Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 123

سورة طه

قَالَ اہۡبِطَا مِنۡہَا جَمِیۡعًۢا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی ۬ ۙ فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشۡقٰی ﴿۱۲۳﴾

[ Allah ] said, "Descend from Paradise - all, [your descendants] being enemies to one another. And if there should come to you guidance from Me - then whoever follows My guidance will neither go astray [in the world] nor suffer [in the Hereafter].

فرمایا تم دونوں یہاں سے اتر جاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو ، اب تمہارے پاس جب کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جومیری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وہ بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Descent of Adam to the Earth and the Promise of Good for the Guided and Evil for the Transgressors Allah says; قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ... He (Allah) said: "Get you down, both of you, together, some of you are an enemy to some others. Allah says to Adam, Hawwa' and Iblis, "Get down from here, all of you." This means each of you should get out of Paradise. We expounded upon this in Surah Al-Baqarah. بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ Some of you as enemies to others. (2:36) He (Allah) was saying this to Adam and his progeny and Iblis and his progeny. Concerning Allah's statement, ... فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى ... Then if there comes to you guidance from Me, Abu Al-Aliyyah said, "This (guidance) means the Prophets, the Messengers and the evidence." ... فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَ يَضِلُّ وَلاَ يَشْقَى Then whoever follows My guidance he shall neither go astray nor shall be distressed. Ibn Abbas said, "He will not be misguided in this life and he will not be distressed in the Hereafter."

ایک دوسرے کے دشمن ۔ حضرت آدم علیہ السلام وحوا علیہ السلام اور ابلیس لعین سے اسی وقت فرمادیا گیا کہ تم سب جنت سے نکل جاؤ سورۃ بقرۃ میں اس کی پوری تفسیر گزر چکی ہے ۔ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو یعنی اولاد آدم اور اولاد ابلیس ۔ تمہارے پاس میرے رسول اور میری کتابیں آئیں گی میری بتائی ہوئی راہ کی پیروی کرنے والے نہ تو دنیا میں رسوا ہوں گے نہ آخرت میں ذلیل ہوں گے ۔ ہاں حکموں کے مخالف میرے رسول کی راہ کے تارک ۔ دوسری راہوں پہ چلنے والے دنیا میں بھی تنگ رہیں گے اطمینان اور کشادہ دلی میسر نہ ہو گی اپنی گمراہی کی وجہ سے تنگی میں ہی رہیں گے گو بظاہر کھانے پینے پہننے اوڑھنے رہنے سہنے کی فراخی ہو لیکن دل میں یقین وہدایت نہ ہونے کہ وجہ سے ہمیشہ شک شبے اور تنگی اور قلت میں مبتلا رہیں گے ۔ بدنصیب ، رحمت الٰہی سے محروم ، خیر سے خالی ، کیونکہ اللہ پر ایمان نہیں ، اس کے وعدوں کا یقین نہیں ، مرنے کے بعد کی نعمتوں میں کوئی حصہ نہیں ۔ اللہ کے ساتھ بدگمان ، گئی ہوئی چیز کو آنے والی نہیں سمجھتے ۔ خبیث روزیاں ہیں ، گندے عمل ہیں ، قبر تنگ و تاریک ہے وہاں اس طرح دبوچا جائے گا کہ دائیں پسلیاں بائیں میں اور بائیں طرف کی دائیں طرف میں گھس جائیں گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن کی قبر ہرا بھرا سرسبز باغیچہ ہے ستر ہاتھ کی کشادہ ہے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا چاند اس میں ہے خوب نور اور روشنی پھیل رہی ہے جیسے چودھویں رات کا چاند چڑھا ہوا ہو ۔ اس آیت کا شان نزول معلوم ہے کہ میرے ذکر سے منہ پھیرنے والوں کی معیشت تنگ ہے اس سے مراد کافر کی قبر میں اس پر عذاب ہے ۔ اللہ کی قسم اس پر ننانوے اژدھے مقرر کئے جاتے ہیں ہر ایک کے سات سات سر ہوتے ہیں جو اسے قیامت تک ڈستے رہتے ہیں ۔ اس حدیث کا مرفوع ہونا بالکل منکر ہے ایک عمدہ سند سے بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے ۔ قیامت کے دن اندھا بنا کر اٹھایا جائے گا سوائے جہنم کے کوئی چیز اسے نظر نہ آئے گی ۔ نابینا ہو گا اور میدان حشر کی طرف چلایا جائے گا اور جہنم کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا ۔ جیسے فرمان ہے ( وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ عُمْيًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا ۭ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا 97؀ ) 17- الإسراء:97 ) یعنی ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اندھے گونگے بہرے بنا کر حشر میں لے جائیں گے ان کا اصلی ٹھکانہ دوزخ ہے ۔ یہ کہیں گے میں تو دنیا میں آنکھوں والا خوب دیکھتا بھالتا تھا پھر مجھے اندھا کیوں کردیا گیا ؟ جواب ملے گا کہ یہ بدلہ ہے اللہ کی آیتوں سے منہ موڑ لینے کا اور ایسا ہو جانے کا گویا خبر ہی نہیں ۔ پس آج ہم بھی تیرے ساتھ ایسا معاملہ کریں گے کہ جیسے توہماری یاد سے اترگیا جیسے فرمان ہے ( فَالْيَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَاۗءَ يَوْمِهِمْ ھٰذَا ۙ وَمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ 51؀ ) 7- الاعراف:51 ) آج ہم انہیں ٹھیک اسی طرح بھلا دیں گے جیسے انہوں نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا ۔ پس یہ برابر کا اور عمل کی طرح کا بدلہ ہے ۔ قرآن پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے احکام کا عامل ہوتے ہوئے کسی شخص سے اگر اسکے الفاظ حفظ سے نکل جائیں تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ۔ اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے جذامی ہونے کی حالت میں ملاقات کرے گا ( مسند احمد )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] اس مقام پر تثنیہ استعمال ہوا ہے۔ جس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک مطلب ترجمہ میں واضح ہے کہ ایک فریق آدم و حوا تھے اور دوسرا فریق شیطان اور خطاب کے لحاظ سے ان فریقوں میں ان کی اولاد بھی شامل ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایک فریق آدم، دوسرا حوا ہو، جمیعا ً کا معنی سب کے بجائے && مل کر، اکٹھے یا ایک ساتھ کیا جائے، اور خطاب آدم و حوا کی اولاد سے ہو۔ دوران کی اولاد میں دشمنی اسی طرح ہوگی۔ کہ ان کی اولاد میں سے ایک فریق اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے گا اور دوسرا شیطان کا تابع فرمان۔ ان دونوں فریقوں میں حق و باطل کی جنگ جاری اور دشمنی قائم رہے گی۔ ] ـ٨٩] یشقیٰ کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ وہ جنت کی راہ سے بہکے گا نہیں اور نہ اس سے محروم ہو کر دوزک کی تکلیفیں اٹھائے گا۔ بلکہ سیدھا جنت میں پہنچ جائے گا جو اس کا اصل وطن تھا اور اس لفظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ بدبختی میں مبتلانہ ہوگا۔ دنیا میں بھی اس کا مقدر اسے ضرور ملے گا اور آخرت میں تو وہ بہرحال خوش نصیب ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ : اس کی تفسیر سورة بقرہ کی آیت (٣٦) میں دیکھیے، یعنی توبہ قبول ہونے کے باوجود زمین پر رہنے کا فیصلہ قائم رہا، کیونکہ انھیں پیدا ہی زمین کی خلافت کے لیے کیا گیا تھا۔ ڏ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ ۔۔ : سورة بقرہ (٣٨) میں ” فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ “ ہے، یعنی جس نے میری ہدایت کی پیروی کی اور یہاں ” اتَّبَعَ “ (افتعال) ہے، اس میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے تکلف اور مبالغہ ہے، یعنی جس نے میری ہدایت کی پوری طرح پیروی کی تو وہ نہ دنیا میں جنت کے راستے سے بھٹکے گا اور نہ آخرت میں جنت سے محروم رہ کر بدنصیب ہوگا، بلکہ سیدھا چلتا ہوا اپنے گھر جنت میں پہنچ جائے گا۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا : ( ضَمِنَ اللّٰہُ لِمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ أَلاَّ یَضِلَّ فِی الدُّنْیَا وَلاَ یَشْقٰی فِی الْآخِرَۃِ ثُمَّ تَلاَ : (فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي ) [ مصنف ابن أبي شیبۃ : ١٠؍٤٦٧، ح : ٣٠٥٧٥۔ مستدرک حاکم : ٢؍٣٨١، ح : ٣٤٣٨ و صححہ ووافقہ الذھبی ]” جو شخص قرآن کی پیروی کرے اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہے کہ وہ نہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بدنصیب۔ “ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ” تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو وہ نہ گمرا ہوگا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔ “ معلوم ہوا ہدایت وہی ہے جو اللہ کی طرف سے آئے، اللہ تعالیٰ نے ہدایت خود بھیجنے کا وعدہ کیا اور اسے پورا فرمایا ہے۔ اللہ کے سوا کسی کی رہنمائی منزل پر نہیں پہنچا سکتی، خواہ کوئی عالم ہو یا درویش، انسان ہو یا جن یا کوئی اور اللہ کی کتاب کے مطابق زندگی گزارنا دنیا وآخرت دونوں میں کامیاب زندگی کا ضامن ہے، فرمایا : (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) [ النحل : ٩٧ ] ” جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کرتے تھے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا (123) mean |"both of you go down together|". This command can be in reference to Sayyidna &Adam (علیہ السلام) and the shaitan in which case the meaning of the phrase بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ (some of you enemies of some - 123) is obvious, namely that the two of them will remain enemies in the world also. However if it is argued that the Shaitan had already been expelled from Paradise long before these events occurred, then it would be correct to assume that these words have been addressed to Sayyidna &Adam (علیہ السلام) and Sayyidah Hawwa& (علیہا السلام) meaning thereby that their children would cherish hostile feelings towards one another and mutual hostility among the children embitters the lives of the parents.

اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيْعًۢا یعنی اتر جاؤ جنت سے (دونوں) یہ خطاب حضرت آدم و ابلیس دونوں کے لئے بھی ہوسکتا ہے اور اس صورت میں بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ کا مضمون واضح ہے کہ دنیا میں جا کر بھی شیطان کی دشمنی جاری رہے گی اور اگر یہ کہا جائے کہ شیطان کو تو اس واقعہ سے پہلے ہی جنت سے نکالا جا چکا تھا اب اس کو اس خطاب میں شریک قرار دینا بعید ہے تو دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہ خطاب آدم و حواء (علیہما السلام) دونوں کو ہو۔ اس صورت میں باہمی عداوت سے مراد ان کی اولاد میں باہمی عداوت ہونے کو بیان کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ اولاد میں باہمی عداوت ماں باپ کی زندگی بھی تلخ کردیتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ۝ ٠ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ ہُدًى۝ ٠ۥۙ فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي۝ ١٢٣ هبط الهُبُوط : الانحدار علی سبیل القهر كهبوط الحجر، والهَبُوط بالفتح : المنحدر . يقال : هَبَطْتُ أنا، وهَبَطْتُ غيري، يكون اللازم والمتعدّي علی لفظ واحد . قال تعالی: وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة/ 74] يقال : هَبَطْتُ وهَبَطْتُهُ هَبْطاً ، وإذا استعمل في الإنسان الهُبُوط فعلی سبیل الاستخفاف بخلاف الإنزال، فإنّ الإنزال ذكره تعالیٰ في الأشياء التي نبّه علی شرفها، كإنزال الملائكة والقرآن والمطر وغیر ذلك . والهَبُوطُ ذکر حيث نبّه علی الغضّ نحو : وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ، فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف/ 13] ، اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة/ 61] ولیس في قوله : فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة/ 61] تعظیم وتشریف، ألا تری أنه تعالیٰ قال : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 61] ، وقال جلّ ذكره : قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة/ 38] ويقال : هَبَطَ المَرَضُ لحم العلیل : حطّه عنه، والهَبِيط : الضّامر من النّوق وغیرها إذا کان ضمره من سوء غذاء، وقلّة تفقّد . ( ھ ب ط ) الھبوط ( ض ) کے معنی کسی چیز کے قہرا یعنی بےاختیار ی کی حالت میں نیچے اتر آنا کے ہیں جیسا کہ پتھر بلندی سے نیچے گر پڑتا ہے اور الھبوط ( بفتح لہاء ) صیغہ صفت ہے یعنی نیچے گر نے والی چیز ھبط ( فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جیسے انا میں نیچے اتار دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة/ 74] اور بعض پتھر ایسے بھی ( ہوتے ہیں ) جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں ۔ اور جب لفظ ھبوط انسان کے لئے بولا جاتا ہے تو اس میں استخفاف اور حقارت کا پہلو پایا جاتا ہے بخلاف لفظ انزال ( الا فعال کے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بہت سے موقعوں پر با شرف چیزوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جیسے ملائکہ قرآن بارش وغیرہ اور جہاں کہیں کسی چیز کے حقیر ہونے پر تنبیہ مقصؤد ہے وہاں لفظ ھبوط استعمال کیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] اور ہم نے حکم دیا کہ تم ( سب ) اتر جاؤ تم ایک کے دشمن ایک ۔ فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف/ 13] تو بہشت سے نیچے اتر کیونکہ تیری ہستی نہیں کہ تو بہشت میں رہ کر شیخی مارے ۔ اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة/ 61] اچھا تو ) کسی شہر میں اتر پڑوں کہ جو مانگتے ہو ( وہاں تم کو ملے گا ۔ یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ سے ان کا شرف ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس کے مابعد کی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 61] اور ان پر ذلت اور محتاجی لیسدی گئی اور وہ خدا کے غضب میں آگئے ان ہم کو دور کرنے کے لئے کافی ہے ۔ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة/ 38] ہم نے حکم دیا کہ تم سب کے سب ) یہاں سے اتر جاؤ محاورہ ہے ھیط المرض لھم العلیل بیمار ینے اس کے گوشت کو کم کردیا یعنی ( لاغر کردیا اور الھبط اونٹ وغیرہ کو کہتے ہیں جو غذا کے ناقص اور مالک کی بےاعتنائی کی وجہ سے لاغر ہوجائے ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ شقي الشَّقَاوَةُ : خلاف السّعادة، وقد شَقِيَ «2» يَشْقَى شَقْوَة، وشَقَاوَة، وشَقَاءً ، . قال عزّ وجلّ : فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه/ 123] ( ش ق و ) اشقاوۃ ( بدبختی ) یہ سعادت کی ضد ہے اور شقی ( س) شقوۃ وشقاوۃ وشقاء کے معنی بدبخت ہونے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔: فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه/ 123] وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٣) اس کے بعد حضرت آدم وحوا اور سانپ وغیرہ سے فرمایا کہ تم سب جنت سے اترو اور اس حال میں جاؤ کہ تم سب ایک دوسرے کے یعنی سانپ انسانوں کا اور انسان سانپ کے دشمن ہوں گے پھر اگر اے انسانوں تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت کا ذریعہ یعنی کتاب اور رسول پہنچے تو تم میں سے جو شخص میرے رسول اور میری کتاب کی اتباع کرے گا تو وہ ان کی اتباع کی وجہ سے نہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں سختی میں ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

104. That is, Allah not only pardoned him but also gave him guidance and taught him the way to follow it.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

53: یعنی انسان اور شیطان ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:123) اھبطا۔ تم دونوں اترجائو۔ ھبط یھبط (ضرب) ھبوط سے فعل امر تثنیہ مذکر حاضر۔ یعنی جنت سے (جو ایک اعلیٰ مقام ہے ) زمین کی طرف (جو ایک ادنیٰ جگہ ہے) اترو ! منھا ۔ ای من الجنۃ۔ جمیعا۔ یعنی تم دونوں اور شیطان لعین بھی۔ بعضکم لبعض عدو۔ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے۔ یعنی جہاں تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے۔ تمہاری اولاد میں بھی یہ کیفیت ہوگی۔ یہ جملہ موضع حال میں ہے اھبطا سے۔ فاما۔ فان ما۔ اگر۔ فلا یضل ولا یشقی۔ ای فلا یضل فی الدنیا ولا یشقی فی الاخرۃ نہ وہ اس دنیا میں بھٹکے گا اور نہ آخرت میں بدنصیب و محروم ہوگا۔ یعنی یہاں دنیا میں بھی اس کو راہ مستقیم نصیب ہوگی۔ اور آخرت میں اپنے نیک اعمال کی جزاوثواب سے بھی محروم نہ ہوگا۔ (نیز ملاحظہ ہو 20:117) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی تمہاری اولاد میں باہم دشمنی رہے گی۔6 معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق زندگ گزارنا دنیا و آخرت دونوں کو بنا لینا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ اعراض سے مراد کفر و شرک اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنا ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں کشادہ دست ہونے کے باوجود پریشان رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے رزق سے برکت اٹھا لیتا ہے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود یہ دنیا کے حصول کے لیے ہلکان رہتے ہیں۔ انھیں دل کی تونگری حاصل نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی ان کے مال کی ہوس دن بدن بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ الْغِنَی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرَضِ ، وَلَکِنَّ الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ ) [ رواہ البخاری : باب الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہتونگری دولت کی بہتات سے نہیں بلکہ دل کے غنٰی سے حاصل ہوتی ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی نصیحت سے منہ پھیرنے والے ہمیشہ تنگ رہتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ دنیا پرست لوگوں کو قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھائے گا۔ تفسیر بالقرآن ذکر کا مفہوم اور اس کے فائدے : ١۔ قرآن ذکر ہے۔ ( الحجر : ٩) ٢۔ نماز ذکر ہے۔ ( العنکبوت : ٤٥) ٣۔ اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔ (الرعد : ٢٨) ٤۔ نصیحت ذکر ہے۔ ( طٰہٰ : ١٤٤) ٥۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگوں پر شیطان کا تسلط ہوتا ہے۔ (الزخرف : ٣٦) ٦۔ صبح اور شام کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو۔ (آل عمران : ٤١) ٧۔ اے ایمان والو ! کثرت سے اللہ کو یاد کرو۔ (الاحزاب : ٤١) ٨۔ اللہ کو کثرت کے ساتھ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الجمعۃ : ١٠ ) ٩۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب : ٣٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یوں مخلوق خداوندی کے ان دو گروہوں کے درمیان عداوت ہوگئی اس لئے اب اولاد آدم یہ عذر پیش نہیں کرسکتی کہ مجھے تو خبر نہ تھی کہ شیطان ہمارا دشمن ہے۔ میں تو بیخبر ی میں مارا گیا ۔ اسی لئے انسان کو ، قبل از وقت پوری طرح خبردار کردیا گیا اور پوری کائنات میں اعلان کردیا یا کہ :۔ بعضکم لبعض عدو (٠٢ : ٣٢١) ” تم دونوں فریق ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ “ یہ اعلان جس سے پوری کائنات گونج اٹھی جس پر تمام فرشتے گواہ ٹھہرے ، اللہ کی رحمت کا تقاضا پھر وہا کہ انسان کی ہدایت اور اسے یاد دہانی کرانے کے لئے وقتاً فوقتاً رسول بھیجے جائیں۔ چناچہ دشمن کا اعلان ہوا اور پھر فرمایا کہ رسول بھی آئیں گے اور اس کے بعد تمہیں آزادی ہوگی کہ تم کون سی راہ اختیار کرتے ہو۔ یہ منظر اس قصے کے بعد آتا ہے یوں کہ شاید یہ اس قصے کا حصہ ہے۔ درحقیقت اس کا اعلان بھی عالم بالا میں واقعہ آدم و ابلیس کے بعد ہوا۔ لہٰذا یہ اس پوری کائنات کیلئے زمانہ قدیم سے طے شدہ اصول ہے۔ یہ نہ واپس لیا جاسکتا ہے اور نہ اس میں کوئی ترمیم ہو سکتی ہے۔ فمن اتبع ھد ای فلا یضل ولایشقی (٠٢ : ٣٢١) ” تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بدبختی میں مبتلا ہوگا۔ “ وہ گمراہی اور مصیبت سے محفوظ ہوگا ، میری ہدایت کی پیروی کی وجہ سے گمراہی اور مصیبت جنت کے دروازے کے باہر بڑی بےتابی سے تمہارے انتظار میں ہیں لیکن جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ ان سے بچا رہے گا اور مصیبت دراصل گمراہی کا پھل ہے۔ اگرچہ گمراہ شخص دنیاوی ساز و سامان میں غرق ہو ، یہ ساز و سامان بھی ایک گمراہ کے لئے بڑی مصیبت ہوتا ہے۔ دنیا میں بھی مصیبت اور آخرت میں بھی مصیبت ، دنیا میں حرام کی روزی جس قدر بھی وافر ہو ، اس کے نتیجے میں انسان کی زندگی میں تلخیاں اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ انسان جونہی اللہ کی رہنمائی سے نکلتا ہے وہ اندھیروں میں داخل ہوجاتا ہے ، ادھر ادھر ٹامک ٹوئایں مارتا ہے ، قلق اور پریشانی اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ کبھی ادھر بھاگتا ہے ، کبھی ادھر بھاگتا ہے ، اس کی زندگی واضح طور پر غیر متوازن ہوجاتی ہے۔ غرض مصیبت ایک گمراہ شخص کے ساتھ ہوتی ہے ، اگرچہ وہ عیش و عشرت میں ہو۔ اس کے لئے بہت بڑی بدبختی دار آخرت میں انتظار کرتی رہتی ہے اور جو شخص اللہ کی ہدایت پر چلتا ہے وہ دنیا میں بھی گمراہی اور مصیبت سے مکمل طور پر نجات پاتا ہے اور آخرت میں تو وہ جنت الفردوس میں ہوگا۔ صرف یوم موعود آنے کی دیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مزید فرمایا (فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًا فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلاَ یَشْقٰی) (سو اگر تم میں سے کسی کے پاس میری ہدایت آئے سو جس نے میری ہدایت کا اتباع کیا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ شقی ہوگا) اس کے زمین میں آنے سے پہلے ہی اللہ جل شانہٗ نے بتادیا تھا کہ تمہارے پاس میری ہدایت آئے گی اس پر چلنے میں کامیابی ہے جو اسے قبول کرے گا نہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بد بخت ہوگا، اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور پیغمبروں کے ذریعہ ہدایات پہنچتی رہی ہیں۔ حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت ختم ہوگئی۔ اب نیا نبی کوئی نہیں آئے گا۔ خاتم المرسلین کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی کار نبوت یعنی دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام جاری ہے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب باقی ہیں جو ہدایت پر عمل کرے گا اسے وہی بلند مقام مل جائے گا جہاں سے اس کے ماں باپ آدم اور حوا ( علیہ السلام) اس دنیا میں آئے تھے، جنت اپنے باپ کی جگہ ہے جہاں وہ تھے اور جہاں واپس گئے وہیں ان کی وفادار اولاد پہنچ جائے گی اور جنہوں نے اللہ کی ہدایت کو نہ مانا کفر پر رہے اور اسی پر مرے وہ جنت میں نہ جائیں گے کیونکہ اختلاف دین کی وجہ سے میراث کا استحقاق نہیں رہتا، جو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت پر رہے اس کے لیے ضمانت ہے کہ وہ دنیا میں گمراہ نہیں اور آخرت میں بد نصیب نہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا جس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا اتباع کیا اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں ہدایت پر رکھیں گے اور قیامت کے دن اسے برے حساب سے بچائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلاَ یَشْقٰی) (کذافی درالمنثور، ج ٤، ص ٣١١) ضروری فوائد فائدہ (١): حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے میں یہ جو فرمایا کہ وہ بھول گئے اس کی تفسیر کرتے ہوئے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں فنسی العھد ولم یھتم بہ ولم یشتغل بحفظہ حتی غفل عنہ۔ (کہ حضرت آدم (علیہ السلام) عہد بھول گئے اللہ تعالیٰ شانہ نے انہیں جو حکم دیا تھا کہ فلاں درخت میں سے نہ کھانا) یہ ان کے ذہن سے اتر گیا اور انہوں نے اسے یاد رکھنے کا اہتمام نہ کیا جس کی وجہ سے غفلت ہوگئی، اور (وَ لَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا) کی تفسیر میں لکھتے ہیں تصمیم ورای و ثبات قدم فی الامور یعنی ہم نے ان کے لیے رائے کی مضبوطی اور پختگی نہیں پائی گویا کہ یہ نسیان کی تفسیر ہے۔ یعنی اگر وہ یاد رکھنے کا اہتمام کرتے تو ثابت قدم اور پختہ عزم والے رہتے لیکن بےدھیانی کی وجہ سے بھول گئے جس کی وجہ سے شجر ممنوعہ میں سے کھا بیٹھے۔ اور حضرت ابن عباس اور حضرت قتادہ سے (لَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا) کا یہ معنی مروی ہے کہ وہ درخت کے کھانے سے بچ نہ سکے اور اس کے ترک پر صبر نہ کرسکے۔ اور صاحب روح المعانی نے ایک جماعت سے ان کا یہ معنی نقل کیا ہے کہ انہوں نے گناہ کا ارادہ نہیں کیا تھا خلاف ورزی تو ہوئی خطا بھی ہوگئی لیکن جانتے بوجھتے جو گناہ ہوتا ہے اس کے ذیل میں نہیں آتا۔ عن ابن زید و جماعۃ ان المعنی لم نجدلہ عزما علی الذنب فانہ (علیہ السلام) اخطاولم یتعمد (ج ١٦ ص ٢٧٠) جہاں تک نسیان کا تعلق ہے وہ تو انبیاء کرام (علیہ السلام) کی شان میں ممتنع الو قوع یعنی محال نہیں ہے۔ سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انما انا بشر مثلکم انسی کما تنسون (مشکوٰۃ المصابیح، ص ٩٢) (میں تمہاری طرح کا آدمی ہوں تم جیسے بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں) سوال یہ رہ جاتا ہے کہ بھول تو معاف ہے جب وہ بھول گئے تھے تو اس پر مواخذہ کیوں ہوا اور اس کو معصیت کیوں قرار دیا گیا۔ اس کا ایک جواب تو مذکورہ بیان میں گزر چکا ہے کہ نسیان پر مواخذہ نہیں جن وجوہ سے نسیان ہوا ان پر مواخذہ ہوا یعنی انہوں نے یاد رکھنے کا اہتمام نہیں کیا جبکہ وہ یاد رکھ سکتے تھے۔ مثلاً ایک دوسرے کو آپس میں وصیت کرتے کہ ہم میں سے کوئی کھانے لگے تو یاد دلائے یا کوئی ایسی صورت حال اختیار کرلیتے جو یاد دلانے والی ہوتی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن سفر میں رات کے آخری حصے میں سونے لگے تو حضرت بلال (رض) کو بھی آنکھ لگ گئی وہ بھی سو گئے۔ حتیٰ کہ سورج نکلنے پر سب کی آنکھ کھلی۔ صحابہ جو گھبرائے تو آپ نے فرمایا فاذا رقد احدکم عن الصلاۃ اونسیھا ثم فزع الیھا فلیصلھا کما کان یصلیھا فی وقتھا۔ (سو جب تم میں سے کوئی شخص سوتا رہ جائے جس کی وجہ سے نماز جاتی رہے یا نماز کو بھول جائے پھر گھبرا کر اٹھے تو اسی طرح پڑھ لے جیسا کہ اس کے وقت میں پڑھتا تھا) ۔ (ص ٢٧، مشکوٰۃ المصابیح) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال کو جگانے پر لگایا پھر آپ نے سونا منظور فرمایا۔ چونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے یاد رکھنے کی کوتاہی ہوئی اس لیے ان کا مواخذہ ہوا۔ علامہ قرطبی نے ایک اور بات لکھی ہے اور وہ یہ کہ اس وقت آدم (علیہ السلام) بھولنے پر بھی ماخوذ تھے اگرچہ ہم سے بھول پر مواخذہ نہیں ہوتا۔ (ج ١١، ص ٢٥١) اور تیسری بات یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے جس عمل کا صدور ہوا، گو وہ سہو اور خطا ہی تھا مگر ان کے بلند مرتبہ کے خلاف تھا جن اعمال پر عامۃ الناس سے مواخذہ نہیں ہوتا بلند مرتبہ والوں سے ان پر بھی مواخذہ ہوجاتا ہے۔ جملہ حسنات الابرار سیئات المقر بین میں اسی مضمون کو واضح کیا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے یہاں عصمت انبیاء کا سوال بھی اٹھایا ہے لیکن جب یہ معصیت حسنات الابرار سیئات المقربین کے قبیل سے ہو خصوصاً جبکہ وہ بھول کر تھی اور اس کا صدور بھی نبوت سے سر فراز ہونے سے پہلے تھا اور وہ بھی عالم بالا میں دنیا کے دارالتکلیف میں آنے سے پہلے ہو۔ لہٰذا عصمت انبیاء کے عقیدہ میں اس سے کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ خصوصاً جبکہ اسے سورة الاعراف میں زلت یعنی لغزش قرار دیا ہے۔ کما قال تعالیٰ شانہٗ (فَاَزَ لَّھُمَا الشَّیْطَانُ عَنْھَا) اس میں اختلاف ہے کہ نبوت سے سر فراز ہونے سے پہلے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) سے کبیرہ کا صدور ہوسکتا ہے یا نہیں۔ بہت سے حضرات فرماتے ہیں کہ کفر و کذب کے علاوہ باقی معاصی کا صدور ہوسکتا ہے۔ قال صاحب الروح (ج ١٦، ص ٢٧٤) فقد قال عضد الملۃ فی المواقف ان الاکثرین جو زوا صدور الکبیرۃ یعنی ماعدا الکفر والکذب فیما دلت المعجزۃ علی صدقھم علیھم السلام فیہ سھوا وعلی سبیل الخطا منھم اھ۔ اب رہا لفظ فغویٰ اس کا معنی یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے جو درخت کھالیا اس میں وہ اپنے مطلوب کے بارے میں غلطی میں پڑگئے۔ ان کو جو دشمن نے یہ سمجھایا کہ تم اس درخت کو کھالو گے تو ہمیشہ یہیں رہو گے اس کی باتوں میں آگئے۔ اس کے کہنے سے یہ سمجھ لیا کہ یہاں ہمیشہ رہیں گے لیکن اس کی بات ماننے سے وہاں سے نکلنا پڑا۔ قال صاحب الروح ضل عن مطلوبہ الذی ھو الخلود او عن المطلوب منہ و ھو ترک الا کل من الشجرۃ او عن الرشد حیث اغتر بقول العدو۔ (ج ١٦، ص ٩٧٤) فائدہ (٢): یہ جو فرمایا (فَلاَ یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشْقٰی) ۔ اس میں بظاہر صیغہ تثنیہ فتشقیان ہونا چاہیے تھا مفر دلانے میں ایک نکتہ تو وہ ہے جو علماء بلاغت نے لکھا ہے کہ فواصل کی رعایت کی وجہ سے مفرد کا صیغہ لایا گیا، اور بعض علماء نے اس سے ایک فقہی نکتہ مستنبط کیا ہے اور وہ یہ کہ کمائی کرنا اور بیوی کے کھانے پینے پہننے کی ضروریات پوری کرنا شوہر ہی کے ذمہ ہے عورت اس کسب میں شریک نہیں، اس لیے صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کو خطاب کیا گیا اور آئندہ بنی نوع انسان کو یہ سبق دے دیا گیا کہ کسب مال کی مشقت اٹھانا اور اس کے لیے محنت کرنا صرف مرد کی ذمہ داری ہے۔ فائدہ (٣): حضرت آدم اور حوا ( علیہ السلام) ابھی جنت ہی میں تھے کہ ان سے فرما دیا تھا کہ تم اس میں رہو اس میں بھوکے ننگے نہ رہو گے اور نہ پیاس لگے گی اور نہ دھوپ۔ جنت میں تو بہت زیادہ نعمتوں اور لذتوں کا سامان ہے پھر بھی انہیں چیزوں کا تذکرہ فرمایا اس سے بعض علماء نے یہ استنباط کیا ہے کہ انسان کی اصل ضرورت کھانا پینا، پہننا اور رہنے کی جگہ میسر ہونا ہی ہے۔ جس میں سردی گرمی سے بچ سکے۔ اس کے علاوہ اور جو کچھ ہے التذاذ اور زیب وزینت کے لیے ہے اور جو اصل ضرورت سے زائد ہے۔ حضرت عثمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ابن آدم کو تین چیزوں کے سوا اور کسی چیز میں حق نہیں ہے۔ ایک تو رہنے کا گھر ہو اور دوسری شرم کی جگہ چھپانے کے لیے کپڑا ہو تیسرے روٹی کا ٹکڑا اور پانی ہو۔ (رواہ الترمذی) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جس شخص کو اس حال میں صبح ہوئی کہ وہ اپنے نزدیک امن سے ہے اور اس کے جسم میں عافیت ہے اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک ہے تو گویا اس کو ساری دنیا مل گئی۔ (رواہ الترمذی) نکاح بھی انسان کی ضرورت کی چیز ہے نفس و نظر پاک رکھنے اور تکثیر نسل کے لیے اس کی ضرورت ہے۔ آیت کریمہ میں اس کا تذکرہ نہیں فرمایا کیونکہ وہ دونوں پہلے سے میاں بیوی تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب بندے نے نکاح کرلیا تو آدھا ایمان محفوظ کرلیا۔ اب باقی آدھے میں اللہ سے ڈرے۔ (مشکوٰۃ ص ٢٦٨) کچھ اشخاص حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کے پاس آئے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو فقراء سمجھتے تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا کیا ہم فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہیں ؟ فرمایا کیا تیرے پاس بیوی ہے جس کی طرف ٹھکانہ پکڑتا ہے۔ (یعنی کام کاج کرکے اس کے پاس جا کے آرام کرتا ہے) اس نے کہا ہاں بیوی تو ہے، فرمایا کیا تیرے پاس رہنے کے لیے گھر ہے ؟ اس نے کہا ہاں گھر بھی ہے۔ فرمایا بس تو مالداروں میں سے ہے۔ وہ کہنے لگا کہ میرا ایک خادم بھی ہے۔ فرمایا پھر تو بادشاہوں میں سے ہے۔ (رواہ مسلم) فائدہ (٤): اللہ تعالیٰ کی سب مخلوق ہیں۔ اسی نے مرتبے دئیے ہیں اور اسی نے جسے چاہا نبوت سے سر فراز فرمایا اور جس کسی سے کوئی لغزش ہوئی اس کا مواخذہ فرمایا۔ پھر توبہ کرنے پر معاف بھی فرمایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ معاملہ ہے لیکن ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ ابو البشر سیدنا آدم (علیہ السلام) کو یوں کہیں کہ وہ گنہگار تھے یا یوں کہیں کہ انہوں نے گناہ کا کام کیا یا کسی بھی نبی کی لغزش کا ہم خود سے تذکرہ کریں، ہاں آیت کا مضمون بیان کردیں تو یہ دوسری بات ہے۔ خواہ مخواہ ان واقعات کو لے کر ان حضرات کی طرف گناہ یا عیب منسوب نہ کریں۔ خصوصاً جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف بھی فرما دیا۔ سورة طہٰ میں یہاں بالتصریح (ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَ بُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَ ھَدٰی) فرمایا ہے اور سورة نون میں یونس (علیہ السلام) کے بارے میں (فَاجْتَبَاہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصَّالِحِیْنَ ) فرمایا ہے اب کس کا منہ ہے کہ کوئی شخص ان حضرات کی لغزشوں کو اچھالے اور ان کی غیبت کر کے لذت حاصل کرے۔ اگر کوئی شخص ہمارے قریب ترین باپ دادا کو کہہ دے کہ وہ گنہگار تھا گناہگار ہے تو کتنا برا لگے گا۔ پھر ابو البشر سیدنا آدم (علیہ السلام) جو نبی تھے اور سارے انبیاء کے باپ تھے ان کے حق میں یہ کہنا اور اچھالنا کہ انہوں نے گناہ کیا کیسے گوارا کیا جاسکتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

123 شجر ممنوعہ میں سے کھانے کے بعد ارشاد ہوا تم دونوں جنت سے نیچے اتر جائو درآں حالیکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے یعنی تمہاری اولاد باہم ایک دوسرے کی دشمن ہوگی پھر اگر میری جانب سے تمہارے پاس کوئی ہدایت پہونچے تو اس ہدایت پہونچنے کے بعد جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا تو وہ نہ بےراہ ہوگا اور نہ وہ تکلیف میں مبتلا ہوگا اور شقاوت و بدبختی سے دور رہے گا۔ جنت سے نکالتے وقت تعلق کو منقطع نہیں فرمایا بلکہ یوں ارشاد ہوا کہ اولاد آدم (علیہ السلام) میں باہم دشمنی ہوگی اور آپس میں پھوٹ ہوگی میں تمہارے پاس بذریعہ کتاب اور پیغمبر اپنی ہدایت بھیجوں گا پھر اگر تمہارے پاس میری ہدایت پہونچے تو رسول کا کہنا ماننا اور کتاب پر عمل کرنا جو بذریعہ کتاب و رسول پہنچی ہوئی میری ہدایت کی اتباع اور پیروی کرے گا تو وہ دنیا میں گمراہی سے مامون اور قیامت میں شقاوت سے محفوظ رہے گا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ایک دوسرے کی دشمن بنے ان کی اولاد جیسا آپس میں رفاقت کر کے گناہ کیا اس رفاقت کا بدلا یہ ملا کہ اولاد آپس میں دشمن ہوئی۔ 12