Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 68

سورة البقرة

قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ہِیَ ؕ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِکۡرٌ ؕ عَوَانٌۢ بَیۡنَ ذٰلِکَ ؕ فَافۡعَلُوۡا مَا تُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۶۸﴾

They said, "Call upon your Lord to make clear to us what it is." [Moses] said, "[ Allah ] says, 'It is a cow which is neither old nor virgin, but median between that,' so do what you are commanded."

انہوں نے کہا اے موسیٰ !دعا کیجئے کہ اللہ تعالٰی ہمارے لئے اس کی ماہیت بیان کر دے آپ نے فرمایا سنو !وہ گائے نہ تو بالکل بُڑھیا ہو ، نہ بچہ ، بلکہ درمیانی عمر کی نوجوان ہو اب جو تمہیں حکم دیا گیا ہے بجا لاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Stubbornness of the Jews regarding the Cow; Allah made the Matter difficult for Them Allah mentioned the stubbornness of the Children of Israel and the many unnecessary questions they asked their Messengers. This is why when they were stubborn, Allah made the decisions difficult for them. Had they slaughtered a cow, any cow, it would have been sufficient for them, as Ibn Abbas an... d Ubaydah have said. Instead, they made the matter difficult, and this is why Allah made it even more difficult for them. Allah tells; قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لّنَا مَا هِيَ قَالَ ... They said, "call upon your Lord for us that He may make plain to us what it is!" meaning, "What is this cow and what is its description?" Musa said, ... إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لاَّ فَارِضٌ وَلاَ بِكْرٌ ... He says, `Verily, it is a cow neither too old nor too young', meaning, that it is neither old nor below the age of breeding. This is the opinion of Abu Al-Aliyah, As-Suddi, Mujahid, Ikrimah, Atiyah Al-Awfi, Ata, Al-Khurasani, Wahb bin Munabbih, Ad-Dahhak, Al-Hasan, Qatadah and Ibn Abbas. ... عَوَانٌ بَيْنَ ذَلِكَ ... but (it is) between the two conditions', Ad-Dahhak reported that Ibn Abbas said that, it means, "Neither old nor young. Rather, she was at the age when the cow is strongest and fittest." ... فَافْعَلُواْ مَا تُوْمَرونَ so do what you are commanded." قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاء فَاقِـعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ   Show more

حجت بازی کا انجام بنی اسرائیل کی سرکشی سرتابی اور حکم اللہ امر الٰہی وضاحت کے ساتھ کا یہاں بیان ہو رہا ہے کہ حکم پاتے ہیں اس پر عمل نہ کر ڈالا بلکہ شقیں نکالنے اور بار بار سوال کرنے لگے ابن جریج فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حکم ملتے ہی وہ اگر کسی گائے کو بھی ذبح کر ڈالت... ے تو کافی تھا لیکن انہوں نے پے درپے سوالات شروع کئے اور کام میں سختی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آخر میں وہ انشاء اللہ نہ کہتے تو کبھی بھی سختی نہ ٹلتی اور مطلوبہ گائے ملنا اور مشکل ہو جاتی پہلے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ نہ تو وہ بڑھیا ہے نہ بالکل کم عمر ہے ۔ بلکہ درمیانی عمر کی ہے پھر دوسرے سوال کے جواب میں اس کا رنگ بیان کیا گیا کہ وہ زرد اور چمکدار رنگ کی ہے جو دیکھنے والوں کے دل کو بہت پسند آئے حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ جو زرد جوتی پہنے وہ ہر قیمت خوش و خرم رہے گا اور اس جملہ سے استدلال کیا ہے تسر الناظرین بعض نے کہا ہے کہ مراد سخت سیاہ رنگ ہے لیکن اول قول ہی صحیح ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ ہم یوں کہیں کہ اسی کی شوخی اور چمکیلے پن سے وہ مثل کالے رنگ کے لگتا تھا وہب بن منبہ کہتے ہیں اس کا رنگ اس قدر شوخ اور گہرا تھا کہ یہ معلوم ہوتا تھا گویا سورج کی شعائیں اس سے اٹھ رہی ہیں توراۃ میں اس کا رنگ سرخ بیان کیا گیا ہے لیکن شاید عربی کرنے والوں کی غلطی ہے واللہ اعلم چونکہ اس رنگ اور اس عمر کی گائیں بھی انہیں بکثرت نظر آئیں تو انہوں نے پھر کہا اے اللہ کے نبی کوئی اور نشانی بھی پوچھئے تاکہ شبہ مٹ جائے انشاء اللہ اب ہمیں رستہ مل جائے گا اگر یہ انشاء اللہ نہ کہتے تو انہیں قیامت تک پتہ نہ چلتا اور اگر یہ سوالات ہی نہ کرتے تو اتنی سختی ان پر عائد نہ ہوتی بلکہ جس گائے کو ذبح کر دیتے کفایت ہو جاتی یہ مضمون ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے لیکن اس کی سند غریب ہے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حضرت ابو ہریرہ کا اپنا کلام ہے واللہ اعلم اب کی مرتبہ اس کے اوصاف بیان کئے گئے کہ وہ ہل میں نہیں جتی ، پانی نہیں سینچا ، اس کے چمڑے پر کوئی داغ دھبہ نہیں ، یکرنگی ہے ، سارے بدن میں کہیں دوسرا رنگ نہیں ۔ اس کے ہاتھ پاؤں اور کل اعضاء بالکل درست اور توانا ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ گائے کام کرنے والی نہیں ہاں کھیتی کا کام کرتی ہے لیکن پانی نہیں پلاتی مگر یہ قول غلط ہے اس لئے کہ ذلول کی تفسیر یہ ہے کہ وہ ہل نہیں جو تتی اور نہ پانی پلاتی ہے اس میں نہ کوئی داغ دھبہ ہے اب اتنی بڑی کدوکاوش کے بعد بادل ناخواستہ وہ اس کی قربانی کی طرف متوجہ ہوئے اسی لئے فرمایا کہ یہ ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے اور ذبح نہ کرنے کے بہانے تلاش کرتے تھے کسی نے کہا ہے اس لئے کہ انہیں اپنی رسوائی کا خیال تھا کہ نہ جانیں کون قاتل ہو بعض کہتے ہیں اس کی قیمت سن کر گھبرا گئے تھے لیکن بعض روایتوں میں آیا ہے کہ کل تین دینار اس کی قیمت لگی تھی لیکن یہ تین دینار والی گائے کے وزن کے برابر سونے والی دونوں روایتیں بنی اسرائیل روایتیں ہیں ۔ ٹھیک بات یہی ہے کہ ان کا ارادہ حکم کی بجا آوری کا تھا ہی نہیں لیکن اب اس قدر وضاحت کے بعد اور قتل کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ حکم ماننا ہی پڑا ۔ واللہ اعلم ۔ اس آیت سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہو سکتا ہے کہ جانوروں کو دیکھے بغیر ادھار دینا جائز ہے اس لئے کہ صفات کا حصر کر دیا گیا اور اوصاف پورے بیان کر دیئے گئے ، جیسے کہ حضرت امام مالک امام اوزاعی امام لیث امام شافعی امام احمد صفات کا حضر کر دیا گیا اور اوصاف پورے بیان کر دیئے گئے ، جیسے کہ حضرت امام مالک امام اوزاعی امام لیت امام شافعی امام احمد اور جمہور علماء کا مذہب ہے اسلاف اور متاخرین کا بھی اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ کوئی عورت کسی اور عورت کے اوصاف اس طرح اپنے خاوند کے سامنے بیان نہ کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کے اونٹوں کے اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں قتل خطا اور وہ قتل جو مشابہ عمد کے ہے ہاں امام ابو حنیفہ اور دوسرے کوفی اور امام ثوری وغیرہ بیع مسلم کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ جانوروں کے اوصاف و احوال پوری طرح ضبط نہیں ہو سکتے اسی طرح کی حکایت ابن مسعود حذیفہ بن یمان اور عبدالرحمٰن بن سمرہ وغیرہ سے بھی کی جاتی ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

These Verses show how the Israelites were disposed to disobedience, and how this inclination expressed itself in different forms. The Hadith says that if these people had obeyed Allah&s commandment without raising so many doubts and asking unnecessary questions, such strict condition would not have been imposed on them, and the sacrifice of any cow whatsoever would have been accepted.

خلاصہ تفسیر : وہ لوگ کہنے لگے کہ آپ درخواست کیجئے ہمارے اپنے رب سے ہم سے بیان کردیں کہ اس (بیل) کے کیا اوصاف ہیں آپ نے فرمایا کہ وہ ( میری درخواست کے جواب میں) یہ فرماتے ہیں کہ وہ ایسا بیل ہو کہ نہ بوڑھا ہو نہ بہت بچہ ہو (بلکہ) پٹھا ہو دونوں عمروں کے اوسط میں سو اب (زیادہ حجت مت کیجیو بلکہ کرڈالو ج... و کچھ تم کو ملا ہے کہنے لگے کہ (اچھا یہ بھی) درخواست کردیجئے ہمارے لئے اپنے رب سے ہم سے یہ (بھی) بیان کردیں کہ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ آپ نے فرمایا کہ (اس کے متعلق) حق تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ وہ ایک زرد رنگ کا بیل ہو جس کا رنگ تیز زرد ہو کہ ناظرین کو فرحت بخش ہو کہنے لگے کہ (اب کی بار اور) ہماری خاطر اپنے رب سے دریافت کردیجئے کہ (اول بار کے سوال کا جواب ذرا اور واضح) ہم سے بیان کردیں کہ اس کے اوصاف کیا کیا ہوں کیونکہ ہم کو اس بیل میں (قدرے) اشتباہ (یہ باقی) ہے (کہ وہ معمولی بیل ہوگا یا کوئی اور عجیب و غریب جس میں تحقیق قاتل کا خاص اثر ہو) اور ہم ضرور انشاء اللہ تعالیٰ (اب کی بار) ٹھیک سمجھ جاویں گے موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ حق تعالیٰ یوں فرماتے ہیں کہ وہ (کوئی عجیب و غریب جانور نہیں ہے یہی معمولی بیل ہے البتہ عمدہ ہونا چاہئے کہ اوصاف مذکورہ کے ساتھ) نہ تو ہل میں چلا ہوا ہو، جس سے زمین جوتی جاوے اور نہ (کنویں میں جوڑا گیا ہو کہ) اس سے زراعت یا آبپاشی کی جاوے غرض ہر قسم کے عیب سے) سالم ہو اور اس میں (کسی طرح کا) کوئی داغ نہ ہو (یہ سن کر) کہنے لگے کہ (ہاں) اب آپ نے پوری (اور صاف) بات فرمائی (القصہ جانور تلاش کرکے خریدا) پھر اس کو ذبح کردیا حالانکہ بظاہر کرتے ہوئے معلوم نہ ہوتے تھے، فائدہ : حدیث شریف میں ہے کہ اگر وہ یہ حجتیں نہ کرتے تو اتنی قیدیں ان کے ذمہ نہ ہوتیں جو بھی بقرہ ذبح کردیا جاتا کافی ہوجاتا،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا ہِىَ۝ ٠ ۭ قَالَ اِنَّہٗ يَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ وَّلَا بِكْرٌ۝ ٠ ۭ عَوَانٌۢ بَيْنَ ذٰلِكَ۝ ٠ ۭ فَافْعَلُوْا مَا تُـؤْمَرُوْنَ۝ ٦٨ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) ال... قول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ مبین بَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ فرض الفَرْضُ : قطع الشیء الصّلب والتأثير فيه، کفرض الحدید، وفرض الزّند والقوس، والمِفْرَاضُ والمِفْرَضُ : ما يقطع به الحدید، وفُرْضَةُ الماء : مقسمه . قال تعالی: لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء/ 118] ، أي : معلوما، وقیل : مقطوعا عنهم، والفَرْضُ كالإيجاب لکن الإيجاب يقال اعتبارا بوقوعه وثباته، والفرض بقطع الحکم فيه «3» . قال تعالی: سُورَةٌ أَنْزَلْناها وَفَرَضْناها[ النور/ 1] ، أي : أوجبنا العمل بها عليك، وقال : إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ [ القصص/ 85] ، أي : أوجب عليك العمل به، ومنه يقال لما ألزم الحاکم من النّفقة : فَرْضٌ. وكلّ موضع ورد ( فرض اللہ عليه) ففي الإيجاب الذي أدخله اللہ فيه، وما ورد من : ( فرض اللہ له) فهو في أن لا يحظره علی نفسه . نحو . ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب/ 38] ، وقوله : قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمانِكُمْ [ التحریم/ 2] ، وقوله : وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً [ البقرة/ 237] ، أي : سمّيتم لهنّ مهرا، وأوجبتم علی أنفسکم بذلک، وعلی هذا يقال : فَرَضَ له في العطاء، وبهذا النّظر ومن هذا الغرض قيل للعطية : فَرْضٌ ، وللدّين : فَرْضٌ ، وفَرَائِضُ اللہ تعالی: ما فرض لأربابها، ورجل فَارِضٌ وفَرْضِيٌّ: بصیر بحکم الفرائض . قال تعالی: فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَ إلى قوله : فِي الْحَجِّ «4» أي : من عيّن علی نفسه إقامة الحجّ «5» ، وإضافة فرض الحجّ إلى الإنسان دلالة أنه هو معيّن الوقت، ويقال لما أخذ في الصّدقة فرِيضَةٌ. قال : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ إلى قوله : فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ «1» وعلی هذا ما روي (أنّ أبا بکر الصّدّيق رضي اللہ عنه كتب إلى بعض عمّاله کتابا وکتب فيه : هذه فریضة الصّدقة التي فرضها رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم علی المسلمین) . والفَارِضُ : المسنّ من البقر «3» . قال تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] ، وقیل : إنما سمّي فَارِضاً لکونه فارضا للأرض، أي : قاطعا، أو فارضا لما يحمّل من الأعمال الشاقّة، وقیل : بل لأنّ فَرِيضَةُ البقر اثنان : تبیع ومسنّة، فالتّبيع يجوز في حال دون حال، والمسنّة يصحّ بذلها في كلّ حال، فسمّيت المسنّة فَارِضَةً لذلک، فعلی هذا يكون الفَارِضُ اسما إسلاميّا . ( ف ر ض ) الفرض ( ض ) کے معنی سخت چیز کو کاٹنے اور اس میں نشان ڈالنے کے ہیں مثلا فرض الحدید لوہے کو کاٹنا فرض القوس کمان کا چلہ فرض الزند چقماق کا ٹکڑا اور فر ضۃ الماء کے معنی در یا کا دہانہ کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء/ 118] میں تیرے بندوں سے ( غیر خدا کی نذر ( لو ا کر مال کا یاک مقرر حصہ لے لیا کروں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں مفروض کے معنی معین کے ہیں اور بعض نے کاٹ کر الگ کیا ہوا مراد لیا ہے ۔ اور فرض بمعنی ایجاب ( واجب کرنا ) آتا ہے مگر واجب کے معنی کسی چیز کے لحاظ وقوع اور ثبات کے قطعی ہونے کے ہیں اور فرض کے معنی بلحاظ حکم کے قطعی ہونے کے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها وَفَرَضْناها[ النور/ 1] یہ ایک سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیا اور اس ( کے احکام ) کو فرض کردیا ۔ یعنی اس پر عمل کرنا فرض کردیا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ [ القصص/ 85] ( اے پیغمبر ) جس نے تم پر قرآن ( کے احکام ) کو فرض کیا ہے ۔۔۔۔ یعنی اس پر عمل کرنا تجھ پر واجب کیا ہے اور اسی سے جو نفقہ وغیرہ حاکم کسی کے لئے مقرر کردیتا ہے اسے بھی فرض کہا جاتا ہے اور ہر وہ مقام جہاں قرآن میں فرض علٰی ( علی ) کے ساتھ ) آیا ہے ۔ اس کے معنی کسی چیز کے واجب اور ضروری قرا ردینے کے ہیں اور جہاں ۔ فرض اللہ لہ لام کے ساتھ ) آیا ہے تو اس کے معنی کسی چیز سے بندش کود ور کرنے اور اسے مباح کردینے کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب/ 38] پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا ۔ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمانِكُمْ [ التحریم/ 2] خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ۔ اور آیت کریمہ : وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً [ البقرة/ 237] لیکن مہر مقررکر چکے ہو ۔ کے معنی یہ ہیں چونکہ تم ان کے لئے مہر مقرر اور اپنے اوپر لازم کرچکے ہو اور یہی معنی فرض لہ فی العطاء کے ہیں ( یعنی کسی کے لئے عطا سے حصہ مقرر کردینا ) اسی بنا پر عطیہ اور قرض کو بھی فرض کہا جاتا ہے اور فرئض اللہ سے مراد وہ احکام ہیں جن کے متعلق قطعی حکم دیا گیا ہے اور جو شخص علم فرائض کا ماہر ہوا سے فارض و فرضی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَإلى قوله : فِي الْحَجِّ تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرے تو حج ( کے کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہو اور اس کی پختہ نیت کرلی ہو یہاں پر فرض کی نسبت انسان کی طرف کرنے میں اس بات پر دلیل ہے کہ اس کا وقت مقرر کرنا انسان کا کام ہے ( کہ میں امسال حج کرونگا یا آئندہ سال اور زکوۃ میں جو چیز وصول کی جاتی ہے اس پر بھی فریضہ کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ إلى قوله : فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ صدقات ( یعنی زکوۃ نہ خیرات ) تو مفلسوں ۔۔۔۔ کا حق ہے ( یہ ) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں ۔ اسی بنا پر مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے ایک عامل کیطرف خط لکھا اور اس میں ارقام فرمایا کہ یہ یعنی جو مقادیرلکھی جاری ہی میں فریضہ زکوۃ ہے ۔ جو رسول اللہ نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے ۔ الفارض عمر رسیدہ گائے یا بیل ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] نہ بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ بعض نے کہا کہ بیل کو فارض اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو پھاڑ تا یعنی جو تنا ہے اور یا اس لئے کہ اس پر سختکاموں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے اور یا اس لئے کہ گائے کی زکوۃ میں تبیع اور مسنۃ لیا جاتا ہے اور تبیع کا لینا تو بعض حالتوں میں جائز ہوتا ہے اور بعض احوال میں ناجائز لیکن مسنۃ کی ادائیگی ہر حال میں ضروری ہوتی ہے اس لئے مسنۃ کو فارضۃ کہا گیا ہے اس توجیہ کی بناپر فارض کا لفظ مصطلحات اسلامیہ سے ہوگا ۔ بكر أصل الکلمة هي البُكْرَة التي هي أوّل النهار، فاشتق من لفظه لفظ الفعل، فقیل : بَكَرَ فلان بُكُورا : إذا خرج بُكْرَةً ، والبَكُور : المبالغ في البکرة، وبَكَّر في حاجته وابْتَكَر وبَاكَرَ مُبَاكَرَةً. وتصوّر منها معنی التعجیل لتقدمها علی سائر أوقات النهار، فقیل لكلّ متعجل في أمر : بِكْر، قال الشاعر بكرت تلومک بعد وهن في النّدى ... بسل عليك ملامتي وعتاب وسمّي أول الولد بکرا، وکذلك أبواه في ولادته [إيّاه تعظیما له، نحو : بيت الله، وقیل : أشار إلى ثوابه وما أعدّ لصالحي عباده ممّا لا يلحقه الفناء، وهو المشار إليه بقوله تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت/ 64] ، قال الشاعر يا بکر بكرين ويا خلب الکبد «4» فبکر في قوله تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] . هي التي لم تلد، وسمّيت التي لم تفتضّ بکرا اعتبارا بالثيّب، لتقدّمها عليها فيما يراد له النساء، وجمع البکر أبكار . قال تعالی:إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة/ 35- 36] . والبَكَرَة : المحالة الصغیرة، لتصوّر السرعة فيها . ( ب ک ر ) اس باب میں اصل کلمہ بکرۃ ہے جس کے معنی دن کے ابتدائی حصہ کے ہیں پھر اس سے صیغہ فعل مشتق کرکے کہا جاتا ہے ۔ بکر ( ن ) فلان بکورا کسی کام کو صبح سویرے نکلنا ۔ البکور ( صیغہ مبالغہ ) بہت سویرے جانے والا ۔ بکر ۔ صبح سورے کسی کام کے لئے جانا اور بکرۃ دن کا پہلا حصہ ) چونکہ دن کے باقی حصہ پر متقدم ہوتا ہے اس لئے اس سے شتابی کے معنی لے کر ہر اس شخص کے معلق بکدرس ) فعل استعمال ہوتا ہے جو کسی معاملہ میں جلد بازی سے کام نے شاعر نے کہا ہے وہ کچھ عرصہ کے بعد جلدی سے سخاوت پر ملامت کرنے لگی میں نے کہا کہ تم پر مجھے ملامت اور عتاب کرنا حرام ہے ۔ بکر پہلا بچہ اور جب ماں باپ کے پہلا بچہ پیدا ہو تو احتراما انہیں بکر ان کہا جاتا ہے جیسا کہ بیت اللہ بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ثواب الہی اور ان غیر فانی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے تیار کی ہیں جس کی طرف آیت کریمہ : ۔ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت/ 64] اور ( ہمیشہ کی زندگی ( کا مقام تو آخرت کا گھر ہے میں اشارہ فرمایا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( رجز ) ( 23 ) اے والدین کے اکلوتے بیٹے اور جگر گوشے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ میں بکر سے نوجوان گائے مراد ہے جس نے ابھی تک کوئی بچہ نہ دیا ہو ۔ اور ثیب کے اعتبار سے دو شیزہ کو بھی بکر کہا جاتا ہے کیونکہ اسے مجامعت کے لئے ثیب پر ترجیح دی جاتی ہے بکر کی جمع ابکار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة/ 35- 36] ہم نے ان ( حوروں ) کو پیدا کیا تو ان کو کنوار یاں بنایا ۔ البکرۃ چھوٹی سی چرخی ۔ کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ گھومتی ہے ۔ عَوَانُ : المتوسّط بين السّنين، وجعل کناية عن المسنّة من النّساء اعتبارا بنحو قول الشاعر : فإن أتوک فقالوا : إنها نصف ... فإنّ أمثل نصفيها الذي ذهبا قال : عَوانٌ بَيْنَ ذلِكَ [ البقرة/ 68] ، واستعیر للحرب التي قد تكرّرت وقدّمت . وقیل العَوَانَةُ للنّخلة القدیمة، والعَانَةُ : قطیع من حمر الوحش، وجمع علی عَانَاتٍ وعُونٍ ، وعَانَةُ الرّجل : شعره النابت علی فرجه، وتصغیره : عُوَيْنَةٌ. العوان ادھیڑ عمر کو کہتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عَوانٌ بَيْنَ ذلِكَ [ البقرة/ 68] بلکہ ان کے بین بین یعنی ادھیڑ عمر کی ۔ اور کبھی بطور کنایہ کے عمر رسیدہ عورت کو بھی عوان کہہ دیا جا تا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( البسیط ) ( فان اتوک فقالوا انھا نصف فان امثل نصفیھا الذی ذھبا اگر تمہارے پاس آکر کہیں کہ ادھیڑ عمرے ہے تو تم کہو اس کی عمر کا بہترین حصہ تو گزرچکا ہے ۔ اور استعارہ جو جنگ کئی سال تک جاری رہے اور پرانی ہوجائے اسے بھی عوان کہا جاتا ہے نیز پرانی کھجور کو بھی عوارتۃ کہہ دیتے ہیں ۔ العانۃ گور خر اس کی جمع عانات وعون ہے العانۃ موئے زہار اس کی تصغیر عوینۃ ہے ۔ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(68 ۔ 70) تفسیر ابن جریر میں بسند صحیح حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے جھگڑوں سے اس گائے کے اوصاف سخت ہوگئے۔ اگر وہ لوگ بغیر ان جھگڑوں کے ایک معمولی گائے ذبح کرلیتے تو یہ مشکل پیش نہ آتی ١۔ اس گائے کی بیش قیمتی کی جو روایتیں ہیں وہ اہل کتاب سے لی گئی ہیں جن پر اع... تماد نہیں کیا جاسکتا۔ عکرمہ سے بسند صحیح جو روایت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین اشرفی کی گائے خریدی گئی تھی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ حدیث میں ہے کہ اگر وہ حجتیں نہ کرتے تو اتنی قیدیں ان کے زمہ نہ ہوتیں جو بقرہ ذبح کردینے کافی ہوجاتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر آپ کے ساتھ غلط بیانی اور مذاق کروں۔ کیونکہ پریشانی کے وقت مذاق کرنا اور قتل جیسے مقدمے کو غیر سنجیدہ طور پر لینا سراسر جہالت ہے۔ پیغمبر کی شان تو انتہائی اعلیٰ اور ارف... ع ہوتی ہے۔ ایک ادنیٰ درجے کے معقول آدمی سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ پریشانی کے موقعہ پر اس قسم کا مذاق کرے۔ لیکن حیلہ ساز اور مشرکانہ عقائد رکھنے والی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہو۔ مکمل حکم آنے کے باوجود اپنا جرم چھپانے کے لیے۔ وہ سوال پر سوال کرتے چلے گئے۔ جن کے جواب میں یہ کہہ کر گائے کا تعین کیا گیا کہ وہ بوڑھی ہو نہ بچی بلکہ بھر پور جوان ہونی چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر تم مجرموں کا سراغ لگانے میں سنجیدہ ہو تو تمہیں اس حکم پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن انہوں نے گائے کی رنگت کے بارے میں سوال کر ڈالا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کا رنگ گہرا زرد ہونا چاہیے تاکہ دیکھنے والوں کو بھلی اور خوبصورت لگے۔ رنگ اور عمرپوچھ لینے کے باوجود کہنے لگے یہ اوصاف تو کئی گائیوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت ہونی چاہیے۔ بار بار کے حیلوں اور بہانوں کی وجہ سے ان کے ضمیر پر ایک بوجھ تھا۔ ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے، اپنی شرمندگی مٹانے اور گھمبیر صورت حال سے بچنے کے لیے انہوں نے کہا انشاء اللہ اس سوال کے بعد ہم اس حکم پر عمل کر گزریں گے۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھر وضاحت فرمائی کہ اس گائے کو آج تک ہل جوتنے اور کنواں چلانے میں استعمال نہ کیا گیا ہو۔ مزید یہ کہ اس کے پورے جسم پر کسی قسم کا کوئی داغ نہیں ہونا چاہیے۔ اس قدر بحث و تکرار اور سوالات واستفسارات کے بعد گائے ذبح کی۔ جس کے گوشت کا ایک ٹکڑا انہوں نے مقتول کی لاش کو لگایا تو اللہ تعالیٰ نے اس مردہ کو زندہ کیا۔ قتل کا گناہ : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَاتُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلَّا کَانَ عَلَی ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ کِفْلٌ مِّنْ دَمِھَا لِأَنَّہٗ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ ) (رواہ البخاری : باب خلق آدم وذریتہ ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو بھی نفس ظلماً قتل کیا جاتا ہے اس کے خون کا گناہ آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے کو بھی ہوتا ہے کیونکہ اسی نے سب سے پہلا قتل کیا تھا۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَال النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوَّلُ مَایُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ فِي الدِّمَاءِ ) (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاءہ جھنم ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ شریعت کے احکام میں قیل و قال اور بہانے تلاش کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے جس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان کے لئے یہ ممکن تھا ، جب کہ حکم بالکل آسان تھا ، کہ وہ کسی گائے کو پکڑتے اور ذبح کر ڈالتے ، اور اس طرح بسہولت وہ اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہوجاتے اور اپنے لیڈر اور اپنے نبی کا اشارہ ملتے ہی اسے نافذ کردیتے ۔ لیکن اس وقت ان کی فطرت حیلہ ساز جاگ اٹھتی ہے ، اور اپنے موروثی مزاج سے مغلوب ہوکر وہ پوچھنے ... لگتے ہیں قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ ” بولے ! اچھا ، اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں اس گائے کی کچھ تفصیل بتائے ۔ “ انہوں نے اپنا سوال جن الفاظ میں بیان کیا ، وہ الفاظ ہی یہ ظاہر کررہے ہیں کہ انہیں اب بھی اس بارے میں شک ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مذاق کررہے ہیں ۔ یہ سنجیدہ ہیں وہ پہلے تو کہتے ہیں کہ اپنے رب سے درخواست کرو گویا موسیٰ (علیہ السلام) کا رب صرف اسی کا ہے اور وہ ان کا رب نہیں ہے ۔ یا گویا ، اس سوال کا تعلق صرف موسیٰ ہی سے ہے ، انہیں اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ۔ یہ صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے رب کا معاملہ ہے ۔ پھر وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے معلوم کرکے بتائے کہ وہ گائے ” کیا ہے “ یہاں مقصد تو یہ تھا کہ گائے کیسی ہو ، لیکن بطور استہزا اور انکار پوچھتے ہیں کہ ” گائے ! گائے کیا چیز ہوتی ہے ؟ “ گویا وہ گائے کی ماہیت سے واقف نہیں۔ گائے کیسی ہو ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں صاف صاف بتادیا تھا کہ وہ گائے ذبح کریں تعمیل حکم کے لئے وہ کافی ہوگی ۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے سوال کو نظرانداز کرکے انہیں صحیح جواب دیتے ہیں اور انہیں راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ ان کے اصلی سوال کا جواب دے کر ان کے ساتھ گائے کی ماہیت پر فلسفیانہ بحث و مباحثہ نہیں شروع کرتے ، بلکہ انہیں اس طرح جواب دیتے ہیں جس طرح ایک مصلح اور مربی ، ایسے لوگوں کو دیا کرتا جبکہ اللہ تعالیٰ ایسے احمقوں اور فاسقوں کو راہ ہدایت پر لانے کے مشکل کام میں لگا کر آزماتا ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) انہیں گائے کے بارے میں کہتے ہیں قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لا فَارِضٌ وَلا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَلِكَ کہا کہ اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ ایسی گائے ہونی چاہئے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا ہو ، بلکہ اوسط عمر کی ہو ۔ “ یعنی نہ بہت بوڑھی ہو اور نہ بالکل جوان ہو بلکہ اقوسط درجے کی ہو ، لیکن اس مجمل بیان کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پھر انہیں نصیحت کرتے ہیں اور بتاکید انہیں کہتے ہیں ۔ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ ” بس جو حکمدیا جارہا ہے اس کی تعمیل کرو۔ “ یہاں تک جو گفتگو ہوئی ، اگر بنی اسرائیل حکم کی تعمیل چاہتے تو یہ کافی وشافی تھی ۔ اس گفتگو سے انہیں تسلی ہوجانی چاہئے تھی ، دومرتبہ یہ جلیل القدر پیغمبر انہیں جادہ مستقیم پر لاچکے اور بارگاہ اقدس میں سوال و جواب اور وہاں سے استفادہ کرنے کے آداب بھی انہیں سمجھا چکے ، دوبارہ انہیں بتاچکے کہ بس آگے بڑھیں اور اپنی گائیوں میں سے کسی اوسط درجے کی گائے ذبح کرڈالیں ۔ نہ بوڑھی ہو اور نہ ہی بہت چھوٹی ، ادھیڑ عمر کی ہو ، اس طرح وہ اس فرض کی ادائیگی سے جلدبری الذمہ ہوجائیں اور اسے ذبح کرکے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرڈالیں اور اپنے آپ کو مزید قیود وحدود اور تنگی ومشقت میں نہ ڈالیں ........ لیکن وائے ناکام ! بنی اسرائیل بہرحال بنی اسرائیل تھے !  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ف140 اب یہاں سے اسرائیلیوں کے تعنت اور حکم خداوندی کے امتثال میں لیت ولعل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے یہاں مَا ھِیَ کے ذریعے گائے کی حقیقت مختصہ سے سوال نہیں ہے بلکہ یہ سوال محض ایضاح حال کیلئے ہے لَا فَارِضٌ وَلَا بِکْرٌ یعنی وہ نہ بوڑھی ہو اور نہ بچی الفارض اسم للمسنۃ التی انقطعت ولاد تھا من الکبر والبک... ر اسم للصغیرۃ التی لم تلد من الصغر (روح ص 7286 ج 1) عَوَانٌۢ بَيْنَ ذٰلِكَ ۔ یہ ماقبل کی تاکید ہے، عوان اسے کہتے ہیں جو مذکورہ دونوں عمروں کے درمیان ہو وسط بین السنین (معالم ص 60 ج 1) ای لاھی صغیرۃ ولاھی مسنۃ (قرطبی ص 449 ج 1) فَافْعَلُوْا مَا تُـؤْمَرُوْن۔ یعنی حکم کی تعمیل کرو اور زیادہ سوال و جواب نہ کرو۔ ای من ذبح البقرۃ ولا تکرروا السوال ولا تتعنتوا (روح ص 288 ج 1) تجدید للامر وتاکید وتنبیہ علی ترک التعنت فما ترکوہ (قرطبی ص 449 ج 1) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi