے خلا کو بلند کر کے اسے ٹھیک ٹھاک کیا اور ان میں سے رات دن پیدا کئے پھر اس کے بعد زمین پھیلائی اس سے پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو گاڑا جو سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے کام کی چیزیں ہیں ۔ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمان کے بعد ہے تو بعض بزرگوں نے تو فرمایا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں ثم صرف عطف خبر کے لئے ہے عطف فعل کے لئے نہیں یعنی یہ مطلب نہیں کہ زمین کے بعد آسمان کی پیدائش شروع کی بلکہ صرف خبر دینا مقصود ہے کہ آسمانوں کو بھی پیدا کیا اور زمینوں کو بھی ۔ عرب شاعروں کے اشعار میں یہ موجود ہے کہ کہیں ثم صرف خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لئے ہوتا ہے تقدیم تاخیر مراد نہیں ہوتی ۔ اور بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آیت ءانتم میں آسمانوں کی پیدائش کے بعد زمین کا پھیلانا اور بچھانا وغیرہ بیان ہوا ہے نہ کہ پیدا کرنا ۔ تو ٹھیک یہ ہے کہ پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا اس طرح دونوں آیتیں ایک دوسرے کے مخالف نہ رہیں گی ۔ اس عیب سے اللہ کا کلام بالکل محفوظ ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں ( یعنی پہلے زمین کی درستی وغیرہ یہ بعد کی چیز ہے ) حضرت ابن مسعود حضرت ابن عباس اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور کسی چیز کو پیدا نہیں کیا تھا جب اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو پانی سے دھواں بلند کیا وہ اونچا چڑھا اور اس سے آسمان بنائے پھر پانی خشک ہو گیا اور اس کی زمین بنائی پھر اس کو الگ الگ کر کے سات زمینیں بنائیں اتوار اور پیر کے دو دن میں یہ ساتوں زمینیں بن گئیں ۔ زمین مچھلی پر ہے اور مچھلی وہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے آیت ( ن والقلم مچھلی پانی میں ہے اور پانی صفاۃ پر ہے اور صفاۃ فرشتے پر اور فرشتے پتھر پر زمین کانپنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو گاڑ دیا اور وہ ٹھہر گئی یہی معنی میں اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت ( وَجَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ ) 21 ۔ الانبیآء:38 ) زمین نہ ہلے اس لئے ہم نے اس میں پہاڑ جما دئیے ہیں ۔ پہاڑ زمین کی پیداوار درخت وغیرہ زمین کی کل چیزیں منگل اور بدھ کے دو دنوں میں پیدا کیں اسی کا بیان آیت ( قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ ) 41 ۔ فصلت:9 ) والی آیت میں ہے پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو دھواں تھا آسمان بنایا پھر اسی میں ساتھ آسمان بنائے جمعرات اور جمعہ کے دو دنوں میں جمعہ کے دن کو اس لئے جمعہ کہا جاتا ہے کہ اس میں زمین و آسمان کی پیدائش جمع ہو گئی ہر آسمان میں اس نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان ان چیزوں کو جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں کہ دنیا آسمان کو ستاروں کے ساتھ زینت دی اور انہیں شیطان سے حفاظت کا سبب بنایا ان تمام چیزوں کو پیدا کر کے پروردگار نے عرش عظیم پر قرار پکڑا جسے فرماتا ہے ۔ آیت ( خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ) 7 ۔ الاعراف:54 ) یعنی چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کر کے پھر عرش پر مستوی ہو گیا اور جگہ فرمایا آیت ( كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ) 21 ۔ الانبیآء:30 ) یعنی یہ دونوں دھواں سے تھے ہم نے انہیں پھاڑا اور پانی سے ہر چیز کو زندگی دی ( تفسیر سدی ) یہ موقوف قول جس میں کئی قسم کا احتمال ہے بہ ظاہراً ایسی اہم بات میں حجت تامہ نہیں ہو سکتا ۔ واللہ اعلم ) ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اتوار سے مخلوق کی پیدائش شروع ہوئی ۔ دو دن میں زمینیں پیدا ہوئیں دو دن میں ان میں موجود تمام چیزیں پیدا کیں اور دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا جمعہ کے دن آخری وقت ان کی پیدائش ختم ہوئی اور اسی وقت حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور اسی وقت میں قیامت قائم ہو گی ۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا اس سے جو دھواں اوپر چڑھا اس کے آسمان بنائے جو ایک پر ایک اس طرح سات ہیں اور زمینیں ایک نیچے ایک اوپر اس طرح سات ہیں ۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمانوں سے پہلے ہے جیسے سورۃ سجدہ کی آیت میں ہے ۔ علماء کی اس پر متفق ہیں ۔ صرف قتادہ فرماتے ہیں کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوئے ہیں ۔ قرطبی اس میں توقف کرتے ہیں آیت ( والنازعات ) کی آیت کی وجہ سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں آسمان کی پیدائش کا ذکر زمین سے پہلے ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ زمین پیدا تو آسمانوں سے پہلے کی گئی ہے لیکن بعد میں پھیلائی گئی ہے ۔ یہی جواب اگلے پچھلے علماء کا ہے ۔ سورۃ نازعات کی تفسیر میں بھی اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حاصل امر یہ ہے کہ زمین کا پھیلانا اور بچھانا بعد میں ہے اور دحھا کا لفظ قرآن میں ہے اور اس کے بعد جو پانی چارہ پہاڑ وغیرہ کا ذکر ہے یہ گویا اس لفظ کی تشریح ہے جن جن چیزوں کی نشوونما کی قوت اس زمین میں رکھی تھی ان سب کو ظاہر کر دیا اور زمین کی پیداوار طرح طرح کی مختلف شکلوں اور مختلف قسموں میں نکل آئی ۔ اسی طرح آسمان میں بھی ٹھہرے رہنے والے چلنے والے ستارے وغیرہ بنائے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔ صحیح مسلم اور نسائی میں حدیث میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا مٹی کو اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن پیدا کیا ، پہاڑوں کو اتوار کے دن ، درختوں کو پیر کے دن ، برائیوں کو منگل کے دن نور کو ، بدھ کے دن ، جانوروں کو جمعرات کے دن ، آدم کو جمعہ کے دن اور عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت میں عصر کے بعد سے رات تک ۔ یہ حدیث غرائب میں سے ہے ۔ امام ابن مدینی امام بخاری وغیرہ نے اس پر بحث کی ہے اور فرمایا ہے کہ کعب کا اپنا قول اور حضرت ابو ہریرہ نے کعب کا یہ قول سنا ہے اور بعض راویوں نے اسے غلطی سے مرفوع حدیث قرار دے لیا ہے ۔ امام بیہقی کہتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 اس سے استدلال کیا ہے کہ زمین کی اشیاء مخلوقہ کے لئے اصل حلت ہے الا یہ کہ کسی چیز کی حرمت قرآن پاک کے واضح احکام سے ثابت ہو (فتح القدیر) (2) بعض سلف امت نے اس کا ترجمہ پھر آسمان کی طرف چڑھ گیا کیا ہے (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر عرش پر چڑھنا اور خاص خاص مواقع پر آسمان دنیا پر نزول اللہ کی صفات میں سے ہے جن پر اسی طرح بغیر دلیل کے ایمان رکھنا ضروری ہے جس طرح قرآن یا احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ 29۔ 3 اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ آسمان ایک حسی وجود اور حقیقت ہے۔ محض بلندی کو آسمان سے تعبیر نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ان کی تعداد سات ہے۔ اور حدیث کے مطابق دو آسمانوں کے درمیان 500 سال کی مسافت ہے۔ اور زمین کی بابت قرآن کریم میں ہے (وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ) 065:012 اور زمین بھی آسمان کی مثل ہیں اس سے زمین کی تعداد بھی سات ہی معلوم ہوتی ہے جس کی مزید تائید حدیث نبوی سے ہوجاتی ہے۔ جس نے ظلماً کسی کی ایک بالشت زمین لے لی تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق پہنائے گا اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے پہلے زمین کی تخلیق ہوئی ہے لیکن سورة نازعات میں آسمان کے ذکر کے بعد فرمایا گیا۔ (وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا) 079:030 (زمین کو اس کے بعد بچھایا) اس کی تجزی کی گئی ہے کہ تخلیق پہلے زمین کی ہی ہوئی ہے اور دَحْوَ (صاف اور ہموار کر کے بچھانا) تخلیق سے مختلف چیز ہے جو آسمان کی تخلیق کے بعد عمل میں آیا۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئی ہیں : ہر چیز کی اصل اباحت ہے : ١۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی سب اشیاء انسان کی خاطر پیدا کی ہیں۔ لہذا انسان تمام مخلوقات سے اشرف (اشرف المخلوقات) ہوا۔ ٢۔ اور اسی فقرہ یا حصہ آیت سے یہ بھی نتیجہ نکلا کہ چونکہ انسان زمین کی ہر چیز سے استفادہ کا حق رکھتا ہے۔ لہذا ہر چیز کی اصل اباحت ہے اور حرام وہ چیز ہوگی جس کی شریعت نے وضاحت کردی ہو۔ ٣۔ زمین کی پیدائش سات آسمانوں کی پیدائش سے پہلے ہوچکی تھی۔ ٤۔ آسمان کوئی تصوراتی چیز نہیں۔ جیسا کہ آج کل ماہرین ہئیت کا خیال ہے۔ بلکہ ٹھوس حقیقت ہے اور ان کی تعداد سات ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہ انسان کے کفر پر تعجب کے لیے اللہ کے مزید احسانات کا ذکر ہے کہ زمین میں جو کچھ ہے سب اس اکیلے نے پیدا کیا اور تمہارے لیے پیدا کیا، پھر اس نے آسمانوں کو درست کر کے سات آسمان بنائے ایسے محسن سے تم کس طرح کفر کرتے ہو ؟ وہ تو ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، تمہارا کفر بھی اس سے مخفی نہیں، اپنا انجام خود سوچ لو۔ 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا کی گئی، یہی بات سورة حم سجدہ کی آیات ٩ تا ١٢ سے ثابت ہوتی ہے، مگر سورة نازعات میں : (وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا) بظاہر اس کے خلاف ہے، تطبیق کے لیے دیکھیے سورة نازعات (٣٠) ۔ 3 ابن کثیر (رض) نے فرمایا : یہاں ” اسْتَوٰٓى“ کے ضمن میں ارادہ کرنے اور متوجہ ہونے کا معنی رکھا گیا ہے، کیونکہ اسے ” اِلَى“ کے ساتھ متعدی کیا گیا ہے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ زمین میں جو کچھ ہے مجموعی طور پر انسان کے فائدے کے لیے ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمین کی ہر چیز ہر انسان کے لیے حلال ہے، بلکہ اسے یہ فائدہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کے تحت اٹھانا ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In recounting the blessings which man has received from Allah, verse 29 refers to Allah having created for man |"all that the earth contains.|" This small phrase comprehends all kinds of benefits which accrue to him from the earth and its produce. Then, the verse speaks of the creation of the sky and its division into seven skies or heavens, as they are usually called in English. In this context, the Holy Qur&an uses the Arabic word, Istawaإستوا which initially means &to stand upright, to climb&, and thence signifies &to turn or pay attention to something&, and, in a wider sense, &to take a straight and firm decision which nothing can hinder&. The implication here is that Allah being Omniscient and Omnipotent, it was not at all difficult for Him to create the universe, once He had decided to do so. The life in &Barzakh& برزخ (The period between death and resurrection) (1) Verse 28 shows that a man who does not apparently deny Allah, but refuses to accept the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as the Messenger of Allah, and the Holy Qur&an as the Book of Allah, would still be counted among those who do not believe in Allah. (2) Verse 28 mentions only one kind of life which is to follow one&s physical death - that is, the life which will begin on the Day of Resurrection - but says nothing about the life in the grave, although the Holy Qur&an and Hadith explicitly speak of how people will be questioned about their faith in their graves, and will also receive some reward or punishment. Now, this life in the grave is something intermediary (Barzakh برزخ ) between the life which man has in this world and one he will have in the other. In other words, it is a state in between the two, resembling the life one has while dreaming; it can be called a supplement to the life of this world as also a prelude to the life hereafter. In short, this intermediary life is not in itself a distinct entity, and hence need not be mentioned separately. (3) According to verse 29, everything in the universe has been created for man. It means that there is nothing in the universe from which man does not derive some benefit in one way or the other, directly or indirectly. There are things which man uses physically as food or medicine; other things are useful for him without his knowing it; even poisonous or dangerous things do him some good; even things which are forbidden for him in one of their aspects, may in some other aspect be quite beneficial; finally, almost everything can serve to teach him a lesson or illuminate him in the interest of his life in the Hereafter. The great Sufi Ibn ` Ata& remarks in connection with this verse: &Allah has created the universe for you so that it should serve you and you should serve Allah. A wise man should thus know that he will certainly get what has been created for him, and should not, in worrying about it, forget the Being for whom he himself has been created& (Al-Bahr al-Muhit). On the basis of verse 29, some scholars have came to the conclusion that since everything in the world has been created for man, it is essentially legitimate (Halal حلال) and permissible (Mubah مٰباح ) for man to make use of everything, except the things which have been forbidden by the Shari&ah. So, the use of a thing is to be regarded as lawful so long as the Holy Qur&an or the Hadith does not forbid it. On the contrary, some other scholars say that the mere fact of a thing having been created for the benefit of man does not argue that it automatically becomes lawful to make use of it. So, the use of everything is essentially unlawful unless an explicit statement in the Holy Qur&an or the Hadith, or an argument based on them establishes the use of a thing as legitimate. There are still other authentic scholars who have not taken sides in this controversy. Ibn Hayyan, in his commentary &Al-Bahr al-Muhit&, points out that this verse does not provide a valid basis for, either of the two views, for the letter lam in the phrase: khalaqa lakum indicates causation, signifying that the universe has been |"created for your sake.|" So, one cannot draw any conclusion from the phrase as to the use of everything being essentially legitimate or illegitimate. The injunction with regard to the legitimacy or the illegitimacy of the use of particular things have been provided elsewhere in the Holy Qur&an and the Hadith, and it is obligatory to follow these injunctions. (5) Verse 29 shows that the earth was created before the skies, as indicated by the word, ثُم : Thumma (&then& ). Another verse of the Holy Qur&an seems to be saying the opposite وَالْأَرْ‌ضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ﴿٣٠﴾: |"He spread out the earth after this.|" (79:30) But it does not necessarily mean that the earth was created after the skies. What it actually implies is that although the earth had already been created when the skies came into being, yet a final shape was given to it after the reation of the skies. (A1-Bahr al-Muhit, etc.) (6) According to verse 29, the, skies are seven in number. This shows that the opinion of the ancient Greek astronomers and some Muslim philosophers, who used to speak of nine heavens, was no more than a conjecture.

(آیت) ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا اللہ وہ ہے جس نے پیدا کیا تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب یہ اس نعمت عامہ کا ذکر ہے جس میں تمام انسان بلکہ حیوانات وغیرہ بھی شریک ہیں اور لفظ میں ان تمام نعمتوں کا اجمال آگیا جو دنیا میں کسی انسان کو حاصل ہوئیں یا ہوسکتی ہیں کیونکہ انسان کی غذا، لباس، مکان، اور دوا اور راحت کے کل سامان زمین ہی کی پیدوار ہیں، ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ۭ وَھُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ استواء کے لفظی معنی سیدھا ہونے کے ہیں مراد یہ ہے کہ زمین کی پیدائش کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کی تخلیق کا قصد راست فرمایا جس میں کوئی حائل اور مانع نہ ہوسکے یہاں تک کہ سات آسمانوں کی تخلیق مکمل فرمادی اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے اس لئے تخلیق کائنات اس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں، دنیا کی ہر چیز نفع بخش ہے کوئی شے بیکار نہیں : اس آیت میں زمین کی تمام چیزوں کو انسان کے لئے پیدا فرمانے کا بیان ہوا ہے، اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جس سے انسان کو کسی نہ کسی حیثیت سے بلا واسطہ یا بالواسطہ فائدہ نہ پہونچتا ہو خواہ یہ فائدہ دنیا میں استعمال کرنے کا ہو یا آخرت کے لئے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کا، بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ انسان کو ان سے فائدہ پہونچتا ہے مگر اس کو خبر بھی نہیں ہوتی یہاں تک کہ جو چیزیں انسان کے لئے مضر سمجھی جاتی ہیں جیسے زہریلی اشیاء زہریلے جانور وغیرہ غور کریں تو وہ کسی نہ کسی حیثیت سے انسان کے لئے نفع بخش بھی ہوتی ہیں جو چیزیں انسان کے لئے ایک طرح سے حرام ہیں دوسری کسی طرح اور حیثیت سے ان کا نفع بھی انسان کو پہنچتا ہے، نہیں ہے چیز نکمّی کوئی زمانے میں۔۔ کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں عارف باللہ ابن عطاء نے اس آیت کے تحت فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو تمہارے واسطے پیدا فرمایا کہ ساری کائنات تمہاری ہو اور تم اللہ کے لئے ہو اس لئے عقل مند کا کام یہ ہے کہ جو چیز اسی کے لئے پیداہوئی ہے وہ اس کو ملے گی اس کی فکر میں لگ کر اس ذات سے غافل نہ ہو جس کے لئے یہ پیدا ہوا ہے (بحرمحیط) اشیاء عالم میں اصل اباحت ہے یا حرمت : اس آیت سے بعض علماء نے اس پر استدلال کیا ہے کہ دنیا کی تمام چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ انسان کے لئے حلال ومباح ہوں کیونکہ وہ اسی کے لئے پیدا کی گئی ہیں بجز ان چیزوں کے جن کو شریعت نے حرام قرار دے دیا اس لئے جب تک کسی چیز کی حرمت قرآن وسنت سے ثابت نہ ہو اس کو حلال سمجھا جائے گا، اس کے بالمقابل بعض علماء نے یہ قرار دیا کہ انسان کے فائدے کے لئے کسی چیز کے پیدا ہونے سے اس کا حلال ہونا ثابت نہیں ہوتا اس لئے اصل اشیاء میں حرمت ہے جب تک قرآن وسنت کی کسی دلیل سے جواز ثابت نہ ہو ہر چیز حرام سمجھی جائے گی، بعض حضرات نے توقف فرمایا : تفسیر بحر محیط میں ابن حیان نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں اقوال مذکورہ میں سے کسی کے لئے حجت نہیں کیونکہ خَلَقَ لَكُمْ میں حرف لام سببیت بتلانے کے لئے آیا ہے کہ تمہارے سبب سے یہ چیزیں پیدا کی گئی ہیں اس سے نہ انسان کے لئے ان چیزوں کے حلال ہونے پر کوئی دلیل قائم ہوسکتی ہے نہ حرام ہونے پر بلکہ حلال و حرام کے احکام جداگانہ قرآن وسنت میں بیان ہوئے ہیں انھیں کا اتباع لازم ہے، اس آیت میں زمین کی پیدائش پہلے اور آسمانوں کی پیدائش بعد میں ہونا بلفط ثم بیان کیا گیا ہے اور یہی صحیح ہے اور سورة والنازعات میں جو یہ ارشاد ہے والْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا (٣٠: ٧٩) یعنی زمین کو آسمانوں کے پیدا کرنے کے بعد بچھایا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ زمین کی پیدائش آسمانوں کے بعد ہوئی ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کی درستی اور اس میں سے پیداوار نکالنے وغیرہ کے تفصیلی کام آسمانوں کی پیدائش کے بعد ہوئے اگرچہ اصل زمین کی تخلیق آسمانوں سے پہلے ہوچکی تھی (بحرمحیط وغیرہ) اس آیت سے آسمانوں کی تعداد سات ہونا ثابت ہے اس سے معلوم ہوا کہ علم ہیئت والوں کا آسمانوں کی تعداد نو بتلانا غلط، بےدلیل اور محض خیالات پر مبنی ہے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھُوَالَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۝ ٠ ۤ ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ۝ ٠ۭ وَھُوَبِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ۝ ٢٩ ۧ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ سوا ( مساوات برابر) الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل، وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله : وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، ( س و ی ) المسا واۃ کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔ سبع أصل السَّبْع العدد، قال : سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة/ 29] ، سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 16] ، يعني : السموات السّبع وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف/ 46] ، سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة/ 7] ، سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف/ 22] ، سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32] ، سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ، سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر/ 87] . قيل : سورة الحمد لکونها سبع آيات، السَّبْعُ الطّوال : من البقرة إلى الأعراف، وسمّي سور القرآن المثاني، لأنه يثنی فيها القصص، ومنه : السَّبْعُ ، والسَّبِيعُ والسِّبْعُ ، في الورود . والْأُسْبُوعُ جمعه : أَسَابِيعُ ، ويقال : طفت بالبیت أسبوعا، وأسابیع، وسَبَعْتُ القومَ : كنت سابعهم، وأخذت سبع أموالهم، والسَّبُعُ : معروف . وقیل : سمّي بذلک لتمام قوّته، وذلک أنّ السَّبْعَ من الأعداد التامّة، وقول الهذليّ : 225- كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبع «2» أي : قد وقع السّبع في غنمه، وقیل : معناه المهمل مع السّباع، ويروی ( مُسْبَع) بفتح الباء، وكنّي بالمسبع عن الدّعيّ الذي لا يعرف أبوه، وسَبَعَ فلان فلانا : اغتابه، وأكل لحمه أكل السّباع، والْمَسْبَع : موضع السَّبُع . ( س ب ع ) السبع اصل میں |" سبع |" سات کے عدد کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة/ 29] سات آسمان ۔ سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 16] سات مضبوط ( آسمان بنائے ) ۔ وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف/ 46] سات بالیں ۔ سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة/ 7] سات راتیں ۔ سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف/ 22] سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے ۔ سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32] ستر گز سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ستر مرتبہ اور آیت : سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر/ 87] ( الحمد کی ) سات آیتیں ( عطا فرمائیں جو نماز کی ہر رکعت میں مکرر پڑھی جاتی ہیں میں بعض نے کہا ہے کہ سورة الحمد مراد ہے ۔ کیونکہ اس کی سات آیتیں ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ السبع الطوال یعنی سورة بقرہ سے لے کر اعراف تک سات لمبی سورتیں مراد ہیں ۔ اور قرآن پاک کی تمام سورتوں کو بھی مثانی کہا گیا ہے ۔ کیونکہ ان میں واقعات تکرار کے ساتھ مذکور ہیں منجملہ ان کے یہ سات سورتیں ہیں السبیع والسبع اونٹوں کو ساتویں روز پانی پر وارد کرتا ۔ الاسبوع ۔ ایک ہفتہ یعنی سات دن جمع اسابیع طفت بالبیت اسبوعا میں نے خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگائے سبعت القوم میں ان کا ساتواں بن گیا ۔ اخذت سبع اموالھم میں نے ان کے اموال سے ساتواں حصہ وصول کیا ۔ السبع ۔ درندہ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کی قوت پوری ہوتی ہے جیسا کہ سات کا عدد |" عدد تام |" ہوتا ہے ۔ ھذلی نے کہا ہے ( الکامل) كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبعگویا وہ آل ابی ربیعہ کا غلام ہے جس کی بکریوں کو پھاڑ کھانے کے لئے درندے آگئے ہوں ۔ بعض نے مسبع کا معنی مھمل مع السباع کئے ہیں یعنی وہ جو درندوں کی طرح آوارہ پھرتا ہے اور بعض نے مسبع ( بفتح باء ) پڑھا ہے ۔ اور یہ دعی سے کنایہ ہے یعنی وہ شخص جسکا نسب معلوم نہ ہو ۔ سبع فلانا کسی کی غیبت کرنا اور درندہ کی طرح اس کا گوشت کھانا ۔ المسبع ۔ درندوں کی سر زمین ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٩) اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے احسانات کا (جو اس کے انسانوں پر ہیں) تذکرہ فرماتے ہیں کہ اس اللہ نے تمہارے لیے مختلف قسم کے جانوروں اور باغوں وغیرہ کو بنایا اور تمہارے تابع کیا پھر آسمان کو پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوا اور سات آسمان برابر زمین کے اوپر بنائے اور وہ ذات الہی آسمانوں اور زمینوں میں سے ہر ایک چیز پیدا کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ (ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ق) اس آیت میں خلافت کا مضمون شروع ہوگیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے : (اِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَکُمْ وَاَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَۃِ ) (٤) ” یہ دنیا تمہارے لیے بنائی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے بنائے گئے ہو۔ “ اگلی آیت میں حضرت آدم ( علیہ السلام) کی خلافت ارضی کا ذکر ہے۔ گویا زمین میں جو کچھ بھی پیدا کیا گیا ہے وہ انسان کی خلافت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ (ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰٹھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ط) یہ آیت تاحال آیات متشابہات میں سے ہے۔ سات آسمانوں کی کیا حقیقت ہے ‘ ہم ابھی تک پورے طور پر اس سے واقف نہیں ہیں۔ (وَھُوَ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْمٌ ) اسے ہر شے کا علم حقیقی حاصل ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34. It is difficult to explain precisely what is meant by the 'seven heavens'. In all ages man has tried, with the help of observation and speculation, to conceptualize the 'heavens', i.e. that which lies beyond and above the earth. As we well know, the concepts that have thus developed have constantantly changed. Hence it would be improper to tie the meaning of these words of the Qur'an to any one of these numerous concepts. What might be broadly inferred from this statement is that either God has divided the universe beyond the earth into seven distinct spheres, or that this earth is located in that part of the universe which consists of seven different spheres. 35. In this sentence attention is drawn to two important facts. First, man is warned against disbelief and rebellion against God, for God knows all that man does and none of his actions are hidden from Him. Second, it is suggested to man that if he turns away from the All-Knowing God, from the One Who is the source of all knowledge, this can only leave him grouping in the darkness of ignorance and error. When there is no source of truth knowledge except God, and when that very light which alone can illuminate man's life can be obtained from none else but Him, what good can come out of deviation from the Truth?

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :34 سات آسمانوں کی حقیقت کیا ہے ، اس کا تعیّن مشکل ہے ۔ انسان ہر زمانے میں آسمان ، یا با لفاظِ دیگر ماورائے زمین کے متعلق اپنے مشاہدات یا قیاسات کے مطابق مختلف تصوّرات قائم کرتا رہا ہے ، جو برابر بدلتے رہے ہیں ۔ لہٰذا ان میں سے کسی تصوّر کو بنیاد قرار دے کر قرآن کے ان الفاظ کا مفہُوم متعین کرنا صحیح نہ ہوگا ۔ بس مجملاً اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ زمین سے ماوراء جس قدر کائنات ہے ، اسے اللہ نے سات محکم طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے ، یا یہ کہ زمین اس کائنات کے جس حلقہ میں واقع ہے ، وہ سات طبقوں پر مشتمل ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :35 اس فقرے میں دو اہم حقیقتوں پر مُتنبّہ فرمایا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ تم اس خدا کے مقابلے میں کفر و بغاوت کا رویّہ اختیار کرنے کی جُراٴت کیسے کرتے ہو جو تمہاری تمام حرکات سے باخبر ہے ، جس سے تمہاری کوئی حرکت چھپی نہیں رہ سکتی ۔ ُدوسرے یہ کہ جو خدا تمام حقائق کا عِلم رکھتا ہے ، جو درحقیقت علم کا سرچشمہ ہے ، اس سے منہ موڑ کر بجز اس کے کہ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکو اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے ۔ جب اس کے سوا علم کا اور کوئی منبع ہی نہیں ہے ، جب اس کے سوا اور کہیں سے وہ روشنی نہیں مل سکتی جس میں تم اپنی زندگی کا راستہ صاف دیکھ سکو ، تو آخر اس سے رُو گردانی کرنے میں کیا فائدہ تم نے دیکھا ہے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

26: انسان کو توجہ دلائی جارہی ہے کہ وہ کائنات کی جتنی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے سب اللہ تعالیٰ کی عطا فرمائی ہوئی ہیں، ان میں سے ہرچیز اس کی توحید کی گواہی دے رہی ہے اس کے باوجود اس کے ساتھ کفر کارویہ اختیار کرنا کتنی بڑی ناشکری ہے، اسی آیت سے فقہاء نے یہ اصول بھی مستنبط کیا ہے کہ دنیا کی ہرچیز اصل میں حلال ہے اور جب تک کسی چیز کی حرمت پر کوئی دلیل نہ ہو اس وقت تک اس کو حلال ہی سمجھا جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:29) ثم استوی الی السماء پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا۔ ثم کی بحث کے لئے آیت (2:28) متذکرہ بالا ملاحظہ ہو۔ یہاں تراخی فی المرتبۃ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اس سے بڑھ کر، مزید برآں۔ استوی : اس نے قصد کیا۔ اس نے قرار پکڑا۔ وہ قائم ہوا۔ وہ سنبھل گیا۔ وہ چڑھا۔ وہ سیدھا ہوا کر بیٹھا۔ استواء (افتعال) مصدر سے۔ ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ استوی کے جب وہ فاعل ہوتے تو اس کے معنی دونوں کے برابر اور مساوی ہونے کے آتے ہیں ۔ جیسے لا یستوی اصحب النار واصحب الجنۃ (59:20) اہل دوزخ اور اہل جنت برابر نہیں۔ اور اگر فاعل دونہ ہوں تو سنبھلنے، درست ہونے، اور سیدھے ہونے کے معنی آتے ہیں جیسے فاستوی (6) وھو بالافق الاعلی (7) (53:67) پھر سیدھا بیٹھا اور وہ آسمان کے اونچے کنارے پر تھا۔ اور ولما بلغ اشدہ واستوی (28:14) جب وہ پہنچ گیا اپنے زور پر اور سنبھل گیا۔ اس صورت میں استوی کے معنی کسی شے کا اعتدال ذاتی مراد ہے۔ جب اس کا تعدیہ علی کے ساتھ ہو تو اس کے معنی چڑھنے، قرار پکڑنے اور قائم ہونے کے آتے ہیں۔ جیسے واستوت علی الجودی (11:44) اور وہ (کشتی) جودی پہاڑ پر جا ٹھہری یا جالگی۔ اور لتستو علی ظھورہ (43:13) تاکہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو۔ اور جب اس کی تعدیہ الی کے ساتھ ہو تو اس کے معنی قصد کرنے اور پہنچنے کے ہوتے ہیں۔ جیسے آیۃ ہذا میں ۔ ثم استوی الی السمائَ پھر اس نے قصد کیا آسمان کی طرف ۔ پھر اس نے توجہ کی آسمان کی طرف۔ فسوھن۔ ف نتیجہ کا ہے سوی ماضی واحد مذکر غائب ۔ تسویۃ (تفعیل) مصدر اس نے پورا پورا بنایا۔ ھن ضمیر جمع مؤنث غائب جس کا مرجع السماء ہے۔ سبع سموات سات آسمان۔ یہ ھن کا بدل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یہی معنی اما بخاری نے ابو العالیہ سے اور ابن جریر نے ربیع بن انس (رح) سے رایت کیے ہیں۔ یہ یعنی استوی الی السمآء یا اس تو علی العرش اللہ کی صفت ہے اور صفات الہیہ کے بارے میں سلف تاویل کے قائل نہیں بلکہ ان کو ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں۔ (ترمذی) اس ایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا کی گئی۔ اور یہی بات حم السجدہ کی آیات سے ثابت ہوتی ہے مگر سورة اناز عات میں والا رض بعد ذالک دحھا بظاہر اس کے خلاف ہے صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ تخلیق تو پہلے ہے مگر وحو بعد میں ہے۔ (ابن کثیر)4 حدیث میں ہے کہ دو آسمانوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ نیز) حدیث میں ہے کہ جس نے ظلم سے کسی کی ایک بالشت زمین پر بھی قبضہ کرلیا قیامت کے دن اس کے گلے میں سات زمینوں کا طوق ڈلا جائے گا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمینیں بھی سات ہیں اور آیت " ومن الارض مثلھن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ( ابن کثیر۔ قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اول زمین میں مادہ بنا اور ہنوز اس کی ہیبت موجودہ نہ بنی تھی کہ اسی حالت میں آسمان کا مادہ بنا جو صورت دخان تھا۔ اس کے بعد زمین کی جو ہییت موجود پر پھیلادی گئی پھر اس پر پہاڑ درخت وغیرہ پیدا کیے گئے پھر اس مادہ سیالہ کے سات آسمان بنادیے گئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ موت وحیات کا مالک ہے اس نے انسان کو بےاختیار خلیفہ نہیں بنایا بلکہ سب کو اس کے لیے پیدا کیا اور ایک حد تک زمین کا نظام انسان کے حوالے کیا تاکہ اس کی آزمائش کرے۔ اس رکوع کی ابتدا توحید اور انسانی تخلیق کے تذکرے سے ہوئی تھی اب اس خطاب کا اختتام اللہ کی توحید پر کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ وہی تمہاری موت وحیات اور فناو بقا کا مالک ہے اور اسی کے سامنے تم نے پیش ہونا ہے۔ اس نے فقط تمہیں ہی پید انہیں فرمایا بلکہ زمین کی ہر چیز تمہارے لیے پیدا فرمائی۔ اس کے بعد عرش معلّٰی پر متمکن ہوا۔ جس طرح اس کی شایان شان ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے احترام و مقام کے پیش نظر یہ چیزیں پہلے اس لیے بنائی اور سجائی گئیں تاکہ مکیں سے پہلے مکاں، مہمان سے پہلے دسترخواں، مخدوم سے پہلے خدام، حاکم سے پہلے اس کی ریاست تشکیل پائے۔ نہ صرف ان کو آدم (علیہ السلام) کے لیے بنایا گیا بلکہ ان کو بنا کر بنی نوع انسان کے لیے مسخر بھی کردیا گیا ہے۔ (الجاثیۃ : ١٣) استواء کا معنٰی اللہ تعالیٰ کا آسمانوں پر متمکن ہونا ہے۔ جس کی یہ وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پہلے پانی پر تھا۔ پھر جس طرح اس کی شایان شان ہے عرش پر مستوی ہوا۔ آیت کے آخر میں واضح کردیا گیا کہ اے انسان ! اللہ تعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر عرش پر استوا ہونے کا یہ معنی نہیں کہ اب وہ زمین اور اس کے ما فیہا سے بیخبر ہے۔ نہیں ! کان کھول کر سن لو ! اللہ تعالیٰ پل پل کی خبر اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی ہر چیز انسان کے لیے پیدا فرمائی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ عرش پر متمکن ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ ٣۔ اللہ ہی نے سات آسمان بنائے وہی ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ١۔ سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ (ابراہیم : ٣٣) ٢۔ رات دن کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ (النحل : ١٢) ٣۔ نہروں اور کشتیوں کو مسخر فرمایا۔ (ابراہیم : ٣٣) ٤۔ اللہ نے زمین و آسمان کی ہر چیز کو مسخر کردیا۔ (الحج : ٦٥) ٥۔ زمین کی ہر چیز انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ (البقرۃ : ٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس پہلی چمک کے متصلاً بعد روشنی کی ایک دوسری کرن آتی ہے جو پہلی کے لئے تکمیل کا درجہ رکھتی ہے ۔ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں ، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔ “ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے بارے میں مفسرین اور متکلمین نے طویل بحثیں کی ہیں ، قبلیت ، وبعدیت اور استوا اور تسویہ اور دوسری کلامی بحثیں یہاں کی جاتی ہیں ۔ لیکن یہ حضرات اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ قبل وبعد ، محض انسانی اصطلاحات ہیں ، اللہ تعالیٰ کے لئے ان کا کوئی مفہوم نہیں ہے ۔ یہ حضرات اس بات کو بھی سامنے نہیں رکھتے کہ استوا اور تسویہ انسانی لغی اصطلاحات ہیں جو لامحدود ذات کو انسان کے محدود تصور کے قریب لے آتی ہیں ۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔ قرآن کی ایسی تعبیروں پر علمائے اسلام نے جو طویل بحثیں کیں ، وہ اس مصیبت اور آفت کا نتیجہ تھیں جو یونانی فلسفہ اور یہود ونصاریٰ کی لاہوتی بحثوں کی صورت میں امت مسلمہ پر نازل ہوئی۔ یہ بحثیں تب پیداہوئیں جب اس فلسفہ اور ان لاہوتی بحثوں نے عربوں کی سادہ ذہنیت اور مسلمانوں کے پاکیزہ خیالات کو گدلا کردیا تھا۔ اب ہمارے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ ہم بھی اس مصیبت میں خواہ مخواہ گرفتار ہوجائیں اور منطقی اور کلامی جدلیات میں قرآن کریم کے حسن و جمال کو گم کردیں ۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ان مصنوعی تعبیرات واصطلاحات سے آزاد ہوکر یہ دیکھیں کہ پوری کائنات کو انسان کے لئے پیدا کرنے کی حقیقت کیا ہے ؟ اس حقیقت سے کس چیز کا اظہارہورہا ہے ۔ اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے وجود انسانی کا کیا مقصد قرار پاتا ہے ۔ اس زمین پر انسان کے کیا فرائض ہیں ۔ اللہ کے ہاں انسان کی قدر و قیمت کیا ہے ۔ نیز اسلامی تصورحیات اور تصور کائنات میں انسان کی کیا قدر و قیمت ہے اور اسلامی نظام زندگی میں انسان کا مقام کیا ہے ؟ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا ” اللہ تو وہی ہے جس نے تمہاری زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔ “ یہاں لفظ لکم یعنی ” تمہارے لئے “ اپنے گہری معنویت لئے ہوئے ہے ۔ یہ اس گہری حقیقت کا اظہار کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس انسان کو ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ۔ اس کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وہ زمین پر اللہ کانائب اور خلیفہ ہو ۔ زمین کے اندر جو کچھ ہو وہ اس کی ملکیت ہو اور وہ اس میں مؤثر اور متصرف ہو ۔ کیونکہ اللہ کی اس طویل و عریض کائنات میں وہی اعلیٰ مخلوق ہے ۔ وہ اس وسیع میراث کا پہلا وارث ہے ۔ لہٰذا اس زمین کے حالات اور اس کے انقلابات کے اندر اس کا کردار بھی اول درجے کا ہے ۔ وہ جس طرح اس زمین کا سردار ہے اسی طرح اس کے آلات کا بھی سردار ہے۔ وہ آلات پیداوار کے ہاتھ میں مقید اور بےبس نہیں ہے ، جس طرح آج کی مادی دنیا میں انسان ان آلات کے ہاتھوں بےبس ہوچکا ہے ۔ نیز وہ ان تبدیلیوں اور تغیرات کا بھی تابع نہیں ہے جو انسان اور انسان کے باہم روابط میں ان آلات کی پیدا کردہ ہیں جیسا کہ آج کل کے مادہ پرستانہ تصور حیات میں انسان اور اس کے کردار کو حقیر تر سمجھا جاتا ہے اور اسے بےجان اور بےشعور آلات کا غلام بنادیا جاتا ہے ۔ حالانکہ وہ ان سے برتر اور ان کا سردار ہے ۔ قرآن کی رو سے ساری اقدار میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے کہ اسے انسانیت کی قدر و قیمت سے برتری حاصل ہو۔ انسان تو اس کے سامنے ذلیل و خوار ہو اور وہ اس کے مقابلے میں بلند وبالا ہو۔ وہ تمام مقاصد جن کے نتیجے میں انسان کی انسانیت کی تذلیل ہو ۔ وہ انسان کے مقصد وجود ہی کے خلاف ہیں اور اس لئے معیوب ہیں ، چاہے ان کے نتیجے میں بیشمار مادی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ چناچہ اسلامی تصور حیات کے مطابق انسان کی شرافت اور انسان کی برتری وہ پہلی قدر ہے جو سب اقدار سے اولیت رکھتی ہے ۔ تمام مادی قدریں اس کے تابع ہیں اور ان کا درجہ بعد میں آتا ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ اپنی جس نعمت کا ذکر فرما رہے ہیں اور اس کے کفران پر نکیر ہورہی ہے وہ صرف یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین کی تمام نعمتوں سے نوازا بلکہ یہ بھی ہے کہ انسان ان تمام چیزوں کا مالک اور متصرف بھی ہے اور یہ کہ انسان کی قدر و قیمت ان تمام مادی اقدار سے برتر ہے جن پر یہ زمین حاوی ہے ۔ جس انعام کا یہاں ذکر ہے ملکیت کائنات اور زمین کے ذخائر سے انتفاع سے بھی آگے ، وہ انسانی شرافت اور انسان کی برتری کی نعمت ہے۔ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ” پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے۔ “ یہاں اس بات کی ضرورت نہیں کہ استواء الی السماء کی حقیقت وماہیت کیا ہے ؟ ہمارے لئے یہ جاننا کافی ہے کہ آسمان کی طرف متوجہ ہونے سے مراد کیا ہے ؟ استوا الی السماء قدرت الٰہی کے اظہار کا ایک پیرایہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تخلیق وتکوین کا ارادہ فرمایا۔ اسی طرح سات آسمانوں کی حقیقت اور ان کی شکل اور حدود اربعہ کے تعین کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ آیت کے اس اصولی اور عام مفہوم کا سمجھ لینا ہی کافی ہے۔ کفار چونکہ کائنات کے خالق ونگہبان کے منکر تھے ، اس لئے یہاں یہ بیان کیا گیا کہ اللہ ہی زمین و آسمان کا خالق ہے ۔ اس نے انسانوں کے لئے زمین کی تمام مخلوق کو مسخر کرلیا ہے اور آسمانوں کے اندر اس طرح نظم اور ربط پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے اس کرہ ارض پر زندگی کا باقی رہنا آسان اور سہل ہوگیا ہے ۔ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ “ وہی سب کا خالق اور سب کا مدبر ہے ، لہٰذا ظاہر ہے کہ وہ ہر چیز کا علم بھی رکھتا ہے ۔ پوری کائنات کی تدبیر کے ساتھ ساتھ پوری کائنات کا علم بھی رکھنا ایک ایسی حقیقت ہے جو اس کائنات کے خالق وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کے مہمیز کا کام دیتی ہے ۔ اس سے انسان اس وحدہ لاشریک مدبر کی بندگی کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ اور بطور شکر نعمت اپنے رازق اور منعم کی بندگی بجالاتا ہے ۔ یہاں آکر سورت کی ابتدائی بحثیں ختم ہوجاتی ہیں ۔ اس پوری بحث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ لوگ ایمان لے آئیں اور مومنین ومتقین کے اختیار کردہ راستے کو اپنالیں ۔ درس ٣ ایک نظر میں قرآن کریم میں مختلف مواقع پر قصص کا بیان ہوتا ہے۔ موقع ومحل خود بتا دیتا ہے کہ یہاں اس قصے کے بیان سے غرض وغایت کیا ہے ‘ سلسلہ کلام کی کون سی کڑی سے تعرض کیا جارہا ہے ؟ کس شکل و صورت میں قصہ پیش ہورہا ہے اور وہ طرز ادا کیا ہے جس میں وہ قصہ بیان ہورہا ہے ........ اس اسلوب کلام سے روحانی ‘ فکری اور فنی فضا میں ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ ایک تو موضوع کلام کا حق ادا ہوجاتا ہے دوسری طرف بیان قصہ کی نفسیاتی اغراض بھی پوری ہوجاتی ہیں اور قصہ کو لانے سے جو اثرات پیدا کرنے مطلوب ہوتے ہیں وہ ہوجاتے ہین۔ بعض لوگوں یہ وہم ہوا ہے کہ قرآنی قصص میں تکرار ہے کیونکہ ایک ہی قصہ مختلف شکلوں میں کئی جگہ دہرایا گیا ہے ۔ لیکن گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ جن قصوں کا کوئی ایک حصہ یا پورے قصے کو کسی جگہ دہرایا گیا ہے تو وہاں وہ اپنی سابقہ شکل و صورت میں ہی نہیں بیان ہوا بلکہ دونوں مقامات پر قصے کی مقدار اور سیاق کلام اور طرز ادا بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ جہاں بھی قصے کا کوئی حصہ دہرایا جاتا ہے وہاں ایک نئی بات کہنی مطلوب ہوتی ہے لہٰذا فی الحقیقت قرآن کریم میں بیان قصص میں کوئی تکرار نہیں ہے ۔ بعض کج فہم لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے بیان کردہ بعض واقعات تخلیقی ہیں یا ان کے بیان میں تصرف کیا گیا ہے یعنی محض مقاصد اور تحسین کلام کے لئے یہ قصے لائے گئے ہیں ۔ لیکن جو شخص بھی فطرت سلیم رکھتا ہو اور کھلی آنکھوں سے قرآن کا مطالعہ کرتا ہو وہ اس حقیقت کو بسہولت پالیتا ہے کہ ہر جگہ موضوع بحث کی مناسبت سے کوئی قصہ یا اس کا حصہ لایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انداز بیان اور طرز ادا بھی موقع ومحل کی مناسبت سے بالکل جدا ہوتی ہے ۔ قرآن کریم ایک دعوتی کتاب ہے ۔ ایک نظام زندگی ہے اور ایک نظام زندگی کا دستور بھی ہے ۔ وہ تسکین ذوق کی حکایت یا تاریخ کی کتاب نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت دین کے دوران منتخب قصے بھی بیان کئے جاتے ہیں ۔ قصوں کے اسلوب بیان اور ان کے مقدار کا فیصلہ سیاق کلام اور مناسبت حال کے لحاظ سے کیا جاتا ہے ۔ بیان قصص میں صرف حسن ادا کی بہترین خوبیوں ہی کا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ زور کلام کی خاطر کہیں بھی واقعات میں اضافہ نہیں کیا گیا ہاں ہر جگہ واقعات کو بالکل ایک انوکھے انداز میں پیش کیا گیا ہے اور اثر انگیزی کے لئے صرف سچائی کی قوت اور حسن ادا پر ہی اعتماد کیا گیا ہے۔ قرآنی قصے درحقیقت قافلہ ایمان کے طویل اور مسلسل سفر کی داستان اور روئیداد ہوتے ہیں اور قرآن میں دعوت دین کی طویل کہانی کو سمودیا گیا ہے جو نسلاً بعد نسل لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی رہی اور لوگ اسے قبول کرتے رہے ۔ یہ قصے ایک طرف تو انسانوں کی ان برگزیدہ ہستیوں کی کیفیت ایمان کو پیش کرتے ہیں جنہیں اس کام کے لئے منتخب کیا گیا اور دوسری طرف یہ بتاتے ہیں کہ ان برگزیدہ ہستیوں اور رب العالمین کے درمیان تعلق کی نواعیت کیا تھی ؟ ان قصوں کے ذریعہ ہم دیکھتے ہیں کہ یوں یہ قافلہ اہل کرم اس طویل شاہراہ پر چلاآتا ہے ۔ دل کی روشنی نور اور طہارت سے بھرتے ہوئے وہ دل کے اندر اس قیمتی متاع ‘ ایمان اور اس کائنات میں اس کی اہمیت کا شعور بیدار کرتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وہ ایمانی تصور حیات کو تمام دوسرے عارضی تصورات زندگی سے ممیز کرتے ہوئے اسے انسان کے حس و شعور میں بٹھاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید جو کتاب دعوت ہے اس کا ایک بڑاحصہ ایسے ہی قصص پر مشتمل ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ ان تصریحات کی روشنی میں قصہ آدم کا مطالعہ کریں جیسا کہ سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے قافلہ حیات انسانی کی زندگی سے بحث کی گئی ہے بلکہ اس پوری کائنات کے وجود سے بحث کی گئی ۔ اس کے بعد انسان پر اپنی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اس کرہ ارض کا ذکر ہوا اور بتایا گیا کہ اس زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ نے انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے ۔ اس ضمن میں اس زمین پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو منصب خلافت عطاکئے جانے کا قصہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ زمین کے اختیارات حضرت آدم (علیہ السلام) کے سپرد کردیتے ہیں لیکن اختیارات کی یہ سپردگی مشروط ہے اور حضرت آدم کے ساتھ ایک معاہدہ ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کو علم ومعرفت کی وہ ضروری مقدار بھی عطا کرتے ہیں جو بار خلافت اٹھانے کے لئے ضروری تھی نیز بعد میں چونکہ اللہ تعالیٰ نے منصب خلافت کا معاہدہ بنی اسرائیل سے کیا۔ اس لئے قصہ آدم اس کے لئے تمہید کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد بنی اسرائیل کو اس خلافت سے معزول کردیا اور قلمدان خلافت اس امت مسلمہ کے حوالے کردی جاتی ہے جو اللہ کے عہد کو اچھی طرح پورا کرنے والی ہے ۔ اس طرح یہ قصہ سیاق وسباق سے پوری طرح ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ لمحی بھر آغاز انسانیت کے احوال پڑھیں اور دیکھیں کہ ان کے پس منظر میں کس قدر قیمتی ہدایات پوشیدہ ہیں ۔ پردہ اٹھتا ہے اور سب سے پہلے ہم عالم بالا کے اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں ۔ بلندیوں کی چمک اور روشنیوں کے نور بصیرت کے ذریعہ ہم انسانیت کے آغاز کی کہانی کو یوں اسٹیج ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ارض و سماء کی تخلیق کا بیان اس آیت میں اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اپنی شان خالقیت بیان فرمائی ہے کہ اس نے آسمان و زمین پیدا فرمائے جو مخلوقات میں بڑی چیزیں ہیں اور نظروں کے سامنے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا بھی تذکرہ فرمایا ہے اور وہ یہ کہ اس نے تمہیں صرف پیدا کر کے نہیں چھوڑ دیا بلکہ تمہاری حاجت کی چیزیں زمین میں پیدا فرمائیں، زمین میں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لیے ہے شرعی قواعد اور قوانین کے مطابق اس سے نفع حاصل کرسکتے ہو۔ خود زمین انسانوں کے لیے بہت بڑی نعمت اور رحمت ہے اور اس کی سطح پر اور اس کے اندر ان گنت چیزیں ہیں۔ انسان ان سب سے منتفع ہوتے ہیں۔ سورة رحمن میں ہے : (وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَنَامِ ) اور سورة ملک میں ہے : (ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ وَاِِلَیْہِ النُّشُوْرُ ) ” اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین کو تمہارے قابو کی چیز بنا دی، لہٰذا اس کے راستوں میں چلو پھرو اور اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق کھاؤ اور تمہیں اسی کی طرف موت کے بعد اٹھ کر جانا ہے۔ “ زمین سے نکلنے والے چھوٹے بڑے درخت، پھل، میوے معدنیات اور طرح طرح کی چیزیں جن کی گنتی بیان سے باہر ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔ انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ انسان ان کو استعمال کرے اور ان کے پیدا کرنے والے کا شکر گزار ہو۔ بعض وہ چیزیں جن میں بظاہر ضرر نظر آتا ہے وہ بھی بعض حالات میں نافع اور مفید ہیں۔ سانپ، بچھو اور سنکھیا تک سے دوائیں بنائی جاتی ہیں۔ البتہ نفع مند بنانے کی تدبیریں ہیں، وہ بھی اللہ جل شانہٗ نے ذہنوں میں ڈالی ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے۔ الاّیہ کہ دلیل حرمت اور استعمال کی ممانعت کسی شرعی دلیل سے ثابت ہوجائے اور یہ بھی سمجھ لیں کہ جس طرح استعمال کے طریقے سیکھتے ہیں، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ شرعی قوانین کے مطابق استعمال کیا جائے مثلاً کوئی شخص کسی کی ملکیت غصب نہ کرے۔ اور نافع چیز کو اپنے لیے ضرر کی چیز نہ بنا لے۔ حرام چیزیں استعمال نہ کرے جس کے فروع اور مسائل جزئیہ بہت زیادہ ہیں۔ اس آیت سے اور سورة حٰمٓ سجدہ کی آیت : (قُلْ اَءِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ ) (الاٰیۃ) سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پہلے پیدا فرمائی اور اس کے بعد آسمان کی طرف توجہ فرمائی۔ جو دھواں تھا اس کے سات آسمان بنا دیئے اور سورة النازعات میں فرمایا ہے : (رَفَعَ سَمْکَہَا فَسَوّٰھَا وَاَغْطَشَ لَیْلَہَا وَاَخْرَجَ ضُحٰھَا وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰہَا) ” یعنی آسمان کی چھت کو بلند فرمایا اور اس کو ٹھیک بنایا اور اس کی رات کو تاریک بنایا اور اس کے دن کو ظاہر فرمایا اور اس کے بعد زمین کو پھیلایا۔ “ ان سب آیات کے ملانے سے معلوم ہوا کہ اوّل زمین کا مادہ بنایا اور اس کے اوپر بھاری بھر کم پہاڑ پیدا فرمائے، پھر سات آسمان بنا دئیے جو بنانے سے پہلے دھوئیں کی صورت میں تھے۔ اس کے بعد زمین کو موجودہ صورت میں پھیلا دیا۔ قال النسفی فی المدارک ولا ینا قض ھذا قولہ والارض بعد ذلک دَحٰھَا لان جرم الارض تقدم خلقہ خلق السماءِ و اما دحو ھا فتأخر۔ (ج ا ص ٣٩) (فَسَوّٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ) یعنی آسمان کا مادہ جو دھوئیں کی صورت میں تھا جس کا ذکر سورة حٰمٓ سجدہ میں ہے (وَھِیَ دُخَانٌ) اس کے سات آسمان بنا دیئے اور خوب اچھی طرح بنائے، ٹھیک بنائے۔ ان میں نہ کجی ہے نہ پھٹن ہے نہ شگاف ہے نہ کسی قسم کا کوئی نقص ہے۔ ساتوں آسمان جو اوپر نیچے تہ بہ تہ بنے ہوئے ہیں، ان میں کسی قسم کا کوئی خلل نہیں۔ سورة ملک میں فرمایا : (وَّھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعْ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ) ” اور وہ زبر دست ہے بخشنے والا ہے جس نے تہ بتہ سات آسمان پیدا فرمائے تو خدا کی خالقیت میں کوئی فرق نہیں دیکھے گا سو تو نگاہ ڈال کر دیکھ لے کیا تو اس میں کوئی خلل دیکھ رہا ہے ؟ “ سورۃ قٓ میں فرمایا : (اَفَلَمْ یَنْظُرُوْا اِِلَی السَّمَآءِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنٰہَا وَزَیَّنّٰہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوْجٍ ) ” کیا انہوں نے نہیں دیکھا آسمان کی طرف اپنے اوپر ہم نے اس کو کیسا بنایا اور اس کو زینت دے دی اور اس میں کوئی شگاف نہیں ہے۔ “ سورۃ بقرہ کی آیت بالا کے آخر میں فرمایا (وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ) (یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے) اتنے بڑے آسمان اتنی بڑی زمینیں اور ان میں جو کچھ اب ہے جو کچھ آئندہ ہوگا، جو کچھ پہلے تھا اور ان کے سوا بھی جو کچھ ہے ان سب کا اس کو پورا پورا علم ہے۔ جو انسان اور جنات دنیا میں آئے ان کے لیے ہدایت بھیجی، ان میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی، فرمانبردار بھی ہیں اور نافرمان بھی، ہدایت قبول کرنے والے بھی اور اس سے منہ موڑنے والے بھی۔ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک کے عقیدہ اور عمل کا علم ہے۔ ہر ایک کے عقیدہ اور عمل کے مطابق جزا اور سزا دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

73 ۔ کائنات ارضی کو تمہارے لئے پیدا کیا تاکہ تم اس سے مادی فوائد حاصل کرو، اور اس میں غور وخوض کر کے خالق کی قدرت وصنعت کا اندازہ لگاؤ، زمین میں ہمارے صرف دنیوی فائدے ہی نہیں بلکہ اس میں دینی فائدے بھی ہیں اور سامانِ آخرت بھی۔ واما قولہ لکم فھو یدل علی ان المذکور بعد قولہ خلق لاجل اشفاعنا فی الدین والدنیا (کبیر ص 370 ج 1) ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ ۔ استوی کا صلہ جب الی ہو تو اس کے معنی قصد کرنے اور متوجہ ہونے کے ہیں۔ استوی الی ای اقبل (قرطبی ص 254 ج 1) زمین پیدا کرنے کے بعد وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا۔ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ۔ تسویہ سے مراد یہ ہے کہ آسمانوں کو بالکل اور مکمل بنایا اور ان میں کسی قسم کی درز یا شکن باقی نہ رہنے دی۔ ومنعی تسویتھن تعدیل خلقھن واخلاءہ من العوج والفطور واتمام خلقھن (کبیر ص 373 ج 1) وَھُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ جس طرح وہ تمام کائنات ارضی وسماوی کا خالق ہے اسی طرح وہ سارے عالم کے ذرہ ذرہ کو جانتا ہے اور زمین و آسمان کی کوئی چیز اس کے علم محیط سے باہر نہیں۔ اس آیت کی ابتداء یعنی ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ میں مبتدا اور خبر ہر دو کے معرفہ ہونے کی وجہ سے حصر ہے پھر ثُمَّ اسْتَویٰ ، خَلَقَ پر معطوف ہے اور وَھُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ، ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ پر معطوف ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ جب کلام کی ابتداء میں حصر ہو تو اس کے باقی اجزاء میں بھی حصر ہوگا۔ تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ ہی زمین و آسمان کا خالق و کارساز ہے اور صرف اللہ ہی ہر چیز کا عالم ہے۔ نتیجہ :۔ جب تم جانتے ہو کہ موت وحیات خدا کے قبضہ میں ہے، زمین و آسمان کا خالق بھی وہی ہے اور ہر ظاہر وچھپی ہوئی چیز کا جاننے والا بھی وہی ہے۔ جب یہ سب کام اسی کے ہیں اور ان میں کوئی اس کا شریک نہیں تو پھر عبادت اور پکار میں اوروں کو کیوں اس کا شریک بناتے ہو۔ نیز تمام دینی ودنیوی نعمتیں بھی اسی ہی نے عطا کی ہیں اور بغیر مانگے دی ہیں تو پھر وہ کون سی چیزیں ہیں جو وہ نہیں دے سکتا اور تم وہ غیروں سے مانگتے ہو۔ کوئی انبیاء (علیہم السلام) اور اولیائے کرام کو پکار رہا ہے، کوئی ملائکہ مقربین سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور کوئی جنوں کے یہاں پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ حالا کہ کوئی ناری یا خاکی خدا کا شریک نہی ہوسکتا کیونکہ معبود صرف وہی ہوسکتا ہے جو زمین و آسمان کا خالق ومالک اور ہر چیز کا عالم ہو۔ مگر نوریوں، ناریوں اور خاکیوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ بھلا کیونکر اللہ تعالیٰ کی نا شکری اور نا سپاسی کرتے ہو حالانکہ تم بالکل بےجان تھے۔ پھر تم کو اس خدا نے زندہ کیا ، پھر اس زندگی کے بعد وہ تم کو موت دے گا ، پھر تم کو دوبارہ زندہ کرے گا ، پھر اسی کی خدمت میں تم سب کی باز گشت ہوگی۔ وہ قادر مطلق ایسا ہے جس نے زمین کی تمام موجودات تمہارے نفع اور تمہارے فائدے کیلئے پیدا کی پھر اس نے آسمانوں کی تکمیل کی جانب توجہ فرمائی اور ان کو ٹھیک اور درست کیا اور ان کو سات آسمان بنادیا اور وہ ہر ایک چیز کا خواب جاننے والا ہے۔ ( تیسیر) ان آیتوں کا تعلق رکوع کی ابتدائی آیت کے ساتھ ہے۔ بیچ میں قرآن اور رسالت کی دلیل تھی ۔ پھر کفار کے معارضہ کا جواب تھا ، اب پھر اصل مضمون کو شروع کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو اور اس محسن حقیقی کے احسانات و انعامات پر غور کرو کہ تم بالکل بےجان اور مردہ تھے۔ جس مادہ سے تم بنے ہو وہ ابتداً غذا کی شکل میں تھا جو تمہارے ماں باپ کے جسم میں ہضم و تحلیل کے تمام مدارج طے کرنے کے بعد نطفہ بن گیا پھر رحم مادر میں وہ نطفہ مختلف سورتیں اختیار کرتا رہا اور بالآخر اس بےجان کو اللہ تعالیٰ نے زندگی اور جان عطا فرمائی ۔ پھر اس زندگی کے بعد موت دے گا موت بھی اس کا احسان ہے پھر اس موت کے بعد قیامت میں دوبارہ زندگی میسر ہوگی پھر تم سب اسی پروردگار کی طرف لوٹائے جائو گے۔ بھلا جس کے اس قدر احسانات تم پر ہیں اس کے ساتھ تم نا سپاسی کیونکر کرسکتے ہو اور جو نافرمان ایسا کرتا ہے اس پر بڑا ہی تعجب ہے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ موت تو زندگی کی ضد ہے پھر دونوں احسان کس طرح ہوسکتے ہیں ۔ اس لئے کہ عالم آخرت کی نعمتیں اور وہاں کی زندگی بدون اس موت کے حاصل نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا نعمت کا ذریعہ اور سبب بھی نعمت ہے اس کے علاوہ موت کے اور بھی فوائد ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارذل عمر سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ پھر دنیوی زندگی کا ذکر کرنے کے بعد اپنے اور احسنات کا ذکر فرماتے ہیں کہ صرف زندگی ہی دے کر نہیں چھوڑدیا بلکہ تمہاری بقاء کا سامان بھی مہیا کیا تمہارے فائدے کے لئے زمین کی تمام چیزیں پیدا کیں ۔ کسی سے بالواسطہ فائدہ حاصل کرتے ہو کسی سے بلا واسطہ نفع اٹھاتے ہو اور اگر کسی کا فائدہ فی الحال معلوم نہ ہو تو یہ مطلب نہیں کہ اس میں فائدہ نہ ہو ۔ قدرت کے ہزار ہا وہ منافع جو اس نے اپنی کائنات میں انسان کے لئے رکھے ہیں ۔ ان سب کا علم بہ یک وقت ہونا ضروری نہیں اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ جب ہر چیز مفید اور سود مند ہے تو وہ حلال بھی ہونی چاہیے اس لئے کہ سنکھیا اور دوسری سمیات میں بہت سے فائدے ہیں ، لیکن اطبا ان کے استعمال سے روکتے ہیں ۔ اسی طرح کوئی نہ کوئی فائدہ تو ہر شے میں ضرور ہے لیکن بعض طبائع کے لئے بعض اشیاء میں ضرر بھی ہے اس لئے نفع اور ضرر کے لحاظے حلت و حرمت کا حکم دیا گیا ہے پھر جس طرح زمین کی جملہ اشیاء میں بنی نوع انسان کے لئے منافع مضمر ہیں ۔ اسی طرح آسمان سے بھی انسانی مخلوق کے بیشمار فوائد وابسطہ ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ زمین و آسمان دونوں ہی سے انسان کی زندگی اور بقاء کا تعلق ہے ۔ اس لئے ارشاد ہوتا ہے کہ پھر اس نے آسمان کی خلقت کو کامل کرنے کی جانب توجہ کی ، چناچہ اس کو درست کر کے سات آسمان بنا دیئے اور وہ ہر جاندار کی تمام ضروریات کا پورا عالم ہے ، آسمان و زمین کے بننے میں ایک مشہور بحث ہے کہ پہلے آسمان بنا یا زمین ، یہ بحث چونکہ طویل ہے اس لئے ہم آئندہ کسی موقع پر عرض کریں گے۔ یہ جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کی دو قسمیں ہیں جن کو سورة لقمان میں ظاہری احسان اور باطنی احسان سے تعبیر فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے واسبغ علیکم نعمہ ظاھرۃ وباطنۃ یعنی اس نے تم پر اپنی نعمتیں خواہ وہ ظاہری ہوں یا باطنی پوری فرما دی ۔ ظاہری نعمت اور احسان تو یہی ہے جیسے لباس مویشی ، سکونت کے مکان ، زراعت کی زمین ، کھانا پانی وغیرہ اور باطنی احسانات سے مراد اس قسم کے احسانات ہیں ۔ جیسے علم ، بزرگی ، آبرو عزت ، معاصرین پر فوقیت ، اقتدار ، مراتب کی بلندی اور تفوق وغیرہ۔ توحید کی بحث میں اب تک جن احسانات کا ذکر فرمایا ہے وہ ظاہری تھے۔ اب آگے باطنی احسانات کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے باپ آدم کو علم دیا۔ خلافت عطا کی ۔ اس کو مسجود ملائک بنایا ۔ تم کو اس کی اولاد ہونے کا شرف عطا کیا ۔ اسی مناسبت اور ربط کی وجہ سے حضرت آد م (علیہ السلام) کا پورا قصہ بیان فرماتے ہیں تا کہ ظاہری احسانات کے ساتھ باطنی اور معنوی احسانات بھی فی الجملہ بنی نوع انسان کے سامنے آجائیں اور وہ دونوں قسم کے احسانات پر غور کریں اور یہ سوچیں کہ جب ان احسانات میں خدا تعالیٰ کا کوئی شریک اور سہیم نہیں ہے تو اسکی ذات اور صفات یا اسکی عبادت میں کیوں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرائیں۔ ( تسہیل)