Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 4

سورة البقرة

وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾

And who believe in what has been revealed to you, [O Muhammad], and what was revealed before you, and of the Hereafter they are certain [in faith].

اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; والَّذِينَ يُوْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ ... And who have faith in what is revealed to you and in what was revealed before you. Ibn Abbas said that, means, "They believe in what Allah sent you with, and in what the previous Messengers were sent with, they do not distinguish between (believing) them, nor do they reject what they brough... t from their Lord." ... وَبِالاخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ And in the Hereafter they are certain. that is the resurrection, the standing (on the Day of Resurrection), Paradise, the Fire, the reckoning and the Scale that weighs the deeds (the Mizan). The Hereafter is so named because it comes after this earthly life. Attributes of the Believers The people described here (2:4) are those whom Allah described in the preceding Ayah, الَّذِينَ يُوْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (Those who have faith in the Ghayb and perform Salah, and spend out of what we have provided for them). Mujahid once stated, "Four Ayat at the beginning of Surah Al-Baqarah describe the believers, two describe the disbelievers, and thirteen describe the hypocrites." The four Ayat mentioned in this statement are general and include every believer, whether an Arab, non-Arab, or a person of a previous Scripture, whether they are Jinns or humans. All of these attributes complement each other and require the existence of the other attributes. For instance, it is not possible that one believes in the Unseen, performs the prayer and gives Zakah without believing in what the Messenger of Allah and the previous Messengers were sent with. The same with certainty in the Hereafter, this is not correct without that, for Allah has commanded the believers, يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ ءَامِنُواْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَـبِ الَّذِى نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَـبِ الَّذِى أَنَزلَ مِن قَبْلُ O you who believe! Believe in Allah, and His Messenger, and the Book (the Qur'an) which He has revealed to the Messenger, and the Book which He sent own to those before (him). (4:136) وَلاَ تُجَـدِلُواْ أَهْلَ الْكِتَـبِ إِلاَّ بِالَّتِى هِىَ أَحْسَنُ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ وَقُولُواْ ءَامَنَّا بِالَّذِى أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَـهُنَا وَإِلَـهُكُمْ وَاحِدٌ And argue not with the People of the Book, unless it be in (a way) that is better, except with such of them as do wrong; and say (to them): "We believe in that which has been revealed to us and revealed to you; our Ilah (God) and your Ilah (God) is One (i.e. Allah)." (29:46) يَـأَيُّهَأ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ ءَامِنُواْ بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ O you who have been given the Book (Jews and Christians)! Believe in what We have revealed (to Muhammad) confirming what is (already) with you. (4:47) and, قُلْ يَـأَهْلَ الْكِتَـبِ لَسْتُمْ عَلَى شَىْءٍ حَتَّى تُقِيمُواْ التَّوْرَاةَ وَالاِنجِيلَ وَمَأ أُنزِلَ إِلَيْكُمْ مِّن رَّبِّكُمْ Say (O Muhammad): "O People of the Book (Jews and Christians)! You have nothing until you act according to the Tawrah (Torah), the Injil (Gospel), and what has (now) been revealed to you from your Lord (the Qur'an)." (5:68) Also, Allah the Exalted described the believers; ءَامَنَ الرَّسُولُ بِمَأ أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُوْمِنُونَ كُلٌّ ءَامَنَ بِاللَّهِ وَمَلَـيِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ The Messenger (Muhammad) believes in what has been revealed to him from his Lord, and (so do) the believers. Each one believes in Allah, His Angels, His Books, and His Messengers. (They say,) "We make no distinction between any of His Messengers". (2: 285) and, وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُواْ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ And those who believe in Allah and His Messengers and make no distinction between any of them (Messengers). (4:152) This is a sample of the Ayat that indicate that the true believers all believe in Allah, His Messengers and His Books. The faithful among the People of the Book, have a special significance here, since they believe in their Books and in all of the details related to that, so when such people embrace Islam and sincerely believe in the details of the religion, then they will get two rewards. As for the others, they can only believe in the previous religious teachings in a general way. For instance, the Prophet stated, إِذَا حَدَثَكُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ فَلَ تُكَذِّبُوهُمْ وَلاَ تُصَدِقُوهُمْ وَلكِنْ قُولُوا امَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأُنْزِلَ إِلَيْكُم When the People of the Book narrate to you, neither reject nor affirm what they say. Rather, say, 'We believe in what was revealed to us and what was revealed to you.' However, the faith that many Arabs have in the religion of Islam as it was revealed to Muhammad might be more complete, encompassing and firmer than the faith of the People of the Book who embraced Islam. Therefore, if the believers in Islam among the People of the Book gain two rewards, other Muslims who have firmer Islamic faith might gain an equal reward that compares to the two the People of the Book gain (upon embracing Islam). And Allah knows best.   Show more

اعمال مومن حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوا اور تجھ سے پہلے کے انبیاء پر نازل ہوا وہ ان سب کی تصدیق کرتے ہیں ایسا نہیں کہ وہ کسی کو مانیں اور کسی سے انکار کریں بلکہ اپنے رب کی سب باتوں کو مانتے ہیں اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں یعنی ... بعث و قیامت ، جنت و دوزخ ، حساب و میزان سب کو مانتے ہیں ۔ قیامت چونکہ دنیا کے فنا ہونے کے بعد آئے گی اس لئے اسے آخرت کہتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جن کی پہلے ایمان بالغیب وغیرہ کے ساتھ صفت بیان کی گئی تھی انہی کی دوبارہ یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں ۔ یعنی ایماندار خواہ عرب مومن ہوں خواہ اہل کتاب وغیرہ ۔ مجاہد ابو العالیہ ، ربیع بن انس اور قتادہ کا یہی قول ہے ۔ بعض نے کہا ہے یہ دونوں٠ ہیں تو ایک مگر مراد اس سے صرف اہل کتاب ہی نہیں ۔ ان دونوں صورتوں میں واؤ عطف کا ہو گا اور صفتوں کا عطف صفتوں پر ہو گا جیسے سبح اسم الخ میں صفتوں کا عطف صفتوں پر ہے اور شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ پہلی صفتیں تو ہیں عرب مومنوں کی اور آیت ( وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:4 ) سے مراد اہل کتاب مومنوں کی صفتیں ہیں ۔ سدی نے حضرت ابن عباس ، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقل کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اسی سے اتفاق کیا ہے اور اس کی شہادت میں یہ آیت لائے ہیں آیت ( وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْھِمْ خٰشِعِيْنَ لِلّٰهِ ۙ لَا يَشْتَرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ) 3 ۔ آل عمران:199 ) یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس وحی پر جو تمہاری طرف نازل ہوئی اور اس وحی پر جو اس سے پہلے ان کی طرف اتاری گئی ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ يُؤْمِنُوْنَ ) 28 ۔ القصص:52 ) یعنی جنہیں اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس کے ساتھ ایمان رکھتے اور جب ان کو ( یہ قرآن ) پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ۔ ہم اس پر بھی ایمان لائے اور اور اسے اپنے رب کی طرف سے حق جانا ۔ ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان تھے ۔ انہیں ان کے صبر کرنے اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے دوہرا اجر ملے گا ۔ بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ تین شخصوں کو دوہرا اجر ملے گا ، ایک اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لائیں اور مجھ پر ایمان رکھیں ۔ دوسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی ۔ تیسرا وہ شخص جو اپنی لونڈی کو اچھا ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے ۔ امام جریر کے اس فرق کی مناسبت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ سورت کے شروع میں مومنوں اور کافروں کا بیان ہوا ہے تو جس طرح کفار کی دو قسمیں ہیں کافر اور منافق ۔ اسی طرح مومنوں کی بھی دو قسمیں ہیں ۔ عربی مومن اور کتابی مومن ۔ میں کہتا ہوں ظاہراً یہ ہے کہ حضرت مجاہد کا یہ قول ٹھیک ہے کہ سورۃ بقرہ کی اول چار آیتیں مومنوں کے اوصاف کے بیان میں ہیں اور دو آیتیں اس کے بعد کی کافروں کے بارے میں ہیں اور ان کے بعد کی تیرہ آیتیں منافقوں سے متعلق ہیں پس یہ چاروں آیتیں ہر مومن کے حق میں عام ہیں ۔ عربی ہو یا عجمی ، کتابی ہو یا غیر کتابی ، انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے ۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک وصف دوسرے کو لازم اور شرط ہے ایک بغیر دوسرے کے نہیں ہو سکتا ۔ غیب پر ایمان لانا ، نماز قائم کرنا ، اور زکوٰۃ دینا اس وقت تک صحیح نہیں جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اگلے انبیاء پر جو کتابیں اتری ہیں ۔ ان پر ایمان نہ ہو اور ساتھ ہی آخرت کا یقین کامل نہ ہو جس طرح پہلی تین چیزیں بغیر پچھلی تین چیزوں کے غیر معتبر ہیں ۔ اسی طرح پچھلی تینوں بغیر پہلی تینوں کے صحیح نہیں ۔ اسی لئے ایمان والوں کو حکم الٰہی ہے آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ) 4 ۔ النسآء:136 ) یعنی ایمان والو اللہ پر ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور جو کتاب اس پر اتری ہے اس پر اور جو کتابیں ان سے پہلے اتری ہیں ان پر ایمان لاؤ ۔ اور فرمایا آیت ( وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ ) 29 ۔ العنکبوت:46 ) یعنی اہل کتاب سے جھگڑنے میں بہترین طریقہ برتو اور کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو ہم پر نازل کیا گیا اور جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے ۔ ارشاد ہے اے اہل کتاب جو ہم نے اتارا ہے اس پر ایمان لاؤ اس کو سچا کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے ۔ اور جگہ فرمایا ۔ اے اہل کتاب تم کسی چیز پر نہیں ہو جب تک توراۃ ، انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے ۔ قائم نہ رکھو ۔ دوسری جگہ تمام ایمان والوں کی طرف سے خبر دیتے ہوئے قرآن پاک نے فرمایا آیت ( اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:285 ) یعنی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایمان لائے اس پر جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا اور تمام ایمان والے بھی ہر ایک ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ۔ ہم رسولوں میں فرق اور جدائی نہیں کرتے ۔ اسی طرح ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں ایمان والوں کا اللہ تعالیٰ پر اس کے تمام رسولوں اور سب کتابوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اور یہ بات ہے کہ اہل کتاب کے ایمان والوں کی ایک خاص خصوصیت ہے کیونکہ ان کا ایمان اپنے ہاں کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو قرآن کریم پر بھی تفصیل کے ساتھ ایمان لاتے ہیں ۔ اسی لئے ان کو دوہرا اجر ملتا ہے اور اس امت کے لوگ بھی اگلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں لیکن ان کا ایمان اجمالی طور پر ہوتا ہے ۔ جیسے صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم سے اہل کتاب کوئی بات کریں تو تم نہ اسے سچ کہو نہ جھوٹ بلکہ کہہ دیا کرو کہ ہم تو جو کچھ ہم پر اترا اسے بھی مانتے ہیں اور جو کچھ تم پر اترا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ بعض موقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان بہ نسبت اہل کتاب کے زیادہ پورا زیادہ کمال والا زیادہ راسخ اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس حیثیت سے ممکن ہے کہ انہیں اہل کتاب سے بھی زیادہ اجر ملے چاہے وہ اپنے پیغمبر اور پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے سبب دوہرا اجر پائیں لیکن یہ لوگ کمال ایمان کے سبب اجر میں ان سے بھی بڑھ جائیں ۔ واللہ اعلم ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ کتابیں انبیاء (علیہم السلام) پر نازل ہوئیں وہ سب سچی ہیں وہ اب اپنی اصل شکل میں دنیا میں نہیں پائی جاتیں نیز ان پر عمل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب عمل صرف قرآن اور اس کی تشریح نبوی۔ حدیث۔ پر ہی کیا جائے گا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ وحی و رسالت کا سلسلہ آنحض... رت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم کردیا گیا ہے، ورنہ اس پر بھی ایمان کا ذکر اللہ تعالیٰ ضرور فرماتا۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] نازل شدہ سے مراد صرف قرآن ہی نہیں بلکہ قرآن کا بیان (توضیح و تشریح) بھی ہے جو قرآن میں موجود نہیں مثلاً نماز ادا کرنے کی ترکیب، محل زکوٰۃ اشیاء، نصاب زکوٰۃ اور شرح زکوٰۃ کی تعین وغیرہ لاتعداد ایسے احکام و ہدایات جو قرآنی احکام پر عمل پیرا ہونے کے لیے ضروری تھے۔ نیز وہ سابقہ انبیاء پر نازل شدہ و... حی پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ آپ پر نازل شدہ وحی پر بالتفصیل ایمان لانا ضروری ہے اور سابقہ انبیاء کی وحی پر اجمالاً کیونکہ قرآنی تصریحات کی رو سے ان کی کتابوں میں تحریف و تبدل ہوچکا ہے۔ یہ چوتھی شرط ہے۔ [٨] آخرت کا مفہوم اور عقیدہ آخرت کی اہمیت :۔ آخرت کا لفظ ایک جامع اصطلاح ہے جس میں کئی طرح کے عقائد شامل ہیں مثلاً (١) مرنے پر انسان کی زندگی کا کلیتاً خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ بلکہ مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ پھر اس سے اس کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا، لہذا وہ اس دنیا میں ایک غیر ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپنے تمام اعمال کے لیے اللہ کے ہاں جواب دہ ہے (٢) موجودہ نظام کائنات ابدی نہیں بلکہ ایک وقت آنے والا ہے جب یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک دوسرا عالم پیدا فرمائے گا جس میں تمام فوت شدہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کر کے اکٹھا کر دے گا اور فرداً فرداً ہر ایک سے اس کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ (٣) اس فیصلہ کے مطابق جو لوگ کامیاب قرار دیئے جائیں گے وہ جنت میں داخل ہوں گے اور نافرمان، کافر، مشرک وغیرہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ یوم آخرت کی تفصیلات بیشمار ہیں۔ جنہیں یہاں درج کرنا ممکن نہیں۔ مختصراً یہ کہ ایمان بالآخرۃ، ایمان بالغیب کا اتنا اہم جزو ہے جو انسان کو زندگی کا دھارا بدلنے اور صراط مستقیم کی طرف آنے اور تقویٰ اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اسی لیے اس کا ایمان بالغیب کے بعد علیحدہ طور پر بھی ذکر کردیا گیا۔ یہ & ایمان بالآخرت & ہدایت قبول کرنے کے لیے پانچویں شرط ہوئی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ ) خواہ قرآن ہو یا سنت، فرمایا : (وَاَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ) [ النساء : ١١٣ ] ” اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی۔ “ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ) یعنی وہ وحی الٰہی پر ایمان رکھتے ہیں، خواہ کسی پیغمبر پر اتری ہو۔ جو لوگ کسی پیغمبر پر وح... ی کا اترنا ہی نہیں مانتے ان کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں۔ البتہ اب عمل اسی پر ہوگا جو آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے، کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ [ الحجر : ٩ ] جبکہ پہلی کتابیں اصل حالت میں موجود ہی نہیں۔ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ : آخرت کا لفظ ” اول “ کے مقابلہ میں ” آخر “ کے ساتھ تاء لگانے سے بنا ہے۔ دنیا کی زندگی کے بعد والی زندگی، اس کا یقین ہی انسان کو نیک اعمال کرنے اور برے اعمال سے بچنے پر آمادہ کرسکتا ہے، اس لیے یہ ایمان کا بنیادی جز ہے۔ ” ہُمْ “ ضمیر کے ساتھ حصر پیدا ہوتا ہے، یعنی آخرت پر صحیح یقین رکھنے والے اہل اسلام ہی ہیں۔ دوسرے لوگوں کے عقائد درحقیقت اوہام و خرافات پر مبنی ہیں، مثلاً یہود و نصاریٰ کا دعویٰ کہ جنت میں ہم ہی جائیں گے اور آگ میں گئے بھی تو چند دن رہیں گے۔ اسی طرح ہندوؤں کا تناسخ کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد نیکوں کی روح کسی بہتر جان دار میں منتقل ہوتی ہے اور بروں کی روح کسی برے جانور، مثلاً کتے یا چوہے وغیرہ کی شکل میں منتقل ہوتی ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

This verse speaks of some other attributes of the God-fearing, giving certain details about faith in the unseen with a special mention of faith in hereafter. Commenting on this verse, the blessed Companions ` Abdullah ibn Masud and ` Abdullah ibn ` Abbs (رض) have said that in the days of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) God-fearing Muslims were of two kinds, - those who used to be associ... ators and disbelievers but accepted Islam, and those who used to be among the people of the Book (that is, Jews and Christians) but embraced Islam later on; the preceding verse refers to the first group, and this verse to the second. Hence this verse specifically mentions belief in the earlier Divine Books along with belief in the Holy Qur&an, for, according to the Hadith, people in the second group deserve a double recompense, firstly, for believing in and following the earlier Books before the Holy Qur&an came to replace them, and secondly, for believing in and following the Holy Qur&an when it came as the final Book of Allah. Even today it is obligatory for every Muslim to believe in the earlier Divine Books except that now the belief has to take this form: everything that Allah has revealed in the earlier Books is true (excepting the changes and distortions introduced by selfish people), and that it was incumbent upon the people for whom those Books had been sent to act according to them, but now that all the earlier Books and Shari&ahs have been abrogated, one must act according to the Holy Qur&an alone.3 3. Exactly as predicted by a Hadith, today we see all around us a proliferation of |"knowledge|" and of |"writing|". One of the dangerous forms the process has taken is the indiscriminate translation at least into European languages and the popularization of the sacred books of all possible religious and metaphysical traditions - not only the Hindu, the Chinese or the Japanese, but also the Shamanic or the Red Indian. The lust for reading sacred books has virtually grown into a mania, especially among the modern young people with their deep sense of being uprooted and disinherited, and all considerations of aptitude have been contemptuously set aside. In these circumstances, Muslims with a Western orientation are naturally impelled to ask themselves as to what they can or should make of such books which sometimes seem to offer similarities and parallels to the Holy Qur&an itself, and more often to the Sufi doctrines. The problem has already attained noticeable proportions, for in 1974 the government of Turkey found it necessary to ban the entry of certain Hindu sacred books like the Bhagavadgita and Upanishads. The correct doctrinal position in this respect is that it is obligatory for every Muslim, as an essential part of the Islamic creed, to believe in all the prophets and messengers of Allah and in the Divine Books (not in their distorted forms, but as they were originally revealed) that have specifically been mentioned by their names in the Holy Qur&an, and also to believe that Allah has sent His messengers and His books for the guidance of all the peoples and all the ages, and that Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is the last prophet and the Holy Qur&an the final Book of Allah which has come down to replace the earlier Books and Shari&ahs. As to the question of the authenticity and divine origin of a particular book held in reverence by an earlier religion or metaphysical tradition, a Muslim is not allowed to affirm such a claim unequivocally, nor should he unnecessarily reject such a possibility. In so far as contents of the book concerned agree with what the Holy Qur&an has to say on the subject, we may accept the statement as true, otherwise spiritual etiquette requires an average Muslim to keep quiet and not meddle with things which he is not likely to understand. As for reading the sacred books of other traditions, it should be clearly borne in mind that a comparative study of this nature requires a very special aptitude which is extremely rare, and hence demands great caution. A cursory reading of sacred books, motivated by an idle curiosity or by a craze for mere information, may very well lead to an intellectual disintegration or to something still worse, instead of helping in the |"discovery of the truth|" and the acquisition of |"peace|" which a comparative study is widely supposed to promise. Even when the aptitude and the knowledge necessary for the task is present, such a study can be carried out only under the supervision of an authentic spiritual master. In any case, we cannot insist too much on the perils of the enterprise. An argument to the Finality of Prophethood The mode of expression helps us to infer from this verse the fundamental principle that the Holy Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is the last of all the prophets, and the Book revealed to him is the final revelation and the last Book of Allah. For, had Allah intended to reveal another Book or to continue. The mode of revelation even after the Holy Qur&an, this verse, while prescribing belief in the earlier Books as necessary for Muslims, must also have referred to belief in the Book or Books to be revealed in the future. In fact, such a statement was all the more needed, for people were already familiar with the necessity of believing in the Torah, the Evangile and the earlier Books, and such a belief was in regular practice too, but if prophethood and revelation were to continue even after the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، it was essential that the coming of another prophet and another book should be clearly indicated so that people were not left in doubt about this possibility. So, in defining Iman ایمان ، the Holy Qur&an mentions the earlier prophets and the earlier Books, but does not make the slightest reference to a prophet or Book to come after the last Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The matter does not end with this verse. The Holy Qur&an touches upon the subject again and again in no less than forty or fifty verses, and in all such places it mentions the prophets, the Books and the revelation preceding the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) but nowhere is there even so much as a hint with regard to the coming of a prophet or of a revelation in the future, belief in whom or which should be necessary. We cite some verses to demonstrate the point: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ And what We have sent down before you. (16:43) وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ And We have certainly sent messengers before you. (40:78) وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا And certainly before you We have sent messengers. (20:47) وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ And what was revealed before you. (4:60) وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِك And it has certainly been revealed to you and to those who have gone before you... (39:65) كَذٰلِكَ يُوْحِيْٓ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ Thus He reveals to you and He revealed to those who have gone before you. (42:3) كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ Fasting is decreed (literally, written) for you as it was decreed for those before you. (2:183) سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا Such was Our way with the messengers whom We sent before you. (17:77) In these and similar verses, whenever the Holy Qur&an speaks of the sending down of a Book or a revelation or a prophet or a messenger, it always attaches the conditional phrase, Min qabl مِنْ قَبْلِ (before) or Min Qablik مِنْ قَبْلِك (before you), and nowhere does it employ or suggest an expression like min ba` d مِنْ بَعد (after you). Even if other verses of the Holy Qur&an had not been explicit about the finality of the prophethood of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and about the cessation of revelation, the mode of expression adopted by the Holy Qur&an in the present verse would in itself have been sufficient to prove these points. The God-fearing have Faith in the Hereafter The other essential quality of the God-fearing mentioned in this verse is that they have faith in Al-Akhirah الآخرت (the Hereafter). Lexically the Akhirah signifies &that which comes after something&; in the present context, it indicates a relationship of contrast with the physical world, and thus signifies the other world which is beyond physical reality as we know it and also beyond the sensuous or rational perception of man. The Holy Qur&an gives to the Hereafter other names too - for example, Dar al-Qarar دار القرار (the Ever-lasting Abode), Dar al-Hayawan دار الحیوان (the Abode of Eternal Life) and Al-` Ugba العقبہ (the Consequent). The Holy Qur&an is full of vivid descriptions of the Hereafter, of the joys of heaven and of the horrors of hell. Although faith in the Hereafter is included in faith in the unseen which has already been mentioned, yet the Holy Qur&an refers to it specifically because it may, in a sense, be regarded as the most important among the constitutive elements of faith in so far as it inspires man to translate faith into practice, and motivates him to act in accordance with the requirements of his faith. Along with the two doctrines of the Oneness of God and of prophethood, this is the third doctrine which is common to all the prophets and upon which all the Shari&ahs are agreed.4 4. There is a deplorable misconception with regard to the Hereafter, quite wide-spread among those who are not, or do not want to be, familiar with the Holy Qur&an and who have at the same time been touched by the rationalism, materialism and libertarianism of the Western society, which makes them cherish certain mental and emotional reservations at least about the horrors of hell, if not about the joys of heaven. Some of them have gone to the preposterous length of supposing that these are the inventions of the ` Ulama& whom they describe as &obscurantist& of course, in the jargon of the Western Reformation and of the so-called Enlightenment. They ignore the obvious fact that faith in the Holy Qur&an necessitates faith in every word of the Holy Qur&an, and that it is not possible to affirm one of the Book while denying another and yet remain a Muslim ۭاَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ |"What, do you believe in one part of the Book and deny another?|" (2:85) Moreover, these enlightened Muslims have never made a serious attempt to take into account the complex historical factors that led to- the rise of the Enlightenment in Europe, nor the meaning of the subsequent development in ethical ideas. We may, therefore, give a few and very brief indications. There has been no dearth, even in the hey-day of the Enlightenment, of thinkers who have had no scruples in dispensing with ethics altogether which they look upon as superstition or tyranny and hence a blight for the human personality. But even those thinkers who have recognised the indispensable need for regulations and rules, if not principles, for human conduct in order to preserve social order or to make social life possible, have in general had no qualms about discarding the very idea of divine sanction - despite the intimation of Voltaire, the arch-priest of relationalism, that man would have to invent God, even if He did not exist. As to the nature and origin of the ethical regulations and the sanction behind them, Western thinkers have fiom time to time tried to promote various agencies - the sovereign state, social will or convention or custom, the supposedly pure and innocent nature of man himself with its capacity for self-regulation, and finally biological laws. The second half of the twentieth century has witnessed the withering away of all these ethical authorities which has left the modern man without even a dim prospect of constructing a new illusion. It is only in this perspective that one can properly consider the significance of the belief in the hereafter for human society. Faith in the Hereafter: A revolutionary belief The belief in the Hereafter, among Islamic doctrines, is the one whose role in history has been what is nowadays described as revolutionary, for it began with transmuting the morals and manners of the followers of the Holy Qur&an, and gradually gave them a place of distinction and eminence even in the political history of mankind. The reason. is obvious. Consider the case of those who believe that life in the physical world is the only life, its joys the only joys and its pains the only pains, whose only goal is to seek the pleasures of the senses and the fulfillment of physical or emotional needs, and who stubbornly refuse to believe in the life of the Hereafter, in the Day of Judgment and the assessment of everyone&s deeds, and in the requital of the deeds in the other world. When such people find the distinction between truth and falsehood, between the permissible and the forbidden, interfering with the hunt for the gratification of their desires, such differentiations naturally become intolerable to them. Now, who or what can effectively prevent them from committing crimes? The penal laws made by the state or by any other human authority can never serve either as real deterrent to crime or as agents of moral reform. Habitual criminals soon grow used to the penalties. A man, milder or gentler of temperament or just timid, may agree to forego the satisfaction of his desires for fear of punishment, but he would do so only to the extent that he is in danger of being caught. But in his privacy where the laws of the state cannot encroach upon his freedom of action, who can force him to renounce his pleasures and accept the yoke of restraints? It is the belief in the Hereafter and the fear of Allah, and that alone, which can bring man&s private behaviour in line with his public behaviour, and establish a harmony between the inner state and the outer. For the God-fearing man knows for certain that even in the secrecy of a well-guarded and sealed room and in the darkness of night somebody is watching him, and somebody is writing down the smallest thing he does. Herein lies the secret of the clean and pure society which arose in the early days of Islam when the mere sight of a Muslim, of his manners and morals, was enough to make non-believers literally fall in love with Islam. For true Faith in the Hereafter, certitude must follow Oral Affirmation. Before we proceed, we may point out that in speaking of faith in the hereafter as one of the qualities of the God-fearing, the Holy Qur&an does not use the word yu&minuna یومنینا (believe) but the word yuqinuna (have complete certitude), for the opposite of belief is denial, and that of certitude is doubt and hesitation. Thus, we find a subtle suggestion here that in order to attain the perfection of Iman ایمان it is not enough to affirm the hereafter orally, but one must have a complete certitude which leaves no room for doubt - the kind of certitude which comes when one has seen a thing with one&s own eyes. It is an essential quality of the God-fearing that they always have present before their eyes the whole picture of how people will have to present themselves for judgment before Allah in the hereafter, how their deeds will be assessed and how they will receive reward or punishment according to what they have been doing in this world. A man who amasses wealth by usurping what rightfully belongs to others, or who gains petty material ends by adopting unlawful means forbidden by Allah, may declare his faith in the hereafter a thousand times and the Shari&ah may accept him as a Muslim in the context of worldly concerns, but he does not possess the certitude which the Holy Qur&an demands of him. And it is this certitude alone which transforms human life, and which brings in its wake as a reward the guidance and triumph promised in verse 5 of this Surah: أُولَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّ‌بِّهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٥﴾ It is these who are on guidance given by their Lord; and it is just these who are successful.  Show more

(آیت) وَ الَّذِيْنَ يُؤ ْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ یعنی متقین ایسے ہیں کہ ایمان رکھتے ہیں اس کتاب پر بھی جو آپ کی طرف اتاری گئی اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جا چکی ہیں اور آخرت پر بھی وہی لوگ یقین رکھتے ہیں، اس آیت م... یں متقین کی باقی صفات کا بیان ہے جس میں ایمان بالغیب کی کچھ تفصیل اور ایمان بالآخرت کا ذکر ہے حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ عہد رسالت میں مؤمنین متقین دو طرح کے حضرات تھے ایک وہ جو پہلے مشرکین میں سے تھے پھر مشرف باسلام ہوئے دوسرے وہ جو پہلے اہل کتاب یہودی یا نصرانی تھے پھر مسلمان ہوگئے اس سے پہلی آیت میں طبقہ کا ذکر تھا اور اس آیت میں دوسرے طبقہ کا ذکر ہے اسی لئے اس آیت میں قرآن پر ایمان لانے کے ساتھ پچھلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کی بھی تصریح فرمائی گئی کہ وہ حسب تصریح حدیث دوسرے ثواب کے مستحق ہیں ایک پچھلی کتابوں کے زمانے میں ان پر ایمان لانے اور عمل کرنے کا ثواب دوسرے قرآن کے زمانے میں قرآن پر ایمان لانے اور عمل کرنے کا ثواب پچھلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا آج بھی ہر مسلمان کے لئے لازم ہے فرق اتنا ہے کہ آج ان کتابوں پر ایمان اس طرح ہوگا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کتابوں میں نازل فرمایا تھا وہ سب حق ہے اور اس زمانے کے لئے وہی واجب العمل تھا مگر قرآن نازل ہونے کے بعد چونکہ پچھلی کتابیں اور شریعتیں سب منسوخ ہوگئیں تو اب عمل صرف قرآن ہی پر ہوگا، مسئلہ ختم نبوت کی ایک واضح دلیل : آیت کے اس طرز بیان سے ایک اہم اصولی مسئلہ بھی نکل آیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری نبی ہیں اور آپ کی وحی آخری وحی کیونکہ اگر قرآن کے بعد کوئی اور کتاب یا وحی بھی نازل ہونے والی ہوتی تو جس طرح اس آیت میں پچھلی کتابوں اور وحی پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے اسی طرح آئندہ نازل ہونے والی کتاب اور وحی پر ایمان لانے کا ذکر بھی ضروری ہوتا بلکہ اس کی ضرورت زیادہ تھی کیونکہ تورات و انجیل اور تمام کتب سابقہ پر ایمان لانا تو پہلے سے جاری اور معلوم تھا اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی سلسلہ وحی اور نبوت جاری ہوتا تو ضرورت اس کی تھی کہ اس کتاب اور اس نبی کا ذکر زیادہ اہتمام سے کیا جاتا جو بعد میں آنے والے ہوں تاکہ کسی کو اشتباہ نہ رہے، مگر قرآن نے جہاں ایمان کا ذکر کیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے نازل ہونے والی وحی اور پہلے انبیاء کا ذکر فرمایا بعد میں آنے والی کسی وحی یا نبی کا کہیں قطعاً ذکر نہیں پھر صرف اسی آیت میں نہیں بلکہ قرآن کریم میں یہ بھی مضمون اول سے آخر تک مختلف مقامات میں چالیس پچاس آیتوں میں آیا ہے سب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے انبیاء پہلی وحی، پہلی کتابوں کا ذکر ہے کسی ایک آیت میں اس کا اشارہ تک نہیں کہ آئندہ بھی کوئی وحی یا نبی آنے والا ہے جس پر ایمان لانا ہے مثلاً ارشاد ہے : (١) وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ ( سورة نحل : ٤٣) (٢) وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ ( سورة مومن : ٧٨) (٣) وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا ( سورة روم : ٤) (٤) وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ( سورة نساء : ٦٠) (٥) وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ( سورة زمر : ٦٥) (٦) كَذٰلِكَ يُوْحِيْٓ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ( سورة شوریٰ : ٣) (٧) كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ ( سورة بقرہ : ١٨٣) (٨) سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا ( سورة اسرائیل : ٧٧) ان آیات میں اور ان کی امثال دوسری آیات میں جہاں کہیں نبی یا رسول یا وحی و کتاب بھیجنے کا ذکر ہے سب کے ساتھ مِنْ قَبْلِ اور مِنْ قَبْلِكَ کی قید لگی ہوئی ہے کہیں مِنْ بَعدِ کا اشارہ تک نہیں اگر ختم نبوت اور انقطاع وحی کا دوسری آیات میں صراحۃ ذکر نہ ہوتا تو قرآن کا یہ طرز ہی اس مضمون کی شہادت کے لئے کافی تھا مسئلہ ختم نبوت پر قرآنی تصریحات اور احادیث متواترہ کی شہادت اور امت کا اجماع تفصیل کے ساتھ دیکھنا ہو تو میرا رسالہ ختم نبوت دیکھا جائے، متقین کی تفسیر میں صفت ایمان بالآخرۃ : اس آیت میں متقین کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی گئی کہ وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں آخرت سے مراد وہ دار آخرت ہے جس کو قرآن میں دارالقرار، دارالحیوان اور عقبیٰ نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے اور پورا قرآن اس کے ذکر اور اس کے ہولناک حالات سے بھرا ہوا ہے، آخرت پر ایمان ایک انقلابی عقیدہ ہے : آخرت پر ایمان لان اگرچہ ایمان بالغیب کے لفظ میں آچکا ہے مگر اس کو پھر صراحۃً اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ اجزائے ایمان میں اس حیثیت سے سب میں اہم جز ہے کہ مقفضائے ایمان پر عمل کا جذبہ پیدا کرنا اسی کا اثر ہے، اور اسلامی عقائد میں یہی وہ انقلابی عقیدہ ہے جس نے دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور جس نے آسمانی تعلیم پر عمل کرنے والوں کو پہلے اخلاق و اعمال میں اور پھر دنیا کی سیاست میں بھی تمام اقوام عالم کے مقابلے میں ایک امتیازی مقام عطا فرمایا اور جو عقیدہ توحید و رسالت کی طرح تمام انبیاء اور تمام شرائع میں مشترک اور متفق علیہ چلا آتا ہے، وجہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے سامنے صرف دنیا کی زندگی اور اسی کی عیش و عشرت ان کا انتہائ مقصود ہے اسی کی تکلیف کو تکلیف سمجھتے ہیں آخرت کی زندگی اور اعمال کے حساب کتاب اور جزاء وسزا کو وہ نہیں مانتے وہ جب جھوٹ، سچ اور حلال حرام کی تفریق کو اپنی عیش و عشرت میں خلل انداز ہوتے دیکھیں تو ان کو جرائم سے روکنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی، حکومت کے تعزیری قوانین قطعاً انسداد جرائم اور اصلاح اخلاق کے لئے کافی نہیں عادی مجرم تو ان سزاؤں کے عادی ہو ہی جاتے ہیں کوئی شریف انسان اگر تعزیری سزا کے خوف سے اپنی خواہشات کو ترک بھی کرے تو اسی حد تک کہ اس کو حکومت کی داروگیر کا خطرہ ہو، خلوتوں میں اور راز دارانہ طریقوں پر جہاں حکومت اور اس کے قوانین کی رسائی نہیں، اسے کون مجبور کرسکتا ہے کہ اپنی عیش و عشرت اور خواہش کو چھوڑ کر پابندیوں کا طوق اپنے گلے میں ڈال لے، ہاں وہ صرف عقیدہ آخرت اور خوف خدا ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کی ظاہری اور باطنی حالت جلوت وخلوت میں یکساں ہوسکتی ہے وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ مکان کے بند دروازوں اور ان پر پہرہ چوکیوں میں اور رات کی تاریکیوں میں بھی کوئی دیکھنے والا مجھے دیکھ رہا ہے کوئی کوئی لکھنے والا میرے اعمال کو لکھ رہا ہے، یہی وہ عقیدہ تھا جس پر پورا عمل کرنے کی وجہ سے اسلام کے ابتدائی دور میں ایسا پاکباز معاشرہ پیدا ہوا کہ مسلمانوں کی صورت دیکھ کر، چال چلن دیکھ کر لوگ دل وجان سے اسلام کے گرویدہ ہوجاتے تھے، یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اس آیت میں بالاٰخرۃ کے ساتھ یؤ منون نہیں بلکہ یوقنون استعمال فرمایا گیا ہے، کیونکہ ایمان کا مقابل تکذیب ہے، اور ایقان کا مقابل شک وتردد اس میں اشارہ ہے کہ آخرت کی زندگی کی محض تصدیق کرنا مقصد کو پورا نہیں کرتا بلکہ اس کا ایسا یقین ضروری ہے جیسے کوئی چیز آنکھوں کے سامنے ہو، متقین کی یہی صفت ہے کہ آخرت میں حق تعالیٰ کے سامنے پیشی اور حساب کتاب، پھر جزا وسزا کا نقشہ ہر وقت ان کے سامنے رہتا ہے، وہ شخص جو دوسروں کا حق غصب کرنے کے لئے جھوٹے مقدمے لڑتا ہے، جھوٹی گواہی دے رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے فرمان کے خلاف حرام مال کمانے اور کھانے میں لگا ہوا ہے یا دنیا کے ذلیل مقاصد حاصل کرنے کے لئے خلاف شرع ذرائع اختیار کر رہا ہے، وہ ہزار بار آخرت پر ایمان لانے کا اقرار کرے اور ظاہر شریعت میں اس کو مومن کہا بھی جائے لیکن قرآن جس ایقان کا مطالبہ کرتا ہے وہ اسے حاصل نہیں اور وہ ہی انسان کی زندگی میں انقلاب لانیوالی چیز ہے اسی کے نتیجے میں متقین کو ہدایت اور کامیابی کا وہ انعام دیا گیا ہے جس کا ذکر سورة بقرہ کی پانچویں آیت میں ہے، اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یعنی بس یہی لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے اور یہ لوگ ہیں پورے کامیاب ،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۝ ٠ ۚ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ۝ ٤ ۭ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأ... وّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث . - وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع . وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔ يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤۔ ٥) اور جو قرآن کریم اور تمام انبیائے کرام پر جو کتابیں نازل ہوئی ہیں ان کی اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کی اور جنت کے جملہ انعامات کی تصدیق کرتے ہیں، یہ حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھ ہیں۔ ایسی اچھائیوں کے مالک اپنے پروردگار کی جانب سے رحمت و کرامت اور بزرگی کے مالک ہیں اور یہ اللہ تعال... یٰ کے غضب اور عذاب سے رہائی پانے والے ہیں۔ یہ تفسیر بھی ہے کہ جن حضرات نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک کو پایا اور جن چیزوں کا ان حضرات نے مطالبہ کیا تھا اس کو حاصل کرلیا اور جن برائیوں سے بھاگ کر آئے تھے، اس سے نجات حاصل کرلی (یعنی محبت نبوی کی برکت سے تزکیہ نفوس کے مرحلے سے بخوبی گزر گئے) یہ حضرات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ ) ( وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج) ” اور اس پر بھی (ایمان رکھتے ہیں) جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے نازل کیا گیا۔ “ یہ بہت اہم الفاظ ہیں۔ عام طور پر آج کل ہمارے ہاں یہ خیال پھیلا ہوا ہے کہ سابقہ آسمانی کتب تورات اور انجیل وغیرہ کے ... پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ‘ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ” کوئی ضرورت نہیں “ کی حد تک تو شاید بات صحیح ہو ‘ لیکن ” کوئی فائدہ نہیں “ والی بات بالکل غلط ہے۔ دیکھئے قرآن کے آغاز ہی میں کس قدر اہتمام کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ ایمان صرف قرآن پر ہی نہیں ‘ اس پر بھی ضروری ہے جو اس سے پہلے نازل کیا گیا۔ سورة النساء کوئی چھ ہجری میں جا کر نازل ہوئی ہے ‘ اور اس کی آیت ١٣٦ کے الفاظ ملاحظہ کیجیے : (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر نازل کی ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کرچکا ہے۔ “ چنانچہ تورات ‘ انجیل ‘ زبور اور صحفِ ابراہیم (علیہ السلام) پر اجمالی ایمان کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ البتہ چونکہ ہم سمجھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ ان کتابوں میں تحریف ہوگئی ہے لہٰذا ان کتابوں کی کوئی شے قرآن پر حجت نہیں ہوگی۔ جو چیز قرآن سے ٹکرائے گی ہم اس کو ردّ کردیں گے اور ان کتابوں کی کسی شے کو دلیل کے طور پر نہیں لائیں گے۔ لیکن جہاں قرآن مجید کی کسی بات کی نفی نہ ہو رہی ہو وہاں ان سے استفادہ میں کوئی حرج نہیں۔ بہت سے حقائق ایسے ہیں جو ہمیں ان کتابوں ہی سے ملتے ہیں۔ مثلاً انبیاء ( علیہ السلام) کے درمیان زمانی ترتیب (Chronological Order) ہمیں تورات سے ملتی ہے ‘ جو قرآن میں نہیں ہے۔ قرآن میں کبھی حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر بعد میں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلے آجاتا ہے۔ یہاں تو کسی اور پہلو سے ترتیب آتی ہے ‘ لیکن تورات میں ہمیں حضرات ابراہیم ‘ اسحاق ‘ یعقوب ‘ انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ اور عیسیٰ (علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام) کی تاریخ ملتی ہے۔ اس اعتبار سے سابقہ کتب سماویہ کی اہمیت پیش نظر رہنی چاہیے۔ (وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ ) یہاں نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ باقی سب چیزوں کے لیے تو لفظ ایمان آیا ہے جبکہ آخرت کے لیے ” ایقان “ آیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کے عمل کے اعتبار سے سب سے زیادہ مؤثرّ شے ایمان بالآخرۃ ہے۔ اگر انسان کو یہ یقین ہے کہ آخرت کی زندگی میں مجھے اللہ کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو اس کا عمل صحیح ہوگا۔ لیکن اگر اس یقین میں کمی واقع ہوگئی تو توحید بھی محض ایک عقیدہ (Dogma) بن کر رہ جائے گی اور ایمان بالرسالت بھی بدعات کو جنم دے گا۔ پھر ایمان بالرسالت کے مظاہر یہ رہ جائیں گے کہ بس عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منا لیجیے اور نعتیہ اشعار کہہ دیجیے ‘ اللہ اللہ خیر صلا۔ انسان کا عمل تو آخرت کے یقین کے ساتھ درست ہوتا ہے۔ّ (وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ ) کے الفاظ میں یہ مفہوم بھی ہے کہ ” آخرت پر انہی کا یقین ہے “۔ یہاں گویا حصر بھی ہے۔ اس اعتبار سے کہ یہودی بھیّ مدعی تھے کہ ہم آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں تضاد (contrast) دکھایا جا رہا ہے کہ آخرت پر یقین رکھنے والے تو یہ لوگ ہیں ! تاویل خاص کے اعتبار سے یہ کہا جائے گا کہ یہ لوگ تمہاری نگاہوں کے سامنے موجود ہیں جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تیرہ برس کی کمائی ہیں۔ جو انقلاب نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اساسی منہاج یعنی تلاوت آیات ‘ تزکیہ اور تعلیم کتاب و حکمت کا نتیجہ ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7. The fifth requirement is that one should believe in the Books revealed by God to His Prophets in the various ages and regions of the world, in the Book revealed to Muhammad (peace be on him) as well as in those revealed to the other Prophets who preceded him. The door of the Qur'an is closed to all those who do not consider it necessary for man to receive guidance from God. It is also closed to...  those who, even if they believe in the need for such guidance, do not consider it necessary to seek it through the channel of revelation and prophethood, but would rather weave their own set of ideas and concepts and regard them as equivalent to Divine Guidance. This door is also closed to those who believe in Divine books as such, but confine this belief to those books accepted by their forefathers, and spurn Divine Guidance revealed to anyone born beyond their own racial and national boundaries. The Qur'an excludes all such people and is prepared to open the source of its grace only to those who believe that mankind does require Divine Guidance, who acknowledge that this guidance does not come to people individually but reaches them through Prophets and Divine Books and who are not given to racial or national chauvinism but are devotees of Truth alone, and are therefore prepared to submit to Divine Guidance wherever it be found. 8. Belief in the After-life is the sixth and last requirement. The term al-Akhirah embraces a whole set of ideas: (i) that man is not an irresponsible being, but is answerable to God for all his conduct in this world; (ii) that the present order of the world is not timeless, but will come to an end at an appointed hour knon only to God; (iii) that when this world comes to an end God will bring into being another world in which He will resurrect, at one and the same moment, all the human beings ever born on earth. He will gather them together, examine their conduct and grant each one just reward for his actions; (iv) that those who are accounted good in God's judgement will be sent to Heaven, and those judged by Him as evil-doers will be consigned to Hell; (v) that the real measure of success and failure is not one's prosperity in the present life, but one's success or failure according to God's judgement in the Next. Those who do not accept this set of beliefs can derive no benefit from the Qur'an. For if a man is merely in a state of doubt and hesitation with regard to these matters - let alone disbelieving them - he cannot advance even one step forward along the path charted out by the Qur'an.  Show more

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :7 یہ پانچویں شرط ہے کہ آدمی ان تمام کتابوں کو برحق تسلیم کرے جو وحی کے ذریعے سے خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے پہلے کے انبیاء پر مختلف زمانوں اور ملکوں میں نازل کیں ۔ اس شرط کی بنا پر قرآن کی ہدایت کا دروازہ ان سب لوگوں پر بند ہے جو سرے سے اس ضرورت ہی کے قائل...  نہ ہوں کہ انسان کو خدا کی طرف سے ہدایت ملنی چاہیے ، یا اس ضرورت کے تو قائل ہوں مگر اس کے لیے وحی و رسالت کی طرف رجوع کرنا غیر ضروری سمجھتے ہوں اور خود کچھ نظریات قائم کر کے انہی کو خدائی ہدایت قرار دے بیٹھیں ، یا آسمانی کتابوں کے بھی قائل ہوں ، مگر صرف اس کتاب یا ان کتابوں پر ایمان لائیں جنہیں ان کے باپ دادا مانتے چلے آئے ہیں ، رہی اسی سر چشمے سے نکلی ہوئی دُوسری ہدایات تو وہ ان کو قبول کرنے سے انکار کردیں ۔ ایسے سب لوگوں کو الگ کر کے قرآن اپنا چشمہء فیض صرف ان لوگوں کے لیے کھولتا ہے جو اپنے آپ کو خدائی ہدایت کا محتاج بھی مانتے ہوں ، اور یہ بھی تسلیم کرتے ہوں کہ خدا کی یہ ہدایت ہر انسان کے پاس الگ الگ نہیں آتی بلکہ انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعے سے ہی خلق تک پہنچتی ہے ، اور پھر وہ کسی نسلی و قومی تعصّب میں بھی مُبتلا نہ ہوں بلکہ خالص حق کے پرستار ہوں ، اس لیے حق جہاں جہاں جس شکل میں بھی آیا ہے اس کے آگے سر جھکا دیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :8 یہ چھٹی اور آخری شرط ہے ۔ ”آخرت“ ایک جامع لفظ ہے جس کا اطلاق بہت سے عقائد کے مجموعے پر ہوتا ہے ۔ اس میں حسبِ ذیل عقائد شامل ہیں: ( ۱ ) یہ کہ انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اپنے تمام اعمال کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے ۔ ( ۲ ) یہ کہ دنیا کا موجودہ نظام ابدی نہیں ہے بلکہ ایک وقت پر ، جسے صرف خدا ہی جانتا ہے ، اس کا خاتمہ ہوجا ئے گا ۔ ( ۳ ) یہ کہ اس عالم کے خاتمے کے بعد خدا ایک دُوسرا عالم بنائے گا اور اس میں پوری نوعِ انسانی کو جو ابتدا ئے آفرینش سے قیامت تک زمین پر پیدا ہوئی تھی ، بیک وقت دوبارہ پیدا کرے گا ، اور سب کو جمع کر کے ان کے اعمال کا حساب لے گا ، اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا ۔ ( ٤ ) یہ کہ خدا کے اس فیصلے کی رُو سے جو لوگ نیک قرار پائیں گے وہ جنّت میں جائیں گے اور جو لوگ بد ٹھہریں گے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ ( ۵ ) یہ کہ کامیابی و ناکامی کا اصلی معیار موجودہ زندگی کی خوشحالی و بدحالی نہیں ہے ، بلکہ در حقیقت کامیاب انسان وہ ہے جو خدا کے آخری فیصلے میں کامیاب ٹھہرے ، اور ناکام وہ ہے جو وہاں ناکام ہو ۔ عقائد کے اس مجمو عے پر جن لوگوں کو یقین نہ ہو وہ قرآن سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے ، کیونکہ ان باتوں کا انکار تو درکنار ، اگر کسی کے دل میں ان کی طرف سے شک اور تذبذب بھی ہو ، تو وہ اس راستہ پر نہیں چل سکتا جو انسانی زندگی کے لیے قرآن نے تجویز کیا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

(٥) یعنی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کے جو وحی حضور اکرمﷺ پر اتاری گئی وہ بھی بالکل سچی ہے اور جو آپ سے پہلے انبیائے کرام (علیہم السلام) مثلاً حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ علیہما السلام وغیرہ پرنازل کی گئی تھی وہ بھی بالکل سچی تھی اگرچہ بعد میں لوگوں نے اسے ٹھیک ٹھیک محفوظ نہ رکھا بلکہ اس میں تحریف کردی۔ ... اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کردیا گیا کہ وحی کا سلسلہ حضور اکرمﷺپر ختم ہوگیا، آپﷺکے بعد کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوگا جس پر وحی آئے یا اسے پیغمبر بنایاجائے، کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے صرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی وحی اور آپ سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر فرمایا ہے آپ کے بعد کی کسی وحی کا ذکر نہیں فرمایا۔ اگر آپ کے بعد بھی کوئی نیا پیغمبر آنے والا ہوتا یا اس کی وحی پر ایمان لانا ضروری ہوتا تو اس کو بھی یہاں بیان فرمایا جاتا جیساکہ پچھلے پیغمبروں سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ آپ حضرات کے بعد حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لانے والے ہیں آپ کو ان پر بھی ایمان رکھنا ہوگا۔ (دیکھئے قرآن کریم سورۃ آل عمران آیت 81) (٦) آخرت سے مرادوہ زندگی ہے جو مرنے کے بعد حاصل ہوگی اور جو ہمیشہ کے لئے ہوگی اور اس میں ہر بندے کو دنیا میں کئے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہوگا اور اسی کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہوگا کہ وہ جنت میں جائے گا یا جہنم میں، اگرچہ یہ آخرت بھی غیب یعنی ان دیکھی چیزوں میں شامل ہے جس پر ایمان لانے کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا تھا، لیکن آخر میں اسے علیحدہ کرکے خصوصی اہمیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کا عقیدہ ہی درحقیقت انسان کی سوچ اور اس کی عملی زندگی کو صحیح راستے پر رکھتا ہے جو انسان یہ یقین رکھتا ہو کہ ایک دن مجھے اللہ کے سامنے پیش ہو کر اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے وہ کسی گناہ یاجرم کا ارتکاب پر کبھی ڈھٹائی کے ساتھ آمادہ نہیں ہوگا۔   Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:4) والذین ۔ واؤ عاطفہ ہے۔ الذین موصول ثانی ۔ یؤمنون ب فعل بافاعل۔ ما انزل الیک۔ ما موصولہ۔ انزل ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ الیک جار مجرور مل کر متعلق فعل انزل۔ فعل اپنے نائب فاعل (مفعول مالم یسم فاعلہ) اور متعلق فعل سے مل کر جملہ فعلیہ ہو کر صلہ ہوا ما موصولہ کا۔ موصول وصلہ مل کر معطوف علیہ ہوا...  اگلے جملہ کا۔ وما انزل من قبلک : واؤ عاطفہ، ما موصولہ، انزل ماضی مجہول واحد مذکر غائب (ضمیر مالم یسم فاعلہ، یا نائب فاعل کی طرف راجع ہے) من حرف جار، قبلک مضاف، مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور، جار اور مجرور مل کر متعلق فعل انزل فعل اپنے نائب فعل اور متعلق فعل سے مل کر ما موصولہ کا صلہ ہوا۔ موصول اپنے صلہ سے مل کر معطوف ہے جملہ سابقہ پر، معطوف علیہ اور معطوف دونوں جملے مفعول ہوئے یؤمنون کے، یؤمنون اپنے فاعل ضمیر اور مفعول سے مل کر جملہ فعلیہ ہوا۔ اور صلہ ہوا۔ الذین کا۔ الذین موصول اپنے صلہ سے مل کر معطوف ہوا پہلے الذین پر یا متقین پر۔ وبالاخرۃ ھم یوقنون ۔ واؤ عاطفہ، بالاخرۃ جار مجرور مل کر متعلق فعل یوقنون ۔ کے، یوقنون فعل بافاعل اور متعلق فعل سے مل کر جملہ فعلیہ ہوکر خبر ہوئی ھم کی، جو مبتداء ہے، مبتدا اپنی خبر کے ساتھ مل کر جملہ اسمیہ ہوا۔ اور یہ جملہ اسمیہ یومنون کا معطوف ہوا۔ معطوف و معطوف علیہ مل کر صلہ ہوئے اپنے موصول الذین کا ۔ الذین موصول اپنے صلہ کے ساتھ مل کر پہلے الذین پر معطوف ہوا۔ اور معطوف علیہ اپنے معطوف سے مل کر صفت ہوئی۔ المتقین کی : والذین ۔۔ یوقنون ۔ (آیۃ 4) کا ترجمہ ہوا۔ (وہ کتاب ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لئے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جو ایمان رکھتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا آپ پر اور جو نازل کیا گیا آپ سے پہلے اور وہ قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں) ۔ گویا متقین کی مندرجہ ذیل تین مزید صفات ہیں۔ (1) وہ ایمان رکھتے ہیں اس پر جو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ پر نازل کیا گیا۔ (2) وہ ایمان لاتے ہیں ان کتب الہیہ اور ان صحیفوں پر جو آپ سے قبل (دوسرے پیغمبروں پر) نازل کئے گئے۔ (3) وہ آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہین۔ الاخرۃ : ضد ہے دنیا کی : دنیا مشتق ہے دنو سے جس کے معنی قریب ہونا کے ہیں۔ خواہ یہ قرب ذاتی ، حکمی، مکانی، زمانی، یا بلحاظ مرتبہ کے ہو، چونکہ وہ حال کے بہت ہی قریب ہے اس لئے اسے دنیا کہتے ہیں۔ اسی طرح آخرت کو اس کے متاخر اور پیچھے ہونے کی وجہ سے آخرت کہتے ہیں۔ اصل میں دنیا اور آخرت دونوں دو صفتیں تھیں اب ان پر اسمیت غالب آئی اور استعمال میں دنیا و آخرت اسم کہلائے جانے لگے۔ ھم : ضمیر حصر کے فائدہ کی غرض سے یوقنون ۔ پر مقدم کی گئی ۔ یعنی آخرت کے گھر کا یقین صرف انہی پرہیزگاروں کو حاصل ہے جن کی چند صفتیں اوپر مذکور ہو چکیں۔ یوقنون : مضارع جمع مذکر غائب ایقان (افعال) مصدر، وہ یقین کرتے ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 پہلی کتابوں پر ایمان لانا صرف یہ ہے کہ ان کے منزل من اللہ ہون نے کی تصدیق کی جائے مگر عمل صرف قرآن و حدیث پر کیا جائے۔ (ابن کثیر ) 9 ۔ آخرت نشاۃ ثانیہ سے عبارت ہے (مفردات) ۔ اور بعث بعد الموت اور امور آخرت پر یقین رکھنا ایمان کا جزو ہے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

تصوف چھپا کر رکھنے کی چیز نہیں : اس میں تصوف کے لئے بھی ارشاد ملتا ہے کہ جس قدر بھی چیزیں اللہ کی طرف سے عطا ہوئی ہیں ان سب میں تصوف قیمتی دولت ہے اسے چھپا کر نہ رکھے بلکہ اللہ کی مخلوق تک پہنچائے ایک مسلمان جس طرح حصول رزق کے لئے حلال و حرام کا مکلف ہے اسی طرح خرچ کرنے کے معاملے میں بھی اس کی کوئی ... پائی مرضیات باری کے خلاف خرچ نہ ہو ۔ اور یہی وہ سنہری اصول ہے جسے سوائے اسلام کے کسی نے بیان نہیں کیا ، حالانکہ یہ سب سے موثر ہے کہ جب اخراجات محدود ومقرر ہوں گے تو بیحد آمدنی کی خواہش بھی نہ ابھرے گی اور یہ سب اس وقت ہوگا جب انسان کلی طور پر اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اختیار کرے۔ والذین یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک ، جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا اس سب کو صدق دل سے مانیں اور جو کلام الٰہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل تمام انبیاء (علیہم السلام) پر نازل ہوا اس سب کو اللہ کا کلام مانتا ہو اگرچہ عمل صرف اس آخری کلام پر ہوگا ، مگر ایمان تمام ارشادات باری پر ضروری ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اللہ کا کلام اس قدر عظیم المرتبت ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں کوئی بات اللہ کی طرف سے نازل ہوئی اس کا منکر کافر ہوگا ، خواہ وہ بات بھی اس تک نہ پہنچی ہو ، جیسے کوئی کہہ دے کہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر نازل ہونے والے صحائف کو نہیں مانتا اگرچہ اسے علم ہی نہ ہو کہ ان میں کیا بات ارشاد ہوئی تھی ، وہ مومن نہ رہے گا۔ ختم نبوت کی دلیل : اگر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی نئی نبوت یا نزول کلام کا امکان ہوتا تو پہلے نازل ہونے والے کلام کی نسبت اس کے بارے بہت کچھ ارشاد ہوتا کہ لوگوں کو وہ حالات پیش آنے والے تھے اور ان کا منکر بھی کفر کی زد سے بچ نہ سکتا تھا۔ مگر یہاں صرف من قبلک پر اکتفا اس بات پر بہت بڑی دلیل ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت اور نزل کلام تمام ہوئے اگر عیسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائیں گے تو مومن ان پر پہلے سے ایمان رکھتے ہیں مگر کوئی نیا نبی اور نیا کلام آنے کا کوئی امکان نہیں جن لوگوں نے ایسے دعا دی کہتے ہیں انہوں نے محض ہوا میں قلعے بنانے کی ناکام کوشش کی ہے خود گمراہ ہو کر دوسروں کی گمراہی کا باعث بنے ہیں۔ وبالاخرۃ ھم یوقنون ، اور آخرت کے ساتھ پختہ یقین رکھتے ہیں اگرچہ آخرت بھی ایمان بالغیب ہی ایک رکن ہے مگر ایسا عظیم رکن ہے کہ جس پر ساری انسانی زندگی کی تعمیر کی بنیاد ہے۔ اس پر بہت پختہ یقین کی ضرورت ہے ایک ایسا یقین جو قدم کو اٹھنے سے پہلے تھام لے اور یہ سوچنے پر مجبور کردے کہ اس کا اخروی نتیجہ کیا ہوگا ؟ اب اسے کیا ہوگیا ؟ کا جواب بھی اور پھر کیا کروں کا جواب بھی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مل سکے گا اور اس کی زندگی سنت کے مطابق ڈھلتی چلی جائے گی۔ یہاں یومنون کی جگہ یوقنون اسی بات کو واضح کررہا ہے اور دور حاضر کی بداعمالی کی بنیادی سبب اسی یقین کی کمی ہے ، یقین کامل نام ہے دل کی تصدیق کا ، دل کے مان جانے اور دل کے اعتبار کرنے کا لہٰذا جن لوگوں کو اوصاف بالا نصیب ہیں۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور پہلی آسمانی کتابوں پر بھی۔ ایمان سچا سمجھنے کو کہتے ہیں عمل کرنا دوسری بات ہے پس حق تعالیٰ نے جتنی کتابیں انبیائے سلف علھیم السلام پر نازل کی ہیں سب کو سچا سمجھنا فرج اور شرط ایمان ہے رہ گیا عمل سو وہ صرف قرآن پر ہوگا پہلی کتابیں منسوخ ہوگئی ہیں اس لیے ان پر ع... مل جائز نہیں۔ 8۔ آخرت سے قیامت کا دن مراد ہے چونکہ وہ دن دنیا کے بعد آئے گا اس لیے اس کو آخرت کہتے ہیں۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ایمان کے مرکزی ارکان کا ذکر کرنے کے بعد لفظ ” ما “ استعمال فرما کر ایمان کی ان تمام مبادیات وشروعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو ایمان کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔ اس کی تفصیلات کے لیے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں جس میں آپ نے یہی لفظ ”...  مَا “ استعمال فرما کر اس بات کا واضح اشارہ دیا ہے کہ ایمان کی تکمیل اس جامع تصور کے بغیر ممکن نہیں۔ ( لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ ) (مشکوٰۃ : کتاب العلم : فصل ثالث) ” تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کر دے۔ “ اسلام کی وسعت تعلیم کا اندازہ لگائیں کہ وہ صرف قرآن مجید پر ہی نہیں بلکہ پہلی تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ضروری سمجھتا ہے۔ حالانکہ نزول قرآن کے بعد وہ منسوخ ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود قرآن مجید ان کی حقیقی تعلیمات اور پہلے انبیاء کی تائید کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تمام انبیاء کی شان اور مقام کے اعتراف و احترام کا حکم دیتا ہے کیونکہ پہلے انبیاء اللہ تعالیٰ کے فرستادہ تھے ‘ ان پر نازل ہونے والی کتابیں من جانب اللہ تھیں اور دین کے بنیادی ارکان ہمیشہ سے ایک ہی رہے ہیں لیکن ہدایت کے لیے اب قرآن اور اس پر کماحقہ عمل کرنے کے لیے جناب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی واجب الاتباع قرار پائی ہے۔ ایمان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل امین (علیہ السلام) کے سوال کے جواب میں فرمایا : (اَنْ تُؤْمِنَ باللّٰہِ وَمَلٰءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ ) (رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب بیان الإیمان والإسلام والإحسان) ” تو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، قیامت کے دن، اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے۔ “ دوسرے مقام پر رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً فَأَفْضَلُھَا قَوْلُ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَدْنَاھَا إِمَاطَۃُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْإِیْمَانِ ) (رواہ مسلم : باب بیان عدد شعب الإیمان وأفضلھا وأدناھا وفضیلتُہُ ) ” ایمان کے ستر سے کچھ اوپر اجزاء ہیں۔ ان میں افضل ترین ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ُ “ کا اقرار ہے اور سب سے ادنیٰ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان میں شامل ہے۔ “ ایمان کا معنٰی : ایمان کا معنٰی ہے دل سے تصدیق کرنا، زبان سے اس کا اظہار کرنے کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونا۔ ایقان کا معنٰی : کسی سچائی کو دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اس طرح تسلیم کرنا کہ اس میں شک اور تردد کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ یہ ایقان کا درجہ ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اس طرح مانتے اور عمل پیرا ہوتے ہیں وہی ایمان دار ہیں۔ جب تک آدمی آخرت پر سچا ایمان نہ لائے اس وقت تک اس کی زندگی پر قرآن و سنت کے پورے اثرات مرتب نہیں ہوسکتے۔ قرآن مجید نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے بعد سب سے زیادہ عقیدۂ آخرت پر زور دیا ہے کیونکہ اس کے بغیر نیکو کاروں کو پورا پورا اجر اور نافرمانوں کو ٹھیک ٹھیک سزا نہیں مل سکتی۔ آخرت کی جواب دہی کا تصور ہی انسان کو درست رکھ سکتا ہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید ‘ پہلی آسمانی کتب اور آخرت پر ایمان لانا فرض ہے۔ تفسیر بالقرآن آخرت پر یقین محکم ہونا چاہیے : ١۔ آخرت برحق اور اس کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف : ٢١) ٢۔ ایمانداروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (البقرہ : ٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور آخرت کو جھٹلانے والوں کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ (الاعراف :147) ٤۔ آخرت کے منکروں کی خواہشات کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ( الانعام : ١٥١) ٥۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ (العنکبوت : ٦٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ الَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ) (جو لوگ متقی ہیں وہ اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا) ایمان وہ معتبر ہے جس میں اللہ تعالیٰ پر اور اس کے تمام رسولوں پر اور اس کی تمام کتابوں پر ایمان ... ہو۔ اللہ کے کسی ایک نبی یا اس کی کسی ایک کتاب کا انکار کرنا بھی کفر ہے۔ (لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ ) میں اسی بات کا اعلان کیا گیا ہے۔ (وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ) کے عموم میں قرآن کریم سے پہلی تمام کتابوں اور صحیفوں کا علم ہے اور جن کا علم نہیں، ان سب پر ایمان لانا اور اللہ کی کتاب ماننا فرض ہے۔ پھر فرمایا (وَ بالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ ) (اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں) ایمان کے تین اہم جزو ہیں۔ توحید، رسالت اور موت کے بعد زندہ ہونے پر ایمان لانا، یہاں ان تینوں چیزوں کو بتادیا ہے، اور ساتھ ہی نماز اور زکوٰۃ کا بھی ذکر فرما دیا۔ کیونکہ ایمان قلبی کے بعد دوسرا درجہ نماز کا ہے اور اس کے بعد زکوٰۃ ہے۔ ایک فریضہ بدنیہ اور دوسرا فریضہ مالیہ بیان فرما دیا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7 ۔ یہ متقین کی چوتھی صفت ہے۔ اس آیت میں دو چیزوں کا ذکر ہے۔ ایک وہ وحی جو حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی۔ دوسری وہ وحی جو پہلے پیغمبروں پر اتری۔ پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی کتابوں پر ایمان لانے سے مراد صرف یہ ہے کہ انہیں اللہ کی طرف سے مانا جائے اور انہیں سچا سمجھا جائے ان ... پر عمل کرنا واجب نہیں۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وحی پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے حق اور من عنداللہ ماننے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کیا جائے اور اپنی زندگی اس کی ہدایت کے مطابق بسر کی جائے۔ آپ کی وحی صرف قرآن مجید ہی میں منحصر نہیں بلکہ آپ کے تمام دینی ارشادات جو کتب احادیث میں موجود ہیں یہ سب وحی تھے تو جس طرح قرآن پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح قرآن کے علاوہ دوسری وحی کو ماننا بھی فرض ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم (علیہ الصلوۃ والسلام) کے بعد وحی منقطع ہوچکی ہے اگر جاری ہوتی تو یہاں اس پر بھی ایمان لانے کا ذکر ضرور ہوتا۔ اس آیت میں جس ایمان کا ذکر ہے وہ حقیقت میں ایمان بالغیب ہی کا ایک شعبہ ہے۔ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْب ِکے الفاظ پورے عالم غیب پر حاوی تھے۔ مگر اس آیت میں عالم غیب کی صرف دو چیزوں کا خصوصیت سے ذکر کیا گیا ہے یعنی گذشتہ وحی اور موجودہ وحی پر ایمان لانا۔ تو اس تخصیص بعد التعمیم سے یہود ونصاریٰ میں سے جو لوگ ایمان لا چکے تھے ان کی عزت افزائی اور ان کی فضیلت کا اظہار مقصود ہے (روح المعانی ص 120 ج 1، تفسیر کبیر ص 254 ج 1، تفسیر مظہری ص 21 ج 1) 8 ۔ یہ متقین کی پانچویں صفت ہے۔ یہاں آخرت سے مراد دار آخرت یعنی قیامت ہے نہ کہ نبوت جیسا کہ منکرین ختم نبوت کا خیال ہے۔ چناچہ دوسری آیت میں ارشاد ہے۔ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ ۔ (عنکبوت رکوع 7) ۔ قیامت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ حشر ونشر، حساب وکتاب، جنت و دوزخ اور یوم قیامت کو جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب کچھ مانتے اور اس کے وقوع پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں تک تو دعوت توحید کو قبول کرنے والوں اور کتاب ہدایت سے منتفع ہونے والوں کی صفات و علامات کا ذکر تھا۔ اب آگے ان صفات کا ثمرہ اور ان کے حاملین کی جزا کا بیان ہے  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ وہ متقی لوگ ایسے ہیں جو پوشیدہ اور چھپی ہوئی باتوں پر یقین لاتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے جو ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ نیک کاموں میں خرچ کیا کرتے ہیں ۔ اور وہ لوگ ایسے ہیں کہ وہ اس قرآن پر جو آپکی طرف نازل کیا گیا ہے یقین رکھتے ہیں اور ان کتابوں کو بھی مانتے ہیں جو آپ سے پہلے ن... ازل کی جا چکی ہیں اور وہ لوگ آخرت پر بھی پورا پورایقین رکھتے ہیں۔ ( تیسیر) غیب کی باتوں سے مراد وہ چیزیں ہیں جو ہماری نظروں سے غائب ہیں ، مثلاً عالم برزخ کے احوال قیامت ، جنت ، دوزخ ، مرنے کے بعد جی اٹھنا وغیرہ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جو کتابیں نازل ہوچکی ہیں ان کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو بھی خدا کی طرف سے نازل شدہ سمجھتے ہیں ۔ اگرچہ ان پر عمل کرنا اب منسوخ ہوچکا ہے۔ اقامت صلوٰۃ سے مراد یہ ہے کہ جملہ رعایتوں کے ساتھ نماز کی پابندی رکھتے اور اس پر مداومت کرتے ہیں ۔ خرچ کرنے سے مراد ہر قسم کا انفاق ہے خواہ صدقات واجبہ ہوں یا نافلہ ۔ آخرت سے مراد عالم معاد ہے یعنی قیامت کے متعلق جو باتیں قرآن نے فرمائی ہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتائی ہیں ان سب کے وقوع کا پورا یقین رکھتے ہیں۔ ( تسہیل)  Show more