Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 103

سورة طه

یَّتَخَافَتُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا عَشۡرًا ﴿۱۰۳﴾

They will murmur among themselves, "You remained not but ten [days in the world]."

وہ آپس میں چپکے چپکے کہہ رہے ہونگے کہ ہم تو ( دنیا میں ) صرف دس دن ہی رہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ ... They will speak in a very low voice to each other. Ibn Abbas said, "This means whispering among themselves." This means that some of them will be saying to others, ... إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ عَشْرًا You stayed not longer than ten. meaning in the abode of the worldly life, you only tarried there for a little while. The time was equivalent to ten days or so. Allah, the Exalted, then says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

103۔ 1 شدت ہول اور دہشت کی وجہ سے ایک دوسرے سے چپکے چپکے باتیں کریں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ښيَّتَخَافَتُوْنَ بَيْنَهُمْ ۔۔ : اسمائے عدد میں قاعدہ ہے کہ تین سے دس تک کی گنتی میں اگر کوئی چیز مذکر ہو تو عدد مؤنث آئے گا اور اگر کوئی چیز مؤنث ہو تو عدد مذکر ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَّثَمٰنِيَةَ اَيَّامٍ ۙ حُسُوْمًا ) [ الحاقۃ : ٧ ] ” اس نے اس (آندھی) کو ان پر سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلائے رکھا۔ “ اس لیے یہاں ” عَشْراً “ کا معنی دس راتیں ہوگا۔ ” تَخَافُتْ “ (تفاعل) کا معنی خوف وغیرہ کی وجہ سے آہستہ آواز سے بات کرنا ہے۔ ان کی یہ حالت قیامت کی ہولناکی کی وجہ سے ہوگی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قوله تعالی: زُرْقاً يَتَخافَتُونَ [ طه/ 102] ، أي : عمیا عيونهم لا نور لها . والزُّرَقُ طائر، وقیل : زَرَقَ الطائرُ يَزْرِقُ «4» ، وزَرَقَهُ بِالْمِزْرَاقِ : رماه به «5» . ( ز ر ق ) الزرقہ ( نیلاہٹ ) ایک رنگ جو سپیدی اور سیاہی کے بین بین ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے زرقت عینہ زرقۃ و زرقانا اس کی آنکھ نیلی ہوگئی اور آیت کریمہ : زُرْقاً يَتَخافَتُونَ [ طه/ 102] نیلی آنکھوں والے جو آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کریں گے ۔ میں زرقا کے معنی اندھے جن کی آنکھوں میں نور نہ ہو ۔ الزرق ایک پرند کا نام ہے ( سفید شاہین ) محاورہ ہے ۔ زرق الطائر پرند کا بیٹ کرنا اور زرقہ بالمزراق کے معنی ہیں اسے چھوٹے نیزہ سے مارا خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] ، ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

80. The original text may also be interpreted to mean: After your death, you may have passed hardly ten days till now. As regards to the interpretation adopted in the translation, it is supported by (Surah Ash-Shuara, Ayats 112-113): When Allah will ask them, for how many years did you stay on the earth? They will say: We stayed there for a day or part of a day. You may ask those who have kept the record. The second interpretation is supported by (Surah Ar-Room, Ayats 55-56): And on the day when Resurrection will take place, the criminals will declare under oaths: We have not remained in the state of death for more than an hour. And likewise they were deluded on the earth. On the other hand, those who have been given knowledge and faith will say: According to the Book of Allah, you have remained in this state up to the Day of Resurrection, and this is the very Day of Resurrection, but you did not know of it. Both the interpretations are supported by other verses of the Quran. It is clear from these that they will consider both the life on the earth and the life in the interval between death and Resurrection to be very short. They will consider the earthly life to be very short because, against all their expectations, they will have to face the eternal life in the Hereafter which they denied in their earthly life. As they had made no preparation for this life, they will regret that they had ruined their eternal life for the sake of a few transitory pleasures of the short life they had been given on the earth. As regards to the duration of the interval between death and Resurrection, they will consider it to be very short, for they will imagine that they had been suddenly awakened by the Trumpet from their last sleep or unconsciousness in their earthly life. Thus, they will not at first realize that the Trumpet was the signal for the Day of Resurrection because they had no expectation whatever that the Day of Resurrection would ever come. As a matter of fact, they used to make fun of this Day as a nonsensical thing.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :80 دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ موت کے بعد سے اس وقت تک تم کو مشکل ہی سے دس دن گزرے ہوں گے ۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز لوگ اپنی دنیوی زندگی کے متعلق بھی یہ اندازہ لگائیں گے کہ وہ بہت تھوڑی تھی ، اور موت سے لے کر قیامت تک جو وقت گزرا ہوگا اس کے متعلق بھی ان کے اندازے کچھ ایسے ہی ہوں گے ۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے : قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ ہ قَالُوْا لَبِثْنا یَوْ ماً اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْئَلِ الْعَا دِّیْنَ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟ وہ جواب دیں گے ایک دن یا دن کا ایک حصہ رہے ہوں گے ، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے ( المونون آیات 112 ۔ 113 ) ۔ دوسری جگہ فرمایا جاتا ہے وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَۃٍ کَذٰلِکَ کَانُوْا یُؤْ فَکُوْنَ ہ وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَابِ اللہِ اِلٰی یَوْمِ الْبَعْثِ فَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ اور جس روز قیامت قائم ہو جائے گی تو مجرم لوگ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ( موت کی حالت میں ) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں پڑے رہے ہیں ۔ اسی طرح وہ دنیا میں بھی دھوکے کھاتے رہتے تھے ۔ اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ کتاب اللہ کی رو سے تو تم یوم البعث تک پڑے رہے ہو اور یہ وہی یوم البعث ہے ، مگر تم جانتے نہ تھے ( الروم ۔ آیات 55 ۔ 56 ) ۔ ان مختلف تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی اور برزخ کی زندگی ، دونوں ہی کو وہ بہت قلیل سمجھیں گے ۔ دنیا کی زندگی کے متعلق وہ اس لیے یہ باتیں کریں گے کہ اپنی امیدوں کے بالکل خلاف جب انہیں آخرت کی ابدی زندگی میں آنکھیں کھولنی پڑیں گی ، اور جب وہ دیکھیں گے کہ یہاں کے لیے وہ کچھ بھی تیاری کر کے نہیں آئے ہیں ، تو انتہا درجہ کی حسرت کے ساتھ وہ اپنی دنیوی زندگی کی طرف پلٹ کر دیکھیں گے اور کف افسوس ملیں گے کہ چار دن کے لطف و مسرت اور فائدہ و لذت کی خاطر ہم نے ہمیشہ کے لیے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ۔ موت کے بعد سے قیامت تک کا وقت انہیں اس لیے تھوڑا نظر آئے گا کہ زندگی بعد موت کو وہ دنیا میں غیر ممکن سمجھتے تھے اور قرآن کے بتائے ہوئے عالم آخرت کا جغرافیہ کبھی سنجیدگی کے ساتھ ان کے ذہن میں اترا ہی نہ تھا ۔ یہ تصورات لیے ہوئے دنیا میں احساس و شعور کی آخری ساعت انہوں نے ختم کی تھی ۔ اب جو اچانک وہ آنکھیں ملتے ہوئے دوسری زندگی میں بیدار ہوں گے اور دوسرے ہی لمحے اپنے آپ کو ایک بگل یا نرسنگھے کی آواز پر مارچ کرتے پائیں گے تو وہ شدید گھبراہٹ کے ساتھ اندازہ لگائیں گے کہ فلاں ہسپتال میں بیہوش ہونے یا فلاں جہاز میں ڈوبنے یا فلاں مقام پر حادثہ سے دوچار ہونے کے بعد سے اس وقت تک آخر کتنا وقت لگا ہو گا ۔ ان کی کھوپڑی میں اس وقت یہ بات سمائے گی ہی نہیں کہ دنیا میں وہ جاں بحق ہو چکے تھے اور اب یہ وہی دوسری زندگی ہے جسے پیہم بالکل لغو بات کہہ کر ٹھٹھوں میں اڑا دیا کرتے تھے ۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک یہ سمجھے گا کہ شاید میں چند گھنٹے یا چند دن بے ہوش پڑا رہا ہوں ، اور اب شاید ایسے وقت مجھے ہوش آیا ہے یا ایسی جگہ اتفاق سے پہنچ گیا ہوں جہاں کسی بڑے حادثہ کی وجہ سے لوگ ایک طرف کو بھاگے جا رہے ہیں ۔ بعید نہیں کہ آج کل کے مرنے والے صاحب لوگ صور کی آواز کو کچھ دیر تک ہوائی حملے کا سائرن ہی سمجھتے رہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

44: قیامت کا دن ان کے لیے اتنا ہولناک ہوگا کہ وہ دنیا کی ساری زندگی کو ایسا سمجھیں گے جیسے وہ دس دن کی بات ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:103) یتخافتون۔ مضارع جمع مذکر غائب ہے۔ تخافت (تفاعل) مصدر چپکے چپکے آپس میں کہیں گے۔ چپکے چپکے آپس میں باتیں کریں گے۔ خفت مادہ۔ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے فانطلقوا وہم یتخافتون (68:23) آخر وہ چلے اور آپس میں چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے۔ عشرا۔ دس دن۔ عشرا کے مطلق عدد سے مراد دنوں کی تعداد لی گئی ہے۔ ای عشرۃ ایام ۔ یعنی دس دن۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی دہشت کے مارے وہ اپنی دنیا کی زندگی اور قبر (برزخ) کی زندگی دونوں کو بہت مختصر خیال کریں گے۔ دوسری آیت میں ہے : بشنا یوماً او بعض یوم کہ ہم ایک دن بلکہ دن کا بھی ایک حصہ رہے ہوں گے۔ ( مومنون 113) اور سورة روم میں ہے، یقیم المجرمون مالبثوا غیر ساعت مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم (موت کی حالت میں) ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ (آیت :55) اسی مضمون کی توضیح اگلی آیت بھی کر رہی ہے بعض نے ” عسراً “ سے دس گھڑیاں بھی مراد لی ہیں۔ (شوکانی ۔ رازی) اور ان تمام اقوال سے ان کا مقصد یہ ہوگا کہ کسی طرح ہم عذاب سے بچ جائیں اور ہم پر گرفت نہ ہو۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مطلب یہ کہ ہم تو یوں سمجھے تھے کہ مر کر پھر زندہ ہونا نہیں یہ گمان تو بالکل غلط نکلا۔ نہ زندہ ہونا تو درکنار یہ بجھی تو نہ ہوا کہ دیر ہی میں زندہ ہوتے، بلکہ بہت ہی جلدی زندہ ہوگئے کہ وہ مدت دس روز کے برابر معلوم ہوتی ہے۔ وجہ اس مقدار کے برابر معلوم ہونے کی اس روز کی درازی اور ہول اور پریشانی ہے کہ مدت لبث فی القبر اس کے سامنے اس قدر قصیر معلوم ہوگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آپ پر جو قصص نازل کئے جا رہے ہیں ، یہ ماضی کے واقعات ہیں۔ قرآن میں ان کو بیان کیا جا رہا ہے۔ قرآن کو اسی لحاظ سے ذکر کیا گیا ہے۔ یہ قصص بھی دراصل ذکر الٰہی اور آیات الٰہی ہیں اور قرون اوٹی میں جو آیات الٰہی ظاہر ہوئیں یہ ان کا بھی ذکر ہے۔ جو لوگ اس ذکر سے منہ موڑتے ہیں ، ان کو یہاں مجرمین کے نام سے پکارا گیا ہے۔ یہاں ان کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بڑے بڑے بوجھ اٹھا رکھے ہیں ، جس طرح مسافر اپنا بوجھ اٹھا رہا ہوتا ہے۔ لیکن ان کے اس بوجھ میں ان کے لئے کوئی مفید چیز نہیں ہے۔ جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن مجرمین کے چہرے نیلے ہوجائیں گے ، یعنی خوف کے وجہ سے اور بےحد غم کی وجہ سے ان کے چہرے نیلے نظر آئیں۔ وہ چپکے چپکے ایک دوسرے سے بات کر رہے ہوں گے۔ ماحول میں چھائے ہوئے خوف اور قیامت کے ہول کی وجہ سے وہ اونچی بات نہ کریں گے۔ وہ کا بات کر رہے ہوں گے۔ وہ ان دنوں کے بارے میں ہوگی جو انہوں نے زمین پر گزارے ہوں گے۔ ان کی حس اور شعور میں دنیا کا پورا زمانہ اس قدر سکڑا ہوا اور مختصر ہوگا کہ پوری زندگی یا زمین پر پورا انسانی دور نہیں چند ایام پر مشتمل نظر آئے گا۔ ان لبشتم الا عشراً (٠٢ : ٣٠١) ” تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے۔ “ ان میں سے جو شخص زیادہ صائب الرائے ہوگا وہ اس سے بھی کم اندازہ لگائے گا کہ صرف ایک دن کی زندگی تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

103 وہ چپکے چپکے آپ س میں کہتے ہوں گے کہ تم دنیا میں یا قبر میں صرف دس روز ٹھہرے ہو۔ یعنی میدان حشر کے عذاب اور ہول سے متاثر ہو کر دنیا کے قیام یا قبر کے قیام کا اندازہ دس دن لگائیں گے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اندھے یا یوں ہی نیلی ہوں گی بدنمائی کے واسطے 12