Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
أَنْبَأَ |
يُنْبِئُ |
أَنْبِ |
مُنْبِئ |
مُنْبَأ |
إِنْبَاء |
اَلنَّبَاء: کے معنی خبر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے۔ اور حقیقی معنی کے لحاظ سے کسی خبر پر نبا کا لفظ استعمال نہیں ہوسکتا۔ جب تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں۔ یعنی (۱)نہایت (۲)مفید (۲)ہونا اور اس سے علم (۳) یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا۔ اور نَبَا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے۔ جس میں کذب کا احتمال نہ ہو۔ جیسے خبر متواتر، خبرالٰہی، اور خبر نبوی اور لفظ نَباء چونکہ معنی خبر کو متضمن ہوتا ہے۔ اس لیے اَخْبَرْتُہٗ بِکَذَا کی طرح اَنْبَاْتُہٗ بِکَذَا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور معنی علم کو متصمن ہونے کی وجہ سے اَعْلَمْتُہٗ کَذقا کی طرح انباْتُہٗ کَذَا بھی کہا جاتا ہے۔ جیسے فرمایا: (قُلۡ ہُوَ نَبَؤٌا عَظِیۡمٌ اَنۡتُمۡ عَنۡہُ مُعۡرِضُوۡنَ) (۳۸:۶۷-۶۸) کہہ دو کہ یہ ایک بڑی (ہولناک چیز کی) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے۔ (عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ عَنِ النَّبَاِ الۡعَظِیۡمِ) (۷۸:۱،۲) یہ لوگ کس چیز کی نسبت پوچھتے ہیں۔ کیا بڑی خبر کی نسبت؟ (اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ۫ فَذَاقُوۡا وَبَالَ اَمۡرِہِمۡ) (۶۴:۵) کیا تم کو ان لوگوں کے حال کی خبر نہیں پہنچی جو پہلے کافر ہوئے تھے۔ تو انہوں نے اپنے کاموں کی سزا کا مزہ چکھ لیا۔ (تِلۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہَاۤ اِلَیۡکَ) (۱۱:۴۹) یہ حالات مجملہ غیب کی خبروں کے ہیں۔ جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ (تِلۡکَ الۡقُرٰی نَقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآئِہَا) (۷:۱۰۱) یہ بستیاں ہیں جن کے کچھ حالات ہم تم کو سناتے ہیں۔ (ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡقُرٰی نَقُصُّہٗ عَلَیۡکَ ) (۱۱:۱۰۰) یہ (پرانی) بستیوں کے تھوڑے سے حالات ہیں جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا) (۴۹:۶) اگر کوئی بدکار تمارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو۔ میں متنبہ کیا ہے کہ اگرکوئی خبر کسی اہم واقعہ کی حامل ہو تو اگرچہ اس کے صحیح ہونے کا یقین یا ظن غالب حاصل ہو جائے لیکن جب تک اس پر نظرثانی اور اچھی طرح سے اس کی جانچ پڑتال نہ ہوجائے اسے بیان کرنے میں توقف کرنا چاہیے۔ نَبَأْتُہٗ وَاَنْبَأْتُہٗ کے معنی خبر دینے کے ہیں۔ چنانچہ قرآن میں ہے: (اَنۡۢبِـُٔوۡنِیۡ بِاَسۡمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ) (۲:۳۱) اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔ (اَنۡۢبِئۡہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَنۡۢبَاَہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ) (۲:۳۳) کہ … تم ان کو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ جب انہوں نے ان کو ان کے نام بتائے۔ (نَبَّاۡتُکُمَا بِتَاۡوِیۡلِہٖ) (۱۲:۳۷) کہ میں تم کو اس کی تعبیر بتادوں گا۔ (وَ نَبِّئۡہُمۡ عَنۡ ضَیۡفِ اِبۡرٰہِیۡمَ) (۱۵:۵۱) اور ان کو ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا حال دو۔ (قُلۡ اَتُنَبِّـُٔوۡنَ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعۡلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ) (۱۰:۱۸) کہہ دو کیا تم خدا کو ایسی چیز بتاتے ہو جس کا وجود اسے نہ آسمانوں میں معلوم ہوتا ہے اور نہ زمین میں۔ (اَمۡ تُنَبِّـُٔوۡنَہٗ بِمَا لَا یَعۡلَمُ ) (۱۳:۳۳) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جن کو وہ … معلوم نہیں کرتا۔ (نَبِّـُٔوۡنِیۡ بِعِلۡمٍ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ) (۶:۱۴۳) اگر سچے ہو تو مجھے سند سے بتاؤ۔ (قَدۡ نَبَّاَنَا اللّٰہُ مِنۡ اَخۡبَارِکُمۡ) (۹:۹۴) خدا نے ہمیں تمہارے سب حالات بتادئیے ہیں۔ اور نَبَّاتْہُ میں اَنْبَاتُہٗ کی بنسبت زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا) (۴۱:۵۰) پس کافر جو عمل کرتے ہیں۔ وہ ہم ان کو ضرور جتائیں گے۔ (یُنَبَّؤُا الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍۭ بِمَا قَدَّمَ وَ اَخَّرَ ) (۷۵:۱۳) اس دن انسان نے جو عمل آگے بھیجے۔ اور جو پیچھے چھورے ہوں گے۔ سب بتادئیے جائیں گے۔ اور اس سے ابلغ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آیت کریمہ: (فَلَمَّا نَبَّاَہَا بِہٖ قَالَتۡ مَنۡ اَنۡۢبَاَکَ ہٰذَا ؕ قَالَ نَبَّاَنِیَ الۡعَلِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ) (۶۶:۳) تو جب وہ ان کو جتائی تو پوچھنے لگیں گے کہ آپ کو یہ کس نے بتایا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس نے بتایا جو جاننے والا خبردار ہے۔ میں اس خبر کے متحقق اور من جانب اﷲ ہونے پر شبہ کرنے کے لیے جواب میں اَنْبَائَ کی بجائے نَبَّائَ کہا ہے۔ کیونکہ یہ اس سے ابلع ہے۔ اسی طرح آیت کریمہ: (قَدۡ نَبَّاَنَا اللّٰہُ مِنۡ اَخۡبَارِکُمۡ) (۹:۹۴) خدا نے ہمیں تمہارے سب حالات بتادئیے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ) (۲۹:۸) پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تمہیں بتائے گا۔ بھی اس لیے ابلغ ہونے پر دال ہیں۔ اَلنُّبُوَّۃُ: وہ سفارت جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان ان کے امور دنیوی اور اخروی میں خرابیوں کو دور کرنے کے لیے جاری ہوتی ہے اسے نبوت کہا جاتا ہے۔ اور نبی کو نبی اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ان باتوں کی خبر دیتا ہے۔ جن پر عقول سلیمہ مطمئن ہوتی ہیں۔ اور نَبِیٌّ ہوسکتا ہے کہ فعیل بمعنی فاعل سے ہو۔ چنانچہ فرمایا: (نَبِّیٔۡ عِبَادِیۡۤ ) (۱۵:۴۹) (اے پیغمبر) میرے بندوں کو بتادو۔ (قُلۡ اَؤُنَبِّئُکُمۡ ) (۳:۱۵) (اے پیغمبران سے) کہو کہ بھلا میں تم کو ایسی چیز بتاؤں؟ اور یہ بھی کہ فعیل بمعنی مفعول سے ہو یعنی خبر دیا گیا کیونکہ اسے اﷲ تعالیٰ کی جانب سے خبر دی جاتی ہے۔ جیسے فرمایا: (نَبَّاَنِیَ الۡعَلِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ) (۶۶:۳) مجھے اس نے بتایا جو جاننے والا خبردار ہے۔ تَنَبَّأَ فُلَانٌ کے معنی دعویٰ نبوت کرنے کے ہیں اور وضع لغوی کے اعتبار سے نبی کے متعلق اس کا استعمال صحیح ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ یہ بات تفعیل کا مطاوع ہوتا ہے، جیسے: زَیَّنَہٗ فَتَزَیَّنَ وَحَلَّاہُ فَتَحَلّٰی وَجَمَّلَہٗ فَتَجَمَّلَ وغیرہ۔ لیکن جھوٹا دعویٰ نبوت کرنے والے کے حق میں متعارف ہونے کی وجہ سے سچے نبی کے حق میں اس کے استعمال سے گریز کیا گیا ہے اور صرف مدعی کاذب کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے تَنَبَّائَ مُسَیْلَمَۃُ یعنی مُسَیْلَمَہ نے جھوٹا دعویٰ نبوت کیا۔ پھر اس بات پر متنبہ کرنے کے لیے کہ اس کی خبریں منجانب اﷲ نہیں ہوتی تھیں نبی کی تصغیر کرکے مُسَیْلَمَۃُ نُبَیِّئُ سَوْئٍ کہا جاتا ہے۔ جیساکہ کسی نے اس کا کلام سن کر کہا تھا۔ وَاﷲِ مَاخَرَجَ ھٰذَا الْکَلَامُ مِنْ اِلِّ: کہ اﷲ کی قسم: یہ ال یعنی اﷲ کا کلام نہیں ہے۔ اَلنَّبْأَۃُ: پست اور خفی آواز۔
Surah:2Verse:31 |
بتاؤ مجھ کو
"Inform Me
|
|
Surah:2Verse:33 |
بتاؤ ان کو
Inform them
|
|
Surah:2Verse:33 |
اس نے بتادئیے ان کو
he had informed them
|
|
Surah:66Verse:3 |
بتایا ہے۔ آپ کو کس نے خبر دی ہے
informed you
|