Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
ظَلَّ |
يَظَلُّ |
ظَلّ/اِظْلَلْ |
ظَالّ |
- |
ظَلّ/ظُلُوْل |
الظِّلُّ: سایہ۔ یہ اَلضِّحُّ (دھوپ) کی ضد سے اور فَیْئٌ سے زیادہ عام ہے کیونکہ (مجازاً) اَلظِّلُّ کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دھوپ نہ پہنچے اسے ظِلٌّ کہہ دیا جاتا ہے، مگر فَیْئٌ صرف اس سایہ کو کہتے ہیں جو زوال آفتاب سے ظاہر ہوتا اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خوش حالی کو ظل سے تعبیر کر لیتے ہیں۔ چنانچہ آیت کریمہ: (اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ ظِلٰلٍ ) (۷۷:۴۱) کے معنی یہ ہیں کہ پرہیزگار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے۔ نیز فرمایا: (اُکُلُہَا دَآئِمٌ وَّ ظِلُّہَا) (۱۳:۳۵) اس کے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں اور اس کی خوش گواریاں بھی۔ (ہُمۡ وَ اَزۡوَاجُہُمۡ فِیۡ ظِلٰلٍ ) (۳۶:۵۶) وہ بھی اور ان کی بیویاں بھی ہر قسم کی خوشحالیوں میں ۔ ظَلَّنِیَ الشَّجَرُ وَاَظَلَّنِیْ: درخت نے مجھ پر سایہ کیا۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ ظَلَّلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡغَمَامَ) (۲:۵۷) اور ہم نے بادلوں کا تم پر سایہ کیے رکھا۔ (وَاَظَلَّنِیْ فُلَانٌ) اس نے میری حفاظت کی، مجھے اپنے زیرسایہ لے لیا، مجھے عزت سے رکھا۔ اور آیت کریمہ ہے: (یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ ) (۱۶:۴۸) جن کے سائے … لوٹتے رہتے ہیں۔ کے معنی یہ ہیں کہ سائے کا وجود بھی اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت اور حکمت پر دلالت کرتا ہے۔ اور آیت کریمہ ہے: (وَ لِلّٰہِ یَسۡجُدُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ طَوۡعًا وَّ کَرۡہًا وَّ ظِلٰلُہُمۡ ) (۱۳:۱۵) اور … خدا کے آگے سجدہ کرتی ہے اور ان کے سائے بھی۔ کی تفسیر میں حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ (انسان!) تیرا سایہ تو اﷲ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے مگر تو کفر پر تلا ہوا ہے ظِلٌّ ظَلِیْلٌ گھنا سایہ۔ مگر آیت کریمہ: (وَّ نُدۡخِلُہُمۡ ظِلًّا ظَلِیۡلًا) (۴:۵۷) اور ان کو ہم گھنے سائے میں داحل کریں گے۔ میں ظلًّا ظَلِیْلًا سے کنایۃً زندگی کی آسائش مراد ہے اور ظُلَّۃٌ سایہ فگن بدلی کو کہتے ہیں اور عام طور پر اس کا استعمال ناخوشگوار مواقع پر ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ ) (۷:۱۷۱) گویا وہ سایہ دار بدلی ہے۔ (عَذَابُ یَوۡمِ الظُّلَّۃِ ) (۲۶:۱۸۹) ’’سائبان کی طرح چھاجانیو الے دن کے عذاب نے‘‘ اور آیت کریمہ ہے: (اَنۡ یَّاۡتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیۡ ظُلَلٍ مِّنَ الۡغَمَامِ) (۲:۲۱۰) ان پر خدا کا عذاب سایہ دار بادلوں میں نازل ہو۔ میں ظُلَلٌ کا واحد ظُلَّۃٌ آتا ہے جیسے غُرْفَۃٌ وَغُرَفٌ وَقُرْبَۃٌ وَقُرَبٌ اور ایک قرات میں فِیْ ظِلَالٍ مِّنَ الْغَمَامِ بھی ہے۔ اور ظلَالٌ ظُلَّۃٌ کی جمع بھی ہوسکتی ہے جیسے غُلْبَۃٌ کی جمع غِلَابٌ وَحُفْرَۃٌ کی جمع حِفَارٌ آجاتی ہے اور ظِلٌّ کی بھی جیساکہ آیت ہے: (یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ ) (۱۶:۴۸) میں ہے بعض اہل لغت کا خیال ہے کہ ہر بلند ہونے والی چیز کو ظِلٌّ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ شاعر نے کہا ہے۔(1) (البسیط) (۲۹۷) لَنَا نَزَلْنَا رَفَعْنَا ظِلَّ اَخْبِیَۃٍ ’’جب ہم فروکش ہوئے تو خیمے نصب کردئیے۔‘‘ اور یہ ظاہر ہے کہ ظِلٌّ یعنی سایہ کو تو کوئی شخص بھی نصب نہیں کرتا لہٰذا یہاں ظِلّق اَخْبِیَۃٍ سے مراد خیمے ہیں۔ اسی طرح دوسرے شاعر نے کہا ہے۔(2) الطّویل) (۲۹۸) تَتْبَعُ اَفْیَائَ الظِّلَالِ عَشِیَّۃً کہ شام کے وقت سایوں کے پیچھے چلتی ہے۔ مگر ان اشعار سے یہ معنی ثابت نہیں ہوتے کیونکہ مصرعہ اول کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے خیمے نصب کیے جن کے ساتھ ان کے سائے بھی بلند ہوگئے اور دوسرے مصرعہ میں الظِّلَالُ عام ہے اور فَیئٌ کا لفظ خاص۔ لہٰذا اَفْیَائَ الظِّلَال میں اَلظِّلَالِ کی طرف اِفْیَائَ کی اضافت ایسے ہی ہے جیسے خاص کو عام کی طرف مضاف کردیا جاتا ہے اور اسے اِضَافَۃُ الشَّیئِ اِلٰی جِنْبِہٖ کہتے ہیں۔ نیز اَلظُّلَّۃُ کا لفظ کینوپی کی مثل ہر چھا جانے والی چیز پر بولا جاتا ہے۔ اس بنا پر آیت کریمہ: (وَ اِذَا غَشِیَہُمۡ مَّوۡجٌ کَالظُّلَلِ) (۳۱:۳۲) کے معنی یہ ہیں کہ جب بادلوں کی طرح سمندر کی بڑی بڑی موجیں انہیں ڈھانپ لیتی ہیں نیز فرمایا: (لَہُمۡ مِّنۡ فَوۡقِہِمۡ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَ مِنۡ تَحۡتِہِمۡ ظُلَلٌ) (۳۹:۱۶) ان کے اوپر آگ کے سائبان ہوں اور نیچے بھی۔ اور ہر ڈھانپ لینے والی چیز کو ظِلٌّ کہا جاتا ہے، خواہ وہ اچھی ہو یا بُری۔ چنانچہ اچھے معنوں میں فرمایا: (وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الۡحَرُوۡرُ ) (۳۵:۲۱) اور نہ سایہ اور نہ دھوپ۔ (وَ دَانِیَۃً عَلَیۡہِمۡ ظِلٰلُہَا ) (۷۶:۱۴) ان سے … ان کے سائے قریب ہوں گے۔ اور بُرے معنوں میں فرمایا: (وَّ ظِلٍّ مِّنۡ یَّحۡمُوۡمٍ ) (۵۶:۴۳) اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں ۔ اور آیت کریمہ: (اِلٰی ظِلٍّ ذِیۡ ثَلٰثِ شُعَبٍ ) (۷۷:۳۰) یعنی تین شاخوں والے سائے کی طرف۔ میں ظِلٌّ ظُلَّۃٌ کے ہم معنی ہے۔ جیساکہ آیت کریمہ: (ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ ) (۳۹:۱۶) سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ ظُلَّۃٌ کی جمع ہے لہٰذا اس کے بعد لَاظَلِیْلٍ (۷۷:۳۱) کے معنی یہ ہیں کہ وہ سایہ دوزح کی گرمی سے بچانے کام نہیں دے گا اور حدیث میں جو آیا ہے: کَانَ النَّبِیُّ ﷺ اِذَا مشٰی لَمْ یَکُنْ لَہٗ ظِلٌّ کہ آنحضرت جب چلتے تو آپ کا سایہ نہ وہتا تھا۔ تو اس کی تفسیر دوسرے موقع پر بیان ہوگی۔ ظَلِلْتُ وَظَلْتُ (ایک لام کے ساتھ)یہ اصل میں تو اس کام کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو دن کے وقت کیا جائے مگر کبھی بمعنی صِرْتُ ’’یعنی ہوجانا‘‘ بھی آجاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (لَّظَلُّوۡا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ یَکۡفُرُوۡنَ ) (۳۰:۵۱) تو اس کے بعد وہ ناشکری کرنے لگ جائیں۔ (ظَلۡتَ عَلَیۡہِ عَاکِفًا) (۲۰:۹۷) جس کی عبادت پر جما ہوا تھا۔
Surah:2Verse:57 |
اور سایہ کیا ہم نے
And We shaded
|
|
Surah:7Verse:160 |
اور سایہ کیا ہم نے
And We shaded
|