Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 133

سورة طه

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا یَاۡتِیۡنَا بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ اَوَ لَمۡ تَاۡتِہِمۡ بَیِّنَۃُ مَا فِی الصُّحُفِ الۡاُوۡلٰی ﴿۱۳۳﴾

And they say, "Why does he not bring us a sign from his Lord?" Has there not come to them evidence of what was in the former scriptures?

انہوں نے کہا کہ یہ نبی ہمارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں لایا؟ کیا ان کے پاس اگلی کتابوں کی واضح دلیل نہیں پہنچی؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Request of the Polytheists for Proofs while the Qur'an is itself a Proof Allah, the Exalted, informs about the disbelievers in their statement, وَقَالُوا لَوْلاَ يَأْتِينَا بِأيَةٍ مِّن رَّبِّهِ ... They say: "Why does he not bring us a Sign from His Lord?" This means, `Why doesn't Muhammad bring us some proof from his Lord?' They meant a sign that was proof of his truthfulness in his claim that he was the Messenger of Allah. Allah, the Exalted, said, ... أَوَلَمْ تَأْتِهِم بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الاُْولَى Has there not come to them the proof of that which is in the former papers (Scriptures)! This means the Qur'an which Allah revealed to him while he was an unlettered man who could not write well and who did not study with the People of the Book. Yet, the Qur'an contains information about the people of the past that tells of their events from times long ago and it agrees with the authentic information in the previous Books concerning these matters. The Qur'an is the supervisor of these other Books. It verifies what is correct and explains the mistakes that were falsely placed in these Books and attributed to them. This Ayah is similar to Allah's statement in Surah Al-`Ankabut, وَقَالُواْ لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْهِ ءايَـتٌ مِّن رَّبِّهِ قُلْ إِنَّمَا الاٌّيَـتُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَأ أَنَاْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّأ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَـبَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِى ذلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُوْمِنُونَ And they say: "Why are not signs sent down to him from his Lord!" Say: "The signs are only with Allah, and I am only a plain warner." It is not sufficient for them that We have sent down to you the Book which is recited to them! Verily, herein is mercy and a reminder for a people who believe. (29:50-51) In the Two Sahihs, it is recorded that the Messenger of Allah said, مَا مِنْ نَبِيَ إِلاَّ وَقَدْ أُوتِيَ مِنَ الاْاياتِ مَا امَنَ عَلَىىِمثْلِهِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُهُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللهُ إِلَيَّ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَة There was not any Prophet except that he was given signs that caused men to believe. That which I have been given is a revelation that Allah has revealed to me, so I hope that I have the most followers among them (the Prophets) on the Day of Resurrection. In this Hadith, the Prophet only mentioned the greatest of the signs that he was given, which is the Qur'an. However, he did have other miracles, which were innumerable and limitless. These miracles have all been recorded in the books that discuss them, and they have been affirmed in the places that mention them. Then Allah says,

قرآن حکیم سب سے بڑا معجزہ ۔ کفاریہ بھی کہا کرتے تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ نبی اپنی سچائی کا کوئی معجزہ ہمیں نہیں دکھاتے؟ جواب ملتا ہے کہ یہ ہے قرآن کریم جو اگلی کتابوں کی خبر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا ہے جو نہ لکھنا جانیں نہ پڑھنا صلی اللہ علیہ وسلم ۔ دیکھ لو اس میں اگلے لوگوں کے حالات ہیں اور بالکل ان کتابوں کے مطابق جو اللہ کی طرف سے اس سے پہلے نازل شدہ ہیں ۔ قرآن ان سب کا نگہبان ہے ۔ چونکہ اگلی کتابیں کمی بیشی سے پاک نہیں رہیں ، اس لئے قرآن اترا ہے کہ ان کی صحت غیرصحت کو ممتاز کردے ۔ سورۃ عنکبوت میں کافروں کے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا ( قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ ۙ اَنَّهَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ١٠٩؁ ) 6- الانعام:109 ) یعنی کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہر قسم کے معجزات ظاہر کرنے پر قادر ہے میں تو صرف تنبیہہ کرنے والارسول ہوں میرے قبضے میں کوئی معجزہ نہیں لیکن کیا انہیں یہ معجزہ کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر کتاب نازل فرمائی ہے جو ان کے سامنے برابر تلاوت کی جارہی ہے جس میں ہر یقین والے کے لئے رحمت وعبرت ہے ۔ صحیح بخاری ومسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی کو ایسے معجزے ملے کہ انہیں دیکھ کر لوگ ان کی نبوت پر ایمان لے آئے ۔ لیکن مجھے جیتا جاگتا زندہ اور ہمیشہ رہنے والا معجزہ دیا گیا ہے یعنی اللہ کی یہ کتاب قرآن مجید جو بذریعہ وحی مجھ پر اتری ہے ۔ پس مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن تمام نبیوں کے تابعداروں سے میرے تابعدار زیادہ ہوں گے ۔ یہ یاد رہے کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ بیان ہوا ہے اس سے یہ مطلب نہیں کہ آپ کے معجزے اور تھے ہی نہیں علاوہ اس پاک معجز قرآن کے آپ کے ہاتھوں اس قدر معجزات سرزد ہوئے ہیں جو گنتی میں نہیں آسکتے ۔ لیکن ان تمام بیشمار معجزوں سے بڑھ چڑھ کر آپ کا سب سے اعلیٰ معجزہ قرآن کریم ہے ۔ اگر اس محترم ختم المرسلین آخری پیغمبر علیہ السلام کو بھیجنے سے پہلے ہی ہم ان نہ ماننے والوں کو اپنے عذاب سے ہلاک کردیتے تو ان کا یہ عذر باقی رہ جاتا کہ اگر ہمارے پیغمبر آتے کوئی وحی الٰہی نازل ہوتی تو ہم ضرور اس پر ایمان لاتے اور اس کی تابعداری اور فرماں برداری میں لگ جاتے اور اس ذلت و رسوائی سے بچ جاتے ۔ اس لئے ہم نے ان کا یہ عذر بھی کاٹ دیا ۔ رسول بھیج دیا ، کتاب نازل فرمادی ، انہیں ایمان نصیب نہ ہوا ، عذابوں کے مستحق بن گئے اور عذر بھی دور ہوگئے ۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ ایک کیا ہزاروں آیتیں اور نشانات دیکھ کر بھی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ۔ ہاں جب عذابوں کو اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں گے اس وقت ایمان لائیں گے لیکن وہ محض بےسود ہے جیسے فرمایا ہم نے یہ پاک اور بہتر کتاب نازل فرما دی ہے جو بابرکت ہے تم اسے مان لو اور اس کی فرماں برداری کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا ، الخ یہی مضمون آیت ( وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا ١٠٩؁ ) 6- الانعام:109 ) ، میں ہے کہ کہتے ہیں کہ رسول کی آمد پر ہم مومن بن جائیں گے معجزہ دیکھ کر ایمان قبول کرلیں گے لیکن ہم ان کی سرشت سے واقف ہیں یہ تمام آیتیں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں گے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ ادھر ہم ادھر تم منتظر ہیں ۔ ابھی حال کھل جائے گا کہ راہ مستقیم پر کون ہے؟ حق کی طرف کون چل رہا ہے ؟ عذابوں کو دیکھتے ہی آنکھیں کھل جائیں گی اس وقت معلوم ہو جائے گا کون گمراہی میں مبتلا تھا ۔ گھبراؤ نہیں ابھی ابھی جان لوگے کہ کذاب وشریر کون تھا ؟ یقینا مسلمان راہ راست پرہیں اور غیرمسلم اس سے ہٹے ہوئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

133۔ 1 یعنی ان کی خواہش کے مطابق نشانی، جیسے ثمود کے لئے اونٹنی ظاہر کی گئی۔ 133۔ 2 ان سے مراد تورات، انجیل اور زبور وغیرہ ہیں، یعنی کیا ان میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات موجود نہیں، جن سے ان کی نبوت کی تصدیق ہوتی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ کیا ان کے پاس پچھلی قوموں کے حالات نہیں پہنچے کہ انہوں نے جب اپنی حسب خواہش معجزے کا مطالبہ کیا اور وہ انھیں دکھا دیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے، تو انھیں ہلاک کردیا گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠١] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ پہلے صحیفوں اور آسمانی کتابوں میں آپ کی علامات اور آپ کی آمد کی بشارت موجود تھیں اور بعض انصاف پسند لوگوں نے برملا اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ یہ وہی نبی آخر الزمان ہیں جن کی سابقہ کتابوں میں بشارات دی گئی تھیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن جیسا واضح معجزہ مل جانے کے بعد اب یہ کون سی نشانی چاہتے ہیں اور قرآن ایسی کتاب ہے جو اگلی کتابوں کے ضروری مضامین کا محافظ اور ان کی صداقت پر حجت بھی ہے اور گواہ بھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا لَوْلَا يَاْتِيْنَا ۔۔ : کفار کہا کرتے تھے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہیں تو گزشتہ انبیاء کی طرح اپنے سچا ہونے کی کوئی نشانی کیوں پیش نہیں کرتے ؟ فرمایا، اس سے زیادہ آپ کی سچائی کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ پہلی آسمانی کتابیں آپ کے آنے کی خبر دے رہی ہیں۔ یقیناً یہ خبر اہل کتاب کو معلوم ہے اور ان کے واسطے سے کفار مکہ تک پہنچ چکی ہے۔ پہلی کتابوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر خیر کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٥٧) ، فتح (٢٩) اور صف (٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَوَلَمْ تَأْتِهِم بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ (Has there not come to them the manifestation of that which was contained in the earlier scriptures? - 20:133) It means that all the old Revealed Books such as the Torah, the Injil (Evangel) and the scriptures given to Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) bear a witness to the prophethood of the last Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Is not all this sufficient evidence for those who persist in their denial of his prophethood?

بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى یعنی پچھلی آسمانی کتابیں تورات و انجیل اور صحف ابراہیم (علیہ السلام) وغیرہ سب کے سب رسول آخر الزماں محمد مصطفے ٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کی شہادت دیتے آئے ہیں کیا یہ بینات ان منکرین کے لئے کافی سے زیادہ ثبوت نہیں ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا لَوْلَا يَاْتِيْنَا بِاٰيَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ۝ ٠ۭ اَوَلَمْ تَاْتِہِمْ بَيِّنَۃُ مَا فِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى۝ ١٣٣ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ بَيِّنَة والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . ( ب ی ن ) البَيِّنَة کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ صحف الصَّحِيفَةُ : المبسوط من الشیء، کصحیفة الوجه، والصَّحِيفَةُ : التي يكتب فيها، وجمعها : صَحَائِفُ وصُحُفٌ. قال تعالی: صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی/ 19] ، يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] ، قيل : أريد بها القرآن، وجعله صحفا فيها كتب من أجل تضمّنه لزیادة ما في كتب اللہ المتقدّمة . والْمُصْحَفُ : ما جعل جامعا لِلصُّحُفِ المکتوبة، وجمعه : مَصَاحِفُ ، والتَّصْحِيفُ : قراءة المصحف وروایته علی غير ما هو لاشتباه حروفه، والصَّحْفَةُ مثل قصعة عریضة . ( ص ح ف ) الصحیفۃ کے معنی پھیلی ہوئی چیز کے ہیں جیسے صحیفۃ الوجہ ( چہرے کا پھیلاؤ ) اور وہ چیز جس میں کچھ لکھا جاتا ہے اسے بھی صحیفہ کہتے ہیں ۔ اس کی جمع صحائف وصحف آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی/ 19] یعنی ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] پاک اوراق پڑھتے ہیں جس میں مستحکم ( آیتیں ) لکھی ہوئی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ صحف سے قرآن پاک مراد ہے اور اس کو صحفا اور فیھا کتب اس لئے کہا ہے کہ قرآن میں کتب سابقہ کی بنسبت بہت سے زائد احکام اور نصوص پر مشتمل ہے ۔ المصحف متعدد صحیفوں کا مجموعہ اس کی جمع مصاحف آتی ہے اور التصحیف کے معنی اشتباہ حروف کی وجہ سے کسی صحیفہ کی قرآت یا روایت میں غلطی کرنے کے ہیں ۔ اور صحفۃ ( چوڑی رکابی ) چوڑے پیالے کی طرح کا ایک برتن ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٣) اور کفار مکہ یوں کہتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس کوئی نشانی اپنی نبوت کی کیوں نہیں لاتے، کیا ان کے پاس توریت وانجیل کے مضامین کا ظہور نہیں پہنچا کہ ان میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت کا ذکر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٣ (وَقَالُوْا لَوْلَا یَاْتِیْنَا بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ط) ” ہر بات ‘ ہر دلیل کے جواب میں مشرکین مکہ کی ایک ہی رٹ تھی کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں تو ہمیں کوئی حسیّ معجزہ کیوں نہیں دکھاتے ؟ (اَوَلَمْ تَاْتِہِمْ بَیِّنَۃُ مَا فِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی ) ” پہلے آسمانی صحیفوں کی تعلیمات کا قرآن مجید میں موجود ہونا اور خود قرآن کا ان صحیفوں میں بیان کی گئی پیشین گوئیوں کا مصداق بن کر آجانا کیا معجزہ نہیں ہے ؟ اور کیا یہ معجزہ ان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

116. This means that the Quran itself is a great miracle, for though it is being presented by an unlettered person from among them, it contains the essence of the teachings and guidance of all tire previous divine Books. Not only that, it makes those teachings and guidance so plain and clear that even a simple man of the desert can benefit from them.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :116 یعنی کیا یہ کوئی کم معجزہ ہے کہ انہی میں سے ایک امی شخص نے وہ کتاب پیش کی ہے جس میں شروع سے اب تک کی تمام کتب آسمانی کے مضامین اور تعلیمات کا عطر نکال کر رکھ دیا گیا ہے ۔ انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ان کتابوں میں جو کچھ تھا ، وہ سب نہ صرف یہ کہ اس میں جمع کر دیا گیا ، بلکہ اس کو ایسا کھول کر واضح بھی کر دیا گیا کہ صحر نشین بدّو تک اس کو سمجھ کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

58: اس سے مراد قرآن کریم ہے اور آیت کی تشریح دو طرح کی جا سکتی ہے، ایک یہ کہ یہ قرآن وہ کتاب ہے جس کی پیشین گوئی پھچلے آسمانی صحیفوں میں موجود تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان صحیفوں نے قرآن کریم کی حقانیت کی گواہی دی تھی، اور دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ قرآن کریم پچھلے آسمانی صحیفوں کے مضامین کی تصدیق کر کے ان کی گواہی دے رہا ہے، حالانکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی زبان مبارک پر یہ کلام جاری ہوا ہے وہ امی ہیں، اور ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے، جس سے وہ پچھلی کتابوں کا علم حاصل کرسکتے۔ اب جو ان آسمانی کتابوں کے مضامین ان کی زبان پر جاری ہو رہے ہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ مضامین اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں، اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اس سے بڑھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی اور کیا نشانی چاہتے ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٣٣۔ ١٣٤:۔ مشرکین مکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں کہتے تھے کہ اگر یہ سچے رسول ہیں تو مثلا جس طرح صالح (علیہ السلام) نے اونٹنی کے پتھر میں سے پیدا ہوجانے کا ظاہر معجرہ اپنی قوم کے لوگوں کو دکھلا دیا ‘ اسی طرح یہ رسول ہم کو کوئی ظاہر ظاہر معجزہ کیوں نہیں دکھلاتے ‘ مشرکین کی اس بات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘ ان پڑھ رسول کی معرفت پچھلی کتابوں کے سچے قصے جو ان لوگوں نے سنے ہیں کیا اس سے اتنی بات ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی کہ ان پڑھ شخص تو درکنار کوئی اہل کتاب بھی وہ غیب کے سچے قصے بغیر آسمانی کتاب کی مدد کے نہیں بیان کرسکتا تو اب اس میں کیا شک باقی رہا کہ قرآن کتاب آسمانی ہے اور جن پر یہ قرآن نازل ہوتا ہے ‘ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں اور اسی آسمانی کتاب کی مدد سے اللہ کے رسول وہ غیب کی باتیں بیان کرتے ہیں ‘ اگر معجزہ دیکھ کر ان لوگوں کا سچا ارادہ راہ راست پر آنے کا ہے و ایک ہی معجزہ ان کو کافی ہے علاوہ اس کے ان پچھلے قصوں میں یہ عادت الٰہی ان لوگوں کو معلوم ہوچکی ہے کہ جس قوم کی خواہش کے موافق کسی معجزہ کا ظہور ہوا اس معجزہ کو دیکھ کر پھر وہ قوم راہ راست پر نہیں آئی تو ایسی قوم پر بہت جلدی کوئی نہ کوئی عذاب آجاتا یہ انجام اگر ان لوگوں کو منظور ہے تو کوئی معجزہ اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے پھر فرمایا اللہ نے اپنے رسول کو اس لیے نہیں بھیجا کہ یہ لوگ جو معجزہ چاہیں اس کا دکھا دینا اللہ کے رسول کے ذمہ ہو بلکہ اللہ نے تو رسول کو بھیج کر ان پر آسمانی کتاب اس واسطے نازل فرمائی ہے کہ اللہ کی مرضی اور نامرضی کے کاموں کے جان لینے میں لوگوں کو انجانی کا عذر نہ رہے کیونکہ رسول کے بھیجنے اور آسمانی کتاب کے نازل کرنے سے پہلے ان کو کسی عذاب سے ذلیل ورسوا کیا جاتا تو ان لوگوں کو اس عذر کی گنجائش باقی رہتی کہ عذاب کی ذلت اور رسوائی سے پہلے کوئی پیغمبر اللہ کی مرضی اور نامرضی کے کاموں کا پیغام لے کر آتا ‘ تو یہ لوگ اس پر ضرور عمل کرتے۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابن شعبہ ١ ؎، سے اور صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے ٢ ؎، جو روایتیں ہیں ان میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ انجانی کے عذر کا رفع کردینا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے ‘ اسی واسطے اس نے آسمانی کتابیں دے کر رسول بھیجے ‘ تاکہ اللہ کی مرضی اور نامرضی کے کام اور مرضی کے کاموں کے ثواب ‘ اور نامرضی کے کاموں کے عذاب کا حال آسمانی کتابوں کے ذریعہ سے اللہ کے رسول امت کے لوگوں کو اچھی طرح سمجھا دیں جس مطلب کے لیے اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں دے کر اپنے رسول بھیجے ہیں اس کی تفسیر ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٨٦ باب اللعمان۔ ٢ ؎ صحیح مسلم ص ٣٥٨ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:133) لولا یاتینا۔ کیوں نہیں لایا (یہ نبی) ہمارے پاس ۔ لایاتی مضارع منفی واحد مذکر غائب اتیان مصدر نا ضمیر مفعول جمع متکلم ایۃ معجزہ۔ اولم تاتہم۔ کیا ان کے پاس نہیں آئی۔ تات اتیان سے مجارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب ہے اصل میں تاتی تھا۔ لم کے عمل سے یحذف ہوگئی اور مضارع ماضی کے معنی میں ہوگیا۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب۔ بینۃ۔ ب ی ن مادہ سے۔ بان واستبان وتبین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں۔ بیان مصدر۔ بیان ۔ بولنا۔ کسی چیز کو واضح کرنے اور کھولنے کو بیان کہتے ہیں۔ یہاں بینۃ سے مراد القرآن ہے جو پہلے صحیفہ ہائے آسمانی کا نچوڑ ہے۔ اور جس میں ان اگلی آسمانی کتابوں کی تعلیمات کا واضح بیان اور اس سے بڑھ کر کونسا وہ معجزہ چاہتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 جس سے اس کا سچا ہونا ہمیں واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے۔9 یعنی اس سے زیادہ آپ کی سچائی پر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ پہلی تمام آسمانی کتابیں آپ کی آمد کی خبر دے رہی ہے یقینا یہ خبر اہل کتاب کو معلوم ہے اور ان کے واسطہ کفار مکہ تک پہنچ چکی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 133 تا 135 لولا یا تینا وہ کیوں نہیں لاتے ہمارے پاس۔ صحف (صحیفۃ) کتابیں۔ ارسلت تو نے بھیجا۔ نذل ہم ذلیل ہوتے ہیں۔ نخزی ہم رسوا ہوتے ہیں۔ متربص انتظار کرتے ہیں۔ السوی برابر۔ اھتدی جس نے ہدایت پائی۔ تشریح :- آیت نمبر 133 تا 135 سورة میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کو دیئے گئے معجزات (عصا اور ید بیضا) کا بڑی تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ ان معجزات کو دیکھ کر کئی لوگ تو ایمان لے آئے لیکن آل فرعون اور بنی اسرائیل کی بہت بڑی اکثریت نے سب کچھ آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود اس کو ایک جادو سے زیادہ نہ سمجھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس کو ایمان لانا ہے وہ کسی معجزہ یا بہانے کا محتاج نہیں ہوتا۔ بلکہ جب حق و صداقت کی روشنی نظر آتی ہے تو ان کے دل ایمان کے نور سے منور ہوجاتے ہیں۔ کفار مکہ جو ایمان نہ لانے کے بہانے تلاش کرتے رہتے تھے اگر وہ ذرا بھی غور کرتے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور قرآن کریم جیسی عظیم کتاب کے بعد ان کو کسی معجزہ کے مطالبہ کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ ایک نبی امی ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی زبان مبارک سے ایسا کلام سنا جانا جس کی مثال اور نظیر لانا ممکن ہی نہیں ہے جو عرب کے تمام اہل زبان کے لئے ایک چیلنج تھا اور قرآن کریم میں صاف صاف فرما دیا گیا تھا کہ اگر دنیا کے جنات اور انسان بھی مل جائیں تب بھی اس قرآن جیسا لانے کی کوشش میں ناکام و نامراد ہوجائیں گے بلکہ قرآن کریم کی ایک سورت بھی بنا کر نہیں لاسکتے۔ لہٰذا اس معجزہ کی موجودگی میں کسی بھی نئے معجزہ کا مطالبہ بڑی حماقت کی بات ہے کفار مکہ بڑی جسارت سے کہتے تھے کہ اے نبی ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) اگر آپ سچے ہیں تو ثبوت کے طور پر کوئی نشانی یا معجزہ لے کر کیوں نہیں آئے جس کو دیکھ کر ہم ایمان لے آتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کے اس سے پہلے جو کتابیں آ چکی ہیں جن میں انبیاء کرام کے معجزات کا ذکر ہے کیا وہ ایمان لانے کے لئے کافی نہیں ہیں ؟ کیا انہیں یہ بات معلوم نہیں کہ انبیاء کرام نے بڑے بڑے معجزات دکھائے لیکن ان پر ایمان والے صرف چند سعادت مند لوگ ہی تھے ؟ یہاں اس بات کی ایک دفعہ اور وضاحت ضروری ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار کی فرمائش پر کسی معجزہ کو نازل نہیں کیا گیا کیونکہ اگر وہ اس معجزہ کو دیکھنے کے باوجود اس پر ایمان نہ لاتے تو اللہ کا عذاب نازل ہوتا اور پوری قوم تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی جو اللہ کی مصلحت کے خلاف ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ یہ امت آخری نبی کی آخری امت ہے اگر یہ مٹ جاتی تو پھر قیامت تک کوئی شخص اور قوم اللہ کا نام لینے والا اور آخری پیغام کو پہنچانے والا نہ ہوتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے بہت سی قوموں کو ان پر ان ہی کی نافرمانیوں کی وجہ سے ہلاک کیا ہے جن کے صرف اب کھنڈرات بھی باقی نہیں اور نشان عبرت و نصیحت بن چکے ہیں۔ البتہ آپ سے بیشمار معجزات صادر ہوئے جن کو ہزاروں صحابہ کرام نے دیکھا اور اس کو تفصیل سے بیان کیا چناچہ معجزات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بیشمار کتابیں لکھی گئی ہیں جن کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے اپنے رسولوں کو اس لئے بھیجا تھا کہ وہ لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ اگر ہمارے پاس رسول آتے تو ہم اس طرح ذلیل و رسوا نہ ہوتے اور ہم ایمان لے آتے۔ فرمایا کہ اب اللہ نے اپنا آخری رسول اور آخری نبی بھیج دیا ہے جن سے انسان ہدایت پاسکتا ہے اب قرآن کریم کی موجودگی میں نہ کسی نبی کی ضرورت ہے اور نہ کسی نئی کتاب کی۔ فرمایا کہ اہل ایمان کو کفار کی چالوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بہت جلد یہ نافرمان اور سرکش لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ حق و صداقت کو نہ ماننے کا انجام کتنا بھیانک ہے اور جو لوگ سچائی پر ایمان لانے والے ہیں وہ بھی جان لیں گے کہ سیدھے راستے پر چل کر منزل مقصود پر کون پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و کرم سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان ختم نبوت کے صدقے ایمان اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے آمین اور آخرت کی ابدی راحتیں عطا کرے آمین ثم آمین الحمد اللہ سورة طہ کا ترجمہ و تشریح تکمیل تک پہنچی۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ مطلب یہ کہ کیا ان کے پاس قرآن نہیں پہنچا جس کی پہلے سے شہرت تھی کہ وہ نبوت پر کافی دلیل ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تقویٰ اختیار کرنے والوں کے مقابلے میں دنیا دار لوگوں کی روش اور ان کا انجام۔ کفار کی عادت تھی اور ہے کہ وہ بار بار ایک ہی بات دھراتے جاتے ہیں۔ اسی بری عادت اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشان کرنے کی خاطر کفار وقفے، وقفے کے بعد مطالبہ کرتے کہ اگر آپ واقعی سچے نبی ہیں تو کوئی ایسی دلیل اور معجزہ پیش کریں جس سے ہم مجبور ہوجائیں کہ آپ واقعی ہی نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں۔ لیکن اس موقعہ پر صرف اتنا کہنا ہی کافی سمجھا گیا کہ کیا آپ کی نبوت کے ثبوت تورات، انجیل، زبور میں نہیں پائے جاتے۔ مثال کے طور پر توراۃ اور انجیل کے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں جہاں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کے متعلق صاف اشارات موجود ہیں : استثناء، باب ١٨، آیت ١٥ تا ١٩۔ متی، باب ٢١، آیت ٣٣ تا ٤٦۔ یوحنا، باب، آیت ١٩ تا ٢١۔ یوحنا، باب ١٤، آیت ١٥ تا ١٧ و آیت ٢٥ تا ٣٠، یوحنا، باب ١٥، آیت ٢٥ تا ٢٦۔ یوحنا، باب ١٦، آیت ٧ تا ١٥۔ مسائل ١۔ کفار آپ سے نت نئے معجزات طلب کرتے۔ ٢۔ آپ کا تذکرہ پہلی کتابوں میں موجود ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے ثبوت : ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کے رسول ہیں۔ (سباء : ٢٨) ٣۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب : ٤٥) ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ تو ہٹ دھرمی اور مکابرہ ہے۔ محض سوال کرنے کی خاطر یہ سوال کیا گیا ، ورنہ قرآن کا معجزہ کیا کافی معجزہ نہیں ہے۔ قرآن موجودہ رسالت کا جوڑ زمانہ ماقبل کی رسالتوں سے لگاتا ہے۔ وہی تعلیمات پیش کرتا ہے ، جو پہلے رسولوں نے پیش کی ہیں بلکہ جن باتوں کا وہاں اجمال تھا یہاں ان کی تفصیل دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان کو تو بطور اتمام حجت بھیجا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ اتمام حجت کے بعد ہلاک فرماتا ہے لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہیں کہ رسول آتا تو پیروی کرلیتے یہ سورة طہٰ کی آخری تین آیات ہیں۔ پہلی آیت میں قریش مکہ کی ایک بیہودہ بات ذکر فرمائی ہے اور اس کا جواب دیا ہے ان لوگوں نے کہا کہ یہ صاحب نبوت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ہم جو ان سے کہتے ہیں کہ اپنے دعویٰ کی تصدیق کرانے کے لیے ہمارے سامنے فلاں معجزہ لاؤ تو وہ ایسا معجزہ کیوں نہیں لاتے، اگر ہمارا مطلوبہ معجزہ لے آئیں تو ہم مان لیں گے، یہ بات ان کی بطور عناد کے تھی بہت سے معجزات ان کے سامنے تھے لیکن ان کے ہوتے ہوئے ایمان نہیں لاتے تھے سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید تھا جو اب تک دنیا کے سامنے ہے سابقہ کتب توراۃ انجیل وغیرہ میں جو عقائد اور اصولی احکام تھے قرآن ان کو بیان کرتا ہے اور ان کے سچا ہونے کی تصدیق کرتا ہے اس قرآن کا سامنے ہونا ہی اہل عقل کے لیے کافی ہے۔ قال صاحب الروح فالمراد بالبینۃ القرآن الکریم والمراد بالصحف الاولی التوراۃ والانجیل و سائر الکتب السماویۃ و بما فیھا العقائد الحقۃ و اصول الاحکام التی اجتمعت علیھا کافۃ الرسل علیھم السلام و معنی کونہ بینۃ لذلک شاھدا بحقیقتہ۔ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ اگر ہم ان کو کوئی عذاب بھیج کر قرآن نازل کرنے سے پہلے ہلاک کردیتے تو یہ لوگ یوں کہتے کہ ہمارے پاس رسول بھیجا جاتا تو ہم اس کا اتباع کرتے، ایمان لاتے، احکام مانتے اور اب عذاب میں پڑ کر ذلیل اور رسوا نہ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ ہم نے رسول بھیج دیا، حجت پوری کردی اب یہ بات کہنے کا موقع نہیں رہا کہ کوئی رسول آتا تو ہم ایمان لے آتے اور عذاب میں داخل نہ ہوتے، اللہ جل شانہٗ نے بغیر اتمام حجت نہ کسی قوم کو ہلاک کیا اور نہ اس کے بغیر آخرت میں کسی کو عذاب ہوگا۔ (وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا) (اور ہم جب تک کسی رسول کو نہ بھیج دیں عذاب دینے والے نہیں ہیں) اور سورة فاطر میں فرمایا (اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ) (بلاشبہ ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا اور کوئی امت ایسی نہیں ہے جس میں ہم نے ڈرانے والا نہ بھیجا ہو) تیسری آیت میں فرمایا کہ آپ ان منکرین سے فرما دیں کہ دیکھو اس دنیا میں کیا ہوتا ہے اور آخرت میں کیا ہوگا سب اس کے انتظار میں ہیں سو تم بھی انتظار کرلو۔ عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ سیدھے راستہ پر چلنے والا کون ہے اور ہدایت یافتہ کون ہے، یہاں تو حق کی تکذیب کر رہے ہو تمہیں حق سے انحراف ہے موت کے وقت اور اس کے بعد کے حالات تمہیں بتادیں گے کہ صحیح راستہ پر کون ہے تمہیں اپنی غلطی کا اس وقت پتہ چلے گا جب اس کی تلافی نہ ہو سکے گی اور عذاب میں جانا ہی ہوگا۔ صحیح بات یہی ہے کہ آج ہی اللہ کے بھیجے ہوئے رسول اور اس کی نازل کی ہوئی کتاب پر ایمان لے آؤ۔ دلائل کو دیکھو، حق کو پہچانو، صراط مستقیم پر چلو، حق سے منہ موڑ کر بربادی کے گڑھے میں نہ گرو۔ تذلیل سورۂ طہٰ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے اسلام قبول کرنے کا سبب ہے۔ مکہ مکرمہ میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام کی دعوت دینا شروع کیا تو سرداران قریش دشمنی پر تل گئے لیکن جو ضعفاء اور مساکین، فقراء اور پر دیسی اور غلام تھے ان میں اسلام پھیلتا رہا۔ یہ لوگ پوشیدہ طور پر مسلمان ہوتے تھے کیونکہ قریش مکہ کی طرف سے ان کو مارا پیٹا جاتا تھا اور بری طرح سزائیں دی جاتی تھیں۔ حضرت عمر (رض) بھی اسلام قبول کرنے سے پہلے اسلام کے سخت مخالف تھے اور اہل ایمان کو ایذائیں پہنچانے میں شریک رہتے تھے۔ ضعفاء اور فقراء کے علاوہ کچھ اونچے طبقہ کے لوگ بھی شدہ شدہ اسلام قبول کرنے لگے تھے لیکن وہ بھی خفیہ طور پر قبول کرتے تھے۔ انہیں حضرات میں سے حضرت عمر (رض) کی بہن فاطمہ بنت الخطاب اور ان کے شوہر حضرت سعید بن زید (جن کا عشرہ مبشرہ میں شمار ہے) (رض) بھی تھے جنہوں نے پوشیدہ طور پر اسلام قبول کرلیا تھا۔ ان کے پاس حضرت خباب بن ارت (رض) چھپ چھپ کر جاتے تھے اور دونوں کو قرآن مجید پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دن حضرت عمر (رض) تلوار لے کر نکلے۔ ان کا ارادہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب پر حملہ کریں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ بہت سے صحابہ قریش کی ایذاؤں سے محفوظ ہونے کے لیے حبشہ کو ہجرت کرچکے تھے، حضرت عمر (رض) تلوار لیے جا رہے تھے کہ نعیم بن عبداللہ (رض) سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے کہا اے عمر کہاں جا رہے ہو ؟ کہنے لگے کہ محمد ہیں جنہوں نے نیا دین نکالا ہے اور قریش میں تفریق ڈالی ہے اور قریش کو بیوقوف بنایا ہے۔ ان کے دین کو عیب لگایا ہے اور ان کے معبودوں کو برا کہا ہے۔ میں اس نئے دین لانے والے کو قتل کرنے کے لیے جا رہا ہوں۔ حضرت نعیم بن عبداللہ (رض) نے کہا اے عمر ! تم کس دھوکہ میں ہو۔ کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ محمد کو قتل کر دو گے تو بنی عبد مناف تمہیں زمین پر چلتا ہوا چھوڑ دیں گے تم ذرا اپنے گھر والوں کی تو خبر لو۔ ان کو ٹھیک کرو، کہنے لگے کون سے میرے گھر والے ؟ حضرت نعیم (رض) نے جواب دیا کہ تمہاری بہن فاطمہ اور تمہارے بہنوئی سعید بن زید جو تمہارے چچا زاد بھائی ہیں، یہ دونوں اسلام قبول کرچکے ہیں اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کے تابع ہوگئے ہیں۔ پہلے تم وہاں جاؤ۔ یہ سن کر حضرت عمر (رض) اپنی بہن فاطمہ کے گھر کی طرف چلے۔ وہاں پہنچے تو حضرت خباب بن ارت (رض) انہیں سورة طہٰ کا درس دے رہے تھے۔ جب انہوں نے حضرت عمر (رض) کی آہٹ سنی تو حضرت خباب (رض) پردہ کے پیچھے چلے گئے اور حضرت فاطمہ بنت الخطاب (رض) نے وہ ورقہ لے کر چھپا دیا جس میں سورة طہٰ لکھی ہوئی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے دروازہ کے قریب پہنچ کر حضرت خباب کی آواز سن لی تھی۔ دروازہ کھولا گیا تو اندر داخل ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا آواز تھی ؟ ان کی بہن اور بہنوئی نے کہا نہیں کوئی بات نہیں۔ کہنے لگے کیسے نہیں مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم دونوں نے محمد کا دین قبول کرلیا ہے۔ یہ کہا اور حضرت سعید بن زید کو مارنے کے لیے پکڑا۔ حضرت فاطمہ بنت خطاب اپنے شوہر کو بچانے کے لیے کھڑی ہوئیں تو ان کو ایسا مارا کہ ان کے چہرہ سے خون جاری ہوگیا۔ جب یہ بات یہاں تک پہنچی تو بہن اور بہنوئی دونوں نے کہا کہ ہاں ہم نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ تم سے جو کچھ ہوسکتا ہے کرلو۔ اس کے بعد بہن کے چہرے پر نظر پڑی اور خون دیکھا تو شرمندہ ہوگئے اور اپنی بہن سے کہا کہ اچھا لاؤ مجھے دکھاؤ اس کاغذ میں کیا ہے جو تم ابھی پڑھ رہے تھے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ لائے ہیں میں اسے دیکھوں، ان کی بہن نے کہا تمہارا کچھ بھروسہ نہیں تم اسے پھاڑ دو گے۔ کہنے لگے تم ڈرو نہیں۔ اپنے معبودوں کی قسم کھا کر کہا کہ میں پڑھ کر واپس کر دوں گا۔ حضرت فاطمہ نے موقع کو غنیمت جانا اور ان کے دل میں یہ بات آئی کہ انشاء اللہ یہ ابھی اسلام قبول کرلیں گے۔ کہنے لگیں کہ بھیا تم اپنے شرک پر ہو اور ناپاک ہو۔ یہ ایسی چیز ہے جس کو صرف پاک انسان ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) کھڑے ہوئے اور غسل کیا۔ ان کی بہن نے وہ کاغذ دے دیا جس میں سورة طہٰ لکھی ہوئی تھی۔ جب اس کا شروع والا حصہ پڑھا تو کہنے لگے کہ واہ واہ یہ تو بہت ہی اچھا کلام ہے اور بہت ہی عزت کی چیز ہے۔ جب حضرت خباب (رض) نے اندر سے یہ بات سنی تو فوراً نکلے اور کہنے لگے کہ اے عمر اللہ کی قسم میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے نبی کی دعا کی وجہ سے قبول فرما لیا۔ میں نے کل آپ کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا تھا کہ اے اللہ ! ابو الحکم بن ہشام (ابو جہل) یا عمر بن خطاب کے ذریعہ اسلام کو تقویت دے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی دعا تمہیں لگ گئی۔ حضرت عمر (رض) کہنے لگے کہ خباب مجھے بتاؤ محمد کہاں ہیں۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کروں۔ حضرت خباب (رض) نے جواب دیا کہ وہ صفا کے قریب ایک گھر میں ہیں۔ وہاں اور لوگ بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ حضرت عمر وہاں پہنچے اور جا کر دروازہ کھٹکھٹایا اور چونکہ تلوار لیے ہوئے تھے اس لیے بعض صحابہ ان کو دروازہ کی درازوں سے دیکھ کر گھبرا گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ تو عمر بن خطاب ہیں جو تلوار لگائے ہوئے ہیں۔ اس پر حضرت حمزہ (رض) نے کہا (جو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا تھے) کہ عمر کو اندر بلا لو، اگر کوئی خیر کا ارادہ لے کر آیا ہے تو ہم اس کے لیے حاضر ہیں اور اگر شر کا ارادہ ہے تو اسی کی تلوار سے اسے قتل کردیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عمر کو اندر آنے کی اجازت دے دو ۔ لہٰذا ان کو اجازت دے دی گئی۔ وہ اندر آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی چادر پکڑ کر زور سے کھینچا اور فرمایا اے ابن الخطاب کیسے آئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم اپنے کفر و شرک سے اس وقت باز آؤ گے جب تم پر کوئی مصیبت آئے گی، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا کہ میں تو اللہ اور اس کے رسول پر اور جو کچھ اللہ کی طرف سے آیا ہے اس پر ایمان لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زور سے اللہ اکبر کہا۔ جس سے گھر والوں نے پہچان لیا کہ عمر (رض) نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ جو حضرات وہاں موجود تھے (حبشہ نہیں گئے تھے) انہیں یہ تسلی ہوگئی کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت حمزہ (رض) کے اسلام لانے سے دشمنوں کے حملوں سے حفاظت ہوگئی۔ (ذکرہ حافظ ابن کثیر فی البدایۃ والنہایہ عن ابن اسحاق، ج ٣، ص ٧٩۔ ٨٠۔ ٨١) ولقد تم تفسیر سورة طہٰ فی محرم الحرام ١٤١٥ ھ من ھجرۃ سید الانبیاء والمرسلین علیہ صلوات اللہ وسلامہ وعلی الہ و اصحابہ اجمعین والحمد للہ اولا و آخر اور باطنا و ظاھرا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

91:۔ یہ شکوی ہے۔ مشرکین کہتے تھے کہ آپ کوئی دلیل یا معجزہ کیوں نہیں لاتے جو آپ کی صداقت ظاہر کرے۔ ” اَوَلَمْ تَاتِھِمْ الخ “ جواب شکوی ہے۔ یعنی آپ نے ایسی باتیں بیان کی ہیں جن کی پہلے آپ کو خبر نہیں تھی اس سے معلوم ہوا کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سب من جانب اللہ ہے اور کتب سابقہ یعنی تورات و انجیل وغیرہ میں وہ آپ کی بشارت پڑھ چکے ہیں۔ جو آپ کی نبوت و صداقت پر نہایت واضح دلیل ہے تو کیا یہ دلیل کافی نہیں ہے۔ یردی التوراۃ والانجیل والکتب المتقدمۃ وذلک اعظم ایۃ اذا اخبر بما فیھا وقیل او لم تاتہم الایۃ الدالۃ علی ثبوتہ بما وجدوہ فی الکتب المتقدمۃ من البشارۃ (قرطبی ج 11 ص 264) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

133 اور یہ منکریوں کہتے ہیں کہ یہ پیغمبر اپنے پروردگار کی جانب سے ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں لے آتا کیا ان لوگوں کے پاس کتب سابقہ اور صحف سابقہ کے مضامین کا مصداق نہیں پہونچا۔ یعنی جہاں ان مخالفین کے اور اعتراض ہیں منجملہ ان کے یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کوئی نشانی خدا تعالیٰ کی جانب سے ہمارے پاس کیوں نہیں لے آتا۔ حضرت حق جل مجدہ نے جواب میں فرمایا کہ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ اس رسول کا اور اس قرآن کریم کا کتب سابقہ میں ذکر موجود ہے اور جو صحائف اور کتب پہلے پیغمبروں پر نازل ہوئی ہیں جو مضامین ان میں سے وہی اس قرآن کریم میں ہے اور جن نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ ان میں آیا ہے اسی کے مصداق یہ پیغمبر تشریف لائے ہیں اتنی صاف اور واضح نشانی کی موجودگی میں اور کسی نشانی کا مطالبہ ایک لا یعنی مطالبہ ہے خود قرآن کریم میں اتنا بڑا نشان ہے اور کتب سابقہ کے تمام مضامین کا محافظ اور معاون ہے کہ اس کے بعد کسی نشانی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اگلی کتابوں میں خبر ہے آخر زمانے کے رسول کی یا یہ معنی کہ پہلے پیغمبروں کی نشانی کفایت ہے یہ پیغمبر بھی انہیں باتوں کا تقید کرتا ہے کوئی بات نئی نہیں کہتا یا یہ نشانی کہ اگلی کتابوں کے موافق قصے بیان کرتا ہے۔ 12