Surat Tahaa
Surah: 20
Verse: 49
سورة طه
قَالَ فَمَنۡ رَّبُّکُمَا یٰمُوۡسٰی ﴿۴۹﴾
[Pharaoh] said, "So who is the Lord of you two, O Moses?"
فرعون نے پوچھا کہ اے موسٰی! تم دونوں کا رب کون ہے؟
قَالَ فَمَنۡ رَّبُّکُمَا یٰمُوۡسٰی ﴿۴۹﴾
[Pharaoh] said, "So who is the Lord of you two, O Moses?"
فرعون نے پوچھا کہ اے موسٰی! تم دونوں کا رب کون ہے؟
The Conversation between Musa and Fir`awn Allah, the Exalted, informs about Fir`awn that he said to Musa, in his rejection of the existence of a Supreme Maker and Creator, Who is the God of everything and his own Lord and Owner: قَالَ فَمَن رَّبُّكُمَا يَا مُوسَى (Fir`awn) said: "Who then, O Musa, is the Lord of you two!" meaning "Who is the one who called you forth and sent you! For verily, I do not know him and I have not given you any god other than myself." قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى
مکالمات موسیٰ علیہ السلام اور فرعون ۔ چونکہ یہ ناہنجار یعنی فرعون مصر وجود باری تعالیٰ کا منکر تھا ۔ پیغام الٰہی کلیم اللہ کی زبانی سن کر وجود خالق کے انکار کے طور پر سوال کرنے لگا کہ تمہارا بھیجنے والا اور تمہارا رب کون ہے میں تو اسے نہیں جانتا نہ اسے مانتا ہوں ۔ بلکہ میری دانست میں تو تم سب کا رب میرے سوا اور کوئی نہیں ۔ اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شخص کو اس کا جوڑا عطا فرمایا ہے انسان کو بصورت انسان ، گدھے کو اس کی صورت پر ، بکری کو ایک علیحدہ صورت پر پیدا فرمایا ہے ۔ ہر ایک کو اس کی مخصوص صورت میں بنایا ہے ۔ ہر ایک کی پیدائش نرالی شان سے درست کر دی ہے ۔ انسانی پیدائش کا طریقہ الگ چوپائے الگ صورت میں ہیں درندے الگ وضع میں ہیں ۔ ہر ایک کے جوڑے کی ہئیت ترکیبی علیحدہ ہے ۔ کھانا پینا کھانے پینے کی چیزیں جوڑے سب الگ الگ اور ممتاز و مخصوص ہیں ۔ ہر ایک کا انداز مقرر کر کے پھر اس کی ترکیب اسے بتلا دی ہے ۔ عمل اجل رزق مقدر اور مقرر کر کے اسی پر لگا دیا ہے نظام کے ساتھ ساری مخلوق کا کارخانہ چل رہا ہے ۔ کوئی اس سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتا ۔ خلق کا خالق تقدیروں کا مقرر کرنے والا اپنے ارادے پر مخلوق کی پیدائش کرنے والا ہی ہمارا رب ہے ۔ یہ سب سن کر اس بےسمجھ نے پوچھا کہ اچھا تو پھر ان کا کیا حال ہے جو ہم سے پہلے تھے اور اللہ کی عبادت کے منکر تھے؟ اس سوال کو اس نے اہمیت کے ساتھ بیان کیا ۔ لیکن اللہ کے پیغمبر علیہ السلام نے ایسا جواب دیا کہ عاجز ہو گیا ۔ فرمایا ان سب کا علم میرے رب کو ہے ۔ لوح محفوظ میں ان کے اعمال لکھے ہوئے ہیں ، جزا سزا کا دن مقرر ہے نہ وہ غلط کرے کہ کوئی چھوٹا بڑا اس کی پکڑ سے چھوٹ جائے نہ وہ بھولے کہ مجرم اس کی گرفت سے رہ جائیں ۔ اس کا علم تمام چیزوں کو اپنے میں گھیرے ہوئے ہے ۔ اسکی ذات بھول چوک سے پاک ہے ، نہ اس کے علم سے کوئی چیز باہر ، نہ علم کے بعد بھول جانے کا اس کا وصف ، وہ کمی علم کے نقصان سے وہ بھول کے نقصان سے پاک ہے ۔
قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا يٰمُوْسٰى : یعنی وہ کون ہے جسے تم نے مجھے چھوڑ کر رب بنا رکھا ہے ؟ واضح رہے کہ فرعون اپنے رب اعلیٰ ہونے کا دعوے دار تھا (نازعات : ٢٤) اور اپنے ” الٰہ “ یعنی معبود ہونے کا بھی۔ (قصص : ٣٨)
قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا يٰمُوْسٰى ٤٩ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔
(٤٩۔ ٥٠) یہ سن کر فرعون کہنے لگا کہ تم دونوں کا رب کون ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے مطابق جوڑا عطا فرمایا، یعنی انسان اور اونٹ کو اونٹنی اور بکری کو بکرا کہ ہر ایک کا جوڑا بنادیا، پھر ان کو کھانے پینے اور ضروریات زندگی کی رہنمائی کی۔
آیت ٤٩ (قَالَ فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰی ) ” ہم تو کسی ایسے رب سے واقف نہیں ہیں جس کے بارے میں تم دونوں بات کر رہے ہو۔ تمہارا ربّ ہے کون ؟
20. Here the details have been omitted. These have been given in (Surah Al-Aaraf, Ayats: 103-108); (Surah Ash- Shuara, Ayats 10-33); (Surah Al-Qasas, Ayats 28-40); (Surah An-Naziat, Ayats 15-25) . As regards to the necessary information about Pharaoh, see (E.N. 85 of Surah Al-Aaraf). 21. Pharaoh addressed Prophet Moses (peace be upon him) because he was, in regards to Prophethood, the senior of the two. It is also possible that he deliberately addressed him in order to exploit his impediment in speech, and ignored Prophet Aaron (peace be upon him), who was more fluent. As regards to the implication of this question of Pharaoh, he meant to say: You say that you have brought a message from my Lord to me. Who is that Lord? You should know that I am the Lord of Egypt and the people of Egypt. In regards to this claim of his, see (Surah An-Naziat, Ayat 24); (Surah Az-Zukhruf, Ayat 51); (Surah Al-Qasas, Ayat 38) and (Surah Ash-Shuara, Ayat 29). It may also be noted that by this claim Pharaoh did not mean to say that he was the sole deity of his people nor did it mean that none other was worshiped in Egypt. As a matter of fact, he himself based his right of sovereignty on his claim of being the incarnation of the sun god. And we also learn from the history of Egypt that there were many other gods and goddesses. In fact, what he claimed was that he was politically the Lord of not only Egypt but also of the whole of mankind theoretically. Therefore, he would not acknowledge that there was any supreme sovereign over him whose delegate might bring an order to him and demand its obedience from him.
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :20 یہاں قصے کی ان تفصیلات کو چھوڑ دیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ کس طرح فرعون کے پاس پہنچے اور کس طرح اپنی دعوت اس کے سامنے پیش کی ۔ یہ تفصیلات سورہ اعراف رکوع 13 میں گزر چکی ہیں اور آگے سورہ شعراء رکوع 2 ۔ 3 ، سورہ قصص رکوع 4 ، اور سورۂ نازعات رکوع 1 میں آنے والی ہیں ۔ فرعون کے متعلق ضروری معلومات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ86 ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :21 دونوں بھائیوں میں سے اصل صاحب دعوت چونکہ موسیٰ علیہ السلام تھے اس لیے فرعون نے انہی کو مخاطب کیا ۔ اور ہو سکتا ہے کہ خطاب کا رخ ان کی طرف رکھنے سے اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ وہ حضرت ہارون کی فصاحت و بلاغت کو میدان میں آنے کا موقع نہ دینا چاہتا ہو اور خطابت کے پہلو میں حضرت موسیٰ کے ضعف سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہو جس کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے ، فرعون کے اس سوال کا منشا یہ تھا کہ تم دونوں کسے رب بنا بیٹھے ہو ، مصر اور اہل مصر کا رب تو میں ہوں ۔ سور نازعات میں اس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ : اَ نَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی ، اے اہل مصر ، تمہارا رب اعلیٰ میں ہوں ۔ سورۂ زخرف میں وہ بھرے دربار کو مخاطب کر کے کہتا ہے : یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَھٰذِہِ الْاَنْھَارُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ ، اے قوم ، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ؟ اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟ ( آیت ۔ 51 ) ۔ سورہ قصص میں وہ اپنے درباریوں کے سامنے یوں بنکارتا ہے : یٰٓاَیُّھَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ ، فَاَوْقِدْلِیْ یَا ھَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحاً لَعَلِّی اَطَّلِعُ اِلیٰ اِلٰہِ مُوْسٰی ، اے سرداران قوم ، میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور بھی الٰہ ہے ، اے ہامان ، ذرا اینٹیں پکوا اور ایک بلند عمارت میرے لیے تیار کرا تاکہ میں ذرا اوپر چڑھ کر دیکھوں تو سہی کہ یہ موسیٰ کسے الٰہ بنا رہا ہے ( آیت 38 ) ۔ سورۂ شعراء میں وہ حضرت موسیٰ کو ڈانٹ کر کہتا ہے :لَئِنِ اتَّخَذْ تَ الٰھاً غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ ، اگر تو نے میرے سوا کسی کو الٰہ بنایا تو یاد رکھ کہ تجھے جیل بھیج دوں گا ( آیت 29 ) ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فرعون اپنی قوم کا واحد معبود تھا اور وہاں اس کے سوا کسی کی پرستش نہ ہوتی تھی ۔ یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ فرعون خود سورج دیوتا ( رع یا راع ) کے اوتار کی حیثیت سے بادشاہی کا استحقاق جتاتا تھا ، اور یہ بات بھی مصر کی تاریخ سے ثابت ہے کہ اس قوم کے مذہب میں بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کی عبادت ہوتی تھی ۔ اس لیے فرعون کا دعویٰ واحد مرکز پرستش ہونے کا نہ تھا ، بلکہ وہ عملاً مصر کی اور نظریے کے اعتبار سے دراصل پوری نوع انسان کی سیاسی ربوبیت و خداوندی کا مدعی تھا اور یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ اس کے اوپر کوئی دوسری ہستی فرمانروا ہو جس کا نمائندہ آ کر اسے ایک حکم دے اور اس حکم کی اطاعت کا مطالبہ اس سے کرے ۔ بعض لوگوں کو اس کی لن ترانیوں سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا منکر تھا اور خود خدا ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا ۔ مگر یہ بات قرآن سے ثابت ہے کہ وہ عالم بالا پر کسی اور کی حکمرانی مانتا تھا ۔ سورہ المؤمن آیات 28 تا 34 اور سورہ زخرف آیت 53 کو غور سے دیکھیے ۔ یہ آیتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی ہستی سے اس کو انکار نہ تھا ۔ البتہ جس چیز کو ماننے کے لیے وہ تیار نہ تھا وہ یہ تھی کہ اس کی سیاسی خدائی میں اللہ کا کوئی دخل ہو اور اللہ کا کوئی رسول آ کر اس پر حکم چلائے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، القصص ، حاشیہ 53 ) ۔
ف 1 یعنی وہ کون ہے جسے تم نے مجھے چھوڑ کر اپنا رب بنا لیا ہے ؟ واضح رہے کہ فرعون اپنے آپ کو مصر کا رب اعلیٰ بھی سمجھتا تھا۔ (نازعات :24) اور اللہ یعنی معبود بھی چناچہ قصص میں ہے۔ یایھا الملاء ما علمت لکم من الہ غیری کہ مجھے معلوم نہیں کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور اللہ بھی ہو۔ (آیت 38)
فہم القرآن ربط کلام : فرعون کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تکرار۔ فرعون نے حقیقت تسلیم کرنے کی بجائے موسیٰ (علیہ السلام) کو الجھانے اور حواریوں کے سامنے اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے دو سوال کیے۔ پہلا سوال یہ تھا اے موسیٰ ! تمہارا رب کون ہے ؟ فرعون اس بات سے یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میں لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہوں اس لیے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ میرے سوا کسی کو رب مانے اور اس کا حکم تسلیم کرے۔ اسی سوچ کی وجہ سے فرعون نے اپنی عوام میں ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی “ کا نظریہ پیش کیا اور اسے تسلیم کروانے کے لیے لوگوں پر جبر کرتا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے موقعہ کی نزاکت اور اس کے سوال کی حقیقت جانتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی دو ایسی صفات کا ذکر فرمایا جس کا انکار کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے حقیقی وجود اور اس کی صحیح شکل و صورت کے ساتھ پیدا فرما کر اس کی راہنمائی کا بندوبست فرمایا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بطخ کا بچہ انڈے سے نکل کر پانی کی طرف جاتا ہے۔ مرغی کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی مرغی کے قدموں کی طرف لپکتا ہے۔ انسان پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتی کے ساتھ چمٹتا ہے۔ اس طرح ہر نومولود کو نہ صرف اپنے جنم دینے والی کا علم ہوتا ہے بلکہ وہ اپنی مامتا کی بولی سمجھنے کے ساتھ خود بخود اس ماحول کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ جس میں رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔ یہاں ہدایت سے پہلی مراد فطری رہنمائی ہے جس بنا پر گونگا بہر ابچہ بھی چہرے کے اتار اور چڑھاؤ اور آنکھوں کے اشارے سے مامتا کو اپنی ضرورتوں سے آگاہ کرلیتا ہے۔ فرعون کا دوسرا سوال یہ تھا کہ جو لوگ توحید و رسالت اور آخرت کی جزا، سزا کے قائل نہ تھے اور اس دنیا سے چل بسے ان کا انجام کیا ہوگا ؟ فرعون کا خیال تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اس کا جواب یہ دے گا کہ وہ سب کے سب جہنم میں جائیں گے۔ جس سے فائدہ اٹھا کر میں لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکا ؤنگا کہ یہ شخص کس قدر گستاخ اور ظالم ہے کہ ہمارے فوت شدہ بزرگوں کو گمراہ اور جہنمی قرار دیتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس سوال کا پس منظر سمجھ چکے تھے۔ لہٰذا پیغمبرانہ بصیرت سے کام لیتے ہوئے فرمایا ان کا حال رب جانتا ہے جو نہ بھولتا ہے اور نہ اس کے احاطۂ علم سے کوئی چیز غائب ہوتی ہے یہاں تک کہ اس نے ہر چیز کے بارے میں سب کچھ لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ (سَوَآءٌ مِّنْکُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَھَرَ بِہٖ وَ مَنْ ھُوَ مُسْتَخْفٍ بالَّیْلِ وَ سَارِبٌ بالنَّھَارِ لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ وَ اِذَآ اَرَاد اللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوْٓءً افَلَا مَرَدَّلَہٗ وَمَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّال) [ الرعد : ١٠۔ ١١] ” کوئی تم سے چپکے سے بات کہے یا پکار کر یا رات کو کہیں چھپ جائے یا دن کی روشنی میں کھلم کھلا چلے پھرے اس کے نزدیک برابر ہے۔ اس کے آگے اور پیچھے اللہ کے چوکیدار ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں اللہ اس نعمت کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلے اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو پھر وہ پھر نہیں سکتی۔ “ مسائل ١۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ وہ نہ بھولتا ہے نہ ہی اس سے بیخبر ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے بارے میں لوح محفوظ میں سب کچھ لکھ رکھا ہے۔ ٣۔ مبلغ کو سوال کا جواب خداداد بصیرت کے ساتھ دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم میں ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ وسیع علم والا ہے۔ (البقرۃ : ١١٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٩) ٣۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (الاعراف : ٨٩) ٤۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علم میں ہے۔ (الطلاق : ١٢) ٥۔ بیشک اللہ لوگوں کے اعمال کا احاطہ کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٢٠) ٦۔ یقیناً اللہ ہر چیز کو گھیرنے والا ہے۔ (حٰم السجدۃ : ٥٤) ٧۔ اللہ ہر چیزکا احاطہ کرنے والا ہے۔ (النساء : ١٢٦)
اب وہ فرعون کے دربار میں ہیں ، قرآن اس بات کا تذکرہ نہیں کرتا کہ وہ کس طرح پہنچے ، بہرحال وہ پہنچ گئے۔ ان کا رب ان کے ساتھ ہے اور دیکھ رہا ہے۔ موسیٰ اور ہارون نے نہایت ہی قوت اور اعتماد سے بات کرتے ہوئے دعوت پہنچائی۔ فرعون جو چاہے ہو ، وہ اسے ملے۔ انہوں نے ، جس طرح اللہ نے بتایا تھا اسے دعوت دی۔ یہ دوسرا منظر اب اس گفتگو سے شروع ہوتا ہے جو ان دونوں اور فرعون کے درمیان ہوئی : قال ……ھدی (٠٥) یہ شخص یہ اعتراف نہیں کرتا کہ موسیٰ و ہارون کا رب ہی اس کا رب ہے ، جس طرح انہوں نے کہہ دیا کہ ہم دونوں اللہ تمہارے رب کے رسول ہیں۔ یہ شخص موسیٰ سے مخاطب ہوتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہوگیا تھا کہ اصل صاحب دعوت موسیٰ ہی ہیں۔ قال فمن ربکما یموسی (٠٢ : ٩٣) ” تم دونوں کا وہ رب کون ہے جس کے نام سے تم بات کرتے ہو اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہو۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے سامنے اللہ کی جس صفت کا ذکر کرتے ہیں وہ اللہ کی صفت تخلیق اور صفت تدبیر ہے۔ قال ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی (٠٢ : ٠٥) ” موسیٰ نے کہا ، ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی۔ پھر اس کو راستہ بتایا۔ “ رب وہ ہے جس نے ہر موجود کو وجود بخشا اور ایک مناسب صورت اور فطرت بھی عطا کی۔ اس کے بعد اس کو وہ طریقہ بتایا جس کے مطابق وہ اپنا فریضہ منصبی پوری طرح ادا کرسکے جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا اور اسے وہ تمام سہولیات بھی عطا کردیں جو اس کے فریضہ منصبی کی ادائیگی کے لئے ضروری تھیں۔ یہاں لفظ ثم (تراخی زمانی) کے لئے نہیں ہے یعنی مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے پیدا کیا ، بعد میں عقلاً اسے ہدایت دی بلکہ پیدائش کے ساتھ ہی وہ فطری صلاحیت بھی عطا کردی۔ خلق و ہدایت میں فرق صرف مرتبہ و اہمیت کے اعتبار سے ہے یعنی تخلیق زیادہ اہم ہے اور ہدایت اور فرائض منصبی کی صلاحیت اور اسباب فراہم کرنا اس کے تابع ہے۔ عقلاً یہ خلق کے بعد ثانوی چیز ہے۔ یہ صفت جس کا ذکر قرآن کریم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی کیا ، یہ خدا کی تخلیق کے اعلیٰ ترین آثار کا خلاصہ ہے۔ یعنی کسی چیز کی تخلیق اور اسے اپنا فریضہ تخلیق ادا کرنے کے لئے فطری ہدایت اور سہولیات کی فراہمی ، انسان جب اس کائنات وسیع و عریض میں اپنی بصارت اور بصیرت دونوں کو کام لا کر غور کرتا ہے ، اپنے علم و مشاہدے کی حد تک ، تو ہر چھوٹی بڑی چیز کے اندر اسے قدرت کی یہ خالقیت اور تدبیر واضح طور پر نظر آتی ہے۔ کائنات کے چھوٹے سے چھوٹے جسم ذرہ اور بڑے سے بڑے زندہ جسم میں ، مساوی طور پر ابتدائی خلیے میں بھی اور انسان جیسے پیچیدہ مخلوق میں بھی یہ سب صفات اور قدرت کے یہ کرشمے نظر آتے ہیں۔ کائنات کا یہ عظیم وجود جس میں لاتعداد ذرے ، خلیے ، مخلوقات ، زندہ اور غیر زندہ اس کا ہر خلیہ ایک خاص زندگی کا مالک ہے اور متحرک ہے۔ اس کی ہر زندہ چیز متحرک ہے۔ اس کا ہر موجود دور سے کے ساتھ منسلک ہے ، ان میں سے ہر چیز انفرادی طور پر بھی اور دوسروں کے ساتھ مل کر بھی ، قوانین قدرت کے مطابق ، بغیر کسی ٹکرائو کے وظیفہ فطرت اور غرض تخلیق پورا کر رہی ہے اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس وسیع کائنات کے پیچیدہ نظام میں کوئی خلل نہیں ڈالتی۔ اگر ہم کسی ایک مخلوق و موجود کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ اپنی ذات میں ایک کائنات ہے۔ وہ اپنے اندر اپنے ذرات ، اپنے خلیوں ، اپنے اعضاء اور اپنے اعصاب کے مطابق تقاضائے فطرت پورے کر رہا ہے۔ دوسری طرف وہ اس پوری کائنات کے نظام فطرت کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے اور یہ سب کچھ نہایت ہی باریک انتظام اور توافق کے ساتھ چلتا ہے۔ اس پوری کائنات کو تو ایک طرف رہنے دیں ، کائنات کی کسی ایک مخلوق کو آپ لے لیں ، ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے ، اس کی حقیقت معلوم کرنے ، صحت اور بیماری معلوم کرنے میں انسان اپنی وسیع کوششوں کے باوجود اور وسعت علم کے باوجود قاصر ہے۔ کسی ایک چیز کے مالہ و ماعلیہ کا علم وہ تمام نہیں کرسکا چہ جائیکہ وہ تحقیق کر کے سکے یا فطرت دے سکے اور ہدایت دے سکے یا اس ہئیت و شکل دے سکے۔ تمام اشیاء میں سے کسی ایک چیز کو بھی …واقعہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ الہ واحد کا کام ہے ، وہی ہمارا رب ہے جس نے ہر چیز کو وجود بخشا اور ہدایت دی۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون سے مکالمہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے دربار میں پہنچے اور اسے ہدایت دی اور خالق کائنات جل مجدہ پر ایمان لانے کے لیے فرمایا تو اس نے بےتکی باتیں شروع کردیں اور طرح طرح کے سوال کرتا رہا ان میں سے بعض سوال یہاں سورة طہ اور بعض سورة شعراء کے دوسرے رکوع میں مذکور ہیں فرعون تو اپنے آپ کو سب سے بڑا رب کہتا تھا اور اس نے (اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی) کا اعلان کیا تھا اب جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تجھے تیرے رب کی طرف ہدایت دیتا ہوں تجھے اس کی رغبت ہے تو قبول کرلے اس پر فرعون کو ناگواری ہونی ہی تھی بھرے مجمع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بتادیا کہ جو تیرا رب ہے اسے مان اور اس کی ہدایت قبول کر، اس پر اس نے سوال کیا کہ تم دونوں (موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) جو میرے علاوہ کوئی دوسرا رب بتا رہے ہو وہ کون ہے ؟ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا (رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ) کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا کی یعنی ساری مخلوق اسی کی ہے اور ہر مخلوق کو اس نے جس صورت میں اور جس حالت میں پیدا فرمایا ہے وہ اس کی حکمت کے موافق ہے ساری تخلیق میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے اس نے جس کو جس طرح چاہا پیدا فرمایا۔ ہر چیز کو اس کے اعضاء اور جو ارح اس کے لائق عطا فرمائے اور اسی کے حال کے مطابق سمجھ بھی دی اور مخلوقات کو ان کے خوارص اور منافع بتائے۔ کسی مخلوق کو اس میں کوئی دخل نہیں (ثُمَّ ھَدٰی) اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا بھی فرمایا پھر ہر چیز کو راہ بھی بتائی۔ یعنی ہر مخلوق کو اس کی ضروریات کے مطابق سمجھ دی، ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے مطابق جیتی ہے اور اپنے منافع اور مضار کو سمجھتی ہے۔ صاحب روح المعانی نے یہ تفسیر ارشاد العقل السلیم سے نقل کی ہے۔ وقال ثم ھدی الی طریق الانتفاع والارتفاق بما اعطاء و عرفہ کیف یتوصل الی بقاۂ و کمالہ اما اختیار کما فی الحیوانات اوطبعا کما فی الجمادات والقوی الطبیعیۃ النباتیۃ والحیوانیۃ۔ (ج ١٦ ص ٢٠٢) یہ مضمون بہت بڑا بھی ہے اور عجیب بھی، جتنا جتنا غور کیا جائے اور مخلوق میں نظر کی جائے اسی قدر ذہن میں اس کا پھیلاؤ بڑھتا چلا جائے گا۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو منہ میں پستان دیا جاتا ہے فورا ہونٹ ہلاتا ہے مرغی کا بچہ پیدا ہوا دانہ ڈالا اس پر دوڑا۔ آدمی کے بچہ نے ذراسا ہوش سنبھالا ہاتھ سے کھانا شروع کیا چوپاؤں نے بچہ جنا اس کی دیکھ بھال اور حفاظت میں اس کی ماں مشغول ہوگئی بچہ ماں کے تھنوں کے پاس گیا اور تھنوں کو چوسنا شروع کردیا چونکہ جانوروں کا کھانے پینے کا سارا کام منہ سے ہی ہوتا ہے اس لیے ہاتھ کے واسطہ کی ضرورت نہیں ہے اس لیے انہیں ایسے ہاتھ نہیں دیئے گئے جو منہ تک پہنچیں انہیں استنجے کی بھی ضرورت نہیں اس لئے بھی ہاتھ کی ضرورت نہیں انسان کو بہت سے کام ہیں بڑے بڑے کام ہیں لہٰذا اسے ہاتھ دے دیئے گئے مکڑی جالا بنا کر مکھی کو مار کر کھاتی ہے۔ اور چھپکلی روشنی کے پاس آکر پتنگوں کا شکار کرتی ہے۔ اور دیوار پر بلکہ چھت میں الٹی لٹک کر دوڑ جاتی ہے۔ بکری کا بچہ ہوتا ہے وہ اسے چاٹ چاٹ کر اس کے بدن کی اصلاح کرتی ہے۔ مرغی انڈوں پر بیٹھتی ہے اور بچے نکلنے تک بیٹھی رہتی ہے، بلی چوہا کھاتی ہے بچھو پر منہ نہیں ڈالتی اور اسی طرح ہزاروں مثالیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا اور اسے جینے کے طریقے بتائے۔ اور اس کی ذات کے متعلق نفع اور ضرر سمجھا دیا۔ (ثُمَّ ھَدٰی) کی جو تفسیر اوپر ذکر کی گئی اس کے علاوہ دوسری تفسیر بھی کی گئی اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو پیدا فرمایا پھر انہیں ہدایت دی یعنی حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے اور کتابیں نازل فرمائیں اور مخلوق ہی کو مخلوق کے ذریعہ خالق تعالیٰ شانہ کی معرفت حاصل ہونے کا ذریعہ بنایا۔
29:۔ جب حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) فرعون کے پاس جا کر اس کو پیغام حق سنا چکے تو فرعون نے ان سے سوال کیا۔ وہ تمہارا رب کون ہے، جس کے تم رسول ہو، جس کی توحید کی دعوت دیتے ہو۔ اور جس کے عذاب سے ڈرا رہے ہو۔ کیا میرے سوا کوئی اور بھی رب ہے ؟ ” قَالَ رَبُّنَا الخ “ یہ تیسری آیت توحید ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ اس کا کوئی اسم علم ہے نہیں کہ میں کہہ دوں وہ فلاں ہے اس کی صفات بیشمار ہیں۔ اور وہ صفات ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ ہمارا رب وہ ہستی ہے جس نے سارے عالم کو پیدا کیا۔ ہر مخلوق کو ایک مخصوص ہیئت اور صورت عطا فرمائی۔ ای انہ یعرف بصفاتہ ولیس لہ اسم علم حتی یقال فلان بل ھو خالق العالم الخ (قرطبی ج 11 ص 204) ۔
49 فرعون نے یہ سب سن کر بات کو ٹلانے کی غرض سے کہا اے موسیٰ (علیہ السلام) تم دونوں کا پروردگار کون ہے۔ یعنی ذات وصفات کی بحث میں الجھانا چاہا جیسا کہ سورة شعراء میں ہے ۔ وما رب العالمین فرعون یا تو دہری ہوگا۔ صائع عالم کا قائل ہوگا یا خود خدائی کا مدعی ہوگا۔ جیسا کہ سورة قصص میں ہے ماعلمت لکم من الہ غیری۔