22. That is, we acknowledge Him alone as our Lord in every sense. He is our Sustainer, our Maker, our Master, our Sovereign and is Supreme in everything, and there is no other lord in any sense but Him.
23. This concise sentence needs serious attention. It means that it is Allah alone Who has created everything and given it its distinctive structure, form, capabilities, characteristics, etc.
(1) For instance, man has been given the hands and feet which are given the most appropriate structure that was needed for their right functioning.
(2) A human being, an animal, a plant, mineral and the like, air, water and light, everything has been given that particular form which was needed for its right functioning in the universe.
(3) Then He has guided everything aright to function properly. It is He Who has taught everything the way to fulfill that object for which it has been created. He has taught the ear to hear and the eye to see, the fish to swim and the bird to fly; the earth to grow vegetation and the tree to blossom and bear fruit. In short, He is not only the Creator of everything but also its Guide and Teacher.
Prophet Moses (peace be upon him) employed this concise and meaningful sentence to convey the message to Pharaoh and his people. He not only gave a suitable reply to Pharaoh as to who his Lord was, but also told him why He was his Lord, and how there was no other lord but God. The argument implied in it was this: As Pharaoh and every one of his subjects was obliged to Allah for his human form and could not live even for a moment without the functioning of the different parts of his body which were performing their functions in accordance with the guidance of Allah, so Pharaoh’s claim that he was the lord of the people was absurd, and its acknowledgment by his people that he was their lord, a folly.
Besides this, Prophet Moses (peace be upon him) also hinted at the need of Prophethood which was denied by Pharaoh. When Allah guides everything in the universe, He has also to fulfill the need of the guidance of mankind. Whereas the guidance of the animals and birds has been provided by instinct, the guidance of rational human beings has been provided by sending Messengers who appealed to them by rational arguments.
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :22
یعنی ہم ہر معنی میں صرف اس کو رب مانتے ہیں ۔ پروردگار ، آقا ، مالک ، حاکم ، سب کچھ ہمارے نزدیک وہی ہے ۔ کسی معنی میں بھی اس کے سوا کوئی دوسرا رب ہمیں تسلیم نہیں ہے ۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :23
یعنی دنیا کی ہر شے جیسی کچھ بھی بنی ہوئی ہے ، اسی کے بنانے سے بنی ہے ۔ ہر چیز کو جو بناوٹ ، جو شکل و صورت ، جو قوت و صلاحیت ، اور جو صفت و خاصیت حاصل ہے ، اسی کے عطیے اور بخشش کی بدولت حاصل ہے ۔ ہاتھ کو دنیا میں اپنا کام کرنے کے لیے جس ساخت کی ضرورت تھی وہ اس کو دی ، اور پاؤں کو جو مناسب ترین ساخت درکار تھی وہ اس کو بخشی ۔ انسان ، حیوان ، نباتات ، جمادات ، ہوا ، پانی ، روشنی ، ہر ایک چیز کو اس نے وہ صورت خاص عطا کی ہے جو اسے کائنات میں اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے لیے مطلوب ہے ۔
پھر اس نے ایسا نہیں کیا کہ ہر چیز کو اس کی مخصوص بناوٹ دے کر یونہی چھوڑ دیا ہو ۔ بلکہ اس کے بعد وہی ان سب چیزوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے ۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے اپنی ساخت سے کام لینے اور اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرنے کا طریقہ اس نے نہ سکھایا ہو ۔ کان کو سننا اور آنکھ کو دیکھنا اسی نے سکھایا ہے ۔ مچھلی کو تیرنا اور چڑیا کو اڑنا اسی کی تعلیم سے آیا ہے ۔ درخت کو پھل پھول دینے اور زمین کو نباتات اگانے کی ہدایت اسی نے دی ہے ۔ غرض وہ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا صرف خالق ہی نہیں ، ہادی اور معلم بھی ہے ۔
اس بے نظیر جامع و مختصر جملے میں حضرت موسیٰ نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ان کا رب کون ہے ، بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ وہ کیوں رب ہے اور کس لیے اس کے سوا کسی اور کو رب نہیں مانا جاسکتا ۔ دعوے کے ساتھ اس کی دلیل بھی اسی چھوٹے سے فقرے میں آ گئی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب فرعون اور اس کی رعایا کا ہر فرد اپنے وجود خاص کے لیے اللہ کا ممنون احسن ہے ، اور جب ان میں سے کوئی ایک لمحہ کے لیے زندہ تک نہیں رہ سکتا جب تک اس کا دل اور اس کے پھیپھڑے اور اس کا معدہ و جگر اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے اپنا کام نہ کیے چلے جائیں ، تو فرعون کا یہ دعویٰ کہ وہ لوگوں کا رب ہے ، اور لوگوں کا یہ ماننا کہ وہ واقعی ان کا رب ہے ، ایک حماقت اور ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ۔
مزید براں ، اسی ذرا سے فقرے میں حضرت موسیٰ نے اشارۃً رسالت کی دلیل بھی پیش کردی جس کے ماننے سے فرعون کو انکار تھا ۔ ان کی دلیل میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ خدا جو تمام کائنات کا ہادی ہے ، اور جو ہر چیز کو اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق ہدایت دے رہا ہے ، اس کے عالمگیر منصب ہدایت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کی شعوری زندگی کے لیے بھی رہنمائی کا انتظام کرے ۔ اور انسان کی شعوری زندگی کے لیے رہنمائی کی وہ شکل موزوں نہیں ہو سکتی جو مچھلی اور مرغی کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے ۔ اس کی موزوں ترین شکل یہ ہے کہ ایک ذی شعور انسان اس کی طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہو اور وہ ان کی عقل و شعور کو اپیل کر کے انہیں سیدھا راستہ بتائے ۔