Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 54

سورة البقرة

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اِنَّکُمۡ ظَلَمۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ بِاتِّخَاذِکُمُ الۡعِجۡلَ فَتُوۡبُوۡۤا اِلٰی بَارِئِکُمۡ فَاقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ عِنۡدَ بَارِئِکُمۡ ؕ فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۵۴﴾

And [recall] when Moses said to his people, "O my people, indeed you have wronged yourselves by your taking of the calf [for worship]. So repent to your Creator and kill yourselves. That is best for [all of] you in the sight of your Creator." Then He accepted your repentance; indeed, He is the Accepting of repentance, the Merciful.

جب ( حضرت ) موسیٰ ( علیہ السلام ) نے اپنی قوم !سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ۔ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو ، اپنے کو آپس میں قتل کرو ، تمہاری بہتری اللہ تعالٰی کے نزدیک اسی میں ہے ، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی ، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Children of Israel kill each other in Repentance Allah tells; وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلَى بَارِيِكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِيِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ And (remember) when Musa said to his people: "O my people! Verily, you have wronged yourselves by worshipping the calf. So turn in repentance to your Creator and kill yourselves (the innocent kill the wrongdoers among you), that will be better for you with your Creator." Then He accepted your repentance. Truly, He is the One Who accepts repentance, the Most Merciful. This was the repentance required from the Children of Israel for worshipping the calf. Commenting on Allah's statement; وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ (And (remember) when Musa said to his people: "O my people! Verily, you have wronged yourselves by worshipping the calf...), Al-Hasan Al-Basri said, "When their hearts thought of worshipping the calf, وَلَمَّا سُقِطَ فَى أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْاْ أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّواْ قَالُواْ لَيِن لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا And when they regretted and saw that they had gone astray, they (repented and) said: "If our Lord does not have mercy upon us and forgive us," (7:149), This is when Musa said to them, يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ (O my people! Verily, you have wronged yourselves by worshipping the calf...)." Abu Al-Aliyah, Sa`id bin Jubayr and Ar-Rabi` bin Anas commented on, فَتُوبُواْ إِلَى بَارِيِكُمْ (So turn in repentance to your Bari) that it means, "To your Creator." Allah's statement, ... إِلَى بَارِيِكُمْ ... to your Bari (Creator), alerts the Children of Israel to the enormity of their error and means, "Repent to He Who created you after you associated others with Him in worship." An-Nasa'i, Ibn Jarir and Ibn Abi Hatim recorded Ibn Abbas saying, "Allah told the Children of Israel that their repentance would be to slay by the sword every person they meet, be he father or son. They should not care whom they kill. Those were guilty whom Musa and Harun were not aware of their guilt, they admitted their sin and did as they were ordered. So Allah forgave both the killer and the one killed." This is part of the Hadith about the trials that we will mention in Surah Ta Ha, Allah willing. Ibn Jarir narrated that Ibn Abbas said, "Musa said to his people, ... فَتُوبُواْ إِلَى بَارِيِكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِيِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ "So turn in repentance to your Creator and kill each other (the innocent kill the wrongdoers among you), that will be better for you with your Creator." Then He accepted your repentance. Truly, He is the One Who accepts repentance, the Most Merciful. Allah ordered Musa to command his people to kill each other. He ordered those who worshipped the calf to sit down and those who did not worship the calf to stand holding knives in their hands. When they started killing them, a great darkness suddenly overcame them. After the darkness lifted, they had killed seventy thousand of them. Those who were killed among them were forgiven, and those who remained alive were also forgiven."

سخت ترین سزا یہاں ان کی توبہ کا طریقہ بیان ہو رہا ہے انہوں نے بچھڑے کو پوجا اور اس کی محبت نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سمجھانے سے ہوش آیا اور نادم ہوئے اور اپنی گمراہی کا یقین کر کے توبہ استغفار کرنے لگے تب انہیں حکم ہوا کہ تم آپس میں قتل کرو ۔ چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی اور قاتل و مقتول دونوں کو بخش دیا ۔ اس کا پورا بیان سورۃ طہ کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان کہ اپنے خالق سے توبہ کرو بتا رہا ہے کہ اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہو گا کہ تمہیں پیدا اللہ تعالیٰ کرے اور تم پوجو غیروں کو ۔ ایک روایت میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں حکم الٰہی سنایا اور جن جن لوگوں نے بچھڑا پوجا تھا انہیں بٹھا دیا اور دوسرے لوگ کھڑے رہ گئے اور قتل کرنا شروع کیا قدرتی طور پر اندھیرا چھایا ہوا تھا جب اندھیرا ہٹا تو انہیں روک دیا گیا ۔ شمار کرنے پر معلوم ہوا کہ ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے ہیں اور ساری قوم کی توبہ قبول ہوئی ۔ یہ ایک سخت فرمان تھا جس کی ان لوگوں نے تعمیل کی اور اپنوں اور غیروں کو یکساں تہہ تیغ کیا یہاں تک کہ رحمت الٰہی نے انہیں بخشا اور موسیٰ علیہ السلام سے فرما دیا کہ اب بس کرو ۔ مقتول کو شہید کا اجر دیا قاتل کی اور باقی ماندہ تمام لوگوں کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں جہاد کا ثواب دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون نے جب اسی طرح اپنی قوم کا قتل دیکھا تو دعا کرنی شروع کی کہ اللہ اب تو بنی اسرائیل مٹ جائیں گے چنانچہ انہیں معاف فرما دیا گیا اور پروردگار عالم نے فرمایا کہ اے میرے پیغمبر مقتولوں کا غم نہ کرو وہ ہمارے پاس شہیدوں کے درجہ میں ہیں وہ یہاں زندہ ہیں اور غذا پا رہے ہیں اب آپ کو اور آپ کی قوم کو صبر آیا اور عورتوں اور بچوں کی گریہ و زاری موقوف ہوئی ۔ تلواریں نیزے چھرے اور جھریاں چلنی بند ہوئیں آپس میں باپ بیٹوں بھائیوں ، بھائیوں میں قتل و خون موقوف ہوا اور اللہ تو اب و رحیم نے ان کی توبہ قبول فرمائی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے شرک پر متنبہ فرمایا تو پھر انہیں توبہ کا احساس ہوا توبہ کا طریقہ قتل تجویز کیا گیا (فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ) 002:054 (اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو) کی تفسیریں کی گئی ہیں ایک یہ کہ سب کو دو صفوں میں کردیا گیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا دوسری یہ کہ ارتکاب شرک کرنے والوں کو کھڑا کردیا گیا جو اس سے محفوظ رہے تھے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چناچہ انہوں نے قتل کیا۔ مقتولین کی تعداد ستر ہزار بیان کی گئی ہے (ابن کثیر و فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٠] گؤسالہ پرستوں کا قتل عام :۔ موسیٰ جب کوہ طور سے تورات لے کر واپس لوٹے تو انہیں بنی اسرائیل کی اس گؤ سالہ پرستی کا علم ہوا اور اس بات سے سخت دکھ ہوا۔ قوم سے کہا کہ اب اس ظلم کی سزا یہ ہے کہ جن جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی انہیں چن چن کے مار ڈالو۔ اس وقت بنی اسرائیل کے تین گروہ بن گئے تھے۔ ایک وہ جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی۔ دوسرے وہ جو انہیں گؤسالہ پرستی سے منع کرتے تھے۔ تیسرے وہ جو غیر جانبدار رہے۔ نہ خود گؤسالہ پرستی کی اور نہ ہی کرنے والوں کو منع کیا۔ انہیں حکم یہ دیا گیا کہ منع کرنے والے بچھڑا پوجنے والوں کو قتل کریں اور جو غیر جانبدار رہے انہیں معاف کردیا گیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بنی اسرائیل میں جس طرح شادی شدہ زانی کی سزا رجم تھی اسی طرح شرک کے ارتکاب پر بھی انھیں قتل کی سزا سنائی گئی اور اس پر عمل بھی ہوا۔ ہماری امت میں بھی ارتداد کی سزا قتل ہے۔ عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہٗ فَاقْتُلُوْہُ ) ” جو شخص مرتد ہوجائے اسے قتل کر دو ۔ “ [ أبو داوٗد، الحدود، باب الحکم فیمن ارتد : ٤٣٥١، و صححہ الألبانی (رض) ] مگر اتنی تخفیف کردی گئی کہ مرتد توبہ کرلے تو اسے معاف کردیا جائے گا، البتہ رجم کی حد توبہ کے باوجود جاری کی جائے گی۔ طبری نے ابن عباس (رض) سے نقل فرمایا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اپنی قوم کو حکم دیا کہ اپنے آپ کو قتل کرو، تو وہ لوگ جو بچھڑے کے مجاور بنے تھے گوٹھ مار کر بیٹھ گئے اور جو لوگ مجاور نہیں بنے تھے وہ اٹھے اور انھوں نے ہاتھوں میں خنجر لیے، ان پر ایک سخت تاریکی چھا گئی اور وہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے، پھر اندھیرا دور ہوگیا، روشنی ہوئی تو ستر ہزار قتل ہوچکے تھے۔ جو قتل ہوگیا اس کی بھی توبہ قبول ہوگئی اور جو بچ گیا اس کی بھی۔ صاحب ” التفسیر الصحیح “ فرماتے ہیں کہ ابن عباس (رض) تک اس روایت کی سند صحیح ہے، مگر ظاہر ہے کہ یہ اہل کتاب سے لی گئی ہے، جس کے متعلق حکم ہے کہ انھیں نہ سچا کہو اور نہ جھوٹا کہو۔ اوپر آیت (٥٢) میں جس معافی کا ذکر ہے وہ اس قتل کے بعد کا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

This verse describes the special mode of offering their Taubah توبہ (repentance) which was prescribed for the Israelites in this situation, -- that is to say, those who had not indulged in the worship of the golden calf should execute those who had. Similarly, in the Islamic Shari&ah too, certain major sins necessarily entail capital punishment even when the sinner has offered this Taubah توبہ -- for example, life in return for a life in the case of intentional homicide, or death by stoning in the case of adultery established through proper evidence. Then the Israelites acted upon this divine commandments, they became worthy of receiving the mercy and favour of Allah in the other world.

خلاصہ تفسیر : اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم بیشک تم نے اپنا بڑا نقصان کیا اس گوسالہ (پرستی) کی تجویز سے سو تم اب اپنے خالق کی طرف متوجہ ہو پھر بعض ( جنہوں نے گوسالہ پرستی نہیں کی) بعض آدمیوں کو ( جنہوں نے گوسالہ پرستی کی) قتل کرو یہ (عمل درآمد) تمہارے لئے بہتر ہوگا تمہارے خالق کے نزدیک پھر (اس عملدر آمد کرنے سے) حق تعالیٰ تمہارے حال پر (اپنی عنایت سے) متوجہ ہوئے بیشک وہ تو ایسے ہی ہیں کہ توبہ قبول کرلیتے ہیں اور عنایت فرماتے ہیں، فائدہ : یہ اس طریق کا بیان ہے جو ان کی توبہ کے لئے تجویز ہوا یعنی مجرم لوگ قتل کئے جائیں جیسا ہماری شریعت میں بھی بعض گناہوں کی سزا باوجود توبہ کے بھی قتل وجان ستانی مقرر ہے مثلاً قتل عمد کے عوض قتل اور ثبوت زنا بالشہادۃ پر رجم، کہ توبہ سے یہ سزا ساقط نہیں ہوتی چناچہ ان لوگوں نے اس پر عمل کیا جس کی وجہ سے آخرت میں مورد رحمت و عنایت ہوگئے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِہٖ يٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْٓا اِلٰى بَارِىِٕكُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىِٕكُمْ۝ ٠ ۭ فَتَابَ عَلَيْكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝ ٥٤ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ عِجْلُ ( بچهڑا) : ولد البقرة لتصوّر عَجَلَتِهَا التي تعدم منه إذا صار ثورا . قال : عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ، وبقرةٌ مُعْجِلٌ: لها عِجْلٌ. العجلۃ بچھڑے کو کہتے ہیں کیونکہ اس میں پھرتی پائی جاتی ہے جو بیل کی عمر تک پہنچنے پر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ایک بچھڑا ( بنالیا وہ ایک جسم تھا : ۔ اور وہ گائے جس کے ساتھ اس کا بچھڑ ہوا سے معجل کہا جاتا ہے ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ بارئ خصّ بوصف اللہ تعالی، نحو قوله : الْبارِئُ الْمُصَوِّرُ [ الحشر/ 24] ، وقوله تعالی: فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] الباری ( پیدا کرنے والا ) یہ اسماء حسنیٰ سے ہے ۔ جیسے فرمایا :۔{ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الحشر 24) ایجاد واختراع کرنے والا صورتیں بنانے والا ۔ { فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ } ( سورة البقرة 54) تو اپنے پیدا کرنے والے کے آگے تو بہ کرو ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ تَّوَّاب والتَّوَّاب : العبد الکثير التوبة، وذلک بترکه كلّ وقت بعض الذنوب علی الترتیب حتی يصير تارکا لجمیعه، وقد يقال ذلک لله تعالیٰ لکثرة قبوله توبة العباد «2» حالا بعد حال . وقوله : وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان/ 71] ، أي : التوبة التامة، وهو الجمع بين ترک القبیح وتحري الجمیل . عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد/ 30] ، إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة/ 54] . التواب یہ بھی اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ جب بندے کی صعنت ہو تو اس کے معنی کثرت سے توبہ کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ شخص جو یکے بعد دیگرے گناہ چھوڑتے چھوڑتے بالکل گناہ کو ترک کردے اور جب ثواب کا لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو ا س کے معنی ہوں گے وہ ذات جو کثرت سے بار بار بندوں کی تو بہ قبول فرماتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة/ 54] بیشک وہ بار بار توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان/ 71] کے معنی یہ ہیں کہ گناہ ترک کرکے عمل صالح کا نام ہی مکمل توبہ ہے ۔ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد/ 30] میں اس پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ان کی قوم کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرماتے ہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اس بچھرے کی پوجا سے تم لوگوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ان کی قوم نے ان سے کہا اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اپنے رب سے توبہ کرو۔ انہوں نے کہا کہ کس طرح، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ جس نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی وہ اس کو قتل کرے کہ جس نے بچھڑا پرستی کی ہے اس قتل کے ذریعے جو توبہ ہوگی وہ تمہارے حق میں تمہارے پروردگار کی جناب میں بہتر ہوگی اور وہ تمہیں معاف کردے گا اور جو توبہ کرے وہ اس کو معاف کرنے والا اور جو توبہ پر مرجائے وہ اس کے حق میں رحیم ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ ) (یٰقَوْمِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ باتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ ) (فَتُوْبُوْآ اِلٰی بَارِءِکُمْ ) (فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ ط) یہ واقعہ تورات میں تفصیل سے آیا ہے ‘ قرآن میں اس کی تفصیل مذکور نہیں ہے۔ بہت سے واقعات جن کا قرآن میں اجمالاً ذکر ہے ان کی تفصیل کے لیے ہمیں تورات سے رجوع کرنا پڑتا ہے ‘ ورنہ بعض آیات کا صحیح صحیح مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ یہاں الفاظ آئے ہیں : (فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ ط) ” مار ڈالو اپنی جانیں “ یا ” قتل کرو اپنے آپ کو “۔ اس کے کیا معنی ہیں ؟ یہ دراصل قتل مرتد کی سزا ہے۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے۔ ہر قبیلے میں سے کچھ لوگوں نے یہ کفر اور شرک کیا کہ بچھڑے کو معبود بنا لیا ‘ باقی لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ ہر قبیلے کے وہ لوگ جو اس شرک میں ملوث نہیں ہوئے اپنے اپنے قبیلے کے ان لوگوں کو قتل کریں جو اس کفر و شرک کے مرتکب ہوئے۔ ” فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ “ سے مراد یہ ہے کہ تم اپنے قبیلے کے لوگوں کو قتل کرو۔ اس لیے کہ قبائلی زندگی بڑی حساسّ ہوتی ہے اور کسی دوسرے قبیلے کی مداخلت سے قبائلی عصبیتّ بھڑک اٹھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس حکم پر عمل درآمد کے نتیجے میں ستر ہزار یہودی قتل ہوئے۔ اس سے بڑی توبہ اور اس سے بڑی تطہیر (purge) ممکن نہیں ہے۔ کسی بھی نظریاتی جماعت کے اندر تزکیہ اور تطہیر کا عمل بہت ضروری ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ایک نظریے کو قبول کرکے جماعت سے وابستہ ہوجاتے ہیں ‘ لیکن رفتہ رفتہ نظریہ اوجھل ہوجاتا ہے اور اپنے مفادات اور چودھراہٹیں مقدمّ ہوجاتی ہیں۔ اسی سے جماعتیں خراب ہوتی ہیں اور غلط راستے پر پڑجاتی ہیں۔ چناچہ نظریاتی جماعتوں میں یہ عمل بہت ضروری ہوتا ہے کہ جو افراد نظریے سے منحرف ہوجائیں ان کو جماعت سے کاٹ کر علیحدہ کردیاجائے۔ قرآن حکیم کے اس مقام سے قتل مرتد کی سزا ثابت ہوتی ہے ‘ جبکہ قتل مرتد کا واضح حکم حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں موجود ہے۔ ہمارے بعض جدید دانشور اسلام میں قتل مرتد کی حد کو تسلیم نہیں کرتے ‘ لیکن میرے نزدیک یہ شریعت موسوی ( علیہ السلام) کا تسلسل ہے۔ شریعت موسوی ( علیہ السلام) کے جن احکام کے بارے میں صراحتاً یہ معلوم نہیں کہ انہیں تبدیل کردیا گیا ہے وہ شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جزو بن گئے ہیں۔ شادی شدہ زانی پر حد رجم کا معاملہ بھی یہی ہے۔ قرآن مجید میں حد رجم کی کوئی صریح آیت موجود نہیں ہے ‘ لیکن احادیث میں یہ سزا موجود ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں مرتد کے قتل کی کوئی صریح آیت موجود نہیں ہے ‘ لیکن یہ حدیث اور سنت سے ثابت ہے۔ البتہ ان دونوں سزاؤں کا منبع اور ماخذ دراصل تورات ہے۔ اس اعتبار سے قرآن حکیم کا یہ مقام بہت اہم ہے ‘ لیکن اکثر لوگ یہاں سے بہت سرسری طور پر گزر جاتے ہیں۔ ّ َ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلے تو ان کی تعداد چھ لاکھ تھی۔ جزیرہ نمائے سینا پہنچنے کے بعد ان کی تعداد مزید بڑھ گئی ہوگی۔ ان میں سے سترّ ہزار افراد کو شرک کی پاداش میں قتل کیا گیا ‘ اور ہر قبیلے نے جو اپنے مرتد تھے ان کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ (ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ عِنْدَ بَارِءِکُمْ ط) “ (فَتَابَ عَلَیْکُمْ ط) ” “ بنی اسرائیل کی توبہ اس طرح قبول ہوئی کہ امت کا تزکیہ ہوا اور ان میں سے جن لوگوں نے اتنی بڑی غلط حرکت کی تھی ان کو ذبح کر کے ‘ قتل کرکے امت سے کاٹ کر پھینک دیا گیا ۔ (اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّاب الرَّحِیْمُ ) ” “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

70. That is, they should put to death those of their own number who made the calf an object of worship and actually worshipped it.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :70 یعنی اپنے ان آدمیوں کو قتل کرو جنہوں نے گوسالے کو معبُود بنایا اور اس کی پرستش کی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:54) واذقال ۔ ملاحظہ ہو 2:49 ۔ یا قوم ۔ یا حرف نداء قوم منادی۔ قوم اصل میں تومی تھا۔ ی متکلم حذف کرکے کسرہ کو اس کے قائم مقام کردیا گیا۔ باتخاذکم العجل۔ باء سببیہ ہے ۔ اتخاذ مصدر (ملاحظہ ہو 2:51) مضاف کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ مضاف الیہ۔ التجل مفعول انتخاذ مصدر کا۔ اپنی گئوسالہ گیری کے سبب سے۔ یعنی گائے کے بچھڑے کو بطور معبود کے اپنا لینے کے سبب سے تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ فتوبوا ۔ ف سببیہ ہے۔ توبوا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ پس تم توبہ کرو۔ بارئکممضاف مضاف الیہ۔ باری اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے۔ ایجاد و اختراع کرنے والا۔ پیدا کرنے والا۔ اس کا مادہ برء ہے۔ البر والبراء والبراء کے اصل معنی کسی مکروہ امر سے نجات حاصل کرنے کے ہیں یا بیزاری ظاہر کرنے کے۔ مثلاً برات من المرض میں نے بیماری سے نجات پائی یعنی میں تندرست ہوگیا۔ اور برات من فلاں و تبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ قرآن مجید میں ہے براء ۃ من اللہ ورسولہ (9:1) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری (کا اعلان) ہے۔ بارئکم تمہارا خالق، تمہارا پیدا کرنے والا۔ فاقتلوا انفسکم ۔ فاء تعقیب کا ہے اقتلوا فعل امر جمع مذکر حاضر، قتل مصدر (باب نصر سے) انفسکم مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول اقتلوا کا۔ پس قتل کرو اپنی جانوں کو ، یعنی تم میں سے جو بری ہیں وہ مجرموں کو قتل کریں (خواہ وہ ان کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں) ۔ ذلکم ۔ یہی یعنی التوبۃ والقتل۔ توبہ اور قتل (جو اوپر مذکور ہے) خیر : افعل التفضیل کا صیغہ ہے ہمزہ محذوف ہے ای ذلکم خیرلکم من العصیات والاصرار علی الذنب یعنی عصیان اور اصرار گناہ کے مقابلہ میں یہ تو بہ اور قتل تمہارے لئے بہتر ہے۔ فتاب علیکم۔ اس کی مندرجہ ذیل دو صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کلام ہے تو اس کا جملہ شرطیہ محذوف ہے ۔ تقدیر کلام یہ ہے ان فعلم ، ا امرتم بہ فقد تاب علیکم۔ اگر علم نے وہی کیا جس کا تمہیں حکم ملا تو اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول کرے گا۔ (2) اور اگر یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے تو فتاب علیکم جملہ معطوف ہے جس کا عطف محذوف عبارت پر ہے ای فعلتم ما امرتم بہ فتاب علیکم ۔ تم نے وہی کیا جس کا تم کو حکم ہوا۔ پس اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کرلی ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ حضرت ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق اس کی صورت یہ تھی کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی وہ ان کو قتل کریں جو اس جرم کے مر تکب ہوئے ہیں چناچہ اس پر عمل شروع ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرمادیا۔ اوپر آیت 52، میں جس عفو کی خبر دی گئی ہے وہ اس قتل کے بعد کا ہے۔ ( رازی۔ قرطبی) ارتد اد کی سزا قتل ہے حدیث میں من بد لا دینہ فاقتلوہ کو جو شخص مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔ (ابو دو ؤد) جب مو دی (علیہ السلام) مع ستر آدمیوں کے تورات لے کر پلٹے تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہارے کہنے یہ باور نہیں کریینگے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ہم کلام ہوئے ہیں جب تک ہم خود اپنی خود اپنی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں اس پر وہ رجفتہ ( زلزلہ) اور بجلی کی کڑک سے بیہوش ہو کر مرگئے بھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا دے دو بارہ زندہ ہوئے۔ (ابن کثیر۔ فتح البیان) یہاں موت کی تفسیر نے ہوش سے کرنا تفیسر سلف کے خلاف ہے۔ (سلفیہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یہ بیان ہے اس طریق کا جو ان کی توبہ کے لیے تجویز ہوا یعنی مجرم لوگ قتل کیے جاویں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سنگین جرم معاف کرتے ہوئے پانچواں احسان۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور سے اتر کر اپنی قوم کی طرف آئے تو انہوں نے بچھڑے کو جلا کر دریا میں پھینک دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جن لوگوں نے شرک کا ارتکاب کیا ہے ان کے رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل کردیں۔ یہی تمہاری توبہ ہے اور یہی توبہ کا طریقہ تمہارے رب کے ہاں مقبول ہے۔ جب مشرک ہزاروں کی تعداد میں قتل ہوچکے تو اللہ کی بار گاہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی معافی کی درخواست پیش کی جس کو قبول کرتے ہوئے رب کریم نے باقی ماندہ لوگوں کی توبہ قبول فرمائی کیونکہ اللہ تائب ہونے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ بنی اسرائیل کے مشرکوں کو ختم کرنے اور ایمانداروں کے ایمان کو پرکھنے کے لیے توبہ کا یہ طریقہ اس لیے مقرر کیا گیا تاکہ لوگ شرک کے بدترین گناہ اور اس کی سنگینی سے آگاہ ہوں اور آئندہ شرک کرنے کا تصور بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہو سکے۔ توبہ کے متعلق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات : ١۔ (عَنْ أَبِيْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہٗ باللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْءُ النَّھَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہٗ بالنَّھَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْءُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا) (رواہ مسلم : کتاب التوبۃ، باب قبول التوبۃ من الذنوب وإن تکررت الذنوب والتوبۃ) ” حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : یقیناً اللہ عزوجل رات کو اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تاکہ دن کو خطائیں کرنے والا توبہ کرلے اور دن کو ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے یہ سلسلہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک جاری رہے گا۔ “ ٢۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) التَّاءِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ ) (رواہ ابن ماجۃ : کتاب الزھد، باب ذکرا لتوبۃ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی پاک ہوجاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ “ ٣۔ (قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَللّٰہُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ حینَ یَتُوبُ إِلَیْہِ مِنْ أَحَدِکُمْ کَانَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ بِأَرْضِ فَلَاۃٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ وَعَلَیْہَا طَعَامُہٗ وَشَرَابُہٗ فَأَیِسَ مِنْہَا فَأَتٰی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِی ظِلِّہَا قَدْ أَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِہٖ فَبَیْنَا ہُوَکَذَلِکَ إِذَا ہُوَ بِہَا قَاءِمَۃً عِنْدَہٗ فَأَخَذَ بِخِطَامِہَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ اللّٰہُمَّ أَنْتَ عَبْدِیْ وَأَنَا رَبُّکَ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ ) (رواہ مسلم : کتاب التوبۃ، باب فی الحض علی التوبۃ والفرح بھا) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے توبہ کرنے پر اس بندے سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جو چٹیل میدان میں اپنی سواری پر تھا اور اس کی سواری گم ہوگئی جس پر اس کا کھانا، پینا تھا۔ وہ سواری اور زندگی سے ناامید ہو کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ اچانک اس کی سواری مل گئی وہ خوشی میں آکر غلطی سے یہ بات کہہ دیتا ہے کہ : اے اللہ ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ “ مسائل ١۔ شرک کرنے والا اپنے اپ پر ظلم کرتا ہے۔ ٢۔ ہر دم اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن توبہ کی اہمیت : ١۔ توبہ کرنا مومن کا شیوہ ہے۔ (التوبۃ : ١١٢) ٢۔ توبہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٢) ٣۔ توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ (البقرۃ : ١٦٠) ٤۔ توبہ کرنے والوں کے لیے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (المؤمن : ٧ تا ٩) ٥۔ توبہ کرنے والے کے گناہ نیکیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ (الفرقان : ٧٠) ٦۔ توبہ کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (القصص : ٦٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

گؤ سالہ پرستی کرنے والوں کی توبہ اور اس بارے میں جانوں کو قتل کرنا جب موسیٰ (علیہ السلام) توریت شریف لے کر واپس بنی اسرائیل کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ بہت بڑی تعداد میں یہ لوگ گؤسالہ پرستی یعنی بچھڑے کی عبادت میں منہمک ہوچکے ہیں اس پر انہیں بہت زیادہ غصہ آیا اور ان کو بت پرستی سے توبہ کرنے پر متوجہ فرمایا۔ ان لوگوں کو بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے توجہ دلانے سے اپنی گمراہی کا احساس ہوگیا جیسا کہ سورة اعراف میں فرمایا : (وَ لَمَّا سُقِطَ فِیْٓ اَیْدِیْھِمْ وَ رَاَوْا اَنَّھُمْ قَدْ ضَلُّوْا قَالُوْا لَءِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَ یَغْفِرْلَنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) ” اور جب نادم ہوئے اور معلوم ہوا کہ واقعی وہ لوگ گمراہی میں پڑگئے تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمیں معاف نہ کرے تو ہم بالکل نقصان میں پڑجانے والے ہوں گے۔ “ ان لوگوں کی توبہ کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے یہ متعین فرمایا تھا کہ وہ مقتول ہوجائیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یوں حکم ہوا تھا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی عبادت نہیں کی تھی وہ ان لوگوں کو قتل کردیں۔ جنہوں نے بچھڑے کی عبادت کی۔ مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب قتل کرنا شروع کیا تو قاتلین کے سامنے بچھڑنے کی عبادت کرنے والوں میں وہ لوگ بھی سامنے آجاتے تھے جو ان کے رشتہ دار اور عزیز قریب تھے لہٰذا وہ قتل کرنے سے ہچکچاتے تھے اللہ تعالیٰ نے سیاہ بادل بھیج دیے تاکہ ایک دوسرے کو نہ دیکھیں اور صبح سے شام تک قتل کا سلسلہ چلتا رہا حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) نے دعا کی بادل ہٹا دیا گیا اور توبہ نازل ہوگئی اس وقت تک ستر ہزار آدمی قتل کیے جا چکے تھے مفسرین کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ جنہوں نے بچھڑے کی عبادت کی تھی وہ سب ہی مقتول نہیں ہوئے بلکہ ستر ہزار کے قتل ہونے پر سب کی توبہ قبول ہوگئی۔ (بیضاوی و ابن کثیر) آیت کریمہ میں یہ جو فرمایا کہ (فَتُوْبُوْٓا الٰی بَارِءِکُمْ ) (کہ تم اپنے پیدا کرنے والے کے حضور میں توبہ کرو) اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ مستحق عبادت وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا اسے چھوڑ کر تم ایسی چیز کی پرستش میں لگ گئے جس کی شکل و صورت تمہارے آدمی نے خود بنائی۔ شرک کی سزا دوزخ کا دائمی عذاب ہے اس سے بچنے کے لئے توبہ کرلو اور توبہ کی قبولیت کے لیے یہ شرط لگائی کہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو۔ اور فرمایا کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے یہ ایک وقتی تکلیف ہے۔ جس کا سہہ لینا دوزخ کے دائمی عذاب کے مقابلہ میں بہت زیادہ سہل ہے۔ اور اس عذاب سے بچنا تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔ امت محمدیہ پر اللہ جل شانہٗ کا بہت بڑا فضل و کرم ہے اس کی توبہ ندامت سے اور آئندہ گناہ کے نہ کرنے کا فیصلہ کرلینے پر اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے سے قبول ہوجاتی ہے۔ کوئی کیسا ہی کتنا بڑا گناہ کرے، کفر اختیار کرے، شرک کا کام کرے اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ سچے دل سے اسلام قبول کرے توحید و رسالت پر ایمان لائے اس کی توبہ قبول ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3۔ اور ہمارا وہ احسان یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب توریت اور فرقان عطا فرمایا تاکہ تم سیدھی راہ پائو اور اس پر چلتے رہو اور اے بنی اسرائیل ! تم وہ بات بھی یاد کرو جب حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم ! بلاشبہ تم نے اس بچھڑے کو معبود بنا کر اپنا بڑا نقصان کیا۔ اب اس شرک کی تلافی یونہی ہوسکتی ہے کہ تم اپنے موجد اور خالق کی طرف رجوع کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو جس کا طریقہ یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو اور یہ قتل تمہارے خالق کے نزدیک بہتر ہے چناچہ اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تم پر توجہ فرمائی اور تمہاری توبہ قبول کی۔ یقین جانو ! وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔ (تیسیر) حضرت حق جل مجدئہ کا یہ بہت بڑا احسان تھا کہ اس نے بنی اسرائیل کی دینی اور دنیوی تربیت کا سامان مہیا کیا اور حضرت موسیٰ کو ان کی ہدایت کے لئے توریت اور فرقان عطا فرمایا فرقان کے معنی فیصلہ کرنیوالی چیز ہے۔ یہاں یا تو وہ احکام ہیں جن سے حق و باطل الگ الگ ہوجاتے ہیں یاتوریت ہی کو فرقان فرمایا اور یا فرقان سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات ہوں کہ ان سے بھی سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب واپس تشریف لائے تو انہوں نے اپنی قوم کی بےثباتی اور شرک کی آلودگی پر سخت افسوس کا اظہار کیا اور ان سے کہا ۔ اب تم اپنے پیدا کرنیوالے کے سامنے توبہ کرو اور تمہاری توبہ جب قبول ہوگی جب تم ایک دوسرے کو قتل کرو گے۔ جو لوگ گئوشالہ پرستی سے محفوظ رہے وہ ان کو قتل کریں جو گئو سالہ پرستی کے مرتکب ہوئے … چناچہ ایسا ہی ہوا اور جو حکم ان کو ملا تھا اس کی تعمیل کی اور بلا رعایت عزیز و اقارب بےگناہوں نے گناہ گاروں کو ایک میدان میں بٹھا کر قتل کرنا شروع کیا۔ اس وقت تمام لوگوں پر ابر سے یا آندھی سے تاریکی چھا گئی۔ جب تقریباً ستر 70 ہزار آدمی قتل کئے جا چکے تو وہ تاریکی ہٹ گئی اور روشنی ہوگئی اور قتل بند کرنے کا حکم ہوا اور جو باقی رہ گئے تھے اور جو قتل ہوچکے تھے ان سب کے قبول ہونے کا اعلان کردیا گیا ۔ فائدہ : یا تو مرتدین کی توبہ یہی ہوگی کہ ان کو قتل کیا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زبان سے بھی توبہ کی ہو اور قتل کی سزا بھی ملی ہو جیسا ہماری شریعت میں بھی یہ دسوتر ہے کہ زانی توبہ بھی کرے اور رجم بھی کیا جائے۔ اسی طرح قتل عمد کا مرتکب توبہ بھی کرے اور قتل بھی کیا جائے واللہ اعلم آگے اور احسانات یاد دلاتے ہیں۔ (تسہیل)