Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 102

سورة طه

یَّوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ وَ نَحۡشُرُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ یَوۡمَئِذٍ زُرۡقًا ﴿۱۰۲﴾ۚ ۖ

The Day the Horn will be blown. And We will gather the criminals, that Day, blue-eyed.

جس دن صور پھونکا جائیگا اور گناہ گاروں کو ہم اس دن ( دہشت کی وجہ سے ) نیلی پیلی آنکھوں کے ساتھ گھیر لائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Blowing of the Sur and the Day of Resurrection Allah the Exalted says, يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَيِذٍ زُرْقًا The Day when the Sur will be blown: that Day, We shall gather the criminals blue-eyed. It has been confirmed in a Hadith that the Messenger of Allah was asked about the Sur and he replied, قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيه It is a horn that will be blown into. It has been related in a Hadith about the Sur, on the authority of Abu Hurayrah that; it is a huge horn that has a circumference as large as the heavens and the earth. The angel Israfil will blow into it. Another Hadith has been related which states that the Prophet said, كَيْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدِ الْتقَمَ الْقَرْنَ وَحَنَى جَبْهَتَهُ وَانْتَظَرَ أَنْ يُوْذَنَ لَه How can I be comfortable when the one with the horn is holding it in his lips and his forehead is leaning forward, waiting to be given permission (to blow it). The people said, "O Messenger of Allah, what should we say!" He said, قُولُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا Say: Allah is sufficient for us and what a good protector He is. Upon Allah we place our trust. Concerning His statement, .. وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَيِذٍ زُرْقًا And We shall gather the criminals blue-eyed. It has been said that this means having blue eyes due to the severity of their horrifying situation.

صور کیا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ صور کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک قرن ہے جو پھونکا جائے گا ۔ اور حدیث میں ہے کہ اس کا دائرہ بقدر آسمانوں اور زمینوں کے ہے حضرت اسرافیل علیہ السلام اسے پھونکیں گے ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں کیسے آرام حاصل کروں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور کا لقمہ بنالیا ہے پیشانی جھکا دی ہے اور انتظار میں ہے کہ کب حکم دیا جائے ۔ لوگوں نے کہا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا پڑھیں؟ فرمایا کہو ( وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ١٧٣؁ ) 3-آل عمران:173 ) ۔ اس وقت تمام لوگوں کا حشر ہو گا کہ مارے ڈر اور گھبراہٹ کے گنہگاروں کی آنکھیں ٹیڑھی ہو رہی ہوں گی ۔ ایک دوسرے سے پوشیدہ پوشیدہ کہہ رہے ہوں گے کہ دنیا میں تو ہم بہت ہی کم رہے زیادہ سے زیادہ شاید دس دن وہاں گزرے ہونگے ۔ ہم ان کی اس رازداری کی گفتگو کو بھی بخوبی جانتے ہیں جب کہ ان میں سے بڑا عاقل اور کامل انسان کہے گا کہ میاں دن بھی کہاں کے؟ ہم تو صرف ایک دن ہی دنیا میں رہے ۔ غرض کفار کو دنیا کی زندگی ایک سپنے کی طرح معلوم ہو گی ۔ اس وقت وہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ صرف ایک ساعت ہی دنیا میں ہم تو ٹھہرے ہوں گے ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے ( اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ 37؀ۧ ) 35- فاطر:37 ) ہم نے تمہیں عبرت حاصل کرنے کے قابل عمر بھی دی تھی پھر ہوشیار کرنے والے بھی تمہارے پاس آچکے تھے ۔ اور آیتوں میں ہے کہ اس سوال پر کہ تم کتنا عرصہ زمین پر گزار آئے؟ ان کا جواب ہے ایک دن بلکہ اس سے بھی کم ۔ فی الواقع دنیا ہے بھی آخرت کے مقابلے میں ایسی ہی ۔ لیکن اگر اس بات کو پہلے سے باور کر لیتے تو اس فانی کو اس باقی پر اس تھوڑی کو اس بہت پر پسند نہ کرتے بلکہ آخرت کا سامان اس دنیا میں کرتے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

102۔ 1 صور سے مراد وہ (نرسنگا) ہے، جس میں اسرافیل (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے تو قیامت برپا ہوجائے گی، حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کے پہلے پھونکنے سے سب پر موت طاری ہو جائیگی، اور دوسرے پھونکنے سے بحکم الٰہی سب زندہ اور میدان محشر میں جمع ہوجائیں گے۔ آیت میں یہی دوسرا پھونکنا مراد ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧١] صور کے معنی قرنامد، نرسنگھا اور بوق ہے اور یہ چیزیں دور نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رائج تھیں۔ ضروری نہیں کہ صور کی بھی یہی شکل و صورت ہو بلکہ قرآن ایسے لفظ استعمال کرتا ہے۔ جس سے انسانی ذہن اس اصل چیز سے قریب تر کسی چیز سے متعارف ہو۔ بعد میں اس غرض کے لئے فوج میں بگل استعمال ہوتا ہے جس سے لشکر کو اکٹھا یا منشتشر کیا جاتا ہے۔ ہوائی حملہ کے خطرہ کے دوران سائرن بھی اسی سے ملتی جلتی چیز ہے۔ روزہ کو بند کرنے اور کھولنے کے وقت بھی سائرن کا استعمال ہوتا ہے۔ بس اسی سے ملتی جلتی یا اس سے بھی ترقی یافتہ شکل نفخہ صور کی ہوگی۔ ] ـ٧٢] اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ جب دہشت کے مارے آنکھیں پتھرا جاتی ہیں تو ان پر نیلگوں سفیدی غالب آجاتی ہے۔ اور دوسرا معنی یہ ہے سارا بدن ہی نیلگون ہوجائے گا۔ یعنی دہشت کے مارے خون تو خشک ہوجائے گا اور جسم پر نیلاہٹ غالب آنے لگے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۙيَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ۔۔ : یہ پچھلی آیات میں مذکور ” يَوْمَ الْقِيٰمَةِ “ سے بدل ہے جو قیامت کے دن کی وضاحت کر رہا ہے۔ ” الصُّوْرِ “ کی تشریح کے لیے دیکھیے سورة انعام (٧٣) اور کہف (٩٩) ۔ ” زُرْقًا “ ” أَزْرَقُ “ کی جمع ہے، جس کا معنی نیلے رنگ والا ہے۔ یہاں اس کے دو معنی مراد ہوسکتے ہیں، ایک نیلے جسم اور نیلے چہروں والے، مراد سیاہ رنگ والے، کیونکہ جلی ہوئی جلد نیلگوں کالی ہوجاتی ہے۔ اس کی ہم معنی آیت کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (١٠٦) ۔ دوسرا معنی ” اندھے “ ہے، کیونکہ بہت نیلی آنکھ اندھے آدمی کی ہوتی ہے، یعنی قیامت کے دن اندھے اٹھائے جائیں گے، اس کی ہم معنی آیت کے لیے دیکھیے سورة طٰہٰ (١٢٤، ١٢٥) ۔ طبری نے صرف یہی معنی بیان فرمایا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

يُنفَخُ فِي الصُّورِ‌ (رضی The Day when the Horn الصُّورِ‌ [ Sur ] will be blown - 20:102) According to Sayyidna Ibn ` Umar اللہ تعالیٰ عنہما ، a Bedouin الصُّورِ‌ asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about صُور (the Horn) to which he replied that it is something like a horn which will be blown, meaning thereby that when the angel will blow into it all those who had lain dead for centuries will return to life. Only Allah knows the true nature of the Sur (the Horn).

يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ، حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ ایک گاؤں والے نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ صور کیا چیز ہے تو آپ نے فرمایا کہ ایک سینگ ہے جس میں پھونک ماری جائے گی، مراد یہ ہے کہ سینگ کی طرح کی کوئی چیز ہے جس میں فرشتہ کی پھونک مارنے کا پوری دنیا پر یہ اثر ہوگا کہ سب مردے زندہ ہو کر کھڑے ہوجاویں گے حقیقت اس صور کی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ زُرْقًا۝ ١٠٢ۚۖ نفخ النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ( ن ف خ ) النفخ کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر/ 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔ صور الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران/ 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» «4» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» «1» ، وقوله تعالی: فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن «3» وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ «4» ، وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ «5» ، وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش «6» أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «7» بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «8» من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع . ( ص و ر ) الصورۃ : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔ حشر ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ زرق الزُّرْقَةُ : بعض الألوان بين البیاض والسواد، يقال : زَرَقَتْ عينه زُرْقَةً وزَرَقَاناً ، و

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٢۔ ١٠٣) جب دوسری مرتبہ صور میں پھونک ماری جائے گی اور ہم مشرکین کو میدان قیامت میں اس حالت میں جمع کریں گے کہ کرنجے ہوں گے چپکے چپکے آپس میں باتیں کرتے ہوں گے اور ایک دوسرے سے کہتے ہوں گے کہ تم لوگ قبروں میں صرف دس روز رہے ہو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ (یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَءِذٍ زُرْقًا ) ” انتہائی خوف کی کیفیت میں انسان کی آنکھوں میں نیلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ چناچہ اس دن خوف اور دہشت سے مجرموں کی آنکھیں نیلی پڑچکی ہوں گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

78. As regards to the nature of the blowing of the Trumpet on the Day of Resurrection, it may be likened to the blowing of the bugle in the army to muster or disperse the soldiers. It is obvious that these words and terms have been used because these are known to the people. Therefore it will be wrong to consider the Trumpet to be exactly like the bugles and trumpets of this world. 79. According to some commentators, it means this: The bodies of the criminals will turn white as if no drop of blood had been left in them.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :78 صَور ، یعنی نر سنگھا ، قرناء ، یا بوق ۔ آج کل اسی چیز کا قائم مقام بگل ہے جو فوج کو جمع یا منتشر کرنے اور ہدایات دینے کے لیے بجایا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کے نظم کو سمجھانے کے لیے وہ الفاظ اور اصطلاحیں استعمال فرماتا ہے جو خود انسانی زندگی میں اسی سے ملتے جلتے نظم کے لیے استعمال ہوتی ہیں ان الفاظ اور اصطلاحوں کے استعمال سے مقصود ہمارے تصور کو اصل چیز کے قریب لے جانا ہے ، نہ یہ کہ ہم سلطنت الہٰی کے نظم کی مختلف چیزوں کو بعینہ ان محدود معنوں میں لے لیں ، اور ان محدود صورتوں کی چیزیں سمجھ لیں جیسی کہ وہ ہماری زندگی میں پائی جاتی ہیں ۔ قدیم زمانے سے آج تک لوگوں کو جمع کرنے اور اہم باتوں کا اعلان کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی چیز پھونکی جاتی رہی ہے جو صور یا بگل سے ملتی جلتی ہو ۔ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسی ہی ایک چیز قیامت کے روز پھونکی جائے گی جس کی نوعیت ہمارے نرسنگھے کی سی ہو گی ۔ ایک دفع وہ پھونکی جائے گی اور سب پر موت طاری ہو جائے گی ۔ دوسری دفعہ پھونکنے پر سب جی اٹھیں گے اور زمین کے ہر گوشے سے نکل نکل کر میدان حشر کی طرف دوڑنے لگیں گے ۔ ( مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، النمل ، حاشیہ 106 ) ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :79 اصل میں لفظ زُرقاً استعمال ہوا ہے جو اَزْرَق کی جمع ہے ۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ لوگ خود اَزْرق ( سفیدی مائل نیلگوں ) ہو جائیں گے کیونکہ خوف و دہشت کے مارے ان کا خون خشک ہو جائے گا اور ان کی حالت ایسی ہو جائے گی کہ گویا ان کے جسم میں خون کا ایک قطرہ تک نہیں ہے ۔ اور بعض دوسرے لوگوں نے اس لفظ کو ارزق العین ( کرنجی آنکھوں والے ) کے معنی میں لیا ہے اور وہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ شدت ہول سے ان کے دیدے پتھرا جائیں گے ۔ جب کسی شخص کی آنکھ بے نور ہو جاتی ہے تو اس کے حدقۂ چشم کا رنگ سفید پڑ جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٢۔ ١٠٤:۔ اگرچہ بعضے سلف کا قول ہے کہ صور کئی دفعہ پھونکا جائے گا لیکن صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر سے جو روایت ہے اس میں ہے کہ صور دو دفعہ پھونکا جائے گا پہلے صور کی آواز سے تمام دنیا ویران ہوجائے گی اور دوسرے صور کی آواز سے سب زندہ ہوجائیں گے ١ ؎۔ اکثر صحابہ کا قول ہے کہ دونوں صور کے مابن چالیس برس کا فاصلہ ہوگا ٢ ؎۔ معتبر سند سے طبرانی میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ اسرافیل (علیہ السلام) صور پھونکیں گے ٣ ؎۔ ان آیتوں میں صور کے بعد حشر کا ذکر ہے اس واسطے یہاں صور سے مطلب دوسرا صور ہے دوزخ میں جانے کے قابل لوگوں کی آنکھوں کی پتلیاں حشر کے دن نیلی ہوں گی کہ ان کی آنکھیں بےرونق اور ان کی صورتیں بری نظر آئیں۔ معتبر سند سے ترمذی اور صحیح ابن حبان میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنکھوں کے نیلی ہوجانے علاوہ میدان محشر میں ایسے لوگوں کا منہ بھی کالا ہوجائے گا۔ اوپر بداعمال کے بوجھ کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ ایسے لوگوں کو یہ بوجھ اس دن اٹھانا پڑے گا جس دن دوسرے صور کی آواز سن کر یہ دوبارہ زندہ ہوجائیں گے اور ایسی حالت سے میدان محشر میں کھڑے ہوں گے کہ ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی اور منہ کالا ہوگا۔ مسند امام احمد کے حوالہ سے حضرت عائشہ کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ منکر نکیر کے سوال و جواب کے بعد اچھے لوگوں کو جنت کا اور برے لوگوں کو دوزخ کا ٹھکانا دکھا کر اللہ کے فرشتے جتلا دیتے ہیں کہ ان ٹھکانوں میں ہمیشہ رہنے کے لیے تم کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا ٤ ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ دوبارہ زندہ ہوتے ہی ایسے لوگوں کو دوزخ میں ہمیشہ رہنے کا اپنا ٹھکانا یاد آجائے گا اس لیے اس ہمیشہ کے عذاب کی زندگی کے آگے دنیا میں رہنے کی مدت ان کو تھوڑی معلوم ہوگی اور عذاب میں گرفتار ہونے کی پریشانی سے آپس میں چپکے چپکے باتیں کرنے کے طور پر کوئی اس مدت کو دس دن کی مدت بتلائے گا کوئی ایک دن کی کوئی پہر دو پہر کی اور کوئی گھڑی بھر کی دس دن اور ایک دن کا ذکر تو ان آیتوں میں ہے پہر دو پہر کا ذکر قد افلح المومنون میں اور گھڑی بھر کا ذکر سورة الا حقاف میں آئے گا۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨١ باب لاتقوم الساعۃ الا علی شرا رالناس بجوالہ صحیح ص ٤٠١ ج ٢۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨١ باب النفخ فی الصور بروایۃ ابی ہریرہ۔ ٣ ؎ فتح الباری ص ١٦١ ج ٥ باب نفخ الصور۔ ٤ ؎ الترغیب ص ٢٨٨ ج ٢ باب فیم اورد فی سوال القبر ونعیمہ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:102) زرقا۔ ازرق (مذکر) زرقاء (مؤنث) کی جمع ہے۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے جس کی آنکھ کی سیاہی نیلاہٹ یا سبزی یا زردی کی طرف مائل ہو۔ زرق کے متعلق دو قول ہیں۔ (1) ایک یہ کہ رومی جو اہل عرب کے سخت دشمن تھے وہ گریہ چشم تھے۔ اس لئے انہوں نے دشمن کی یہ صفت بیان کی ہے اسود الکبد (سیاہ جگر) اصھب السیال (بھوری مونچھوں والا ازرق العین (کبود چشم) ۔ (2) دوسرے یہ کہ جیسا کہ الفراء کا قول ہے زرقا بمعنی عمیا ہے یعنی اندھے۔ کیونکہ جس کی آنکھ کی روشنی جاتی رہتی ہے اس کی پتلی نیلی ہوجاتی ہے۔ یہاں مجرموں کو نفرت کے اظہار کے طور پر کبود چشم کھڑا کیا جانا بیان ہے۔ زرقابوجہ حال ہونے کے منصوب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس دن مجرموں نے اپنے اعمال کا بوجھ اٹھانا ہے اس دن کے برپا ہونے کی کیفیت اور مجرموں کا حال۔ مجرموں کے لیے قیامت کا دن اس قدر سخت اور بھاری ہوگا کہ اس دن ان کی آنکھوں کی سفیدی نیلی ہوجائے گی۔ اور ان کے ڈیلیپتھرا جائیں گے وہ سرگوشی اور گنگناہٹ کے انداز میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم دس دن سے زیادہ نہیں رہے تھے۔ جو ان میں سب سے زیادہ اعتماد کے ساتھ بات کرے گا وہ دوسروں کو کہے گا کہ ہم صرف ایک ہی دن دنیا میں ٹھہرے تھے۔ جو کچھ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ ان کی ہر بات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ قیامت کا آغاز صور میں پھونک مارنے سے ہوگا جونہی اسرافیل (علیہ السلام) فرشتہ صور میں پھونک مارے گا تو لوگ جہاں جہاں دفن اور دبے ہوئے ہوں گے اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر محشر کے میدان کی طرف اس طرح دوڑیں گے جس طرح شکاری اپنے شکار کی طرف دوڑتا ہے۔ (یٰس : ٥١) جب لوگ محشر کے میدان میں اکٹھے کیے جائیں گے تو رب ذوالجلال کی جلالت اور تمکنت کے خوف کی وجہ سے مجرموں کی آنکھیں نیلی ہونے کے ساتھ پتھرا جائیں گی۔ مجرم اپنے اپنے گناہوں کے مطابق اپنے پسینے میں ڈبکیاں لے رہے ہوں گے۔ اس حالت میں نہ صرف وہ دنیا کی عیش و عشرت کو بھول جائیں گے بلکہ انھیں یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ وہ دنیا میں کتنی مدت ٹھہرے ہیں۔ خوف کی حالت میں سرگوشی اور کنگناہٹ کے انداز میں ایک دوسرے سے کہیں گے ہم دنیا میں دس دن ٹھہرے ہونگے لیکن ان میں جس کی بات قابل اعتماد سمجھی جائے گی وہ کہے گا کہ دس دن کی بجائے ہم صرف ایک دن ٹھہرے ہیں۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ یُحْشَرُالنَّا سُ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ یَا عَاءِشَۃُ اَلْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یَّنْظُرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب کَیْفَ الْحَشْر ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں ‘ ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے نہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس دن معاملہ اس کے برعکس ہوگا کہ کوئی ایک دوسرے کی طرف دیکھ نہیں سکے گا۔ “ مسائل ١۔ محشر کے دن کی سختی کی وجہ سے مجرموں کی آنکھیں نیلی اور پتھرا جائیں گی۔ ٢۔ مجرم خوف کی حالت میں نہایت ہی آہستہ آواز میں کہیں گے ہم دنیا میں دس دن یا صرف ایک ہی دن ٹھہرے تھے۔ تفسیر بالقرآن محشر کے دن کی ہولناکیاں : ١۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعۃ : ١) ٢۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دینا۔ (الزلزال : ١) ٣۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف : ١٨٧) ٤۔ لوگو ! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج : ١) ٥۔ قیامت کے دن لوگ اڑتے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ : ٤) ٦۔ قیامت کے دن پہاڑ اون کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ : ٥) ٧۔ قیامت کا دن انتہائی دردناک ہوگا۔ (ھود : ٢٦) ٨۔ زمین کو ہلا کر تہہ وبالا کردیا جائے گا۔ (واقعۃ : ٣، ٤) ٩۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح ہوجائیں گے۔ (الواقعۃ : ٥، ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

102 قیامت کا دن وہ ہے جس دن صور میں پھونکا جائے گا اور ہم اس دن مجرموں کو اس حال میں جمع اور اکٹھا کریں گے کہ ان کی آنکھیں نیلی اور کرنجی ہوں گی۔ یہ منکرین قرآن کریم کی سزا کا ذکر ہے جو قرآن کریم سے منہ پھیرتے ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم پر ایمان نہیں لاتے وہ قیامت کے دن عذاب الٰہی کے بوجھ میں دبے ہوئے ہوں گے اور وہ اس بوجھ میں ہمیشہ دبے رہیں گے اور قیامت کے دن ان کا حشر اس حال میں ہوگا کہ ان کی آنکھیں نیلی اور کرنجی ہوں گی یعنی بدصورت اور بدنما بعض نے کہا ہے کہ اندھے ہوں گے۔