Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 106

سورة طه

فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفۡصَفًا ﴿۱۰۶﴾ۙ

And He will leave the earth a level plain;

اور زمین کو بالکل ہموار صاف میدان کرکے چھوڑے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَيَذَرُهَا ... Then He shall leave it, referring to the earth; ... قَاعًا صَفْصَفًا as a level smooth plain. This means one expanse spread out. The word Qa` means a piece of land that is level and the word Safsafa is used to place emphasis on this meaning. It has also been said that Safsafa means that which has no vegetation growing in it. The first meaning is preferred, even though the second meaning is also included by necessity. In reference to this, Allah says, لاَا تَرَى فِيهَا عِوَجًا وَلاَا أَمْتًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَيَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا۝ ١٠٦ۙ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا [ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» . ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ قيع قوله تعالی: كَسَرابٍ بِقِيعَةٍ [ النور/ 39] . والقِيعُ والْقَاعُ : المستوي من الأرض، جمعه قِيعَانٌ ، وتصغیره : قُوَيْعٌ ، واستعیر منه : قَاعَ الفحل الناقة : إذا ضربها . ( ق ی ع ) القیعتہ ۔ ہموار میدان ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَسَرابٍ بِقِيعَةٍ [ النور/ 39] جیسے میدان میں ریت ؛ القیح وا القاع کے معنی ہموار زمین کے ہیں ۔ اس کی جمع قیعان اور تصغیر توقع آتی ہے اور اسی سے قاع الفحل الناقتہ کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی نر اونٹ کے ناقہ کے ساتھ جفتی کرنے اور پوری طرح سوار ہوکر اس پر بیٹھ جانے کے ہیں ۔ صف الصَّفُّ : أن تجعل الشیء علی خط مستو، کالناس والأشجار ونحو ذلك، وقد يجعل فيما قاله أبو عبیدة بمعنی الصَّافِّ «1» . قال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف/ 4] ، ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه/ 64] ، يحتمل أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الصَّافِّينَ ، وقال تعالی: وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات/ 165] ، وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات/ 1] ، يعني به الملائكة . وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر/ 22] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] ، فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج/ 36] ، أي : مُصْطَفَّةً ، وصَفَفْتُ كذا : جعلته علی صَفٍّ. قال : عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] ، وصَفَفْتُ اللّحمَ : قدّدته، وألقیته صفّا صفّا، والصَّفِيفُ : اللّحمُ المَصْفُوفُ ، والصَّفْصَفُ : المستوي من الأرض كأنه علی صفٍّ واحدٍ. قال : فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه/ 106] ، والصُّفَّةُ من البنیان، وصُفَّةُ السَّرج تشبيها بها في الهيئة، والصَّفُوفُ : ناقةٌ تُصَفُّ بين مَحْلَبَيْنِ فصاعدا لغزارتها، والتي تَصُفُّ رجلَيْها، والصَّفْصَافُ : شجرُ الخلاف . ( ص ف ف ) الصف ( ن ) کے اصل معنی کسی چیز کو خط مستوی پر کھڑا کرنا کے ہیں جیسے انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرنا یا ایک لائن میں درخت وغیرہ لگانا اور بقول ابوعبیدہ کبھی صف بمعنی صاف بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ نَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف/ 4] جو لوگ خدا کی راہ میں ایسے طور پر ) پرے جما کر لڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیشک محبوب کرو گار ہیں ۔ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه/ 64] پھر قطار باندھ کر آؤ ۔ وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر/ 22] اور فرشتے قطار باندھ کر آموجود ہوں گے ۔ میں صفا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور بمعنی صافین ( اسم فاعل ) بھی اور آیات : ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات/ 165] اور ہم صف باندھتے رہتے ہیں ۔ وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات/ 1] قسم ہے صف بستہ جماعتوں ن کی میں صافون اور صافات سے مراد فرشتے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پرند بازو پھیلائے ہوئے ۔ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج/ 36] تو ( قربانی کرنے کے وقت قطار میں کھڑے ہوئے اونٹوں پر خدا کا نام لو ۔ اور صففت کذا کے معنی کسیچیز کی صف لگانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] صف میں لگائے تختوں پر ۔ صفقت اللحم کے معنی گوشت کے پار چوں کو بریاں کرنے کے لئے سیخ کشیدہ کرنے کے ہیں اور سیخ کشیدہکئے ہوئے پار چوں کو صفیف کہا جاتا ہے : ۔ الصفصف ہموار میدان گویا وہ ایک صف کی طرح ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه/ 106] اور زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا جس میں نہ تم کجی ( اور پستی ) دیکھو گے اور نہ ٹیلا ) اور نہ بلندی ۔ الصفۃ کے معنی سایہ دار چبوتر ہ یا بر آمدہ کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر زین کی گدی کو صفۃ السراج کہا جاتا ہے ۔ الصفوف وہ اونٹنی جو زیادہ دودھ دینے کی وجہ سے دو یا تین برتن بھرے یا وہ جو دودھ دوہنے کے وقت اپنی ٹانگوں کو ایک قطار میں رکھ کر کھڑی ہوجائے ۔ الصفصاف بید کا درخت ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٦۔ ١٠٧) پھر زمین کو ایک میدان ہموار کردے گا کہ اس پر کوئی سبزہ وغیرہ کی کوئی بلندی دیکھے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:106) فیذرھا۔ الفاء للتعقیب۔ تعقیب کے لئے ہے۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب یا جبال کے لئے ہے یا ارض کے لئے ہے۔ یذر مضارع واحد مذکر غائب وذرمصدر یذراصل میں (باب ضرب سے) یوذر تھا۔ لیکن عمومی تلفظ مضارع کا باب سمع سے کیا جاتا ہے فیذرھا۔ پس وہ اسے چھوڑ دے گا۔ قاعا۔ نرم۔ ہموار۔ نشیبی میدان جو پہاڑوں اور ٹیلوں سے دور واقع ہو۔ اس کی جمع قیع قیعۃ اقواع ہے۔ قیامت کے دن پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے اڑا دئیے جائیں گے۔ اور سب چٹیل میدان کی شکل اختیار کرلیں گے۔ القیعۃ ہموار میدان ۔ قرآن مجید میں ہے کسراب بقیعۃ (24:39) جیسے چٹیل میدان میں چمکتی ہوئی ریت۔ قیع مادہ۔ صفصفا۔ صفصف مادہ الصف (نصر) کے اصل معنی کسی چیز کو خط مستوی پر کھڑا کرنا کے ہیں۔ جیسے انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرنا ہے۔ یا ایک لائن میں درخت لگانا۔ کبھی صف بمعنی صاف بھی آجا تا ہے جیسے ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا (61:4) جو لوگ خدا کی راہ مین پرے باندھ کر لڑتے ہیں وہ بیشک محبوب خدا ہیں الصفصف ہموار میدان۔ گویا وہ ایک صف کی طرح ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان سب آیات میں پہاڑوں کی حالت بتائی ہے، پھر زمین کے بارے فرمایا (فَیَذَرُھَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرٰی فِیْھَاعِوَجًا وَّ لَآ اَمْتًا) (اور اللہ تعالیٰ زمین کو اس حال میں کر دے گا کہ وہ ہموار میدان ہوگی اس میں ناہمواری اور پستی اور بلندی نہیں ہوگی، یعنی اس میں نہ گہرائی ہوگی اور نہ کوئی اٹھی ہوئی جگہ۔ اس کے بعد فرمایا (یَوْمَءِذٍ یَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ ) (جس دن پہاڑوں کی یہ حالت ہوگی جس کا ذکر اوپر ہوا، اس دن لوگ بلانے والے آواز کے پیچھے چل دیں گے) لَاعِوَجَ لَہٗ اس کے سامنے کوئی ٹیڑھاپن نہیں رہے گا۔ اس کی آواز کے خلاف کوئی بھی شخص دوسری راہ اختیار نہ کرسکے گا) پکارنے والے کی آواز کے پیچھے چلنا ہی ہوگا اور میدان حشر میں جمع ہونا ہی پڑے گا۔ صاحب روح المعانی ج ١٦ ص ٢٦٤ میں لکھتے ہیں کہ الداعی (بلانے والا) اس سے حضرت اسرافیل (علیہ السلام) مراد ہیں۔ وہ دوسری بار صور پھونکیں گے تو صخرہ بیت المقدس پر کھڑے ہو کر یوں آواز دیں گے ایتھا العظام البالیۃ والجلود المتمزقۃ واللحوم المتفرقۃ ھلموا الی الرحمن فیقبلون من کل صوب الی صوتہ (اے گلی ہوئی ہڈیو اور ٹکڑے بنے ہوئے چمڑو اور الگ الگ ہوئے ہوئے گوشتو چلے آؤ رحمن کی طرف تمہاری پیشی ہوگی) یہ اعلان سن کر ہر طرف سے سب لوگ اس آواز کی طرف چل دیں گے۔ صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں۔ لا یزیغون عنہ یمینا ولا شمالا ولا یقدرون علیہ بل یتبعونہ سراعا یعنی پکارنے والے کی آواز سے ہٹ کر دائیں بائیں کسی طرف نہ جائیں گے اور نہ جاسکیں گے بلکہ جلدی جلدی اس کی آواز کا اتباع کریں گے۔ (وَ خَشَعَتِ الْاَصْوَات للرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّاھَمْسًا) (اور رحمن کے لیے آوازیں پست ہوجائیں گی سو اے مخاطب تو ہمس کے سوا کچھ نہ سنے گا) ہمس بہت ہلکی آواز کو کہتے ہیں اور اونٹوں کے چلنے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اسے بھی ہمس کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میدان قیامت میں حاضر ہونے والے بہت ہی ہلکی آواز میں بات کریں گے جیسا کہ اوپر (یَتَخَافَتُوْنَ بَیْنَھُمْ ) میں بتایا جا چکا ہے۔ دنیا میں جو یہ بلند آوازیں ہیں کسی کا وہاں کوئی اثر نہ ہوگا سب دب جائیں گی خوف کا یہ عالم ہوگا کہ آواز نکالنے کی ہمت ہی نہ ہوگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

106 پھر زمین کو ایک ایسا ہموار اور صاف کر چھوڑے گا اور ایسا میدان کر دے گا۔