Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 62

سورة البقرة

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِئِیۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۪ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۶۲﴾

Indeed, those who believed and those who were Jews or Christians or Sabeans [before Prophet Muhammad] - those [among them] who believed in Allah and the Last Day and did righteousness - will have their reward with their Lord, and no fear will there be concerning them, nor will they grieve.

مسلمان ہوں ، یہودی ہوں نصاری ہوں یا صابی ہوں جو کوئی بھی اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اُداسی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Faith and doing Righteous Deeds equals Salvation in all Times Allah says; إِنَّ الَّذِينَ امَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِيِينَ مَنْ امَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ Verily, those who believe and those who are Jews and Christians, and Sabians ... (Sabi'in), whoever believes in Allah and the Last Day and does righteous good deeds shall have their reward with their Lord, on them shall be no fear, nor shall they grieve. After Allah described the condition - and punishment - of those who defy His commands, fall into His prohibitions and transgress set limits by committing prohibited acts, He stated that the earlier nations who were righteous and obedient received the rewards for their good deeds. This shall be the case, until the Day of Judgment. Therefore, whoever follows the unlettered Messenger and Prophet shall acquire eternal happiness and shall neither fear from what will happen in the future nor become sad for what has been lost in the past. Similarly, Allah said, أَلا إِنَّ أَوْلِيَأءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ No doubt! Verily, the Awliya of Allah, no fear shall come upon them nor shall they grieve. (10:62) The angels will proclaim to the dying believers, as mentioned, إِنَّ الَّذِينَ قَالُواْ رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَـمُواْ تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَـيِكَةُ أَلاَّ تَخَافُواْ وَلاَ تَحْزَنُواْ وَأَبْشِرُواْ بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ Verily, those who say: "Our Lord is Allah (alone)," and then they stand firm, on them the angels will descend (at the time of their death) (saying): "Fear not, nor grieve! But receive the glad tidings of Paradise which you have been promised!" (41:30) The Meaning of Mu'min, or Believer Ali bin Abi Talhah narrated from Ibn Abbas, about, إِنَّ الَّذِينَ امَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِيِينَ مَنْ امَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ (Verily, those who believe and those who are Jews and Christians, and Sabians, whoever believes in Allah and the Last Day) that Allah revealed the following Ayah afterwards, وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الاِسْلَـمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِى الاٌّخِرَةِ مِنَ الْخَـسِرِينَ And whoever seeks religion other than Islam, it will never be accepted of him, and in the Hereafter he will be one of the losers. (3:85). This statement by Ibn Abbas indicates that Allah does not accept any deed or work from anyone, unless it conforms to the Law of Muhammad that is, after Allah sent Muhammad. Before that, every person who followed the guidance of his own Prophet was on the correct path, following the correct guidance and was saved. Why the Jews were called `Yahud The Jews are the followers of Prophet Musa, who used to refer to the Tawrah for judgment. Yahud is a word that means, `repenting', just as Musa said, إِنَّا هُدْنَـا إِلَيْكَ (We have Hudna (we repent, go back and return) unto You), (7:156). Why the Christians were called Nasara Allah said; مَنْ أَنصَارِى إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ "Who will be my helpers in Allah's cause" Al-Hawariyyun said: "We are the helpers of Allah." (61:14) It was said that; they were called `Nasara', because they inhabited a land called An-Nasirah (Nazareth), as Qatadah, Ibn Jurayj and Ibn Abbas were reported to have said, Allah knows best. Nasara is certainly plural for Nasran. When Allah sent Muhammad as the Last and Final Prophet and Messenger to all of the Children of Adam, mankind was required to believe in him, obey him and refrain from what he prohibited them; those who do this are true believers. The Ummah of Muhammad was called `Mu'minin' (believers), because of the depth of their faith and certainty, and because they believe in all of the previous Prophets and matters of the Unseen. The Sabi'un or Sabians There is a difference of opinion over the identity of the Sabians. Sufyan Ath-Thawri said that Layth bin Abu Sulaym said that Mujahid said that, "The Sabians are between the Majus, the Jews and the Christians. They do not have a specific religion." Similar is reported from Ibn Abi Najih. Similar statements were attributed to Ata and Sa`id bin Jubayr. They (others) say that; the Sabians are a sect among the People of the Book who used to read the Zabur (Psalms), others say that they are a people who worshipped the angels or the stars. It appears that the closest opinion to the truth, and Allah knows best, is Mujahid's statement and those who agree with him like Wahb bin Munabbih, that; the Sabians are neither Jews nor Christians nor Majus nor polytheists. Rather, they did not have a specific religion that they followed and enforced, because they remained living according to their Fitrah (instinctual nature). This is why the idolators used to call whoever embraced Islam a `Sabi', meaning, that he abandoned all religions that existed on the earth. Some scholars stated that; the Sabians are those who never received a message by any Prophet. And Allah knows best.   Show more

فرماں برداروں کے لئے بشارت اوپر چونکہ نافرمانوں کے عذاب کا ذکر تھا تو یہاں ان میں جو لوگ نیک تھے ان کے ثواب کا بیان ہو رہا ہے نبی کی تابعداری کرنے والوں کے لئے یہ بشارت تاقیامت ہے کہ نہ مستقبل کا ڈر نہ یہاں حاصل نہ ہونے والی اشیاء کا افسوس و حسرت ۔ آیت ( اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَو... ْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ) 10 ۔ یونس:62 ) یعنی اللہ کے دوستوں پر کوئی خوف و غم نہیں اور وہ فرشتے جو مسلمان کی روح نکلنے کے وقت آتے ہیں یہی کہتے ہیں آیت ( اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ) 41 ۔ فصلت:30 ) تم ڈرو نہیں تم اداس نہ ہو تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا تھا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے جن ایمان والوں سے ملا تھا ان کی عبادت اور نماز روزے وغیرہ کا ذکر کیا تو یہ آیت اتری ( ابن ابی حاتم ) ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت سلمان نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ نمازی روزہ دار ایماندار اور اس بات کے معتقد تھے کہ آپ مبعوث ہونے والے ہیں آپ نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہیں ، حضرت سلمان کو اس سے بڑا رنج ہوا وہیں یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ واضح رہے کہ یہودیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو توراۃ کو مانتا ہو اور سنت موسیٰ علیہ السلام کا عامل ہو لیکن جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آ جائیں تو ان کی تابعداری نہ کرے تو پھر بےدین ہو جائے گا اسی طرح نصرانیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو انجیل کو کلام اللہ مانے شریعت عیسوی پر عمل کرے اور اگر اپنے زمانے میں پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پا لے تو آپ کی تابعداری اور آپ کی نبوت کی تصدیق کرے اگر اب بھی وہ انجیل کو اور اتباع عیسوی کو نہ چھوڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہ کرے تو ہلاک ہو گا ۔ ( ابن ابی حاتم ) سدی نے یہی روایت کی ہے اور سعید بن جبیر بھی یہی فرماتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کا تابعدار اس کا ماننے والا ایماندار اور صالح ہے اور اللہ کے ہاں نجات پانے والا لیکن جب دوسرا نبی آئے اور وہ اس سے انکار کرے تو کافر ہو جائے گا ۔ قرآن کی ایک آیت تو یہ جو آپ کے سامنے ہے اور دوسری وہ آیت جس میں بیان ہے آیت ( وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:85 ) یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والا ہو گا ۔ ان دونوں آیتوں میں یہی تطبیق ہے کسی شخص کا کوئی عمل کوئی طریقہ مقبول نہیں تاوقتیکہ وہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہو مگر یہ اس وقت ہے جب کہ آپ مبعوث ہو کر دنیا میں آ گئے آپ سے پہلے جس نبی کا جو زمانہ تھا اور جو لوگ اس زمانہ میں تھے ان کے لئے ان کے زمانے کے نبی کی تابعداری اور اس کی شریعت کی مطابقت شرط ہے ۔ یہود کون ہیں؟ لفظ یہود ہوداۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مودۃ اور دوستی کے ہیں یا یہ ماخوذ ہے تہود سے جس سے کے معنی توبہ کے ہیں جیسے قرآن میں ہے آیت ( انا ھدنا الیک ) حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں ہم اے اللہ تیری طرف توبہ کرتے ہیں پس انہیں ان دونوں وجوہات کی بنا پر یہود کہا گیا ہے یہودا حضرت یعقوب کے بڑے لڑکے کا نام تھا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ توراۃ پڑھتے وقت ہلتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں یہود یعنی حرکت کرنے والا کہا گیا ہے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا زمانہ آیا تو نبی اسرائیل پر آپ کی نبوت کی تصدیق اور آپ کے فرمان کی اتباع واجب ہوئی تب ان کا نام نصاریٰ ہوا کیونکہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کی نصرت یعنی تائید اور مدد کی تھی انہیں انصار بھی کہا گیا ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے آیت ( مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ ) 3 ۔ آل عمران:52 ) اللہ کے دین میں میرا مددگار کون ہے؟ حواریوں نے کہا ہم ہیں بعض کہتے ہیں یہ لوگ جہاں اترتے تھے اس زمین کا نام ناصرہ تھا اس لئے انہیں نصاریٰ کہا گیا قتادہ اور ابن جریج کا یہی قول ہے ابن عباس سے بھی مروی ہے واللہ اعلم ۔ نصاریٰ نصران کی جمع ہے جیسے نشوان کی جمع نشاوی اور سکران کی جمع سکاری اس کا مونث نصراتہ آتا ہے اب جبکہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیا اور آپ تمام دنیا کی طرف رسول و نبی بنا کر بھیجے گئے تو ان پر بھی اور دوسرے سب پر بھی آپ کی تصدیق و اتباع واجب قرار دی گئی اور ایمان و یقین کی پختگی کی وجہ سے آپ کی امت کا نام مومن رکھا گیا اور اس لئے بھی کہ ان کا ایمان تمام اگلے انبیاء پر بھی ہے اور تمام آنے والی باتوں پر بھی ۔ صابی کے معنی ایک تو بےدین اور لامذہب کئے گئے ہیں اور اہل کتاب کے ایک فرقہ کا نام بھی یہ تھا جو زبور پڑھا کرتے تھے اسی بنا پر ابو حنیفہ اور اسحق کا مذہب ہے کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال ہے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنا بھی ۔ حضرت حسن اور حضرت حکم فرماتے ہیں یہ گروہ مجوسیوں کے مانند ہے یہ بھی مروی ہے کہ یہ لوگ فرشتوں کے پجاری تھے ۔ زیاد نے جب یہ سنا تھا کہ یہ لوگ پانچ وقت نماز قبلہ کی جانب رخ کر کے پڑھا کرتے ہیں تو ارادہ کیا کہ انہیں جزیہ معاف کر دے لیکن ساتھ ہی معلوم ہوا کہ وہ مشرک ہیں تو اپنے ارادہ سے باز رہے ۔ ابو الزناد فرماتے ہیں یہ لوگ عراقی ہیں ۔ بکوثی کے رہنے والے سب نبیوں کو مانتے ہیں ہر سال تیس روزے رکھتے ہیں اور یمن کی طرف منہ کر کے ہر دن میں پانچ نماز ہیں پڑھتے ہیں وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ جانتے ہیں لیکن کسی شریعت کے پابند نہیں اور کفار بھی نہیں عبدالرحمن بن زید کا قول ہے کہ یہ بھی ایک مذہب ہے جزیرہ موصل میں یہ لوگ تھے آیت ( لا الہ الا اللہ ) پڑھتے تھے اور کسی کتاب یا نبی کو نہیں مانتے تھے اور نہ کوئی خاص شرع کے عامل تھے مشرکین اسی بنا پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو لا الہ اللہ صابی کہتے تھے یعنی کہنے کی بنا پر ، ۔ ان کا دین نصرانیوں سے ملتا جلتا تھا ان کا قبلہ جنوب کی طرف تھا یہ لوگ اپنے آپ کو حضرت نوح کے دین پر بتاتے تھے ایک قول یہ بھی ہے کہ یہود مجوس کے دین کا خلط ملط یہ مذہب تھا ان کا ذبیحہ کھانا اور کی عورتوں سے نکاح کرنا ممنوع ہے قرطبی فرماتے ہیں مجھے جہاں تک معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ موحد تھے لیکن تاروں کی تاثیر اور نجوم کے معتقد تھے ابو سعید اصطخری نے ان پر کفر کا فتویٰ صادر کیا ہے رازی فرماتے ہیں یہ ستارہ پرست لوگ تھے کشرانبین میں سے تھے جن کی جانب حضرت ابراہیم علیہ السلام بھیجے گئے تھے حقیقت حال کا علم تو محض اللہ تعالیٰ کو ہے مگر بظاہر یہی قول اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ یہودی تھے نہ نصرانی نہ مجوسی نہ مشرک بلکہ یہ لوگ فطرت پر تھے کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے اور اسی معنی میں مشرکین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صابی کہا کرتے تھے یعنی ان لوگوں نے تمام مذاہب ترک کر دئیے تھے بعض علماء کا قول ہے کہ صابی وہ ہیں جنہیں کسی نبی کی دعوت نہیں پہنی ۔ واللہ اعلم ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 یھود ھوادۃ (بمعنی محبت) سے یا تھود (بمعنی توبہ) سے بنا ہے گویا ان کا یہ نام اصل میں توبہ کرنے یا ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے پڑا۔ تاہم موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والوں کو یہود کہا جاتا ہے 62۔ 2 نصاری۔ نصران کی جمع ہے جیسے سکاری سکران کی جمع ہے اس کا مادہ نصرت ہے آپس میں ایک دوسر... ے کی مدد کرنے کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑا، ان کو انصار بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کہا تھا آیت ( نَحْنُ اَنْصَار اللّٰهِ ) 061:14 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کا نصاری کہا جاتا ہے جن کو عیسائی بھی کہتے ہیں۔ 62۔ 3 صابئین۔ صابی کی جمع ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو یقینا ابتداء کسی دین حق کے پیرو رہے ہوں گے ( اسی لئے قرآن میں یہودیت و عیسائیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں ان کے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آگئی یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے۔ اسی لئے لامذہب لوگوں کو صابی کہا جانے لگا۔ 62۔ 4 بعض مفسرین کو اس آیت کے مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی یعنی رسالت محمدیہ پر لانا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو بھی جس دن کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا ہے اور اچھے عمل کرتا ہے اس کی نجات ہوجائے گی۔ یہ فلسفہ سخت گناہ ہے آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحق عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ ان یہود میں جو لوگ صحیح کتاب الٰہی کے پیروکار اور اپنے پیغمبر کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ فرمایا یا کیا معاملہ فرمائے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی صرف یہودی نہیں نصاری اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے وہ سب نجات آخروی سے ہمکنار ہونگے اور اسی طرح رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقینا آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔ نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا وہاں بےلاگ فیصلہ ہوگا۔ چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرہ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری اس امت میں جو شخص بھی میری بات سن لے، وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا، جہاں دیگر آیات قرآنی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔ اس لئے یہ کہنا بلکل صحیح ہے کہ احادیث صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جاسکتا۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٠] اہل کتاب کے مزعومہ عقائد :۔ یہود و نصاریٰ دونوں کہا کرتے تھے کہ آیت (نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ 18؀) 5 ۔ المآئدہ :18) ہم اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور چہیتے ہیں۔ یہود یہ بات اس لیے کہتے تھے کہ وہ پیغمبروں کی اولاد ہیں اور نصاریٰ اس لیے کہ وہ اللہ کے بیٹے (مسیح ابن مریم) کی امت ہیں جو ... ان کے عقیدہ کے مطابق امت کے گناہوں کے کفارہ میں سولی پر چڑھ گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اس مزعومہ عقیدہ پر کاری ضرب لگاتے ہوئے فرمایا : کہ && کوئی شخص خواہ یہودی ہو یا عیسائی ہو یا صابی (اپنا دین بدلنے والا ہو) جو بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور جواب دہی کے ڈر سے صالح عمل کرے گا۔ نجات صرف اسی کی ہوگی۔ نسبی رشتے اور تعلقات اس دن کسی کام نہ آسکیں گے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اس آیت سے پہلی آیات اور اس کے بعد والی آیات میں بنی اسرائیل پر انعامات اور ان کے مقابلے میں ان کے اعمال بد کا تذکرہ ہے۔ یہ آیت درمیان میں ایک خاص مناسبت کی بنا پر آئی ہے، وہ یہ کہ جب بات ان پر ذلت و مسکنت مسلط ہونے اور اللہ کے غضب کا نشانہ بننے تک پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت کے مطابق ان کے لیے...  اپنی رحمت کا تذکرہ ضروری سمجھا کہ بنی اسرائیل کا ہر فرد اس ذلت و مسکنت اور غضب الٰہی کا نشانہ نہیں، پہلے بھی اللہ تعالیٰ بیحد مہربان تھا اور توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایمان اور عمل صالح سے متصف ہوگا، خواہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے ہو، جیسے آپ سے پہلے اپنے اپنے انبیاء پر ایمان لا کر عمل صالح کرنے والے لوگ ہوں، یا آپ کے زمانے میں یہود و نصاریٰ میں سے ایمان لانے والے ہوں، مثلاً عبداللہ بن سلام، صہیب اور سلمان (رض) ، سب کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ یہود و نصاریٰ کو مزید مانوس کرنے کے لیے مسلمانوں اور صابئین کا بھی ساتھ ذکر کردیا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کسی خاص نسل کے ساتھ مخصوص نہیں، شرط صرف ایمان اور عمل صالح ہے۔ [ التحریر والتنویر ] بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب بھی اگر عیسائی، یہودی اور صابی اپنے اپنے مذہب پر رہ کر عمل صالح کریں، تو مسلمانوں کی طرح ان کی بھی نجات ہوجائے گی، یہ بات سراسر غلط ہے، کیونکہ تورات و انجیل میں بنی اسرائیل کو صاف الفاظ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم موجود ہے۔ حوالہ جات کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٥٧) اور سورة صف (٦) کے حواشی۔ اب اگر ان میں سے کوئی شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتا تو اس کا تورات و انجیل پر بھی ایمان نہیں، وہ کیسے نجات پاسکتا ہے ؟ (وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ ) [ آل عمران : ٨٥ ] ” اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ “ اس آیت میں یہی بات بیان ہوئی ہے، ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لاَ یَسْمَعُ بِیْ أَحَدٌ مِنْ ہٰذِہِ الْاُمَّۃِ یَہُوْدِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوْتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِیْ أُرْسِلْتُ بِہٖ إِلاَّ کَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّارِ ) [ مسلم، الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالۃ ۔۔ : ١٥٣ ] ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے ! اس امت کا کوئی بھی یہودی یا عیسائی جو میرے بارے میں سن لے، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے مگر وہ آگ میں داخل ہوگا۔ “ (وَالصّٰبِـــِٕيْنَ ) یہ ” صَابِئٌ“ کی جمع ہے، اس کا مادہ ص، ب، ء ہے، جو شخص ایک دین سے دوسرے دین کی طرف نکل جائے، گویا یہ ” صَبَأَ نَابُ الْبَعِیْرِ “ سے ہے، جس کا معنی ہے اونٹ کی کچلی نکل آئی۔ ایک قراءت میں ” صابین “ ہے، وہ اسی ” صابئین “ میں سے ہمزہ کی تخفیف سے ہے اور بعض نے کہا بلکہ وہ ” صَبَا یَصْبُوْ “ سے ہے، جس کے معنی مائل ہونا ہیں، یعنی وہ ایک دین سے دوسرے دین کی طرف مائل ہوگیا۔ ( راغب) اسی لیے جو شخص مسلمان ہوتا کفار قریش اسے صابی کہتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے، یہود و نصاریٰ کی طرح یہ لوگ بھی آسمانی دین پر تھے، اس لیے اس آیت میں ان کے ساتھ ان کا ذکر ہوا، بعد میں ان کے اندر بگاڑ پیدا ہوگیا اور وہ ستاروں کی پرستش کرنے لگے۔ یہ لوگ اپنے مذہب کو حد درجہ چھپاتے تھے، شیعہ اسماعیلیہ نے مذہب کو چھپانا انہی سے لیا ہے۔ ان کے اہل کتاب ہونے کے بارے میں صحابہ و تابعین سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ [ تفصیل کے لیے دیکھیے : جصاص، الفہرست لابن ندیم، الملل والنحل ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The previous verse spoke of how the Israelites drew upon themselves the wrath of Allah through their habitual insolence and disobedience. Now, this account may lead the listeners, or the Jews themselves, to suppose that, in view of such transgression, their Taubah (repentance), if they agree to offer it, would not be acceptable to Allah. In order to dispel such a misgiving, the present verse lays ... down a general principle: no matter how a man has been behaving earlier, so long as he submits himself fully to the commandments of Allah in his beliefs and in his deeds both, he is acceptable to Allah, and will get his reward. It is obvious enough that after the revelation of the Holy Qur&an, which is the last message of Allah, perfect obedience to Allah can only mean accepting Islam and following the Last Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 23 The verse, in effect, assures everyone that once a man has accepted Islam, all his former transgressions, whether in the matter of beliefs or in that of deeds, will be forgiven, and he will become worthy of receiving the rewards of the other world. 23.Contrary to the flaccid fancies of some |"modernizers|" who are very happy with themselves over their |"liberalism|" and |"tolerance|", the present verse does not open the way to salvation for each and every |"man of good will|" irrespective of the creed he follows. If one reads the verse in its proper context and along with other relevant verses of the Holy Qur&an, one will easily see that the verse, in fact, promises salvation in the other world only to those who accept Islam. It is an invitation to Islam extended to the Jews, the Christians, the Sabeans and, as a matter of fact, to the followers of all possible religions, and even to non-believers --specific names only serve as examples. Let us note, in passing, that nothing is definitely known as to the beliefs and the practices of the Sabeans, and different opinions have been expressed on the subject. (Most probably they used to worship the stars). One might also ask why the verse mentions the Muslims, for if it is an invitation to Islam, there is no need to extend the invitation to those who have already accepted Islam. But if we keep in mind the richly concentrated style of the Holy Qur&an, and try to look beyond the literal sense of the words into the implications and suggestions contained in the verse, we would find that the inclusion of the Muslim factor has added a new dimension to the meaning. It is as if a king should, in a similar situation, say that his laws are impartially applicable to all his subjects, and that whosoever obeys them shall receive his reward for obedience irrespective of whether he has earlier been a friend or a foe. Obviously, the friend has always been loyal and obedient, and the warning and the promise have really been addressed to the foe. But the suggestion contained in such a formulation is that the favours of the king do not proceed from any personal attachment to the friends, but depend on the quality of obedience and loyalty, and hence the foes too will become worthy of his favours if they acquire the necessary quality. This is the raison d&etre of mentioning the Muslims along with the non-Muslims in this verse, which should never be taken to imply that salvation can be attained without accepting Islam. We had better dispel another misunderstanding which is likely to arise from the wordings of the present verse -- and, which is actually being promoted by certain &modernizers&. The verse mentions only two articles of faith of the Islamic creed -- faith in Allah and faith in the Day of Judgment. This should not be taken to mean that in order to attain salvation it is enough to have faith only in Allah and in the Day of Judgment. For, the Holy Qur&an repeatedly declares that he who does not believe in the prophets, in angels and in the Books of Allah is not a Muslim. Faith in Allah is the first article in the Islamic creed, while faith in the Day of Judgment is the last. By mentioning only these two, the verse intends to say in a succinct manner that it is necessary to have faith in all the articles of the creed, from the first to the last. Moreover, it is through the prophets and the Books of Allah alone that man can acquire any knowledge of the essence and the attributes of Allah and of what is to happen on the Day of Judgment, while the Books of Allah are revealed to the prophets through an angel. So, it is not possible to have faith in Allah and the Day of Judgment until and unless one has faith in the angels, in the Books of Allah and in the prophets.  Show more

خلاصہ تفسیر : اس مقام پر یہودیوں کی شرارت کا حال معلوم کرکے سامعین کو یا خود یہود کو یہ خیال گذر سکتا ہے کہ ان حالات میں اگر عذر پیش کرکے ایمان لانا بھی چاہئیں تو غالبا وہ اللہ کے نزدیک قبول نہ ہو اس خیال کو دفع کرنے کے لئے اس آیت میں ایک قانون اور ضابطہ ذکر فرمایا کہ یہ تحقیقی بات ہے کہ مسلمان یہو... دی اور نصارٰی اور فرقہ صابئین (ان سب میں) جو شخص یقین رکھتا ہو اللہ تعالیٰ (کی ذات وصفات) پر اور قیامت پر اور کارگزاری اچھی کرے (موافق قانون شریعت کے) ایسوں کے لئے ان کا حق الخدمت بھی ہے ان کے پروردگار کے پاس (پہنچ کر) اور (وہاں جاکر) کسی طرح کا اندیشہ بھی نہیں ان پر اور نہ وہ مغموم ہوں گے، فائدہ : قانون کا حاصل ظاہر ہے کہ ہمارے دربار میں کسی کی تخصیص نہیں جو شخص پوری اطاعت اعتقاد اور اعمال میں اختیار کرے گا خواہ وہ پہلے سے کیسا ہی ہو ہمارے ہاں مقبول اور اس کی خدمت مشکور ہے اور ظاہر ہے کہ نزول قرآن کے بعد پوری اطاعت محمدی یعنی مسلمان ہونے میں منحصر ہے مطلب یہ ہوا کہ جو مسلمان ہوجائے گا مستحق نجات اخروی ہوگا اس میں اس خیال کا جواب ہوگیا یعنی ان شرارتوں کے بعد بھی اگر مسلمان ہوجائیں تو ہم سب معاف کردیں گے، اور صابئین ایک فرقہ تھا جس کے معتقدات اور طرز عمل کے بارے میں چونکہ کسی کو پورا پتہ نہ چلا اس لئے مختلف اقوال ہیں واللہ اعلم، اور اس قانون میں بظاہر تو مسلمان کے ذکر کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ تو مسلمان ہیں ہی لیکن اس سے کلام پاک میں ایک خاص بلاغت اور مضمون میں ایک خاص وقعت پیدا ہوگئی اس کی ایسی مثال ہے کہ کوئی حاکم یا بادشاہ کسی ایسے موقع پر یوں کہے کہ ہمارا قانون عام ہے کوئی موافق ہو یا مخالف جو شخص بھی اطاعت کرے گا مورد عنایت ہوگا اب ظاہر ہے کہ موافق تو اطاعت کر ہی رہا ہے سنانا تو اصل میں مخالف کو ہے لیکن اس میں نکتہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کو جو موافقین پر عنایت ہے سو اس کی علت ان سے کوئی ذاتی خصوصیت نہیں بلکہ ان کی صفت موافقت پر مدار ہے ہماری عنایت کا سو اگر مخالف بھی اختیار کرلے تو وہ بھی اس موافق کے برابر ہوجائے گا اس لئے مخالف کے ساتھ موافق کو بھی ذکر کردیا گیا،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 8 اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝ ٠ ۚ ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝ ٦٢ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه...  الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ هَادَ ( یہودی) فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا [ البقرة/ 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . الھود کے معنی نرمی کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة/ 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ نَّصَارَى وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری الآية [ البقرة/ 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن . اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة/ 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔ صبا الصَّبِيُّ : من لم يبلغ الحلم، ورجل مُصْبٍ : ذو صِبْيَانٍ. قال تعالی: قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] . وصَبَا فلان يَصْبُو صَبْواً وصَبْوَةً : إذا نزع واشتاق، وفعل فعل الصِّبْيَانِ. قال : أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف/ 33] ، وأَصْبَانِي فصبوت، والصَّبَا : الرّيح المستقبل للقبلة . وصَابَيْتُ السّيف : أغمدته مقلوبا، وصَابَيْتُ الرّمح : أملته، وهيّأته للطّعن . والصَّابِئُونَ : قوم کانوا علی دين نوح، وقیل لكلّ خارج من الدّين إلى دين آخر : صَابِئٌ ، من قولهم : صَبَأَ نابُ البعیر : إذا طلع، ومن قرأ : صَابِينَ «2» فقد قيل : علی تخفیف الهمز کقوله : لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة/ 37] ، وقد قيل : بل هو من قولهم : صَبَا يَصْبُو، قال تعالی: وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج/ 17] . وقال أيضا : وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة/ 62] . ( ص ب و ) الصبی نابالغ لڑکا رجل مصب عیال دار جس کے بچے نابالغ ہوں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] ( وہ بولے کہ ) ہم اس سے جو کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں ۔ صبا فلان یصبو صبوا وصبوۃ کسی چیز کی طرف مائل ہوکر بچوں کے سے کام کرنے لگا قرآن میں ہے : ۔ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف/ 33] تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤ نگا اور نادانوں میں داخل ہوجاؤ نگا ۔ اصبانی فصبوت اس نے مجھے گرویدہ کیا چناچہ میں گر ویدہ ہوگیا ۔ الصبا ۔ پروائی ہوا ۔ صابیت السیف الٹی تلوار نیام میں ڈالی ۔ صابیت الرمح نیزہ مارنے کے لئے جھکا دیا ۔ الصابئون ایک فرقے کا نام ہے جو نوح (علیہ السلام) کے دین پر ہونے کا مدعی تھا اور ہر وہ آدمی جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں داخل ہوجائے اسے صابئی کہا جاتا ہے صباء ناب البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں اونٹ کے کچلی نکل آئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج/ 17] اور ستارہ پرست اور عیسائی ۔ وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة/ 62] اور عیسائی یا ستارہ پرست ۔ اور ایک قرات میں صابین ( بدوں ہمزہ کے ) ہے بعض نے کہا ہے کہ ہمزہ تخفیف کے لئے حزف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت : ۔ لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة/ 37] جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا ۔ میں الخاطون اصل میں خاطئون ہے ۔ اور بعض نے کہا نہیں بلکہ یہ صبا یصبو سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونا اور جھکنا کے ہیں ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] ، ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢) ان یہودیوں میں سے جو لوگ اسلام لائے ہوئے ہیں اب اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فرماتے ہیں کہ جو حضرات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تمام انبیاء کرام پر ایمان لائے ہیں، ان کو جنت میں ان کے رب کی جانب سے ثواب ملے گا اور ہمیشہ کے لیے انہیں کسی قسم کا خوف اور کوئی غم نہیں ہوگا، ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ... آئندہ پیش آنے والے عذاب سے ان کو کوئی خوف اور سابقہ اعمال پر انہوں کوئی غم نہ ہوگا اور یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ جس وقت موت کو ذبح کیا جائے گا اور جب دوزخ کو بھرا جائے گا ان کو کوئی خوف اور غم نہ ہوگا اب اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا تذکرہ فرماتے ہیں، جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تمام انبیاء کرام پر ایمان نہیں لائے کہ جو لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دین کو چھوڑ کر یہودی بن گئے اور جو لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دین کو چھوڑ کر یہودی بن گئے اور جو عیسائی ہوئے اور اسی طرح جو صابی ہوگئے یہ بھی نصاری کی ایک جماعت ہے جو اپنے سروں کے درمیان حلقہ کراتے ہیں اور ” زبور “ پڑھتے ہیں اور فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اس کے بعد اس بات کے دعویدار بنتے ہیں ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں لیکن جو شخص ان میں سے ایمان لایا اور سب اعمال کیے جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے درمیان ہیں تو اس کا بدلہ ضائع نہیں ہوگا۔ شان نزول : (آیت) ” ان الذین امنوا والذین ھادوا “ (الخ) ۔ ابن ابی حاتم (رح) اور عوفی (رح) نے اپنی سند میں ابن ابی نحیح (رح) کے حوالہ سے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے، حضرت سلمان فارسی (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے ان حضرات کے دین کے حوالہ پوچھا جن کے دین پر میں خود تھا، چناچہ میں نے آپ سے ان کی نماز اور عبادت کا ذکر کیا اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ اور واحدی (رح) نے عبداللہ بن کثیر کے ذریعہ سے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت سلمان (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے دوستوں کا ذکر کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ سب جہنم میں ہیں۔ حضرت سلمان (رض) فرماتے ہیں کہ یہ فرمان سنتے ہی زمین میرے لیے تاریک ہوگئی، تب یہ آیت کریمہ ” ان الذین امنوا “۔ نازل ہوئی، فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول سے میرے اوپر سے ایک پہاڑ ہٹ گیا اور ابن جریر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ حضرت سلمان فارسی (رض) کے ساتھیوں کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب وہ آیت آرہی ہے کہ جس سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ نجات اخروی کے لیے ایمان بالرسالت ضروری نہیں ہے۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) “ اور اس سے مراد ہے جو ایمان لائےٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر۔ (وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالنَّصٰرٰی) “ (وَالصّٰبِءِیْنَ ) صابی وہ لوگ تھے جو ع... راق کے علاقے میں رہتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ہم دین ابراہیمی پر ہیں۔ لیکن ان کے ہاں بھی بہت کچھ بگڑ گیا تھا۔ جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل بگاڑکا شکار ہوگئی تھی اسی طرح وہ بھی بگڑ گئے تھے اور ان کے ہاں زیادہ تر ستارہ پرستی رواج پاگئی تھی۔ (مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ) ” (وَعَمِلَ صَالِحاً ) (فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ج) “ (وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ) ان لوگوں کو نہ تو کوئی خوف دامن گیر ہوگا اور نہ ہی وہ کسی حزن سے دوچار ہوں گے۔ ظاہر الفاظ کے اعتبار سے دیکھیں تو یہاں ایمان بالرسالت کا ذکر نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے غلط استدلال کرتا ہے تو اس کا پہلا اصولی جواب تو یہ ہے کہ بعض احادیث میں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں : (مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) تو کیا اس کے یہ معانی ہیں کہ صرف لا الٰہ الاّ اللہ کہنے سے جنت میں داخل ہوجائیں گے ‘ کسی عمل کی ضرورت نہیں ؟ بلکہ کسی حدیث کا مفہوم اخذ کرنے کے لیے پورے قرآن کو اور پورے ذخیرۂ احادیث کو سامنے رکھنا ہوگا۔ کسی ایک جگہ سے کوئی نتیجہ نکال لینا صحیح نہیں ہے۔ لیکن اس کے علاوہ چھٹے رکوع کے آغاز میں یہ اصولی بات بھی بیان کی جا چکی ہے کہ سورة البقرۃ کا پانچواں رکوع چھٹے رکوع سے شروع ہونے والے سارے مضامین سے ضرب کھا رہا ہے ‘ جس میں ٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والے قرآن پر ایمان لانے کی پرزور دعوت بایں الفاظ موجود ہے : (وَاٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖص) ” اور ایمان لاؤ اس کتاب پر جو میں نے نازل کی ہے ‘ جو تصدیق کرتے ہوئے آئی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے ‘ اور تم ہی سب سے پہلے اس کا کفر کرنے والے نہ بن جاؤ۔ “ اب فصاحت اور بلاغت کا یہ تقاضا ہے کہ ایک بات بار بار نہ دہرائی جائے۔ البتہ یہ بات ہر جگہ مقدر (understood) سمجھی جائے گی۔ اس لیے کہ ساری گفتگو اسی کے حوالے سے ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے اب یوں سمجھئے کہ آیت زیر مطالعہ میں ” فِیْ اَیَّامِھِمْ “ یا ” فِیْ اَزْمِنَتِھِمْ “ (اپنے اپنے دور میں) کے الفاظ محذوف مانے جائیں گے۔ گویا : ّ (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِءِیْنَ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً [ فِیْ اَ یَّامِھِمْ ] فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ج وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ) یعنی نجات اخروی کے لیے اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے نبی پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ چناچہ جب تک حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نہیں آئے تھے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے جو بھی یہودی موجود تھے ‘ جو اللہ پر ایمان رکھتے تھے ‘ آخرت کو مانتے تھے اور نیک عمل کرتے تھے ان کی نجات ہوجائے گی۔ لیکن جنہوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے آنے کے بعد ان ( علیہ السلام) کو نہیں مانا تو اب وہ کافر قرار پائے۔ٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے قبل حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تک تمام رسولوں پر ایمان نجات اخروی کے لیے کافی تھا ‘ لیکنٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لانے والے کافر قرار پائیں گے۔ آیت زیر مطالعہ میں اصل زور اس بات پر ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ کسی گروہ میں شامل ہونے سے نجات پا جاؤ گے ‘ نجات کسی گروہ میں شامل ہونے کی وجہ سے نہیں ہے ‘ بلکہ نجات کی بنیاد ایمان اور عمل صالح ہے۔ اپنے دور کے رسول پر ایمان لانا تو لازم ہے ‘ لیکن اس کے ساتھ اگر عمل صالح نہیں ہے تو نجات نہیں ہوگی۔ قرآن مجید کے ایک مقام پر آیا ہے : (وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ج) (الاعراف : ٣٤) ” اور ہر امت کے لیے ایک خاص معینّ مدت ہے “۔ ہر امت اس معینہّ مدت ہی کی مکلف ہے۔ ظاہر ہے کہ جو لوگٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے فوت ہوگئے ان پر تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ بعثت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل ایسے موحدین مکہ مکرمہ میں موجود تھے جو کعبہ کے پردے پکڑ پکڑ کر یہ کہتے تھے کہ اے اللہ ! ہم صرف تیری بندگی کرنا چاہتے ہیں ‘ لیکن جانتے نہیں کہ کیسے کریں۔ حضرت عمر (رض) کے بہنوئی اور فاطمہ (رض) بنت خطاب کے شوہر حضرت سعید بن زید (رض) (جو عشرہ مبشرہّ میں سے ہیں) کے والد زید کا یہی معاملہ تھا۔ وہ یہ کہتے ہوئے دنیا سے چلے گئے کہ : ” اے اللہ ! میں صرف تیری بندگی کرنا چاہتا ہوں ‘ مگر نہیں جانتا کہ کیسے کروں۔ “ سورۃ الفاتحہ کے مطالعہ کے دوران میں نے کہا تھا کہ ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان توحید تک پہنچ جاتا ہے ‘ آخرت کو پہچان لیتا ہے ‘ لیکن آگے وہ نہیں جانتا کہ اب کیا کرے۔ احکام شریعت کی تفصیل کے لیے وہ ” ربّ العَالَمِین “ اور ” مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ “ کے حضور دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہے کہ : (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) اسی صراط ‘ مستقیم کی دعا کا جواب یہ قرآن حکیم ہے ‘ اور اس میں سورة البقرۃ ہی سے احکام شریعت کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے کہ یہ کرو ‘ یہ نہ کرو ‘ یہ فرض ہے ‘ یہ تم پر لازم کیا گیا ہے اور یہ چیزیں حرام کی گئی ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

80. The context of the verse makes it clear that it is not attempting to enumerate in detail all the articles of faith in which one should believe, or all the principles of conduct which one should follow in order to merit reward from God. These matters are mentioned elsewhere, in their appropriate places. The aim of the verse is merely to repudiate the illusion cherished by the Jews that, by virt... ue of their being Jews, they have a monopoly of salvation. They had long entertained the notion that a special and exclusive relationship existed between them and God. They thought, therefore, that all who belonged to their group were predestined to salvation regardless of their beliefs and actions,. whereas all non-Jews were predestined to serve as fodder for hell-fire. To clarify this misgiving the Jews are told that what really matters in the sight of God is true faith and good deeds rather than formal affiliation with a certain religious community. Whoever has true faith and good deeds to his credit is bound to receive his reward, since God will judge people on the basis of merit rather than on the grounds that a man's name happens to be listed in the world as a member of one religious community or the other.  Show more

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :80 سلسلہء عبارت کو پیشِ نظر رکھنے سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی تفصیلات بیان کرنا مقصُود نہیں ہے کہ کن کن باتوں کو آدمی مانے اور کیا کیا اعمال کرے تو خدا کے ہاں اجر کا مستحق ہو ۔ یہ چیزیں اپنے اپنے موقع پر تفصیل کے ساتھ آئیں گی ۔ ... یہاں تو یہُودیوں کے اس زعمِ باطل کی تردید مقصُود ہے کہ وہ صرف یہودی گروہ کو نجات کا اجارہ دار سمجھتے تھے ۔ وہ اس خیالِ خام میں مبتلا تھے کہ ان کے گروہ سے اللہ کا کوئی خاص رشتہ ہے جو دُوسرے انسانوں سے نہیں ہے ، لہٰذا جو ان کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے وہ خواہ اعمال اور عقائد کے لحاظ سے کیسا ہی ہو ، بہر حال نجات اس کے لیے مقدّر ہے ، اور باقی تمام انسان جو ان کے گروہ سے باہر ہیں وہ صرف جہنّم کا ایندھن بننے کے لیے پیدا ہوئے ہیں ۔ اس غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہاں اصل چیز تمہاری یہ گروہ بندیاں نہیں ہیں بلکہ وہاں جو کچھ اعتبار ہے ، وہ ایمان اور عمل صالح کا ہے ۔ جو انسان بھی یہ چیز لے کر حاضر ہوگا وہ اپنے رب سے اپنا اجر پائے گا ۔ خدا کے ہاں فیصلہ آدمی کی صفات پر ہوگا نہ کہ تمہاری مردم شماری کے رجسڑوں پر ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

48: بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور ان کی نافرمانیوں کے تذکرے کے بیچ میں یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے ایک باطل گھمنڈ کی تردید کے لئے آئی ہے، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف انہی کی نسل اللہ کے منتخب اور لاڈلے بندوں پر مشتمل ہے، ان کے خاندان سے باہر کا کوئی آدمی اللہ کے انعامات کا مستحق نہیں ہے،(آ... ج بھی یہودیوں کا یہی عقیدہ ہے، اسی لئے یہودی مذہب ایک نسل پرست مذہب ہے اور اس نسل کے باہر کا کوئی شخص یہودی مذہب اختیار کرنا بھی چاہے تو اختیار کر ہی نہیں سکتا، یا ان کے حقوق کا مستحق نہیں ہوسکتا جو ایک نسلی یہودی کو حاصل ہیں) اس آیت نے واضح فرمایا کہ حق کسی ایک نسل میں محدود نہیں ہے، اصل اہمیت ایمان اور نیک عمل کو حاصل ہے، جو شخص بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لانے اور عمل صالح کی بنیادی شرطیں پوری کردے گا خواہ وہ پہلے کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتا ہو اللہ کے نزدیک اجر کا مستحق ہوگا، یہودیوں اور نصرانیوں کے علاوہ عرب میں کچھ ستارہ پرست لوگ رہتے تھے جنہیں صابی کہا جاتا تھا اس لئے ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اللہ پر ایمان لانے میں اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے، لہذا نجات پانے کے لئے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا بھی ضروری ہے ؛ چنانچہ پیچھے آیت ٤٠۔ ٤١ میں اسی لئے تمام بنی اسرائیل کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مزید دیکھئے قرآن کریم کی آیات ٥: ٦٥ تا ٦٨، ٧: ١٥٥ تا ١٥٧۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

یہود اپنے آپ کو حق پر بتلاتے تھے اور نصاریٰ اپنے آپ کو اور صابی لوگ کسی رسول کے پیرو نہیں وہ اپنے آپ کو حق پر کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا حق پر وہی ہے اور اسی کو اللہ کے نزدیک اجر پانے کا حق ہے اور وہی قیامت کے دن اجر پاوے گا۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاوے گا اور اللہ پر ایمان لانا اسی صورت میں ہ... وسکتا ہے کہ ہر وقت کے مناسب حال جو اللہ کی شریعت ہر ایک اللہ کے رسول لاتے ہیں اس شریعت کی پیروی کی جاوے۔ صحیحین میں حضرت جبرئیل کے قصہ کی جو حدیث ہے اس میں حضرت جبرئیل نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سائل بن کر پوچھا ہے کہ ایمان کیا چیز ہے ؟ آپ نے جو جواب دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے سب رسولوں اور آسمانی کتابوں کے یقین کو ایمان کہتے ہیں ١ اس آیت میں جو لفظ { اَمَنَ بِاللّٰہِ } کا آیا ہے اس کی یہ حدیث تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں نبی آخر الزمان اور قرآن پر ایمان لانے کے بغیر کسی دین والے شخص کی نجات نہیں ہوسکتی۔ اسی واسطے حضرت ابوہریرہ کی روایات جو مسلم میں ہے اس میں آپ نے صاف فرمایا ہے کہ کوئی شخص خواہ یہودی ہو یا نصرانی میرا حال سن کر مجھ پر ایمان نہ لائے تو ایسے شخص کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

الذین امنوا جو لوگ ایمان رکھتے ہیں۔ ایمان لاچکے ہیں ۔ اس سے مراد کون لوگ ہیں ؟ صاحب تفسیر ماجدی رقم طراز ہیں۔ جو آخری رسول اور آخری کتاب پر (ایمان لاچکے ہیں) یعنی مسلمان ہوچکے ہیں۔ ایمان لانے کے معنی۔ کل عقائد ضروریہ کے تسلیم کرلینے کے ہیں ۔ توحید پر ایمان۔ رسالت پر ایمان۔ فرشتوں پر ایمان۔ آسمانی کت... ابوں پر ایمان، سب کچھ اس میں شامل ہے اور الذین امنوا مطلق صورت میں قرآن مجید میں جہاں جہاں بھی آیا ہے مراد اس سے مسلمان ہی ہیں۔ الذین ھادوا۔ جو یہودی ہوئے۔ ھادوا ماضٰ کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے ھود (باب نصر) مصدر سے النصرے جمع معرفہ۔ عیسائی لوگ ، یہ نصران کی جمع ہے جیسے ندامی جمع ہے ندمان کی۔ الصبئین ایک مذہبی فرقہ کا نام۔ جس کے عقائد کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ عراق۔ روم ، شام ، الجزیرہ میں آباد تھے۔ لیکن ان ممالک میں جب دوسرے مذاہب کا غلبہ ہوا یہ نصاری سے جا ملے لیکن خفیہ طور پر بت پرستی کرتے رہے۔ اب بھی اس لادینی بت پرستی کے پیروکار کہیں کہیں موجود ہیں لیکن اپنے اعتقادات کو نہایت سختی سے چھپاکر رکھتے ہیں ۔ لفظ صابی کے عربی ہونے میں علماء میں اختلاف ہے۔ من امن باللہ۔ میں من موصولہ ہے اور امن باللہ والیوم الاخر وعمل صالحا۔ اپنی جملہ تراکیب نحوی کے ساتھ اس کا صلہ ہے۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں میں سے (جو بیشتر ایمان لاچکے ای الذین امنوا) یہودیوں میں سے نصاری میں سے۔ اور صابین میں سے جو مسلمان آئندہ زمانہ میں بھی اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے گا اور جو یہودی، نصاری یا صابئین اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے۔ ان کو ان کے رب کے ہاں اجر ملے گا۔ اور ان کے لئے نہ کوئی نادیشہ ہوگا اور نہ وہ کوئی غم کریں گے۔ (اس کی وضاحت کرتے ہوئے صاحب تفسیر لکھتے ہیں کہ : یعنی اللہ کی ذات وصفات پر ایمان لائے جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے۔ اور وہ ایمان پر قسم کی شرکت آمیزی سے پاک ہو۔ اس ایمان باللہ کے تحت میں اس کے سارے لوازم و تضمنات بھی داخل ہیں ورنہ خدا پر مطلق ایمان تو کسی نہ کسی صورت میں تقریباً ہر انسان کا ہے۔ اور ان لوازم توحید میں سب سے اونچے نمبر پر ایمان بالرسل ہے کہ بندوں کا صحیح تعلق اللہ کے ساتھ قائم کرنے والی اور اس کا سیدھا راستہ بتانے والی ذات رسول ہی کی ہوتی ہے۔ یوم آخرت پر ایمان لانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ سارے احکامات آخرت پر ایمان لایا جائے۔ فائدہ : جلالین میں ہے : الذین امنوا۔ ای امنوا بالانبیاء من قبل ۔ بیضاوی اس کے معنی لکھتے ہیں ۔ الذین امنوا بالسنتھم جو محض زبانی ایمان لائے۔ اس کے علاوہ مفسرین کے اور اقوال بھی ہیں (ملاحظہ ہو روح المعانی) فلھم میں فاء جزائیہ ہے۔ اس سے قبل جملہ من امن ۔۔ عمل صالحا جملہ شرطیہ ہے اور بعد کی عبارت ۔۔ یحزنون تک جزائیہ ہے۔ فائدہ : صائبین۔ صابی فرقہ کے لوگ، یہ ایک ستارہ پرست قوم تھی جو بابل اور بلاد عراق میں آباد تھی۔ اس لفظ کے عربی ہونے میں اختلاف ہے عراق پر مختلف ادوار میں بیرونی اقوام کی فتح یابی کی صورت میں ان میں سے بعض فاتح قوم کا مذہب اختیار کرلیتے رہے۔ جب عراق، شام اور مصر میں اسلام کا غلبہ ہوا تو ان میں سے اکثر نے اسلام قبول کرلیا۔ کچھ کھلم کھلا اپنے مذاہب پر قائم رہے۔ اور کچھ اپنے قدیم دستور پر تقیہ کا پردہ ڈال کر کافرانہ اعمال میں مصروف ہوگئے۔ فرقہ اسماعیلیہ کی حیلہ گری اسی فرقہ کے تقیہ کی ایک نمود ہے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو احکام القرآن للجصاص)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اس آیت میں یہود کی عصبیت گردہی کی تردید مقصود ہے، وہ سمجھتے تھے کہ بس اللہ تعالیٰ کو خوشنودی اور نجات ہمارے لیے مخصوص ہے۔ یہا ‏ ‏ں پر قرآن نے نجات کا مدار ایمان باللہ عمل صالح اور ایمان بالا خرہ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان وہی معتبر ہوسکتا ہے جو انبیاء کے ذریعہ ہو۔ اور عمل صالح کی تعین بھی انبیا... ء ہی کرسکتے ہیں اور آخرت پر ایمان کے لیے بھی انبیاء کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ قرآن کا منشا یہ ہے کہ اپنے اپنے وقت کے انبیاء کی ہدا یت کے تحت جو بھی اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لائے گا اور اس وقت کے نبی کی شریعت کے مطابق اس نے عمل صالح بھی کیے ہوں گے اسے آخرت میں فلاح حاصل ہوجائے گی اس میں مسلمان یہود اور صابی سب برابر ہیں پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد ان مذکورہ انبیاء کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا بھی شرط نجات ہے کیونکہ آپ کی آمد سے شرئع سابقہ منسوخ ہوگئی ہیں الصابی یہ صبا یصبو سے مشتق ہے جس کے اصل معنی کسی طرف دل سے مائل ہوجا نے کے ہیں۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ صانی ہر وہ شخص ہے جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرادین اختیار کرلے اس بنا پر کفار عرب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صابی کہہ کر پکار تے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آبائی دین کو چھوڑ کر ایک نئے دین کا اعلان کیا تھا۔ یہ لفظ حنیف کے با لمقابل ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے قبل سب لوگ صابی دین کے حامل چلے آرہے تھے۔ یہ قوم حضرت شیث کے صحائف کے متبع تھی مگر تدریجا ان میں شرک سرایت کر گیا اور کواکب سبع کی پو جا کرنے لگے یہ اپنے عقیدہ کے مطابق جملہ حوادث کو کو اکب کی طرف منسوب کرتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بعشت کے وقت کلدانی یہ عقیدہ رکھتے تھے اور بابل شہر ان کا مرکز تھا حضرت ابراہیم نے ہر قسم کو کو اکب اور بت پرستی سے برا ءت کا اظہار کر کے ان کے با لمقابل حنیفیت کی بنیاد رکھی۔ پھر تدریجا یہ لوگ نصاری میں شامل ہوگئے یہ لوگ اپنے مذہب کا نہا یت درجہ اخفا کرتے ہیں۔ شعیہ اسما عیلیہ نے کتمان مذہب انہی سے اخذ کیا ہے۔ اور ان کی دعوت کا منتہی بھی صابئین ہیں۔ ان کے اہل کتاب ہونے میں صحابہ وتابعین کے مختلف آثار ہیں۔ تفصیل کے لے دیکھئے جصاص الفہر ست الا بن ندیم الملل ولنحل )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 62 71 اسرارو معارف اگر یہ ہمیشہ کی ذلت گلے پڑ ہی گئی تو بات تو بہت بگڑ گئی فرمایا نہیں رحمت عالم کا ظہور عام ہے اور بعثت محمدی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کا فیض عام ہے مسلمان کہلانے والے ہوں یہود ونصاریٰ یا بےدین۔ سب کے لئے ایک اصول ہے اور وہ یہ کہ من امان باللہ والیوم الاخر۔ کہ جو اللہ پر آخ... رت پر ایمان لائے یعنی ماجاء یہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مانے صدق دل سے یقین رکھے اور پھر اعمال حسنہ اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمل پیرا ہو وہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی اعمال بھی صالحہ کرکے اور سارے صالح اعمال ہیں جو سنت کے مطابق ہیں یا کسی سنت سے متصادم نہیں ہیں جہاں کسی کام کو تصادم سنت سے ہوا وہاں وہ کام صالحیت کھوئے سوچ درست نہیں کہ کوئی بھی فرقہ اچھے اعمال کرتا ہو تو وہ مقبول ہوگا اس لئے کہ بغیر ایمان کے عمل میں صلاحیت پیدا ہی نہیں ہوتی کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو وہ اسلام قبول کرلے۔ اور اگر مسلمانوں پہ عنایات ہیں تو اس کا سبب ان کی ذات نہیں بلکہ ان کے عقائد اور اعمال ہیں۔ لہٰذا اے بنی اسرائیل اور دنیا کے تما فرقو ! اگر تم بھی اپنے اعمال اور عقائد میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کرو تو تم بھی مورد عنایات ہوسکتے ہو لیکن اگر نہ آخرت مسلمان بھی ان اوصاف کو ضائع کردے تو تمہارے طرح ذلیل ہوگا۔ جیسے آج کل ہماری حالت ہے ۔ وہ اوصاف جن کی وجہ سے ہمیں عزت و عظمت دو عالم نصیب تھی۔ گئے تو یہ چیزیں بھی گئیں۔ آج ہر طرف ہمارے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے اور ہماری حکومتوں کو برباد کیا جارہا ہے مگر ہم ہیں کہ ٹس سے مس ہو رہے ، خدا ہمیں توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور عقائد بھی وہ نصیب کرے جن کی دعوت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی اعمال بھی وہی جو سنت کے مطابق ہوں۔ ایسے ہی لوگ عنایات باری کے سزاوار ہوں گے نہ انہیں آئندہ کا خوف ہوگا اور نہ گزشتہ کا افسوس۔ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ تصوف کا خلاصہ : یہی خلاصہ ہے سارے تصوف کا ، اللہ اللہ کی تکرار کرنے سے دل میں وہ صلاحیت آتی ہے کہ آدمی عقائد اسلامیہ کو دل سے قبول کرتا ہے اور وجود میں وہ ہمت پیدا ہوتی ہے کہ اتباع سنت کے لئے سنت کرتا ہے اگر کوئی شخص خلاف سنت کرتا ہو اور اسے تصوف کا نام دے تو اس کی مثل تو یہ ہے ” برعکس نہند نام زنگی کافور “۔ واذاخذنا میثاقکم ورفعنا فوقکم الطور……………لعلکم تتقون۔ اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے طور کو تمہارے سروں پر معلق کردیا کہ وعدہ کرو اور مانو جو ہم نے بھیجا ہے۔ تورات کو مضبوطی سے پکڑو ورنہ یہ عظیم پہاڑ تم پر گرادیا جائے گا۔ جب یہ حال بنا تو سب سجدے میں گر گئے اور لگے گڑگڑانے اور وعدہ کرنے۔ اللہ نے اسے بھی بہت بڑا احسان فرمایا ہے کہ اگر تم نہ مانتے تو نقصان کس کا تھا۔ تمہارا۔ سو ہم نے تم سے منوا کر تمہیں یہ موقع بخشا کہ تم ان کو مانو ، یادرکھو ، ان پر عمل کرو کہ تقویٰ جیسی نعمت میسر ہو۔ یہاں اکراہ فی الدین نہیں ہے بلکہ یہ اول مسلمان تھے مگر عملاً جب تورات کو پڑھا تو پھسلنے لگے کہ جی اس پر عمل دشوار ہے تو اللہ نے ان پر طور پہاڑ کو معلق فرمادیا کہ اب عمل کرو اور مانو ، ورنہ قتل کردیئے جائو گے جیسے اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے کا ذکر نہیں ۔ مسلمانوں سے اسلام پر عمل کرانا اہل اختیار کی ذمہ داری ہے : اور یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ مسلمان سے اسلام پر عمل کرانا صاحب اختیار کی ذمہ داری ہے ورنہ اسے سزا دے ، اگر ایسانہ کرے گا تو خود ماخوذ ہوگا جب ہی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مقدس دور میں فاروق اعظم (رض) مڈمڈنے پھرا کرتے تھے کاش آج کے حکمرانوں کو بھی اللہ یہ سمجھ دے۔ پھر اس کے بعد بھی تم وعدے پر قائم نہ رہے اور عہد شکنی کی جس کی تازہ مثال نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تمہارا عناد ہے مگر اللہ کا فضل اور عموم رحمت ہے کہ تمہیں تا یہ عمر مستعار مہلت مل رہی ہے ورنہ تم سخت خسارے میں تھے اور قریب تھا کہ تم پر عذاب آپڑے تم تو شروع سے ہی غلطیاں کرتے چلے آرہے تھے یہ اللہ کی رحمت تھی کہ جگہ جگہ تمہیں سہارا دیتی چلی آئی اور بعثت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایک مخلص رحمت تھی جس کے سبب سے کفار سے بھی عمومی عذاب ہٹ گئے لیکن آخر تابہ کے۔ ایک روز تو بارگاہ الٰہی میں پیش ہونا ہی ہے اگر دنیا میں موسیٰ (علیہ السلام) سے بدعہدی کرکے فوراً ہلاک نہ ہوئے تو کیا ابدی ہلاکت سے بچ سکو گے ؟ سو یہ بھی اللہ کا فضل اور رحمت ہے کہ فوراً گرفت نہ فرمائی اور توبہ کی صفت عطا کررکھی ہے ورنہ تم خوب جانتے ہو۔ ولقد علتم الذین امتہ وامنکم……………للمتقین۔ کہ وہ لوگ بھی تھی میں سے تھے جنہوں نے ہفتہ کے دن میں زیادتی کی۔ یہ واقعہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوا کہ یہ لوگ سمندر کے کنارے آباد تھے اور مچھلی ان کے معاش کا ذریعہ تھی۔ اللہ نے حکم دیا کہ ہفتہ کے روز مچھلی نہ پکڑا کریں کہ یہ روز ان کے لئے مکرم اور عبادت کا تھا مگر ہوتا یہ کہ اس روز مچھلیاں بھی کثرت سے کنارے کے قریب آجاتی تھیں ان لوگوں سے نہ رہا گیا تو میلہ ایجاد کرلیا کہ کنارے پر گڑے بنادیئے اور نالیوں کے ذریعے سمندر سے ملادیئے جب گڑھے مچھلیوں سے بھر جاتے تو نالی میں سل وغیرہ رکھ کر بند کردیتے پھر دوسرے روز پکڑتے رہتے کوئی کانٹا ڈال دیتا مچھلی اس میں اٹک جاتی مگر وہ اس روز نہ پکڑتا ۔ دوسرے روزے نکال لیتا جن لوگوں کو اللہ نے اطاعت کی توفیق بخشی انہوں نے سختی سے منع کیا۔ یہ سخت جرم ہے تلخی بڑھی تو بات یہاں تک پہنچی کہ انہوں نے ان کی بستی ہی علیحدہ کردی۔ اور درمیان میں دیوار کھینچ دی کہ اگر تم نہیں کرسکتے تو الگ رہو۔ ایک روز انہیں نافرمانوں کی طرف سے کوئی انسانی آواز سنائی نہ دی بلکہ درندوں اور بندروں کے چلانے کی آوازیں تھیں ، جاکر دیکھا تو سب بندر اور خنزیر بن چکے تھے جو ان بندر اور بوڑھے خنزیر بن گئے ، رشتہ داروں کو پہچانتے ، ان کے پائوں میں لوٹتے اور چیختے تھے مگر کچھ نہ بن سکا اور چند روز اسی عذاب میں مبتلارہ کر ہلاک ہوگئے۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے جن قوموں پر مسخ کا عذاب واقع ہوا۔ ان کی نسل نہیں چلی۔ یہ موجودہ بندر وغیرہ پہلے بھی تھے یہ جدا مخلوق ہیں اس سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ حیلہ کی قسمیں : یہاں ایک بات تو واضح ہے کوئی ایسا حیلہ جس سے حکم شرعی کا ابطال ہوتا ہو جائز نہیں بلکہ سخت جرم ہے۔ ہاں فقہاء کے وہو حیلے جن سے حکم شرعی کی تعمیل مقصود ہے نہ کہ ابطال ، وہ اس میں داخل نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ نیکوں کے ساتھ چلنا بھی عمومی عذاب کی گرفت سے بچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب تک مل کر رہے بچے رہے مگر جب نیک لوگوں کو بالکل علیحدہ کردیا اور قدامت پسندوں کو جدا کردیا تو تہذیب یافتہ لوگ عذاب کی گرفت میں آگئے۔ خدا تعالیٰ ہمیں نیکوں کا ساتھ نصیب فرمائے ! آمین فرمایا۔ دیکھ لو ان کا حال ! انہوں نے مچھلیاں تو پکڑیں مگر ہم نے ان کو بندر اور ذلیل جانوروں کی شکل میں مسخ کردیا اور ان کے ہمصر میں کے لئے اور بعد والوں کے لئے عبرت اور توبہ کا سبب بنادیا اور نیک لوگوں کے لئے مزید نصیحت کا ذریعہ۔ یہ عذاب کی صوبتیں مسخ ہوجائیں بعثت نبوی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے بعد عمومی طور پر اٹھا لیا گیا۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکات میں سے ملے مگر بعض افراد پر اس کا جاری ہونا عجیب نہیں۔ یہاں ہمارے گاؤں میں ایک عورت سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو خصوصی طور پر سخت توہین آمیز کلمات کہا کرتی تھی۔ اور دیگر صحابہ اور ازواج مطہرات کو بھی۔ تو مرنے سے پیشتر اس کی شکل بگڑ کر ڈرائونی ہوگئی۔ کتے کی طرح زبان کوئی چار انچ کے قریب منہ سے نکل آئی۔ اور واپس میں میں بھی داخل نہ ہوسکتی تھی۔ دن رات چب بھی کرسکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ لفظ تو کوئی بن نہ سکتا۔ کتے کی طرح بھوں بھوں کرتی رہتی۔ بڑے بڑے ڈاکٹروں کے پاس لاہور تک اسے لے کر گئے مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ تین ماہ اسی عذاب میں مبتلا رہ کر جہنم واصل ہوئی۔ ایسے متعدد واقعات ہیں جن کا لکھنا یہاں طوالت کا سبب ہوگا۔ تو یہ صورت حال استثنائی ہے اب قوموں کی صورت نہیں بگڑتی مگر افراد اس میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ یہ تو جسم کی بات ہے۔ روحانی شیخ کی صورت : رہی روح کی صورت جب تک ایمان اور عمل صالح نہ ہو انسانی رہ ہی نہیں سکتی بلکہ اس درندے یا جانور سے مثابہ ہوتی ہے جس سے اس کی عادات ملتی ہوں۔ انسانی شکل پر صرف ان لوگوں کے ارواح ہوتے ہیں جن کا دل منور ہو ۔ ورنہ مسلمان اور نمازی بھی حلال جانوروں کی شکل پر ہوتے ہیں اور بدکار اور کفار درندوں کی شکل پر کیا ہوا اگر اس کے اوپر بدن انسانی کا جامہ ہے تو یہ ہمیشہ تو نہ رہے گا۔ اور اگر اللہ دل کی آنکھ واکرے تو دنیا میں دیکھا جاسکتا ہے شہروں کے شہر اور بستیوں کی بستیاں درندوں سے اٹی پڑی ہیں۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے ! آمین ، یہی وجہ ہے کہ بظاہر تو انسان نظر آتے ہیں لیکن کردار درندوں سے بھی بدتر ہیں۔ واذقال موسیٰ لقومہ…………فذبحوھا وما کادوا یفعلون۔ وہ وقت اور احسان یاد کرو۔ جب تم میں ایک شخص قتل کردیا گیا جس کے قاتل کا پتہ نہ چل رہا تھا۔ ان لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) بےعرض کیا کہ قاتل کا ضرور پتہ چلنا چاہیے تو آپ نے اللہ کے حکم سے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ کہنے لگے آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں۔ فرمایا ، ایسی جہالت سے کہ اللہ کے احکام میں مذاق کروں ، اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں یہ کام تو وہی کرسکتا ہے جو اللہ کی عظمت سے ناآشنا ہو وہی سب سے بڑا جاہل ہے خواہ کتنے ہی کالجوں اور مدرسوں میں پھر ہو ، جسے معرفت باری تعالیٰ جیسی دولت نصیب ہو بھلا وہ احکام الٰہی میں مذاق کی جرات کرسکتا ہے ہرگز نہیں کہ وہ عالم ہے اسے وہ شے حاصل ہے جو تحصیل علم کا مقصد ہے اور انبیاء کی ذوات مقدسہ اس بات کے لئے تو مثالی ذوات ہوا کرتی ہیں ویسے بھی ایسا مذاق جس میں کسی کا تمسخر اڑانا مقصود ہو یا جھوٹ پر مبنی ہو شرعاً جاگز نہیں۔ ہاں بات سچی ہو اور کی توہین مقصود نہ ہو بلکہ محض خوش طبعی ہو تو بےتکلیف احباب میں ایسا کرنا ہرج کا باعث نہیں۔ مگر یہ معاملہ احکام الٰہی سے تو نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اسے مذاق کیوں جانا۔ اس لئے کہ ان کے خیال میں قتل کی تفتیش کے لئے بیل یا گائے کو ذبح کرنا کچھ بےجوڑ سی بات ہے بھلا اس سے کیا مقصد حاصل ہوگا۔ دنیا عالم اسباب ہے یہ اللہ کی سنت ہے کہ ہر کام کو کسی نہ کسی سبب سے متعلق فرمادیا ہے اور اس کے مصلحت یا حکمت سے وہ خود ہی آگاہ ہے جو امور ہمارے روز مرہ کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ ہم ان کے عادی ہو کر انہیں ایک عام سی بات کا درجہ دیتے ہیں۔ ورنہ یہ کیا تک ہے گندم حاصل کرنے کے لئے جو چند دانے گھر میں رکھے ہیں انہیں بھی مٹی میں دبادو۔ مگر ہمارا تجربہ کہ اس سے فصل پیدا ہو کر بالیاں لگیں گی اور دانوں سے بھر جائیں گی ، ہمیں اس پر حیران نہیں ہونے دیتا ورنہ تو اس عالم کی ہر شے قدرت باری پہ ایک بہت بڑی دلیل ہے سو اسی طرح اللہ انہیں روز مرہ کے دلائل کے علاوہ اپنی قدرت کی ایک اور دلیل دکھانا چاہتا تھا۔ نیز اس میں مزید کس قدر حکمتیں تھیں یہ بھی اللہ ہی جانے تو انبیاء (علیہم السلام) کے احکام کی تعمیل ضروری ہے اور جو نتائج انہوں نے ان امور پہ بیان فرمائے وہ ضرور مرتب ہوتے ہیں خواہ ان کی درمیانی کڑی ہم جان سکیں یا نہ ، جیسے آج کل یہ اعتراض کہ عید قربان پہ کس قدر جانور ذبح کردیئے جاتے ہیں ، اور سب گوشت ، کھالیں ضائع ہوتی ہیں اگر یہ رقم جمع کرکے فلاحی کاموں پر لگائی جاتی تو کس قدر خوب ہوتا۔ یا یہ اعتراض کہ اربوں روپے حج پر جانے میں ضائع ہوتے ہیں ان سے ہر سال کئی یونیورسٹیاں قائم ہوسکتی تھیں۔ یہ وہی اسرائیلی ذہن ہے ورنہ مقصد اتباع نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور ایک معمولی گائے یا دنبہ ذبح کرکے ان برکات میں اپنی حیثیت کے مطابق حصہ دار بن جانا جو حضرت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو ذبیح اللہ کی گردن پر چھری رکھ کر حاصل ہوتی تھیں کس قدر عظیم بات ہے اور اللہ کا کتنا احسان ہے۔ اپنے اندر اخلاق ابراہیمی کی جھلک پیدا کرنا ہی کتنا کمال ہے یا ارکان حج اداکرکے ان مخصوص تجلیات باری کو اخذ کرنا جو اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ، کس قدر عظمت کا حامل ہے جس ہستی نے یہ ارکان بجا لانے کا حکم نوع انسانی تک پہنچایا ہے کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی تعمیر سیرت کرسکتا ہے تاریخ انسانی میں کوئی ایسا ہے ہرگز نہیں اور یہ اپنے آپ کو مہذب لکھنے والے جانور یونیورسٹیوں اور کالجوں میں انسانی بچوں کو جانوروں جیسی عادات سکھا کر ارکان دین پر طنز کرتے ہیں۔ ذرا اس معاشرے کو اپنے معاشرے کے مقابل رکھ کر دیکھو ، انسانیت کس طرف ہے اور نوع انسانی کی فلاح کس بات میں ہے ، یقینا تم پر اتباع نبوت کی عظمت عیاں ہوجائے گی اور تم سمجھ سکو گے کہ کالج اور یونیورسٹی بھی وہی مفید ہے جو اتباع نبوت سکھائے ورنہ سب بوچڑ خانے ہیں جہاں انسانیت کی کھال اتاری جاتی ہے پھر اتباع نبوت نبی پر مکمل اعتماد کا نام ہے ، یہ لگے ہیں بیخ نکالنے ، جی بھلا وہ کیسے گائے ہے ؟ فرمایا نہ بچھڑی ہے نہ بوڑھی ، ان باتوں میں نہ پڑو ، میاں اللہ نے حکم دیا ہے کہ گزرو اور دیکھو کیا ہوتا ہے۔ مگر جناب پھر بولے جی۔ یہ تو فرما دیجیے اپنے رب سے سوال کیجیے کہ اس کا رنگ کیسا ہے ؟ فرمایا اللہ فرماتا ہے زرد رنگ کی مزیدار اور چمک رکھنے والی ہے دیکھ کے جی خوش ہوتا ہے۔ اب پھر بولے ایسی بھی کئی گائیں ہیں ذرا اپنے رب سے عرض کریں مجال ہے جو ہمارا رب کہیں موسیٰ تیرا رب ہر بار یہی کہتے تھے۔ سو عرض کریں کچھ اور نشاندہی بھی ہوجائے۔ ہم اللہ نے چاہا تو اب کے ضرور پالیں گے۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ اس بار انشاء اللہ نہ کہتے تو بات تک نہ پہنچ پاتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا حکم ہوا ہے وہ گائے نہ ہل میں جوتی گئی نہ اس نے کھیتی سیراب کی نہ اس کے جسم پر کوئی داغ ہے کسی طرح کی محنت و مشقت کایا مار پیٹ کا ، کہنے لگے اب بات بنی اب آپ ٹھیک سمجھا سکے ہیں اور پھر ایک گائے خرید کر خواہی نخواہی ذبح کر ہی دی۔ یہاں اللہ کریم اپنا احسان ارشاد فرما رہے ہیں کہ تمہارے اجداد کیسے تھے اور کس قدر کم ہمت تھے اطاعت کے ساتھ میں مگر ہمارا کلام دیکھو کہ پھر بھی ان کی قربانی قبول فرمائی اور اس پر جو نتیجہ مرتب ہونا چاہیے تھا وہ مرتب فرمایا ورنہ ان کی طرف سے اس قدر کوتاہیاں ہوئی تھیں کہ اس پر کچھ بھی مرتب نہ ہوتا اور وہ ضائع ہوجاتی۔ مگر انہیں صرف سنادی سختی دیکھنا پڑی کہ جس قدر سوال کرتے گئے وہ بڑھتی چلی گئیں اگر شروع میں کوئی گائے ذبح کردیتے تو وہی کام دے جاتی۔ شیخ کے ساتھ جرح نہ کرے : مگرجوں جوں سوال کرتے گئے حلیہ مقرر ہوتا گیا لہٰذا اگر شیخ حکم دے تو اس میں مزید سوال کرکے اپنے لئے مشقت پیدا نہ کرے جیسے کسی کو وظیفہ بتایا جائے کہ درود شریف کی اتنی تسبیحات پڑھ لیا کرو تو جو نسا درود شریف بھی پڑھ لے گا ٹھیک ہے لیکن اگر پوچھ بیٹھا کہ جی کونسا ؟ تو وہی پڑھنا ضروری ہوگا جو شیخ مقرر کردے یہی حال تعین وقت کا ہے ورنہ مقصدپورا نہ ہوگا۔ یہاں مفسرین نے ایک اور عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے کہ کوئی نیک شخص فوت ہوا تو اس کے پاس ایک بچھڑی تھی جو اس نے جنگل میں ہانک دی اور دعا کی اللہ ! یہ تیرے سپرد ہے میرے بیٹے کی گزر اوقات کا سبب اسے بنادے۔ تو وہ خوب پلی بڑھی جوں جوں یہ سوال کرتے گئے اللہ کریم اس کا حلیہ بیان فرماتے رہے اب اس جیسی کوئی دوسری مل نہ سکتی تھی۔ ادھر اس کے دل میں ڈال دیا کہ ان سے خوب قیمت وصول کرو ، چناچہ بعض کے نزدیک اس کی کھال میں اشرفیاں بھر کر انہیں دینا پڑیں یہ اپنی طرف سے بہت عقلمند بن رہے تھے اور میں میخ نکال رہے تھے مگر ان کی عقلمندی کا فائدہ اللہ تعالیٰ ان کو پہنچانا چاہتا تھا جو محض اس کے بھروسے پر بیٹھے تھے۔ لہٰذا نہ احکام شریعت پہ اعتراض درست نہ اتباع شیخ میں حیل وحجت کی ضرورت۔ اس سے دنیاوی مصائب تو ضروری وارد ہوتے ہیں اور ایمان کا خطرہ مزید ہے۔ یہاں دیوانگی کی قیمت ہے اور فریفتہ ہونے کا نام عقل ہے۔ سوچ بچار کو یہاں مصیبت کہتے ہیں۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 62 ھادو (جو یہودی بن گئے (یعنی وہ مسلم بننے کے بجائے یہودی بن گئے) ۔ النصری (ناصرہ وہ مقام ہے جہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اس مناسبت سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کو نصاری کہا جانے لگا) ۔ الصبئین (ستاروں اور فرشتوں کو پوجنے والے، بےدین ) ۔ صالح (نیک اور ... بہتر کام ) ۔ اجر (بدلہ) ۔ لا یحزنون (وہ رنجیدہ نہ ہوگے) ۔ تشریح : آیت نمبر 62 اس آیت میں مومنوں ، یہودیوں ، نصاری اور صابئین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ نجات کے لئے ہر شخص کو اللہ تعالیٰ اور، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا اور ان کی اتباع و پیروی کرنا لازمی ہے یہی صراط مستقیم ہے اور نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ بھی یہی ہے۔ اس میں اہل کتاب کو خطاب کر کے فرمایا گیا کہ اہل کتاب کو تو سب سے پہلے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا چاہئے تھا کیونکہ ان کی کتابوں میں سرکار دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے متعلق واضح نشانیاں اور خبریں موجود ہیں ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں اہل کتاب کے ساتھ مومنوں کو کیوں شامل کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بحیثیت ایک جماعت اور ایک گروہ کے مومنوں کو بھی شامل کر کے کہا جا رہا ہے کہ تمہاری بھی نجات کا مدار ایمان اور عمل صالح پر ہے اور اہل کتاب کا بھی۔ اگر مومن بھی ایمان اور عمل صالح کا راستہ چھوڑ دیں گے تو یقیناً ان کی نجات بھی مشکل ہوجائے گی۔ اس لئے ایمان اور عمل صالح ساری انسانیت کی نجات کا سبب ہے اور اللہ کے ہاں عزت و عظمت حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ان اہل کتاب سے تین باتوں کا مطالبہ کیا گیا ہے (1) ایمان باللہ (2) ایمان بالاخرت (3) اور عمل صالح۔ یعنی جس میں بھی یہ تین باتیں ہوں گی اللہ کے پاس ان کے لئے اجر عظیم موجود ہے۔ جب بات ایمان کی آتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پر، اس کے تمام رسولوں پر، کتابوں پر، فرشتوں پر اور بالخصوص نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی ختم نبوت پر ایمان لانا اور آخرت کی زندگی پر یہ یقین رکھنا کہ وہاں ہمیں ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے۔ تیسری بات عمل صالح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمل صالح وہی ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ساری دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اگر کسی کا ایمان اس پر ہوگا تو وہ یقیناً اس کی طرف سے انعام واکرام اور آخرت کی ابدی راحتوں کا مستحق بنے گا۔ اس میں اہل ایمان کو اس لئے شامل کیا گیا تا کہ یہ بات بتا دی جائے کہ اللہ کے نزدیک یہ اصول متعین ہے کہ کوئی اپنایا غیر جو بھی ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کرے گا وہ اللہ کے کرم کا مستحق ہوگا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ حاصل قانون کا ظاہر ہے کہ جو شخص پوری اطاعت اعتقاد اور اعمال میں اختیار کرے گا خواہ وہ پہلے سے کیساہی ہو ہمارے یہاں مقبول اور اس کی خدمت مشکور رہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جو مسلمان ہوجاوے گا مستحق اجرونجات اخروی ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انعام و احسان کا ادراک اور ذلت و رسوائی کا احساس دلانے کے بعد حقیقی ایمان اور عمل صالح کا صلہ بتلایا گیا ہے۔ اس فرمان میں اس بات کی دو ٹوک انداز میں وضاحت کی گئی ہے کہ خالی خولی ایمان ‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کے حوالے سے یہودی کہلوانا ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام... ) کے ساتھ نسبت جوڑنا یا اپنے آپ کو صابی کہلوانے سے نجات نہیں ہوگی۔ نجات اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے اور صالح اعمال سے ہوگی۔ مفسرین نے صابی کے دو معنیٰ کیے ہیں۔ آتش پرست یا بےدین یعنی سیکولر۔ بعض لوگوں نے زرتشت مراد لیے ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے کا فرقہ ہے اور ایران میں پایا جاتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ زرتشت بھی اللہ کے نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے دعوؤں اور حسب ونسب کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس کے حضور قابل قدر ‘ اور لائقِ اجر بات اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور آخرت کی جواب دہی کی تیاری ہے۔ یہاں رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا اس لیے تذکرہ نہیں کیا کہ ایک تو ایمان باللہ مکمل ہی ایمان بالرسالت اور اس کے تقاضوں سے ہوتا ہے۔ دوسرا اس سے پہلے بنی اسرائیل کو یہی تو دعوت دی گئی ہے کہ جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا اس پر ایمان لاؤ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آدمی یہودی ہو یا عیسائی یا کسی اور عقیدے پر ہو اس کے لیے صرف اللہ پر ایمان لانا اور نیک اعمال ہی کافی ہیں۔ ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے قرآن مجید نے کئی مقامات پر اس بات کو کھول کر بیان کیا ہے کہ جب تک نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان اور اس کی اطاعت نہیں کرو گے تمہارا ایمان قابل قبول نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو نبی آخر الزماں کی اطاعت کے ساتھ مشروط فرما دیا ہے۔ سورة آل عمران کی آیت ٣١ میں فرمایا کہ اگر تم میری محبت کے طلب گار ہو تو میرے رسول محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرو۔ اس سے نہ صرف تمہیں میری محبت حاصل ہوگی بلکہ تمہارے گناہ معاف اور تم پر رحم کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ (یَٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ ) (محمد : ٣٣) ” اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد نہ کرو۔ “ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ (رض) أَتَی النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِکِتَابٍ أَصَابَہٗ مِنْ بَعْضِ أَھْلِ الْکُتُبِ فَقَرَأَ ہُ النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَغَضِبَ فَقَالَ أَمُتَھَوَّکُوْنَ فِیْھَا یَاابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَقَدْ جِءْتُکُمْ بِھَا بَیْضَاءَ نَقِیَّۃً لَاتَسْأَلُوْھُمْ عَنْ شَیْءٍ فَیُخْبِرُوْکُمْ بِحَقٍّ فَتُکَذِّبُوْہُ بِہٖ أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوْا بِہٖ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنَّ مُوسٰی ( علیہ السلام) کَانَ حَیًّا مَاوَسِعَہٗ إِلَّا أَنْ یَّتَّبِعَنِيْ ) (مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقي المسند السابق) ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ایک کتابچہ لے کر آئے۔ حضرت عمر (رض) وہ کتابچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پڑھا اور جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غضب ناک ہو کر فرمایا : ابن خطاب ! کیا تم اس میں ذوق وشوق اور رغبت رکھتے ہو ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یقیناً میں تمہارے پاس صاف اور واضح شریعت لے کر آیا ہوں تم اہل کتاب سے جس چیز کے بارے میں بھی سوال کرو گے وہ تمہیں سچ بتائیں تم اس اسلام کو ان کی سچی خبر کی وجہ سے جھٹلادو یا ان کی جھوٹی خبر کی وجہ سے تصدیق کربیٹھو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہوجائیں تو انہیں بھی میری اتباع کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن نجات کا دارومدار خالی خولی ایمان یا کسی مذہبی نسبت پر نہیں بلکہ نجات کا انحصار سچے ایمان اور صالح اعمال پر ہے، ایسے لوگ ہی خوف و غم سے آزاد ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن ہدایت یافتہ لوگ پریشانیوں سے محفوظ ہوں گے : ١۔ ہدایت کی پیروی کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ : ٣٨) ٢۔ اللہ کے لیے خرچ کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ : ٢٦٢) ٣۔ نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ : ٢٧٧) ٤۔ اللہ کے دوستوں کو کوئی خوف نہیں۔ (یونس : ٦٢) ٥۔ ایمان پر استقامت دکھلانے والوں کو کوئی خوف نہیں۔ (الاحقاف : ١٣) ٦۔ متقی اور مصلح کو کوئی خوف نہیں۔ (الاعراف : ٣٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ........ یعنی مسلمان وَالَّذِينَ هَادُوا ............ یعنی وہ جو اللہ کی طرف راہ پاگئے وہ جو ” یہودا “ کی اولاد ہیں۔ وَالنَّصَارَى........ ........ یعنی عیسائی وَالصَّابِئِينَ میرے نزدیک راحج یہ ہے کہ صابئین سے مراد مشرکین کے وہ لوگ ہیں ، جو بعثت سے قبل مشرکین کے موروثی ... شرکیہ دین سے برگشتہ ہوگئے تھے۔ انہیں بتوں کی پوجا کی معقولیت میں شک لاحق ہوگیا تھا ۔ اس لئے انہوں نے خود اپنے غور وفکر سے اپنے لئے خود کوئی عقیدہ تجویز کرنے کی کوشش کی اور اس آزادنہ غور وفکر کے نتیجے میں وہ عقیدہ توحید پر پہنچ گئے تھے ۔ ان لوگوں کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ ابتدائی دین حنیف پر ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش کیا تھا ۔ چناچہ ان لوگوں نے بتوں کی پوجا ترک کردی تھی ، اگرچہ وہ اپنی قوم کو عقیدہ ٔ توحید کی طرف دعوت نہ دیتے تھے ۔ ان لوگوں کے بارے میں مشرکین کہتے ہیں تھے کہ یہ لوگ صابی ہوگئے ہیں ۔ یعنی اپنے باپ دادا کا دین انہوں نے ترک کردیا ہے جیسا کہ بعد میں یہی طعنہ مشرکین ان مسلمانوں کو بھی دیا کرتے تھے ۔ یہ جو بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ یہ لوگ ستارہ پرست تھے ۔ اس کے مقابلے میں یہ قول راحج معلوم ہوتا ہے۔ آیت کا مقصد یہ ہے کہ ان گروہوں میں سے جو بھی ایمان لائے ، اللہ پر اور یوم آخرت پر اور اس کے ساتھ ساتھ عمل صالح بھی کرے تو وہ اپنے رب کے نزدیک اجر کا مستحق ہوگا۔ اسے کسی قسم کا خوف اور حزن وملال نہ ہوگا کیونکہ اسلام میں دارومدار نظریہ اور عقیدے پر ہے ، کسی قوم اور نسل پر نہیں ، لیکن عمل وجزاء کا یہ اصول بعث محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کے ادوار سے متعلق ہے ۔ آپ کی بعث کے بعد ظاہر ہے کہ ایمان باللہ کی آخری شکل (اسلام کی صورت میں ) متعین ہوگئی ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو سناتے ہوئے اور یہود مدینہ کو سامنے رکھتے ہوئے بنی اسرائیل کے کچھ کارنامے بیان کئے جاتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

صرف ایمان اور عمل صالح ہی مدار نجات ہے گزشتہ آیت میں ارشاد فرمایا تھا، کہ یہودیوں پر ذلت اور مسکنت لازم کردی گئی اور وہ غضب الہی کے مستحق ہوئے اور اس کا سبب یہ بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو قتل کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں لگتے ... اور حدود سے آگے بڑھتے تھے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے مطرود اور مردود ہونا کوئی یہودی قوم ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اسی طرح سے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں مقبول ہونا اور مستحق اجر وثواب ہونا اور قیامت میں بےخوف اور بےغم ہونا کسی خاص قوم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ جو بھی شخص ایمان کی صفت سے متصف ہوگا وہ اپنے رب کے نزدیک مستحق اجر وثواب اور بےخوف و بےغم ہوگا۔ یہ ایمان کی صفت ہر قوم کے اپنے اپنے زمانہ کے اعتبار سے تھی۔ یہودیوں کا ایمان یہ تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اور تورات شریف پر ایمان لائیں۔ اور ہر اس عقیدہ کو مانیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بتایا۔ پھر جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اور انجیل پر ایمان لانا اور ان کی شریعت کو پوری طرح سے ماننا اور جو کچھ انہوں نے بتایا اس کو تسلیم کرنا یہ ان کے زمانہ کے لوگوں کا ایمان تھا جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول تھا جو لوگ ان پر ایمان نہ لائے یا ایمان تو لائے لیکن بعد میں ان کی شریعت کو بدل دیا اور ان کے دین میں شرک داخل کردیا، وہ لوگ مومن نہ رہے۔ یہودیوں نے جب ان کی نبوت اور رسالت سے انکار کیا تو ان میں جواب تک مومن تھے وہ بھی کافر ہوگئے۔ خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت عامہ : پھر جب خاتم النّبیین سرور عالم حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی جن کی آمد کی خبر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی تھی (مُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدٌ) اور جن کا تذکرہ توریت انجیل میں پاتے تھے (یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰیۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ ) تو اب ایمان یہ ہوگیا کہ حضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں اور آپ کی ہر بات تسلیم کریں۔ اسی لیے سورة آل عمران میں فرمایا (وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ) (یعنی جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین چاہے گا سو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا) ۔ جتنی قومیں بھی دنیا میں بستی ہیں اور جتنے اہل مذاہب آنحضرت سرور عالم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعث کے وقت دنیا میں موجود تھے یا اب موجود ہیں خواہ وہ کسی نبی کے ماننے اور پیرو ہونے کے مدعی ہوں اور خواہ کسی بھی دین پر ہوں ان سب پر فرض ہے کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں اور ہر وہ عقیدہ تسلیم کریں اور مانیں جو آپ نے بتایا۔ قیامت تک کے لیے ہر قوم ہر جماعت ہر فرد ہر علاقہ کے انسان آپ کی امت دعوت میں شامل ہیں۔ سورۃ اعراف میں فرمایا : (قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا) ” آپ فرما دیجیے اے لوگو ! بیشک میں اللہ کا پیغمبر ہوں تم سب کی طرف۔ “ اور سورة سبا میں ارشاد فرمایا : (وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ) ” اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر تمام انسانوں کے لیے پیغمبر بناکر خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا۔ لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ “ لہٰذا جب سے آپ کی بعثت ہوئی ہے یہودی، نصرانی، فرقہ صابئین اور ہر قوم اور ہر اہل مذہب کے لیے معیار نجات صرف سیدنا حضرت محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اور کسی قوم کا کوئی ایمان معتبر نہیں صرف یہی ایمان معتبر ہے کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور آپ نے جو کچھ بتایا ہے اس کو دل سے مانے اور تسلیم کرے۔ ان سب تصریحات کو سمجھ لینے کے بعد اب آیت کا ترجمہ اور مطلب سمجھ لیں کہ جو لوگ ایمان لائے یعنی سیدنا حضرت محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت کے اقراری ہوتے ہوئے آپ کو دل سے نبی اور رسول مانا اور یہودی اور نصرانی اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ پر ایمان لائیگا اور یوم آخرت کو مانے گا۔ اور عمل صالح کرے گا۔ اور یہ ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر اور عمل صالح حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہوئے ایمان کے مطابق اور عمل صالح آپ کے بتائے ہوئے طریقے کے موافق ہوگا تو ایسے لوگ قیامت کے دن بےخوف اور بےغم ہوں گے۔ وحدت ادیان کا فتنہ اور اس کی تردید : اتنی بڑی تفصیل ہم نے دور حاضر کے ملحدین اور زنادقہ کی تردید کرنے کے لیے لکھی ہے۔ دور حاضر کے فتنوں میں وحدت ادیان کا فتنہ بھی ہے۔ بہت سے اہل باطل یہ کہتے ہیں کہ نجات اخروی کے لیے اللہ پر اور آخرت پر ایمان لاناکافی ہے۔ دین اسلام میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں (العیاذ باللہ) یہ لوگ اپنی گمراہی کو پھیلانے کے لیے آیت بالا کو پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں صرف من اٰمن باللّٰہ و الیوم الاٰخر مذکور ہے۔ ایمان بالرسول کا ذکر نہیں ہے۔ یہ لوگ جاہلوں کو دھوکہ دینے کے لیے ان آیات کو سامنے نہیں رکھتے جو ہم نے اوپر ذکر کی ہیں۔ ایمان باللہ کا مطلب صرف اتنا سا نہیں ہے کہ اللہ کے وجود کا اقرار کرلے اور انسانوں کے خود ساختہ طریقوں سے عبادت کرلیا کرے، اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے اس کے جاننے کا ذریعہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ یہ کیسا ایمان باللہ ہے کہ بتوں کی پوجا کریں۔ اور اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کریں۔ اور یہ کیسا یوم آخرت پر ایمان ہے کہ تناسخ یعنی آوا گون کے قائل ہوں اور جنت دوزخ کے منکر ہوں۔ آیت شریفہ میں اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے صرف اہل اسلام مراد ہیں۔ یہود کی وجہ تسمیہ : اور (اَلَّذِیْنَ ھَادُوْا) سے یہود مراد ہیں۔ ھاد یھود توبہ کرنے کے معنی میں آتا ہے چونکہ ان لوگوں نے گائے کے بچھڑے کی عبادت سے توبہ کی تھی اس لیے ان کو ان لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا مشہور نام یہود ہے۔ جماعت کو یہود اور ایک شخص کو یہودی کہتے ہیں۔ بعض حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ یہ لوگ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سب سے بڑے بیٹے یہودا کی طرف منسوب ہیں۔ اس لیے ان کو یہودی کہا جاتا ہے۔ بعض حضرات نے یہ فرمایا کہ یہ لفظ تہود سے مشتق ہے جو تحرک یعنی حرکت کرنے کے معنی میں ہے۔ چونکہ یہ لوگ توریت شریف پڑھتے ہوئے حرکت کرتے تھے اور اس طرح ان کا یہ لقب پڑگیا۔ (قالہ ابو عمروبن العلاء) النصارٰی : ” النصارٰی “ سے وہ لوگ مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین کو ماننے کے مدعی ہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ لفظ نصرت سے مشتق ہے۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے (مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ) فرمایا تو ان کے حواریین نے (نَحْنُ اَنْصَار اللّٰہِ ) کہا جیسا کہ سورة صف میں مذکور ہے۔ لفظ نصاریٰ کو جمع نصران کی بھی بتایا گیا ہے، جیسا کہ سکران کی جمع سکاریٰ ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ان لوگوں نے ایک بستی میں سکونت اختیار کی تھی جس کو ناصرہ کہا جاتا تھا اس کی وجہ سے ان کو نصاری کہا گیا۔ بہر حال وجہ تسمیہ جو بھی ہو نصاری سے وہ لوگ مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ماننے کے مدعی ہیں۔ ان دعویداروں میں وہ بھی تھے جو ان کے واقعی اصلی دین پر تھے اور ان کے دین میں کسی طرح کی تغییر و تبدیلی نہیں کی اور وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے ان کا دین بدل دیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا تعالیٰ کا بیٹا بنا دیا پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو بھی معبود ماننے لگے۔ قرآن مجید نے ان کو کسی جگہ عیسائی نہیں فرمایا یعنی حضرت عیسیٰ کی طرف نسبت نہیں کی۔ مشرک ان کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا۔ قرآن نے ان کے لیے لفظ نصاری استعمال فرمایا ہے۔ الصابئین : یہ (صَبَاَ ، یَصْبَؤُ ) سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ زمانہ نزول قرآن میں اس فرقہ کا وجود تھا۔ ان لوگوں کا دین کیا تھا، اس کے بارے میں حضرات مفسرین نے بہت سے اقوال نقل فرمائے ہیں، حضرت مجاہد نے فرمایا کہ یہ لوگ مجوسیت، یہودیت اور نصرایت کے درمیان تھے۔ ان کا مستقل کوئی دین نہ تھا۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ یہ لوگ فرشتوں کی عبادت کرتے تھے۔ ابن ابی الزناد نے اپنے والد سے نقل کیا کہ یہ وہ لوگ تھے جو عراق کے قریب رہتے تھے اور تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) پر ایمان لاتے تھے اور سال بھر میں تیس روزے رکھ لیتے تھے اور یمن کی طرف رخ کر کے نمازیں پڑھتے تھے۔ عبدالرحمن بن زید نے کہا کہ یہ لوگ موصل کے جزیرہ میں تھے صرف لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ کہتے تھے۔ خلیل کا قول ہے کہ ان کا دین نصاریٰ کے دین سے ملتا جلتا تھا۔ ان کا قبلہ جنوبی ہوا کی طرف تھا۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ ہم نوح (علیہ السلام) کے دین پر ہیں۔ وہب بن منبہ کا قول ہے کہ یہ لوگ نہ دین یہودیت پر تھے نہ نصرانیت پر نہ مجوسیت پر اور مشرک بھی نہ تھے۔ یہ فطرت پر باقی تھے۔ ان کا کوئی مقرر دین نہ تھا جس کا اتباع کرتے اور بعض علماء کا قول ہے کہ صابئین وہ لوگ ہیں جن کو کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی۔ (آیت کی تفسیر اور توضیح کے لیے ہم نے تفسیر ابن کثیر کو سامنے رکھا ہے اہل علم اس کی مراجعت فرما لیں) ۔ فائدہ : صاحب بیان القرآن لکھتے ہیں کہ حاصل قانون کا یہ ہے کہ ہمارے دربار میں کسی کی تخصیص نہیں جو شخص پوری اطاعت اعتقاد اور اعمال میں اختیار کرے گا خواہ وہ پہلے سے کیسا ہی ہو ہمارے یہاں مقبول اور اس کی خدمت مشکور ہے اور ظاہر ہے کہ بعد نزول قرآن کے پوری اطاعت مسلمان ہونے میں منحصر ہے مطلب یہ ہوا کہ جو مسلمان ہوجائے گا مستحق اجر و نجات اخروی ہوگا۔ اور اس قانون میں مسلمانوں کے ذکر کی ظاہر میں ضرورت نہیں کیونکہ وہ تو مسلمان ہیں ہی لیکن اس سے کلام میں ایک خاص بلاغت اور مضمون میں ایک خاص وقعت پیدا ہوگئی اس کی ایسی مثال ہے کہ کوئی حاکم یا بادشاہ کسی ایسے ہی موقع پر یوں کہے کہ ہمارا قانون عام ہے خواہ کوئی موافق ہو یا مخالف جو شخص اطاعت کرے گا وہ مورد عنایت ہوگا اب ظاہر ہے کہ موافق تو اطاعت کر ہی رہا ہے، سنانا ہے اصل میں مخالف کو، لیکن اس میں نکتہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کو جو موافقین پر عنایت ہے سو اس کی علت ان سے کوئی ذاتی خصوصیت نہیں بلکہ ان کی صفت موافقت مدار ہے ہماری عنایت کا سو مخالف بھی اگر اختیار کرلے وہ بھی اس موافق کے برابر ہوجائے گا اس لیے مخالف کے ساتھ موافق کو بھی ذکر کردیا گیا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

130 ۔ یہ آیت نوع اول کا تتمہ ہے۔ اور الذین امنوا سے مراد امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام ہے۔ ای من امن بمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بحر ص 240 ج 1) وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا۔ یہودیت کے پیرو یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت۔ وَالنَّصٰرٰى۔ دین عیسوی کے متبعین وَالصّٰبِـــِٕيْنَ ۔ یہ لوگ بھی اہ... ل کتاب ہی کا ایک گروہ ہیں۔ فرقۃ من اھل الکتاب (ابن کثیر ص 104 ج 1) مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ ۔ ہر فرقہ اپنے اپنے لقب اور نام پر خوش ہے مگر اصل ذریعہ نجات یہ القاب اور انتسابات نہیں ہیں بلکہ نجات کا مدار تو ایمان اور عمل صالح پر ہے۔ یہاں یہ شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ آیت میں صرف اللہ پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ صرف اللہ پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ صرف اللہ پر ایمان لانا نجات کے لیے کافی ہے اور تمام انبیاء (علیہم السلام) پر ایمان لانا ضروری نہیں تو اس کا جواب یہ ہے اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اس کی تمام صفات کمال اور نعوت جلال میں وحدہ لا شریک، یکتا اور بےمثل مانا جائے اور اس کے تمام احکام کی تعمیل کی جائے لہذا یہ جملہ ایمان بالرسل ایمان بالکتب، ایمان بالملئکۃ وغیرہ سب کو شامل ہے۔ قد دخل فی الایمان باللہ الایمان بما اوجبہ اعنی الایمان برسلہ (کبیر ص 550 ج 1) دوسری بات یہ ہے یہاں ایمان باللہ کا ذکر اجمالی ہے۔ قرآن مجید کی دوسری آیتوں میں اس کی تفصیل موجود ہے چناچہ سورة حجرات رکوع 2 میں ارشاد ربانی ہے۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ ۔ اس آیت میں صاف اعلان کردیا گیا ہے کہ مومن صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اللہ کے تمام رسولوں پر بھی ایمان لائیں اور ایمان بھی ایسا لائیں جو ریب وتردد اور ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک ہو اور پھر ان کی عملی زندگی بھی اس ایمان کے عین مطابق ہو اور رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لائیں اور سب کو اللہ کے سچے رسو مانیں ایسا نہ ہو کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا 150؀ۙاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا ۚ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّهِيْنًا۔ (النساء :151) اس آیت سے دونوں باتیں واضح طور پر معلوم ہوگئیں۔ اول یہ کہ جس طرح اللہ پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح اللہ کے رسول پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ اس کے بغیر نجات ناممکن ہے دوم یہ کہ بلا تفریق تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) پر ایمان لانا ضروری ہے۔ بعض پر ایمان لانا اور بعض پر ایمان نہ لانا نجات اور ایمان کے لیے کافی نہیں ہے بعض پیغمبروں کا انکار تمام پیغمبروں کے انکار کے برابر ہے۔ والیوم الاخر یوم آخرت اور اس میں جو کچھ ہونیوالا ہے سب پر ایمان لائے۔ تقریر بالا سے معلوم ہوا کہ یوم آخرت پر ایمان لانا اٰمن باللہ میں داخل ہے لیکن اس کے باوجود اس کا ذکر صراحت سے کیا گیا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود ونصاری اگرچہ آخرت پر ایمان رکھتے تھے مگر ان کا تصور آخرت قرآن کے پیش کردہ تصور سے بالکل جدا گانہ تھا وہ سمجھتے تھے کہ آخرت میں صرف یہودی یا نصرانی ہی جنت میں جائیں گے۔ ان کے سوا اور کوئی جنت میں نہیں جائے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یوم آخرت پر امان لانے کا علیحدہ ذکر فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ آخرت پر اس طرح ایمان لانا ضروری ہے جس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کے ذریعے اس کے احوال بیان فرمائے ہیں کہ آخرت میں کسی قوم یا گروہ کی اجارہ داری نہیں ہوگی بلکہ وہاں صرف ایمان اور عمل صالح کام آئیں گے۔ نوع ثانی (اس میں نزول قرآن کے وقت موجود بنی اسرائیل کے باپ دادوں کی تین خباثتیں اور شرارتیں بیان کی گئی ہیں)  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 بلاشبہ جو لوگ مسلمان ہیں اور جو یہودی اور نصاریٰ ہیں اور فرقہ صائبین غرض کوئی بھی ہو ان میں سے جو کوئی بھی اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائے اور نیک اعمال کا پابند رہے تو ایسے لوگوں کو ان کی خدمت کا صلہ ان کے رب کے ہاں ملنے والا ہے اور ان پر کسی طرح کا خوف اور اندیشہ نہیں ہے اور نہ وہ کبھی حزین...  و غمگین ہوں گے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ خواہ کوئی منفق ہو یا کھلم کھلا یہودی اور نصرانی ہو یا فرقہ صائبین یعنی کواکب پرست موجود بھی دعوت اسلامیکو قبول کرلے گا اور سچے دل سے اپنے اعتقاد اور اعمال کو درست کرلے گا تو اس کو اس کی محنت اور خدمت کا اجر ملے گا۔ ہم نے ان الذین امنوا سے مراد منافقین لئے ہیں جو محض زبان سے اسلام کا اظہار کرتے ہیں چونکہ یہ اعلان جملہ غیر مسلموں کے لئے ہے اس لئے ہم نے بھی بعض مفسرین کی رائے سے اتفاق کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان سے مراد اہل ایمان ہوں منافق نہ ہوں۔ جیسا کہ مفسرین کا عام رجحان یہی ہے تو پھر اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کوئی بادشاہ کسی خاص انعام کا اعلان کرتے وقت اپنوں کا اور غیروں کا سب کا نام لیا کرتا ہے اب مطلب یہ ہوگا کہ خواہ مومنین ہوں خواہ یہودی اور نصرانی اور ستارہ پرست ہوں غرض یہ کہ کوئی بھی ہو جو اللہ تعالیٰ پر اور روز آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک اعمال کا پابند رہے گا ان کو یہ صلہ ملے گا اس تقریر کے بعد یہ شبہ نہیں رہتا کہ مومن تو پہلے ہی سے مومن ہے وہ کیا ایمان لائے گا اگر کوئی پہلے سے مومن ہے تو اچھا فہو المراد یہاں تو ہر شخص کو یہ بتانا ہے کہ ہر وفادار اور باغی کی نجات کا معیار یہ ہ جو اس پر پہلے سے پورے ہیں وہ تو ہیں ہی اور جو نہیں ہیں وہ یہ اوصاف پیدا کریں۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ اس آیت میں مومنین سے وہ مومن مرد ہیں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے قبل بت پرستی سے بیزار تھے اور راہ حق کے متالشی تھے رہا فرقہ صائبین تو اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں کسی نے کہا نصاریٰ اور مجوس کے بین بین کوئی فرقہ ہے کسی نے کہا حضرت نوح (علیہ السلام) کے دین پر ہیں کسی نے کہا ملائکہ کی پرستش کرتے ہیں کسی نے کہا کواکب پرست ہیں یہ ممکن ہے کہ یہ فرقہ ابتداء میں کسی نبی کا پیرو ہو پھر آگے چل کر بگڑ گیا ہو اور مختلف رسوم شرکیہ میں مبتلا ہوگیا ہو۔ الغرض اس فرمان کا شاہی خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے دربار میں کسی شخص کی تخصیص نہیں ہے جو مطیع اور فرمانبردار ہو اور اس کا اعتقاد صحیح ہو وہ اس صلہ اور انعام کا مستحق ہوگا خواہ وہ پہلے سے وفادار ہو یا کوئی مخالف ہو اور اب ایمان لا کر اعمال صالحہ کا پابند ہوجائے اس آیت میں ایمان بااللہ اور ایمان بالآخرت اور اعمال صالحہ کا ذکر فرمایا یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر پیغمبر کی شریعت میں مشترک ہیں اس لئے یہود اور نصاریٰ وغیرہ کا ذکر کیا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے جو پیرو ان چیزوں کے پابند تھے وہ بھی اجر وثواب اور نجات کے مستحق تھے لیکن یہ سب کچھ اسی وقت تک کے لئے تھا جب تک نبی آخر الزمان کی بعثت اس عالم میں نہیں ہوئی تھی لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعدشریعت اسلامیہ کی پیروی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے سوا اور کوئی راہ نات کی نہیں اور اس آیت میں پیغمبر کے ذکر نہ کرنے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ پیغمبر پر ایمان لانا ضروری نہیں کیونکہ تمام امور شرعی کے ذکر کا ایک جگہ التزام نہیں ہے۔ ایمان کی تکمیل کے لئے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اس کے فرشتے اس کی کتابیں اس کے رسول سب ہی کو تسلیم کیا جائے تعجب ہے کہ بعض لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لانے کو اس آیت سے کس طرح سمجھ لیا جب کہ عدم ذکر عدم ایمان کو مستلزم نہیں ایمان باللہ وہی معتبر ہوسکتا ہے جو پیہ پیغمبر کے سمجھانے اور بتانے سے اختیار کیا جائے رسالت کے واسطے سے جو توحید اختیار کی جائے وہی توحید ہے ورنہ وہ ایک مذاق ہے جو آج کل کے مدعیان توحید خدا کی توحید کے ساتھ کر رہے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب ہیں یعنی کسی فرقے پر موقوف نہیں یقین لانا شرط ہے اور عمل نیک اپنے اپنے وقت جس نے یہ کیا ثواب پایا یہ اس واسطے فرمایا کہ بنی اسرائیل اسی پر مغرور تھے کہ ہم پیغمبروں کی اولاد ہیں ہم ہر طرح خدا کے ہاں بہتر ہیں یہودی کہتے ہیں حضرت موسیٰ کی امت کو نصاریٰ حضرت عیسیٰ کی امت کو صائبین بھی ایک فرقہ ہیں حضرت ابراہیم کو مانتے ہیں۔ (موضح القرآن) جہاں رسولوں پر ایمان لانے کا ذکر آئے گا وہاں اس مسئلہ پر انشاء اللہ مزید روشنی ڈالی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ساتویں پارے میں فرمایا ہے۔ والذین یومنون بالاخرۃ یومنون بہ یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں، آج کل آخرت پر ایمان رکھنا بھی ایک فیشن بن گیا ہے آخرت پر ایمان کا دعویٰ اور قرآن سے انکار ایک عجیب مضحکہ خیز سی چیز ہے پھر لطف یہ ہے کہ اس قسم کی مضحکہ انگیز باتوں کا قرآن سے استدلال نعوذ بااللہ من شرور انفسنا آگے پھر اپنے احسانات اور ان کی احسان فراموشی کا تذکرہ فرماتے ہیں (تسہیل)  Show more