Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 47

سورة طه

فَاۡتِیٰہُ فَقُوۡلَاۤ اِنَّا رَسُوۡلَا رَبِّکَ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ ۙ وَ لَا تُعَذِّبۡہُمۡ ؕ قَدۡ جِئۡنٰکَ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الۡہُدٰی ﴿۴۷﴾

So go to him and say, 'Indeed, we are messengers of your Lord, so send with us the Children of Israel and do not torment them. We have come to you with a sign from your Lord. And peace will be upon he who follows the guidance.

تم اس کے پاس جا کر کہو کہ ہم تیرے پروردگار کے پیغمبر ہیں تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے ، ان کی سزائیں موقوف کر ۔ ہم تو تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی اسی کے لئے ہے جو ہدایت کا پابند ہو جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأْتِيَاهُ فَقُولاَأ إِنَّا رَسُولاَأ رَبِّكَ ... So go you both to him, and say: "Verily, we are both Messengers of your Lord..." ... فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَايِيلَ وَلاَأ تُعَذِّبْهُمْ ... so let the Children of Israel go with us, and torment them not; Musa admonishes Fir`awn Concerning his statement, ... قَدْ جِيْنَاكَ بِأيَةٍ مِّن رَّبِّكَ ... indeed, We have come with a sign from your Lord! meaning with evidence and a miracle from your Lord. ... وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى And peace will be upon him who follows the guidance! meaning, `peace be upon you if you follow the guidance.' Because of this, when the Messenger of Allah wrote a letter to Heraclius, the emperor of Rome, beginning with, بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدى أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الاْإِسْلَإمِ فَأَسْلِمْ تَسْلَمْ يُوْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْن In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. From Muhammad, the Messenger of Allah, to Heraclius the emperor of Rome. Peace be upon him who follows the guidance. Thus, to proceed: Verily, I invite you with the invitation of Islam. So accept Islam and you will be safe, and Allah will give you a double reward. Due to this, Musa and Harun said to Fir`awn, ... وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَى مَن كَذَّبَ وَتَوَلَّى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 یہ سلام تحیہ نہیں ہے، بلکہ امن و سلامتی کی طرف دعوت ہے۔ جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام مکتوب میں لکھا تھا، و اَسْلِمْ ، تَسْلَمْ ، (اسلام قبول کرلے، سلامتی میں رہے گا) اس طرح مکتوب کے شروع میں آپ نے (وَالسَّلٰمُ عَلٰي مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى) 20 ۔ طہ :47) بھی تحریر فرمایا، (ابن کثیر) اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مکتوب یا مجلس میں مخاطب کرنا ہو تو اسے انہی الفاظ میں سلام کہا جائے، جو مشروط ہے ہدایت کے اپنانے کے ساتھ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] فرعون کو دعوت دینے پانچ کلمات :۔ گویا فرعون کے سامنے دعوت کا پانچ نکاتی پروگرام ان پیغمبروں کو دیا گیا۔ ان میں سے چار تو دعوت دین کے بنیادی نکات اور ایک مطالبہ ہے۔ پہلی بات یہ تھی کہ اسے کہنے کہ ہم تمہارے پروردگار کے رسول ہیں۔ اس میں دو نکات آگئے۔ ایک یہ کہ لوگوں کے پروردگار تم نہیں بلکہ وہ ذات ہے جو ہر چیز کا، ہمارا اور خصوصا ً تمہارا بھی پروردگار ہے، دوسرا نکتہ یہ تھا کہ ہم دونوں اسی پروردگار کے بھیجے ہوئے تیرے پاس آئے ہیں خود نہیں آئے۔ گویا اس ایک حملہ میں توحید و رسالت کا ذکر آگیا۔ تیسرا نکتہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل پر ظلم کرنا چھوڑ دے اور انھیں اپنی غلامی سے آزاد کر اور انھیں ہمارے ہمراہ کر دے تاکہ وہ آزادانہ زندگی بسر کرسکیں اور یہ تیسرا نکتہ خاص اس قسم کے حالات کے مطابق تھا۔ چوتھا نکتہ یہ تھا کہ جو شخص اس راہ ہدایت یعنی اللہ کی توحید اور ہماری رسالت پر ایمان لے آئے گا اور اللہ ہی کی عبادت اور ہماری اطاعت کرے گا اس کے لئے اس دنیا میں امن اور سلامتی ہوگی اور آخر میں بھی۔ اور پانچویں یہ تھا کہ ہمیں بذریعہ وحی اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ جو شخص ہماری دعوت سے منہ پھیرے گا آخر میں اس کے لئے عذاب ہوگا۔ گویا چوتھے اور پانچویں نکتہ میں ایمان کے نہایت اہم جزء ایمان بالأخرت کی دعوت پیش کی گئی تھی۔ اور ساتھ ہی یہ بات کہہ دینا کہ ہمارا یہ دعویٰ رسالت بےدلیل نہیں بلکہ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاْتِيٰهُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے فرعون کو تین چیزوں کی دعوت پہنچانے کا حکم دیا، ایک دعوت توحید کہ رب تو نہیں بلکہ وہ ہے جو تیرا بھی رب ہے اور جب وہ تیرے جیسے رب کہلانے والوں کا رب ہے تو باقی تمام مخلوق کا رب ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ دوسری دعوت رسالت کہ ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں اور اس کا پیغام لے کر تیرے پاس آئے ہیں اور تیسری قوم کی آزادی کا مطالبہ کہ رب تعالیٰ کی توحید اور اپنی رسالت پر ایمان کی دعوت کے بعد خاص تیری طرف یہ پیغام بھی لے کر آئے ہیں کہ بنی اسرائیل کو آزادی دے کر میرے ساتھ بھیج دے کہ وہ اللہ کی زمین میں جہاں آزاد رہ سکیں چلے جائیں اور یہ کہ انھیں ان مختلف قسم کے عذابوں سے رہا کر دے جن سے تو نے انھیں دو چار کر رکھا ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلام کی دعوت میں غلام اور مظلوم اقوام کو غلامی سے نجات دلانا بھی شامل ہے۔ یہ کہنا کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ نہیں، غلط ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٤٦ تا ٢٥٢) ۔ قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ : یہ اس بات کی تفصیل ہے کہ ” ہم تیرے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے آئے ہیں “ یعنی یقین جانو کہ ہم تمہارے رب کی طرف سے اپنی رسالت کی نشانی اور دلیل بھی لے کر آئے ہیں، اگر تم اسے دیکھے بغیر ہی ایمان لے آؤ تو بہت ہی اچھا ہے، ورنہ ہم وہ بھی پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وَالسَّلٰمُ عَلٰي مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى : اس میں ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ فرعون کو بھی سلام ہے، اگر وہ ہدایت قبول کرلے۔ معلوم ہوا کہ اگر وہ ہدایت قبول نہ کرے تو اسے کوئی سلام نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کافر بادشاہوں قیصر و کسریٰ وغیرہ کو جو خط لکھے ان میں یہی لکھا : ( اَلسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی ) [ بخاري : ٦٢٦٠ ] ” سلام ہو اس شخص پر جو اسلام کو قبول کرے “ یعنی ایمان نہ لانے والوں کے لیے نہ سلامتی کی دعا ہے اور نہ ان کے لیے اللہ کی گرفت سے سلامتی کی کوئی صورت ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب کو لکھا : ( أَسْلِمْ تَسْلَمْ ) [ بخاري : ٧ ] ” مسلمان ہوجاؤ تو سلامت رہو گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاْتِيٰہُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝ ٠ۥۙ وَلَا تُعَذِّبْہُمْ۝ ٠ۭ قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰيَۃٍ مِّنْ رَّبِّكَ۝ ٠ۭ وَالسَّلٰمُ عَلٰي مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰى۝ ٤٧ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا سلام السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها [ البقرة/ 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی __________ عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض . ( س ل م ) السلم والسلامۃ کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة/ 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) لہذا تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ ہم دونوں تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دو تاکہ میں ہم انھیں ان کی سرزمین میں لے جائیں۔ اور ان کو مشقتوں میں ڈال کر اور ان کے بیٹوں کو ذبح کرکے اور ان کی عورتوں سے خدمت لے کر ان کو تکلیف میں مت ڈال اس لیے کہ وہ آزاد ہیں اور ہم اس دعوی پر معجزہ بھی لے کر آئے ہیں یعنی یدبیضاء اور یہ پہلا نشان تھا جو کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو دکھایا۔ اور فرمایا کہ ایسے کے لیے سلامتی ہو جو توحید کا قائل ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:47) فاتیہپس تم دونوں اس کے پاس جائو۔ فعل امر تثنیہ مذکر حاضر۔ اتیانمصدر۔ ہُ ضمیر واحد مذکر غائب (اس کا مرجع فرعون ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 47 تا 56 ائتیا تم آؤ، تم اس کے پاس جاؤ۔ ارسل بھیج دے۔ لاتعذب تکلیفیں نہ دے۔ اتبع جس نے پیروی کی۔ اعطی عطا کیا، دیا۔ خلق اس نے پیدا کیا۔ مابال کیا حال ہے، کیا معاملہ ہے۔ القرون (قرن) قومیں، جماعتیں۔ لایضل نہ وہ بہکتا ہے۔ نہ وہ غلطی کرتا ہے۔ لاینسی وہ بھولتا نہیں۔ مھد راحت کی جگہ، بچھونا۔ سلک اس نے چلایا۔ سبل (سبیل) راستے۔ ازواج (زوج) جوڑے جوڑے۔ نبات سبزہ، سبزی۔ شتی مختلف، متفرق۔ ارعو جانوروں کو چراؤ۔ انعام مویشی۔ اولی النھی (نھیۃ) عقل و سمجھ والے۔ نعید ہم لوٹائیں گے۔ نخرج ہم نکالیں گے۔ تارۃ اخری دوسری مرتبہ۔ ارینا ہم نے دکھایا۔ ابی اس نے انکار کیا۔ تشریح : آیت نمبر 47 تا 56 اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ان کے بڑے بھائی حضرت ہارون سے فرمایا کہ تم دونوں فرعون کے ظلم و تم کی پرواہ کئے بغیر، بےخوف و خطر جا کر اس کے بھرے دربار میں اللہ کا پیغام پہنچا دو ، فرعون کے ظلم اور زیادتی سے بچانا ہمارا کام ہے۔ فرمایا جب میں تمہارے ساتھ ہوں تو تمہارا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ چناچہ ان دونوں نے فرعون کے دربار میں پہنچ کر کہا کہ ہم دونوں کو اللہ نے وحی کے ذریعہ پیغام دیا ہے کہ بنی اسرائیل پر ظلم اور زیادتی سے رک جاؤ اور بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو ۔ اللہ نے ہمیں عصا اور ید بیضا کا معجزہ بھی دیا ہے ہم ان نشانیوں کو لے کر آئے ہیں۔ سلامتی کا حق دار وہی ہے جو ہدایت کے راستے پر چلتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہے کہ جس نے حق و صداقت کی باتوں کو جھٹلایا اور ان سے منہ پھیرا اس کے لئے سخت عذاب ہے۔ فرعون نے یہ سب کچھ سننے کے بعد کہا کہ میرے سوا تمہارا رب کون ہے ؟ حضرت موسیٰ نے کہا کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کر کے اس کو ایک خاص صور شکل عطا فرمائی اور پھر اس کی رہنمائی کے اسباب بھی پیدا کئے۔ یعنی وہ ایسا پروردگار نہیں ہے کہ اس نے ہر چیز کو پیدا تو کردیا ہو مگر وہ اس کو پروان چڑھانے اور پرورش کرنے سے غافل ہو بلکہ وہ ایسا پروردگار ہے کہ جس نے ہر چیز کو پیدا کر کے اس کی پوری پوری رہنمائی بھی فرمائی ہے۔ حضرت موسیٰ کے اس جواب سے فرعون لاجواب ہوگیا گفتگو کا پہلو بدلتے ہوئے کہنے لگا کہ اے موسیٰ ! یہ تو بتاؤ کہ جو لوگ گزر چکے ہیں ان کا کیا حشر ہوگا۔ ؟ فرعون کے کہنے کا مقصد لوگوں میں اشتعال اور غلط فہمی پیدا کرتا تھا مگر حضرت موسیٰ نے نہایت سادہ اور پروقار انداز میں جواب دیا کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے اس کا علم تو اللہ کے پاس ہے۔ اس کے پاس ہر بات اور ہر چیز لکھی ہوئی اور محفوظ ہے۔ فرمایا کہ میرا رب تو وہ ہے جو نہ تو کسی قسم کی غلطی کرتا ہے نہ وہ کسی چیز کو بھولتا ہے۔ میرا رب وہ ہے جس نے تمہارے چلنے کے لئے راستے بنائے۔ بلندی سے پانی اتار کر اس سے مختلف قسم کے نباتات سبزہ، سبزی اور پھل پیدا کئے تاکہ تم ان کو استعمال کرو اور اپنے جانوروں کو بھی کھلاؤ۔ یہ سب کی سب اللہ کی وہ نشانیاں ہیں جن میں اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لیا جائے تو پروردگار کو پہچاننا مشکل نہ ہوگا۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ میرے رب نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ اس میں ان کو لوٹا دیا جائے گا اور پھر وہ ان کو اس جگہ سے دوبارہ زندہ کر کے میدان حشر میں لاکھڑا کرے گا۔ حضرت موسیٰ کی ان تمام باتوں کو سن کر فرعون اپنے انکار اور کفر پر جما رہا اور اس نے ان کھلے ہوئے حقائق کو ماننے سے انکار کردیا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاتیہ فقولاً ……وتولی (٨٣) (٠٢ : ٨٣-٨٣) ” جائو اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں ، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لئے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے اور سلامتی ہے اس کے لئے جو راہ راست کی پیروی کرے۔ ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اس کے لئے جو جھٹلائے اور منہ موڑے۔ “ اللہ نے آغاز ہی میں بتا دیا کہ ان کی رسالت کی دعوت کیا ہے۔ انا رسول ربک (٨٣) ” ہم تیرے رب کے دو فرستادے ہیں۔ “ پہلی آاز میں اس کو یہ بتا دیا جائے کہ تمہارے ساتھ اور ایک ذات رب ہے ، لوگوں کا بھی رب ہے ، یہ صرف وسیٰ اور ہارون کا خدا اور رب نہیں۔ نہ وہ صرف بنی اسرائیل کا رب ہے۔ جیسا کہ اس وقت کی بت پرستانہ خرافات میں یہ عقیدہ ہوتا تھا کہ ہر قوم کا ایک رب ہوتا ہے اور ہر قبیلے کا اپنا خدا یا دیوتا ہوتا ہے۔ ایک یا زیادہ ، خود مصر کی تاریخ میں یہ تصور موجود رہا ہے کہ فرعون بھی رب تھا کیونکہ وہ دیوتائوں کی نسل سے تھا۔ اس کے بعد ان کی رسالت کے اصل موضوع اور مضمون کی وضاحت کی جاتی ہے۔ فارسل معنا بنی اسرآئیل ولاتعذبھم (٠٢ : ٨٣) ” بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لئے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ “ فرعون سے ان کا اصل مطالبہ یہ تھا کہ تم بنی اسرائیل کو رہائی دو ، وہ عقیدئہ توحید کی طرف واپس آجائیں ، اس سر زمین کی طرف واپس آجائیں جو اللہ نے ان کے لئے لکھی ہے کہ وہ یہاں رہیں گے یہاں تک کہ وہ اس میں فساد برپا کردیں اور مکمل طور پر تباہ کردیئے جائیں ۔ اس کے بعد ان کو بتایا جاتا ہے کہ تمہاری رسالت کی سچائی پر شہادت یہ ہوگی۔ قد جئنک بایۃ من ربک (٠٢ : ٨٣) ” ہم تیرے پاس رب کی نشانی لے کر آئے ہیں۔ “ یہ نشانی ، یہ معجزہ ہماری سچائی پر دلیل صادق ہے۔ اللہ کے حکم سے آنا تمہاری سچائی کی دلیل ہے۔ اس کے بعد اسے ترغیب دی جاتی ہے اور دعوت قبول کرنے کی طرف اسے مسائل کیا جاتا ہے۔ والسلم علی من اتبع الھدی (٠٢ : ٨٣) ” اور سلامتی ہے اس کے لئے جو راہ راست کی پیروی کرے۔ “ شاید کہ وہ راہ ہدایت پالے اور ان سے اسلام کی دعوت سیکھ لے۔ اس کے بعد نہایت ہی عمدہ اور بالواسطہ طرز کلام میں اس کو کہا جاتا ہے تاکہ اسے غصہ نہ آجائے اور اس کو اپنے غرور کی وجہ سے بات بری نہ لگے۔ انا قداوحی الینا ان العذاب علی من کذب وتولی (٠٢ : ٨٣) ” ہم کو حی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اس کے لئے جو جھٹلائے اور منہ موڑے۔ “ ہو سکتا ہے کہ تم ان میں سے نہ ہو اور یہ بات ہم نہیں کہتے ، ہم پر وحی آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ و ہارون کو دولت اطمینان سے مالا مال کر کے ، دعوت کا طریق کار سمجھا کر بھیجا تاکہ وہ پوری طرح تیار ہو کر اپنا مشن اچھی طرح جانتے ہوئے جائیں۔ اب پردہ گر جاتا ہے ، اگلا منظر فرعون کا دربار ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

47 اچھا تو اب تم اس فرعون کے پاس جائو اور جا کر اس سے کہو کہ ہم دونوں تیرے پروردگار کے فرستادے اور رسول ہیں لہٰذا تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ کر دے اور ہمارے ساتھ جانے دے اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہونچا بلاشبہ ہم تیرے پروردگار کی جانب سے تیرے پاس نشان لے کر آئے ہیں اور اس شخص پر امن و سلامتی کا نزول یا سایہ ہو جو صحیح راہ کی پیروی کرے اور سیدھی راہ چلے۔ چونکہ فرعون نے بنی اسرائیل کو ہر قسم کی قیود کا پابند کر رکھا تھا اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) نے ان کی آزادی کے لئے اپیل کی اور سمجھایا کہ ان کو تکلیف نہ پہونچا اور ان کے جانے آنے پر جو پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ان سے آزاد کر دے۔ یہ جہاں چاہیں وہاں رہیں بسیں اور ہم اپنی نبوت پر تیرے پروردگار کی طرف سے دلیل بھی لے کر آئے ہیں یعنی ہماری تحریک کوئی بنائوٹی اور مصنوعی تحریک نہیں ہے بلکہ یہ ایک آسمانی تحریک ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے بھیجے گئے ہیں اور جو ہماری بات سن کر قبول کرے گا اور ہمارا بتایا ہوا طریقہ اختیار کرے گا اس کو دونوں جہان میں عذاب الٰہی اور اس کی گرفت سے سلامتی نصیب ہوگی۔