Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 120

سورة طه

فَوَسۡوَسَ اِلَیۡہِ الشَّیۡطٰنُ قَالَ یٰۤـاٰدَمُ ہَلۡ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الۡخُلۡدِ وَ مُلۡکٍ لَّا یَبۡلٰی ﴿۱۲۰﴾

Then Satan whispered to him; he said, "O Adam, shall I direct you to the tree of eternity and possession that will not deteriorate?"

لیکن شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا کہنے لگا کہ کیا میں تجھے دائمی زندگی کا درخت اور بادشاہت بتلاؤں کہ جو کبھی پرانی نہ ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then Shaytan whispered to him, saying: "O Adam! Shall I lead you to the Tree of Eternity and to a kingdom that will never waste away!' It has already been mentioned that he caused them to fall through deception. وَقَاسَمَهُمَأ إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّـصِحِينَ And he swore by Allah to them both: "Verily, I am one of the sincere well-wishers for you both." (7:21) It has already preceded in our discussion that Allah took a promise from Adam and his wife that although they could eat from every fruit, they could not come near a specific tree in Paradise. However, Iblis did not cease prodding them until they both had eaten from it. It was the Tree of Eternity (Shajarat Al-Khuld). This meant that anyone who ate from it would live forever and always remain. A Hadith has been narrated which mentions this Tree of Eternity. Abu Dawud At-Tayalisi reported from Abu Hurayrah that the Prophet said, إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِايَةَ عَامٍ مَا يَقْطَعُهَا وَهِيَ شَجَرَةُ الْخُلْد Verily, in Paradise there is a tree which a rider can travel under its shade for one hundred years and still not have passed it. It is the Tree of Eternity. Imam Ahmad also recorded this narration. Concerning Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٦] شیطان آدم کا بڑا ہوشیار اور مکار دشمن تھا اس نے وسوسہ ہی ایسا دلفریب ڈالا جس نے آدم کے دل کو موہ لیا۔ علاوہ ازیں مدت مدید گزرنے کی وجہ سے سیدنا آدم (علیہ السلام) اپنے پروردگار سے کیا ہوا وعدہ بھول ہی چکے تھے۔ شیطان نے پٹی یہ پڑھائی کہ اگر تم اس درخت کا پھل چکھ لو گے۔ تو اس جنت میں ہمیشہ کے لئے مقیم ہوجاؤ گے اور تمہیں ابدی زندگی حاصل ہوجائے گی اور جنت کی نعمتوں پر تمہارا تصرف و اختیار قائم و دائم رہے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر کہ اس مقام پر شیطانی وسوسہ کی نسبت صرف سیدنا آدم (علیہ السلام) کی طرف کی گئی ہے اور ایک دوسرے مقام پر دونوں کی طرف کی ہے۔ اس لئے کہ اس معاملہ میں حوا کی حیثیت صرف بالتبع تھی۔ لیکن بائبل کی روایت یوں ہے کہ شیطان نے پہلے سیدہ حوا کو بہکایا۔ پھر حوا نے سیدنا آدم (علیہ السلام) کو پھل کھانے پر آمادہ کرلیا۔ بائبل کی اس سروایت کو بعض مفسرین نے بھی نقل کردیا۔ جب کہ یہ روایت قرآن کی اس آیت کے مطابق غلط قرار پاتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ ۔۔ : قرآن میں شیطان کے وسوسہ انداز ہونے اور پھسلانے کی نسبت بعض آیات میں صرف آدم (علیہ السلام) کی طرف کی گئی ہے اور بعض میں آدم و حوا دونوں کی طرف۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں تو شیطان آدم (علیہ السلام) ہی کے دل میں وسوسہ انداز ہوا ہے، حوا [ کا ذکر ان کے تابع ہونے کی حیثیت سے ہے، لہٰذا عوام میں جو یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ شیطان نے پہلے حوا [ کو پھسلایا اور پھر ان کے ذریعے سے آدم (علیہ السلام) کو قابو کیا، وہ قطعی غلط اور لغو ہے اور اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔ دونوں آیات کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٢٠، ٢١) ۔ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى ۔۔ : آدم (علیہ السلام) کا واقعہ نہایت عجیب ہے کہ اتنا عظیم شخص، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، فرشتوں سے اس کو سجدہ کروایا، کمال عقل بخشی، اپنی جنت میں ہر نعمت عطا فرمائی، اسے صاف لفظوں میں شیطان کی دشمنی سے آگاہ کردیا اور دشمن کی بات ماننے پر جنت سے نکلنے کی تنبیہ بھی فرما دی، اتنے عظیم شخص کو اس کے اتنے مہربان پروردگار نے صرف ایک چیز سے منع فرمایا، مگر وہ اپنے رب کی اتنی عنایتوں اور شیطان کی واضح دشمنی کے علم کے باوجود اس کے ورغلانے سے اپنے رب کی حکم عدولی کیسے کر گزرا ؟ جو شخص بھی اس واقعہ میں غور و فکر کرے گا اس کا تعجب بڑھتا ہی جائے گا اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اللہ کی تقدیر کو نہ کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہٹا سکتا ہے اور یہ کہ دلیل جتنی بھی واضح اور مضبوط ہو اس سے تبھی فائدہ حاصل ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ فرمایا ہو اور اسے مقدر فرمایا ہو۔ (رازی) صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے آدم (علیہ السلام) سے سوال اور ان کے جواب سے بھی یہی بات سمجھ میں آتی ہے۔ اس حدیث سے اگر کوئی یہ استدلال کرے کہ گناہ جب اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھ دیا ہے تو ہمارا کیا قصور ہے اور ہمیں ملامت کیوں کی جاتی ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے توبہ قبول ہونے اور گناہ معاف ہونے کے بعد یہ جواب دیا ہے، اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جب ان سے پوچھا : (اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ ) [ الأعراف : ٢٢ ] کہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا تو انھوں نے نہ تقدیر کا بہانہ بنایا اور نہ اپنا قصور اللہ تعالیٰ کے ذمے لگایا، بلکہ صاف تسلیم کیا : (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) [ الأعراف : ٢٣ ] ” اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہوجائیں گے۔ “ اس کے برعکس ابلیس نے اپنا گناہ ماننے کے بجائے اسے اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دیا : (قَالَ فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ ) [ الأعراف : ١٦ ] ” اس نے کہا پھر اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔ “ گناہ کی معافی کے بغیر تقدیر کا عذر غلط ہے۔ ایک اور جواب جو اس سے بھی قوی ہے، یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے آدم (علیہ السلام) سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آپ نے نافرمانی کیوں کی تھی ؟ بلکہ انھوں نے انھیں اپنی اولاد کو جنت سے نکالنے اور مصیبت میں ڈالنے پر ملامت کی تھی، حالانکہ مصیبت پر ملامت نہیں کی جاتی، خواہ وہ کسی غلطی کی وجہ سے آئی ہو، بلکہ تسلی دی جاتی ہے، مثلاً اگر کسی کی غلطی کی وجہ سے کوئی حادثہ ہوجائے تو اسے غلطی پر ملامت کے بجائے مصیبت میں تعزیت کی جاتی ہے کہ اللہ کی تقدیر میں ایسا ہی لکھا تھا، اس لیے غم مت کرو۔ چناچہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِحْتَجَّ آدَمُ وَ مُوْسٰی، فَقَالَ مُوْسَی یَا آدَمُ ! أَنْتَ أَبُوْنَا، أَنْتَ خَیَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّۃِ ، فَقَالَ لَہُ آدَمُ أَنْتَ مُوْسَیٰ ، اصْطَفَاک اللّٰہُ بِکَلَامِہِ ، وَخَطَّ لَکَ بِیَدِہِ ، أَتَلُوْمُنِيْ عَلٰی أَمْرٍ قَدَّرَہُ اللّٰہُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَنِيْ بِأَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ؟ فَقَال النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَحَجَّ آدَمُ مُوْسَی، فَحَجَّ آدَمُ مُوْسَی ) ” آدم اور موسیٰ ( علیہ السلام) کی بحث ہوگئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، تم ہمارے باپ ہو، تم نے ہمیں نامراد کردیا اور ہمیں جنت سے نکال دیا۔ “ تو آدم (علیہ السلام) نے ان سے کہا : ” اے موسیٰ ! اللہ عز وجل نے تمہیں اپنے کلام کے لیے چنا اور تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے (کتاب) لکھی۔ اے موسیٰ ! کیا تم مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے مجھ پر طے کردیا تھا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو آدم، موسیٰ پر دلیل میں غالب آگئے، تو آدم، موسیٰ پر دلیل میں غالب آگئے۔ “ [ مسلم، القدر، باب حجاج آدم و موسیٰ صلی اللہ علیہما وسلم : ٢٦٥٢ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَ‌ةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَىٰ ﴿١٢٠﴾ فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَ‌قِ الْجَنَّةِ ۚ وَعَصَىٰ آدَمُ رَ‌بَّهُ فَغَوَىٰ (Then the Shaitan instigated him...And &Adam disobeyed his Lord and erred- 120, 121.) Here it is pertinent to ask that when Allah had specifically told Sayyidna &Adam and Sayyidah Hawwa& (علیہما السلام) to abstain from a particular tree or to eat any part of its yield, and had also warned them to beware of shaitan&s machinations who was their sworn enemy who would do his best to seduce them and thus cause their expulsion from Paradise, why then, despite all the warnings and admonitions, did Sayyidna &Adam (علیہ السلام) let himself fall into the trap laid out for him by the shaitan. His action clearly constituted disobedience of the commands of Allah and were, therefore, acts of sin. There is consensus among scholars that the prophets of Allah are immune from all sins - minor or major, and Sayyidna &Adam (علیہ السلام) was a prophet of Allah! So how may one explain his action of eating the fruit of the forbidden tree when Allah had warned him in such clear terms? An answer to all these questions will be found in the commentary of Surah Al-Baqarah which also explains the use of the words عِصٰی (to disobey) and غَوٰی (to err) in reference to Sayyidna &Adam (علیہ السلام) . According to the divine Islamic law the action of Sayyidna &Adam (علیہ السلام) did not constitute a sin but because he was a prophet of Allah and in His high favour therefore this minor lapse on his part has been described as عِصیَان (disobedience) for which he was admonished by Allah. A further point here is that the word غَوٰی has two meanings: One is |"to be deprived|" and the other is |"to err|", or |"to go astray|". Al-Qushairi and Al-Qurtubi have adopted the first meaning of the word and have explained this verse by saying that as a punishment for his lapse Sayyidna &Adam (علیہ السلام) was deprived of the comforts which were available to him in the Paradise and as a result his life became harsh and bitter. It is incumbent on Muslims to show reverence to the prophets of Allah when referring to them Qadi Abu Bakr Ibn Al-` Arabi (رح) when discussing the word عَصٰی (disobeyed) etc. in reference to Sayyidna &Adam (علیہ السلام) in his book Ahkam-ul-Qur&an has made an important observation which is reproduced below in his own words: لا یجوز لاحدنا الیوم ان یخبر بذلک عن اٰدم الَّا اذا ذکرناہ فی اثناء قولہٖ تعالیٰ عنہ او قول نَبِیّہ، فامّا ان یبتدیء ذالک من قبل نفسہٖ فلیس بجایٔز لنا فی ابایٔنا الاذنین الینا المماثلین لنا فکیف فی ابینا الاقدام الاعظم الاکرم النّبی المقدّم الذی عذرہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ و تاب علیہ وغفرلہ (تفسیر قرطبی و ذکرہ فی البحر المحیط ایضاً ) Today it is not permissible for any of us to use the word عِصیَان (disobedience) in relation to Sayyidna &Adam (علیہ السلام) except when it has been used with reference to this verse or to a Hadith of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . When indeed it is not desirable to use this word in relation to our own not-too-distant ancestors, who were like us, how can it be permissible in relation to Sayyidna &Adam (علیہ السلام) who is the father of all mankind and more deserving of respect than our own ancestors? Besides he is a revered prophet of Allah whose excuse He accepted and forgave him for his lapse. For such a person the use of the word of (disobedience) is totally forbidden. The same views have been expressed by Qushairi Abu Nasr.

فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ الی قولہ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى، اس آیت میں جو یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے حضرت آدم و حوا کو کسی خاص درخت کے کھانے اور اس کے پاس جانے سے بھی روک دیا تھا اور اس پر مزید یہ تنبیہ بھی فرما دی تھی کہ شیطان تم دونوں کا دشمن ہے اس کے مکر و کید سے بچتے رہنا وہ کہیں تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے اتنی واضح ہدایتوں کے بعد بھی یہ پیغمبر عالی مقام شیطان کے دھوکہ میں کس طرح آگئے اور یہ کہ یہ تو کھلی نافرمانی اور گناہ ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اللہ کے نبی و رسول ہیں ان سے یہ گناہ کیسے سرزد ہوا جبکہ جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) ہر چھوٹے بڑے گناہ سے معصوم ہوتے ہی۔ ان سب سوالات کا جواب سورة بقرہ کی تفسیر معارف القرآن جلد اول صفحہ ١٣٦ پر گزر چکا ہے وہاں دیکھ لیا جائے اور اس آیت میں جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی نسبت صاف لفظوں میں عصی اور پھر غوی فرمایا گیا ہے اس کی وجہ بھی سورة بقرہ میں بیان ہوچکی ہے کہ اگرچہ آدم (علیہ السلام) کا یہ عمل شرع قانون کی رو سے گناہ میں داخل نہیں تھا لیکن حضرت آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے رسول اور مقربین خاص میں سے ہیں اس لئے ان کی ادنی لغزش کو بھی بھاری لفظوں سے عصیان کہہ کر تعبیر کیا گیا اور اس پر عتاب کیا گیا اور لفظ غوی دو معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے ایک معنی زندگی تلخ ہوجانے اور عیش خراب ہوجانے کے ہیں۔ دوسرے معنی گمراہ ہوجانے یا غافل ہوجانے کے۔ ائمہ تفسیر قشیری اور قرطبی وغیرہ نے اس جگہ لفظ غوی کے پہلے معنی ہی کو اختیار کیا ہے اور مراد یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو جو عیش جنت میں حاصل تھا وہ نہ رہا زندگی تلخ ہوگئی۔ انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں ایک اہم ہدایت ان کے ادب و احترام کی حفاظت : قاضی ابوبکر ابن عربی نے احکام القرآن میں آیت مذکورہ میں جو الفاظ عصی وغیرہ آدم (علیہ السلام) کے بارے میں ہیں اس سلسلہ میں انہوں نے ایک اہم بات ارشاد فرمائی ہے وہ انہیں کے الفاظ میں یہ ہے۔ لا یجوز لاحدنا الیوم ان یخبر بذلک عن ادم الا اذا ذکرناہ فی اثناء قولہ تعالیٰ عنہ او قول نبیہ، فاما ان یبتدی ذلک من قبل نفسہ فلاس بجائز لنا فی ابائنا الادنین الینا المماثلین لنا فکیف فی ابینا الا قدم الاعظم الاکرم النبی المقدم الذی عذرہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ و تاب علیہ و غفرلہ (از تفسیر قرطبی و ذکرہ فی البحر المحیط ایضا) ہم میں سے کسی کے لئے آج یہ جائز نہیں کہ آدم (علیہ السلام) کی طرف یہ لفظ عصیان منسوب کرے بجز اس کے کہ قرآن کی اس آیت کے یا کسی حدیث نبوی کے ضمن میں آیا ہو وہ بیان کرے لیکن یہ کہ اپنی طرف سے یہ لفظ منسوب کرنا ہمارے اپنے قریبی آباؤ و اجداد کے لئے بھی جائز نہیں، پھر ہمارے سب سے پہلے باپ جو ہر حیثیت میں ہمارے آباء سے مقدم اور اعظم و اکرام میں اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر معزز ہیں جن کا عذر اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور معافی کا اعلان کردیا ان کے لئے تو کسی حال میں جائز نہیں۔ اس لئے قشیری ابونصر نے فرمایا کہ اس لفظ کی وجہ سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو عاصی اور غادی کہنا امور ہیں یا نبوت سے پہلے کے ہیں۔ اس لئے بضمن آیات قرآن و روایت حدیث تو ان کا تذکرہ درست ہے لیکن اپنی طرف سے ان کی شان میں ایسے الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَوَسْوَسَ اِلَيْہِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى۝ ١٢٠ وسوس الوَسْوَسَةُ : الخطرةُ الرّديئة، وأصله من الوَسْوَاسِ ، وهو صوت الحلي، والهمس الخفيّ. قال اللہ تعالی: فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطانُ [ طه/ 120] ، وقال : مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ [ الناس/ 4] ويقال لهمس الصّائد وَسْوَاسٌ. ( وس وس ) الوسوسۃ اس برے خیال کو کہتے ہیں جو دل میں پیدا ہوتا ہے اور اصل میں سے ماخوز ہے جس کے معنی زیور کی چھنکار یا ہلکی سی آہٹ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطانُ [ طه/ 120] تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا ۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ [ الناس/ 4] شیطان وسوسہ انداز کی برائی سے جو ( خدا کا نام سنکر ) پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ اور وسواس کے معنی شکار ی کے پاؤں کی آہٹ کے بھی آتے ہیں ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو دلَ الدّلالة : ما يتوصّل به إلى معرفة الشیء، کدلالة الألفاظ علی المعنی، ودلالة الإشارات، والرموز، والکتابة، والعقود في الحساب، وسواء کان ذلک بقصد ممن يجعله دلالة، أو لم يكن بقصد، كمن يرى حركة إنسان فيعلم أنه حيّ ، قال تعالی: ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ/ 14] . أصل الدّلالة مصدر کالکتابة والإمارة، والدّالّ : من حصل منه ذلك، والدلیل في المبالغة کعالم، وعلیم، و قادر، وقدیر، ثم يسمّى الدّالّ والدلیل دلالة، کتسمية الشیء بمصدره . ( د ل ل ) الدلا لۃ ۔ جس کے ذریعہ کسی چی کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرن اور اشارات در ہو ز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا اور حساب میں عقود کا عدد مخصوص پر دلالت کرنا وغیرہ اور پھر دلالت عام ہے کہ جاہل یعنی واضح کی وضع سے ہوا یا بغیر وضع اور قصد کے ہو مثلا ایک شخص کسی انسان میں حرکت دیکھ کر جھٹ جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ/ 14] تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑز سے ۔ اصل میں دلالۃ کا لفظ کنایہ وامارۃ کی طرح مصدر ہے اور اسی سے دال صیغہ صفت فاعل ہے یعنی وہ جس سے دلالت حاصل ہو اور دلیل صیغہ مبالغہ ہے جیسے ہے کبھی دال و دلیل بمعنی دلالۃ ( مصدر آجاتے ہیں اور یہ تسمیہ الشئ بمصدر کے قبیل سے ہے ۔ شجر الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه . ( ش ج ر ) الشجر ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ بلی يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] ( ب ل ی ) بلی الثوب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٠) پھر اس درخت سے کھانے کے بارے میں شیطان نے ان کو بہکایا اور کہنے لگا، اے آدم کیا آپ کو ایسا درخت بتلاؤں کہ اس کے کھانے سے ہمیشہ یہاں ( آدم وحوا) آباد رہو گے کبھی موت نہ آئے گا اور ایسی بادشاہی ہوگی جو کبھی ختم نہ ہوگی ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قَالَ یٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰی ) ” کہ اس درخت کا پھل کھانے کے بعد آپ ( علیہ السلام) کو دوام حاصل ہوجائے گا اور زندگی کے لیے کبھی فنا کا خدشہ نہیں ہوگا۔ گویا شیطان نے اپنی پہلی سازش کا جال انسان کی اسی کمزوری کو بنیاد بنا کر بنا تھا جس کا ذکر سورة مریم کی آیت ٩٢ کے ضمن میں گزر چکا ہے۔ یہاں اہرام مصر کے حوالے سے درج ذیل الفاظ ایک دفعہ پھر سے ذہن میں تازہ کرلیجیے : They defined cry of man&s will To survive and conquer the storms of time یعنی انسان وقت کے طوفانوں کو فتح کرلینا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس کی ہستی کو اس دنیا میں دوام اور تسلسل نصیب ہو۔ چناچہ شیطان نے انسانِ اوّل کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر فانی زندگی اور ہمیشہ کی بادشاہی مل جانے کا جھانسہ دے کر اسے ممنوعہ درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کرلیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

99. According to this verse, it was Adam whom Satan primarily wanted to seduce and not Eve. Though according to (Surah Al-Aaraf, Ayat 20), he tempted both of them and both were seduced, but Satan’s efforts were mainly directed to Adam. On the contrary, according to the Bible, the serpent first tempted the woman to eat the fruit of the forbidden tree and then she seduced her husband. (Genesis, 3). 100. According to this verse, Satan tempted Adam to eat the fruit of the tree so that he might get eternal life and everlasting kingdom, and according to (Surah Al-Aaraf, Ayat 20), he put an additional temptation in their way, saying that they would become angels and immortal.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :99 یہاں قرآن صاف تصریح کرتا ہے کہ آدم و حوا میں سے اصل وہ شخص جس کو شیطان نے وسوسے میں ڈالا آدم علیہ السلام تھے نہ کہ حضرت حوا ۔ اگرچہ سورہ اعراف کے بیان کے مطابق مخاطب دونوں ہی تھے اور بہکانے میں دونوں ہی آئے ، لیکن شیطان کی وسوسہ اندازی کا رخ دراصل حضرت آدم ہی کی طرف تھا ۔ اس کے برعکس بائیبل کا بیان یہ ہے کہ سانپ نے پہلے عورت سے بات کی اور پھر عورت نے اپنے شوہر کو بہکا کر درخت کا پھل اسے کھلایا ( پیدائش ، باب 3 ) ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :100 سورہ اعراف میں شیطان کی گفتگو کی مزید تفصیل ہم کو یہ ملتی ہے : وَقَالَ مَا نَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَہِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ ، اور اس نے کہا کہ تمہارے رب نے تم کو اس درخت سے صرف اس لیے روک دیا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتے نہ ہو جاؤ ، یا ہمیشہ جیتے نہ رہو ۔ ( آیت 20 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

51: ساتھ ہی شیطان نے یہ تاویل بھی سجھائی کہ اس درخت کی جو ممانعت کی گئی تھی۔ وہ اس لیے تھی کہ تم میں اس وقت اس درخت کا پھل کھانے کی طاقت نہیں تھی۔ اب ایک عرصہ گذر جانے کے بعد یہ رکاوٹ باقی نہیں رہی

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:120) وسوس۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ وسوسۃ فعللۃ مصدر۔ اس نے دل میں برا خیال پیدا کیا۔ اس نے وسوسہ دلایا۔ ھل ادلک۔ ھل برائے استفہام۔ ادل مضارع واحد متکلم ک ضمیر مفعول واحد مذکر ھاضر۔ کیا میں تمہیں بتائوں۔ کیا میں تمہاری راہنمائی کروں۔ دلالۃ مصدر سے (باب نصر) جس کے معنی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ شجرۃ الخلد۔ مضاف مضاف الیہ ۔ ہمیشگی کا درخت۔ ایسا درخت جس کا پھل کھانے سے دوامی زندگی مل جائے۔ ملک۔ بادشاہی۔ لا یبلی۔ مضارع منفی معروف ۔ واحد مذکر غائب۔ بلی وبلاء (باب سمع) بمعنی پرانا ہونا بوسیدہ ہونا۔ گھس جانا۔ فناء ہونا۔ لا یبلی۔ کبھی پرانا نہ ہو۔ جو فنا نہ ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 قرآن میں شیطان کے وسوسہ انداز ہونے اور پھیلانے کی نسبت بعض آیات میں صرف آدم کی طرف کی گئی ہی اور بعض میں دونوں کی طرف معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں تو شیطان آدم ہی کے دل میں وسوسہ انداز ہوا ہے حوا کا ذکر بالتبیع ہے۔ لہٰذا عوام میں جو یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ شیطان نے پہلے حوا کو پھسلایا اور پھر ان کے ذریعے آدم کو قابو میں کیا وہ قطعی غلط اور لغو ہے اور اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔2 اور سرہ اعراف میں ہے : مانھا کما ربکما عن ھذہ الشجرۃ الا ان تکوما ملکین اوتکونا من الخالدین کہ تمہارے رب نے تمہیں اس لئے منع کیا ہے کہ تم فرشتے یا ہمیشہ رہنے والے نہ بن جائو۔ (آیت :20)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ کہ اس کے کھانے سے ہمیشہ شادو آباد رہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : شیطان کا حضرت آدم (علیہ السلام) کو پھسلانے میں کامیاب ہونا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا [ بڑے آرام و سکون کے ساتھ جنت میں رہ رہے تھے۔ جہاں چاہتے، جو چاہتے، کھاتے پیتے اور ہر جگہ ملائکہ انہیں آداب وسلام پیش کرتے۔ شیطان سے یہ منظر دیکھا نہیں جاتا تھا۔ اس نے اپنے خبث باطن اور ازلی دشمنی کی بنا پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو یہ کہہ کر ورغلانا شروع کیا کہ جناب آدم ! بیشک آپ جنت میں عیش و عشرت کے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن یہ چار دن کی بات ہے بالآخر تجھے اس سے نکال باہر کیا جائے گا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ کو اس درخت کے متعلق بتلاؤں جسے کھا کر آپ ایسی بادشاہی پائیں گے جسے کبھی زوال نہ ہوگا۔ مگر حضرت آدم (علیہ السلام) شیطان کی باتوں میں آنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ نامعلوم کتنا عرصہ شیطان کس کس انداز کے ساتھ انھیں ورغلانے کی کوشش کرتا رہا۔ بالآخر ایک دن آدم (علیہ السلام) کو یہ کہہ کر ورغلانے میں کامیاب ہوا کہ اے آدم (علیہ السلام) ! مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ میں مخالفت کی بجائے آپ کو اخلاص اور خیر خواہی کے ساتھ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اس درخت کا پھل کھائیں تاکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت کے وارث بن جائیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) شیطان کی قسموں پر یقین کر بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو فراموش کردیا جس کی پاداش میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا [ کا جنتی لباس اتر گیا اور وہ برہنہ ہوگئے۔ جو نہی وہ برہنہ ہوئے جنت کے پتے توڑ کر اپنی شرمگاہوں کو چھپانے لگے۔ جب جنت کے پتوں سے اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپتے ہوئے گھبراہٹ کے عالم میں ادھر ادھر بھاگے پھر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں آواز دی کہ اے آدم (علیہ السلام) کیا میں نے تمہیں اس درخت کے قریب جانے سے نہیں روکا تھا ؟ اور کیا میں نے تمہیں نہیں بتلایا تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان سنتے ہی حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا [ اپنے رب سے یہ کہہ کر معافی مانگنے لگے : (قَالَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاسکتہوَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) [ الاعراف : ٢٣] کہ اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہم کو معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو ہم ہر صورت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ شیطان نے پہلے حضرت حوا [ کو ورغلایا تھا اور حضرت حوا [ نے حضرت حضرت آدم (علیہ السلام) کو پھسلایا۔ قرآن مجید اس کی تائید کرنے کی بجائے کھلے الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ شیطان نے براہ راست حضرت آدم (علیہ السلام) کو ورغلایا تھا۔ مسائل ١۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو شیطان پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ ٢۔ جونہی حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا [ نے ممنوعہ درخت کا پھل کھایا تو ان کا لباس اتر گیا۔ ٣۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا [ شرم کے مارے اپنی شرمگاہوں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپنے لگے۔ تفسیر بالقرآن شیطان انسان کا ابدی دشمن ہے : ١۔ شیطان نے آدم اور حوا کو پھسلا دیا۔ (البقرۃ : ٣٦) ٢۔ شیطان نے قیدی کو حضرت یوسف کا تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ (یوسف : ٤٢) ٣۔ شیطان نے حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان اختلاف ڈلوا دیا۔ (یوسف : ١٠٠) ٤۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (یوسف : ٥) ٥۔ شیطان کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کی شیطنت سے بچنا چاہیے۔ (فاطر : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

شیطان نے انسان کی نہایت ہی حساس رگ پر ہاتھ رکھا۔ انسانی عمر بہرحال محدود ہے۔ انسانی قوت بہرحال محدود ہے۔ انسان طویل زندگی اور طویل اقتدار کا بےحد دلدادہ رہا ہے۔ ان دونوں راستوں سے شیطان اس پر حملہ آور ہوتا ہے۔ آدم بہرحال انسان تھے۔ آدم انسانی فطرت اور انسانی کمزوری کے حامل تھے۔ پھر اس تجربہ کے ساتھ دنیا کے منصوبے اور نظام تقدیر کا بھی تعلق تھا۔ چناچہ آدم بھول گیا اور اس نے ممنوعہ علاقے میں قدم رکھ لیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

83:۔ اس واقعہ کی مزید تفصیل سے سورة بقرہ کی تفسیر میں دیکھیں حاشیہ 85 تا 95 ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

120 پھر شیطان نے آدم (علیہ السلام) کے جی میں وسوسہ ڈالا ان سے کہنے لگا اے آدم (علیہ السلام) کیا میں تجھ کو ہمیشہ زندہ رکھنے والا درخت بتادوں نیز ایسی بادشاہت بتادوں جو کبھی پرانی نہ ہو۔ ممنوعہ درخت کے کھانے پر یہ کہہ کر ابھارا کہ تم کو ایسا درخت بتادوں جس کی خاصیت یہ ہو کہ اس کے کھانے سے ہمیشہ زندہ اور خوش و خرم رہو اور ایسی بادشاہی ملے جو لازوال نہ ہو نہ اس میں ضعف آئے نہ کبھی پرانی ہو۔ لازوال حکومت اور لازوال زندگی کا لالچ دیکر شجر ممنوعہ کے کھانے پر ممنوعہ کے کھانے پر آدم (علیہ السلام) و حوا کو آمادہ کردیا۔