Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
بَغَى |
يَبْغِي |
اِبْغِ |
بَاغٍ |
مَبْغِىّ |
بَغْي |
اَلْبَغْیُ: کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ۔ اور بَغْیٌ کا استعمال کمیت اور کیفیت یعنی قدرو وصف دونوں کے متعلق ہوتا ہے، کہا جاتا ہے۔ بَغَیْتُ الشَّیْئَ وَابْتَغَیْتُہٗ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز کرنا۔ قرآن پاک میں ہے: (لَقَدِ ابۡتَغَوُا الۡفِتۡنَۃَ مِنۡ قَبۡلُ ) (۹:۴۸) یہ پہلے بھی طالب فساد رہے ہیں۔ (یَبۡغُوۡنَکُمُ الۡفِتۡنَۃَ ) (۹:۴۷) تم میں فساد ڈلوانے کی غرض سے۔ بَغْیٌ: دو قسم پر ہے۔ محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجالانا۔ ۲۔مذموم۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا جیساکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا(1) (۳۸) اَلْحَقُّ بَیِّنٌ وَالْبَاطِلُ بَیِّنٌ وَبَیْنَ ذَالِکَ اُمُوْرٌ مُّشْتَبِھَاتٌ وَمَنْ رَتَعَ حَوْلَ الْحِمٰی اَوْ شَکَ اَنْ یَقَعَ فِیْہِ۔ حق بھی واضح ہے اور باطل بھی واضح ہے، لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ امور مشتبہ ہیں اور جو جانور چراگاہ کے اردگرد کھائے گا، کچھ بعید نہیں کہ چراگاہ میں چرنے لگے اور چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی، اس لیے آیت کریمہ: (اِنَّمَا السَّبِیۡلُ عَلَی الَّذِیۡنَ یَظۡلِمُوۡنَ النَّاسَ وَ یَبۡغُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ) (۴۲:۴۲) الزام تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں۔ میں عقوبۃ کو بغی بغیرالحق کے ساتھ مقید کیا ہے۔ اَبْغَیْتُکَ کسی شے کی طلب میں مدد کرنا۔ بَغِیَ الْجُرْحُ زخم کا بہت زیادہ بگڑ جانا۔ بَغَت الْمَرْئَ ۃُ: عورت نے زنا کا ارتکاب کیا اور زنا کو بَغْیٌ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں بھی حدود عفت سے تجاوز کے معنی پائے جاتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ لَا تُکۡرِہُوۡا فَتَیٰتِکُمۡ عَلَی الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا) (۲۴:۳۳) اور اپنی لونڈیوں کو اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں تو۔۔ بدکاری پر مجبور نہ کرنا۔ بَغَتِ السَّمَآئُ: بادل کا ضرورت سے زیادہ برسنا اور بَغْیٌ کے معنی تکبر کرنا بھی آتے ہیں کیونکہ اس میں بھی اپنی حد سے تجاوز کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں او ریہ ہر امر کے متعلق استعمال ہوتا ہے (گو لغت میں بَغْیٌ کا لفظ محمود اور مذموم دونوں قسم کے تجاوز پر بولا جاتا ہے مگر قرآن پاک میں اکثر جگہ معنی مذموم کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسے فرمایا: (یَبۡغُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ) (۱۰:۲۳) تو ملک میں ناحق شرارت کرنے لگتے ہیں۔ (اِنَّمَا بَغۡیُکُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ) (۱۰:۲۳) تمہاری شرارت کا وبال تمہاری ہی جانورں پر ہوگا۔ (ثُمَّ بُغِیَ عَلَیۡہِ لَیَنۡصُرَنَّہُ اللّٰہُ) (۲۲:۶۰) پھر اس شخص پر زیادتی کی جائے تو خدا اس کی مدد کرے گا۔ (اِنَّ قَارُوۡنَ کَانَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰی فَبَغٰی عَلَیۡہِمۡ ) (۲۸:۷۶) قارون موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدی کرتا تھا۔ (فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰىہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ ) (۴۹:۹) اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو۔ اور آیت کریمہ: (غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ ) (۲:۱۷۳) (بشرطیکہ) خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اتنا ہی لے جتنی اسے ضرورت ہے اور حد متعین سے آگے نہ بڑھے۔ امام حسنؓ(2) نے اس کے معنی یہ کیے ہیں کہ نہ تو محض لذت کے لیے کھائے اور نہ ہی سدرمق (یعنی ضرورت سے) تجاوز کرے۔ مجاہد رحمہ اﷲ نے کہا ہے(3) کہ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ کے یہ معنی ہیں بشرطیکہ وہ نہ تو امام وقت سے باغی ہو اور نہ ہی معصیت کا ارتکاب کرکے راہِ حق سے تجاوز کرنے والا ہو۔ اَلْاِبْتِغَائُ: یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی (ورنہ مذموم) چنانچہ فرمایا: (ابۡتِغَآءَ رَحۡمَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ ) (۱۷:۲۸) اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی) کے انتظار میں۔ (اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِ الۡاَعۡلٰی ) (۹۲:۲۰) بلکہ اپنے خداوند اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے۔ اور ینبغی (انفعال) بغی کا مطاوع آتا ہے اور یَنْبَغِیَ اَنْ یَّکُوْنَ کَذا کا محاورہ دو طرح استعمال ہوتا ہے۔ (۱) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لیے مسخر ہو جیسے اَلنَّارُ یَنْبَغِیْ اَنْ تُحْرِقَ الثَّوْبَ یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے۔ (۲) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لیے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے، جیسے: فُلَانٌ یَنْبَغِیْ اَنْ یُعْطِیَ لِکَرَمِہٖ کہ فلاں کے لیے اپنے کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ: (وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ ) (۳۶:۶۹) اور ہم نے ان (پیغمبر) کو شعرگوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے۔ پہلے معنی پر محمول ہے، یعنی نہ تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فطرتاً شاعر ہیں۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم ہے کہ آپؐ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا۔ اور آیت کریمہ: (وَ ہَبۡ لِیۡ مُلۡکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِیۡ ) (۳۸:۳۵) اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا فرما کر میرے بعد کسی کو شایاں نہ ہو۔ (دوسرے معنی پر محمول ہے۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو۔)
Surah:2Verse:90 |
ضد ( کیوجہ سے)
grudging
|
|
Surah:2Verse:213 |
ضد کی وجہ سے
(out of) jealousy
|
|
Surah:3Verse:19 |
ضد کی وجہ سے
out of envy
|
|
Surah:6Verse:146 |
ان کی سرکشی کی وجہ سے
for their rebellion
|
|
Surah:7Verse:33 |
اور زیادتی کو / بغاوت کو
and the oppression
|
|
Surah:10Verse:23 |
تمہاری بغاوت
your rebellion
|
|
Surah:10Verse:90 |
ضد کے ساتھ
(in) rebellion
|
|
Surah:16Verse:90 |
اور زیادتی سے
and the oppression
|
|
Surah:42Verse:14 |
سرکشی کی وجہ سے،
(out of) rivalry
|
|
Surah:42Verse:39 |
کوئی زیادتی
tyranny
|