Noun

خَيْرٌ

(is) better

بہتر ہے

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
تَخَيَّرَ
يَتَخَيَّرُ
تَخَيَّرْ
مُتَخَيِّر
مُتَخَيَّر
تَخَيُّر
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْخَیرُ: وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو۔مثلاً عقل عدل و فضل اور تمام مفید چیزیں یہ اَلشَّرُّ کی ضد ہے اور خیر دو قسم پر ہے۔ (۱) خیر مطلق جو ہرحال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا(1) : (۱۱۹) لَاخَیْرَ بِخَیرٍ بَعدَہُ النَّارُ وَلَا شَرَّ بِشَرٍّ بَعدَہٗ الجَنَّۃُ کہ وہ خیر کچھ بھی خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں ہے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے۔ (۲) دوسری قسم خیروشر مفید کی ہے یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلاً دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر کے حق میں شربن جاتی ہے۔اس بنا پر قرآن پاک نے اسے خیروشر دونوں سے تعبیر کیا ہے۔چنانچہ فرمایا: (اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَا) (۲۔۱۸۰) اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔اور دوسرے مقام پر فرمایا: (اَیَحۡسَبُوۡنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمۡ بِہٖ مِنۡ مَّالٍ وَّ بَنِیۡنَ ۔۔۔ نُسَارِعُ لَہُمۡ فِی الۡخَیۡرٰتِ ) (۲۳۔۵۵،۵۶) کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں (تو اس سے) ان کی بھلائی جیں جلدی کرتے ہیں۔بعض علماء نے کہا ہے کہ مال پر خیر کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب وہ مال کثیر ہو اور حلال طریقے سے جمع کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے(2) (۱۲۱) کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اپنے ایک غلام کے پاس گئے تو اس نے دریافت کیا کہ اے امیر المومنین!میں کچھ وصیت نہ کرجاؤں؟تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: ’’نہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے وصیت کے لئے ان ترک خَیرًا‘‘ فرمایا ہے اور خیر مال کثیر کو کہا جاتا ہے‘‘چنانچہ آیت کریمہ: (وَ اِنَّہٗ لِحُبِّ الۡخَیۡرِ لَشَدِیۡدٌ ) (۱۰۰۔۸) وہ تو مال کی سخت محبت کرنے والا ہے میں بھی خیر کے معنیٰ مال کثیر کے ہیں۔بعض علماء نے کہا ہے کہ آیت کریمہ: (اِنْ تَرکَ خَیرًا میںمال کو خیر کہنے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وصیت صرف اس مال میں بہتر ہے جو محمود طریق سے جمع کیا گیا ہو۔اس معنیٰ میں فرمایا: (قُلۡ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ فَلِلۡوَالِدَیۡنِ ) (۲۔۱۱۵) کہدو(جو چاہو خرچ کرو لیکن) جو مال خرچ کرنا چاہو(وہ درجہ بدرجہ اہل استحقاق میں) ماں باپ کو۔ (مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یَّعۡلَمۡہُ اللّٰہُ ) (۲۔۱۹۷) اور جو نیک کام کروگے وہ خدا کو معلوم ہوجائے گا۔اور آیت کریمہ: (فَکَاتِبُوۡہُمۡ اِنۡ عَلِمۡتُمۡ فِیۡہِمۡ خَیۡرًا) (۲۴۔۳۳) اگر تم ان میں (صلاحیت اور) نیکی پاؤ تو ان سے مکاتبت کرلو۔میں بعض نے خَیْرَا سے مال مراد لیا ہے یعنی اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے پاس مال ہے اور بعض نے خیر بمعنیٰ ثواب لیا ہے کہ اگر تمہیں یقین ہو کہ ان آزادی تمہارے اور انکے حق میں فائدہ مند یعنی باعث ثواب ہوگی۔خیروشر کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے۔کبھی بطور اسم کے جیسا کہ گزرچکا ہے۔اور آیت کریمہ: (وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ ) (۳۔۱۰۴) اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے۔میں بھی خیر بطور اسم کے استعمال ہوا ہے اور کبھی یہ دونوں بطور وصف کے آتے ہیں اور اَفْعَلُ مِنْ کی تقدیر میں ہوتے ہیں جیسے خَیْرٌ مِّنْ ذَالِکَ وَاَفْصَلُ: یعنی یہ اس سے بہتر اور افضل ہے قرآن پاک میں ہے: (نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ ) (۲۔۱۰۶) تو اس سے بہتر بھیج دیتے ہیں اور آیت کریمہ: (وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ ) (۲۔۱۸۴) تو روزہ رکھنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ میں خیر اسم بھی ہوسکتا ہے اور بمعنیٰ اَفْعَلُ مِنْ بھی اور آیت کریمہ: (وَ تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی) (۲۔۱۹۷) اور زاد راہ (یعنی رستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر (فائدہ) زادراہ کا پرہیزگاری ہے۔ میں خیر بمعنیٰ افْعَلُ مِنْ کے ہے۔ پھر کبھی تو خیر لفظ شر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے اور کبھی ضُرٌّ کے مقابلہ میں جیسے فرمایا: (وَ اِنۡ یَّمۡسَسۡکَ بِخَیۡرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌر) (۶۔۱۷) اور اگر خدا تم کو کوئی سختی پہنچائے تو اسی کے سوا اس کو کوئی دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر نعمت(و راحت) عطا کرے (تو کوئی اس کو روکنے والا) نہیں وہ ہر چیز پر قادر ہے۔اور آیت کریمہ: (فِیۡہِنَّ خَیۡرٰتٌ حِسَانٌ ) (۵۵۔۷۰) ان میں سے نیک سیرت(اور) خوبصورت۔میں بعض نے کہا ہے کہ خَیْرَاتٌ اصل میں خَیّرات ہے تخفیف کے لئے ایک یاء کو حذف کردیا گیا۔کہا جاتا ہے۔ رَجُلٌ خَیرٌ وَامرَأَۃٌ خَرَۃٌ، وَھٰذا خَیرُ الرِّجَالِ وَھٰذہٖ خَیرَۃُ النِّسائِ: اور خیرات سے مراد یہ ہے کہ ان میں نیک سیرت عورتیں ہوں گی۔اَلخَیِّرُ بہتر جو خیر کے ساتھ مختص ہو۔ نَاقَۃٌ خِیَارٌ وَجَمَلٌ خِیَارٌ (مذکر و مؤنث) بہتر اونٹنی یا اونٹ۔ اَلاِستِخَارَۃُ: کے معنیٰ طلب خیر کے ہیں اس کا مطاوع خَارَ آتا ہے۔ کہا جاتا ہے۔ اِستِخَارَاﷲَ الْعَبْدُ فَخَارَلہٗ: بندے نے اﷲ تعالیٰ سے طلب خیر کی تو اﷲ تعالیٰ نے جو بہتر تھا وہ بتادیا۔ خَایَرْتُ فُلَانًا کَذَا فَخِرْتُہٗ: میں نے فلاں سے (علم میں) مسابقت کی تو میں غالب رہا۔ اَلْخِیرَۃُ: سے مراد وہ حالت ہے جو طلب خیر یا مختار کو حاصل ہوتی ہے جیسا کہ قِعْدَۃٌ وَّجِلْسَۃٌ کا لفظ قَاعِدٌ اور جَالِسٌ کی ہیئت اور حالت پر بولا جاتا ہے۔ اَلْاِخْتِیَارُ: (افتعال) بہتر چیز کو طلب کرکے اسے کرگزرنا۔اور کبھی اختیار کا لفظ کسی چیز کو بہتر سمجھنے پر بھی بولا جاتا ہے گو نفس الامر میں وہ چیز بہتر نہ ہو اور آیت کریمہ: (وَ لَقَدِ اخۡتَرۡنٰہُمۡ عَلٰی عِلۡمٍ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ) (۴۴۔۳۲) اور ہم نے بنی اسرائیل کو اہل علم سے دانستہ منتخب کیا تھا۔میں ان کے بلحاظ خلقت کے بہتر ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے انہیں دوسروں پر فوقیت بخشا مراد ہو۔متکلمین کی اصطلاح میں مختار کا لفظ ہر اس فعل کے متعلق بولا جاتا ہے جس کے کرنے میں انسان پر کسی قسم کا جبرواکراہ نہ ہو۔ لہذا ھُوَ مُخْتارُ فِی کَذَا کا محاورہ ہے فُلَانٌ لَہٗ اِختِیارٌ کے ہم معنیٰ نہیں ہے۔ کیونکہ اختِیارٌ کے معنیٰ اس کام کے کرنے کے ہوتے ہیں جسے انسان بہتر خیال کرتا ہو۔مگر مُخْتارٌ کا لفظ فاعل اور مفعول دونوں پر بولا جاتا ہے۔

Lemma/Derivative

178 Results
خَيْر
Surah:2
Verse:54
بہتر ہے
(is) better
Surah:2
Verse:61
بہتر ہے
(is) better?
Surah:2
Verse:103
اچھا / بہتر
(would have been) better
Surah:2
Verse:105
کوئی بھلائی
good
Surah:2
Verse:106
بہتر
better
Surah:2
Verse:110
کسی بھلائی میں
good (deeds)
Surah:2
Verse:158
کوئی بھی نیکی
good
Surah:2
Verse:180
مال کو
good
Surah:2
Verse:184
کوئی نیکی
good
Surah:2
Verse:184
بہتر ہے۔ اچھا ہے
(is) better