Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 90

سورة البقرة

بِئۡسَمَا اشۡتَرَوۡا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمۡ اَنۡ یَّکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ بَغۡیًا اَنۡ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ۚ فَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۹۰﴾

How wretched is that for which they sold themselves - that they would disbelieve in what Allah has revealed through [their] outrage that Allah would send down His favor upon whom He wills from among His servants. So they returned having [earned] wrath upon wrath. And for the disbelievers is a humiliating punishment.

بہت بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انہوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا وہ انکا کفر کرنا ہے ۔ اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل شدہ چیز کے ساتھ محض اس بات سے جل کر کہ اللہ تعالٰی نے اپنا فضل اپنے جس بندہ پر چاہا نازل فرمایا اس کے باعث یہ لوگ غضب پر غضب کے مستحق ہو گئے اور ان کافروں کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said, بِيْسَمَا اشْتَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُواْ بِمَا أنَزَلَ اللّهُ بَغْياً ... How bad is that for which they have sold their own selves, that they should disbelieve in that which Allah has revealed (the Qur'an), Mujahid said that the Ayah, بِيْسَمَا اشْتَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ (How bad is that for which they have sold their own selves), means "The Jews sold the truth for falsehood and hid the truth about Muhammad." As-Suddi said that the Ayah, بِيْسَمَا اشْتَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ (How bad is that for which they have sold their own selves) means, "The Jews sold themselves." meaning, what is worse is what they chose for themselves by disbelieving in what Allah revealed to Muhammad instead of believing, aiding and supporting him. This behavior of theirs is the result of their injustice, envy and hatred, ... أَن يُنَزِّلُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَى مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ ... grudging that Allah should reveal of His grace unto whom He wills of His servants." There is no envy worse than this. Therefore, ... فَبَأوُواْ بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ ... So they have drawn on themselves wrath upon wrath. Ibn Abbas commented on this Ayah, "Allah became angry with them because they ignored some of the Tawrah and disbelieved in the Prophet that He sent to them." I (Ibn Kathir) say that; the meaning of, بَأوُواْ (And they drew on themselves) is that they deserved and acquired multiplied anger. Also, Abu Al-Aliyah said, "Allah became angry with them, because of their disbelief in the Injil and `Isa and He became angry with them again, because they disbelieved in Muhammad and the Qur'an." Similar was said by Ikrimah and Qatadah. Allah said, ... وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ And for the disbelievers, there is disgracing torment. Since their disbelief was a result of their transgression and envy, which was caused by arrogance, they were punished with disgrace and humiliation in this world and the Hereafter. Similarly, Allah said, إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَخِرِينَ Verily, those who scorn My worship (i.e. do not invoke Me, and do not believe in My Oneness) they will surely enter Hell in humiliation!" (40:60), meaning, "Disgraced, degraded and humiliated." Imam Ahmad narrated that Amr bin Shu`ayb said that his father said that his grandfather said that the Prophet said, يُحْشَرُ الْمُتَكَبِّرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِي صُوَرِ النَّاسِ يَعْلُوهُمْ كُلُّ شَيْءٍ مِنَ الصِّغَارِ حَتَّى يَدْخُلُوا سِجْنًا فِي جَهَنَّمَ يُقَالُ لَهُ بَوْلَسُ تَعْلُوهُمْ نَارُ الاَْنْيَارِ يُسْقَونَ مِنْ طِينَةِ الْخَبَالِ عُصَارَةِ أَهْلِ النَّار The arrogant people will be gathered on the Day of Resurrection in the size of ants, but in the shape of men. Everything shall be above them, because of the humiliation placed on them, until they enter a prison in Jahannam called `Bawlas' where the fire will surround them from above. They shall drink from the puss of the people of the Fire.

برا ہو حسد کا مطلب یہ ہے کہ ان یہودیوں نے حضور کی تصدیق کے بدلے تکذیب کی اور آپ پر ایمان لانے کے بدلے کفر کیا ۔ آپ کی نصرت و امداد کے بدلے مخالفت اور دشمین کی اس وجہ سے اپنے آپ کو جس غضب الٰہی کا سزاوار بنایا وہ بدترین چیز ہے جو بہترین چیز کے بدلے انہوں نے لی اور اس کی وجہ سے سوائے حسد و بغض تکبر و عناد کے اور کچھ نہیں چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قبیلہ میں سے نہ تھے بلکہ آپ عرب میں سے تھے اس لئے یہ منہ موڑ کر بیٹھ گئے حالانکہ اللہ پر کوئی حاکم نہیں وہ رسالت کے حق دار کو خوب جانتا ہے وہ اپنا فضل و کرم اپنے جس بندے کو چاہے عطا فرماتا ہے پس ایک تو توراۃ کے احکام کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے ان پر غضب نازل ہوا دوسرا حضور کے ساتھ کفر کرنے کے سبب نازل ہوا ۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ پہلا غضب حضرت عیسیٰ کو پیغمبر نہ ماننے کی وجہ سے اور دوسرا غضب حضرت محمد کو پیغمبر تسلیم نہ کرنے کے سبب سدی کا خیال ہے ۔ کہ پہلا غضب بچھڑے کے پوجنے کے سبب تھا دوسرا غضب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی بناء پر چونکہ یہ حسد و بغض کی وجہ سے حضور کی نبوت سے منکر ہوئے تھے اور اس حسد بغض کا اصلی باعث ان کا تکبر تھا اس لئے انہیں ذلیل عذابوں میں مبتلا کر دیا گیا تاکہ گناہ کا بدلہ پورا ہو جائے جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ ) 40 ۔ غافر:60 ) میری عبادت سے جو بھی تکبر کریں گے وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں متکبر لوگوں کا حشر قیامت کے دن انسانی صورت میں چیونٹیوں کی طرح ہو گا جنہیں تمام چیزیں روندتی ہوئی چلیں گی اور جہنم کے بولس نامی قید خانے میں ڈال دیئے جائیں گے جہاں کی آگ دوسری تمام آگوں سے تیز ہو گی اور جہنمیوں کا لہو پیپ وغیرہ انہیں پلایا جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

90۔ 1 غضب پر غضب کا مطلب ہے بہت زیادہ غضب کیونکہ بار بار وہ غضب والا کام کرتے رہے جیسا کہ تفصیل گزری اور اب محض حسد کی وجہ سے قرآن اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٦] ان یہود کے بغض وعناد کی اصل وجہ یہ تھی کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی قوم سے کیوں نہیں آیا۔ اور اس قوم میں کیوں پیدا ہوا ہے ؟ جسے یہ ان پڑھ، اجڈ اور اپنے سے حقیر تر سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کاموں کی حکمتیں خود بہتر سمجھتا ہے اور اپنے بندوں میں سے جسے مناسب سمجھتا ہے رسالت سے نوازتا ہے۔ تم اس کے فضل کے ٹھیکیدار تو نہیں کہ تم سے اللہ پوچھ کر اور جسے تم چاہو اسے رسالت عطا فرمائے۔ [١٠٧] یہود کے جرائم کی فہرست تو بہت طویل ہے جن میں سرفہرست ایک نبی کی موجودگی میں بچھڑے کی پرستش، انبیاء کا قتل اور دیدہ دانستہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار ہے اور ایسے جرائم کی سزا تو جتنی بھی ہو وہ کم ہے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر عذاب ذلت کے لیے نہیں ہوتا بلکہ گنہگار مسلمانوں کو جو عذاب ہوگا وہ انہیں گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ہوگا۔ ذلیل و رسوا کرنے کے لیے نہ ہوگا۔ البتہ کافروں کو جو عذاب دیا جائے گا وہ بغرض تذلیل ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعنی انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچان لینے کے باوجود کہ یہ وہی نجات دلانے والا ہے جس کے آنے کی وہ دعائیں کرتے تھے، آپ کا انکار کیا، تو اس کی وجہ صرف ان کی یہ ضد، نسلی تعصب اور حسد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی ان میں کیوں نہیں بھیجا اور اپنے فضل سے ایک ان پڑھ قوم عرب کو کیوں نوازا۔ یہ نہ سوچا کہ اللہ اپنے فضل کا خود مالک ہے، وہ جسے چاہے نواز دے۔ ان کے اس حسد کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ غضب پر غضب لے کر پلٹے۔ پہلے جرائم، جن کا گزشتہ آیات میں ذکر ہے، ان میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے غضب کا باعث تھا، مثلاً بچھڑے کی عبادت، تورات میں تحریف، رسولوں کا قتل، عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب وغیرہ، اب آخر الزمان نبی کو جھٹلایا تو مزید غضب کا نشانہ بنے، چناچہ ” فَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰي غَضَبٍ ۭ“ کا معنی پہلا اور دوسرا غضب نہیں، بلکہ بار بار اور بڑا غضب ہے، جس کی وجہ سے انھیں ” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “ فرمایا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Prophethood cannot be earned through one&s own efforts or one&s own merit; it is a special grace which Allah bestows on whomsoever He likes. But the Jews were so envious and malicious that they denied the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the Holy Qur&an out of sheer spite. In doing so, they were questioning the will of Allah Himself. Thus, they earned divine wrath in two ways - firstly, for denying a true prophet; and secondly؛ for their envy and malice. The Holy Qur&an says that the Jews will have to undergo a punishment which would involve not only pain, but also disgrace and abasement. The latter condition has been added to suggest that this kind of punishment is peculiar to the infidels, and is not meant for a true Muslim at all, for a Muslim, no matter how great his sins are, will be punished for the purpose of being purified, not for being disgraced. The next verse reports what the Jews used to say with regard to the Holy Qur&an, which clearly shows their envy and malice as well as their infidelity (Kufr کفر).

خلاصہ تفسیر : وہ حالت (بہت ہی) بری ہے جس کو اختیار کرکے (وہ بزعم خود) اپنی جانوں کو (عقوبت آخرت سے) چھڑانا چاہتے ہیں (اور وہ حالت) یہ (ہے) کہ کفر (انکار) کرتے ہیں ایسی چیز کا جو حق تعالیٰ نے (ایک سچے پیغمبر پر) نازل فرمائی (یعنی قرآن اور وہ انکار بھی) محض (اس) ضد پر کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جس بندہ پر اس کو منظور ہو (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیوں) نازل فرما دے سو ( اس حسد بالائے کفر سے) وہ لوگ غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے اور (آخرت میں) ان کفر کرنے والوں کو ایسی سزا ہوگی جس میں (تکلیف کے علاوہ) ذلت (بھی) ہے۔ فائدہ : ایک غضب کفر پر دوسرا حسد پر یوں غضب بالائے فرمایا عذاب کے ساتھ مہین کی قید سے بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ عذاب کفار کے ساتھ خاص ہے کیونکہ گناہگار مومن کو عذاب اس کو پاک کرنے کے لئے ہوگا ذلت کے لئے نہیں، آگے کی آیت میں جو ان کا قول نقل کیا ہے اس سے ان کا کفر ثابت ہوتا ہے اور حسد بھی مترشح ہوتا ہے ،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ اَنْ يَّكْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ بَغْيًا اَنْ يُّنَزِّلَ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝ ٠ ۚ فَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰي غَضَبٍ۝ ٠ ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۝ ٩٠ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے شری الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] ، أي : باعوه، ( ش ر ی ) شراء اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ بَوءَ أصل البَوَاء : مساواة الأجزاء في المکان، خلاف النّبو الذي هو منافاة الأجزاء . يقال : مکان بَوَاء : إذا لم يكن نابیا بنازله، وبَوَّأْتُ له مکانا : سوّيته فَتَبَوَّأَ ، وبَاءَ فلان بدم فلان يَبُوءُ به أي : ساواه، قال تعالی: وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً [يونس/ 87] ، وَلَقَدْ بَوَّأْنا بَنِي إِسْرائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ [يونس/ 93] ، تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] ، يَتَبَوَّأُ مِنْها حَيْثُ يَشاءُ [يوسف/ 56] ، وروي أنه : (کان عليه السلام يتبوّأ لبوله كما يتبوّأ لمنزله) وبَوَّأْتُ الرمح : هيأت له مکانا، ثم قصدت الطعن به، وقال عليه السلام : «من کذب عليّ متعمّدا فلیتبوأ مقعده من النّار» وقال الراعي في صفة إبل : لها أمرها حتی إذا ما تبوّأت ... بأخفافها مأوى تبوّأ مضجعا أي : يتركها الراعي حتی إذا وجدت مکانا موافقا للرعي طلب الراعي لنفسه متبوّأ لمضجعه . ويقال : تَبَوَّأَ فلان کناية عن التزوّج، كما يعبّر عنه بالبناء فيقال : بنی بأهله . ويستعمل البَوَاء في مراعاة التکافؤ في المصاهرة والقصاص، فيقال : فلان بواء لفلان إذا ساواه، وقوله عزّ وجلّ : باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال/ 16] ، أي : حلّ مبّوأ ومعه غضب الله، أي : عقوبته، وقوله : بِغَضَبٍ في موضع حال، کخرج بسیفه، أي : رجع، لا مفعول نحو : مرّ بزید . واستعمال ( باء) تنبيها علی أنّ مکانه الموافق يلزمه فيه غضب الله، فكيف غيره من الأمكنة ؟ وذلک علی حدّ ما ذکر في قوله : فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران/ 21] ، وقوله : إِنِّي أُرِيدُ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ [ المائدة/ 29] أي : تقیم بهذه الحالة . قال : أنكرت باطلها وبؤت بحقّها وقول من قال : أقررت بحقها فلیس تفسیر ه بحسب مقتضی اللفظ . والبَاءَة كناية عن الجماع . وحكي عن خلف الأحمر أنه قال في قولهم : حيّاک اللہ وبيّاك : إنّ أصله : بوّأك منزلا، فغيّر لازدواج الکلمة، كما غيّر جمع الغداة في قولهم : آتيه الغدایا والعشایا ( ب و ء ) البواء ۔ کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزا کا مساوی ( اور سازگار موافق) ہونے کے ہیں ۔ یہ نبوۃ کی ضد ہے جس کے معنی اجزاء کی ناہمواری ( ناسازگاری ) کے ہیں ۔ لہذا مکان بواء اس مقام کے کہتے ہیں ۔ جو اس جگہ پر اترنے والے کے ساز گار اور موافق ہو ۔ بوات لہ مکانا میں نے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا اور تبوات اس کا مطاوع ہے جس کے معنی کسی جگہ ٹھہرلے کے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ { وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا } ( سورة يونس 87) اور ہم نے موسیٰ اور اس گے بھائی کی طرف دحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ ۔ { وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ } ( سورة يونس 93) اور ہم نے نبی اسرائیل کور رہنے کو عمدہ جگہ دی ۔ { تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ } ( سورة آل عمران 121) ایمان والوں کو لڑائی کے لئے مورچوں پر ( موقع بہ موقع ) متعین کرنے لگے ۔ يَتَبَوَّأُ مِنْها حَيْثُ يَشاءُ [يوسف/ 56] وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے رہتے تھے ۔ ایک روایت میں ہے (45) انہ کان (علیہ السلام) یتبواء لبولہ کما یتبوا المنزلہ کہ آنحضرت پیشاب کرنے کے لئے ہموار اور مناسب جگہ تلاش کرتے جیسے کوئی شخص اقامت کے لئے جگہ تلاش کرتا ہے ۔ بوآت الرمح میں نے مناسب جگہ پر نیزہ مارا ۔ ایک حدیث میں ہے (40) من کذا علی متعمدا فلیتبواء مقعدہ من النار جو عمدا مجھ پر جھوٹ لگائے اس کا ٹھکانا جہنم ہے الراعی نے اونٹوں کی صفت میں کہا ہے ع (71) لھا امر ھا حتیٰ اذا ماتبوات باخفا فھا ماؤی تبوا مضجعا یعنی چرواہا اونٹ چھوڑ دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب وہ چرنے کے لئے جگہ ہمورا پالیتے ہیں تو وہ اپنی آرام گاہ پر آکر سوجاتا ہے ۔ اور تبواء فلان ( کنایہ ) کے معنی نکاح کرنے کے ہیں جیسا کہ بنیٰ باھلہ وغیرہ اس معنی میں استعمال ہوتا ہے اور بواء کا لفظ مصاہرت یا قصاص میں برابر ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے فلان بواء لفلان ۔ وہ فلاں کا ہمسر ہے یعنی رشتہ مصاہرت میں اس کا کفو ہے یا قصاص میں اس کے مساوٰی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال/ 16] کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایسی جگہ پر اترا کہ اس کے ساتھ اللہ کا غضب یعنی عقوبت ہے ۔ تو یہاں بغضب موضع حال میں ہے جیسے خرج بسیفہ میں ہے اور مربزید کی طرح مفعول نہیں ہے ۔ اور بغضب پر باد لاکر تنبیہ کی ہے کہ موافق جگہ میں ہونے کے باوجود غضب الہی میں گرفتار بےتو ناموافق جگہ میں بالاولیٰ اس پر غضب ہوگا ۔ لہذا یہ فبشرھم بعذاب کی مثل ہے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ [ المائدة/ 29] میں بتوء باثمی کے معنی یہ ہیں کہ تو ا س حالت کے ساتھ ہمیشہ رہے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (72) ، ، انکرت باطلھا ویؤت بحقہا ، ، میں نے اس کے باطل کے انکار کیا اور اس کے حق پر اقرار کیا ۔ جن لوگوں نے اس کے معنی اقررت بحقھا یعنی اس کے حق کا اقرار کیا ) کئے ہیں تو یہ تفسیر متقضی لفظ کے مطابق نہیں ہے ۔ الباءۃ : ۔ کنایہ ازجماع خلف الاحمر منقول ہے کہ حیاک اللہ و بیاک اللہ میں بیاک اصل میں بوؤک منزلا ہے جیسا کہ اتیتہ الغدایا والعشایا میں ہے یعنی عشایا کی مناسبت سے غدایا کہا جاتا ہے ۔ غضب الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] ، قيل : هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ : الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» . ( غ ض ب ) الغضب انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا هان الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ به فيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت سے مروی ہے کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کت اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ بی مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہل کہ بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ فاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٠) جس چیز کا بدلہ میں ان لوگوں نے اپنی جانوں کو فروخت کردیا ہے کہ حسد کی وجہ سے کتاب اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت جبریل امین (علیہ السلام) کے واسطے سے نبوت اور کتاب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتار دی ہے یہ لوگ لعنت پہ لعنت کے حق دار ہیں اور ان کے لیے بہت ہی کڑا قسم کا عذاب ہے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٠ (بِءْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ ) یعنی دنیا کا حقیر سا فائدہ ‘ یہاں کی حقیر سی منفعتیں ‘ یہاں کی مسندیں اور چودھراہٹیں ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہیں اور وہ اپنی فلاح وسعادت اور نجات کی خاطر ان حقیر سی چیزوں کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ (اَنْ یَّکْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ ) (بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ج) یہود اس امید میں تھے کہ آخری نبی بھی اسرائیلی ہی ہوگا ‘ اس لیے کہ چودہ سو برس تک نبوت ہمارے پاس رہی ہے ‘ یہ فترۃ کا زمانہ ہے ‘ جسے چھ سو برس گزر گئے ‘ اب آخری نبی آنے والے ہیں۔ ان کو یہ گمان تھا کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں سے ہوں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت اور یہ فضل بنی اسماعیل پر ہوگیا۔ اس ضدم ضدا کی وجہ سے یہود عناد اور سرکشی پر اتر آئے۔ اس بَغْیًا کے لفظ کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ دین میں جو اختلاف ہوتا ہے اس کا اصل سبب یہی ضدم ضدا والا رویہ ہوتا ہے ‘ جسے قرآن مجید میں بَغْیًا کہا گیا ہے۔ یہ لفظ قرآن میں کئی بار آیا ہے۔ ّ عہد حاضر میں علم نفسیات (Psychology) میں ایڈلر کے مکتبۂ فکر کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کا نقطۂ فظر یہ ہے کہ انسان کے جبلی افعال (instincts) اور محرکاتّ (motives) میں ایک نہایت طاقتور محرک غالب ہونے کی طلب (Urge to dominate) ہے۔ چناچہ کسی دوسرے کی بات ماننا نفس انسانی پر بہت گراں گزرتا ہے ‘ وہ چاہتا ہے کہ میری بات مانی جائے ! بَغْیًا کے معنی بھی حد سے بڑھنے اور تجاوز کرنے کے ہیں۔ دوسروں پر غالب ہونے کی خواہش میں انسان اپنی حد سے تجاوز کرجاتا ہے۔ یہی معاملہ یہود کا تھا کہ انہوں نے دوسروں پر رعب گانٹھنے کے لیے ضدام ضدا کی روش اختیار کی ‘ محض اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کے ایک شخص محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے فضل سے نواز دیا۔ ّ َ (فَبَآءُ ‘ وْ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍط۔ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے۔ (وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ) ۔ مُھِیْنٌ اہانت سے بنا ہے۔ ان کی اس روش کی وجہ سے ان کے لیے اہانت آمیز عذاب مقرر ہے۔ّ

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

96. Another possible rendering of the same verse is: 'And how evil is that for the sake of which they have sold themselves', i.e. for the sake of which they have sacrificed their ultimate happiness and salvation. 97. They had longed for the promised Prophet to arise from among their own people. But when he arose among a diffirent people, a people they despised, they decided to reject him. It was as if they thought God was duty-bound to consult them in appointing Prophets, and since in this case He had failed to do so they felt they had a right to be offended by God's 'arbitrariness'.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :96 اس آیت کا دُوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : ” کیسی بری چیز ہے ، جس کی خاطر انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ۔ “ یعنی فلاح و سعادت اور اپنی نجات کو قربان کر دیا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :97 یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والا نبی ان کی قوم میں پیدا ہو ۔ مگر جب وہ ایک دُوسری قوم میں پیدا ہوا ، جسے وہ اپنے مقابلےمیں ہیچ سمجھتے تھے ، تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہوگئے ۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا جب اس نے ان سے نہ پُوچھا اور اپنے فضل سے خود جسے چاہا ، نواز دیا ، تو وہ بگڑ بیٹھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

62: یعنی ایک غضب کے مستحق تو وہ اپنے کفر کی وجہ سے تھے دوسرا غضب ان پر حسد اور ضد کی وجہ سے ہوا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اللہ تعالیٰ غصہ پر غصہ اس لئے ہوا کہ ایک تو ان یہود لوگوں نے اللہ کی کتاب تورات کی آیتوں کو بدل ڈالا دوسری انجیل کے کتاب الٰہی اور حضرت عیسیٰ السلام کے نبی ہونے کا انکار کیا۔ تیسرے نبی آخر الزمان کو نبی برحق اور قرآن کو کتاب الٰہی جان کر محض اس حسد سے ان کے منکر ہوئے کہ ہماری قوم میں مدت سے نبوت چلی آتی تھی غیر قوم بنی اسماعیل میں یہ نبوت کیوں گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان باتوں سے انہوں نے اور کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔ خود آپ ہی ذلت کے عذاب میں گرفتار ہوئے۔ ذلت کا عذاب اس لئے فرمایا کہ یہود نے اس تکبر نخوت اور خود پسندی کے سبب سے نبی آخر الزمان کی نبوت کا انکار کیا کہ وہ نخوت کی راہ سے اپنے آپ کو اپنی قوم کو بنی اسماعیل سے عالی درجہ سمجھتے تھے۔ ان کے اس تکبر نے اجازت نہیں دی کہ وہ غیر قوم کے نبی کے فرمانبرداری کریں اور یہ بات علم الٰہی میں قرار پا چکی ہے کہ قیامت کے دن ہر صاحب نخوت آدمی کو عذاب ہوگا جس میں اس کی ذلت ہو۔ چناچہ مسند امام احمد نسائی اور ترمذی میں معتبر سند سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن کے متکبر لوگ چیونٹیوں کے جسم کے برابر آدمی کی صورت میں اٹھیں گے۔ اور تمام مخلوقات کے روندنے میں آئیں گے ١ تاکہ سب مخلوقات میں ان کی ذلت ہو۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

بئسما مرکب ہے بئس اور ما سے۔ بئس فعل ذم ہے۔ اس کی گردان نہیں آتی۔ بمعنی برا ہے اصل میں بئس تھا۔ باب سمع سے ۔ عین کلمہ کے اتباع میں اس کے فاء کلمہ کو کسرہ دیا گیا۔ پھر تخفیف کے لئے عین کلمہ کو ساکن کرلیا گیا بئس ہوگیا۔ ما موصولہ ہے بمعنی الذی اور بئس کا فاعل ہے۔ پس بری ہے وہ چیز جس کے لئے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔ ان یکفروا بما انزل اللہ : ان مصدریہ ہے۔ بغیا۔ مفعول لہ ہے یکفروا کا۔ معنی بوجہ سرکشی ، زیادتی ، ضد، حسد ان ینزل اللہ۔۔ من عبادہ ان مصدریہ ہے یہ جملہ بغیا کا مفعول لہ ہے۔ مطلب یہ کہ جس چیز کے بدلے انہوں نے اپنی جانو (رض) کا سودا چکایا وہ بہت بری ہے۔ اور سودا کیا تھا ؟ یہ کہ انہوں نے انکار کردیا اس کلام سے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (اور ان کے انکار کی وجہ کیا تھی ؟ ) بغیا۔ یعنی ان کی سرکشی ضدوحس (جو ان کے انکار کے محرکات تھے) (اور ان محرکات کی کیا وجہ تھی ؟ ) یہ کہ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے ازراہ فضل اپنا کلام کیوں نازل فرماتا ہے۔ ان کی توقعات و خواہشات کی تکمیل کیوں نہیں ہوتی ؟ (کہ یہ نبی جس پر قرآن نازل ہو رہا ہے بنی اسرائیل میں سے ہونا چاہیے تھا نہ کہ اولاد اسماعیل (علیہ السلام) سے) فباء وا۔ ف عاطفہ ہے۔ باء وا ماضی جمع مذکر غائب بوء مصدر سے (باب نصر) انہوں نے کمایا وہ لوٹے۔ سو انہوں نے کمایا (غضب بالائے غضب) یعنی اپنے پر غضب بالائے غضب لے آئے۔ غضب علی غضب۔ غضب کے بعد غضب، یہاں اس سے مراد محض وہ غضب نہیں بلکہ پے درپے متعدد غضب۔ مثلاً ایک تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کا انکار کیا۔ اور اللہ کا ان پر اس سبب سے غضب ہوا۔ اور اس سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کا انکار کرنے اور توراۃ پر عمل نہ کرنے۔ گئوسالہ کی عبادت کرنے وغیرہ سے بھی غضب الٰہی میں مبتلا تھے اب غضب پر غضب ہوگیا۔ مھین۔ اسم فاعل واحد مذکر اھاتۃ مصدر (افعال) ھون۔ مادہ ۔ ذلیل کرنے والا۔ اہانت آمیز

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی انہوں نے جو قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے انکار کیا اس کی وجہ ان کا صرف یہ حسد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری ان میں کیوں نہ بھیجا اور اپنے فضل سے ایک ان پڑھ قوم عرب کو کیوں نوازا ؟ ان کے حسد کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اللہ کا وہ ہر غضب مول لیا۔ پہلا غضب اس وجہ سے کہ انہوں نے تورات میں تحریفیں کیں انجیل اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا اور دوسرا غضب اس وجہ سے کہ وہ قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر محض صد اور حسد کی وجہ سے ایمان نہ لائے اسی طرح یہود نے اور بھی بہت سے جرائم کے تھے جن کی وجہ سے ان پر اللہ کا غضب اترا ہے پس غضب علی غضب کے معنی پہلا اور دوسرا غضب نہیں ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا غضب نازل ہوا جس کی وجہ سے ان کو مغضوب علیہم فرما گیا گیا ہے۔ (قرطبی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ ایک غضب تو کفر پر تھا ہی دوسرا غضب ان کے حسد پر ہوگیا۔ اور عذاب مھین کی قید سے تخصیص کفار کی ہوگئی کیونکہ مومن عاصی کو عذاب تطہیر عن الذنوب کا ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہود کے گھناؤنے کردار کے پیچھے دنیا کے مفاد کے ساتھ حسدو بغض بھی شامل ہے جس کی بنا پر نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ ” بغیًا “ کا معنٰی ہے کسی کام یا بات پر خواہ مخواہ اڑ جانا۔ یہ لفظ حقیقت کے برعکس کام کرنے کے لیے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ یہود نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و حمایت کرنے کی بجائے اس بنا پر تمرّد اور انکار کا راستہ اختیار کیا کہ نبی تو ہم میں سے ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ نبوت صرف بنی اسرائیل کا استحقاق ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ نبوت کسی خاندان یا قوم اور علاقے کا استحقاق نہیں یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب اور فضل ہے۔ وہ اپنے پیغام اور کام کے لیے جس کو چاہے پسند کرتا ہے۔ اہل کتاب دنیا کی حشمت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغض کی بنا پر کفر کا راستہ اختیار کرکے ہمیشہ کے لیے خدا کی پھٹکار اور ذلت کے مستحق قرار پائے۔ ایسے منکروں کے لیے ذلّت ناک عذاب تیار ہوچکا ہے۔ تورات کے منکر، انبیاء کے قاتل اور مزید یہ کہ سرور گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عداوت اور کتاب مبین کے ساتھ حسد کر کے ” غَضَبٌ عَلٰی غَضَبٍ “ کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے یہ لوگ دنیا کی ذلت اور آخرت کے ذلیل ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ مسائل ١۔ یہودی دنیا میں بھی ذلیل ہو کر رہیں گے۔ ٢۔ ضد انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ ٣۔ نبوت کسی کا استحقاق نہیں یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب ہوتا ہے۔ ٤۔ حق کا انکار کرنیوالوں کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے آخری انتخاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمایا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ ” کیا بری ہے وہ قیمت جس سے یہ اپنے نفس فروخت کرتے ہیں کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے ، اس کو قبول کرنے سے صرف اس ضد کی بناپر انکار کررہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل (وحی و رسالت) سے اپنے جس بندے کو خود چاہا نواز دیا ! لہٰذا اب یہ غضب بلائے غضب کے مستحق ہوگئے ہیں اور ایسے کافروں کے لئے سخت ذلت آمیز سزا مقرر ہے۔ “ انہوں نے جان بوجھ کر اپنی جان کے بدلے جو کفر خریدا ہے ، وہ انکے لئے بہت گھاٹے کا سودا ہے ۔ گویا انہوں نے اپنی جان قیمت کفر کو قرار دیا ۔ انسان اپنے آپ کی کم وبیش کوئی نہ کوئی قیمت لگاتا ہے اور اگر وہ اپنی ذات کو کفر کے عوض فروخت کردے تو یہ اس کے لئے سخت خسارے کا سودا ہوگا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا اگرچہ یہ بات یہاں بطور رتمثیل اور منظر کشی کے بیان ہوئی ہے ۔ دنیا میں انہیں یہ خسارا ہوا کہ وہ اس قابل احترام قافلہ ایمان کے ممبر نہ بن سکے ۔ اور آخرت کا خسارہ یہ ہوا کہ نہایت ذلت آمیز عذاب ان کے لئے چشم براہ ہے ۔ کیونکہ ان کا آخری خاتمہ کفر پر ہوا اور اپنی پوری زندگی میں انہوں نے کفر ہی کمایا۔ انہیں اس روش پر جس چیز نے مجبور کیا وہ صرف یہ تھی کہ ان کے دل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حسد سے بھرے ہوئے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ نبی آخرالزمان ان میں سے ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتخاب فرمایا۔ وہ اپنے دلوں میں یہ وسعت پیدا کرتے ہوئے یہ برداشت نہ کرسکے کہ اللہ اپنے فضل وکرم اور وحی و رسالت سے جسے چاہے نوازدے۔ ان کا یہ طرز عمل صریح ظلم اور حد سے تجاوز تھا ۔ اور اس ظلم وتعدی کی وجہ سے یہ لوگ غضب بالائے غضب کے مستحق ہوکر لوٹے ۔ چناچہ اس استکبار ، حسد اور مذموم تعدی کی سزا کے طور پر ایک ذلت آمیز عذاب ہے جوان کے لئے چشم براہ ہے۔ یہودیوں کے اندر اس قسم کا جو ایک خاص مزاج پایا جاتا ہے ، یہ احسان فراموشی کا مزاج ہے اور جو لوگ یہ مزاج رکھتے ہیں وہ شدید ترین تعصب کے محدود دائرے میں خود غرضانہ زندگی بسر کرنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ ہر وقت یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کی خیروفلاح درحقیقت ان کی محرومی ہے ۔ ایسے لوگ انسانیت کے وسیع ترین تصور اخوت کے شعور سے عاری ہوتے ہیں ۔ یہودیوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے سالہا سال تک اسی ذہنیت کے ساتھ پوری انسانیت سے علیحدگی کی زندگی بسر کی ۔ گویا کہ شجر انسانیت سے انہیں کوئی تعلق نہ تھا۔ بلکہ وہ ہمیشہ پوری انسانیت کے خلاف سازشیں کرتے رہے ۔ وہ ہمیشہ اپنے دلوں کے اندر پوری انسانیت کے خلاف بغض اور حسد کی آگ سلگاتے رہے اور یوں یہ بغض وحسد ان کے لئے بلائے جان بنے رہے ۔ اس بغض اور کینہ کا مزہ وہ پوری انسانیت کو چکھاتے رہے کہ انہوں نے ہمیشہ بعض اقوام کو دوسری اقوام کے خلاف بھڑکایا اور انہیں باہم لڑایا تاکہ وہ ان جنگوں کے نتیجہ میں مالی منفعت حاصل کریں ۔ اور اس طرح اپنے دلوں میں بغض وحسد کی سدا سلگنے والی آگ کو بجھاتے رہیں۔ انہوں نے ہمیشہ مختلف اقوام پر ایسی تباہیاں لانے کی سازشیں کیں ، جس کے نتیجہ میں بعض اوقات خود یہ لوگ بھی تباہ ہو اور برباد ہوتے رہے ۔ شر اور فساد کا یہ طویل سلسلہ ہمیشہ اس لئے بپا ہوا کہ یہودیوں کے دل انسانیت کے خلاف حسد وبغض سے بھرے ہوئے تھے اور یہ لوگ انتہائی خود غرضانہ ذہنیت کے مالک تھے ؟ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ” صرف اس ضد کی بناپر کہ اللہ نے اپنے فضل (وحی و رسالت) سے اپنے جس بندے کو خود چاہا نواز دیا ۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اَنْ یَّکْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بَغْیًا) میں یہ بتایا کہ انہوں نے اپنی جانوں کو دوزخ کا مستحق اس لیے بنایا کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے اختیار فرمانے سے عناد ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے نبوت اور رسالت عطا کرے اور جس بندے پر چاہے اپنی کتاب اتارے اسے پورا پورا اختیار ہے اس میں کسی کو اعتراض کرنے کا اور یہ ضد کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں کو کیوں نبی بنایا اور فلاں کو نہیں بنایا ؟ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت سے منکر ہو کر کافر ہوئے پھر اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرکے کافر ہوئے۔ اور اللہ کے رسول محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ کی کتاب قرآن مجید کے منکر ہو کر کفر ہی کفر میں ترقی کرتے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کے غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے۔ لہٰذا آخرت میں ذلت کے عذاب میں گرفتار ہوں گے لفظ اشتروا کے بارے میں مفسر بیضاوی لکھتے ہیں کہ باعُوْا وشروا بحَسْبِ ظَنِّھِمْاور صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : اَی باعوا، فالانفس بمنزلۃ المثمن والکفر بمنزلۃ الثمن لان انفسھم الخبیثۃ لا تشتریٰ بل تباع و ھو علی الاستعارۃ أی أنھم اختاروا الکفر علی الایمان و بذلوا أنفسھم فیہ ” یعنی انہوں نے اپنے نفسوں کو بیچ دیا اور ان کے عوض کفر کو بطور قیمت کے لے لیا اور یہ معنی لینا زیادہ مناسب ہے کیونکہ ان کے خبیث نفس خریداری کے قابل نہیں بیچنے ہی کے لائق ہیں مطلب یہ ہے کہ اپنی جانوں کو بیچ ڈالا یعنی برباد کردیا اور کفر کو بطور قیمت کے حاصل کرلیا۔ “ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اشتروا اپنے مشہور معنی میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنے اعتقاد میں یہ سمجھا کہ جو طریقہ ہم نے اختیار کیا ہے اس سے جانوں کو دوزخ کے عذاب سے چھڑا لیں گے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا (بِءْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ ) کہ ان کا یہ خیال غلط ہے کہ اس سے وہ عذاب سے بچ جائیں گے قال صاحب الروح ص ٣٢١ فھؤلاء الیھود لما اعتقدوا فیما اتوا بہ أنہ یخلصھم من العقاب ظنوا أنھم اشتروا أنفسھم و خلّصوھا فذمھم اللّٰہ علیہ۔ اگر یہ لوگ نبی آخرالزمان پر ایمان لاتے تو اپنی جانوں کو دوزخ سے بچا لیتے، منکر اور منحرف ہو کر ہمیشہ کے دائمی عذاب کے مستحق ہوگئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

177 یہاں اشترائ کے معنے بیچنے کے ہیں یعنی جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جانیں بیچ دی ہیں اور جس کام کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے وہ بہت برا ہے۔ یہ نوع خامس کا تتمہ ہے۔ اَنْ يَّكْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۔ یہ بئس کا مخصوص بالذم ہے یعنی جس برے کام کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ آیات بینات کا کفر و انکار ہے اور مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۔ جس کا کا کِتَاب مصدق کے الفاظ میں پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ والمراد بما انزل اللہ کتب مصدق (روح ص 321 ج 1) بَغْيًا اَنْ يُّنَزِّلَ اللّٰهُ ۔ بَغْيًا، اَنْ يَّكْفُرُوْا۔ کا مفعول لہ ہے اور ان کے کفر و انکار کی علت بیان کر رہا ہے اور مِنْ فَضْلِہٖ سے وحی مراد ہے۔ اور مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۔ سے مراد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب نے قرآن کا انکار کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں کیا وہ قرآن کے کلام اللہ ہونے کو اچھی طرح جانتے ہیں اور انکار محض بغض وحسد کی بنا پر کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ آخری نبی بھی ہمارے خاندان بنی اسرائیل ہی میں سے ہوگا۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ تو بنی اسمعیل میں پیدا ہوگیا ہے تو حسد کرنے لگے کہ بنی اسمعیل کے پیغمبر پر کیوں وحی نازل ہوئی ہے۔ انھم ظنوا ان ھذا الفضل العظیم بالنبوۃ المنتظرۃ یحصل فی قومھم فلما وجدوہ فی العرب حملھم ذلک علی البغی والحسد (کبیر ص 620 ج 1) یعنی وہ دوہرے غضب کے مستحق ہوگئے ایک غضب تو توحید کو چھوڑ کر شرک کرنے اور گوسالہ پرستی کی وجہ سے نازل ہوا، اور دوسرا غضب آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ ماننے کی وجہ سے ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ مُّهِيْن۔ اور ان کافروں کے لیے ایسا عذاب تیار ہے جو ان کے بغض وعناد اور کبر و غرور کو توڑ کر انہیں ذلیل و خوار کردے گا۔ اب آگے یہود کے دعوی و ایمان کی تردید وتکذیب ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے پانچ دلیلیں قائم فرمائی ہیں۔ یہود کے ایک قول باطل کی تردید یہاں تک افہام و تفہیم اور تبلیغ و ارشاد کے تمام ذرائع اور طریقے استعمال کرنے کے بعد آگے یہودیوں کی انتہائی ضد اور ہٹ دھرمی کا شکوہ کیا جارہا ہے اور ان کی غلط بیانی کا مسکت جواب دیا جا رہا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 وہ چیز بہت بری ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو ریدا اور وہ بری چیز یہ ہے کہ انہوں نے محض حسد کی بنا پر اس چیز سے انکار کردیا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے ۔ یعنی قرآن اور اس حسد کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ قرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے بندوں میں سے جس بندے پر چاہا کیوں نازل فرمایا لہٰذا یہ لوگ غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے اور ان کافروں کو ایسا عذاب ہوگا جو ان کو سخت ذلیل کرنیوالا ہے۔ (تیسیر) ہم نے اوپر عرض کیا تھا کہ بیع اور شرا کے ال فاظ کثرت استعمال کیو جہ سے بعض دفعہ جبکہ مقابلہ میں کوئی سکہ نہ ہو ایک دوسرے پر بول دیئے جاتے ہیں۔ اسی بنا پر بعض مفسرین نے یہاں اشترا کے معنی بیع کے کئے ہیں یعنی انہوں نے اپنی جانوں کو جس چیز کے بدلے فروخت کردیا وہ بہت بری ہے مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے زعم باطل کی بنا پر نجات آخروی کے لئے جس چیز کو اختیار کیا ہے۔ وہ بری چیز ہے یہ یہ مطلب ہے کہ جس چیز کے بدلہ انہوں نے اپنی جانوں کو بیچا وہ بہت بری چیز ہے اور وہ چیز جس کے بدلے یہ بیع اور شرا ہوئی وہ قرآن کو خدا کی کتاب ماننے سے ان کا منکر ہونا ہے اور ان کا یہ انکار بھی کسی معقول سبب کی بنا پر نہیں کیونکہ قرآن کے انکار پر کوئی معقول دلیل تو ہو ہی نہیں سکتی، بلکہ یہ انکار محض اس ضد پر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس بندے پر اپنے فضل سے چاہے اس قرآن کو نازل کر دے ۔ گویا خدا کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے کسی محبوب بندے پر اس قرآن کو نازل کر دے اور اگر اس نے ایسا کیا ہے کہ ان بدبختوں کی خواہش کے خلاف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ قرآن اتارا ہے، تو بس اب یہ اس ضد میں اس کے ماننے سے انکار کر رہے ہیں اور یہ جو فرمایا کہ غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے تو ایک تو قرآن کا انکار اور دوسرے حسد یا ایک بچھڑے کی پرستش اور اس پر نبی رحمت کا انکار یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کا کفر، پھر اس پر نبی امی اور قرآن کا انکار غرض سب احتمال ہیں جیسا انہوں نے کفر پر کفر کیا ویسا ہی یہ غضب پر غضب کے مستحق ہوئے۔ توہین آمیز عذاب کا یہ مطلب ہے کہ آگ کے عذاب کے علاوہ ذلت بھی میسر ہوگی۔ چونکہ کفر کے ساتھ عناد، ضد اور استکبار بھی تھا اس لئے آگ کے ساتھ تذلیل توہین کا سامان بھی فراہم ہوگا۔ آگے ان کے حسد اور ان کی ضد اور ان کے کفر کی اور باتیں ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)