Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 50

سورة طه

قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی ﴿۵۰﴾

He said, "Our Lord is He who gave each thing its form and then guided [it]."

جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت ، شکل عنایت فرمائی پھر راہ سجھا دی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

(Musa) said: "Our Lord is He Who gave to each thing its form and nature, then guided it aright." Ali bin Abi Talhah related that Ibn Abbas said, "He is saying that He created a mate for everything." Ad-Dahhak said that Ibn Abbas said, "He made the man a man, and the donkey a donkey and the sheep a sheep." Layth bin Abi Sulaym reported from Mujahid that he said, "He gave everything its form." Ibn Abi Najih said that Mujahid said, "He fashioned the creation of every moving creature." Sa`id bin Jubayr said concerning His statement, أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى ((Who) gave to each thing its form and nature, then guided it aright), "He gave each of His creatures what is suitable for its creation." Therefore, He did not give man the form of a wild beast, nor did He give wild beasts the form of the dog. Likewise, the dog's form is not like the sheep's. He also gave creature a suitable spouse, and He influenced everything towards that mate. There is no species of creation that is exactly like another species. They are different in their actions, their forms, their sustenance and their mating. Some of the scholars of Tafsir have said that this statement, "He gave to each thing its form and nature, then guided it aright," is similar to Allah's statement, وَالَّذِى قَدَّرَ فَهَدَى And Who has measured; and then guided. (87:3) This means He measured out an ordained amount (of sustenance, actions, etc.) and then guided His creatures to it. He wrote the deeds, the appointed times of death and the provisions. Then, the creatures traverse upon that and they are not able to avoid it, nor are they able to abandon it. In this Ayah Musa is saying that our Lord is the One Who created the creation, measured out its ordainment and compelled the creatures to that which He wanted. قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الاْاُولَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 مثلاً جو شکل صورت انسان کے مناسب حال تھی، وہ اسے، جو جانوروں کے مطابق تھی وہ جانوروں کو عطا فرمائی ' راہ سجھائی ' کا مطلب ہر مخلوق کو اس کی طبعی ضروریات کے مطابق رہن سہن، کھانے پینے اور بود و باش کا طریقہ سمجھا دیا، اس کے مطابق ہر مخلوق کا سامان زندگی فراہم کرتی اور حیات مستعار کے دن گزارتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] فرعون کا سیدنا موسیٰ سے پہلا سوال کہ تمہارا پروردگار کون ہے :۔ جب وہ فرعون کے پاس پہنچے کر ان دونوں بھائیوں نے اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقہ پر اس کی دعوت پیش کی تو فرعون نے جو پہلا سوال یا اعتراض کیا وہ اس کی اپنی دکھتی رگ تھی۔ وہ خود خدائی کا دعوے دار تھا اور لوگوں کو اس نے یہی یقنی دلایا ہوا تھا کہ وہی ان کا پروردگار ہے۔ فرعون بلاشبہ اس بات کا قائل تھا کہ زمین و آسمان اور موجودات کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی سیاسی و قانونی حاکمیت کا وہ منکر تھا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ میرے اوپر کوئی ایسی بالاتر ہستی نہیں جس کا حکم مجھ پر چلتا ہو اور مجھے اس کا حکم ماننا ضروری ہو۔ لہذا اس نے فورا ً یہ سوال کردیا کہ && ایسا تمہارا پروردگار ہے کون ؟ && چونکہ فرعون اللہ تعالیٰ کی توحید و ربوبیت کا قائل تھا، اس لئے سیدنا موسیٰ نے اس کا جواب ہی ایسا دیا جو ربوبیت سے تعلق رکھتا تھا۔ اور وہ جواب یہ تھا کہ میرا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو احسن ایک خاص ساخت عطا کی۔ پھر اس کا وظیفہ بھی اسے سمجھا دیا اور اس کی جبلت میں رکھ دیا۔ اس نے مچھلی پیدا کی تو اسے پانی میں تیرنا بھی سکھلا دیا، پرندے پیدا کئے تو انھیں اڑنا بھی سکھلا دیا۔ بچہ پیدا کیا تو اسے فورا ً ماں کے پستان سے چمٹنا اور دودھ پینے کا طریقہ بھی سکھلا دیا۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کی ایسی رہنمائی نہ کرتا تو اس کے علاوہ کوئی بھی انھیں سکھلا نہیں سکتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ : یعنی صرف یہی نہیں کہ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے، بلکہ اس نے ہر چیز کو پیدا کرتے ہوئے اسے اس کی حسب ضرورت اور حسب حال شکل و صورت عطا فرمائی۔ چلنے والے، اڑنے والے اور تیرنے والے ہر جاندار کو، ہر درخت، پہاڑ اور دریا کو اور زمین و آسمان غرض ہر مخلوق کو ایسی شکل و صورت عطا فرمائی کہ کوئی دوسرا نہ اسے بنا سکتا ہے، نہ کوئی نقص یا عیب نکال سکتا ہے اور نہ اس سے بہتر شکل پیش کرسکتا ہے۔ دیکھیے سورة سجدہ (٧) اور سورة ملک (٣) ۔ ثُمَّ هَدٰى : یعنی اس کے حسب حال شکل و صورت عطا فرما کر اسے زندگی گزارنے اور اپنی بناوٹ سے کام لینے کا راستہ بھی بتایا ہے، چناچہ پرندے کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی دانہ چگنے لگتا ہے، بطخ کا بچہ تیرنے لگتا ہے، جبکہ جانور اور انسان کا بچہ پیدا ہوتے ہی دودھ پینے لگتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ نہ سکھاتا تو کون سکھا سکتا تھا ؟ الغرض اس کائنات میں ہر چیز جو بھی کام کر رہی ہے اس کی دی ہوئی ہدایت اور تعلیم ہی سے کر رہی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا رب تو نہیں بلکہ وہ بزرگ و برتر اللہ ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عموماً وہی دلائل پیش کیے جو ان کے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش کیے تھے۔ دیکھیے سورة شعراء (٢٣ تا ٢٩)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ (who gave everything its shape then guidance 20:50) refers to the guidance of Takwin (تکوینی ھدایت). Sayyidna Musa (علیہ السلام) reminded the Pharaoh, at the first place, of those acts of Allah Ta` ala which are obviously done by Him alone and about which no one else could claim that he has performed them. The Pharaoh totally unable to refute this argument, and in his confusion asked Sayyidna Musa (علیہ السلام) a question which was designed to entangle him into giving a reply that would greatly offend the Egyptians. The question was: how did the people of bygone ages stand who all worshipped idols, and what was their fate? The Pharaoh&s purpose was that if Sayyidna Musa (علیہ السلام) replied (as the Pharaoh surmised he would) that they were all misguided and deserving of Hell, then he could instigate his people against the latter. But the reply which Sayyidna Musa (علیہ السلام) gave was so wise and discreet that the Pharaoh&s evil design was completely frustrated.

اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى میں پہلی ہی قسم کی ہدایت مذکور ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو سب سے پہلے رب العالمین کا وہ کام بتلایا جو ساری مخلوق پر حاوی ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام ہم نے یا کسی دوسرے انسان نے کیا ہے۔ فرعون اس کا تو کوئی جواب نہ دے سکا اب ادھر ادھر کی باتوں میں ٹلایا اور ایک سوال موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا کہ جس کا حقیقی جواب عوام سنیں تو موسیٰ (علیہ السلام) سے بدگمان ہوجائیں وہ یہ کہ پچھلے دور کی تمام امتیں اور اقوام عالم جو بتوں کی پرستش کرتے رہے آپ کے نزدیک ان کا کیا حکم ہے وہ کیسے ہیں ان کا انجام کیا ہوا ؟ مقصد یہ تھا کہ اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے کہ یہ سب وہ کیسے ہیں ان کا انجام کیا ہوا ؟ مقصد یہ تھا کہ اس کے جواب میں موسیٰ ٰعلیہ السلام فرمائیں گے کہ یہ سب گمراہ اور جہنمی ہیں تو مجھے یہ کہنے کا موقع ملے گا لو یہ ساری دنیا ہی کو بیوقوف گمراہ اور جہنمی سمجھتے ہیں اور لوگ یہ سن کر ان سے بدگمان ہوں گے تو ہمارا مقصد پورا ہوجائے گا مگر پیغمبر خدا موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کا ایسا حکیمانہ جواب دیا جس سے اس کا یہ منصوبہ غلط ہوگیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰى۝ ٥٠ عطا العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء : الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص/ 39] ( ع ط و ) العطوا ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی ) ” یعنی اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو ایک خاص شکل اور ہیئت کے مطابق تخلیق کیا ہے اور پھر ہر مخلوق کی خلقت کے عین مطابق اسے جبلی ہدایت بھی عطا کی ہے۔ مثلاً اس نے بکری کو جبلی ہدایت دی ہے کہ اس کی غذا گوشت نہیں ہے ‘ گھاس وغیرہ ہے اور شیر کو جبلی ہدایت دی ہے کہ اس کی غذا گھاس نہیں ‘ گوشت ہے ‘ اسی طرح ہرچیز کو جبلی طور پر اس نے مخصوص عادات واطوار اور خصوصیات کا پابند کردیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22. That is, we acknowledge Him alone as our Lord in every sense. He is our Sustainer, our Maker, our Master, our Sovereign and is Supreme in everything, and there is no other lord in any sense but Him. 23. This concise sentence needs serious attention. It means that it is Allah alone Who has created everything and given it its distinctive structure, form, capabilities, characteristics, etc. (1) For instance, man has been given the hands and feet which are given the most appropriate structure that was needed for their right functioning. (2) A human being, an animal, a plant, mineral and the like, air, water and light, everything has been given that particular form which was needed for its right functioning in the universe. (3) Then He has guided everything aright to function properly. It is He Who has taught everything the way to fulfill that object for which it has been created. He has taught the ear to hear and the eye to see, the fish to swim and the bird to fly; the earth to grow vegetation and the tree to blossom and bear fruit. In short, He is not only the Creator of everything but also its Guide and Teacher. Prophet Moses (peace be upon him) employed this concise and meaningful sentence to convey the message to Pharaoh and his people. He not only gave a suitable reply to Pharaoh as to who his Lord was, but also told him why He was his Lord, and how there was no other lord but God. The argument implied in it was this: As Pharaoh and every one of his subjects was obliged to Allah for his human form and could not live even for a moment without the functioning of the different parts of his body which were performing their functions in accordance with the guidance of Allah, so Pharaoh’s claim that he was the lord of the people was absurd, and its acknowledgment by his people that he was their lord, a folly. Besides this, Prophet Moses (peace be upon him) also hinted at the need of Prophethood which was denied by Pharaoh. When Allah guides everything in the universe, He has also to fulfill the need of the guidance of mankind. Whereas the guidance of the animals and birds has been provided by instinct, the guidance of rational human beings has been provided by sending Messengers who appealed to them by rational arguments.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :22 یعنی ہم ہر معنی میں صرف اس کو رب مانتے ہیں ۔ پروردگار ، آقا ، مالک ، حاکم ، سب کچھ ہمارے نزدیک وہی ہے ۔ کسی معنی میں بھی اس کے سوا کوئی دوسرا رب ہمیں تسلیم نہیں ہے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :23 یعنی دنیا کی ہر شے جیسی کچھ بھی بنی ہوئی ہے ، اسی کے بنانے سے بنی ہے ۔ ہر چیز کو جو بناوٹ ، جو شکل و صورت ، جو قوت و صلاحیت ، اور جو صفت و خاصیت حاصل ہے ، اسی کے عطیے اور بخشش کی بدولت حاصل ہے ۔ ہاتھ کو دنیا میں اپنا کام کرنے کے لیے جس ساخت کی ضرورت تھی وہ اس کو دی ، اور پاؤں کو جو مناسب ترین ساخت درکار تھی وہ اس کو بخشی ۔ انسان ، حیوان ، نباتات ، جمادات ، ہوا ، پانی ، روشنی ، ہر ایک چیز کو اس نے وہ صورت خاص عطا کی ہے جو اسے کائنات میں اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے لیے مطلوب ہے ۔ پھر اس نے ایسا نہیں کیا کہ ہر چیز کو اس کی مخصوص بناوٹ دے کر یونہی چھوڑ دیا ہو ۔ بلکہ اس کے بعد وہی ان سب چیزوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے ۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے اپنی ساخت سے کام لینے اور اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرنے کا طریقہ اس نے نہ سکھایا ہو ۔ کان کو سننا اور آنکھ کو دیکھنا اسی نے سکھایا ہے ۔ مچھلی کو تیرنا اور چڑیا کو اڑنا اسی کی تعلیم سے آیا ہے ۔ درخت کو پھل پھول دینے اور زمین کو نباتات اگانے کی ہدایت اسی نے دی ہے ۔ غرض وہ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا صرف خالق ہی نہیں ، ہادی اور معلم بھی ہے ۔ اس بے نظیر جامع و مختصر جملے میں حضرت موسیٰ نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ان کا رب کون ہے ، بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ وہ کیوں رب ہے اور کس لیے اس کے سوا کسی اور کو رب نہیں مانا جاسکتا ۔ دعوے کے ساتھ اس کی دلیل بھی اسی چھوٹے سے فقرے میں آ گئی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب فرعون اور اس کی رعایا کا ہر فرد اپنے وجود خاص کے لیے اللہ کا ممنون احسن ہے ، اور جب ان میں سے کوئی ایک لمحہ کے لیے زندہ تک نہیں رہ سکتا جب تک اس کا دل اور اس کے پھیپھڑے اور اس کا معدہ و جگر اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے اپنا کام نہ کیے چلے جائیں ، تو فرعون کا یہ دعویٰ کہ وہ لوگوں کا رب ہے ، اور لوگوں کا یہ ماننا کہ وہ واقعی ان کا رب ہے ، ایک حماقت اور ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ۔ مزید براں ، اسی ذرا سے فقرے میں حضرت موسیٰ نے اشارۃً رسالت کی دلیل بھی پیش کردی جس کے ماننے سے فرعون کو انکار تھا ۔ ان کی دلیل میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ خدا جو تمام کائنات کا ہادی ہے ، اور جو ہر چیز کو اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق ہدایت دے رہا ہے ، اس کے عالمگیر منصب ہدایت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کی شعوری زندگی کے لیے بھی رہنمائی کا انتظام کرے ۔ اور انسان کی شعوری زندگی کے لیے رہنمائی کی وہ شکل موزوں نہیں ہو سکتی جو مچھلی اور مرغی کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے ۔ اس کی موزوں ترین شکل یہ ہے کہ ایک ذی شعور انسان اس کی طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہو اور وہ ان کی عقل و شعور کو اپیل کر کے انہیں سیدھا راستہ بتائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: یعنی یہ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور حکمت ہے کہ جس مخلوق کے لیے جو بناوٹ مقرر کردی۔ اس کو اسی کے مطابق کائنات میں اپنی ڈیوٹی بجا لانے کا طریقہ بھی سکھا دیا۔ مثلاً سورج کو کائنات میں روشنی اور حرارت پیدا کرنے کے لیے ایک خاص بناوٹ عطا فرمائی تو اسے یہ طریقہ بھی سکھا دیا کہ وہ کس طرح اپنے نظام شمسی کے ساتھ گردش کرے، اسی طرح ہر جان دار کو یہ سکھا دیا کہ وہ کس طرح چلے، اور کس طرح اپنی غذا حاصل کرے۔ مچھلی کا بچہ پانی میں پیدا ہوتا ہے، اور کسی کے سکھائے بغیر تیرنا شروع کردیتا ہے۔ پرندے ہوا میں اڑنا خود بخود سیکھ لیتے ہیں غرض ہر مخلوق کو اس کی ساخت کے مناسب زندہ رہنے کا طریقہ اللہ تعالیٰ ہی سکھاتے ہیں

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:50) ربنا۔ ای ربی ورب اخی ھرون۔ ہمارا رب یعنی میرا اور میرے بھائی ہارون۔ ہم دونوں کا رب۔ اعطی کل شیء خلقہ۔ کل شیء اور خلقہ دونوں اعطی کے مفعول ہیں۔ خلقہمصدر بمعنی اسم مفعول ہے۔ اور ہُ ضمیر شیء کے لئے ہے۔ (1) اگر کل شیء کو مفعول اول لیا جائے اور خلقہ کو مفعول ثانی۔ تو خلقہ کے معنی ہوں گے ایسی شکل و صورت جو ان فوائد اور منافع کے لئے موزوں اور مناسب ہے جن کے لئے ہر شے کی تخلیق کی گئی۔ مثلاً کان۔ ناک، آنکھ۔ زبان ۔ ہاتھ۔ پائوں وغیرہ کی ساخت اور جسم میں ان کی مناسب وموزوں ترکیب و ترتیب ۔ اس صورت میں جملہ کے معنی ہوں گے : ہر شے کو ایسی شکل و صورت بمعہ جملہ لوازمات بخشی جو اس کے مقصد تخلیق کی تحصیل کے لئے ضروری تھی۔ (2) اگر خلقہ کو مفعول اول لیا جائے اور کل شیء کو مفعول ثانی تو اس صورت میں خلقہ کے معنی ہوں گے۔ اس کی مخلوق اور ہٗ ضمیر کا مرجع ذات الٰہی ہوگی اور جملہ کے معنی ہوں گے اپنی مخلوق کو ہر وہ شیٔ عطا کی جس کی اس کو اس زمین پر زندگی بسر کرنے کے لئے ضرورت تھی ثم ھدی۔ پھر رہنمائی کی۔ یعنی ہر ہستی کو مقصد حیات کی تکمیل کے لئے اس کو اسی طرف لگا دیا۔ اور جملہ قوی واعضاء کا مناسب طریقہ استعمال بھی سمجھا دیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی صرف یہی نہیں کہ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے بلکہ اس نے ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد ایک صورت بھی دی ہے جو اس کے مناسب حال ہے اور اسے زندگی گزارنے اور اپنی بناوٹ سے کام لینے کا راستہ بھی بتایا ہے۔ چناچہ پرندے کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی چگنے لگتا ہے، جانور اور انسان کا بچہ پیدا ہوتے ہی دودھ پینے لگتا ہے۔ الغرض اس کائنات میں ہر چیز جو بھی کام کر رہی ہے اس کی دی ہوئی ہدایت اور تعلیم سے کر رہی ہے حضرت موسیٰ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا رب تو نہیں ہے بلکہ وہ بزرگ و برتر اللہ ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ حضرت موسیٰ نے عموماً ہی دلائل پیش کئے جو حضرت ابراہیم نے پیش کئے تھے۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ پھر ہر مخلوق کو جو کچھ عطا فرمایا اس سے نفع حاصل کرنے کی اسے راہ بتائی اور اسے اپنی بقا اور حد کمال کو پہنچنے کی تدبیر سجھائی ثم ھدی الی طریق الانتفاع والارتفاق بما اعطاہ و عرفہ کیف یتوصل الی بقائہ وکمالہ الخ (روح ج 16 ص 202) بحوالہ ابو السعود) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

50 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے برجستہ جواب دیا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر شئی کو اس کے مناسب اور اس کی استعداد کے موافق شکل و صورت عطا فرمائی پھر اس کی رہنمائی فرمائی اور اس کو راہ بتائی۔ یعنی ہر جاندار کو اس کی استعداد کے موافق ساخت عطا کی پھر ہر قسم کے منافع اور مصالح کے حصول کی سمجھ عطا فرمائی بلکہ زندہ رہین کے اسباب میں اس کی رہنمائی فرمائی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی کھانے پینے کا ہوش دیا بچے کو وہ دودھ پینا نہ سکھائے تو کون سکھا سکے۔