Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 109

سورة طه

یَوۡمَئِذٍ لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوۡلًا ﴿۱۰۹﴾

That Day, no intercession will benefit except [that of] one to whom the Most Merciful has given permission and has accepted his word.

اس دن سفارش کچھ کام نہ آئیگی مگر جسے رحمٰن حکم دے اور اس کی بات کو پسند فرمائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Intercession and the Recompense Allah, the Exalted, says, يَوْمَيِذٍ ... On that day, the Day of Resurrection, ... لاَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ ... no intercession shall avail. meaning with Him (Allah). ... إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلاً except the one for whom the Most Gracious has given permission and whose word is acceptable to Him. This is similar to His statement, مَن ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ Who is he that can intercede with Him except with His permission. (2:255) It is also similar to His statement, وَكَمْ مِّن مَّلَكٍ فِى السَّمَـوَتِ لاَ تُغْنِى شَفَـعَتُهُمْ شَيْياً إِلاَّ مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشَأءُ وَيَرْضَى And there are many angels in the heavens, whose intercession will avail nothing except after Allah has given leave for whom He wills and is pleased with. (53:26) He also says, وَلاَ يَشْفَعُونَ إِلاَّ لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ And they cannot intercede except for him with whom He is pleased. And they stand in awe for fear of Him. (21:28) He also says, وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَـعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ Intercession with Him profits not except for him whom He permits. (34:23) And He says, يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَـيِكَةُ صَفّاً لاَّ يَتَكَلَّمُونَ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـنُ وَقَالَ صَوَاباً The Day that Ar-Ruh and the angels will stand forth in rows, they will not speak except him whom the Most Gracious allows, and he will speak what is right. (78:38) In the Two Sahihs it is reported from the leader of the Children of Adam and the Noblest of all the creatures to Allah, Muhammad: اتِي تَحْتَ الْعَرْشِ وَأَخِرُّ للهِ سَاجِدًا وَيَفْتَحُ عَلَيَّ بِمَحَامِدَ لاَ أُحْصِيهَا الاْنَ فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ أَنْ يَدَعَنِي ثُمَّ يَقُولُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ ثُمَّ أَعُود I will come under the Throne and I will fall down into prostration. Then, I will be inspired to make praises (of Allah) that I am not able to recall them now. Allah will leave me in this condition as long as He wishes. Then, He will say, "O Muhammad, raise your head. Speak and you will be heard, intercede and your intercession will be accepted." Then, a designated group will be allowed for me (to intercede on their behalf). Allah will then enter them into Paradise and I will return (to repeat the process again). The Prophet mentioned doing this four times. May Allah's blessings and peace be upon him and the rest of the Prophets as well. In another Hadith it also mentions that he said, يَقُولُ تَعَالَى أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا ثُمَّ يَقُولُ أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ نِصْفُ مِثْقَالٍ مِنْ إِيمَانٍ أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مَا يَزِنُ ذَرَّةً مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى مِثْقَالِ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَان Allah, the Exalted, will say, "Bring out of the Fire whoever has a seed's weight of faith in his heart." So a large number of people will be brought out. Then He will say, "Bring out of the Fire whoever has a half of a seed's weight of faith in his heart. Bring out whoever has the weight of a speck of dust in his heart. Bring out whoever has the weight of the smallest and tiniest particle of dust of faith in his heart." And the Hadith continues. Concerning Allah's statement,

نوعیت شفاعت اور روز قیامت ۔ قیامت کے دن کسی کی مجال نہ ہو گی کہ دوسرے کے لئے شفاعت کرے ہاں جسے اللہ اجازت دے ۔ نہ آسمان کے فرشتے بے اجازت کسی کی سفارش کرسکیں نہ اور کوئی بزرگ بندہ ۔ سب کو خود خوف لگا ہوگا بے اجازت کسی کی سفارش نہ ہو گی ۔ فرشتے اور روح صف بستہ کھڑے ہوں گے ، بے اجازت الٰہی کوئی لب نہ کھول سکے گا ۔ خود سید الناس اکرم الناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عرش تلے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے اللہ کی خوب حمد وثنا کریں گے دیر تک سجدے میں پڑے رہیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا سر اٹھاؤ کہو تمہاری بات سنی جائے گی ، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی پھر حد مقرر ہو گی آپ ان کی شفاعت کرکے جنت میں لے جائیں گے پھر لوٹیں گے پھر یہی ہو گا چار مرتبہ یہی ہو گا ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی سائر الانبیاء ۔ اور حدیث میں ہے کہ حکم ہو گا کہ جہنم سے ان لوگوں کو بھی نکال لاؤ جن کے دل میں مثقال ایمان ہو ۔ پس بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے پھر فرمائے گا جس کے دل میں آدھا مثقال ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔ جس کے دل میں بقدر ایک ذرے کے ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔ جس کے دل میں اس سے بھی کم ایمان ہو اسے بھی جہنم سے آزاد کرو ، الخ ۔ اس نے تمام مخلوق کا اپنے علم سے احاطہ کررکھا ہے مخلوق اس کے علم کا احاطہ کر نہیں سکتی ۔ جیسے فرمان ہے اس کے علم میں سے صرف وہی معلوم کرسکتے ہیں جو وہ چاہے ۔ تمام مخلوق کے چہرے عاجزی پستی ذلت ونرمی کے ساتھ اس کے سامنے پست ہیں اس لئے کہ وہ موت وفوت سے پاک ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہنے والا ہے وہ نہ سوئے نہ اونگھے ۔ خود اپنے آپ قائم رہنے والا اور ہر چیز کو اپنی تدبیر سے قائم رکھنے والا ہے سب کی دیکھ بھال حفاظت اور سنبھال وہی کرتا ہے ، وہ تمام کمالات رکھتا ہے اور ساری مخلوق اس کی محتاج ہے بغیر رب کی مرضی کے نہ پیدا ہو سکے نہ باقی رہ سکے ۔ جس نے یہاں ظلم کئے ہوں گے وہ وہاں برباد ہو گا ۔ کیونکہ ہر حق دار کو اللہ تعالیٰ اس دن اس کا حق دلوائے گا یہاں تک کہ بےسینگ کی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا ۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ عزوجل فرمائے گا مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم کسی ظالم کے ظلم کو میں اپنے سامنے سے نہ گزرنے دوں گا ۔ صحیح حدیث میں ہے لوگوظلم سے بچو ۔ ظلم قیامت کے دن اندھیرے بن کر آئے گا اور سب سے بڑھ کرنقصان یافتہ وہ ہے جو اللہ سے شرک کرتا ہوا مرا وہ تباہ وبرباد ہوا ، اس لئے کہ شرک ظلم عظیم ہے ۔ ظالموں کا بدلہ بیان فرما کر متقیوں کا ثواب بیان ہو رہا ہے کہ نہ ان کی برائیاں بڑھائی جائیں نہ ان کی نیکیاں گھٹائی جائیں ۔ گناہ کی زیادتی اور نیکی کی کمی سے وہ بےکھٹکے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

109۔ 1 یعنی اس دن کسی کی سفارش کسی کو فائدہ نہیں پہنچائے گی، سوائے ان کے جن کو رحمٰن شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، اور وہ بھی ہر کسی کی سفارش نہیں کریں گے بلکہ صرف ان کی سفارش کریں گے جن کی بابت سفارش کو اللہ پسند فرمائے گا اور یہ کون لوگ ہونگے ؟ صرف اہل توحید، جن کے حق میں اللہ تعالیٰ سفارش کرنے کی اجازت دے گا۔ یہ مضمون قرآن میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلا سورة نجم، 2 6 ، سورة انبیاء، 28۔ سورة سباء، 23۔ سورة النباء 38۔ اور آیت الکرسی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٨] یعنی اس دن سفارش ہوگی ضرور مگر اس کے لئے تین شرائط ہوں گی۔ ایک تو وہی شخص سفارش کرسکے گا جس کو اللہ کی طرف سے سفارش کرنے کی اجازت مل جائے۔ دوسرے اسی شخص کے حق میں کرسکے گا جس کے حق میں سفارش اللہ کو منظور ہوگی۔ تیسرے وہ صرف ایسی بات کے لئے ہی سفارش کرسکے گا جسے اللہ سننا پسند فرمائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ ۔۔ : اس آیت میں اس دن کی مزید ہیبت اور عظمت بیان ہوئی ہے کہ مشرکین کا کہنا کہ ہمارے معبود ہماری سفارش کرکے ہمیں بچا لیں گے، بالکل غلط ہے۔ وہاں کوئی سفارش نفع نہ دے گی۔ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ ۔۔ : اس کے دو مطلب ہیں، دونوں مراد ہیں اور دونوں کی تائید آیات قرآن سے ہوتی ہے۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ نہایت مختصر لفظوں میں بہت زیادہ معانی ہوتے ہیں۔ ایک معنی یہ ہے کہ اس دن سفارش نفع نہ دے گی مگر اس کی جس کو رحمٰن سفارش کرنے کی اجازت دے اور جس کے بات کرنے کو پسند فرمائے۔ دوسرا یہ کہ اس دن سفارش نفع نہ دے گی مگر اس کو جس کے حق میں رحمٰن سفارش کی اجازت دے اور جس کے حق میں بات کرنے کو پسند فرمائے۔ دیکھیے سورة مریم (٨٧) ، سبا (٢٣) ، زخرف (٨٦) ، نجم (٢٦) اور نبا (٣٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِيَ لَہٗ قَوْلًا۝ ١٠٩ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف/ 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء/ 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه . وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] ، أي : يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔ وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٩) اور قیامت کے دن فرشتوں کی شفاعت کسی کو نفع نہیں دے گی مگر ایسے شخص کی شفاعت فائدہ مند ہوگی، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی ہو اور اس کا کلمہ طیبہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

85. This also has another interpretation: On that Day intercession will not be effective except in the case of the one for whom the Merciful may allow it and be pleased to hear it for him. Both these interpretations are supported by the following: Who is there that can intercede with Him except by His own permission? (Surah Al-Baqarah, Ayat 255). On that Day when the spirit and the angels will stand with folded hands, they will not be able to say anything except what the Merciful will permit, and they will say the right thing. (Surah An-Naba, Ayat 38). They do not intercede for anyone except for whom the Merciful may be pleased to listen to, and they are always fearful of Him. (Surah Al-Anbia, Ayat 28). There are many angels in the heavens whose intercession avails nothing at all except when it is made after getting permission from Allah, and for the one for whom He wills to hear and approves of it. (Surah An-Najam, Ayat 26).

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :85 اس آیت کے دو ترجمے ہو سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو متن میں کیا گیا ہے ۔ دوسرا یہ کہ اس روز شفاعت کارگر نہ ہو گی الا یہ کہ کسی کے حق میں رحمان اس کی اجازت دے اور اس کے لیے بات سننے پر راضی ہو ۔ الفاظ ایسے جامع ہیں جو دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں ۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قیامت کے روز کسی کو دم مارنے تک کی جرأت نہ ہو گی کجا کہ کوئی سفارش کے لیے بطور خود زبان کھول سکے ۔ سفارش وہی کر سکے گا جسے اللہ تعالیٰ بولنے کی اجازت دے ، اور اسی کے حق میں کر سکے گا جس کے لیے بارگاہ الہٰی سے سفارش کرنے کی اجازت مل جائے ۔ یہ دونوں باتیں قرآن میں متعدد مقامات پر کھول کر بتا دی گئی ہیں ۔ ایک طرف فرمایا : مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہ اِلَّا بِاِذْنِہ ، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے ( بقرہ ۔ آیت 255 ) ۔ اور : یَوْمَ یَقُوْمُ الرَّوْحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ، لَّا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَاباً ، وہ دن جبکہ روح اور ملائکہ سب صف بستہ کھڑے ہوں گے ، ذرا بات نہ کریں گے ، صرف وہی بول سکے گا جسے رحمان اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے ( النبا ۔ آیت 38 ) ۔ دوسری طرف ارشاد ہوا : وَلَا یَشْفَعُوْنَاِ الَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہ مُشْفِقُوْنَ ، اور وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس شخص کے جس کے حق میں سفارش سننے پر ( رحمان ) راضی ہو ، اور وہ اس کے خوف سے ڈرے ڈرے رہتے ہیں ( الانبیاء ۔ آیت 28 ) ۔ اور : کَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُھُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللہُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَرْضٰی ، کتنے ہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتی بجز اس صورت کے کہ اللہ سے اجازت لینے کے بعد کی جائے اور ایسے شخص کے حق میں کی جائے جس کے لیے وہ سفارش سننا چاہے اور پسند کرے ( النجم ، آیت 26 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٩۔ ١١٢:۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ ان بت پرستوں کو اپنے بتوں پر یہ جو بھروسہ ہے کہ اگر قیامت قائم ہوئی تو جن نیک لوگوں کی مورتوں کو یہ لوگ پوجتے ہیں وہ نیک لوگ اللہ کی بارگاہ میں سفارش کر کے قیامت کے دن اپنی پوجا کرنے والوں کو دوزخ کے عذاب سے چھڑا لیں گے یہ بھروسہ شیطان کا دھوکا ہے جس دھوکے میں یہ لوگ پھنس رہے ہیں اس لیے کہ جب ان لوگوں کو یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ جو شخص شرک میں گرفتار رہ کر بغیر توبہ کے مرجائے گا تو ایسے شخص کے حق میں اللہ تعالیٰ کا یہ قطعی وعدہ ہے کہ ایسا شخص ہمیشہ دوزخ کے عذاب میں گرفتار رہے گا کسی طرح اس کی بخشش نہ ہوگی اس لیے کسی مشرک کے حق میں اللہ تعالیٰ کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہ دے گا اور یہ بھی سمجھا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے برخلاف نیک لوگوں کا اپنے پوجا کرنے والوں کی سفارش کا کرنا تو درکنار بلکہ ان مشرکوں کے شرک کے سبب سے قیامت کے دن وہ نیک لوگ ان مشرکوں کی صورت سے بیزار ہوجائیں گے کیونکہ نیک لوگوں کے دل میں اللہ کی وحدانیت اور شرک سے بیزاری کی جو بات تھی وہی اللہ کو پسند آئی اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سفارش کا مرتبہ دیا پھر وہ مشر کوں کی سفارش کرکے جس شرک سے بیزار تھے اس کے حامی کیونکر بن سکتے ہیں اس لیے ان مشرکوں کی یہ بڑی نادانی ہے کہ جس بات سے اللہ کے نیک بندے بیزار ہیں یہ مشرک لوگ اسی بات کا ان نیک لوگوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں پھر فرمایا ہر ایک شخص کے دنیا کے عملوں کا حال اور اس کا عقبیٰ کا انجام اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے انسان اس غیب دان کے علم کی حد کو نہیں پہنچ سکتا اس نے قیامت کے دن کا یہ غیب کا فیصلہ لوگوں کو جتلا دیا ہے کہ اس دن مشرک لوگ نقصان اٹھائیں گے اور ایمان دار نیک عمل لوگوں کو اس دن کچھ نقصان نہ پہنچے گا اور صاحب قدرت وہ ایسا ہے کہ اس کی قدرت کے آگے سب عاجز اور اس کی بارگاہ میں ناک رگڑتے اور گڑ گڑاتے ہیں اس واسطے اس کے حکم اور فیصلہ کو کوئی ٹال نہیں سکتا ان مشرکوں نے اس کے فیصلہ کے برخلاف یہ بات جو تراش رکھی ہے کہ اول تو قیامت قائم نہ ہوگی اور اگر قائم ہوئی تو جن لوگوں کی مورتوں کی یہ مشرک لوگ پوجا کرتے ہیں وہ اپنے پوجا کرنے والوں کو اس دن دوزخ کے عذاب سے بچا لیں گے ان مشرکوں کو اپنی اس تراشی ہوئی بات کا انجام وقت پر معلوم ہوجائے گا دنیا کے بادشاہوں کے حکم میں یہ بات جو پائی جاتی ہے کہ ایک بادشاہ کوئی حکم جاری کر کے مرجاتا ہے اور پھر اس کے مرجانے کے بعد اس کا جانشین اس حکم کو بدل ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اور قائم رہنے والا ہے نہ اس کا کوئی جانشین ہے نہ اس کے کسی حکم کو کوئی بدل سکتا ہے۔ صحیح مسلم میں جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے ١ ؎۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے اعمال نامہ میں شرک نہ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کو ایسے شخص کے اور گناہوں کے بخش دینے میں کچھ دریغ نہ ہوگا۔ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ سفارش کے قبول ہونے اور گناہوں کے معاف ہوجانے کے لیے نامہ اعمال میں شرک نہ ہونا چاہیے۔ مشرکوں نے سفارش کے باب میں جو بات تراش رکھی ہے جس کا ذکر اوپر گزرا وہ بالکل غلط ہے۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٦٦ ج ١ باب الدلیل علی ٰ ان من مات لایشرک با للہ شیأ دخل الجنۃ الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:109) لا تنفع الشفاعۃ الا من اذن لہ الرحمن ورضی لہ قولا۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1) ای لا تنفع شفاعۃ شافع الا من اذن لہ الرحمن ورضی لہ قولا۔ یعنی کسی سفارش کرنے والے کی سفارش سود مند نہ ہوگی سوائے اس شفاعت کنندہ کے جسے رحمن اجازت بخشے اور (پھر اس سفارش کنندہ کی) بات پر وہ (رحمن) راضی ہو۔ اس کی تائید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ۔ (2:255) کون ہے جو اس کے سامنے اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔ اور یوم یقوم الروح والملئکۃ صفا لا یتکلمون الا من اذن لہ الرحمن وقال صوابا۔ (78:37) اس دن جب کہ روح اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے کوئی نہ بول سکے گا بجز اس کے جس کو رحمن اجازت بخشے اور وہ کہے بھی ٹھیک بات ۔ (2) ای لا تنفع شفاعۃ شافع لاحد الا من اذن لہ الرحمن ورضی لہ قولا یعنی کسی سفارش کنندہ کی سفارش کسی کے حق میں بھی سود مند نہ ہوگی سوائے اس کے حق میں جس کے لئے رحمن اجازت بخشے اور جس کے قول پر وہ (رحمن) راضی بھی ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک قول سے مراد لا الہ الا اللہ کا کلمہ ہے یعنی مشفوع مومن بھی ہو ان معنی میں قرآن مجید میں ہے ولا یشفعون الا لمن ارتضی (21:28) اور وہ کسی کی سفارش بھی نہیں کرسکتے بجز اس کے کہ جس کے لئے سفارش سننے پر رحمن بھی راضی ہو۔ یا کم من ملک فی السموت لا تغنی شفاعتہم شیئا الا من بعد ان یاذن اللہ لمن یشاء ویرضی (53:26) اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں کہ ان کی سفارش ذرا بھی کام نہیں آسکتی بجز اس صورت کے کہ اللہ اجازت دے دے جس کے لئے وہ چاہے اور جس کے لئے وہ رضامند ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یا جس کے لئے (سفارش کرنے کی) رحمان اجازت دے اور اس کے لئے وہ بات سننا پسند کرے۔ نظم قرآن سے یہ دونوں معنی مفہوم ہوتے ہیں اور دونوں صحیح اور دوسری آیات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ( سورة مریم 87، سبا 23 زخرف 86 نجم 26)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مراد اس سے مومن ہے کہ شافعین کو اس کی سفارش کے لئے اجازت ہوگی، اور اس باب میں شافع کا بولنا پسندیدہ حق ہوگا، اور کفار کے لئے سفارش کی کسی کو اجازت ہی نہ ہوگی، پس عدم نفع بوجہ عدم شفاعت کے ہے، اس میں ترہیب ہے کفار معرضین کو کہ تم تو شفاعت سے بھی محروم رہو گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (یَوْمَءِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوْلًا) (جس دن شفاعت نفع نہ دے گی مگر اس کو جس کے لیے رحمن نے اجازت دی اور جس کے لیے بولنا پسند فرمایا) مطلب یہ ہے کہ اس ہولناک دن میں مصیبت سے چھٹکارہ کا کوئی راستہ نہ ہوگا اور شفاعت کام نہ دے گی۔ ہاں جس کے لیے شفاعت کرنے کی اجازت ہوگی اور جس کے لیے اللہ تعالیٰ بولنا پسند فرمائے گا اس کے حق میں شفاعت نافع ہوگی۔ اول تو ہر ایک شفاعت کر نہیں سکے گا جسے شفاعت کرنے کی اجازت ہوگی وہی شفاعت کی جرأت کرے گا جیسا آیۃ الکرسی میں فرمایا (مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ الاَّ باذْنِہٖ ) (کون ہے جو اس کی بار گاہ میں سفارش کرے مگر اس کی اجازت سے) اور سفارش کرنے کی اجازت بھی نہ ہر ایک کو ہوگی اور نہ ہر ایک کے لیے ہوگی۔ جنہیں شفاعت کرنے کی اجازت ہوگی وہ اسی کی شفاعت کرسکیں گے جس کے لیے شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔ سفارش صرف مومن بندوں کے لیے ہوگی غیر مومن کے لیے وہاں شفاعت کا کوئی مقام نہ ہوگا۔ اور مومنین کے لیے بھی یہ شفاعت حسب مواقع ہو سکے گی جس کی تفصیلات احادیث شریفہ میں وارد ہوئی ہیں۔ اس توضیح سے یہ معلوم ہوگیا کہ جہاں کہیں شفاعت کے نفع دینے کی نفی فرمائی ہے اس سے یہ مراد ہے کہ کافروں کو کوئی شفاعت نفع نہ دے گی۔ کمافی سورة المومن (مَا للظَّالِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّ لاَ شَفِیْعٍ یُّطَاعُ ) (ظالموں کے لیے نہ کوئی دوست ہوگا نہ کوئی سفارش کرنے والا) (یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ ) (وہ ان سب کے اگلے پچھلے احوال جانتا ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

77:۔ یہاں قیامت کے دن شفاعت کے نافع ہونے کی نفی کی گئی ہے اور اس میں سے پھر شفاعت کی ایک صورت کو مستثنی کیا گیا ہے۔ جس کی تعبیر ” مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ “ سے کی گئی ہے۔ اس سے یا تو شافعین یعنی انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام اور مومنین صالحین مراد ہیں جن کو قیامت کے دن گنہگاروں کی سفارش کرنے کا اذن ملے گا۔ یا مشفوع لھم یعنی وہ گنہگار مومنین مراد ہیں، جن کے حق میں شفاعت ہوگی۔ پہلی صورت میں معبودان باطلہ کی شفاعت کے نافع ہونے کی نفی ہوگی اور دوسری صورت میں مشرکین کے حق میں شفاعت کے مفید ہونے کی نفی مراد ہوگی۔ و معناہ لاجلہ وکذا ورضی لہ ای لاجلہ ویکون من للمشفوع لہ او بدل من الشفاعۃ علی حذف مضاف ای الا شفاعۃ من اذن لہ ویکون من للشافع الخ (بحر ج 6 ص 280) ۔ پہلی صورت کا حاصل یہ ہوگا کہ شفاعت صرف مومنوں کے حق میں ہوگی مشرکوں کے حق میں نہ ہوگی اور دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ شفاعت صرف انبیاء (علیہم السلام) اور نیک لوگ ہی کریں گے مشرکین پیروں اور راہنماؤں کو شفاعت کی اجازت نہیں ملے گی۔ ” وَ عَنَتِ الْوُجُوْهُ الخ “ قیامت کے دن تمام بنی آدم اللہ کے سامنے عاجز اور سرافگندہ ہوں گے کیا فقیر اور کیا امیر، کیا رعیت اور کیا بادشاہ سب لرزاں اور ترساں ہوں گے اور جنہوں نے شرک کیا ہوگا وہ سراسر خسارے میں ہوں گے۔ ان کے نجات پانے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ عنت ای ذلت وخضعت اور ظلم سے شرک مراد ہے (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

109 اس دن کسی کے حق میں سفارش نفع نہیں دے گی اور شفاعت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا مگر ہاں اس شخص کو شفاعت کا فائدہ حاصل ہوگا جس کے لئے رحمان نے شافع کو اجازت دی ہو اور اس کے لئے شافع کی بات کو پسند کرلیا ہو۔ یعنی سفارش اس کے حق میں مفید ہوگی جس کے لئے رحمان اجازت دے اور اس کا بولنا پسند کرے مراد یہ ہے کہ وہ جس کی سفارش کی جائے وہ مومن ہو کافر کے لئے نہ سفارش کی اجازت نہ سفارش مفید اور مقبول ۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اس کی سفارش چلے گی۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ شافع ماذون ہو اور مشفوع لہ مسلمان۔