Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 101

سورة طه

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہِ ؕ وَ سَآءَ لَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ حِمۡلًا ﴿۱۰۱﴾ۙ

[Abiding] eternally therein, and evil it is for them on the Day of Resurrection as a load -

جس میں ہمیشہ ہی رہے گا ، اور ان کے لئے قیامت کے دن ( بڑا ) برا بوجھ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

خَالِدِينَ فِيهِ ... Whoever turns away from it, verily, they will bear a heavy burden on the Day of Resurrection. They will abide in that. They will not be able to avoid this or escape it. ... وَسَاء لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلً And evil indeed will it be that load for them on the Day of Resurrection.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101۔ 1 جس سے وہ بچ نہ سکے گا، نہ ہی بھاگ سکے گا

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

خٰلِدِيْنَ فِيْہِ۝ ٠ۭ وَسَاۗءَ لَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ حِمْلًا۝ ١٠١ۙ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

77. Here the people have been warned that whoso will turn away front the Quran and will reject its guidance, he shall do harm to himself only and not to Allah and His Messenger, and that the one, who rejects His Message, shall inevitably be punished in the Hereafter. And this warning holds good for every people, every country and every age. This is because there are only two alternatives for an individual or a community, whom the message of the Quran reaches. They can either accept it or reject it, there is no third way.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :77 اس میں پہلی بات تو یہ بتائی گئی کہ جو شخص اس درس نصیحت ، یعنی قرآن سے منہ موڑے گا اور اس کی ہدایت و رہنمائی قبول کرنے سے انکار کرے گا ، وہ اپنا ہی نقصان کرے گا ، محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے بھیجنے والے خدا کا کچھ نہ بگاڑے گا ۔ اس کی یہ حماقت دراصل اس کی خود اپنے ساتھ دشمنی ہو گی ۔ دوسری بات یہ بتائی گئی کہ کوئی شخص ، جس کو قرآن کی یہ نصیحت پہنچے اور پھر وہ اسے قبول کرنے سے پہلو تہی کرے ، آخرت میں سزا پانے سے بچ نہیں سکتا ۔ آیت کے الفاظ عام ہیں ۔ کسی قوم ، کسی ملک ، کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہیں ۔ جب تک یہ قرآن دنیا میں موجود ہے ، جہاں جہاں ، جس جس ملک اور قوم کے ، جس شخص کو بھی یہ پہنچے گا ، اس کے لیے دو ہی راستے کھلے ہوں گے ۔ تیسرا کوئی راستہ نہ ہو گا ۔ یا تو اس کو مانے اور اس کی پیروی اختیار کرے ۔ یا اس کو نہ مانے اور اس کی پیروی سے منہ موڑ لے ۔ پہلا راستہ اختیار کرنے والے کا انجام آگے آ رہا ہے ۔ اور دوسرا راستہ اختیار کرنے والے کا انجام یہ ہے جو اس آیت میں بتا دیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:101) خلدین فیہ۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع وزر ہے۔ ای فی الوزر المراد منہ العقوبۃ۔ یعنی وہ اس عقوبت میں ہمیشہ کے لئے مبتلا رہیں گے۔ حملا۔ بوجھ ۔ اس کی جمع احمال ہے بروزن فعل و افعال۔ منصوب بوجہ ساء کی تمیز کے ہے۔ اور قیامت کے دن ان کے لئے یہ بہت برا بوجھ ہوگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اس سے بھاگنا چاہیں گے مگر وہ ان پر لدار رہے گا۔ یہ وعید ہے۔2 یہ اس دہشت اور سراسیمگی کی کیفیت کا ذکر ہے جس میں یہ مشرک اور کافر قیاتم کے روز مبتلا ہوں گے۔ قیامت کے دن مختلف احوال اور مقامات ہوں گے جن کا متعدد آیات میں ذکر پایا جاتا ہے اور ان ماقمات میں کفار کی مختلف حالتیں ہوں گی۔ لہٰذا ان آیات میں تعارض نہیں ہے۔ (کذا فی الشور کافی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

10 1 یہ لوگ ہمیشہ اس بوجھ کے تلے دبے رہیں گے اور یہ بوجھ ان کے لئے قیامت میں بہت ہی برا ہوگا۔