Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 55

سورة البقرة

وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ ﴿۵۵﴾

And [recall] when you said, "O Moses, we will never believe you until we see Allah outright"; so the thunderbolt took you while you were looking on.

اور ( تم اسے بھی یاد کرو ) تم نے ( حضرت ) موسیٰ ( علیہ السلام ) سے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے رب کو سامنے نہ دیکھ لیں ہرگز ایمان نہ لائیں گے ( جس گستاخی کی سزا میں ) تم پر تمہارے دیکھتے ہوئے بجلی گری ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Best among the Children of Israel ask to see Allah; their subsequent Death and Resurrection Allah tells; وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّوْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ And (remember) when you said: "O Musa! We shall never believe in you until we see Allah plainly." But you were seized with a bolt of lightning while you were looking. Ibn Jurayj commented that Allah said, `Remember My favor on you for resurrecting you after you were seized with lightning when you asked to see Me directly, which neither you nor anyone else can bear or attain.' Ibn Abbas said that the Ayah وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّوْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً (And (remember) when you said: "O Musa ! We shall never believe in you until we see Allah plainly") means, "Publicly", "So that we gaze at Allah." Also, Urwah bin Ruwaym said that Allah's statement, وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ (While you were looking) means, "Some of them were struck with lightning while others were watching." Allah resurrected those, and struck the others with lightning. As-Suddi commented on, فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ (But you were seized with a bolt of lightning) saying; "They died, and Musa stood up crying and supplicating to Allah, `O Lord! What should I say to the Children of Israel when I go back to them after You destroyed the best of them, لَوْ شِيْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِيَّـىَ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَأءُ مِنَّأ If it had been Your will, You could have destroyed them and me before; would You destroy us for the deeds of the foolish ones among us.' 7:155) Allah revealed to Musa that these seventy men were among those who worshipped the calf. Afterwards, Allah brought them back to life one man at a time, while the rest of them were watching how Allah was bringing them back to life. That is why Allah's said, ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

ہم بھی اللہ عزوجل کو خود دیکھیں گے موسیٰ علیہ السلام جب اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے ستر شخصوں کو لے کر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق کوہ طور پر گئے اور ان لوگوں نے کلام الٰہی سنا تو حضرت موسیٰ سے کہنے لگے ہم تو جب مانیں جب اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے خود دیکھ لیں ۔ اس گستاخانہ سوال پر ان پر آسمان سے ان کے دیکھتے ہوئے بجلی گری اور ایک سخت ہولناک آواز ہوئی جس سے سب کے سب مر گئے ۔ موسیٰ علیہ السلام یہ دیکھ کر گریہ و زاری کرنے لگے اور رو رو کر جناب باری میں عرض کرنے لگے کہ اللہ بنی اسرائیل کو میں کیا جواب دوں گا یہ جماعت تو ان کے سرداروں اور بہترین لوگوں کی تھی پروردگار اگر یہی چاہت تھی تو انہیں اور مجھے اس سے پہلے ہی مار ڈالتا ۔ اللہ تعالیٰ بیوقوفوں کی بیوقوفی کے کام پر ہمیں نہ پکڑ ۔ یہ دعا مقبول ہوئی اور آپ کو معلوم کرایا گیا کہ یہ بھی دراصل بچھڑا پوجنے والوں میں سے تھے انہیں سزا مل گئی ۔ پھر انہیں زندہ کر دیا اور ایک کے بعد ایک کر کے سب زندہ کئے گئے ۔ ایک دوسرے کے زندہ ہونے کو ایک دوسرا دیکھتا رہا ۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں بچھڑا پوجتے ہوئے دیکھا اور اپنے بھائی کو اور سامری کو تنبیہہ کی ۔ بچھڑے کو جلا دیا اور اس کی راکھ دریا میں بہا دی اس کے بعد ان میں سے بہترین لوگوں کو چن کر اپنے ساتھ لیا جن کی تعداد ستر تھی اور کوہ طور پہ توبہ کرنے کے لئے چلے ان سے کہا کہ تم توبہ کرو ورنہ روزہ رکھو پاک صاف ہو جاؤ کپڑوں کو پاک کر لو جب بحکم الٰہی طور سینا پر پہنچے تو ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے پیغمبر اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ اپنا کلام ہمیں بھی سنائے جب موسیٰ علیہ السلام پہاڑ کے پاس پہنچے تو ایک بادل نے آ کر سارے پہاڑ کو ڈھک لیا اور آپ اسی کے اندر اندر اللہ تعالیٰ کے قریب ہو گئے جب کلام رب ذوالجلال شروع ہوا تب موسیٰ علیہ السلام کی پیشانی نور سے چمکنے لگی اس طرح کہ کوئی اس طرف نظر اٹھانے کی تاب نہیں رکھتا تھا ۔ بادل کی اوٹ ہو گئی اور سب لوگ سجدے میں گر پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے آپ کے ساتھی بنی اسرائیل بھی اللہ تعالیٰ کا کلام سننے لگے کہ انہیں حکم احکام ہو رہے ہیں جب کلام الہ العالمین ختم ہوا بادل چھٹ گیا اور موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس چلے آئے تو یہ لوگ کہنے لگے موسیٰ ہم تو ایمان نہ لائیں گے جب تک اپنے رب کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ۔ اس گستاخی پر ایک زلزلہ آیا اور سب کے سب ہلاک ہو گئے ۔ اب موسیٰ علیہ السلام نے خلوص دل کے ساتھ دعائیں شروع کیں اور کہنے لگے اس سے تو یہی اچھا تھا کہ ہم سب اس سے پہلے ہی ہلاک ہو جاتے ۔ بیوقوفوں کے کاموں پر ہمیں ہلاک نہ کر یہ لوگ ان کے چیدہ اور پسندیدہ لوگ تھے جب میں تنہا بنی اسرائیل کے پاس جاؤں گا تو انہیں کیا جواب دوں گا کون میری بات اس کو سچا سمجھے گا اور پھر اس کے بعد کون مجھ پر ایمان لائے گا ؟ اللہ ہماری توبہ ہے ۔ تو قبول فرما ۔ اور ہم پر فضل و کرم کر ، حضرت موسیٰ علیہ السلام یونہی خشوع و خضوع سے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ پروردگار نے ان کی اس دعا کو قبول فرمایا اور ان مردوں کو زندہ کر دیا ، اب سب نے ایک زبان ہو کر بنی اسرائیل کی طرف سے توبہ شروع کی ان سے فرمایا گیا کہ جب تک یہ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کریں اور ایک دوسرے کو قتل نہ کریں میں ان کی توبہ قبول نہیں فرماؤں گا ۔ سدی کبیر کہتے ہیں یہ واقعہ بنی اسرائیل کے آپس میں لڑانے کے بعد کا ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ خطاب گو عام ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد وہی ستر شخص ہیں ۔ رازی نے اپنی تفسیر میں ان ستر شخصوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے جینے کے بعد کہا کہ اے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں نبی بنا دے ۔ آپ نے دعا کی اور وہ قبول بھی ہوئی لیکن یہ قول غریب ہے موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں سوائے ہارون علیہ السلام کے اور اس کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے کسی اور کی نبوت ثابت نہیں ۔ اہل کتاب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی دعا کے مطابق اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے اسی جگہ دیکھا یہ بھی غلط ہے اس لئے کہ خود موسیٰ علیہ السلام نے جب دیدار باری تعالیٰ کا سوال کیا تو انہیں منع کر دیا گیا پھر بھلا یہ ستر اشخاص دیدار باری کی تاب کیسے لاتے؟ اس آیت کی تفسیر میں ایک دوسرا قول بھی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام توراۃ لے کر آئے جو احکام کا مجموعہ تھی اور ان سے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس پر عمل کرو اور مضبوطی کے ساتھ اس کے پابند ہو جاؤ تو وہ کہنے لگے کہ حضرت ہمیں کیا خبر اللہ تعالیٰ خود آ کر ظاہر ہو کر ہم سے کیوں نہیں کہتا ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ آپ سے باتیں کرے اور ہم سے نہ کرے؟ جب تک ہم اللہ کو خود نہ دیکھ لیں ہرگز ایمان نہ لائیں گے اس قول پر ان کے اوپر غضب الٰہی نازل ہوا اور ہلاک کر دئیے گئے پھر زندہ کئے گئے پھر موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا کہ اب تو اس توراۃ کو تھام لو انہوں نے پھر انکار کیا اب کی مرتبہ فرشتے پہاڑ اٹھا کر لائے اور ان کے سروں کے اوپر معلق کر دیا کہ اگر نہ مانو گے تو یہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم سب پیس ڈالے جاؤ گے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد یہ جی اٹھے اور پھر بھی مکلف رہے یعنی احکام الٰہی ان پر پھر بھی جاری رہے ماوردی نے کہا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی یہ زبردست نشانی دیکھ لی مرنے کے بعد زندہ ہوئے تو پھر تکلیف شرعی ان پر سے ہٹ گئی اس لئے کہ اب تو یہ مجبور تھے کہ سب کچھ مان لیں ۔ خود ان پر یہ واردات پیش آئی اب تصدیق ایک بے اختیاری امر ہو گیا ۔ دوسری جماعت کہتی ہے کہ نہیں بلکہ باوجود اس کے وہ احکام شرع کے مکلف رہے کیونکہ ہر عاقل مکلف ہے ۔ قرطبی کہتے ہیں ٹھیک قول یہی ہے یہ امور ان پر قدرتی طور سے آئے تھے جو انہیں پابندی شرع سے آزاد نہیں کر سکتے خود بنی اسرائیل نے بھی بڑے بڑے معجزات دیکھے خود ان کے ساتھ ایسے ایسے معاملات ہوئے جو بالکل نادر اور خلاف قیاس اور زبردست معجزات تھے باوجود اس کے وہ بھی مکلف رہے اسی طرح یہ بھی ٹھیک قول ہے اور واضح امر بھی یہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ستر (70) آدمیوں کو کوہ طور پر تورات لینے کے لئے ساتھ لے گئے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس آنے لگے تو انہوں نے کہا جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ہم تیری بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس پر بطور عتاب ان پر بجلی گری اور مرگئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سخت پریشان ہوئے اور ان کی زندگی کی دعا کی جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کردیا۔ دیکھتے ہوئے بجلی گرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں جن پر بجلی گری آخر والے اسے دیکھ رہے تھے حتٰی کہ سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧١] یہ بنی اسرائیل کے لوگ کچھ ایسے بدنہاد واقع ہوئے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان پر بھی اعتبار نہیں کرتے تھے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) تورات لے کر کوہ طور سے واپس لوٹے اور قوم کے سامنے کتاب پیش کی تو کہنے لگے۔ ہمیں یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ کتاب واقعی منزل من اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ فی الواقع آپ سے ہم کلام ہوا تھا۔ اس صورت حال سے موسیٰ (علیہ السلام) سخت پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا کہ ستر آدمیوں کو بھی اپنے ساتھ طور پہاڑ پر لے آؤ۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے ستر آدمی منتخب کئے اور انہیں اپنے ہمراہ طور پر لے گئے کہ وہ خود بقائمی ہوش و حواس کلام الٰہی کو سن لیں۔ پھر جب انہوں نے کلام الٰہی سن لیا تو کہنے لگے : موسیٰ (علیہ السلام) پردے میں سننے کا ہمیں کچھ اعتبار نہیں اور ہم تو جب تک اللہ کو صاف صاف دیکھ نہ لیں، تمہاری بات پر اعتبار نہیں کریں گے۔ && منتخب ستر آدمیوں کی موت اور دوبارہ زندگی :۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ ان کا یہ مطالبہ ناقابل عمل اور انتہائی جہالت پر مبنی تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) جب خود بھی اللہ کی تجلی کی تاب نہ لاسکے اور بےہوش ہو کر گرگئے تھے، اور پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوگیا تھا۔ تو بھلا یہ کس کھیت کی مولی تھے۔ ان کے اس مطالبہ پر ان پر بجلی گری شاید یہ بھی اللہ کی تجلی ہی کی کوئی صورت ہو) اور آن کی آن میں انہیں بھسم کر ڈالا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ بات کہنے والے وہ ستر آدمی تھے جن کا سورة اعراف (١٥٥) میں ذکر ہے، جنھیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وقت کے لیے چنا تھا، جب موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تو انھوں نے کہا کہ ہم تمہارے کہنے پر ہرگز یقین نہیں کریں گے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ہم کلام ہوئے ہیں، جب تک ہم خود اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں، اس پر وہ رجفہ ( زلزلہ) اور صاعقہ ( بجلی کی کڑک) سے بےہوش ہو کر مرگئے، پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے دوبارہ زندہ ہوئے۔ یہاں موت سے بےہوشی مراد لینا درست نہیں، کیونکہ یہاں واضح طور پر (مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ ) آیا ہے اور سورة اعراف (١٥٥) میں موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا میں : (لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَاِيَّايَ )” اگر تو چاہتا تو انھیں اس سے پہلے ہلاک کردیتا اور مجھے بھی۔ “ آیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایمان لانے کی شرط کے طور پر اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کا مطالبہ بہت بڑی گستاخی ہے۔ دیکھیے سورة نساء (٥٣) اور فرقان (٢١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Then Sayyidna Musa (علیہ السلام) (Moses) brought the Torah from Mount Tur طور (Sinai) and presented it to the Israelites as the book of Allah, some of them were insolent enough to say that they could not believe it until and unless Allah Himself told them in so many words. With the permission of Allah, Sayyidna Musa (علیہ السلام) replied that even this condition would be fulfilled, if they went with him to Mount Tur طور . The Israelites chose seventy men for this purpose. Arriving there, they heard the words of Allah with their own ears. Now, in their perversity, they invented a new ruse. It was not enough, they said, to hear the speech, for they could not be sure whether it was Allah Himself who had spoken to them or someone else. But they promised that they would be finally convinced if they could see Allah with their own eyes. Since it is beyond the power of a living being to be able to see Allah in the physical world, they had to pay for their impertinence, and were killed by a thunderbolt -- the next verse reports their death.

خلاصہ تفسیر : اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب تم لوگوں نے (یوں) کہا کہ اے موسیٰ ہم تمہارے کہنے سے ہرگز نہ مانیں گے (کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے) یہاں تک کہ ہم (خود) اللہ تعالیٰ کو علانیہ طور پر دیکھ لیں سو (اس گستاخی پر) تم پر کڑک بجلی کی آ پڑی اور تم (اس بجلی کا آنا) آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ فائدہ : اس کا قصہ اس طرح ہوا تھا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور سے تورات لاکر پیش کی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے تو بعض گستاخ لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ خود ہم سے کہہ دے کہ یہ ہماری کتاب ہے تو بیشک ہم کو یقین آجائے گا موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے باذن الہی فرمایا کہ کوہ طور پر چلو یہ بات بھی ہوجائے گی بنی اسرائیل نے اس کام کے لئے ستر آدمی منتخب کرکے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کوہ طور پر روانہ کئے وہاں پہنچنے پر اللہ تعالیٰ کا کلام ان لوگوں نے خود سنا تو اس وقت اور رنگ لائے کہ ہم کو تو کلام سننے سے قناعت نہیں ہوتی خدا جانے کون بول رہا ہوگا اگر خدا کو دیکھ لیں تو بیشک مان لیں چونکہ دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی قوت نہیں رکھتا اس لئے اس گستاخی پر ان پر بجلی آپڑی اور سب ہلاک ہوگئے (ہلاکت کے متعلق اگلی آیت میں بیان ہے)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللہَ جَہْرَۃً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝ ٥٥ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) جهر جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع . أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة/ 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] ( ج ھ ر ) الجھر ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة/ 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ صعق الصَّاعِقَةُ والصّاقعة يتقاربان، وهما الهدّة الكبيرة، إلّا أن الصّقع يقال في الأجسام الأرضيّة، والصَّعْقَ في الأجسام العلويَّةِ. قال بعض أهل اللّغة : الصَّاعِقَةُ علی ثلاثة أوجه : 1- الموت، کقوله : فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 68] ، وقوله : فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء/ 153] . 2- والعذاب، کقوله : أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت/ 13] . 3- والنار، کقوله : وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد/ 13] . وما ذكره فهو أشياء حاصلة من الصَّاعِقَةِ ، فإنّ الصَّاعِقَةَ هي الصّوت الشّديد من الجوّ ، ثم يكون منها نار فقط، أو عذاب، أو موت، وهي في ذاتها شيء واحد، وهذه الأشياء تأثيرات منها . ( ص ع ق ) الصاعقۃ اور صاقعۃ دونوں کے تقریبا ایک ہی معنی ہیں یعنی ہو لناک دھماکہ ۔ لیکن صقع کا لفظ اجسام ارضی کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور صعق اجسام علوی کے بارے میں بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ صاعقۃ تین قسم پر ہے اول بمعنی موت اور ہلاکت جیسے فرمایا : ۔ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 68] تو جو لوگ آسمان میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب کے سب مرجائیں گے ۔ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء/ 153] سو تم کو موت نے آپکڑا ۔ دوم بمعنی عذاب جیسے فرمایا : ۔ أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت/ 13] میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ ( عذاب ) آیا تھا ۔ سوم بمعنی آگ ( اور بجلی کی کڑک ) جیسے فرمایا : ۔ وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد/ 13] اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھو حس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے ۔ لیکن یہ تینوں چیزیں دراصل صاعقہ کے آثار سے ہیں کیونکہ اس کے اصل معنی تو قضا میں سخت آواز کے ہیں پھر کبھی تو اس آواز سے صرف آگ ہی پیدا ہوتی ہے اور کبھی وہ آواز عذاب اور کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے یعنی دراصل وہ ایک ہی چیز ہے اور یہ سب چیزیں اس کے آثار سے ہیں ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٥) اے قوم موسیٰ (علیہ السلام) تم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا ہم آپ کے کلام کی تصدیق نہیں کریں گے، جب تک کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی اس طرح زیارت حاصل ہوجائے جس طرح کہ آپ کو ہوئی ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ تم لوگوں کو آگ نے جھلسا دیا اور تم آپس میں اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ (وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہْرَۃً ) اٰمَنَ یُؤْمِنُ کے بعد ” بِ “ کا صلہ ہو تو اس کے معنی ایمان لانے کے ہوتے ہیں ‘ جبکہ ” لِ “ کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی صرف تصدیق کے ہوتے ہیں۔ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ ہم آپ کی بات کی تصدیق نہیں کریں گے جب تک ہم اپنی آنکھوں سے اللہ کو آپ سے کلام کرتے نہ دیکھ لیں۔ ہم کیسے یقین کرلیں کہ اللہ نے یہ کتاب آپ کو دی ہے ؟ آپ ( علیہ السلام) تو ہمارے سامنے پتھر کی کچھ تختیاں لے کر آگئے ہیں جن پر کچھ لکھا ہوا ہے۔ ہمیں کیا پتا کہ یہ کس نے لکھا ہے ؟ دیکھئے ‘ ایک خواہش حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی بھی تھی کہ (رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرْ اِلَیْکَ ط) (الاعراف : ١٤٣) ” اے میرے ربّ ! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھ کو دیکھوں “۔ وہ کچھ اور شے تھی ‘ وہ ع ” تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ ! “ کی کیفیت تھی ‘ لیکن یہ تخریبی ذہن کی سوچ ہے کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور ہمیں معلوم ہو کہ واقعی اس نے آپ کو یہ کتاب دی ہے ۔ (فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ) ” “۔ تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک بہت بڑی کڑک نے تمہیں آلیا اور تم سب کے سب مردہ ہوگئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:55) واذقلتم ۔۔ ملاحظہ ہو 2:49) لن نومن ۔ مضارع منفی تاکید بلن۔ لن کے عمل کی وجہ سے منصوب ہے صیغہ جمع متکلم ۔ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ جھرۃ۔ جھر یجھر (باب فتح) سے مصدر ہے، جس کا مطلب آواز کو بلند کرنا ہے۔ جھرت بالقراۃ میں نے پڑھنے میں آواز کو اٹھایا۔ یا بلند کیا۔ مگر یہاں دیکھنے کے معنی میں مستعار لیا گیا ہے کھلم کھلا یا روبرو دیکھنا جھرۃ یا تو نریکا مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے کیونکہ جھرۃ میں بھی ایک قسم کی رویت پائی جاتی ہے یا فاعل ضمیر فاعل نری یا مفعول بہ اللہ سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ الصعقۃ۔ بجلی کی کڑک، ہولناک دھماکہ، بعض علماء کے نزدیک صاعقہ تین قسیم پر ہے۔ (1) بمعنی موت و ہلاکت، جیسے فصعق من فی السموات ومن فی الارض (39:68) اور جو لوگ آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب مرجائیں گے۔ (2) بمعنی عذاب مثلاً انذرتکم صعقۃ مثل صعقۃ عاد وثمود (41:13) میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ عذاب آیا تھا۔ (3) بمعنی آگ اور بجلی کی کڑک جیسے ویرسل الصواعق فیصیب بھا من یشاء (13:13) اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے۔ وانتم تنظرون ۔ جملہ حالیہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 55 تا 56 (قلتم): تم نے کہا۔ (لن نؤمن): ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔ (نری): ہم دیکھیں گے۔ (جھرۃ): سامنے ، کھلم کھلا اعلانیہ۔ (اخذت): پکڑ لیا، آگھیرا۔ (بعثنا): ہم نے اٹھا کھڑا کیا) ۔ تشریح : آیت نمبر 55 تا 56 جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور سے توریت لے کر واپس تشریف لائے تو وہ لوگ جو بچھڑے کی پوجا میں لگے ہوئے تھے ان میں سے بعض گستاخ لوگوں نے کہنا شروع کیا اے موسیٰ (علیہ السلام) تم کہتے ہو کہ اللہ تم سے باتیں کرتا ہے ہم اس بات کا کیسے یقین کرلیں ہم تو اس وقت تک یقین نہیں کریں گے جب تک اپنی آنکھوں اور کانوں سے سب کچھ دیکھ اور سن نہ لیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوری قوم میں سے ستر ذمہ دار لوگوں کا انتخاب کیا، ان کو طور پر لے گئے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے کلام کیا تب بھی ان کو یقین نہ آیا کہنے لگے ہم تو اس وقت تک یقین نہ کریں گے جب تک خود اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں گے، اس گستاخی پر ایک ایسی زبردست چمک پیدا ہوئی جس میں ایک ہیبت ناک آواز بھی تھی۔ اس آواز کے اثر سے ان کے دلوں کی دھڑکنیں بند ہوگئیں اور وہ سب کے سب مر گئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی رب العالمین میری قوم بہت جلد بدگمان ہوجاتی ہے وہ سمجھیں گے کہ میں نے دھوکے سے ان کو مار ڈالا ہے۔ اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کو قبول کرلیا اور ان کو دوبارہ زندہ کردیا۔ دوبارہ زندگی یقیناً ان کے لئے ایک بہت بڑا انعام تھا مگر اس کے بعد بھی انہوں نے اس کی قدر نہ کی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی بدترین گستاخی معاف کرتے ہوئے ان پر چھٹا احسان فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے آسمانی دستاویزات یعنی تورات کو یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ جب تک ہم اللہ کے ساتھ ہم کلام اور اس کو خود نہیں دیکھ لیتے اس وقت تک ہم اس کتاب کی تصدیق نہیں کریں گے۔ اس نازک صورت حال کے پیش نظر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کی کہ اے رب کریم ! انہیں اپنی ہم کلامی اور زیارت سے مشرف فرما۔ اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ آپ اپنی قوم کے ستر نمائندہ لوگوں کو کوہ طور پر لے آئیں۔ جب یہ لوگ طور سینا پر پہنچے تو زور دار آسمانی دھماکے سے مرگئے۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے ” اللہ “ کے حضور عجز و انکساری سے فریاد کی کہ اے رب جلیل ! ان لوگوں کی حماقت کی وجہ سے آپ نے انہیں تباہ کردیا ؟ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پہلے مار دیا ہوتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور انہیں دوبارہ زندہ کردیا گیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کو دوبارہ زندہ فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی زیارت کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : (عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ (رض) قَالَ سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھَلْ رَأَیْتَ رَبَّکَ قَالَ نُوْرٌ أَنّٰی أَرَاہُ ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب فی قولہ نور أنی أراہ وفی قولہ رأیت نورا) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوئے ہیں ؟ جواباً آپ نے فرمایا وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ “ شکر کا جامع مفہوم یہ ہے کہ آدمی کو جو کچھ میسّر ہو اس کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ یہ ایسی صفت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات والا صفات کی طرف منسوب فرمایا ہے۔ سورة النساء آیت ١٤٧ میں ارشاد ہوا کہ لوگو ! تمہیں عذاب کرنے سے اللہ تعالیٰ کو کچھ حاصل نہیں ہوتا اگر تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کا شکریہ ادا کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارا قدر دان ہوگا۔ یہاں شاکر کا لفظ استعمال فرما کر شکر کی اہمیت کو دو چند کردیا ہے۔ سورة ابراہیم آیت ٧ میں یہ خوشخبری عطا فرمائی کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو گے تو وہ تمہیں مزید عنایات سے نوازے گا۔ سورۃ ابراہیم میں شکر کے بالمقابل کفر کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معانی ناقدری اور احسان فراموشی کے ہیں اس لیے ہر زبان میں ناشکری کو کفران نعمت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ابلیس لعین کو جب اس کے جرم کی پاداش میں ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ قرار دیا گیا تو اس نے بنی نوع انسان کے بارے میں ان الفاظ میں اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تھا : ” جس وجہ سے مجھے راندہ درگاہ قرار دیا گیا ہے میں اس کے لیے صراط مستقیم میں رکاوٹ بنوں گا اور میں ان کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں سے حملہ آور ہوں گا۔ اے اللہ ! تو ان کی اکثریت کو شکر گزار نہیں پائے گا۔ “ (الاعراف : ١٦، ١٧) بنی آدم کو ناشکری کے گناہ سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بار بار اپنی نعمتوں کی قدر کرنے اور ہر دم شکر گزار رہنے کا حکم دیا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا اس قدر خیال رکھتے کہ آپ تہجد کی نماز میں اس قدر قیام کرتے کہ آپ کے قدم مبارک پر ورم آجایا کرتا تھا جنہیں دیکھ کر آپ کے اہل خانہ نے عرض کی کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں تو آپ اس قدر کیوں مشقت اٹھاتے ہیں جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کیا میں ان نعمتوں پر اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟[ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب قیام النبی اللیل ] اسی بنا پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرض نماز کے بعد اس دعا کا اہتمام کیا کرتے تھے : (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّيْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) (رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب فی الإستغفار) ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ موت دے کر زندہ کرنے پر قادر ہے۔ ٢۔ ہر دم اللہ کا شکر گزار رہنا چاہیے۔ ٣۔ کسی کی عظمت اور احسان مندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کا شکر ادا کرے۔ تفسیر بالقرآن شکر کی اہمیت : ١۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر اس کا شکریہ ادا کرو۔ (الانفال : ٢٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو تمہارے تابع کیا جس سے تازہ مچھلی، زیبائش کا سامان نکلتا ہے اس پر اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ (النحل : ١٤) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو باعث سکون اور دن کو کسب معاش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ اس کا شکر ادا کرو۔ (القصص : ٧٣) ٤۔ شکر کے بارے میں حضرت داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کی دعائیں۔ (صٓ: ٣٥، النمل : ١٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار لوگوں کو زیادہ دیتا ہے۔ (ابراہیم : ٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ کی بیشمار نشانیاں ، اس کی نعمتیں بار بار کی عفو اور درگزر ، ان سب چیزوں کا ان کی اس مادی فطرت اور مادہ پرست طبیعت کے سامنے بالکل بےاثر تھیں ۔ ان سب نعمتوں کے باوجود یہ لوگ سخت جھگڑالو اور فریب کار تھے ، اور کسی سخت عذاب اور انتقام کے بغیر ، قبول حق کے لئے ہرگز تیار نہ تھے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرعون کی غلامی اور اس کے ظالمانہ نظام نے ان بیچاروں کی فطرت ہی کو بری طرح مسخ کرڈالا تھا ۔ یاد رہے کہ جب کوئی ظالمانہ اور جابرانہ نظام ایک طویل عرصے تک کسی قوم پر مسلط رہے گا تو وہ قوم اس کی فطرت سلیمہ کو بالکل مسخ کردیتا ہے اور اس سے تمام انسانی فضائل اور اچھی عادات ایک ایک کرکے ختم ہوجاتی ہیں ۔ غلامی سے انسانیت کے بنیادی فضائل اور اساسی عناصر ضائع ہوجاتے ہیں اور اقوام کے اندر غلاموں کی معروف اور گھٹیا صفات اور عادات پیدا ہوجاتی ہیں ، ایسے لوگوں کی عادت یہ ہوتی ہے کہ جب ان کے سروں پر ڈنڈا مسلط ہو ، تو وہ رام ہوجاتے ہیں اور جونہی آزاد ہوتے اور آزادی کے سائے میں قوت اور آسائش پاتے تو آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ۔ جنوں کی سی سرکشی کرنے لگتے ہیں ۔ یہی حالت تھی بنی اسرائیل کی جو آج تک اس پر قائم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے کفریہ کلمات کہتے ہیں اور ذلت وگمراہی کے گہرے گڑھے میں جاپڑتے ہیں ۔ وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً ” یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے ، جب تک اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو (تم سے کلام کرتے ) نہ دیکھ لیں ۔ “ یہی وجہ ہے کہ ابھی وہ پہاڑ پر ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ، ان کے اس کافرانہ رویے کے بدلے یہ سزا دی ۔ فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ ” اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ، ایک زبردست صاعقہ نے تم کو آلیا ۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بنی اسرائیل کی بیجا جسارت اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا سوال جب موسیٰ نبینا (علیہ السلام) توریت شریف لے کر تشریف لائے تو بنی اسرائیل کو پایا کہ ان میں سے بہت سے لوگ بچھڑے کی عبادت کرچکے ہیں بچھڑے اور اس کی عبادت کرنے والوں کا انجام اوپر بیان ہوچکا ہے۔ بنی اسرائیل نے گؤ سالہ پرستی کے علاوہ ایک اور اڑ لگائی۔ اور انہوں نے کہا کہ آپ جو فرما رہے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ ہمارے پاس اس کی کیا دلیل ہے۔ ہم تو اس کو جب مانیں گے جب اللہ تعالیٰ ہم سے خود فرمائیں کہ یہ میری کتاب ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا چلو یہ بھی سہی تم لوگ اپنے نمائندے تیار کرلو اور جو لوگ میرے ساتھ چلیں وہ روزہ رکھیں اور پاک صاف ہو کر چلیں جس دن ان کو خداوند قدوس سے ہم کلامی سے مشرف ہونے کا موقعہ آیا (جس کے لیے پہلے سے اجازت لی ہوئی تھی اور وقت مقرر فرما دیا تھا) تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان ستر آدمیوں کو بھی ساتھ لے گئے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام سن کر یہ لوگ مطمئن نہ ہوئے اور دوسری کروٹ بدلی اور کہنے لگے کہ ہم تمہاری بات جب مانیں گے جب ہم اللہ تعالیٰ کو علانیہ طور پر اپنے آمنے سامنے دیکھ لیں۔ ان کا یہ کہا تھا کہ ان کو بجلی کی کڑک نے پکڑ لیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے لقمہ اجل بن گئے۔ جب یہ ماجرا ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فکر لاحق ہوئی کہ پہلے ہی بنی اسرائیل مجھے متہم کرتے تھے اور طرح طرح کی باتیں کرتے تھے اب اتنے آدمی ہلاک ہوگئے تو میں جب یہ بیان کروں گا کہ وہ لوگ بجلی کی کڑک سے مرگئے تو خدا جانے کیا کیا باتیں بنائیں گے اور کیسے اتہام دھریں گے لہٰذا انہوں نے بارگاہ خداوندی میں دعاء کی جس کی وجہ سے دوبارہ زندہ کردیے گئے۔ اس نعمت کا شکر ان زندہ ہونے والوں پر اور ساری قوم پر واجب ہوا۔ (ابن کثیر ص ١/ ٩٣‘ ٩٤‘ البیضاوی : ١/ ٧٥)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi