Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 25

سورة طه

قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ ﴿ۙ۲۵﴾

[Moses] said, "My Lord, expand for me my breast [with assurance]

موسیٰ ( علیہ السلام ) نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ میرے لئے کھول دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ ۔۔ : دوسری جگہ فرمایا : (وَيَضِيْقُ صَدْرِيْ وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيْ ) [ الشعراء : ١٣ ] ” اور میرا سینہ تنگ ہوتا ہے اور میری زبان چلتی نہیں۔ “ یعنی اتنی بڑی ذمہ داری اٹھانے سے میرے دل میں جو تنگی محسوس ہوتی ہے وہ دور فرما دے اور اس منصب عظیم کا بوجھ اٹھانے کے لیے...  جس ہمت، پامردی اور حوصلہ مندی کی ضرورت ہے وہ میرے دل میں پیدا فرما دے اور میرا تبلیغ رسالت کا کام میرے لیے آسان فرما دے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary When Sayyidna Musa (علیہ السلام) received the high honour of conversing with Allah Ta` ala and was granted the mission of prophethood, then, instead of relying on his own self and on his own ability, he turned to Allah Ta` ala and sought His help in the discharge of his duties without which it would be impossible for him to endure and persevere in the face of the trials and tribulations...  inherent in the performance of his mission. He, therefore, prayed to Allah Ta` ala to grant him five favours. The first prayer was اشْرَ‌حْ لِي صَدْرِ‌ي ! (Put my heart at peace for me - 20:25). Meaning to expand the ability of his heart to enable him to receive all the knowledge and wisdom of prophethood, and at the same time to bear with equanimity the slander of those people who will oppose him in his mission.  Show more

خلا صہ تفسیر (جب موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ مجھ کو پیغمبر بنا کر فرعون کی فہمائش کے لئے بھیجا جا رہا ہے تو اس وقت اس منصب عظیم کے مشکلات کی آسانی کے لئے درخواست کی اور) عرض کیا کہ اے میرے رب میرا حوصلہ (اور زیادہ) فراخ کر دیجئے (کہ تبلیغ میں انقباض یا تکذیب و مخالفت میں ضیق نہ ہو) اور میر... ا (یہ) کام (تبلیغ کا) آسان فرما دیجئے (کہ اسباب تبلیغ کے مجتمع اور موانع تبلیغ کے مرتفع ہوجاویں) اور میری زبان پر سے بستگی (لکنت کی) ہٹا دیجئے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں، اور میرے واسطے میرے کنبے میں سے ایک معاون مقرر کر دیجئے یعنی ہارون کو جو میرئے بھائی ہیں ان کے ذریعہ سے میری قوت کو مستحکم کر دیجئے اور ان کو میرے (اس تبلیغ کے) کام میں شریک کر دیجئے (یعنی ان کو بھی نبی بنا کر مامور بالتبلیغ کیجئے کہ ہم دونوں تبلیغ کریں اور میرے قلب کو قوت پہنچے) تاکہ ہم دونوں (مل کر تبلیغ و دعوت کے وقت) آپ کی خوب کثرت سے پاکی (شرک و نقائص سے) بیان کریں اور آپ (کے اوصاف و کمال) کا خوب کثرت سے ذکر کریں (کیونکہ اگر دو شخص مبلغ ہوں گے تو ہر شخص کا بیان دوسرے کی تائید سے وافر اور متکاثر ہوگا) بیشک آپ ہم کو (اور ہمارے حال کو) خوب دیکھ رہے ہیں (اس حالت سے ہماری احتیاج اس امر کی کہ ایک دوسرے کے معاون ہوں آپ کو معلوم ہے) ارشاد ہوا کہ تمہاری (ہر) درخواست (جو کہ رب اشرح لی الخ میں مذکور ہے) منظور کی گئی اے موسیٰ ۔ معارف و مسائل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب کلام الہٰی کا شرف حاصل ہوا اور منصب نبوت و رسالت عطا ہوا تو اپنی ذات اور اپنی طاقت پر بھروسہ چھوڑ کر خود حق تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ ہوگئے کہ اس منصب عظیم کی ذمہ داریاں اسی کی مدد سے پوری ہوسکتی ہیں اور ان پر جو مصائب اور شدائد آنا لازمی ہیں ان کی برداشت کا حوصلہ بھی حق تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا ہوسکتا ہے اس لئے اس وقت پانچ دعائیں مانگیں، پہلی اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ ، یعنی میرا سینہ کھول دے اس میں ایسی وسعت عطا فرما دے جو علوم نبوت کا متحمل ہوسکے اور دعوت ایمان لوگوں تک پہنچانے میں جو ان کی طرف سے سخت سست سننا پڑتا ہے اس کو برداشت کرنا بھی اس میں شامل ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ۝ ٢٥ۙ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة ا... لموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ شرح أصل الشَّرْحِ : بسط اللّحم ونحوه، يقال : شَرَحْتُ اللّحم، وشَرَّحْتُهُ ، ومنه : شَرْحُ الصّدر أي : بسطه بنور إلهي وسكينة من جهة اللہ وروح منه . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وقال : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح/ 1] ، أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ [ الزمر/ 22] ، وشرح المشکل من الکلام : بسطه وإظهار ما يخفی من معانيه . ( ش ر ح ) شرحت اللحم وشرحتہ کے اصل معنی گوشت ( وغیرہ کے لمبے لمبے ٹکڑے کاٹ کر ) پھیلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے شرح صدر ہے یعنی نور الہی اور سکون و اطمینان کی وجہ سے سینے میں وسعت پیدا ہوجاتا ۔ قران میں ہے : ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي[ طه/ 25] کہا پروردگار میرا سینہ کھول دے ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح/ 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا ۔ أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ [ الزمر/ 22] بھلا جس کا سینہ خدا نے کھول دیا ہو ۔ شرح المشکل من الکلام کے معنی مشکل کلام کی تشریح کرنے اور اس کے مخفی معنی کو ظاہر کر نیکے ہیں ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥۔ ٢٨) نبوت ملنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے اللہ میرا حوصلہ بڑھائیے تاکہ میں اس سے تبلیغ میں نہ ڈروں اور فرعون کی طرف تبلیغ رسالت کا جو میرا کام ہے اس کو آسان فرما دیجیے اور میری زبان سے لکنت ہٹا دیجیے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ ) ” یہ بہت اہم دعا ہے اور یہ ہر اس شخص کو یاد ہونی چاہیے جو دین کی دعوت کا مشن لے کر نکلا ہو۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار ! تو نے جو عظیم الشان مشن میرے حوالے کیا ہے اس کے لیے اپنی خصوصی مدد میرے شامل حال کر دے اور اس کام ک... ے لیے میرے سینے کو کھول دے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14. That is, fill my heart with the courage that may enable me to perform the obligations connected with the great mission of a Messenger, and give me the confidence for its fulfillment. Prophet Moses (peace be upon him) prayed for this because he realized the grave responsibilities of the great mission.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :14 یعنی میرے دل میں اس منصب عظیم کو سنبھالنے کی ہمت پیدا کر دے ۔ اور میرا حوصلہ بڑھا دے ۔ چونکہ یہ ایک بہت بڑا کام حضرت موسیٰ کے سپرد کیا جا رہا تھا جس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت تھی ، اس لیے آپ نے دعا کی کہ مجھے وہ صبر ، وہ ثبات ، وہ تحمل ، وہ بے خوفی اور وہ عزم عطا کر...  جو اس کام کے لیے درکار ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:25) رب۔ ای ربی۔ اے میرے رب۔ اشرح۔ شرح مصدر سے (باب فتح) فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تو کھول دے تو کشادہ کر دے۔ شرحت اللحم وشرحتہ کے اصل معنی گوشت (وغیرہ کے لمبے لمبے ٹکڑے کاٹ کر) پھیلانے کے ہیں اسی سے شرح صدر ہے یعنی نور الٰہی اور سکون و اطمینان کی وجہ سے سینے میں وسعت پیدا ہوجانا۔ اور جگہ ارشاد ربا... نی ہے الم نشرح لک صدرک (94:1) (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کیا ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی اس منصب عظیم کے بار کو اٹھانے کے لئے جس ہمت، صبر، پامردی اور حوصلہ مندی کی ضرورت ہے وہ میرے دل میں پیدا کر دے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٢) اسرارومعارف (شرح صدر) موسیٰ (علیہ السلام) نے جب عطا کا دروازہ کھلا پایا تو لگے جھولیاں بھرنے اور درخواست پہ درخواست کرتے چلے گئے سب سے اول جو شے مانگی وہ شرح صدر کی دعا تھی یعنی میرا سینہ کھول دیجے ، شرح صدر سے مراد ہوتا ہے کہ متعلقہ موضوعات پر اللہ کی طرف سے براہ راست علوم سینہ می... ں اترتے جائیں اور سینہ باعتبار علوم کے سمندر بن جائے ، اسی علم کو علم لدنی کہا گیا ہے اور جب وہ سینے میں آتا ہے تو سینہ وسیع ہوجاتا ہے جیسے کتاب اللہ میں ارشاد ہے کہ اللہ کریم جب کرم کرتے ہیں تو اسلام کے لیے سینہ کھول دیتے ہیں ۔ ” یشرح صدرہ للاسلام “۔ یہ نعمت اولیاء اللہ کو عموما نصیب ہوتی ہے مگر بعض حضرات پر رب جلیل کا خصوصی کرم ہوتا ہے تو وہ ہر موضوع پہ تکان بولے چلے جاتے ہیں حالانکہ بظاہر انہوں نے کہیں سے وہ تعلیم حاصل نہیں کی ہوتی ، دوسری دعا کی کہ میرا کام آسان کردیجئے کہ معاملات کو آسان کرنا آپ ہی کو زیبا ہے ، انسان کتنا کامل اور بااختیار بھی ہو جو اسباب بھی اختیار کرے گا ان میں اثر تو آپ ہی پیدا فرمائیں گے ، نیز میری زبان کی گرہ کھول دیجئے یعنی مجھے صرف یہ نہ ہو کہ علوم سے سینہ بھرا ہو مگر فقیر کا اتفاق ان سے نہیں اس کہ جب فرعون سے باتیں ہوئیں تو اس نے کہا (آیت) ” ولا یکاد یبین “۔ یہ کھل کر بات تو کر نہیں سکتا نیز آپ نے ہارون (علیہ السلام) کے بارے میں خود عرض کیا (آیت) ” ھو افصح منی لسانا “۔ کہ وہ بات کرنے میں مجھ سے فصیح تر ہے تو خوبصورت بات یہ ہے کہ آپ نے یہ دعا کی کہ جو علوم میرے سینے میں ہوں وہ بیان بھی کرسکوں اور میری زبان ان کی ترجمان بھی ہو ، ورنہ دیکھا گیا ہے کہ بعض حضرات کا سینہ تو علوم سے پر ہوتا ہے اور عمر بھر پڑھتے پڑھاتے رہتے ہیں مگر سٹیج پر بیان نہیں کرسکتے یا اہل اللہ میں سے بعض حضرات کو وافر علوم نصیب ہوتے ہیں مگر دوسروں تک پہنچا نہیں سکتے اور بہت ہی خوش نصیب وہ معدود حضرات ہیں جنہیں علوم بھی عطا ہوئے ہیں اور قوت بیان بھی کہ نوع انسانی ان علوم سے سیراب ہوتی ہے اس کے بعد دعا فرمائی کہ میری بات میں وہ اثر پیدا فرما کہ سننے والے کہ دل میں اتر جائے ۔ (وزیر) نیز میرا ایک بوجھ بانٹنے والا میرا نائب بھی بنا دے اور میرے خاندان سے بنا ، بارالہا کہ میں اپنے لوگوں سے تو واقف ہوں یعنی کسی بھی بڑے کام کے لیے انسان اپنے نائبین اور معاونین کا محتاج ہوتا ہے اور وزیر نام بھی یہیں سے پڑا کہ وہ امیر کا بوجھ بانٹتا ہے وزیر چننے کے لیے ضروری ہوا کہ امیر اس سے ذاتی طور پر واقف ہو کہ یہ بندہ اس کام کا اہل بھی ہے اور میرا وفا دار ساتھی بھی ہوگا نیز امور سلطنت ہیں سلطنت میں میری قوت ثابت ہوگا ورنہ محض تائید حاصل کرنے کے لیے کہ میری حکومت قائم رہے کسی بھی آدمی کو وزیر بنا دینا ایسا ہی ہے جیسے آدمی بعض اوقات اپنا بوجھ گدھے پر لاد دیتا ہے گدھا بوجھ تو اٹھا سکتا ہے مگر امور دنیا میں رفیق نہیں بن سکتا ایسے ہی برے وزیروں کا گدھا پن امور مملکت کو چلانے میں دست وبازو نہیں بن سکتا ، چناچہ فرمایا میرے خاندان میں بھی میرا بھائی ہارون یہ کام بخوبی نباہ سکے گا آپ اسی کو میری قوت بنا دیجئے اور میرے منصب نبوت و رسالت کی ذمہ داریوں میں شریک فرمائیے کہ ہم مل کر کثرت سے آپ کی تسبیح کرسکیں اور کثرت سے ذکر کرسکیں کہ تو تو ہمارے ہر حال سے واقف ہے ۔ rnّ (اجتماعی ذکر) تو یہاں ثابت ہوا کہ عبادت وتسبیح یا ذکر آدمی اکیلا بھی کرسکتا ہے مگر ساتھی ہوں اور ماحول ایسا مل جائے تو بہت بہتر طور پر کرسکتا ہے نیز اجتماعی ذکر کا فائدہ یہ ہے کہ ہر آدمی کا اپنا ایک تعلق ہے اور اس کی خاص نوعیت ہے جب وہ ذکر کرتا ہے تو اسی طرح کی رحمت متوجہ ہوتی ہے اور ویسے انوارات آتے ہیں دوسرے کے الگ تیسرے کے الگ تو جب کئی لوگ مل کر ذکر کرتے ہیں تو رنگا رنگ انوارات کی بارش ہوتی ہے جن سب سے ہر ایک مستفید ہوتا ہے اور دین کی تبلیغ بھی ضروری ہے ، نبی مبعوث ہی فرعون کو تبلیغ کرنے کے لیے ہوئے مگر ذکر تو خود نبی ولی اور ہر مسلمان کی حیات ہے تبلیغ کے لیے کیا وہ خود زندہ نہ ہوگا اگر خود ذاکر نہ ہوگا تو مردہ تصور ہوگا اور مردے کیا تبلیغ کرسکیں گے ، لہذا یہاں زندگی صحت اور قوت کی تمنا کی ہے جو سب صرف اور صرف اللہ کے ذکر سے نصیب ہوتی ہیں تو ارشاد ہوا موسیٰ ہم نے تیری ساری بات مان لی اور سب دعائیں قبول کرلیں ، سبحان اللہ ! کیا شان کریمی ہے کہ جو مانگا مل گیا حتی کہ اسی آن ہارون (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوئی ۔ (دعا بھی تقدیر ہوتی ہے) اور وحی الہی سے سرفراز ہوئے ، سب ذمہ داری کا پتہ چل گیا اور جب موسیٰ (علیہ السلام) مصر پہنچے تو وہ کمر ہمت باندھے شہر سے باہر ان کا انتظار فرما رہے تھے ، نبوت تو ازل کو عطا ہوگئی اور نبی چن لیے گئے پھر یہاں دعا کے سبب مبعوث ہوئے ایسے ہی سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا جواب نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی تو ثابت ہوا کہ دعا بھی تقدیر ہے اور سب فیصلے ہوچکے اگر کسی کام کا سبب دعا نے بننا ہے تو وہ بھی مقدر کردی جاتی ہے اور اب تو آپ دعا کر رہے ہیں مگر ہم نے پہلے بھی آپ پر کس قدر احسان عظیم فرمایا تھا جب آپ درخواست کرنے یا دعا کرنے کے قابل بھی نہ تھے کہ آپ ابھی پیدا ہی ہوئے تھے تو فرعونی سپاہیوں سے قتل کا خطرہ لاحق ہوا جب کہ ہم نے آپ کی والدہ کو الھام فرمایا ۔ (الھام والقائ) یہ بات پہلے بھی گذر چکی کہ الہام والقاء اولیاء اللہ کو نصیب ہوتا ہے اور لغت کے اعتبار سے اسے وحی کہا جاتا ہے نہ صرف اہل اللہ کو درختوں پتھروں آگ اور سمندر کو غرض ہر شے کو جیسے فرمایا (آیت) ” واوحینا الی النحل “۔ ہم نے شہد کی مکھی کو الہام کیا ، یہ قسم فطری ہے کہ ہر جاندار جس کام کے لیے پیدا ہوا ہے وہ فطرت میں لے کر آتا ہے دوسرا ہے جیسے ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں (آیت) ” وقلنا یا نار کونی بردا “۔ ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی ہوجا تیسرا ہے ولی کو الہام ہونا ، یہ کمال اتباع نبوت سے عطا ہوتا ہے یا پھر اللہ سے قرب کی کیفیت کا ایک بہت بلند مقام حاصل ہو اور یہ دل میں القا بھی ہوتا ہے ، جیسے ام موسیٰ کو یا فرشتہ آکر بات کرے جیسے حضرت مریم (علیہا السلام) سے ہوئی ، یہ جب سے انسان دنیا میں آیا تب سے ہے اور جب تک رہے گا تب تک اللہ کے بندوں کو نصیب رہے گا ، اس کی شرط اتباع نبوت ہے اور جو بات الہام سے معلوم ہو وہ حدود شرعی کے اندر ہو ورنہ باطل ہوگی نیز جیسے الہام ہو وہ خود اس کا مکلف ہے دوسرے نہیں اور وحی کی دوسری قسم اصطلاحی ہے یہ صرف انبیاء کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیب ہوتی ہے اور جن کی طرف نبی مبعوث ہو وہ سب ماننے کے مکلف ہوتے ہیں ۔ آپ کی والدہ سے فرمایا گیا کہ بچے کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا کے سپرد کر دو کہ وہ اسے اس کنارے آپ تک پہنچا دے جہاں سے اسے وہ شخص اٹھا لے جو میرا بھی دشمن ہے اور اس کا بھی ۔ (دریا کے لیے بھی حکم موجود ہے) اس آیہ مبارکہ میں دریا کے لیے بھی بالواسطہ حکم موجود ہے کہ صندوق کو اس خاص مقام پر کنارے لگا دے جہاں شاہی جوڑا غسل کرتا ہے اور دریا کا نظارہ کرتا ہے چناچہ دریا نے واقعی ایسا کیا ، دراصل تمام مخلوق میں ایک قسم کا شعور موجود ہے کہ اپنے رب کا ذکر بھی کرتی ہے ، بات بھی کرتی ہے ، واقعات کو دیکھتی اور جانتی ہے ، روز حشر گواہ بھی ہوگی ، زمین ، پتھر ، درخت ہر شے گواہی دے گی ، اس طرح اللہ جل جلالہ سے حکم پا کر اطاعت بھی کرتی ہے معجزہ کے طور پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پتھروں اور درختوں کا سلام پڑھنا ثابت ہے ، پہاڑوں کا آپ کے بارے بات کرنا اور جانوروں کا باتیں کرنا ثابت ہے اور کرامت کے طور پر حضرت عمر (رض) کا نیل دریا کو چٹھی لکھنا اور اس کا بات ماننا بھی ثابت ہے ، چناچہ دریا کی ایک شاخ فرعون کے محلات سے ہو کر گذرتی تھی جہاں بادشاہ اور بیگمات کے غسل وغیرہ کی جگہ بھی تھی دریا نے صندوق ایس جگہ کنارے لگا دیا ، دوسرا بہت بڑا احسان یہ فرمایا کہ خود اپنی طرف سے ایک شان محبوبی ڈال دی یعنی جو بھی آپ کو دیکھتا آپ سے محبت کرنے لگتا اور یہ کمال اہل اللہ میں سے بھی اللہ کریم اپنے خاص بندوں کو عطا فرما دیتا ہے ۔ (اللہ جل جلالہ کے خاص بندوں کو شان محبوبی عطا ہوتی ہے) انبیاء کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت تو جداگانہ ہے اولیاء اللہ میں بھی ایسے بندے ہوتے ہیں جنھیں دیکھ کر دشمن کا دل بھی ہل جاتا ہے اور لوگ ان پر پروانہ وار نثار ہوتے ہیں اور آپ کی تربیت وپرورش محض اللہ جل جلالہ کی ذاتی نگہداشت میں ہوئی ، سبحان اللہ اس کے لیے دشمن سے کام لیا پھر ایک اور احسان فرمایا کہ کسی کا دودھ پینے کو نہ دیا بلکہ اپنی ہی والدہ کو لوٹا دیا اور وہ یوں ہوا کہ جب آپ کا صندوق کنارے پہ لگا تو شاہی کنیزوں نے اٹھا لیا اور فرعون کو اس کے کاہنوں نے کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو آپ کی سلطنت الٹ دے گا ، اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا پھر سوال پیدا ہوا کہ اس طرح تو خدمت کرنے کو کوئی نہ بچے گا جبکہ بنی اسرائیل سے اس کی ساری قوم خدمت لیتی تھی تو تجویز ہوا کہ ایک سال بچے قتل کیے جائیں اور ایک سال چھوڑ دیے جائیں اور بچیاں سب زندہ رکھی جائیں ، ہارون (علیہ السلام) تو اس سال پیدا ہوئے جس سال بچے قتل نہ ہوتے تھے مگر موسیٰ (علیہ السلام) جس سال پیدا ہوئے وہ بچوں کے قتل کا سال تھا چناچہ اللہ کریم نے ان کی والدہ کو حکم دیا اور یوں فرعون کی تدبیر خاک میں مل گئی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی تربیت ہی اس کے محل میں ہونا قرار پائی کہ سلطنت فرعون کے راز دار بھی ہوں اور شاہانہ تربیت سے آراستہ بھی چناچہ جب کنزیں لے کر گئیں تو فرعون نے تو دیکھتے ہی کہا یہ کسی اسرائیلی نے پھینکا ہوگا ، اسے قتل کیا جائے مگر اس کی اہلیہ جو خود بےاولاد تھی لہذا فطری جذبے سے مجبور ہو کر کہنے لگی کیا خوبصورت بچہ ہے اسے ہم خود پال لیتے ہیں پھر بھلا کیوں دشمن ہوگا فرعون نے اجازت دے دی ، اس نے اگرچہ فطرت سے مجبور ہو کر کی مگر محبت تو نبی سے کی لہذا س کی ہدایت کا سبب بن گئی ۔ (اہل اللہ کی محبت ہدایت کا سبب بن جاتی ہے) یعنی اہل اللہ سے محبت ہدایت کا سبب بن جاتی ہے اور ان سے عداوت ابدی گمراہی کا باعث جیسے فرعون نے نفرت کی تو اسے کبھی ہدایت نصیب نہ ہوئی ، اب ضرورت پیش آئی کہ آیا کا اہتمام کیا جائے تو موسیٰ (علیہ السلام) کسی خاتون کا دودھ نہ پیتے تھے ، چناچہ تلاش شروع ہوئی تو ان کی بہن جو اسی کھوج میں پھرتی تھی کہ ماں نے بھائی کی خبر رکھنے کو کہا تھا ان کنیزوں سے ملی کہ میں تمہیں ایک خاتون کا پتہ دے سکتی ہوں جو بہت اچھی ہے اور امید ہے اس کی بہتر پرورش کرے گی ، چناچہ اپنی ماں کا پتہ دیا ، جب وہ بلائی گئیں تو آپ نے دودھ پی لیا اور یوں پرورش کے لیے بادشاہ کی طرف سے والدہ کو لوٹائے گئے ، لہذا ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے آپ کو آپ کی ماں کی گود میں لوٹا دیا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہی اور اسے آپ کی جدائی کا دکھ نہ سہنا پڑے ، چناچہ آپ کی پرورش بھی کرتیں اور شاہی خزانے سے تنخواہ بھی پاتیں ، یوں بڑے ہو کرمحل میں پہنچے مگر ایک تو فطری اور خونی رشتہ تھا نیز پرورش بھی بنی اسرائیل میں ہوئی تو آپ کی طبیعت تو ان کی طرف مائل رہتی کہ ایک روز بازار میں ایک فرعونی کو دیکھا جو ایک اسرائیلی کے ساتھ زیادتی کر رہا تھا آپ نے اس کمزور اور مظلوم کی مدد کرنا چاہی تو جھگڑا ہوگیا آپ نے فرعونی کو مکہ مار دیا وہ مرگیا چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ جب آپ نے ایک قتل کردیا تو ہم نے آپ کو اس مصیبت سے بھی بچایا مگر اب تھوڑی سی آزمائش بھی کی گئی ، ہوا یہ کہ پھر ایک روز اسی اسرائیل کا جھگڑا ہوگیا تو موسیٰ (علیہ السلام) دیکھ کر خفا ہوئے کہ تم ہو ہی فسادی نیز فرعونی کو ہٹانا چاہا وہ ڈر گیا کہ شاید مجھے ماریں گے ، کہنے لگا آپ اس روز والے فرعونی کی طرح مجھے بھی قتل کرنا چاہتے ہیں تو یہ بات سن کر اس فرعونی نے شکایت کردی ، چناچہ فرعون نے آپ کو گرفتار کرکے قتل کرنے کا حکم دے دیا ، جبکہ کسی نے آکر آپ کو خبر دی اور آپ فرعون کی سلطنت ہی سے نکل گئے یہاں اسی آزمائش کا ذکر ہے کہ آپ کو تن تنہا بغیر تیاری کے بھوکا پیاسا اور جان کا خوف لے کر ایک طویل سفر کرنا پڑا جس کی منزل کا بھی پتہ نہ تھا ، یہ سارا واقعہ اپنی جگہ پر الگ سے بیان ہوگا ، یہاں اس کا ذکر مختصرا فرمایا جا رہا ہے مگر احسان فرماتے ہوئے پھر اہل مدین میں پہنچا دیا جہاں آپ دس برس حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ساتھ رہے ان کی صاحبزادی سے شادی بھی ہوئی اور یوں پردیس میں اپنا گھر مل گیا اور پھر جب وہ مقرر وقت آیا یعنی آپ کے مبعوث ہونے ، شرف ہم کلامی سے سرفراز ہونے کا ، تو آپ از خود مقام مقررہ پر آپہنچے ۔ (اتقاقات) گویا ہم محض اس لیے کہتے ہیں کہ پس منظر سے لاعلم ہوتے ہیں اور طے شدہ نظام حیات کا حصہ ہیں یہ بات پہلے بھی گزر چکی ۔ اور میں نے تمہیں اپنی ذات کے لیے منتخب فرما لیا لہذا میرا مقبول اور میرا نبی ہونے کے معجزاتی دلائل لے کر آپ دونوں بھائی جائیں مگر یہ بات یاد رکھیں کہ میری یاد اور میرے ذکر میں پوری طرح متوجہ رہیں ، اس میں سستی نہ آئے ، اللہ جل جلالہ کا بندہ اور اس کا مقبول ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہی ہے کہ ہمہ تن اپنے قول وفعل سے نہ صرف اس کی اطاعت کرتا ہو بلکہ اس کی طرف مجسم دعوت بن جائے ، ۔ (اللہ جل جلالہ کا بندہ ہونے کی دلیل) نیز جو کمال بھی حاصل ہو اسے اللہ جل جلالہ کی طرف دعوت کا ذریعہ بنائے ، لہذا ولی کی کرامت بھی وہی فعل شمار ہوگا جو دین کی سربلندی کے لیے صادر ہو اور دوسری بڑی دلیل ہے کہ ایسے بندے کو ذکر دوام نصیب ہوجاتا ہے جیسے یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ دونوں بھائی میرے ذکر میں توجہ کم نہ ہونے دیں کہ نبی کا سارا وجود ذاکر ہوتا ہے بلکہ لباس تک حتی کہ جس زمین پر قدم رکھتا ہے اس کے ذرات کو ذاکر بنا دیتا ہے لہذا ذکر چھوٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، ہاں یہ ممکن ہے کہ فرعون جیسے ظالم اور متکبر پھر مطلق العنان بادشاہ کے سامنے جائیں جہاں جان کا خطرہ تو پہلے سے ہے پھر اسے اللہ جل جلالہ کی طرف دعوت دے کر بہت بڑا خطرہ بڑھانے والی بات ہے تو ایسا نہ ہو کہ زیادہ توجہ اس بات کی طرف ہوجائے اور ذکر کی طرف توجہ کم ہو بلکہ زیادہ توجہ میرے ذکر کی طرف ہو اور دوسرے درجے میں فرعون کی طرف ، اب جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ صرف عبادت کرنا یا تسبیحات اور تبلیغ ہی ذکر ہے کیا وہ یہ سوچنا پسند فرمائیں گے کہ نبی کبھی عبادت میں کوتاہی نہیں کرتا اور فرعون کے دربار میں اللہ جل جلالہ کا کلام پڑھنے سے بڑی تسبیح کونسی ہے نیز اس سے بڑا تبلیغ کا کیا تصور ہے تو یہ سارا کچھ کیوں کافی نہیں اور پھر وہ کون سا ذکر اتنا اہم ہے کہ اس سارے کام کے ساتھ اس کی طرف پوری طرح متوجہ رہنا ضروری ٹھہرا یقینا یہ ذکر قلبی ہے جو ہمیشہ اللہ جل جلالہ کی معیت کا سبب ہوتا ہے ۔ اب فرعون کے پاس جائیے گویا تبلیغ کے لیے بھی قلب کا ذاکر ہونا ہی بنیادی بات ہے جس کا اپنا دل عامل ہے دوسرے کے دل پہ کیا اثر پیدا کرے گا نیز ارشاد ہوا کہ اب آپ دونوں فرعون کے پاس جائیں کہ وہ گمراہی کی حدیں بھی پھلانگ چکا ہے اور بہت زیادہ بگڑ چکا ہے مگر آپ اس سے بہت شفقت سے بات کیجئے گا اس لیے کہ وہ اگرچہ حد سے گزر چکا ہے مگر آپ اسے نیچے دکھانے یا شکست دے کر شرمندہ کرنے نہیں جا رہے ، بنیادی طور پر آپ کے منصب کا تقاضا اسے ہدایت کی طرف بلانا ہے جس میں اسی کی بہتری ہے ۔ rnّ (تبلیغ کے لیے بنیاد) لہذا آپ محبت ، شفقت اور نرمی سے بات کیجئے گا کہ نفرت اور حقارت تو کسی کو اپنی طرف مائل نہیں کرسکتی ، ہاں محبت و شفقت میں یہ پہلو ہے کہ کبھی دوسرے کے دل میں بھی چنگاری پیدا کر دے اور اس پیار کے سبب ممکن ہے وہ اپنا بھلا سمجھ جائے اور نصیحت حاصل کرے یا اللہ کی نارضامندی سے خوف کھانے لگے ۔ (معیت باری کی برکات) عرض کی بارالہا ہم تو حاضر ہیں مگر اس بات کا اندیشہ ضرور ہے کہ وہ ظالم بات ہی نہ سنے اور اپنی بک بک شروع کر دے یا بات سننے سے پہلے ہی گرفتاری کا حکم دے کر دربار سے جیل بھیج دے یا قتل کا حکم دے تو ایسے متکبر سے بات کیسے ہوگی کہ اس تک آپ کا حکم اور پیغام پہنچایا جائے فرمایا فکر کی بات نہیں اس لیے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ، سب دیکھتا بھی ہوں اور سنتا بھی ہوں یعنی میری معیت صفاتی تمہیں نصیب ہے کہ دونوں نبی ہو اور ذاکر دل رکھتے ہو لہذا وہ نہ چاہنے کے باوجود بھی بات سنے گا ، چناچہ آپ دونوں بھائی فرعون کے دربار میں پہنچے اور اپنی نبوت کا اعلان فرمایا کہ ہم کسی فائدے کے لیے آئے ہیں نہ ہمیں دو بار سے کوئی غرض ہم تو اس اللہ جل جلالہ کے بھیجے ہوئے نبی ہیں جو تیرا بھی پروردگار ہے یعنی جس نے تجھے پیدا کیا وجود بخشا ، جان دی ، قوت دی ، سلطنت دی اور جس کے پاس تجھے پلٹ کر جانا ہے کہ یہ سب ربوبیت کا تقاضا ہے ، لہذا تجھے ہمارے ساتھ ایمان لانا چاہئے اور دوسری بات یہ کہ بنی اسرائیل پر تو بہت ظلم ڈھا رہا ہے انہیں آزاد کر دے کہ وہ جہاں چاہیں رہیں انہیں ہمارے ساتھ جانے دے اور اب ان پر ظلم کرنا بند کر دے ۔ (معجزات انبیاء اس زمانے کے صاحب کمال لوگوں سے مقابلے کے لیے ویسے ہی ہوا کرتے ہیں) رہی یہ بات کہ بھلا ہم اللہ کے نبی ہیں تو اس کا ثبوت کیا ہے ، تو ہمیں اللہ جل جلالہ نے معجزات سے نوازا ہے اور تیری تسلی کے لیے ایسے عجیب امور عطا فرمائے ہیں جو اس کی ذاتی معیت ، عطا اور نبوت کی صداقت کی دلیل ہیں ، چونکہ اس دور میں جادوگری کا زور تھا تو ایسے معجزات عطا ہوئے جن سے جادوگر بھی عاجز آجائیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں طب و حکمت کا عروج تھا تو اندھوں کی بینائی بحال کرنا یا کوڑھی کو تندرست کرنا یا مٹی کے جانور میں پھونک مارنا کہ زندہ ہوجائے حتی کہ مردہ کو زندہ کردینا انکے مقابلے میں تھے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عہد مبارک اپنے اندر بیشمار ایجادات لایا جن کے اثرات انسانی تہذیب پر پڑے اور مختلف اقوام خود کو مہذب کہنے کی مدعی ہیں مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عظیم معجزہ اسلامی تہذیب بھی ہے کہ کسی انداز میں کوئی تہذیب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور کسی بھی تہذیب میں اگر کوئی خوبی ہے تو وہ اسلامی تہذیب کو خوشہ چینی ہے کہ جب مسلمانوں کو یہ تہذیب نصیب ہوئی اس وقت ان کے علاوہ ساری انسانیت ان کمالات سے محروم تھی سب نے اسلام کے دامن سے خوشہ چینی کی کاش مسلمان اس بات کو سمجھ پاتا ، لہذا ان معجزات کے اظہار سے ہم تجھ تک یہ بات پہنچانے آئے ہیں کہ سلامتی کا راستہ ہدایت کا راستہ ہے اور گمراہی بالآخر تباہی سے ہمکنار ہوتی ہے تیسری بھلائی بھی اسی چیز میں ہے کہ تو ہدایت کا راستہ اپنا لے ورنہ یہ بات اللہ کریم نے ہمیں بتا دی ہے کہ منہ موڑنے والے اور انکار کرنے والے پر اللہ جل جلالہ کا عذاب ہوگا جس سے وہ ہرگز نہیں بچ سکتا ۔ (انبیاء کرام (علیہ السلام) قوم کو صرف اللہ جل جلالہ کی طرف ہی نہیں بلاتے بلکہ ان کے تمام دنیاوی معاملات کو درست کرنے کی بھر پور سعی فرماتے ہیں) یہ بھی ثابت ہے کہ نبی صرف تبلیغ کے لیے مبعوث نہیں ہوتے اور نری تبلیغ کا کوئی معنی نہیں جب تک عملی زندگی اور معاملات کا درست حل اور صحیح انداز پیش نہ کیا جائے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہاں صرف دعوت الی اللہ ہی نہیں پہنچائی بلکہ بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ بھی کیا اور انہیں عملا اسلامی زندگی اپنانے کا بار اپنے ذمے لیا اور جب فرعون نہ مانا تو اس کی اجازت کے بغیر بھی انہیں لے گئے ، مقابلہ میں فرعون غرق دریا ہوا اور پھر انہیں ملکی معاملات ، سیاسیات کاروبار اور عملی زندگی کے ہر پہلو میں بھی راہنمائی دی صرف عقائد ہی کی تبلیغ پر بس نہیں فرمایا یہی انداز نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تھا لہذا نری تبلیغ پورا کام نہیں ہے ہاں دینی کام کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ضرور ہے ۔ فرعون کہنے لگا تو پھر تم دونوں کا رب کون ہے اور کسی میں اتنی جرات ہے کہ میری طرف قاصد بھیجے اور مجھے اپنی اطاعت کے لیے کہے کہ اس کے دعوے کے مطابق تو اگر کوئی اور رب تھا بھی تو اسکے مقابلے کا نہ ہو سکتا تھا ، کہ وہ خود رب اعلی کہلواتا تھا ۔ (فطری صلاحیت اور جذبہ اللہ جل جلالہ کی عظمت پہ دلیل ہے) موسیٰ (علیہ السلام) نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو پیدا فرمایا اور انہیں فطری طور پر ایک کام پر لگا دیا یعنی ہر ذرہ اپنی فطرت کے مطابق کام کرتا ہے ، شہد کی مکھی شہد بناتی ہے اور چھتے کا نظام چلاتی ہے ، ہر درخت خاص پھل پھول رس وغیرہ دیتا ہے ، ہر جانور زندگی کا سلیقہ سیکھ لیتا ہے یہ تو اس کی دین ہے لیکن اگر تو رب ہے تو پھر ان کو بدل دے اور آم پر انگور اگا دے یا شب وروز کا نظام بد دے یا کسی خشکی کے جانور کو پانی کا بنا دے ۔ rnّ (لاجواب ہونے والا آدمی جھگڑتا ہے) فرعون لاجواب ہوگیا تو اس نے جھگڑے کی بنیاد رکھی کہ اگر تم سچے ہو اور میرے علاوہ سچا رب دوسرا ہے تو جو لوگ میری خدائی کا عقیدہ رکھتے ہوئے فوت ہوچکے ان کا کیا حشر ہوگا ، اس کا خیال تھا کہ یہ انہیں دوزخی کہیں گے جس پر ان کی اولاد ان سے خفا ہو کر میرے ہی ساتھ رہے گی مگر اللہ جل جلالہ کے نبی بہت وسیع علوم کے حامل ہوا کرتے ہیں انہوں نے فرمایا میرا معاملہ زندوں سے ہے کہ انھیں دعوت حق دوں اگر نہ مانیں تو انجام بد سے بروقت اطلاع دوں ۔ (مبلغ کو فضول بحث سے احتراز کرنا چاہیے) مرنے والوں کا معاملہ اللہ سے ہے اور وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے نیز ہر شخص کے اعمال ایک کتاب میں بھی لکھے ہیں اور اللہ جل جلالہ کا علم کامل ہے نہ اسے غلطی لگتی ہے نہ کہیں بھول چوک سرزد ہوتی ہے ، اگر اس کے علم کی عظمت کی جھلک دیکھنا چاہو تو اپنے گرد دیکھو پاؤں کے نیچے زمین ہی کو دیکھ لو کہ ہر ذرے میں کتنی خصوصیات اور کس قدر ہم آہنگی پیدا کردی ، زمین میں رہنے اور جینے کے کتنے اسباب سجا دیے پانی کو بلندیوں سے برسا کر ذرے ذرے کو سیراب کرتا ہے اور پھر لاتعداد اقسام کی سبزیاں پھل اور پھول پیدا ہوتے ہیں لوگ روزی پاتے ہیں اور جانوروں کو پالتے ہیں ذرا اس سارے نظام کو اس کی ترتیب اور کمال کو دیکھو تو ہر صاحب عقل کے لیے اللہ جل جلالہ کی عظمت پہ ڈھیروں دلیلیں موجود ہیں ۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 25 تا 46 یسر آسان کر دے۔ امری میرے کام۔ احلل کھول دے۔ عقدۃ گرہ۔ یفقھو وہ سمجھ لیں۔ اشدد مضبوط کر دے۔ ازری میری قوت۔ کی تاکہ۔ اوتیت تجھے دیدیا گیا۔ سول مانگا۔ سوال کیا گیا۔ مننا ہم نے احسان کیا۔ اقذ ڈالدے۔ الیم دریا سمندر۔ عدد دشمن۔ القیت میں نے ڈال دیا۔ لتصنع تاکہ پرورش پائے۔ ی... کفل نگرانی کرتا ہے، پرورش کرتا ہے۔ رجعنا ہم نے لوٹا دیا۔ کئی تقر تاکہ ٹھنڈی رہیں۔ قدر مقدار، مقرر، مدت اصطنعت میں نے بنایا۔ لینا آسان، سہل بات۔ یفرط وہ زیادتی کرے گا۔ اسمع میں سنتا ہوں۔ اری میں دیکھتا ہوں۔ تشریح : آیت نمبر 25 تا 46 اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک مقدس وادی ” وادی طویٰ “ میں جو نبوت کا منصب اور مقام عطا کیا تھا۔ انہوں نے اس موقع پر اللہ کی بارگاہ میں چند گزارشات پیش کیں۔ عرض کیا (1) الٰہی مجھے وحی کی شان و عظمت اور آپ کے پیغام حق و صداقت کو پہنچانے کیلئے شرح صدر، عطا کردیجیے یعنی میرا سنیہ اس طرح کھول دیجیے کہ اتنی بڑی ذمہ داری کو پہنچانے اور بیان کرنے میں سہولت ہوجائے۔ (2) درخواست یہ ہے کہ مجھے کوئی ایسا مددگار بھی دیدیجیے جو میرے خاندان سے ہو، موزوں ترین ہوتا کہ میرے اس مقصد اور کام میں سہولت حاصل ہوجائے۔ خود ہی عرض کر دای کہ اگر میرے (بڑے) بھائی ہارون کو میرا مددگار اور معاون بنا دیں تو ہم ایک جگہ آپ کی حمد و ثنا اچھی طرح بیان کرسکیں گے۔ فرمایا کہ اے اللہ یہ تو میری عاجزانہ گذارشات ہیں۔ میں ان کی مصلحتوں تک سے واقف نہیں ہوں۔ آپ ہی ہر چیز کی مصلحت کو بہتر جانتے ہیں اور آپ سے بہتر اور کون جان سکتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ان تمام درخواستوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے انتہا درجہ کی اعجزی اور انکساری، اللہ تعالیٰ کو بندے کی یہی ادا سب سے زیادہ پسند ہے کہ وہ عظیم سے عظیم تر مقام پر پہنچنے کے باوجود اللہ کے سامنے تکبر اور غرور کے بجائے عاجزی اور انکساری سے کام لے۔ اس کے برخلاف بنی اسرائیل کے مزاج میں سختی ، تکبر اور غرور اس طرح رچ بس گیا تھا کہ وہ عاجزی اور انکساری سے کام لے۔ اس کے برخلاف بنی اسرائیل کے مزاج میں سختی، تکبر اور غرور اس طرح رچ بس گیا تھا کہ وہ عاجزی اور انکساری کے ہر انداز کو اپنی توہین سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ پر یہ کرم اور مہربانی ان کی عاجزی و انکساری کی بنا پر کی گئی تھیں اور اللہ نے ان کی ہر درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا تا۔ فرمایا کہ اے موسیٰ ہم نے آپ کی صرف یہی درخواست قبول نہیں کی بلکہ شروع ہی سے آپ کے معاملہ میں کرم و احسان کا انداز اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو یاد دلایا کہ وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب آپ چھوٹے سے تھے اور فرعون بنی اسرائیل کے لڑکوں کو ذبح کر رہا تھا۔ مگر ہم نے آپ کی حفاظت کا یہ انتظام کیا تھا کہ آپ کی والدہ کے دل میں اس بات کو الہام کردیا تھا کہ وہ آپ کو ایک صندوق میں ڈال کر دریا کی موجود کے حوالے کردیں۔ چناچہ آپ کے والدہ نے ایسا ہی کیا اور اس طرح ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے آپ کو اللہ کے اور آپ کے دشمن فرعون کی گود میں پرورش کرا دیا۔ جب حضرت موسیٰ کی والدہ نے ان کو ایک صندوق میں رکھ کر اپنی میں بہا دیا تو حضرت موسیٰ کی بہن یہ دیکھتی رہیں کہ صندوق پانی کی موجوں کے ساتھ کہاں جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ کو ایک خوبصورت بچہ سمجھ کر فرعون کی بیوی حضرت آسیہ نے ان کو پانی سے نکال لیا اور کہا کہ اتنا خوبصورت اور پیاسا بچہ ہے اس کو ہم اپنے محل میں پرورش کریں گے۔ یا بیٹا بنا لیں گے بھوک کا وقت ہوا تو حضرت موسیٰ نے رونا شروع کردیا۔ ہر طرح ہر ایک نے دودھ پلانے کی کوشش کی مگر حضرت موسیٰ نے کسی کا دودھ نہیں پیا۔ حضرت موسیٰ کی بہن جو اس تمام صورتحال کو دیکھ رہی تھیں انہوں نے کہا کہ ایک خاتون میری نظر میں بھی ہیں اگر آپ لوگ کہیں تو میں اس کو بلا لاؤں۔ وہ بچے کے رہنے سے پریشان تھے کہنے لگے کہ تم کسی بھی خاتون کو لے آؤ۔ چناچہ وہ گئیں اور حضرت موسیٰ کی والدہ کو بلا کرلے آئیں۔ حضرت موسیٰ نے ان کا دودھ پیا اور سب لوگ خوش ہوگئے۔ اس طرح اللہ نے نہ صرف حضرت موسیٰ کو ایک محفوظ جگہ پہنچا دیا بلکہ ایک ماں کو بیٹے سے جدا نہ ہونے دیا اور اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار فرماتے ہوئے بتایا کہ اللہ کی قدرت اور حکمت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے وہ جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ کام اسی طرح ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ اللہ آپ کو اپنا رسول اور مقرب بنا کر آپ سے ہدایت کا کام لینا چاہتا تھا۔ حکم ہوا کہ تم دونوں بھائی عصا اور یدبیضا کا معجزہ لے کر فرعون کے دربار میں جاؤ اور اس کو سرکشی و نافرمانی سے باز رکھنے کی کوشش کرو اور اس مقصد میں ذرا بھی سسی سے کام نہ لینا۔ یہ بھی فرما دیا کہ فرعون سے ایسے نرم لب و لہجے میں گفتگو کرنا کہ وہ اللہ کی طرف پلٹ آئے اور اللہ کی عظمت کے سامنے اپنا سر جھکا دے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے عرض کیا ! الٰہی : ہمیں اس بات کا ڈر اور خوف ہے کہ فرعون ہمارے ساتھ زیادتی نہ کرے۔ اللہ نے فرمایا کہ تم دونوں فرعون کے دربار میں بلا خوف و خطر پہنچو۔ میں خود تمہاری حفاظت کا انتظام کروں گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کی باقی تفصیل اس کے بعد کی آیات میں ملاحظہ کیجیے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فرعون کے پاس جانے سے پہلے اپنے رب کے حضور دو التجائیں۔ دعوت توحید کا کام ہر دور میں مشکل رہا ہے لیکن کچھ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو یہ کام بالکل ہی غیر معمولی اور انتہائی مشکل حالات میں کرنا پڑا۔ جن میں چار انبیائے کرام (علیہ السلام) سرفہرست ہی... ں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن حالات میں دعوت توحید کا کام کیا وہ تاریخ عالم میں مشکل ترین ادوار سمجھے جاتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال محنت فرمائی بالآخر دعا کی کہ الٰہی اب تو کفار کا ایک گھر بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ (نوح : ٢٦) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نبوت ملنے کے باوجود انشراح صدر اور اطمینان قلب کے لیے ایک مشاہدہ کی درخواست کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے منظور کرتے ہوئے ان کے ہاتھوں چار پرندے ذبح کروانے کے بعد ان کے سامنے زندہ کیا۔ تفصیل کے لیے سورة البقرۃ کی آیت ٢٦٠ ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے پاس جانے سے پہلے دو عظیم معجزے عنایت کیے گئے لیکن اس کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کے حضور مزید التجائیں کرتے ہیں۔ جہاں تک سرور دو عالم نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق ہے آپ کو جونہی توحید کی دعوت دینے کا حکم ہوا آپ نے حالات کی پرواہ کیے بغیر اپنے کام کا آغاز کردیا حالانکہ اقتدار کے سوا فرعون اور ابو جہل کے درمیان خاص فرق نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے بدر کے موقعہ پر ابو جہل کی لاش کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ میری امت کا فرعون تھا۔ (سیرت ابن ہشا م) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور یہ درخواست کی کہ میرے رب میرا سینہ کھول دے میرے لیے میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ میرے مخاطب میری بات کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ یاد رہے کہ جب تک انسان کو اپنے کام کے بارے میں انشراح صدر نہ ہو وہ کام انسان اطمینان اور پوری یکسوئی سے نہیں کر پاتا۔ توحید کی دعوت ایسا کام ہے جس کے لیے انتہا درجے کا انشراح ضروری ہے بصورت دیگر انسان میں وہ ہمّت یا داعیہ پیدا نہیں ہوتا، جو اس اہم اور مشکل ترین کام کے لیے ضروری ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس عظیم دعوت کے مقابلہ میں اپنی کم مائیگی اور بےبضاعتی کا اور فرعون کے جور و استبداد کا اچھی طرح علم تھا اس لیے انھوں نے یہ بھی دعا کی کہ اے رب ! اس مشکل کام کو میرے لیے آسان بنا دے اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنی قوت گویائی کے بارے میں دعا کی کہ بارے الٰہا ! میری زبان پوری طرح واضح نہیں ہے اس کی گرہ بھی کھول دیجیے تاکہ میں مؤثر اور واضح انداز میں گفتگو کرسکوں زبان کی گرہ کے بارے میں مفسرین نے دو آراء کا اظہار کیا ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زبان کی گرہ سے مراد یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) دس سال تک مدین میں ٹھہرے رہے تھے جس وجہ سے انھیں اپنی زبان بالخصوص اعلیٰ طبقہ کے انداز کے مطابق بات کرنے میں وہ روانی حاصل نہیں تھی جو دعوت توحید کا تقاضا تھا۔ دوسرے اہل علم کا خیال ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب چھوٹی عمر میں فرعون کے ہاں پرورش پار ہے تھے تو ایک دن انھوں نے معصومانہ ہاتھوں کے ساتھ فرعون کی داڑھی نوچ لی جس سے فرعون کو شک گزرا کہ یہ وہی بچہ ہے جو بڑا ہو کر میرے اقتدار کو چیلنج کرے گا۔ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا چاہا تو اس کی بیوی نے کہا کہ یہ معصوم ہے اسے کیا خبر کہ کس چیز کو پکڑنا ہے اور کس کو ہاتھ نہیں لگانا۔ جس پر آزمانے کے لیے موسیٰ کے سامنے ایک طرف چمکتے ہوئے ہیرے اور دوسری طرف آگ کے انگارے رکھ دیے گئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے آگ کے انگارے پکڑ کر منہ میں ڈال لیے جس وجہ سے ان کی زبان میں کچھ لکنت پیدا ہوگئی تھی اس کے لیے انھوں نے یہ دعا کی تھی۔ واللہ اعلم۔ مسائل ١۔ عقیدۂ توحید اور نیکی کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے انشراح صدر کی دعا کرنی چاہیے۔ ٢۔ ہر مشکل کے لیے اللہ تعالیٰ سے آسانی طلب کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن حق ماننے اور اس کی اتّباع کے لیے انشراح صدر ضروری ہے : ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انشراح صدر کی دعا کی۔ (طٰہٰ : ٢٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حق سمجھنے اور سمجھانے کے لیے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ کھول دیا۔ (الم نشرح : ١) ٣۔ اللہ تعالیٰ حق بات کے لیے جس کا سینا کھول دے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور بصیرت ہوجاتا ہے۔ (الزمر : ٢٢) ٤۔ حق جاننے اور اسے کما حقہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے۔ ( رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا) پڑھنا چاہیے۔ (طٰہٰ : ١١٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال رب اشرح لی۔۔۔۔ انک کنت بنا بصیرا (٥٢ تا ٥٣) ” اس ذریں موقعہ پر حضرت موسیٰ نے یہ درخواست کی کہ اے اللہ ‘ میرے سینے کو اس کام کے لئے کھول دے۔ جب انسان کو شرح صدر حاصل ہوجائے تو مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔ اس میں انسان کو لذت حاصل ہوتی ہے۔ اس سے انسان کی زندگی ہل کہ ہوجاتی ہے۔ اس پر کوئی ... بوجھ نہیں رہتا اور انسان سبک رفتاری سے زندگی بسر کرتا ہے۔ انہوں نے یہ درخواست بھی کی کہ اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات کو اچھی طرح سمجھ جائیں۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ کی زبان میں لکنت تھی ‘ راجح بات یہ ہے کہ ان کا سوال اس لکنت کو دور کرنے کے بارے میں تھا ، دوسری سورة میں اس کے بارے میں یوں آیا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا شرح صدر اور طاقت لسان کے لیے دعا کرنا اور اپنے بھائی ہارون کو شریک کار بنانے کی درخواست کرنا اور دعا کا قبول ہونا جب موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سر فراز فرما کر اور دو بڑی بڑی نشانیاں (عصا اور یدبیضاء) عطا فرما کر فرعون کے پاس جانے کا حکم فرمایا تو انہو... ں نے عرض کیا کہ اے میرے رب جس کام کا حکم فرمایا ہے اس کے لیے میرا سینہ کھول دیجئے اور میرے کام کو آسان فرمائیے۔ شرح صدر اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمایا (اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ ) (کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھول دیا) جب شرح صدر ہوتا ہے تبھی کام کرنے کی ہمت ہوتی ہے اور کام آگے بڑھتا ہے شرح صدر کی دعا میں حوصلہ ہمت کا بڑھنا بات کہنے پر قادر ہونا مخاطبوں سے نہ جھجکنا علی الاعلان بات کہنا بات کہنے کے طریقے منکشف ہونا علوم کا مستحضر ہونا اور علوم میں اضافہ ہونا اور تعلیم کی صورتوں کا قلب پروارد ہونا یہ سب کچھ آجاتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی عرض کیا کہ میری زبان میں جو گرہ ہے اسے کھول دیجئے تاکہ میرے مخاطب میری بات کو سمجھ لیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ زبان میں ان کی پیدائشی لکنت تھی اور ایک قول یہ بھی ہے کہ بچپن میں جب وہ فرعون کے ہاں اس کے محل میں رہتے تھے اس وقت انہوں نے فرعون کی داڑھی پکڑلی تھی اس پر فرعون کو خیال ہوا کہ کہیں یہ لڑکا وہی تو نہیں ہے جس کے بارے میں پیشین گوئی کرنے والوں نے بتایا ہے کہ میری حکومت چلے جانے کا ذریعہ بنے گا۔ اس پر جب اس نے انہیں قتل کرنے کا ارادہ کیا تو فرعون کی بیوی نے کہا یہ ناسمجھ بچہ ہے نادان ہے داڑھی پکڑنے سے اس طرح کا اثر لینا اور قتل کرنے کا ارادہ کرنا درست نہیں اس کی نادانی کی آزمائش کرلی جائے لہٰذا ان کے سامنے جواہر اور آگ کے انگارے رکھ دو پھر دیکھو کیا کرتا ہے جب دونوں چیزیں سامنے رکھ دی گئیں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے آگ کا انگارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا تھا جس کی وجہ سے زبان جل گئی زخم تو اچھا ہوگیا لیکن لکنت باقی رہ گئی اس لکنت کی وجہ سے انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ جو میرے مخاطب ہوں وہ میری بات سمجھ سکیں۔ بعض علماء تفسیر نے یہاں یہ نکتہ بتایا ہے کہ انہوں نے (یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ ) بھی دعا میں کہہ دیا تھا اس لیے پوری زبان کی لکنت زائل نہیں ہوئی کچھ باقی رہ گئی تھی۔ اسی لیے فرعون نے عیب لگاتے ہوئے یوں کہا تھا (اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ ھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ مَہِیْنٌ وَّلاَ یَکَادُ یُبِیْنُ ) (کیا میں بہتر ہوں یا یہ بہتر ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ بات بھی ٹھیک طرح سے نہیں کرسکتا) چونکہ پوری زبان کی گرہ زائل نہیں ہوئی اس میں کچھ لکنت باقی تھی۔ (اگرچہ بات سمجھانے کے بقدر بات کرلیتے تھے) اس لیے فرعون کو یہ بات کہنے کا موقع ملا تھا اگرچہ یہ احتمال بھی ہے کہ اس نے عناداً ایسا کہا ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دعا بھی کی کہ اے میرے رب میرے کنبہ میں سے ایک وزیر یعنی معاون بنا دیجئے پھر اس کی خود ہی تعیین کردی اور عرض کیا کہ یہ معاون میرے بھائی ہارون ہوں ان کے ذریعہ میری قوت کو مضبوط کر دیجئے اور انہیں میرے کام میں شریک کر دیجئے یعنی انہیں بھی نبوت عطا فرما کر تبلیغ کا کام سپرد فرما دیجئے تاکہ میں اور وہ دونوں مل کر نبوت کا کار مفوضہ انجام دیں۔ سورة قصص میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا معاون بنانے کے لیے یوں دعا کی (وَ اَخِیْ ھٰرُوْنُ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْٓ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ ) (اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے سو آپ ان کو میرے ساتھ رسالت سپرد کر دیجئے۔ جو میرے مددگار ہوں اور میری تصدیق کریں بیشک مجھے ڈر ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلا دیں) اس کے بعد سورة قصص میں دعا قبول فرمانے کا ذکر ہے ارشاد ہے۔ (قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیْکَ وَ نَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْکُمَا بِاٰیٰتِنَآ اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَکُمَا الْغٰلِبُوْنَ ) (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم عنقریب تمہارے بھائی کے ذریعہ تمہارے بازو کو مضبوط کردیں گے اور تم دونوں کے لیے ایک شوکت عطا کردیں گے لہٰذا ان لوگوں کو تم پر دسترس نہ ہوگی۔ تم ہمارے معجزوں کو لیکر جاؤ تم دونوں اور جو تمہارا اتباع کرے گا غالب ہو گے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کے معاون ہونے کی دعا کرنے کے ساتھ یوں بھی عرض کیا۔ (کَیْ نُسَبِّحُکَ کَثِیْرًا وَّ نَذْکُرُکَ کَثِیْرًا) (ہم کثرت سے آپ کی پاکی بیان کریں اور کثرت سے آپ کا ذکر کریں) اس سے معلوم ہوا کہ تبلیغ و دعوت کے کام میں ذکر اور تسبیح میں مشغول رہنے کی خاص اہمیت ہے۔ ہر ایک ذکر میں مشغول ہوگا تو ایک دوسرے کے لیے یاد دلانے کا ذریعہ بنے گا اور اللہ کے ذکر سے دل کو تقویت بھی پہنچے گی۔ دعا کے آخر میں یہ بھی ہے کہ (اِنَّکَ کُنْتَ بِنَا بَصِیْرًا) (کہ اے میرے رب بلاشبہ آپ ہمیں دیکھنے والے ہیں) ہماری حاجت کا بھی آپ کو پتہ ہے اور جو کچھ فرعون کے ساتھ گزرے گی اس کا بھی آپ کو علم ہے بس ہمیشہ ہماری مدد فرمائیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مذکورہ تمام دعائیں قبول ہوئیں جیسا کہ ارشاد فرمایا (قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَکَ یٰمُوْسٰی) (اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ تمہاری درخواست قبول کرلی گئی) دعائیں کر کے اور دعاؤں کی قبولیت کی خوشخبری پا کر وادی مقدس سے روانہ ہوئے اور مصر پہنچ کر آپ نے حضرت ہارون کو ساتھ لیا اور فرعون کے پاس تبلیغ کے لیے پہنچ گئے جیسا کہ چند آیات کے بعد اسی رکوع میں آرہا ہے۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ شانہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بچپن والی تربیت کا پھر ان کے مدین جانے کا تذکرہ فرمایا ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ انہیں بہت بڑے کام پر بھیجا جا رہا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اسباب کی تسہیل اور اس کام کی تکمیل کے سلسلے میں پانچ درخواستیں کیں (1) ” رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِيْ “۔ شرح صدر سے مراد یہ ہے کہ ان کے سینے کو نور سکینہ و طمانیت سے معمور کردیا جائے تاکہ وہ بتقاضا... ئے بشریت اس کام سے بیدل نہ ہوں اور کبھی نہ اکتائیں۔ اور شدائد و مصائب کی وجہ سے ان کے دل میں اضطراب اور بےچینی پیدا نہ ہو۔ (2) ” وَ یَسِّرْ لِیْ اَمْريْ “ اور یہ تبلیغ رسالت کا کام میرے لیے آسان فرما دے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

25 حضرت موسیٰ نے جب دیکھا کہ مجھ کو نبوت عطا کی گئی ہے اور فرعون کی طرف تبلیغ کی غرض سے بھیجا جا رہا ہے تو حضرت حق کی جناب میں عرض کیا۔ اے میرے پروردگار میرا سینہ کھول دے اور کشادہ کر دے۔