Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 116

سورة طه

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی ﴿۱۱۶﴾

And [mention] when We said to the angels, "Prostrate to Adam," and they prostrated, except Iblees; he refused.

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم ( علیہ السلام ) کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا ۔ اس نے صاف انکار کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَإيِكَةِ اسْجُدُوا لاِإدَمَ ... And when We said to the angels: "Prostrate yourselves to Adam." He, Allah mentions how Adam was honored and what respect was given to him. He mentions how He favored him over many of those whom He created. A discussion of this story has already preceded in Surah Al-Baqarah, Surah Al-A`raf, Surah Al-Hijr and Surah Al-Kahf. It will also be mentioned again at the end of Surah Sad. In this story, Allah mentions the creation of Adam and that He commanded the angels to prostrate to Adam as a sign of honor and respect. He also explains the enmity of Iblis for the Children of Adam and for their father, Adam, before them. Due to this Allah says, ... فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى They prostrated themselves (all) except Iblis; he refused. This means that he refrained from prostrating and became arrogant.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٤] آدم و ابلیس کا قصہ سورة ئبقرہ، اعراف اور دیگر کئی مقامات پر پہلے ہی گزر چکا ہے۔ اور آئندہ بھی آئے گا، مگر ہر مقام پر اتنا ہی ذکر کیا گیا جتنا موقع کے لحاظ سے مناسب تھا۔ گویا اس قصہ کے مختلف اجزاء سے مختلف نتائج پیش کئے گئے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٣٤ تا ٣٦) اور اعراف (١١، ١٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ (And when We said to angels - 20:116)Here is a brief mention of the command which, after the creation of Sayyidna &Adam (علیہ السلام) Allah gave to all the angels including Iblis (Shaitan) who at that time lived in the Paradise with them, to prostrate to him. All the angels obeyed but Shaitan refused. In his haughtiness he claimed that he was made of fire while Sayyidna &Adam (علیہ السلام) was made of clay, and fire being superior to clay, he could not be expected to prostrate to the latter. As a punishment for his arrogance and defiance of the command of Allah he was accursed and driven from Paradise while all the gates of Paradise were opened wide for Sayyidna &Adam (علیہ السلام) and Sayyidnh Hawwa& (علیہا السلام) to enjoy the fruits of its gardens and all the blessings of Allah at their will. However, there was one particular tree which they were told to shun in all circumstances and never to partake of any of its produce. This story has been related in Surah Al-Baqarah and Al-A&rif. Instead of repeating it here, Allah has mentioned his directives given to Sayyidna &Adam (علیہ السلام) to comply with His commands to the fullest extent. Referring to the rebellious conduct of shaitan He reminds Sayyidna &Adam (علیہ السلام) that the former is his enemy and that both he himself and his wife should at all times be on their guard against his deceptions. But if they succumbed to his tricks and became heedless of the commands of Allah then they would be expelled from Paradise and face distress

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ ، یہ اس عہد کا مختصر بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے لیا تھا اس میں تخلیق آدم کے بعد سب فرشتوں کو اور ان کے ضمن میں ابلیس کو بھی، کیونکہ اس وقت تک ابلیس جنت میں فرشتوں کے ساتھ رہتا سہتا تھا یہ حکم دیا گیا کہ سب کے سب آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں سب فرشتوں نے سجدہ کرلیا مگر ابلیس نے انکار کردیا جس کی وجہ دوسری آیات میں اس کا تکبر تھا کہ میں آگ سے بنا ہوں یہ مٹی سے، اور آگ بہ نسبت مٹی کے افضل و اشرف ہے میں اس کو سجدہ کیوں کروں، اس پر ابلیس تو ملعون ہو کر جنت سے نکالا گیا۔ حضرت آدم و حوا کے لئے جنت کے سب باغات اور ساری نعمتوں کے دروازے کھول دیئے گئے اور ہر چیز کے استعمال کی اجازت دی گئی صرف ایک معین درخت کے متعلق یہ ہدایت کی گئی کہ اس کو (یعنی اس کے پھول پھول وغیرہ کو) نہ کھائیں اور اس کے قریب بھی نہ جائیں۔ یہ مضمون بھی سورة بقرہ و اعراف کی آیتوں میں آ چکا ہے یہاں اس کا ذکر کرنے کے بجائے حق تعالیٰ نے اپنا وہ ارشاد ذکر کیا ہے جو اس عہد کے محفوظ رکھنے اور اس پر قائم رہنے کے سلسلہ میں فرمایا کہ دیکھو شیطان ابلیس جیسا کہ واقعہ سجدہ کے وقت ظاہر ہوچکا ہے تم دونوں یعنی آدم و حوا کا دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ وہ کسی مکر و حیلے سے دھوکہ دے کر تم سے اس عہد کی خلاف ورزی کرا دے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ تم جنت سے نکالے جاؤ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝ ٠ۭ اَبٰى۝ ١١٦ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) بلس الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] ، وقال تعالی: أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» . ( ب ل س ) الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔ أبى الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا . قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة/ 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه/ 116] ( اب ی ) الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ { وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ } [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ { وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔{ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ } [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا {إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى } [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٦) اور جب کہ ہم نے ان فرشتوں سے بھی کہا جو کہ زمین پر تھے کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ تحیت کرو تو سوائے ان کے سردار ابلیس کے اور سب نے سجدہ کیا، ابلیس نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنا اپنی بڑائی کے خلاف سمجھا اور انکار کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب یہاں قصہ آدم و ابلیس پانچویں مرتبہ بیان ہونے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے سورة البقرۃ (رکوع : ٤) ‘ سورة الاعراف (رکوع : ٢) ‘ سورة بنی اسرائیل (رکوع : ٧) اور سورة الحجر (رکوع : ٣) میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٦۔ ١٢٣:۔ یہ قصہ سورة بقرہ اور سورة اعراف میں گزر چکا ہے حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ فرشتوں پر انسان کی بزرگی ظاہر ہوجانے کے لیے کعبہ کی طرح آدم (علیہ السلام) کو قبلہ ٹھہرا کر جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو سوائے شیطان کے اور سب فرشتوں نے اس حکم کی تعمیل کی اور فقط شیطان نے اس حکم کی تعمیل میں سرکشی کی راہ سے یہ عذر پیش کیا یا اللہ تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے اور آگ مٹی سے بہتر ہے اس لیے آدم کو قبلہ ٹھہرا کر میں سجدہ کیوں کرسکتا ہوں شیطان یہ نہ سمجھا کہ نور نار سے بہتر ہے پھر نوری فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل جب فورا بلا عذر کرلی تو اس ناری جسم کو کسی عذر کے پیش کرنے کا کیا موقع باقی رہا۔ غرض اس سرکشی کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مردود ٹھہرا کر آسمان سے زمین پر اتار دیا اور آدم (علیہ السلام) کو یہ جتلا دیا کہ تمہارے سبب سے شیطان کو یہ ذلت ہوئی ہے اسی واسطے شیطان تمہارا اور تمہاری بی بی حوا کا دشمن ہوگیا ہے وہ تم کو جنت سے زمین پر اتار دینے کی تدبیر کرے گا تم اس کا کہنا ہرگز نہ ماننا کیونکہ اگر تم نے شیطان کا کہنا مان کر جس درخت کے پھل سے تم کو روکا گیا ہے وہ پھل کھالیا تو پھر تم کو زمین پر اتار دیا جائے گا جہاں تمہیں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی محنت سے کھیتی نہ کرو گے تو بھوکے اور کپڑوں کی تدبیر نہ کرو گے تو ننگے رہو گے ہاتھ سے پانی نہ بھرو گے تو پیاس اور دھوپ میں کھیتی کرو گے تو گرمی کی تکلیف اٹھاؤ گے۔ یہ جنت کی سی راحت جاتی رہے گی کہ میوؤں کی کثرت سبب سے کبھی بھوکے نہیں رہتے لباس وہ ہے کہ جو نہ کبھی پھٹ کر اترے گا نہ ننگے ہوگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق آدم (علیہ السلام) اور حوا کا جنت میں لباس ایسا تھا جیسے ہاتھ پیروں کی انگلیوں کے ناخن ہیں پھر فرمایا جنت میں پانی کی نہریں جاری ہیں اور یہاں سورج نہیں ہے اس واسطے یہاں پیاس اور گرمی کی تکلیف نہیں اٹھانی پڑتی ہے اللہ سچا ہے اور اس کا علم غیب سچا ہے اس نے اپنے علم غیب کے موافق یہ بات جو آدم ( علیہ السلام) کو جتلائی تھی کہ شیطان آدم (علیہ السلام) کے اور ان کے بی بی حوا کے جنت سے نکلوا دینے کی تدبیر میں لگا ہوا ہے آخر اس کا ظہور یہ ہوا کہ شیطان نے آدم (علیہ السلام) کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ اس درخت کے پھل سے آدم (علیہ السلام) کو اس لیے منع کیا گیا ہے کہ اگر آدم (علیہ السلام) اس پھل کو کھا لیں گے تو ہمیشہ جنت میں رہیں گے آدم (علیہ السلام) اور حوا شیطان کے اس فریب میں آگئے اور دونوں نے گیہوں کے دانے کھالئے۔ گیہوں کے دانے کھاتے ہی جنت کا لباس اتر گیا اور دونوں ننگے ہو کر انجیر کے پتوں سے اپنے ستر کو ڈھانکنے لگے۔ گیہوں کے کھانے سے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو منع جو کیا تھا اس امتناعی حکم کا خیال آدم (علیہ السلام) نے نہیں رکھا اس لیے فرمایا کہ شیطان کے بہکانے سے آدم (علیہ السلام) بہک گئے اور انہوں نے اللہ کے حکم کو ٹال دیا لیکن اللہ نے آدم (علیہ السلام) کے حال پر یہ مہربانی کی کہ انہیں توبہ کی توفیق دے کر زمین پر اتار دینے کے بعد ان کی توبہ قبول کی۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق گناہ کے دو سو برس کے بعد آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول ہوئی اب آگے آدم (علیہ السلام) اور شیطان کو زمین پر اتارنے کا حکم دے کر فرمایا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے مطلب یہ کہ شیطان اولاد آدم کے بہکانے کی دشمنی سے کبھی باز نہ آئے گا لیکن آسمانی کتابیں اور رسول بھیج کر قیامت تک اللہ تعالیٰ آدم کی اولاد کو شیطان کے پھندے سے بچنے کی ہدایت فرماتا رہے گا اس لیے جو لوگ اس ہدایت کے پابند بن کر شیطان کو اپنا دشمن اور رسولوں کو اپنا پیشوا قرار دیں گے وہ دنیا میں شیطان کے پھندے سے اور عقبی میں اس کے خمیازہ سے بچتے رہیں گے۔ ترمذی نسائی وغیرہ کے حوالہ سے حارث اشعری کی صحیح روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی یاد سے بڑھ کر شیطان کے پھندے سے بچانے والی کوئی چیز دنیا میں نہیں ہے ١ ؎۔ اسی طرح مسند امام احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ابوسعید خدری (رض) کی روایت بھی کئی جگہ گزر چکی ہے ٢ ؎۔ جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ شیطان جب ملعون ٹھہرایا جاکر آسمان پر سے نکالا جانے لگا تو اس نے اللہ تعالیٰ کے روبرو اولاد آدم کے بہکانے کی قسم کھائی اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے جاہ و جلال کی قسم کھا کر فرمایا کہ اولاد آدم میں سے جو شخص گناہ کر کے توبہ و استغفار کرتا رہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے ہر طرح کے گناہ معاف کرتا رہے گا۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ شیطان اولاد آدم کے بہکانے کی دشمنی سے کبھی باز نہ آئے گا لیکن جو لوگ عبادت الٰہی اور گناہ کے بعد خالص دل سے توبہ استغفار میں مصروف رہیں گے ان کے حق میں شیطان کی دشمنی بالکل رائیگاں جائے گی۔ (١ ؎ تفسیر ہذاص ٣٦٩ ج ٣ ) (٢ ؎ مثلاص ٣٢٧ ج ٢ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:116) ابی۔ اباء مصدر سے (باب فتح) یابی۔ انکار کرنا۔ ناپسند کرنا۔ اس نے سخت انکار کیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٧) اسرارومعارف پھر اس واقعہ کا متعلقہ حصۃ یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ جب فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا کہ آدم (علیہ السلام) کی تعظیم کے لیے سجدہ کریں تو شیطان جو اس وقت تک فرشتوں میں رہتا تھا سجدہ کرنے سے انکاری ہوا جبکہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا اس کی تفصیل سورة بقرہ میں گذر چکی ۔ (دنیا میں بقائے حیات کے لیے محنت کرنا زندگی کا قاعدہ ہے) تو ہم نے آدم (علیہ السلام) سے فرما دیا کہ یہ آپ کا اور آپ کی بیوی کا دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ آپ سے دھوکہ کرکے آپ کو جنت سے نکلوا دے اور زندگی کے مصائب سے دو چار کر دے کہ پھر بقائے حیات کے لیے محنت کرنا پڑجائے ، گویا دار دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے اس کے اسباب محنت سے حاصل کرنا ایک خاصیت ہے لہذا ہر آدمی کو رزق حلال حاصل کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے اور بغیر مشقت اٹھائے دولت ملنے کی امید عبث ہے نیز مشقت میں پڑنے کی بات اکیلے آدم (علیہ السلام) کے لیے ارشاد ہوئی جبکہ جنت میں جانے یا وہاں سے نکالے جانے کی بات میں میاں بیوی دونوں کو خطاب ہے علماء نے اس سے استدلال فرمایا ہے کہ عورت کا نفقہ خاوند کے ذمہ ہے اور وہ محنت دونوں کو خطاب ہے ، علماء نے اس سے استدلال فرمایا ہے کہ عورت کا نفقہ خاوند کے ذمہ ہے اور وہ محنت ومشقت سے روزی کمانے کا مکلف ہے نیز نفقہ میں چار بنیادی ضروریات ہیں جن کا یہاں خاص طور پر ذکر ہوا ۔ (بیوی کا نفقہ خاوند کے ذمہ ہے اور نفقہ میں چار بنیادی ضروریات ہیں) کھانا ، پینا لباس اور رہنے کا گھر ، لہذا جس کے ذمہ بھی کسی کا نفقہ ہوگا اسے اس کی یہ چار بنیادی ضروریات پوری کرنا ہوگی کہ اس سے زائد کوئی بیوی کو دیتا ہے یا اولاد کو تو وہ اس کا احسان شمار ہوگا ۔ اس لیے یہاں انہیں چار باتوں کا ذکر ہے کہ جنت میں نہ تو بھوک ہے کہ ہر وقت بیشمار نعمتیں کھانے کو موجود نہ لباس کی محتاجی کہ جنت میں لباس ہے اور نہ پانی کی قلت کہ پیاسا رہنے کا اندیشہ ہو اور نہ گھروں کی کمی کی موسموں کی شدت کا خطرہ پیش آئے لیکن شیطان نے ان کو وسوسہ میں مبتلا کردیا کہ اے آدم (علیہ السلام) میں تجھے ایک ایسے درخت یا پودے کا پتہ دیتا ہوں کہ اگر تو اس کا پھل کھالے تو تجھے یہ جنت کی نعمتیں اور اللہ کا قرب ہمیشہ ہمیشہ حاصل رہے گا ۔ (انسانی فطرت) دوسری جگہ ارشاد ہے کہ اس نے اس پر اللہ جل جلالہ کی قسم کھائی جس سے آدم (علیہ السلام) کو دھوکا ہوا اور دونوں میاں بیوی نے اس کا پھل کھالیا جس کا فوری اثر تو یہ ہوا کہ جنت کا لباس اتر گیا اور دونوں برہنہ ہوگئے دونوں بڑے بڑے پتے لے کر اپنا ستر ڈھانپنے لگے گو ستر عورت انسان کی فطرت میں ہے اور زمین پر آنے سے قبل بھی برہنگی انسانی مزاج کے خلاف تھی ، مغرب کی برہنہ تہذیب انسانیت کے بنیادی اوصاف سے محرومی کا پتہ دیتی ہے نیز یہ تہذیب جس پہ آج کی اکثریت فدا ہے اہل مغرب نے جانوروں سے حاصل کی ہے ۔ آدم (علیہ السلام) سے اپنی پروردگار کی بات میں بھول ہوگئی اور وہ بہک گئے یہاں عصے اور غوی جیسے الفاظ اللہ جل جلالہ کی طرف سے ان کی عظمت شان کے مطابق معمولی بھول پر ارشاد ہوئے ہیں کہ مقربین کی لغزش بھی جرم شمار ہوتی ہے لیکن علماء کا اتفاق ہے کہ بجز قرآن حکیم کی آیت کے یا جہاں حدیث شریف میں لفظ آیا ہے کسی کے لیے آدم (علیہ السلام) پر یہ لفظ بولنا جائز نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ ایسے الفاظ سے فاعل بنا کر نبی کی طرف منسوب کیا جائے جیسے کوئی عاصی کہے یا موسیٰ (علیہ السلام) کو اجیر یا یونس (علیہ السلام) کو ظالم تو یہ ہرگز جائز نہ ہوگا جبکہ ایسے الفاظ اپنے قریبی فوت شدہ مسلمان کے لیے بھی جائز نہیں تو انبیاء کرام (علیہ السلام) کا مرتبہ تو بہت بلند ہے چناچہ آپ زمین پر آئے اور جبرائیل امین (علیہ السلام) نے کھیتی باڑی کرنا اور کھانا کپڑا بنانا سکھایا ۔ ارشاد ہوا اب تم سب یہاں سے زمین پر جاؤ مگر یاد رکھو تمہاری آپس میں دشمنی چلتی رہے گی اور میرے طرف سے ہدایات بھی نصیب ہوں گی میرے نبی میری کتابیں لائیں گے تو جس کسی نے ان سے روگردانی کی اور میری یاد کو بھلا دیا وہ دو طرح کے عذابوں میں مبتلا ہوگا اول اس کی روزی تنگ کردی جائے گی یہاں مت بھولیے کہ اس تنگی سے مال کی تنگی یا مشکلات مراد ہیں وہ تو سب سے زیادہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو اور اولیاء اللہ کو پیش آتی ہیں مگر ان کے قلوب کبھی پریشان نہیں ہوتے برخلاف بدکار کے کہ اس پر دولت کی بارش بھی ہو تو بھی دل نہیں بھرتا اور مزید لالچ اس کا سکون حرام کئے رکھتا ہے اور اکثر جمع کرتے کرتے مر جاتے ہیں مگر عجیب و غریب امراض انہیں کبھی چین کا سانس نہیں لینے دیتے جبکہ اہل اللہ کے قلوب ہر حال میں انوارات الہی سے منور اور پرسکون ہوتے ہیں اور دوسرا عذاب یہ ہوگا کہ روز حشر اٹھیں گے تو اندھے ہوں گے اور پکار پکار کر کہیں گے کہ اے پروردگار ہمیں اندھا کر کے کیوں اٹھایا ہم دنیا سے تو روشن آنکھیں لائے تھے ارشاد ہوگا دنیا میں تیرے پاس میری نشانیاں آئیں میرے نبی آئے اور میری کتابیں بھی لائے مگر تو انہیں دیکھنے سے الگ رہا بیشک آنکھ دنیا کے سب کاموں کے لیے بھی تھی مگر اس کی اصل افادیت تو میری عظمت کو دیکھنا تھا جسے تو بھول گیا تو آج ہم نے تجھے بھلا دیا اور آنکھوں سے محروم کردیا بھولنا اللہ جل جلالہ کی عظمت کے خلاف ہے لہذا جہاں بھی ایسے سلبی الفاظ ذات باری کی طرف منسوب ہوں گے ان سے معنی بعید مراد لیا جاتا ہے یعنی بھولنے کا نتیجہ مراد لیا جائے گا ۔ جو بھی حد سے بڑھے گا ایمان کی حدود سے باہر ہوگا اور اللہ جل جلالہ کی آیات پہ ایمان نہ لائے گا اسے ایسا ہی بدلہ دیا جائے گا اور یہ تو برزخ یا میدان حشر کی بات ہے اس سے آگے ہمیشہ کی زندگی ہے جس کے عذاب اس سے بہت سخت بھی ہوں گے اور کبھی نہ ختم ہونے والے بھی ۔ اگر یہ اپنی دنیا کی دولت اور عیش پہ نازاں ہیں تو انھیں اپنے سے پہلی قوموں کا انجام نظر نہیں آتا جن کے کھنڈروں سے یہ گذرا کرتے ہیں اور تاریخ جن کے احوال سے بھری پڑی ہے ، ان کے وسائل بھی بہت زیادہ تھے مگر گمراہی کے نتیجہ میں انہیں تباہ کردیا گیا اور ایسے ہلاک ہوئے کہ کچھ باقی نہ بچا ان باتوں میں عقلمند لوگوں کے لیے بہت سامان عبرت ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت آدم (علیہ السلام) کا اپنے عہد پر عزم بالجزم کے ساتھ قائم نہ رہنا شیطان کی وجہ سے تھا اور شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ شیطان کی دشمنی کی ابتداء اس وقت ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرما کر تمام ملائکہ جن میں ابلیس بھی شامل تھا حکم دیا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو۔ لیکن ابلیس نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو کھلے الفاظ میں بتلایا کہ اے آدم ! شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے۔ خیال رکھنا کہیں وہ تم دونوں کو اس جنت سے نکلوا کر تمہیں دنیا کی مشقت میں نہ ڈال دے۔ بلاشبہ اس جنت میں نہ تو بھوکا رہے گا اور نہ ہی ننگا ہوگا اور اس جنت میں نہ تمہیں پیاس لگی اور نہ ہی تم پر دھوپ آئے گی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بھی عیاں فرما دی کہ جنت میں تمہارے لیے ہر قسم کا آرام اور نعمتیں موجود ہیں۔ تمہیں صرف ایک درخت کے قریب جانے سے روکا گیا ہے اگر تم اس کے قریب جاؤ گے تو تمہیں جنت سے نکال باہر کیا جائے گا۔ جنت کے بعد تمہارا ٹھکانہ ایک مدت تک دنیا میں رہنا ہے۔ یہاں جنت کی نعمتوں کا ذکر فرما کر دنیا کی مشقت کے بارے میں بتلادیا گیا کہ دنیا میں بھوک، پیاس، دھوپ ہر قسم کی تلخی اور مشقت کا تمہیں سامنا کرنا پڑے گا۔ چناچہ دنیا کی یہی حقیقت ہے کہ یہاں مومن کے لیے دکھ زیادہ اور سکھ تھوڑے ہیں۔ جنت میں صرف ایک پابندی تھی کہ درخت کے قریب نہیں جانا۔ دنیا میں مومن کے لیے بیشمار پابندیاں ہیں جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں فرمایا تھا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ خَطَّ النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُرَبَّعًا وَخَطَّ خَطًّا فِي الْوَسْطِ خَارِجًا مِّنْہُ وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلٰی ھٰذَا الَّذِيْ فِي الْوَسْطِ مِنْ جَانِبِہِ الَّذِيْ فِي الْوَسْطِ وَقََالَ ھٰذَا الْإِنْسَانُ وَھٰذَا أَجَلُہٗ مُحِیْطٌ بِہٖ أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِہٖ وَھٰذَا الَّذِيْ ھُوَ خَارِجٌ أَمَلُہٗ وَھٰذِہِ الْخُطَطُ الصِّغَارُ الْأَعْرَاضُ فَإِنْ أَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَشَہٗ ھٰذَا وَإِنْ أَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَشَہٗ ھٰذَا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب فی الأمل وطولہ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مربع نمالکیر کھینچی اور اس کے درمیان باہر تک لکیر لگائی پھر اس درمیانی لکیر کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچیں اور فرمایا یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور جو اس خانے سے باہر لکیر ہے یہ اس کی خواہشات ہیں اور یہ چھوٹی لکیریں آفات ہیں اگر ایک سے بچتا ہے تو دوسری اسے دبوچ لیتی ہے۔ اس سے بچتا ہے تو کوئی اور اسے آ لیتی ہے۔ “ مسائل ١۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ ٢۔ شیطان آدم، حوّا اور ان کی اولاد کا ازلی دشمن ہے۔ ٣۔ جنت میں بھوک، پیاس، دھوپ، مشقت نہیں ہوگی اور نہ کوئی شخص بےلباس ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بےخار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبے سائے، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ : ٢٣) ٥۔ جنت میں نیچی نگاہ رکھنے والی حوریں ہوں گی جنہیں کسی جن وانس نے چھوا تک نہیں ہوگا۔ ( الرحمن : ٥٦) ٦۔ جنت میں محبت کرنے والی ہم عمر حوریں ہوں گی۔ ( الواقعہ : ٣٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جہاں یہ قصہ اجمالاً بیان ہوتا ہے۔ دوسری جگہ اس کی تفصیلات ہیں کیونکہ یہاں اس قصے کا صرف وہ پہلو دکھانا ہے جو انبیاء پر انعامات کا ہے۔ لہٰذا انعام کا پہلو جلدی بیان کرنے کے لئے یہ اجمال و اختصار ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سجدہ نہ کرنے پر جب شیطان ملعون اور مردود ہوگیا تھا تو اس نے پہلے ٹھان لی تھی کہ ان کو جنت سے نکلوانا ہے اور ان کی ذریت کو گمراہ کرنا ہے۔ وہ تو وہاں سے نکال دیا گیا اور یہ دونوں حضرات رہتے رہے دونوں کو حکم ہوا تھا کہ جنت میں رہو سہو خوب کھاؤ پیو لیکن فلاں درخت کے پاس نہ جانا اگر اس میں سے کھالیا تو یہ تمہارا اپنی جان پر ظلم کرنا ہوگا۔ اب شیطان ان کے پیچھے لگا اور اس نے کہا کہ دیکھو اس درخت کے کھانے سے جو تمہیں منع کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اسے کھالے گا وہ یہاں سے کبھی نہیں نکالا جائے گا۔ اور اس کے کھانے سے تم دونوں فرشتے ہوجاؤ گے (کما فی سورة الاعراف) اور یہاں جو تمہیں عیش و آرام حاصل ہے اور ایک طرح کی بادشاہی حاصل ہے اس میں کبھی بھی کوئی ضعف نہ آئے گا۔ کمافی سورة طٰہٰ (وَ مُلْکٍ لاَّ یَبْلٰی) اس نے یہ بات قسم کھا کر کہی اور یہ بھی کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ دونوں حضرات شیطان کے بہکاوے میں آگئے اور اس درخت سے کھالیا جس سے منع کیا گیا تھا اس درخت کا کھانا تھا کہ ان کے کپڑے جسموں سے علیحدہ ہوگئے۔ دونوں مارے شرم کے جنت کے پتے لے لے کر اپنے جسم پر چپکانے لگے۔ دشمن کے پھسلانے میں آکر اپنے رب کی نافرمانی کر بیٹھے اور غلطی میں پڑگئے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہوا (اَلَمْ اَنْھَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃِ وَ اَقُلْ لَّکُمَآ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبیْنٌ) (کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہ کیا تھا اور کیا میں نے یہ نہ کہا تھا کہ شیطان واقعی تمہارا کھلا دشمن ہے) چونکہ ان کی نافرمانی سر کش نافرمانوں کی طرح نہیں تھی بلکہ جنت میں ہمیشہ رہنے کی بات سن کر دشمن کے بہکانے میں آگئے تھے اس لیے فوراً اپنے قصور کا اقرار کرلیا اور توبہ کی جس کو سورة اعراف میں یوں بیان فرمایا (قَالَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا سکتہ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) (اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر آپ نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو واقعی ہم خسارہ میں پڑنے والے ہوجائیں گے) شیطان نے بغاوت کی۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور حکم الٰہی کو خلاف حکمت بھی بتایا۔ یہ تو اس کا حال تھا اور ان دونوں نے جلدی سے قصور کا اقرار کرلیا اور توبہ کرلی۔ جیسا کہ مخلصین اور منیبین کا طریقہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں چن لیا یعنی اور زیادہ مقبول بنا لیا اور ان کو ہدایت پر قائم رکھا کما قال تعالیٰ (ثُمَّ اجْتَبَاہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَھَدٰی) چونکہ حضرت آدم اور حوا ( علیہ السلام) کو تکوینی طور پر دنیا میں آنا ہی تھا اور حضرت آدم (علیہ السلام) پیدا ہی اس لیے ہوئے تھے کہ ان کی اولاد زمین میں خلافت کی ذمہ داری اٹھائے اس لیے ان کا گناہ تو معاف فرما دیا لیکن دنیا میں ان کو بھیج دیا گیا۔ اسی کو فرمایا (قَالَ اھْبطَا مِنْھَا جَمِیْعًا) ارشاد فرمایا (کہ تم دونوں یہاں سے اکٹھے اتر جاؤ) (بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ) (تمہاری ذریت میں جو لوگ ہوں گے وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے) (ان دشمنیوں کو مٹانا اور فیصلے کرنا خلافت کے کام میں داخل ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

82:۔ مقصد یہ ہے کہ ابلیس تمہارا پرانا جدی پشتی دشمن ہے اور وہ ہر ممکن طریق سے تمہیں کفر و شرک اور دوسرے گناہوں سے ملوث کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے فریب سے بچو ” اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوْعَ الخ “ یہ جنت کی خوبیاں ہیں کہ وہاں نہ بھوک ہوگی نہ پیاس اور نہ دھوپ یعنی وہاں ہر قسم کا آرام و سکون ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 16 اور وہ وقت قابل ذکر ہے جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرو اس پر سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے اس ابلیس نے تعمیل سے انکار کیا۔