Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 105

سورة طه

وَ یَسۡئَلُوۡنَکَ عَنِ الۡجِبَالِ فَقُلۡ یَنۡسِفُہَا رَبِّیۡ نَسۡفًا ﴿۱۰۵﴾ۙ

And they ask you about the mountains, so say, "My Lord will blow them away with a blast.

وہ آپ سے پہاڑوں کی نسبت سوال کرتے ہیں ، تو آپ کہہ دیں کہ انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The destruction of the Mountains, and the Earth becomes a Smooth Plain Allah says, وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ ... And they ask you concerning the mountains. This is a question, will they remain on the Day of Resurrection or will they cease to exist ... فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا Say: "My Lord will blast them and scatter them as particles of dust." This means that He will take them away from their places, wipe them out and remove them completely.

پہاڑوں کا کیا ہوگا ؟ لوگوں نے پوچھا کہ قیامت کے دن یہ پہاڑ باقی رہیں گے یا نہیں؟ ان کا سوال نقل کرکے جواب دیا جاتا ہے کہ یہ ہٹ جائیں گے ، چلتے پھرتے نظر آئیں گے اور آخر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ۔ زمین صاف چٹیل ہموار میدان کی صورت میں ہوجائے کی ۔ قاع کے معنی ہموار صاف میدان ہے ۔ صفصفا اسی کی تاکید ہے اور صفصف کے معنی بغیر روئیدگی کی زمین کے بھی ہیں لیکن پہلے معنی زیادہ اچھے ہیں اور دوسرے مرادی اور لازمی ہیں ۔ نہ اس میں کوئی وادی رہے گی نہ ٹیلہ نہ اونچان رہے گی نہ نچائی ۔ ان دہشت ناک امور کے ساتھ ہی ایک آواز دینے والا آواز دے گا جس کی آوازپر ساری مخلوق لگ جائے گی ، دوڑتی ہوئی حسب فرمان ایک طرف چلی جارہی ہو گی نہ ادھر ادھر ہوگی نہ ٹیڑھی بانکی چلے گی کاش کہ یہی روش دنیا میں رکھتے اور اللہ کے احکام کی بجا آوری میں مشغول رہتے ۔ لیکن آج کی یہ روش بالکل بےسود ہے ۔ اس دن تو خوب دیکھتے سنتے بن جائیں گے اور آواز کے ساتھ فرماں برداری کریں گے ۔ اندھیری جگہ حشر ہو گا آسمان لپیٹ لیا جائے گا ستارے جھڑپڑیں گے سورج چاند مٹ جائے گا آواز دینے والے کی آوازپر سب چل کھڑے ہوں گے ۔ اس ایک میدان میں ساری مخلوق جمع ہو گی مگر اس غضب کا سناٹا ہو گا کہ آداب الٰہی کی وجہ سے ایک آواز نہ اٹھے گی ۔ بالکل سکون وسکوت ہوگا صرف پیروں کی چاپ ہو گی اور کانا پھوسی ۔ چل کر جا رہے ہوں گے تو پیروں کی چاپ تو لامحالہ ہونی ہی ہے اور باجازت الٰہی کبھی کبھی کسی کسی حال میں بولیں گے بھی ۔ لیکن چلنا بھی باادب اور بولنا بھی باادب ۔ جیسے ارشاد ہے ، ( يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ ١٠٥؁ ) 11-ھود:105 ) ۔ یعنی جس دن وہ میرے سامنے حاضر ہوں گے کسی کی مجال نہ ہوگی کہ بغیرمیری اجازت کے زبان کھول لے ۔ بعض نیک ہوں گے اور بعض بد ہوں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٤] یعنی نفخہ صور اول سے اگر انسان اور دوسری جاندار چیزیں مر بھی جائیں گی تو پہاڑوں جیسی سخت چیز پر اس نفخہ کا کیا اثر ہوگا ؟ یہ سوال دراصل ایسے جاہلوں کی طرف سے ہی ہوسکتا ہے۔ جنہوں نے اللہ کی اس پیدا کردہ کائنات اور اس کے نظام میں کبھی غور ہی نہیں کیا، آج کے انسان کے لئے یہ ایک بالکل مہمل سوال ہے۔ اگر سیاروں کی گردش اور ان کی کشش ثقل میں معمولی سی بھی گڑ بڑ ہوجائے تو پہاڑوں کا کیا ذکر ہے۔ سارے ستارے ایک دوسرے سے ٹکڑا کر پاش پاش ہوسکتے ہیں۔ قیامت کو یہی کیفیت ہوگی اور اس وقت پہاڑوں کی دھول اڑ رہی ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۧوَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ ۔۔ : قرطبی نے فرمایا کہ قرآن مجید میں جہاں بھی کسی سوال کا ذکر آیا ہے اس کے لیے جواب میں ” قُلْ “ کا لفظ آیا ہے۔ صرف اس مقام پر فاء کے ساتھ ” فَقُلْ “ آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے تمام مقامات پر ان سوالات کا جواب ہے جو ہوچکے تھے، یہاں فاء اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ ہونے والے سوال کا جواب دیا کہ ” فَإِنْ سَأَلُوْکَ فَقُلْ ۔۔ “ یعنی اگر وہ تجھ سے پوچھیں تو کہہ دینا۔۔ یعنی فاء دلیل ہے کہ اس سے پہلے شرط محذوف ہے۔ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا ۔۔ : صور پھونکنے کے ساتھ قیامت قائم ہونے اور تمام لوگوں کے جمع کرنے کے ذکر پر منکرین قیامت کی طرف سے سوال آنے والا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب پہلے ہی دے دیا کہ ان کے خیال میں اتنے بلند و بالا اور محکم پہاڑوں کو ان کی جگہ سے کوئی ہلا نہیں سکتا، اس لیے وہ پوچھیں گے کہ ان پہاڑوں کا کیا بنے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ پوچھیں تو آپ ان سے کہہ دیں کہ میرا رب انھیں اڑا کر بکھیر دے گا۔ ” يَنْسِفُهَا “ کی تاکید ” نَسْفًا “ کے ساتھ فرمائی، تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ” یَنْسِفُ “ اپنے اصل معنی میں نہیں ہے بلکہ مجاز ہے۔ یعنی فی الحقیقت اللہ تعالیٰ انھیں ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا۔ پہاڑوں پر گزرنے والی حالتوں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نبا (٢٠) کی تفسیر۔ ” قَاعًا “ میدان۔ ” صَفْصَفًا “ ہموار۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُہَا رَبِّيْ نَسْفًا۝ ١٠٥ۙ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ نسف نَسَفَتِ الرِّيحُ الشَّيْءَ : اقتلعتْه وأزالَتْهُ. يقال نَسَفْتَهُ وانْتَسَفْتَهُ. قال تعالی: يَنْسِفُها رَبِّي نَسْفاً [ طه/ 105] ونَسَفَ البعیرُ الأرضَ بمُقَدَّمِ رِجْلِهِ : إذا رَمَى بترابه . يقال : ناقة نَسُوفٌ. قال تعالی: ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفاً [ طه/ 97] أي : نطرحه فيه طَرْحَ النُّسَافَة، وهي ما تثور من غبارِ الأَرْض . وتسمّى الرُّغْوة نُسَافَةً تشبيهاً بذلک، وإناء نَسْفَانٌ: امْتَلأ فعَلَاهُ نُسَافَةٌ ، وانْتُسِفَ لَوْنُهُ. أي : تغيَّر عمّا کان عليه نسافُه، كما يقال : اغبرَّ وجهُه . والنَّسْفَة : حجارة يُنْسَفُ بها الوسخُ عن القدم، و کلام نَسِيفٌ. أي : متغيِّر ضَئِيلٌ. ( ن س ف ) نسفت الریح الشئی کے معنی ہوا کے کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے کے ہیں ۔ اور نسفتہ وانتسقتہ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَنْسِفُها رَبِّي نَسْفاً [ طه/ 105] خدا ان کو اڑا کر بکھیر دے گا ۔ کے معنی اونٹ کا اپنے اگلے پاؤں کے ساتھ مٹی کو پھینکنا کے ہے اور گھاس کو جڑ سے اکھاڑ کر چرنے والی اونٹنی کو ناقۃ نسوف کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفاً [ طه/ 97] پھر اس کی راخ کو اڑا کر دریامیں بکھر دیں گے ۔ یعنی ہم نسافۃ کی طرح اسے پھینک دیں گے اور نسا فۃ کے معنی اڑتی ہوئی غبار کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر جھاگ کو بھی نسافہ کہتے ہیں اور اناء نسفان بھرے ہوئے برتن کو کہتے ہیں جس پر جھاگ غالب ہو ۔ انتسف لونہ غبار آلود ہونے کی وجہ سے کسی شخص کی رنگت کا متغیر ہوجانا جیسا کہ اغبر وجھہ کا محاورہ ہے ۔ النسفۃ سنگ پائے خار کلام نسیف سخن پنہاں جو متغیر اور بود اہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٥) قبیلہ بنو ثقیف کے لوگوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہاڑوں کے متعلق دریافت کیا تھا کہ قیامت کے دن کی کیا حالت ہوگی اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ آپ ان کے جواب میں کہہ دیجیے کہ میرا پروردگار ان کو اکھاڑ کر ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا۔ شان نزول : ( آیت) ” ویسئلونک عن الجبال “۔ (الخ) ابن مندر (رح) نے ابن جریح (رض) سے روایت کیا ہے کہ قریش نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا پروردگار پہاڑوں کی قیامت کے دن کیا حالت کرے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ لوگ آپ سے پہاڑوں کی نسبت پوچھتے ہیں (الخ)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ ) ” واقعات قیامت کے سلسلے میں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بتاتے ہیں کہ روز محشر روئے زمین ایک صاف اور ہموار میدان کا نقشہ پیش کرے گی تو یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اتنے بڑے بڑے پہاڑی سلسلوں کا کیا بنے گا ؟ وہ کہاں چلے جائیں گے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :82 یہ بھی جملۂ معترضہ ہے جو دوران تقریر میں کسی سامع کے سوال پر ارشاد ہوا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت یہ سورت ایک الہامی تقریر کے انداز میں سنائی جا رہی ہوگی اس وقت کسی نے مذاق اڑانے کے لیے یہ سوال اٹھایا ہو گا کہ قیامت کا جو نقشہ آپ کھینچ رہے ہیں اس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ کسی ہموار میدان میں بھاگے چلے جا رہے ہوں گے ۔ آخر یہ بڑے بڑے پہاڑ اس وقت کہاں چلے جائیں گے ؟ اس سوال کا موقع سمجھنے کے لیے اس ماحول کو نگاہ میں رکھیے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی ۔ مکہ جس مقام پر واقع ہے اس کی حالت ایک حوض کی سی ہے جس کے چاروں طرف اونچے اونچے پہاڑ ہیں ۔ سائل نے انہی پہاڑوں کی طرف اشارہ کر کے یہ بات کہی ہو گی ۔ اور وحی کے اشارہ سے جواب برملا اسی وقت یہ دے دیا گیا کہ یہ پہاڑ کوٹ پیٹ کر اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے جیسے ریت کے ذرے ، اور ان کو دھول کی طرح اڑا کر ساری زمین ایک ایسی ہموار میدان بنا دی جائے گی کہ اس میں کوئی اونچ نیچ نہ رہے گی ، کوئی نشیب و فراز نہ ہو گا ، اس کی حالت ایک ایسے صاف فرش کی سی ہو گی جس میں ذرا سا بل اور کوئی معمولی سی سلوٹ تک نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٥۔ ١٠٧:۔ تفسیر ابن منذر میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قریش نے جب قرآن شریف میں قیامت کا حال اور دنیا کے ویران ہوجانے کا حال سنا تو پہاڑ ان کے دل میں ایک سخت اور پائیدار چیز گزری اس لیے انہوں نے اعتراض کے طور پر پوچھا کہ کیا صور پھونکنے سے پہاڑ بھی اڑ جائیں گے ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١ ؎۔ سورة القارعہ میں اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے اڑنے کی تفسیر فرمائی ہے کہ دھنکنے میں جس طرح روئی ٹکڑے ہو کر اڑ جاتی ہے اسی طرح صور کی آواز سے پہاڑا اڑتے پھریں گے۔ سورة الحاقہ اور سورة مزمل میں پہلے صور کے وقت پہاڑروں اور زمین کی اپنی اپنی جگہ سے ٹوٹ کر اڑ جانے کی زیادہ تفصیل آئے گی۔ صحیح بخاری ومسلم میں سہل بن سعد سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس زمین پر حشر قائم ہوگا وہ زمین صاف اور چورس ہوگی ٢ ؎۔ پہاڑ ٹیلہ مکان اس پر کچھ نہ ہوگا شعب الایمان بیہقی تفسیر عبدالرزاق وغیرہ میں عبداللہ بن مسعود (رض) کا صحیح قول ہے کہ جس زمین پر حشر قائم ہوگا اس پر کسی نے گناہ بھی نہیں کیا ٣ ؎۔ حضرت علی (رض) اور انس بن مالک (رض) کا قول بھی عبداللہ بن مسعود (رض) کے قول کے موافق ہے ٤ ؎۔ اس طرح کی غیب کی بات صحابہ (رض) اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے اس واسطے صحابہ (رض) کے یہ قول حدیث نبوی کے برابر ہیں۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو (رض) کی روایت ابھی اوپر گزر چکی ہے ٥ ؎۔ کہ پہلے صور کی آواز سے تمام دنیا ویران ہوجائے گی ان روایتوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ پہلے صور کی آواز سے پہاڑ ٹیلے مکانات سب اس طرح فنا ہوں گے کہ حشر کے قائم ہونے کے لیے دوسرے صور کے وقت نئی زمین جو پیدا کی جائے گی نہ اس زمین پر ان چیزوں میں سے کوئی چیز پیدا کی جائے گی نہ اس زمین پر کسی نے کوئی گناہ کیا ہوگا میدان کے یہی معنی میں ‘ ابراہیم بن منذر امام احمد کے زمانہ کے علماء میں تھے ‘ بخاری اور ترمذی میں ان سے روایتیں ہیں ابو حاتم نے ان کو معتبر علماء میں شمار کیا ہے ان کی تفسیر میں صحابہ (رض) تابعین اور تبع تابعین تمام کے قول ہیں۔ تبع تابعین کے بعد جو تفسیریں مع سند کے لکھی گئی ہیں ابراہیمی بن منذر کی تفسیر بھی اسی زمانہ کی آخری تفسیر میں ہے۔ ١ ؎ الدر المنثور ص ٣٠٧ ج ٤۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨٢ باب الحشر۔ ٣ ؎ فتح الباری ص ١٦٥ ج ٦ باب یقبض اللہ الارض۔ ٤ ؎ ایضا فتح الباری۔ ٥ ؎ یعنی گذشتہ باب فیم اور دفی سوال القبر ونعیمہ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:105) ینسفھا۔ نسف ینسف (ضرب) وہ ان کو اڑا کر بکھیر دے گا۔ نسف ونسوف (نصر) کاٹنا۔ نسف (ضرب) بنیاد اکھڑانا۔ پہاڑ کھودنا۔ کھود کر برابر کردینا۔ ریزہ ریزہ کر کے اڑا دینا۔ واذا الجبال نسفت (77:10) اور جب پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے اڑا دئیے جائیں گے۔ نیز ملاحظہ ہو

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٦) اسرارومعارف اب تو یہ پہاڑوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ مضبوط چٹانیں اور بلند پہاڑ بھلا کیسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتے ہیں تو فرما دیجئے کہ میرا رب ان کو ذرات بنا کر بکھیر دے گا اور زمین کو ایسا ہموار کر دے گا کہ کوئی بلندی پستی نہ رہے گی بلکہ ایک صاف میدان بن جائے گا جس میں کوئی روئیدگی تک نہ ہوگی اس روز تو پکارنے والے کی بات ایسے مانیں گے کہ تیر کی طرح سیدھے پہنچیں گے ، مفسرین کے مطابق حضرت اسرافیل (علیہ السلام) صخرہ بیت المقدس پر کھڑے ہو کر صور پھونکیں گے اور پکار کہیں گے اے بوسیدہ ہڈیو ، گلے سڑے چمڑو اور ٹوٹے بالو آؤ آج اپنے رب کے پاس جمع ہوجاؤ تو ہر کوئی پھر سے زندہ ہو کر اس طرف چل پڑے گا اور آج کے بڑھ چڑھ کر بولنے والے ایسے دب کر چلیں گے کہ ہیبت الہی سے ان کی بولتی بند ہوگی اور قدم بھی احتیاط سے رکھیں گے حتی کہ سوائے ہلکی سی چاپ کے کوئی آواز سنائی نہ دے گی اور وہ ایسا سخت دن ہوگا کہ شفاعت کرنے والے مقربین بھی صرف اس کی شفاعت کرسکیں گے جس کی شفاعت کی اللہ کریم نے اجازت دی ہے یعنی مومن کی ، بغیر ایمان کے مرنے والا تو شفاعت سے بھی محروم ہوگا کہ شفاعت بھی ایسے ہی لوگوں کو نصیب ہوگی جن کی بابت اللہ کریم کو بات سننا پسند ہوگا ، اللہ تو ان سب کے سب اگلے پچھلے حالات سے پوری طرح باخبر ہے مگر یہ اس کی اس عظیم صفت کو بھی سمجھ نہیں سکتے ، اس روز تو اس ہمیشہ ہمیشہ اور بالذات قائم رہنے والے کے روبرو سب مخلوقات سرنگوں دم سادھے کھڑی ہوگی اور جو بھی ظلم کا بوجھ اٹھائے حاضر ہوگا اور سخت نقصان میں رہے گا ، یاد رہے سب سے بڑا ظلم شرک ہے ۔ (عمل اور ایمان کا رشتہ) جس میں عموما کفار مبتلا ہوتے ہیں اس روز عافیت صرف اچھے عمل کرنے والے ایماندار بندوں کو ہوگی کہ نہ ان کے ساتھ بےانصافی ہوگی نہ کوئی عمل ضائع ہوگا یہاں اعمال صالح کو ایمان سے پہلے بیان فرمایا ہے یعنی ایمان کی بقا اور ترقی کا مدار اعمال صالح پر ہے اگر اعمال میں کوتاہی ہوگی تو ایمان کو ضرور متاثر کرے گی اور کمزور پڑتا جائے گا ۔ قرآن کریم کو ہم نے عربی میں نازل فرمایا اور اس میں سب حالات اور پیش آنے والی مشکلات کو بہت وضاحت سے بیان کردیا کہ بنی آدم ان سے بچنے اور اللہ کا قرب تلاش کرنے میں لگیں اگر کوئی ایسا نہ کرسکے تو ان حالات کو سن کر سوچنے کا موقع تو پالے گا جو کبھی اس کی توبہ اور اصلاح کا باعث بن سکتا ہے اللہ جل جلالہ کی شان بہت بلند ہے اور وہ سچا اور حقیقی بادشاہ ہے کہ مخلوق پر اس قدر مہربان ہے اور اسے بار بار پیش آنے والے حالات سے آگاہ فرماتا ہے ۔ آپ قرآن حکیم کو دہرانے میں جلدی نہ کریں اور جب تک وحی پوری ہوجائے صرف سنتے جائیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبرائیل امین (علیہ السلام) کے ساتھ ساتھ دہراتے جاتے تھے کہ یاد رہ جائے مگر یہاں ارشاد ہوا کہ آپ محنت نہ اٹھائیں اور اطمینان سے سنیں اسے آپ کے قلب اطہر میں نقش کرنا اور یاد کرانا ہمارا کام ہے ، ہاں آپ دعا کیا کیجئے کہ اے پروردگار میرے علم میں زیادتی فرما سبحان اللہ اگرچہ سب سے زیادہ علوم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہوئے مگر پھر بھی علوم الہی کی کوئی انتہا نہیں آپ مانگتے جائیے مزید عطا ہوتے جائیں گے ۔ (ولایت کی انتہا نہیں) معرفت الہی ہی علوم کا حاصل ہے اور اسی کو ولایت بھی کہا جاتا ہے لہذا ولایت کی بھی کوئی انتہا نہ ہوگی اگرچہ مراقبات ومقامات کی حد ہے مگر کیفیات کی انتہا نہیں اللہ جسے چاہے دیتا اور عطا فرماتا چلا جاتا ہے ۔ جب گذشتہ حالات بیان ہو رہے ہیں تو سب سے بنیادی واقعہ تو آدم (علیہ السلام) کا ہے جس سے شیطان کی انسان دشمنی بھی واضح ہوجاتی ہے کہ تب سے اس نے دشمنی کا عہد کر رکھا ہے اور سب سے پہلے آدم (علیہ السلام) کو دھوکا دیا جب ہم نے انہیں جنت میں رکھا اور ایک خاص درخت کے پھل کو نہ کھانے کا عہد لیا تو وہ بھول گئے اور اپنی بات یا عہد پر مضبوطی سے قائم نہ رہ سکے بھول کر عمل کرنا گناہ نہیں ہوتا اور انبیاء کرام (علیہ السلام) معصوم ہوتے ہٰں مگر مقربین کی بھول بہت سختی سے نوٹس لیا گیا نیز اس وقت نبی مبعوث نہ ہوئے تھے ورنہ وحی میں بھول بھی نہیں ہوتی ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منکرین قیامت کی غلط فہمی کا ازالہ۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کے سامنے حشر کی ہولناکیوں کا تذکرہ کیا تو انھوں نے سوال اٹھایا۔ بتائیں کہ پہاڑوں کا لامتناہی سلسلہ اور جن کی بلندیاں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اتنے بڑے، بڑے پہاڑوں کا کیا بنے گا ؟ جس کا جواب دینے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ انھیں فرمائیں کہ میرا رب انھیں دھول کی طرح اڑا دے گا اور زمین کو اس طرح ہموار اور چٹیل میدان بنائے گا کہ اس میں کوئی نشیب و فراز نہیں دیکھ پاؤ گے۔ قرآن مجید نے یہ حقیقت کئی مقامات پر بیان فرمائی ہے کہ یہ پہاڑ ٹوٹ پھوٹ جائیں گے، اور یہ روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑنا شروع کردیں گے۔ (القارعۃ : ٥) اس دن اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو بدل ڈالیں گے اور ہر کسی کو اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہوگا۔ ( ابراہیم : ٤٨) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پہاڑوں کو ریت کے ذرات بنا کر اڑا دے گا۔ ٢۔ زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ ٣۔ دیکھنے والا زمین میں کوئی نشیب و فراز نہیں دیکھ پائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن پہاڑوں کی کیفیّت : ١۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین چٹیل میدان ہوگی اور ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ (الکھف : ٤٧) ٢۔ اس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوجائیں گے۔ (المزمّل : ١٤) ٣۔ اس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی اور چاند گہنا دیا جائے گا اور سورج چاند کو جمع کردیا جائے گا۔ (القیامۃ : ٦ تا ٨) ٤۔ جب سورج لپیٹ لیا جائے گا۔ تارے بےنور ہوجائیں گے۔ پہاڑچلائے جائیں گے۔ (التکویر : ١ تا ٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو اڑادے گا زمین ہموار میدان ہوگی آوازیں پست ہوں گی، شفاعت اسی کے لیے نافع ہوگی جس کے لیے رحمن اجازت دے، سارے چہرے حی وقیوم کے لیے جھکے ہوئے ہوں گے ان آیات میں روز قیامت کے احوال اور اعمال صالحہ پر پورا پورا اجرو ثواب ملنے کا تذکرہ ہے۔ صاحب معالم التنزیل ج ٣ ص ٢٣١ نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ بنی ثقیف میں سے ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ جب قیامت قائم ہوگی تو پہاڑوں کا کیا ہوگا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ شانہ نے آیت شریفہ (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ ) (الایۃ) نازل ہوئی۔ جس میں بتادیا کہ پہاڑوں کی بڑائی اور بلندی اور سختی اور پھیلاؤ کی کچھ حیثیت بھی نہ رہے گی وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے پھر وہ پر اگندہ غبار کی طرح ہوں گے) سورة واقعہ میں فرمایا۔ (اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بُسًّا فَکَانَتْ ھَبَآءً مُّنْبَثًّا) (جبکہ زمین کو سخت زلزلہ آئے گا اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ ہوجائیں گے پھر وہ پراگندہ غبار کی طرح ہوں گے) اور سورة القارعۃ میں فرمایا ہے (وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ ) (اور پہاڑ ایسے ہوجائیں گے جیسے دھنی ہوئی رنگین اون ہو)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

75:۔ اس سے پہلے چونکہ نفخ صور، حشر نشر اور قیامت کا ذکر تھا۔ اس لیے مشرکین کے لیے اس بات کا موقع تھا کہ وہ یہ سوال پوچھ بیٹھیں کہ جب قیامت آئے گی تو یہ اتنے بڑے بڑے پہاڑ کہاں جائیں گے۔ اس لیے فرمادیا کہ اگر وہ یہ سوال کریں تو آپ اس کا جواب فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ریت کی مانند ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے گا۔ اور وہ سب زمین پر بکھر جائیں گے اور زمین بالکل صاف اور ہموار چٹیل میدان کی طرح نظر آئے گی۔ اس میں کہیں اونچ نیچ اور نشیب و فراز نہیں ہوگا۔ ” یَسْئَلُوْنَکَ “ کے جواب میں ” فَقُلْ “ پر فاء اس لیے داخل ہوئی ہے کہ ” یسئلونک “ متضمن معنی شرط ہے۔ کیونکہ یہ سوال متحقق نہیں تھا بلکہ متوقع تھا۔ اور اصل میں ان سالوک ہے اسی لیے جزاء پر فا داخل ہوئی۔ (مدارک) ” قَاعًا “ میدان۔ ” صَفْصَفًا “ صاف ہموار۔ ” عِوَجًا “ نشیب مستی۔ ” اَمْتًا “ بلندی اور اونچائی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

105 اور اے پیغمبر وقوع قیامت کے سلسلے میں لوگ آپ سے پہاڑوں کے متعلق دریافت کرتے ہیں کہ ان کا کیا ہوگا آپ فرما دیجیے کہ ان پہاڑوں کو میرا پروردگار بالکل اڑا دے گا۔ یعنی ان کو ریزہ ریزہ کر کے ہوا میں اڑا دے گا۔