The Terms of the Covenant and their Breach of It
Allah says;
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لاَ تَسْفِكُونَ دِمَاءكُمْ وَلاَ تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ
...
And (remember) when We took your covenant (saying): Shed not the blood of your (people), nor turn out your own people from their dwellings.
Allah criticized the Jews who lived in Al-Madinah during the time of the Messenger of Allah. They used to suffer, because of the armed conflicts between the tribes of Al-Madinah, Aws and Khazraj.
Before Islam, the Aws and Khazraj worshipped idols, and many battles took place between them.
There were three Jewish tribes in Al-Madinah at that time, Banu Qaynuqa and Banu An-Nadir, the allies of the Khazraj, and Banu Qurayzah, who used to be the allies of the Aws. When war erupted between Aws and Khazraj, their Jewish allies would assist them.
The Jew would kill his Arab enemy, and sometimes they also killed Jews who were the allies of the other Arab tribe, although the Jews were prohibited from killing each other according to clear religious texts in their Books. They would also drive each other from their homes and loot whatever furniture and money they could. When the war ended, the victorious Jews would release the prisoners from the defeated party, according to the rulings of the Tawrah.
This is why Allah said,
أَفَتُوْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ
(Then do you believe in a part of the Scripture and reject the rest), (2:85).
Allah said,
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لاَ تَسْفِكُونَ دِمَاءكُمْ وَلاَ تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ
...
And (remember) when We took your covenant (saying): Shed not the blood of your (people), nor turn out your own people from their dwellings.
meaning, "Do not kill each other, nor expel one another from their homes, nor participate in fighting against them."
Allah mentioned the word `your own' here, just as He said in another Ayah.
فَتُوبُواْ إِلَى بَارِيِكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِيِكُمْ
So turn in repentance to your Creator and kill yourselves, that will be better for you with your Creator), (2:54),
because the followers of one religion are just like one soul.
Also, the Messenger of Allah said,
مَثَلُ الْمُوْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَوَاصُلِهِمْ بِمَنْزِلَةِ الْجَسَدِ الْوَاحِدِ إِذَا اشْتَكى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَايِرُ الْجَسَدِ بِالْحُمَّى وَالسَّهَر
The example of the believers in their kindness, mercy and sympathy to each other is the example of one body, when an organ of it falls ill, the rest of the body rushes to its aid in fever and sleeplessness.
Allah's statement,
...
ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ
Then, (this) you ratified and (to this) you bore witness.
means, "You testified that you know of the covenant and that you were witnesses to it."
Then Allah says,
اوس و خزرج اور دیگر قبائل کو دعوت اتحاد
اوس اور خزرج انصار مدینہ کے دو قبیلے تھے اسلام سے پہلے ان دونوں قبیلوں کی آپس میں کبھی بنتی نہ تھی ہمیشہ آپس میں جنگ و جدال رہتا تھا ۔ مدینے کے یہودیوں کے بھی تین قبیلے تھے بنی قینقاع بنو نضیر اور بنو قریظہ ، بنو قینقاع اور بنی نضیر تو خررج کے طرف دار اور ان کے بھائی بند بنے ہوئے تھے ، بنی قریظہ کا بھائی چارہ اوس کے ساتھ تھا ۔ جب اوس و خزرج میں جنگ ٹھن جاتی تو یہودیوں کے یہ تینوں گروہ بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ان سے مل کر ان کے دشمن سے لڑتے ، دونوں طرف کے یہودی یہودیوں کے ہاتھ مارے بھی جاتے اور موقعہ پا کر ایک دوسرے کے گھروں کو بھی اجاڑ ڈالتے ، دیس نکالا بھی دے دیا کرتے تھے اور مال و دولت پر بھی قبضہ کر لیا کرتے تھے ۔ جب لڑائی موقوف ہوتی تو مغلوب فریق کے قیدیوں کا فدیہ دے کر چھڑا لیتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہم میں سے جب کوئی قید ہو جائے تو ہم فدیہ دے کر چھڑا لیں اس پر جناب باری تعالیٰ انہیں فرماتا ہے کہ اس کی کیا وجہ کہ میرے اس ایک حکم کو تو تم نے مان لیا لیکن میں نے کہا تھا کہ آپس میں کسی کو قتل نہ کرو گھروں سے نہ نکالو اسے کیوں نہیں مانتے؟ کسی حکم پر ایمان لانا اور کسی کے ساتھ کفر کرنا یہ کہاں کی ایمانداری ہے؟ آیت میں فرمایا کہ اپنے خون نہ بہاؤ اور اپنے آپ کو اپنے گھروں سے نہ نکالو یہ اس لئے کہ ہم مذہب سارے کے سارے ایک جان کے مانند ہیں حدیث میں بھی ہے کہ تمام ایماندار دوستی ، اخوت ، صلہ رحمی اور رحم و کرم میں ایک جسم کے مثل ہیں کسی ایک عضو کے درد سے تمام جسم بیتاب ہو جاتا ہے بخار چڑھ جاتا ہے راتوں کی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے اسی طرح ایک مسلمان کے لئے سارے جہان کے مسلمانوں کو تڑپ اٹھنا چاہئے عبد خیر کہتے ہیں ہم سلمان بن ربیعہ کی ماتحتی میں بخبر میں جہاد کر رہے تھے محاصرہ کے بعد ہم نے اس شہر کو فتح کیا جس میں بہت سے قیدی بھی ملے ۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان میں سے ایک یہود لونڈی کو سات سو میں خریدا ۔ راس الجالوت کے پاس جب ہم پہنچے تو حضرت عبداللہ اس کے پاس گئے اور فرمایا یہ لونڈی تیری ہم مذہب ہے میں نے اسے سات سو میں خریدا ہے اب تم اسے مجھ سے خرید لو اور آزاد کر دو اس نے کہا بہت اچھا میں چودہ سو دیتا ہوں آپ نے فرمایا میں تو چار ہزار سے کم نہیں بیچوں گا اس نے کہا پھر میں نہیں خریدتا آپ نے کہا سن یا تو تو اسے خرید ورنہ تیرا دین جاتا رہے گا توراۃ میں لکھا ہوا ہے کہ بنو اسرائیل کا کوئی بھی شخص گرفتار ہو جائے تو اسے خرید کر آزاد کیا کرو ۔ اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئیں تو فدیہ دے کر چھڑا لیا کرو اور انہیں ان کے گھر سے بےگھر بھی نہ کیا کرو اب یا تو توراۃ کو مان کر اسے خرید یا توراۃ کا منکر ہونے کا اقرار کر! وہ سمجھ گیا اور کہنے لگا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم شاید عبداللہ بن سلام ہو آپ نے فرمایا ہاں چنانچہ وہ چار ہزار لے آیا آپ نے دو ہزار لے لئے اور دو ہزار لوٹا دیئے بعض روایتوں میں ہے کہ راس الجالوت کوفہ میں تھا یہ ان لونڈیوں کا فدیہ نہیں دیتا تھا جو عرب سے نہ بچی ہوں اس پر حضرت عبداللہ نے اسے توراۃ کی یہ آیت سنائی غرض آیت میں یہودیوں کی مذمت ہے کہ وہ احکام الٰہیہ کو جانتے ہوئے پھر بھی پس پشت ڈال دیا کرتے تھے امانت داری اور ایمانداری ان سے اٹھ چکی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں آپ کی نشانیاں آپ کی نبوت کی تصدیق آپ کی جائے پیدائش جائے ہجرت وغیرہ وغیرہ سب چیزیں ان کی کتاب میں موجود تھیں لیکن یہ ان سب کو چھپائے ہوئے تھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے تھے اسی باعث ان پر دنیوی رسوائی آئی اور کم نہ ہونے والے اور دائمی آخرت کا عذاب بھی ۔