Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 121

سورة طه

فَاَکَلَا مِنۡہَا فَبَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ۫ وَ عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی ﴿۱۲۱﴾۪ۖ

And Adam and his wife ate of it, and their private parts became apparent to them, and they began to fasten over themselves from the leaves of Paradise. And Adam disobeyed his Lord and erred.

چناچہ ان دونوں نے اس درخت سے کچھ کھا لیا پس ان کے ستر کھل گئے اور بہشت کے پتے اپنے اوپر ٹانکنے لگے ۔ آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس بہک گیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَكَلَأ مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاتُهُمَا ... Then they both ate of the tree, and so their private parts became manifest to them, Ibn Abi Hatim recorded that Ubayy bin Ka`b said that the Messenger of Allah said, إِنَّ اللهَ خَلَقَ ادَمَ رَجُلً طُوَالاً كَثِيرَ شَعْرِ الرَّأْسِ كَأَنَّهُ نَخْلَةُ سَحُوقٍ فَلَمَّا ذَاقَ الشَّجَرَةَ سَقَطَ عَنْهُ لِبَاسُهُ فَأَوَّلُ مَا بَدَا مِنْهُ عَوْرَتُهُ فَلَمَّا نَظَرَ إِلَى عَوْرَتِهِ جَعَلَ يَشْتَدُّ فِي الْجَنَّةِ فَأَخَذَتْ شَعْرَهُ شَجَرَةٌ فَنَازَعَهَا فَنَادَاهُ الرَّحْمَنُ يَا ادَمُ مِنِّي تَفِرُّ فَلَمَّا سَمِعَ كَلَمَ الرَّحْمَنِ قَالَ يَا رَبِّ لاَ وَلَكِنِ اسْتِحْيَاءً أَرَأَيْتَ إِنْ تُبْتُ وَرَجَعْتُ أَعَايِدِي إِلَى الْجَنَّةِ قَالَ نَعَم Verily, Allah created Adam as a tall man with an abundance of hair on his head. He looked like a clothed palm tree. Then, when he tasted (the fruit of) the tree, his clothes fell off of him. The first thing that became exposed was his private parts. So when he noticed his nakedness, he tried to run back into Paradise. However, in the process a tree caught hold of his hair (i.e. his hair was tangled in a tree), so he ripped his hair out. Then, the Most Beneficent called out to him saying, "O Adam, are you fleeing from me!" When he heard the Words of the Most Beneficent, he said, "No my Lord, but I am ashamed. If I repent and recant would You let me return to Paradise!" Allah replied, "Yes." This is the meaning of Allah's statement, فَتَلَقَّى ءَادَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ Then Adam received from his Lord Words. And his Lord pardoned him. (2:37) However, this narration has a break in the chain of transmission between Al-Hasan and Ubayy bin Ka`b. Al-Hasan did not hear this Hadith from Ubayy. It is questionable as to whether this narration can be correctly attributed to the Prophet. Allah said, ... وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ... And they began to cover themselves with the leaves of the Paradise for their covering. Mujahid said, "They patched the leaves on themselves in the form of a garment." Qatadah and As-Suddi both said the same. Concerning Allah's statement, ... وَعَصَى ادَمُ رَبَّهُ فَغَوَى ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121۔ 1 یعنی درخت کا پھل کھا کر نافرمانی کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مطلوب یا راہ راست سے بہک گئے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٧] جنت کا پھل کھانے کا رد عمل فوری طور پر تو یہ ہوا کہ ان سے جنت کا لباس چھین لیا گیا اور آدم و حوا دونوں بےحجاب ہوگئے اور انھیں ایک دوسرے کے مقامات ستر نظر آنے لگے اور سخت شرم محسوس ہوئی تو جنت کے درختوں کے پتے ایک دورے پر چپکا کر مقامات ستر کو ڈھانپنے لگے۔ ابھی بھوک اور پیاس کا احساس تو کچھ دیر کے بعد ہی ہونا تھا۔ اور انھیں فورا ً پتا چل گیا کہ شیطان انھیں جل دے گیا اور وہ اس کے فریب میں آگئے ہیں۔ اس وقت انھیں اللہ سے کیا ہوا وعدہ یاد آگیا اور فورا ً اللہ کی طرف رجوع کیا اور توبہ استغفار کرنے لگے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَكَلَا مِنْہَا فَبَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ۝ ٠ۡ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰى۝ ١٢١۠ۖ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ بدا بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] ( ب د و ) بدا ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے طفق يقال : طَفِقَ يفعل کذا، کقولک : أخذ يفعل کذا، ويستعمل في الإيجاب دون النّفي، لا يقال : ما طَفِقَ. قال تعالی: فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] ، وَطَفِقا يَخْصِفانِ [ الأعراف/ 22] . ( ط ف ق ) طفق یفعل کذا : وہ ایسا کرنے لگا یہ اخذ یفعل کی طرح ( کسی کام کو شروع کرنے کے معنی دیتا ) ہے اور ہمیشہ کلام مثبت میں استعمال ہوتا ہے لہذا ماطفق کذا کہنا جائز نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیر نے لگے ۔ وَطَفِقا يَخْصِفانِ [ الأعراف/ 22] اور وہ لگے ۔ چپکانے ۔ خصف قال تعالی: وَطَفِقا يَخْصِفانِ عَلَيْهِما[ الأعراف/ 22] ، أي : يجعلان عليهما خَصَفَةً ، وهي أوراق، ومنه قيل لجلّة التّمر : خَصَفَة «2» ، وللثّياب الغلیظة، جمعه خَصَفٌ «3» ، ولما يطرق به الخفّ : خَصَفَة، وخَصَفْتُ النّعل بالمِخْصَف . وروي : (کان النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم يخصف نعله) «4» ، وخَصَفْتُ الخصفة : نسجتها، والأخصف والخصیف قيل : الأبرق من الطّعام، وهو لونان من الطّعام، وحقیقته : ما جعل من اللّبن ونحوه في خصفة فيتلوّن بلونها . ( خ ص ف ) قرآن میں ہے :۔ وَطَفِقا يَخْصِفانِ عَلَيْهِما[ الأعراف/ 22] یعنی آدم (علیہ السلام) اور حوا اپنے اوپر خصفۃ یعنی درخت کے پتے چپکانے لگے ( اسی سے یعنی درخت کے پتے چپکانے لگے اسی زنبیل کو جو کھجوریں ڈالنے کے لئے کھجور کے پتوں سے بنایا جاتا ہے اور گاڑھے کپڑے کو خصفۃ کہا جاتا ہے ۔ س کی جمع خصف ( وخصاف ) آتی ہے ۔ اور خصفۃ ( بسکون صاد ) چمڑے کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جس کے اوپر اس جیسا دوسرا ٹکڑا رکھ کر ۔ جو تا نبا یا جائے خصفت النعل بالمخصف ستالی کے ساتھ جوتا سینا ۔ ایک روایت میں ہے (113) کان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یخصف نعلہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا جوتا وخود ہی مرمت کرلیا کرتے تھے ۔ خصفت الخصفۃ ۔ زنبیل بننا ۔ الاخصف والخصیف دورنگ کا کھانا ۔ اصل میں اس دودھ وغیر کو کہتے ہیں جو چمڑے ک مشکیزے میں ڈالا جائے اور اس چمڑے کا رنگ اسی کے ساتھ مل جائے ۔ ورق وَرَقُ الشّجرِ. جمعه : أَوْرَاقٌ ، الواحدة : وَرَقَةٌ. قال تعالی: وَما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُها [ الأنعام/ 59] ، ووَرَّقْتُ الشّجرةَ : أخذت وَرَقَهَا، والوَارِقَةُ : الشّجرةُ الخضراءُ الوَرَقِ الحسنةُ ، وعامٌ أَوْرَقُ : لا مطر له، وأَوْرَقَ فلانٌ:إذا أخفق ولم ينل الحاجة، كأنه صار ذا وَرَقٍ بلا ثمر، ألا تری أنه عبّر عن المال بالثّمر في قوله : وَكانَ لَهُ ثَمَرٌ [ الكهف/ 34] قال ابن عباس رضي اللہ عنه : هو المال «1» . وباعتبار لونه في حال نضارته قيل : بَعِيرٌ أَوْرَقُ : إذا صار علی لونه، وبعیرٌ أَوْرَقُ : لونه لون الرّماد، وحمامةٌ وَرْقَاءُ. وعبّر به عن المال الکثير تشبيها في الکثرة بالوَرَقِ ، كما عبّر عنه بالثّرى، وکما شبّه بالتّراب وبالسّيل كما يقال : له مال کالتّراب والسّيل والثری، قال الشاعر : واغفر خطایاي وثمّر وَرَقِي«2» والوَرِقُ بالکسر : الدّراهم . قال تعالی: فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هذِهِ [ الكهف/ 19] وقرئ : بِوَرِقِكُمْ «3» و ( بِوِرْقِكُمْ ) «4» ، ويقال : وَرْقٌ ووَرِقٌ ووِرْقٌ ، نحو كَبْد وكَبِد، وكِبْد . ( و ر ق ) الورق ۔ درخت کے پتے اس کی جمع اوراق اور واحد ورقتہ آتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُها [ الأنعام/ 59] اور کوئی پتہ نہیں جھڑ تا مگر وہ اس کو جانتا ہے ۔ اور ورقت الشجرۃ کے معنی درخت کا پتے دار ہونا کے ہیں اور سر سبز خوبصورت پتے دار درخت کو وارقتہ کہا جاتا ہے ۔ عام اورق کے معنی قحط سالی کے ہیں ۔ اور اورق فلان کے معنی ناکام ہونے کے ہیں گویا وہ پتے دار درخت ہے جو بدوں ثمر کے ہے اور اس کے بالمقابل آیت : ۔ وَكانَ لَهُ ثَمَرٌ [ الكهف/ 34] اور اس کو پیدا وار ( ملتی رہتی) تھی ۔ میں مال کو ثمر کہا ہے جیسا کہ ابن عباس سے مروی ہے اور رنگ کی ترو تازگی کے لحاظ سے خاکستری رنگ کے اونٹ کو بعیر اورق کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح حمامتہ ورقاء کا محاورہ ہے جس کے معنی خاکی رنگ کی کبوتری یا فاختہ کے ہیں ۔ اورق ( ایضا ) مال دار ہونا گویا کثرت کے لحاظ گئی ہے جیسا کہ مال کو ثٰری تراب یاسیل کے ساتھ تشبیہ دے کر اس معنی میں کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ لہ مال کالتراب اوالسیل اوالترٰی : یعنی وہ بہت زیادہ مالدار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( الرجز ) ( 447 ) واغفر خطایای وثمرورنی میری خطائیں معاف فرما اور میرا مال بڑھا دے اور الورق ( بکسر الراء ) خصوصیت کے ساتھ دراہم کو کہتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هذِهِ [ الكهف/ 19] تو اپنے میں سے کسی کو یہ سکہ دے کر شہر بھیجو ۔ ایک قرات میں بورقکم وبورقکم ہے اور یہ ورق وورق دونوں طرح بولاجاتا ہے ۔ جیسے کبد وکبد ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] . ( ع ص ی ) العصا ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ غوی الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی . وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى [ طه/ 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر : ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما «2» وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم : غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات/ 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف/ 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر/ 39] . ( غ و ی ) الغی ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢١) ان دونوں ( آدم و حوا) نے اس درخت میں سے کھالیا، اس میں سے کھاتے ہی ان دونوں کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے، دونوں اپنے ستر پر زیتون کے پتے چپکانے لگے جب بھی ان پتوں کو چپکاتے فورا گر جاتے اور اس درخت میں سے کھانے کی وجہ سے حضرت آدم (علیہ السلام) سے اپنے رب کا قصور ہوگیا تو وہ مقصود خلد کے بارے میں غلطی میں پڑگئے اور اس درخت کے کھانے کی وجہ سے جو ان کا مقصود تھا، اس کو حاصل نہ کرسکے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢١ (فَاَکَلَا مِنْہَا فَبَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا) ” چنانچہ حضرت آدم اور حضرت حوا (علیہ السلام) دونوں نے اس درخت کا پھل کھالیا۔ اس پھل کے چکھتے ہی وہ دونوں بےلباس ہوگئے اور ان کی شرم گاہیں نظر آنے لگیں (اس مضمون کی تفصیل سورة الاعراف میں گزر چکی ہے) ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

101. No sooner did they disobey the command, they were deprived of all the facilities, but naturally the immediate effect of this as felt by them was that they were stripped of their garments. Then gradually, as they felt thirsty, hungry etc. they realized that they had been deprived of all the facilities that they enjoyed in the Garden. 102. It is worth while to understand the nature of human weakness which helped Satan to seduce Adam and Eve. They succumbed to seduction because Satan tempted them in the garb of a true friend and well-wisher even though they knew well that he was their enemy. For, Adam had a direct knowledge of the envy and enmity of Satan, who had challenged to seduce and ruin him in his very presence. Allah had also warned them to guard against the envy of and the temptations by Satan and had informed them of the consequences of disobedience. Above all, Adam and Eve still believed in Allah and never thought of intentional disobedience. But in spite of this, when Satan tempted them in the garb of a friend, they disobeyed their Lord: they forgot the command for the time being for lack of fineness of purpose. And since then this human weakness has persisted in their descendants during all ages.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :101 بالفاظ دیگر نافرمانی کا صدور ہوتے ہی وہ آسائشیں ان سے چھین لی گئیں جو سرداری انتظام سے ان کو مہیا کی جاتی تھیں ، اور اس کا اولین ظہور لباس چھن جانے کی شکل میں ہوا ۔ غذا ، پانی اور مسکن سے محرومی کی نوبت تو بعد کو ہی آنی تھی ، اس کا پتہ تو بھوک پیاس لگنے پر ہی چل سکتا تھا ، اور مکان سے نکالے جانے کی باری بھی بعد ہی میں آسکتی تھی ۔ مگر پہلی چیز جس پر نافرمانی کا اثر پڑا وہ سرکاری پوشاک تھی جو اسی وقت اتر والی گئی ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :102 یہاں اس بشری کمزوری کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے جو آدم علیہ السلام سے ظہور میں آئی ۔ اللہ تعالیٰ کو وہ اپنا خالق اور رب جانتے تھے اور دل سے مانتے تھے ۔ جنت میں ان کو جو آسائشیں حاصل تھیں ان کا تجربہ انہیں خود ہر وقت ہو رہا تھا ۔ شیطان کے حسد اور عداوت کا بھی ان کو براہ راست علم ہو چکا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دینے کے ساتھ ہی بتا دیا تھا کہ یہ تمہارا دشمن تمہیں نافرمانی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کا تمہیں یہ نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ ان کے سامنے چیلنج دے چکا تھا کہ میں اسے بہکاؤں گا اور اس کی بیخ کنی کر کے چھوڑوں گا ۔ ان ساری باتوں کے باوجود جب شیطان نے ان کو ناصح مشفق اور خیر خواہ دوست کے بھیس میں آکر ایک بہتر حالت ( زندگی جاوداں اور سلطنت لازوال ) کا لالچ دلایا تو وہ اس کی تحریص کے مقابلے میں نہ جم سکے اور پھسل گئے ، حالانکہ اب بھی خدا پر ان کے عقیدے میں فرق نہ آیا تھا اور اس کے فرمان کے بارے میں ایسا کوئی خیال ان کے ذہن میں نہیں تھا کہ وہ سرے سے واجب الاذعان ہی نہیں ہے ۔ بس ایک فوری جذبے نے ، جو شیطانی تحریص کے زیر اثر ابھر آیا تھا ، ان پر ذہول طاری کر دیا اور ضبط نفس کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی وہ طاعت کے مقام بلند سے معصیت کی پستی میں جا گرے ۔ یہی وہ بھول اور فقدان عزم ہے جس کا ذکر قصے کے آغاز میں کیا گیا تھا ، اور اسی چیز کا نتیجہ وہ نافرمانی اور بھٹک ہے جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے ۔ یہ انسان کی وہ کمزوری ہے جو ابتدائے آفرینش ہی میں اس سے ظاہر ہوئی ، اور بعد میں کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا ہے جبکہ یہ کمزوری اس میں نہ پائی گئی ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

S

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:121) فبدت۔ ف تعقیب کے لئے ہے۔ بدت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ وہ ظاہر ہوئی۔ بدو وبدائ۔ مصدر (باب نصر) اور جگہ قرآن مجید میں ہے وبدالہم سیئات ما کسبوا (39:47) اور ان کے اعمال کی برائیاں ان پر ظاہر ہوجائیں گی۔ البدو حضر۔ کی ضد ہے۔ اور بادیہ (صحرائ) کو بدو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہاں ہر چیز ظاہر نظر آتی ہے۔ سواتہما۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان دونوں کی شرمگاہیں۔ سوات سوء ۃ کی جمع ہے۔ سوء ۃ کے معنی فضیحت۔ عیب ۔ برا فعل۔ لاش۔ امام راغب لکھتے ہیں کہ :۔ کنایۃ سوء ۃ کا لفظ عورت یا مرد کی شرم گاہ پر بھی بولا جاتا ہے۔ علامہ ابن اثیر کا بیان ہے کہ :۔ اصل میں سوء ۃ کے معنی فرج (شرمگاہ ) کے ہیں۔ بعد میں اس کو ہر اس شے کے معنی میں نقل کرلیا گیا کہ جب وہ ظاہر ہو تو اس سے حیا آنے لگے۔ خواہ وہ قول ہو یا فعل۔ فبدت لہما سواتھما۔ سو بےپردہ ہوگئیں ان دونوں پر ان دونوں کی شرمگاہیں۔ طفقا۔ وہ دونوں کرنے لگے (وہ کام جو آگے مذکور ہے) ان دونوں نے شروع کیا۔ طفق یطفق (سمع) اور طفق یطفق (ضرب) طفق وطفوق مصدرطفق کی خبر مضارع بغیر ان کے آتی ہے جس طرح کاد کی۔ لیکن یہ کاد کی طرح افعال مقاربہ میں سے نہیں ہے اور طفق کے دیگر مرادفات جعل کرب اخذ بھی افعال مقاربہ میں سے نہیں۔ بعض نے اس سے اختلاف کیا ہے اور طفق کو افعال مقاربہ ہی میں شمار کیا ہے۔ یخصفن۔ مضارع تثنیہ مذکر غائب۔ خصف مصدر (باب ضرب) وہ دونوں چپکانے لگے۔ خصفۃ چمڑے کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جس کے اوپر اس جیسا دوسرا ٹکڑا رکھ کر جوتا بنایا جائے۔ عصی۔ ماضی صیغہ واحد مذکر غائب۔ عصیان ومعصیۃ مصدر۔ اس نے حکم ٹالا۔ اس نے نافرمانی کی۔ اس نے کہا نہ مانا۔ اس نے اطاعت نہ کی۔ عصی اصل میں عصی تھا۔ ی بعد فتح کے واقع تھی اس لئے الف ہوگئی۔ صاحب ضیاء القرآن لکھتے ہیں :۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدم (علیہ السلام) نے بھول کر یہ کام کیا تھا تو پھر عصی ادم (آدم نے نافرمانی کی) کے الفاظ ان کے متعلق کیوں کہے گئے ؟ تو اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ حسنات الابرار سیئات المقربین (نیک لوگوں کی نیکیاں بسا اوقات مقربین بارگاہ الٰہی کی سیئات شمار ہوتی ہیں (جیسا کہ سورة الفتح کی آیت نمبر 2 لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر (48:2) کی تفسیر میں صاحب روح المعانی فرماتے ہیں :۔ والمراد بالذنب ما فرط من خلاف الاولی بالنسبۃ الی مقامہ (علیہ الصلوۃ والسلام) فھو من قبیل حسنات الابرار سیئات المقربین) خطا اور نسیان پر اگرچہ انسان پر مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ اور انسان عذاب کا مستحق قرار نہیں پائے گا۔ لیکن خواص کا معاملہ اور ہے۔ ان سے ترک اولیٰ پر بھی مؤاخذہ ہونا ہے۔ بود آدم ویدہ نور قدیم موئے دردیدہ بود کوہ عظیم رومی فرماتے ہیں کہ :۔ آدم (علیہ السلام) نور قدیم کی آنکھ تھے اور آنکھ میں ایک بال بھی پڑجائے تو وہ کوہ عظیم کی طرح ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ ربہ۔ رب مفعول ہضمیر واحد مذکر غائب جس کا مرجع آدم ہے۔ غوی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ غی وغوایۃ مصدر۔ باب ضرب۔ غوایۃ کے معنی ہیں گمراہ ہونا۔ بہک جانا۔ بےراہ رد ہونا۔ ہلاک ہونا۔ نادان ہونا۔ ناکام ہونا۔ غوی وہ بہک گیا۔ وہ ناکام ہوگیا۔ وہ بےراہ ہوا۔ روح المعانی میں اس کے کئی معانی آئے ہیں :۔ (1) ضل عن مطلوبہ الذی ھو الخلود۔ یعنی اپنے مقصد میں ناکام رہا۔ مقصد تھا دائمی زندگی اور لازوال بادشاہی۔ (2) ضلی عن الرشد حیث اغتر بقول العدو۔ راہ مستقیم سے بھٹک گیا دشمن کی بات میں دھوکہ کھا کر۔ (3) فسد علیہ العیشۃ۔ اس کی زندگی تباہ ہوگئی۔ یعنی زندگی کا آرام چھن گیا۔ اسماعیل بن حماد الجوہری صاحب الصحاح نے اس کے معنی کئے ہیں :۔ (1) گمراہ ہونا۔ (2) حصول مقصد میں ناکام ہونا۔ مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں اکثر مفسرین نے یہی معنی لئے ہیں کہ وہ حصول مقصد میں ناکام رہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی اپنے رب کا حکم بجا لانے میں غفلت اور کوتاہی برتی اور اپنی شان کے مطابق عزت و استقامت کی راہ پر قائم نہ رہے۔ آدم سے یہ کوتاہی ان کے نبی بننے سے پہلے ہوئی ہے مگر آدم کو جو بلند مقام حاصل تھا اس کے لحاظ سے ان کی معمولی لغزش بھی بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ اس لئے سرزنش کی گئی، ورنہ اگر معمولی درجے کا انسان یہ کوتاہی برتتا تو اس کے لئے یہ سخت لفظ استعمال نہ کیا جاتا مشہور ہے۔ حسنات الابرارسیتات المقربین کہ ابرار کی نیکیاں مقربین کے حق میں گناہ شمار ہوتی ہیں۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بظاہر مفہوم یہ ہے کہ انسان کی مخصوص شرمگاہیں مراد ہیں جو ان سے پوشیدہ تھیں۔ دونوں کے جسم میں عفت ، کے مقامات چناچہ انہوں نے اپنے فطری شرم و حیا کی وجہ سے ان مقامات کو چھپانا شرع کیا اور ان پر جنت کے پتے لپیٹنے لگے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس درخت کے پھل کھانے کے نتیجے میں ان کے اندر جنسی احساس پیدا ہوگیا ہو کیونکہ جب تک کسی انسان میں جنسی احساس پیدا نہ ہو انسان کو شرم و حیا کا احساس نہیں ہوتا۔ انسان کو ان چیزوں کی طرف توجہ تب ہوتی ہے جب جنسی خواہش پیدا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ نے آدم و حوا پر اس مخصوص درخت کا پھل کھانا اس لئے منع کردیا ہو کہ اس کے نتیجے میں انسان کی جسمانی خواہشات نے پیدا ہونا تھا اور اللہ نے اپنے منصوبے کے مطابق ان کو موخر کیا وہا تھا۔ آدم سے نسیان کا صدور اسلئے بھی ہوگیا کہ اس کے تعلق باللہ میں کمی آگئی اور ان پر جسمانی خواہشات کے غلبے کی وجہ سے جنسی نظام پیدا ہوگیا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا جذبہ خلود جنسی خواہشات کی شکل میں اس درخت کی وجہ سے نمودار ہوگیا ہو کہ اگرچہ اس میں ایک فرد تو خلود نہیں پاتا لیکن نوع انسانی کی بقا تو اسی میں موجود ہے۔ یہ سب تشریحات اس حقیقت کے ہوتے ہوئے معقول نظر آتی ہیں کہ اس پھل کے کھانے سے ان کی شرمگاہیں کھل گئیں۔ یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ فبدت لھما سواتھما (٠٢ : ١٢١) ” ان کی شرمگاہیں کھل گئیں۔ “ بلکہ یہ کہا ہے۔ فبدت لھما سواتھما (٠٢ : ١٢١) ” ان پر ان کی شرمگاہیں کھل گئیں۔ “ مطلب یہ ہے کہ ان کو ان کا احساس ہی نہ تھا۔ یہ پھل کھاتے ہی ان کو اس انسانی داعیہ کا احساس ہوگیا۔ دوسری جگہ قرآن مجید نے اس حقیقت کی تعبیریوں کی ہے۔ لبیدی لھما ما ووری عنھما من سواتھما ” تاکہ ظاہر کر دے ان پر وہ چیز جو ان کی شرمگاہوں سے ہم نے خود ان سے چھپا رکھی تھی۔ “ اور دوسری جگہ ہے۔ ینزع عنھما لباسھا لیریھما سواتھما ” ان سے ان کے ستر اتار دیئے تاکہ وہ دکھائے ان کو ان کی شرمگاہیں۔ “ یہ مفہوم لیا جاسکتا ہے کہ وہ ان کے عدم شعور کی وجہ سے ستر تھا۔ لباس سے مراد پاکدامنی ، طہارت اور اللہ کے ساتھ تعلق کا لباس بھی ہو سکتا ہے۔ بہرحال یہ مختلف تفسیری مفروضے ہیں ہم ان میں کسی ایک پر زور نہیں دیتے اور نہ کسی ایک کو ترجیح دیتے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ انسان کی زندی کے اس پہلے انسانی تجربے کی صحیح صورت کا تعین کیا جائے۔ اس کے بعد آدم (علیہ السلام) اور آپ کی اہلیہ کو اس لغزش کے بعد اللہ کی رحمت نے ڈھانپ لیا کیونکہ یہ انسانیت کا پہلا تجربہ تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

121 اس وسوسے اور کہنے کا اثر یہ ہوا کہ دونوں میاں بیوی نے اس درخت میں سے کھالیا بس کھاتے ہی دونوں کی شرمگاہیں ان پر کھل گئیں اور وہ دونوں جنت کے پتے ملا ملا کر اپنے اوپر رکھنے لگے اور آدم (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کے حکم کی بجا آوری میں قصور کیا اور وہ غلطی میں پڑگیا۔ یعنی آدم (علیہ السلام) پر شیطان کا دائوں چل گیا اور اس سے کوتاہی سر زد ہوگئی اور ہمیشگی حاصل کرنے کے لئے غلطی میں پڑگئے، شرم گاہیں کھل گئیں اور برہنہ ہونے کی حالت میں اپنے اپنے بدن پر پتے چپکانے لگے اور معذرت کرنے لگے معذرت کے بعد ارشاد ہوتا ہے۔