Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 84

سورة البقرة

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَکُمۡ لَا تَسۡفِکُوۡنَ دِمَآءَکُمۡ وَ لَا تُخۡرِجُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ ثُمَّ اَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَشۡہَدُوۡنَ ﴿۸۴﴾

And [recall] when We took your covenant, [saying], "Do not shed each other's blood or evict one another from your homes." Then you acknowledged [this] while you were witnessing.

اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا کہ آپس میں خون نہ بہانا ( قتل نہ کرنا ) اور آپس والوں کو جلاوطن مت کرنا ، تم نے اقرار کیا اور تم اس کے شاہد بنے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Terms of the Covenant and their Breach of It Allah says; وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لاَ تَسْفِكُونَ دِمَاءكُمْ وَلاَ تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ... And (remember) when We took your covenant (saying): Shed not the blood of your (people), nor turn out your own people from their dwellings. Allah criticized the Jews who lived in Al-Madinah during the time of the Messenger of Allah. They used to suffer, because of the armed conflicts between the tribes of Al-Madinah, Aws and Khazraj. Before Islam, the Aws and Khazraj worshipped idols, and many battles took place between them. There were three Jewish tribes in Al-Madinah at that time, Banu Qaynuqa and Banu An-Nadir, the allies of the Khazraj, and Banu Qurayzah, who used to be the allies of the Aws. When war erupted between Aws and Khazraj, their Jewish allies would assist them. The Jew would kill his Arab enemy, and sometimes they also killed Jews who were the allies of the other Arab tribe, although the Jews were prohibited from killing each other according to clear religious texts in their Books. They would also drive each other from their homes and loot whatever furniture and money they could. When the war ended, the victorious Jews would release the prisoners from the defeated party, according to the rulings of the Tawrah. This is why Allah said, أَفَتُوْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ (Then do you believe in a part of the Scripture and reject the rest), (2:85). Allah said, وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لاَ تَسْفِكُونَ دِمَاءكُمْ وَلاَ تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ... And (remember) when We took your covenant (saying): Shed not the blood of your (people), nor turn out your own people from their dwellings. meaning, "Do not kill each other, nor expel one another from their homes, nor participate in fighting against them." Allah mentioned the word `your own' here, just as He said in another Ayah. فَتُوبُواْ إِلَى بَارِيِكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِيِكُمْ So turn in repentance to your Creator and kill yourselves, that will be better for you with your Creator), (2:54), because the followers of one religion are just like one soul. Also, the Messenger of Allah said, مَثَلُ الْمُوْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَوَاصُلِهِمْ بِمَنْزِلَةِ الْجَسَدِ الْوَاحِدِ إِذَا اشْتَكى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَايِرُ الْجَسَدِ بِالْحُمَّى وَالسَّهَر The example of the believers in their kindness, mercy and sympathy to each other is the example of one body, when an organ of it falls ill, the rest of the body rushes to its aid in fever and sleeplessness. Allah's statement, ... ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ Then, (this) you ratified and (to this) you bore witness. means, "You testified that you know of the covenant and that you were witnesses to it." Then Allah says,

اوس و خزرج اور دیگر قبائل کو دعوت اتحاد اوس اور خزرج انصار مدینہ کے دو قبیلے تھے اسلام سے پہلے ان دونوں قبیلوں کی آپس میں کبھی بنتی نہ تھی ہمیشہ آپس میں جنگ و جدال رہتا تھا ۔ مدینے کے یہودیوں کے بھی تین قبیلے تھے بنی قینقاع بنو نضیر اور بنو قریظہ ، بنو قینقاع اور بنی نضیر تو خررج کے طرف دار اور ان کے بھائی بند بنے ہوئے تھے ، بنی قریظہ کا بھائی چارہ اوس کے ساتھ تھا ۔ جب اوس و خزرج میں جنگ ٹھن جاتی تو یہودیوں کے یہ تینوں گروہ بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ان سے مل کر ان کے دشمن سے لڑتے ، دونوں طرف کے یہودی یہودیوں کے ہاتھ مارے بھی جاتے اور موقعہ پا کر ایک دوسرے کے گھروں کو بھی اجاڑ ڈالتے ، دیس نکالا بھی دے دیا کرتے تھے اور مال و دولت پر بھی قبضہ کر لیا کرتے تھے ۔ جب لڑائی موقوف ہوتی تو مغلوب فریق کے قیدیوں کا فدیہ دے کر چھڑا لیتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہم میں سے جب کوئی قید ہو جائے تو ہم فدیہ دے کر چھڑا لیں اس پر جناب باری تعالیٰ انہیں فرماتا ہے کہ اس کی کیا وجہ کہ میرے اس ایک حکم کو تو تم نے مان لیا لیکن میں نے کہا تھا کہ آپس میں کسی کو قتل نہ کرو گھروں سے نہ نکالو اسے کیوں نہیں مانتے؟ کسی حکم پر ایمان لانا اور کسی کے ساتھ کفر کرنا یہ کہاں کی ایمانداری ہے؟ آیت میں فرمایا کہ اپنے خون نہ بہاؤ اور اپنے آپ کو اپنے گھروں سے نہ نکالو یہ اس لئے کہ ہم مذہب سارے کے سارے ایک جان کے مانند ہیں حدیث میں بھی ہے کہ تمام ایماندار دوستی ، اخوت ، صلہ رحمی اور رحم و کرم میں ایک جسم کے مثل ہیں کسی ایک عضو کے درد سے تمام جسم بیتاب ہو جاتا ہے بخار چڑھ جاتا ہے راتوں کی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے اسی طرح ایک مسلمان کے لئے سارے جہان کے مسلمانوں کو تڑپ اٹھنا چاہئے عبد خیر کہتے ہیں ہم سلمان بن ربیعہ کی ماتحتی میں بخبر میں جہاد کر رہے تھے محاصرہ کے بعد ہم نے اس شہر کو فتح کیا جس میں بہت سے قیدی بھی ملے ۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان میں سے ایک یہود لونڈی کو سات سو میں خریدا ۔ راس الجالوت کے پاس جب ہم پہنچے تو حضرت عبداللہ اس کے پاس گئے اور فرمایا یہ لونڈی تیری ہم مذہب ہے میں نے اسے سات سو میں خریدا ہے اب تم اسے مجھ سے خرید لو اور آزاد کر دو اس نے کہا بہت اچھا میں چودہ سو دیتا ہوں آپ نے فرمایا میں تو چار ہزار سے کم نہیں بیچوں گا اس نے کہا پھر میں نہیں خریدتا آپ نے کہا سن یا تو تو اسے خرید ورنہ تیرا دین جاتا رہے گا توراۃ میں لکھا ہوا ہے کہ بنو اسرائیل کا کوئی بھی شخص گرفتار ہو جائے تو اسے خرید کر آزاد کیا کرو ۔ اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئیں تو فدیہ دے کر چھڑا لیا کرو اور انہیں ان کے گھر سے بےگھر بھی نہ کیا کرو اب یا تو توراۃ کو مان کر اسے خرید یا توراۃ کا منکر ہونے کا اقرار کر! وہ سمجھ گیا اور کہنے لگا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم شاید عبداللہ بن سلام ہو آپ نے فرمایا ہاں چنانچہ وہ چار ہزار لے آیا آپ نے دو ہزار لے لئے اور دو ہزار لوٹا دیئے بعض روایتوں میں ہے کہ راس الجالوت کوفہ میں تھا یہ ان لونڈیوں کا فدیہ نہیں دیتا تھا جو عرب سے نہ بچی ہوں اس پر حضرت عبداللہ نے اسے توراۃ کی یہ آیت سنائی غرض آیت میں یہودیوں کی مذمت ہے کہ وہ احکام الٰہیہ کو جانتے ہوئے پھر بھی پس پشت ڈال دیا کرتے تھے امانت داری اور ایمانداری ان سے اٹھ چکی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں آپ کی نشانیاں آپ کی نبوت کی تصدیق آپ کی جائے پیدائش جائے ہجرت وغیرہ وغیرہ سب چیزیں ان کی کتاب میں موجود تھیں لیکن یہ ان سب کو چھپائے ہوئے تھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے تھے اسی باعث ان پر دنیوی رسوائی آئی اور کم نہ ہونے والے اور دائمی آخرت کا عذاب بھی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ ان آیات میں پھر وہ عہد بیان کیا جارہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا، لیکن اس سے بھی انہوں نے اعراض ہی کیا۔ اس عہد میں اولا صرف ایک اللہ کی عبادت کی تاکید ہے جو ہر نبی کی بنیادی اور اولین دعوت رہی ہے ( جیسا کہ سورة الانبیاء آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) 021:025 اور دیگر آیات سے واضح ہے) اس کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے اللہ کی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید سے واضح کردیا گیا کہ جس طرح اللہ کی عبادت بہت ضروری ہے اسی طرح اس کے بعد والدین کی اطاعت بھی بہت ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت کا ذکر کرکے اس کی اہمیت کو واضح کردیا ہے اس کے بعد رشتے دارون، یتیموں اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور حسن گفتار کا حکم ہے۔ اسلام میں بھی ان باتوں کی بڑی تاکید ہے، جیسا کہ احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واضح ہے۔ اس عہد میں اقامت صلوۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا بھی حکم ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں عبادتیں پچھلی شریعتوں میں بھی موجود رہی ہیں۔ جن سے ان کی اہمیت واضح ہے۔ اسلام میں بھی یہ دونوں عبادتیں نہایت اہم ہیں حتی کہ ان میں سے کسی ایک کے انکار یا اس سے اعراض کو کفر کے مترادف سمجھا گیا ہے۔ جیسا کہ ابوبکر صدیق (رض) کے عہد خلافت میں مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے سے واضح ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور ایک دوسرے کو ان کے گھروں سے نہیں نکالو گے “ کے بجائے فرمایا کہ ” تم اپنے خون نہیں بہاؤ گے اور نہ اپنے آپ کو اپنے گھروں سے نکالو گے “ کیونکہ امت مسلمہ کے افراد ایک جسم کی طرح ہیں، کسی بھی مسلم کا خون بہانا اپنا خون بہانا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ تَوَادِّہِمْ وَ تَرَاحُمِہِمْ وَ تَعَاطُفِہِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَکَی مِنْہٗ عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہٗ سَاءِرُ الْجَسَدِ بالسَّہَرِ وَالْحُمّٰی ) ” تمام مومن اپنی باہمی دوستی، ایک دوسرے پر رحم اور ایک دوسرے پر شفقت میں ایک جسم کی مانند ہیں، جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کی خاطر سارا جسم بیدار رہتا ہے اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ “ [ مسلم، البروالصلۃ، باب تراحم المؤمنین ۔۔ : ٢٦٢٦، عن النعمان بن بشیر (رض) ۔ بخاری : ٦٠١١ ] ” وَھُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ اِخْرَاجُهُمْ “ میں ” ہو “ ضمیر شان ہے جس کا ترجمہ ” اصل یہ ہے “ کیا گیا ہے۔ 3 دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ان سے چار عہد لیے گئے تھے : 1 ایک دوسرے کا خون نہ بہانا۔ 2 ایک دوسرے کو گھروں سے نہ نکالنا۔ 3 ایک دوسرے کے خلاف مدد نہ کرنا۔ 4 قیدی کو فدیہ دے کر چھڑا لینا، مگر وہ صرف فدیہ پر عمل کرتے اور باقی تین کی مخالفت کرتے اور بلا جھجک ان کا ارتکاب کرتے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں یہود کے تین قبیلے تھے : بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ، یہ اہل کتاب تھے۔ مدینہ کے عرب قبائل اوس اور خزرج بت پرست مشرک تھے، انھیں کسی آسمانی دین سے سروکار نہ تھا، یہود کے ان قبائل سے حلیفانہ تعلقات تھے۔ بنو قینقاع اور بنونضیر خزرج کے حلیف تھے اور بنو قریظہ اوس کے حلیف تھے۔ اوس اور خزرج کی آپس میں جنگ رہا کرتی تھی اور یہودی قبائل اس میں اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور مقابلے میں آنے والے مشرک قبیلے کے آدمیوں کے علاوہ ان کا ساتھ دینے والے اپنے یہودی بھائیوں کو بھی قتل کرتے، ان کے گھر بھی لوٹ لیتے، پھر جب لڑائی ختم ہوتی اور کچھ یہودی قید ہو کر غالب قبیلے کے پاس آتے تو غالب قبیلے کے حلیف یہودی خود ہی ان کا فدیہ دے کر انھیں چھڑوا دیتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ کی کتاب کا حکم ہے کہ اپنے قیدی بھائیوں کو چھڑواؤ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں فدیہ دے کر چھڑوانے کا حکم تو یاد رہا، مگر اپنے بھائیوں کے خلاف دوسرے کی مدد نہ کرنے، ان کا خون نہ بہانے اور انھیں گھروں سے نہ نکالنے کا حکم یاد نہ رہا، جس پر تم عمل کرتے تو فدیے کی نوبت ہی نہ آتی۔ گویا تم اللہ کی کتاب کے جس حکم کو اپنی مرضی کے مطابق پاتے ہو مان لیتے ہو اور جو اپنی مرضی کے مطابق نہ ہو اس کی پروا نہیں کرتے، اگر تم واقعی اللہ کی کتاب پر چلتے ہو تو چاروں حکم مانو۔ (اِلَّا خِزْيٌ) یہودیوں کو دنیا کی زندگی میں جلد ہی رسوائی دیکھنا پڑی کہ بنو نضیر اور بنو قینقاع جلا وطن ہوئے اور بنو قریظہ کے بالغ مرد قتل ہوئے، بچے اور عورتیں لونڈی و غلام بنے، پھر آخرت کے عذاب کا تو دنیاوی عذاب سے کچھ موازنہ ہی نہیں۔ 3 افسوس ! اس وقت اکثر مسلمانوں کا حال بعینہ وہی ہوگیا ہے جو اہل کتاب کا تھا کہ انھوں نے اسلام کے اپنی مرضی کے چند احکام پر عمل کیا اور باقی کو بھلا دیا، مثلاً مسلمان خنزیر کا گوشت کھانا تو درکنار اس کا نام لینے سے بھی اجتناب کرتے ہیں، جب کہ سود اور جوئے (انشورنس وغیرہ) سے انھیں کچھ پرہیز نہیں، بلکہ ان کے کاروبار کی بنیاد ہی ان کاموں پر ہے۔ وہ قبلے کی طرف منہ کرکے پیشاب نہیں کرتے، مگر انھیں نماز سے کچھ سروکار نہیں۔ وہ جھٹکے والی مرغی (جسے شرعی طریقے سے حلال نہ کیا گیا ہو) کھانے سے یورپ اور امریکہ میں جا کر بھی اجتناب کرتے ہیں، مگر شراب اور حرام شباب سے انھیں پرہیز نہیں۔ وہ اپنے آپ کو امت مسلمہ کا فرد کہتے ہیں، پھر کفار کے ساتھ مل کر اپنے ہی بھائیوں کو قتل اور ان کے گھروں اور شہروں کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ دنیا میں ذلت کی صورت میں تو صاف ظاہر ہے، رہا آخرت کا معاملہ تو کتاب کے بعض پر ایمان (یعنی اس پر عمل) اور بعض کے ساتھ کفر (یعنی اس کی مخالفت کرنا) اہل کتاب کو ” اَشَدِّ الْعَذَ ابِ “ سے نہیں بچا سکا تو موجودہ مسلمانوں کو اس سے کیسے بچائے گا ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

This verse is a supplement to the previous verse, and speaks of the other articles of the pledge taken by the Israelites. They had agreed not to kill one another by engaging themselves in an internecine war, and also not to send their men into exile - that is to say, not to harass a man so as to force him to migrate. They had willingly taken this pledge. Now, it may sometimes happen that one does not express one&s willingness in so many words, but the manner of his speech suggests it. The agreement of the Israelites was not of this order, but as clear and explicit as the statement of a witness usually is.

خلاصہ تفسیر : اوپر جو عہد میثاق لیا گیا تھا اس آیت میں اس کا تتمہ بیان کیا گیا ہے چناچہ ارشاد ہے اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب ہم نے تم کو یہ قول وقرار (بھی) لیا کہ (خانہ جنگی کرکے) باہم خونریزی مت کرنا اور ایک دوسرے کو ترک وطن مت کرانا پھر (ہمارے اس اقرار لینے پر) تم نے اقرار بھی کرلیا اور اقرار بھی (ضمنًا نہیں بلکہ) ایسا جیسے تم (اس پر) شہادت (بھی) دیتے ہو، فائدہ : بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کی تقریر سے کسی امر کا اقرار مترشح ہوتا ہے گو صاف اقرار نہیں ہوتا مگر عرفا اور عقلا اس کو اقرار ہی سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں تو ثُمَّ اَقْــرَرْتُمْ سے اس شبہ کو بھی رفع کردیا اور بتادیا کہ یہ اقرار اتنا صریح اور واضح تھا جیسے شہادت صاف اور واضح ہوا کرتی ہے ترک وطن کرانے کی ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو آزار پہنچا کر اتنا تنگ مت کرنا کہ بیچارہ ترک وطن پر مجبور ہوجائے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَاۗءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ اَقْــرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ۝ ٨٤ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے منیإ پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔ سفك السَّفْكُ في الدّم : صَبُّهُ ، قال تعالی: وَيَسْفِكُ الدِّماءَ [ البقرة/ 30] ، وکذا في الجوهر المذاب، وفي الدّمع . ( س ف ک ) السفک ( ض ) کے معنی خون ریزی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَسْفِكُ الدِّماءَ [ البقرة/ 30] اور کشت وخون کرتا پھرے ۔ ویسے یہ لفظ ہر سیاں چیز اور آنسو بہانے کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے ۔ دم أصل الدّم دمي، وهو معروف، قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة/ 3] ، وجمعه دِمَاء، وقال : لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] ، وقد دَمِيَتِ الجراحةُ ، وفرس مَدْمِيٌّ: شدید الشّقرة، کالدّم في اللّون، والدُّمْيَة صورة حسنة، وشجّة دامية . ( د م ی ) الدم ۔ خون ۔ یہ اصل میں دمامی تھا ( یاء کو برائے تخفیف حذف کردیا ہے ) قرآن میں ہے :۔ :۔ ح ُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة/ 3] تم مردا جانور اور ( بہتا ) لہو یہ سب حرام ہیں ۔ دم کی جمع دمآء ہے ۔ قرآن میں ہے لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا ۔ دمیت ( د) الجراحۃ ۔ زخم سے خون بہنا ۔ فرس مدعی ۔ خون کی طرح نہایت سرخ رنگ کا گھوڑا ۔ الدمیۃ ۔ گڑیا ( جو خون کی مانند سرخ اور منقوش ہو ) شکجۃ دامیہ ۔ سر کا زخم جس سے خون بہہ رہا ہو ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ قرر قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وأصله من القُرِّ ، وهو البرد، وهو يقتضي السّكون، والحرّ يقتضي الحرکة، وقرئ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب/ 33] «1» قيل «2» : أصله اقْرِرْنَ فحذف إحدی الرّاء ین تخفیفا نحو : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة/ 65] ، أي : ظللتم . قال تعالی: جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر/ 64] ، أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً [ النمل/ 61] ، أي : مستقرّا، وقال في صفة الجنّة : ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ«3» ، وفي صفة النّار قال : فَبِئْسَ الْقَرارُ [ ص/ 60] ، وقوله : اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ ما لَها مِنْ قَرارٍ [إبراهيم/ 26] ، أي : ثبات، وقال الشاعر : 365- ولا قرار علی زأر من الأسد «4» أي : أمن واسْتِقْرَارٍ ، ويوم الْقَرِّ : بعد يوم النّحر لاستقرار الناس فيه بمنی، وو ، وقیل : قَرَّتْ ليلتنا تَقِرُّ ، ويوم قَرٌّ ، ولیلة قِرَّةٌ ، وقُرَّ فلان فهو مَقْرُورٌ: أصابه الْقُرُّ ، وقیل : حرّة تحت قِرَّةٍ «2» ، وقَرَرْتُ القدر أَقُرُّهَا : ( ق ر ر ) قرنی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب/ 33 اور اپن گھروں میں ٹھہری رہو ۔ میں ایک قرات وقرن فی بیوتکن ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں اقررن ہے ایک راء کو تخفیف کے لئے خلاف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت ؛ فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة/ 65] ، ہے اور ایک ) لام کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے ۔ القرار ( اسم ) ( ٹھہرنے کی جگہ ) قرآن میں ہے : جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر/ 64]( جس نے ) زمین کو قرار لگا دبنا یا ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ«3»جو رہنے کے لائق اور جہاں نتھرا ہوا پانی تھا ( پناہ دی ) اور جن ہم کے متعلق فرمایا : فَبِئْسَ الْقَرارُ [ ص/ 60] اور وہ بڑا ٹھکانا ہے ۔ اور آیت کریمہ : اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ ما لَها مِنْ قَرارٍ [إبراهيم/ 26] زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیاجائے ۔ اس کو ذرا بھی قرار نہیں ہے ۔۔۔ قرار کے معنی ثبات کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے (352) ولا قرار عل ی زاز من الاسد یعنی شیر کے دھاڑنے پر امن ( چین) حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اور یوم النحر سے بعد کے دن کو یوم القر کہاجاتا ہے کیونکہ لوگ اس روز منیٰ میں ٹھہری رہتے ہیں ۔ شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے : فراذا خذنا میثاقکم لاتسفکون دمآء کو ولا تخجون انفسکم من دیارکم (یاد کرو۔ ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دور سے کو گھر سے بےگھر کرنا) اس آیت میں دو معنوں کا احتمال ہے پہلا یہ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی جان نہ لو، نیز ایک دوسرے کو گھر سے بےگھر نہ کرو جس طرح یہ قول باری ہے : ولا تقتلوا انفسکم (اور اپنی جانیں نہ لو) نیز : وقاتلوا و قتلوا ( اور انہوں نے قتل کیا اور قتل ہوئے) دو سرا معنی یہ ہے کہ ہر شخص اپنی جان خود اپنے ہاتھوں سے نہ لے، یعنی خود کشی نہ کرے جس طرح ہنود کرتے تھے یا جس طرح وہ لوگ کرتے ہیں جو زندگی کی سختیوں کا مقابلہ کرنے کی تاب نہیں رکھتے۔ مایوس ہو کر زندگی سے چھٹکارا حاصل کر لیت ییہں۔ یا یہ کہ وہ کسی اور کی جان نہ لے کر پھر بدلے کے طور پر اپنی جان گنوا بیٹھے اور اس طرح خود اپنے آپ کو قتل کرنے والا بن جائے۔ چونکہ آیت کے الفاظ کے الفاظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے اس لئے اسے دونوں معنوں پر محمول کیا جانا واجب ہوگا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تورات کی شریعت کے اس حکم کی خبر دی ہے جسے یہود چھپاتے تھے کیونکہ اس حکم کی وجہ سے انہیں نقصان کا سامنا کرنا پڑتا اور وہ قابل مذمت گردانے جاتے چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حکم کی خبر دے دی اور اسے یہود یک طرف سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے انکار کے معاملے میں ان پر حجت اور دلالت بنادیا۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ تو آسمانی کتابیں پڑھی تھیں اور نہ ہی ان میں موجود مضامین کے متعلق آپ کو کوئی علم تھا۔ اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتائی ہوئی مذکورہ بالا خبر صرف اس بات پر مبنی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دی گئی تھی، یہی کیفیت ان تمام خبروں کی ہے جن کی اطلاع زیر بحث آیات کی بعد والی آیات میں دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ارشاد ہے : وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا (باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں ماگنا کرتے تھے۔ ) اللہ تعالیٰ نے ہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنی اسرائیل کی ان تمام باتوں کی خبر دی تھی جن کی بنا پر ان کی مذمت کی گئی تھی اور جنہیں یہ لوگوں سے چھپائے رکھتے تھے۔ ان خبروں کے ذریعے بنی اسرائیل کے کفر اور ظلم کا پول کھول دیا تھا اور ان کے تمام قبائح ظاہر کردیئے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دی ہوئی یہ تمام خبریں آپ کی نبوت پر دلالت کرتی تھیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٤) اور جس وقت کتاب میں ہم نے تم لوگوں سے یہ وعدہ لیا کہ ایک دوسرے کو قتل نہیں کروگے اور کسی کو اس کے گھر سے نہیں نکالو گے (یعنی بنی قریظہ اور بنونظیر دونوں سے عہدلیا) اور تم نے اس عہد کو قبول کرلیا اور تم اسے اچھی طرح مانتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ ) “ (لاَ تَسْفِکُوْنَ دِمَآءَ کُمْ ) “ یعنی آپس میں جنگ نہیں کرو گے ‘ باہم خون ریزی نہیں کروگے۔ تم بنی اسرائیل ایک وحدت بن کر رہو گے ‘ تم سب بھائی بھائی بن کر رہو گے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے : (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ) (الحُجُرٰت : ١٠) (وَلاَ تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ ) (ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ ) ۔ “ یعنی تم نے اس قول وقرار کو پورے شعور کے ساتھ مانا تھا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی وفات کے بعد بنی اسرائیل نے حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں فلسطین کو فتح کرنا شروع کیا۔ سب سے پہلا شہر اریحا (Jericko) فتح کیا گیا۔ اس کے بعد جب سارا فلسطین فتح کرلیا تو انہوں نے ایک مرکزی حکومت قائم نہیں کی ‘ بلکہ بارہ قبیلوں نے اپنی اپنی بارہ حکومتیں بنا لیں۔ ان حکومتوں کی باہمی آویزش کے نتیجے میں ان کی آپس میں جنگیں ہوتی تھیں اور یہ ایک دوسرے پر حملہ کر کے وہاں کے لوگوں کو نکال باہر کرتے تھے ‘ انہیں بھاگنے پر مجبور کردیتے تھے۔ لیکن اگر ان میں سے کچھ لوگ فرار ہو کر کسی کافر ملک میں چلے جاتے اور کفارّ انہیں غلام یا قیدی بنا لیتے اور یہ اس حالت میں ان کے سامنے لائے جاتے تو فدیہ دے کر انہیں چھڑا لیتے کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تمہارا اسرائیلی بھائی اگر کبھی اسیر ہوجائے تو اس کو فدیہ دے کر چھڑا لو۔ یہ ان کا جزوی اطاعت کا طرز عمل تھا کہ ایک حکم کو تو مانا نہیں اور دوسرے پر عمل ہو رہا ہے۔ اصل حکم تو یہ تھا کہ آپس میں خونریزی مت کرو اور اپنے بھائی بندوں کو ان کے گھروں سے مت نکالو۔ اس حکم کی تو پروا نہیں کی اور اسے توڑ دیا ‘ لیکن اس وجہ سے جو اسرائیلی غلام بن گئے یا اسیر ہوگئے اب ان کو بڑے متقیانہّ انداز میں چھڑا رہے ہیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے ‘ شریعت کا حکم ہے۔ یہ ہے وہ تضاد جو مسلمان امتوں کے اندر پیدا ہوجاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(84 ۔ 85): مدینہ میں اوس و خزرج دو بڑے قبیلے رہتے تھے۔ اسلام سے پہلے ان دونوں قبیلوں میں سخت عداوت تھی اور مدینہ کے اطراف میں یہود کے تین قبیلے بنی قنیقاع بنی نضیر اور بنی قریظہ رہتے تھے۔ بنی قنیقاع اور بنی نضیر کی عرب کے خزرج قبیلہ سے دوستی تھی اور بنی قریظہ کی اوس قبیلہ سے۔ جب یہ دونوں قبیلے عرب کے آپس میں لڑتے تو یہود بھی اپنے اپنے دوست قبیلہ کے ساتھ ہو کر لڑتے اور ایک طرف کے یہودیوں کے ہاتھ سے دوسری طرف کے یہودی مارے جاتے اور اگر ایک طرف کے یہود دوسری طرف گرفتار ہوجاتے تو تورات کے حکم کے موافق چھوڑوائی کی رقم دے کر اپنے قیدیوں کو ضرور یہود چھڑا لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں یہود کو قائل کیا کہ تورات میں جس طرح ایک یہودی کا دوسری یہود قیدی کی چھڑوائی دے کر چھوڑانے کا حکم ہے اسی طرح یہودیوں کی آپس کی لڑائی آپس کی جلاوطنی حرام ہے۔ پھر تورات کی بعض آیتوں پر اپنی مرضی کے موافق عمل کرنا اور بعض آیتوں پر عمل نہ کرنا یہ کونسی دینداری ہے۔ پھر فرمایا جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کی رسوائی عقبیٰ کا عذاب تمہاری سزا اللہ تعالیٰ کے نزدیک قرار پا چکی ہے دنیا کی رسوائی تو ہوچکی بنی قریظہ قتل ہوئے بنی نضیر بنی قینقاع جلا وطن کئے گئے۔ عقبیٰ کا عذاب باقی ہے جس کا ذکر آگے کی آیت میں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:84) لا تسفکون (مضاعر منفی صیغہ جمع مذکر حاضر) خبر بمعنی نہی۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو آیۂ سابقہ (2:83) لاتعبدون کے محاذ، تسفکون ۔ سفک مصدر (باب ضرب) سے مشتق ہے۔ جس کے معنی خون بہانا اور آنسو بہانے کے ہیں۔ لاتسفکون دماء کم آپس میں کشت و خون نہیں کروگے۔ دماء کم۔ مضاف، مضاف الیہ ۔ تمہارا خون فائدہ : لاتسفکون سے لے کر من دیارکم تک میثاق کا مضمون ہے اور یہ بدل ہے میثاق کا ثم اقررتم۔ ثم تراخی فی الرتبۃ۔ اقررتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے اترار (افعال) مصدر سے پھر تم نے اس پر پابند رہنے کا اعتراف بھی کرلیا۔ وانتم تشھدون۔ حال مؤکدہ ہے۔ یعنی اور تم اس بات کے گواہ ہو کہ یہ عہد ہوا تھا ۔ تشھدون مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر شھود (باب سمع) مصدر سے جس کے معنی حاضر ہونے اور موجود ہونے کے ہیں یا اس کا مصدر شھادۃ ہے جس کے معنی گواہی دینے کے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی آپس میں ایک دوسرے کو نہ قتل کرو اور نہ گھروں سے نکالو کیونکہ ملی زندگی اس کے بغیر ممکن نہیں یہاں قرآن نے آپس میں ایک دوسرے قتل کرنے کو اپنے تئیں قتل کرنا کہا ہے کیونکہ افرا ملت بمنزلہ ایک جسم کے ہوتے ہیں تو گو یا کسی کو قتل کرنا اپنے آپ کو قتل کرنا ہے۔ حدیث میں ہے : کہ اہل ایمان باہمی دوستی بیمار ہوتا ہے تو سارا دن بخار اور پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مسئلہ : اسلام میں خود کشی حرام اور کبیرہ گناہ ہے اسی طرح اپنے گھر کو چھوڑ کر بن باسی اختیار کرنا بھی ممنوع ہے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون نے چند صحا بہ کے ساتھ مل کر عہد کیا کہ وہ ٹاٹ کا لباس پہنیں گے اور گھر چھوڑ کر جنگلوں میں بھرتے رہیں گے انحضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا : کہ یہ میری سنت اور ملت اسلام کے خلاف ہے جو میری سنت سے اعراض برتے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرطبی۔ ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ عہد کا حصہ۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بنی اسرائیل سے اپنی بندگی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک، یتامٰی و مساکین کے ساتھ تعاون اور لوگوں سے خوش اخلاقی و خوش گفتاری کے ساتھ پیش آنے، نماز اور زکوٰۃ کا عہد لیا تھا۔ اسی طرح ان سے یہ عہد بھی لیا تھا کہ آپس میں دنگا فساد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے صلح وآشتی کے ساتھ رہنا۔ لیکن انہوں نے نہ صرف اس عہد کی مخالفت کی بلکہ قتل و غارت اور ظلم و زیادتی کا بازار گرم کیا۔ طاقت ور کمزور کے لیے وحشی درندے کی شکل اختیار کر گیا۔ ماضی میں جو کچھ فرعون ان کے ساتھ کیا کرتا تھا انہوں نے اس سے بڑھ کر اپنے لوگوں پر ظلم ڈھائے کہ کمزور طبقات کو ان کے گھروں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ طاقتور قبائل اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کو لڑایا کرتے اور پھر لوگوں کے سامنے سچا ہونے اور اپنے آپ کو مظلوموں کا خیر خواہ ثابت کرنے کے لیے حقوق انسانیت کے علمبردار بن جاتے اور مغلوب قبیلے کے قیدیوں کو رہائی دلانے کے لیے فدیے کا بندوبست کرتے تاکہ یہ لوگ ہمیشہ کے لیے ان کے ممنون رہیں۔ جس طرح امریکہ، برطانیہ اور دیگر اتحادیوں نے پہلے 2001 ء میں افغانستان اور عراق کے لاکھوں بےگناہ لوگوں کو شہید کیا اور پھر انسانیت اور تعمیر نو کے نام پر اپنے مفاد کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے اور لوگوں کو خوراک اور ادویات مہیا کیں تاکہ دنیا کو باور کرایا جائے کہ ہم ظالم نہیں خیر خواہ اور انسان دوست لوگ ہیں۔ مسائل ١۔ بنی اسرائیل سے کشت و خون نہ کرنے کا عہد لیا گیا۔ ٢۔ بنی اسرائیل سے اپنے لوگوں کو دربدر نہ کرنے کا عہد لیا گیا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اس سے آگے بھی کلام بنی اسرائیل کی طرف ہی ہے ۔ قرآن کریم ان کو مخاطب کرکے بتاتا ہے کہ ان کے موقف میں کیا کیا تضادات پائے جاتے ہیں ۔ اور کہاں کہاں وہ اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ (٨٤) ” پھر یاد کرو ! ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو بےگھر کرنا ۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم اس پر گواہ ہو ۔ “ پھر اس اقرار اور شہادت اور گواہی کے بعد کیا ہوا ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودیوں کی ایک خاص خلاف ورزی کا تذکرہ ان دونوں آیتوں میں یہودیوں کے ایک اور عہد اور قول وقرار کا اور پھر ان کی عہد شکنی کا تذکرہ فرمایا۔ زمانہ نزول قرآن کے وقت جو یہودی تھے ان کو اس قول وقرار کا بھی پتہ تھا جو یہودیوں سے لیا گیا تھا اور ان سے جو عہد شکنی اور خلاف ورزی سرزد ہوتی رہی تھی وہ بھی ان کے علم میں تھی ان سے اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمایا اور ان کو عہد شکنی یاد لائی اور ان کی دنیا و آخرت کی سزا بھی بتائی اور ساتھ ہی ساتھ اس میں حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت پر بھی دلیل قائم ہوگئی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہمارے اس قول وقرار اور عہد اور اس کی خلاف ورزی کا علم آپ کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوا ہے سب کچھ جاننے کے باوجود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ پہلے گزر چکا ہے کہ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے دو بڑے قبیلے بنی نضیر اور بنی قریظہ آباد تھے اور دو قومیں یمن سے آکر آباد ہوگئی تھیں ان میں سے ایک قبیلہ کا نام اوس تھا اور دوسرے کا نام خزرج تھا، یہ دونوں قبیلے بت پرست تھے اور یہودیوں کے دونوں قبیلے اپنے کو دین سماوی پر سمجھتے تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کی پابندی کا دم بھرتے تھے۔ اس زمانے میں عرب کا کچھ ایسا مزاج تھا کہ لڑائی کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ جب اوس اور خزرج میں لڑائی ہوتی تھی تو بنو قریظہ اوس کی مدد کرتے تھے اور بنو نضیر خزرج کے حمایتی بن جاتے تھے اس میں جہاں اوس اور خزرج کے افراد مارے جاتے اور گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوتے وہاں یہودیوں کے دونوں قبیلوں کے افراد بھی مارے جاتے تھے اور بہت سے افراد ترک وطن پر مجبور ہوجاتے تھے۔ اور جب بنی نضیر اور بنی قریظہ کے کسی فرد کو دشمن قید کرلیتا تو اس کے چھڑانے کے لیے ان کی دونوں جماعتیں پیسے خرچ کرنے کے لیے تیار ہوجاتی تھیں جب ان سے کوئی پوچھتا کہ تم اس کو کیوں چھڑا رہے ہو تمہاری حرکت سے تو وہ دشمن کے قبضے میں گیا ہے اور ترک وطن پر مجبور ہوا ہے۔ تو جواب دیتے تھے کہ ہم کو شریعت موسوی میں یہ حکم دیا گیا کہ جب کسی کو قیدی دیکھو تو اسے رہائی دلا دو ۔ لہٰذا ہم اس حکم کی پابندی کرتے ہیں وہ اس حکم پر عمل کرنے کو تو تیار تھے کہ قیدی کو رہائی دلا دو ۔ لیکن جس وجہ سے وہ گھر سے بےگھر ہوا اور دشمن کے چنگل میں پڑ کر قیدی ہوا اس کے اختیار کرنے یعنی اپنوں کے مقابلہ میں جنگ کرنے والوں کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ ان سے کہا جاتا تھا کہ تم یہ کیا کرتے ہو تم خود ہی اپنوں کے مقابلہ میں مددگار بنے اور اس قتال کی وجہ سے تمہارا آدمی گرفتار ہو کر قیدی ہوا، اب اس کے چھڑانے کو تیار ہو۔ ؟ اس کا جواب یہ دیتے تھے کہ چونکہ اوس اور خزرج ہمارے حلیف ہیں اس لیے ان کی مدد کرنے پر مجبور ہیں۔ اللہ جل شانہٗ نے اسی کو بیان فرمایا کہ :

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

161 یہ دوسری خباثت ہے۔ بنی اسرائیل سے تورات میں یہ بھی عہد لیا گیا تھا کہ وہ آپس میں اتفاق سے رہیں اور خانہ جنگیوں سے اجتناب کریں اپنے کسی بھائی کو اس کے گھر سے نہ نکالیں اور نہ ہی کسی کو قتل کریں۔ ثُمَّ اَقْــرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ ۔ اور تم نسلاً بعد نسلً اس عہد و پیمان کا اقرار کرتے چلے آئے ہو اور آج بھی تم معترف ہو کہ تم نے اس عہد کا اقرار کیا اور اسے قبول کیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 5 اور وہ زمانہ یاد کرو جب کہ ہم نے تم سے اس امر پر عہد لیا کہ تم آپس میں خون ریزی اور خانہ جنگی نہ کرنا اور تم ایک دوسرے کو جلا وطن نہ کرنا اور نہ ان کو ان کے گھروں سے نکالنے پر مجبور کرنا۔ پھر تم نے اس کا اقرار کیا اور تم بھی اپنے بڑوں کے اس اقرار کو مانتے ہو۔ (تیسیر) اوپر کی آیت میں باہمی حسن سلوک اور صلہ رحمی کا حکم تھا۔ یہاں خانہ جنگی، خون ریزی اور ایک دوسرے کو ستانے اور گھروں سے نکالنے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ باہمی احسان اور صلہ رحمی کی تکمیل اسی صورت میں ہو سکتیھی کہ اپنوں کو دکھ نہ پہنچائو اور ستائو نہیں بلکہ اچھا سلوک کرو۔ وانتم تشھدون کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہم نے ترجمہ میں عرض کیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یہودی بھی یہ مانتے تھے کہ ہمارے اسلاف نے توریت کے اس حکم کو تسلیم کیا تھا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وانتم تشھدون اسی اقرار کی تاکید ہو۔ اب معنی یہ ہونگے کہ اقرار بھی کوئی چلتا ہوا اقرار نہیں بلکہ اقرار بھی ایسا کہ تم اس کی شہادت بھی دیتے ہو۔ یعنی بہت پختہ اقرار اس آیت میں بھی عہد اور قول وقرار سے وہی توریت کا حکم مراد ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا تھا کہ ہر ہر حکم پر اقرار نامہ نہیں لکھا جاتا۔ بلکہ جو کتاب منزل من اللہ کو تسلیم کرلیتا ہے تو وہ اس کے تمام احکام کا پابند ہوجاتا ہے اور کسی کتاب کو آسمانی کتاب تسلیم کرلینا ہی اس کے سب احکام پر عمل کرنے کا عہد اور قول وقرار ہوجاتا ہے اور جس طرح توریت کا یہ حکم عام طور سے پہلے اور پچھلے سب یہودیوں کو تسلیم تھا اس طرح سوئے اتفاق سے توریت کے اس حکم کی مخالفت بھی عام تھی حتیٰ کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں جو یہودی تھے وہ بھی سب کے سب باہمی خوں ریزی اور اپنوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کے مرتکب ہوتے تھے۔ چناچہ آگے ارشاد فرماتے ہیں۔ (تسہیل)