Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 52

سورة طه

قَالَ عِلۡمُہَا عِنۡدَ رَبِّیۡ فِیۡ کِتٰبٍ ۚ لَا یَضِلُّ رَبِّیۡ وَ لَا یَنۡسَی ﴿۫۵۲﴾

[Moses] said, "The knowledge thereof is with my Lord in a record. My Lord neither errs nor forgets."

جواب دیا کہ ان کا علم میرے رب کے ہاں کتاب میں موجود ہے ، نہ تو میرا رب غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ ... (Musa) said: "The knowledge thereof is with my Lord, in a Record. Musa said to him, in response to this, that if they did not worship Allah, then Allah knows precisely what happened to them and He will give them just recompense for their deeds, as is written in Allah's Book (of decrees). This Book is called Al-Lawh Al-Mahfuz (The Preserved Tablet) and it is the Book of Deeds. ... لاَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلاَ يَنسَى My Lord neither errs nor forgets. This means that nothing eludes Him and He does not miss anything, whether it is small or great. He does not forget anything and His Most Exalted knowledge is described as encompassing everything. Blessed be He, the Exalted, the Most Holy and free of any imperfections. The knowledge that creatures have has two deficiencies. The first is that it does not completely encompass anything, and the second is that the creature is prone to forget after knowing. Therefore, Allah has declared Himself above such deficiencies.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا، ان کا علم نہ تجھے ہے نہ مجھے۔ البتہ ان کا علم میرے رب کو ہے، جو اس کے پاس کتاب میں موجود ہے وہ اس کے مطابق جزا و سزا دے گا، پھر اس کا علم اس طرح ہر چیز کو محیط ہے کہ اس کی نظر سے کوئی چھوٹی بڑی چیز اوجھل نہیں ہوسکتی، نہ اسے بھول ہی لا حق ہوسکتی ہے۔ جب کہ مخلوق کے علم میں دونوں نقص موجود ہیں۔ ایک تو ان کا علم محیط کل نہیں، بلکہ ناقص ہے۔ دوسرے، علم کے بعد وہ بھول بھی سکتے ہیں، میرا رب ان دونوں نقصوں سے پاک ہے۔ آگے، رب کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] اگر فرعون کے اس سوال کا جواب موسیٰ (علیہ السلام) یوں دیتے کہ وہ سب کے سب گمراہ تھے اور انھیں دوزخ کا عذاب ہوگا۔ تو اگرچہ یہ جواب صحیح تھا مگر فرعون کے سارے درباری غصہ سے بھڑک اٹھتے اور فورا ً ان دونوں کے خلاف متحد ہوجاتے اور فرعون اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا۔ مگر موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب ایسا حکیمانہ دیا جو مبنی درحقیقت بھی تھا اور کسی کے تعصبانہ جذبات کو ٹھیس بھی نہ پہنچی تھی۔ آپ نے واضح الفاظ میں جواب دیا کہ جو لوگ گزر چکے ہیں ان کے حالات جاننے کی ہمیں ضرورت نہیں وہ جانیں اور ان کا پروردگار جانے۔ ہمیں صرف اپنی فکر کرنا چاہئے۔ کہ ہم کون سا طرز زندگی اختیار کرتے ہیں اور ہمارا انجام کیسا ہوگا۔ [٣٥] اللہ سے بھول چوک ناممکن ہے :۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو پیدا کرنے کے سلسلے میں ان کی ہدایت کا جو قانون بنایا ہے نہ اس میں وہ بھولتا یا چوکتا ہے اور نہ کسی کو اس کے اچھے یا برے اعمال کی جزا و سزا دینے میں۔ قرآن کے اس مقام پر سیدنا موسیٰ کا ذکر ختم کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں فرعون اور سیدنا موسیٰ کا پہلا مکالمہ ختم ہو رہا ہے اور آگے چند آیات میں جو دلائل توحید دیئے جارہے ہیں اور پندو نصائح پیش کئے جارہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور سب لوگوں کے لئے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ : یعنی مجھے ان کے حال سے کوئی بحث نہیں۔ وہ اپنے اس رب کے پاس پہنچ گئے جس کے پاس ان کے تمام اعمال اور نیتوں کا ریکارڈ موجود ہے، جیسے ان کے اعمال ہوں گے ویسا ہی بدلہ ان کو مل جائے گا۔ ہمیں فکر اپنے حال کی ہونی چاہیے کہ ہم کس طرح اپنے آپ کو عذاب کا مستحق ہونے سے بچا سکتے ہیں ؟ یہ نہایت ہی حکیمانہ جواب ہے، جو صحیح بھی ہے اور اس سے فرعون بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔ فِيْ كِتٰبٍ ۚ لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَلَا يَنْسَى : چونکہ لکھی ہوئی بات زیادہ معتبر سمجھی جاتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر حجت تمام کرنے کے لیے کراماً کاتبین مقرر فرمائے، جو ہر ایک کی کتاب تیار کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی آگاہ فرما دیا کہ کتاب میں لکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ غلطی یا بھول سے بچنے کے لیے لکھنے کا محتاج ہے، نہیں ! بلکہ اللہ تعالیٰ ہر نقص کی طرح ان دونوں نقصوں سے بھی پاک ہے۔ اس میں ایک چوٹ بھی ہے، کیونکہ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ ہر چیز کا خالق و ہادی نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے، دراصل یہ فرعون سے کہا جا رہا ہے کہ تو، جس کی سرشت میں بھٹکنا اور بھولنا رکھ دیا گیا ہے، کیا تجھے رب اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے حیا نہیں آئی ؟ سبحان اللہ ؂ بت کریں آرزو خدائی کی شان ہے تیری کبریائی کی

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Verse 51 tells us that the Pharaoh had asked the question regarding the end of earlier people. If Sayyidna Musa (علیہ السلام) had given a straightforward answer that they were misled and will go to Jahannam, then the Pharaoh would have got a chance to scorn that it was not just him whom Sayyidna Musa (علیہ السلام) was blaming but all their ancestors as well. Naturally such a situation would have created doubts in the minds of people. Therefore Sayyidna Musa (علیہ السلام) gave such an answer which was full of wisdom and did not give any chance to the Pharaoh for misleading the people. He said (as mentioned in verse 52) that only Allah knows their end. He never makes a mistake nor does He forget things. The words |"My Lord does neither err|" mean that it is inconceivable that Allah wills one thing and something different should happen.

معارف ومسائل قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ فِيْ كِتٰبٍ ۚ لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَلَا يَنْسَى، فرعون نے پچھلی امتوں کے انجام کا سوال کیا تھا اگر اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) ان کے گمراہ اور جہنمی ہونے کا صاف طور سے اظہار کرتے تو فرعون کو موقع اس طعن کا مل جاتا کہ یہ تو صرف ہمیں ہی نہیں ساری دنیا کو گمراہ جہنمی سمجھتے ہیں اور عوام اس سے شبہ میں پڑجاتے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا حکیمانہ جواب دیا کہ بات بھی پوری آگئی اور فرعون کو بہکانے کا موقع نہ ملا۔ فرمایا کہ ان کا علم میرے رب کے پاس ہے کہ ان کا کیا انجام ہوگا، میرا رب نہ غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے۔ غلطی کرنے سے مراد یہ ہے کہ کرنا کچھ چاہے ہوجائے کچھ اور بھولنے کا مطلب ظاہر ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّيْ فِيْ كِتٰبٍ۝ ٠ۚ لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَلَا يَنْسَى۝ ٥٢ۡ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ كتب) حكم) قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة/ 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد/ 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران/ 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتٰبٍج لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسَی ) ” میرا رب ہی جانتا ہے کہ ایسے لوگ جن کے پاس اللہ کی طرف سے دعوت لے کر کوئی رسول نہیں آیا ‘ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ میرا رب ان تمام لوگوں کے حالات سے خوب واقف ہے ‘ نہ تو اس سے غلطی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ بھولتا ہے۔ چناچہ ان کے بارے میں وہ خود ہی مناسب فیصلہ کرے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کے درباریوں کو یہ مسکت جواب دینے کے بعد اپنی تقریر جاری رکھی :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25. This answer is full of wisdom. If Prophet Moses (peace be upon him) had said: Yes, they all lacked common sense and had gone astray and would become the fuel of Hell, this answer, though true, would have served the very purpose Pharaoh had in mind in putting the question. But the answer given by the Prophet was true and it frustrated the trick of Pharaoh as well. His answer was to this effect: Well, those people have now gone before their Lord, and I have no means of judging their deeds and intentions. However, their whole record is safe and secure with Allah, and nothing can escape Him. Allah alone knows how to deal with them. What concerns you and me is our own position and attitude to life. We should be more concerned about our own end than of those who have already passed away into Allah’s presence.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :25 یہ ایک نہایت ہی حکیمانہ جواب ہے جو حضرت موسیٰ نے اس وقت دیا اور اس سے حکمت تبلیغ کا ایک بہترین سبق حاصل ہوتا ہے ۔ فرعون کا مقصد ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، سامعین کے ، اور ان کے توسط سے پوری قوم کے دلوں میں تعصب کی آگ بھڑکانا تھا ۔ اگر حضرت موسیٰ کہتے کہ ہاں وہ سب جاہل اور گمراہ تھے اور سب کے سب جہنم کا ایندھن بنیں گے تو چاہے یہ حق گوئی کا بڑا زبردست نمونہ ہوتا ، مگر یہ جواب حضرت موسیٰ کے بجائے فرعون کے مقصد کی زیادہ خدمت انجام دیتا ۔ اس لیے آنجناب نے کمال دانائی کے ساتھ ایسا جواب دیا جو بجائے خود حق بھی تھا ، اور ساتھ ساتھ اس نے فرعون کے زہریلے دانت بھی توڑ دیے ۔ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ جیسے کچھ بھی تھے ، اپنا کام کر کے خدا کے ہاں جا چکے ہیں ۔ میرے پاس ان کے اعمال اور ان کی نیتوں کو جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان کے بارے میں کوئی حکم لگاؤں ۔ ان کا پورا ریکارڈ اللہ کے پاس محفوظ ہے ۔ ان کی ایک ایک حرکت اور اس کے محرکات کو خدا جانتا ہے ۔ نہ خدا کی نگاہ سے کوئی چیز بچی رہ گئی ہے اور نہ اس کے حافظہ سے کوئی شے محو ہوئی ہے ۔ ان سے جو کچھ بھی معاملہ خدا کو کرنا ہے اس کو وہی جانتا ہے ۔ مجھے اور تمہیں یہ فکر نہیں ہونی چاہیے کہ ان کا موقف کیا تھا اور ان کا انجام کیا ہو گا ۔ ہمیں تو اس کی فکر ہونی چاہیے کہ ہمارا موقف کیا ہے اور ہمیں کس انجام سے دو چار ہونا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:52) فی کتب۔ ای فی اللوح۔ یعنی لوح محفوظ میں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی مجھے ان کے حال سے کوئی بحث نہیں ہے وہ اپنے رب کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ اس کے پاس ان کے تمام اعمال اور نیتوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ جیسے ان کے اعمال ہوں گے ویسا ہی بدلہ ان کو مل جائے گا۔ ہمیں فکر اپنے حال کی ہونی چاہیے کہ ہم کیونکر اپنے آپ کو مستحق عذاب ہونے سے بچا سکتے ہیں ؟ یہ نہایت ہی حکیمانہ جواب ہے جو صحیح بھی ہے اور اس سے فرعون اپنے مقصد میں بھی کامیاب نہ ہوسکا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ پس ان کے اعمال کا صحیح صحیح علم اس کو حاصل ہے، مگر عذاب کے لئے وقت مقرر کر رکھا ہے، جب وہ وقت آوے گا وہ عذاب ان پر جاری کردیا جاوے گا، پس دنیا میں عذاب نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کفر و تکذیب علت عذاب کی نہ ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال علمھا ……ینسی (٢٥) فرعون کے اس دوسرے سوال کو موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ پر چھوڑ دیا کیونکہ اس کا تعلق زمانہ ماقبل سے تھا۔ جو اب کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں اللہ خوب جانتا ہے ، وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور وہ کبھی بھولتا بھی نہیں۔ وہی ہے جو تمام زمانوں کی بات جانتا ہے ، ماضی ہو یا مستقبل ہو ، غیب بھی اللہ جانتا ہے اور اپنے بندوں کے بارے میں احکام بھی اللہ صادر کرے گا۔ ان سوالات کے جوابات کے بعد حضرت موسیٰ فرعون کے سامنے اللہ کا مزید تعارف کراتے ہیں کہ وہ اس کائنات کا مدبر ہے ، تمام انسانوں پر اس کی نعمتیں کیا کیا ہیں ، چناچہ کائنات اور مصری ماحول کے بعض اہم شواہد پیش کئے جاتے ہیں ، کیونکہ مصری سر زمین ایک سرسبز و شاداب زمین تھی۔ پانی وہاں وافر تھا اور فصل اور مویشی بکثرت تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

52 موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ان سب کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس دفتر میں موجود ہے میرا پروردگار نہ غلطی کرتا ہے اور نہ وہ بھولتا ہے۔ یعنی ان کا تفصیلی علم پیغمبر کو جاننا ضروری نہیں ان سب کے اعمال اور ان اعمال کے انجام کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس لوح محفوظ میں یا ان لوگوں کے دفتر حساب میں محفوظ ہے جن کو دنیا میں عذاب کیا گیا اور جن کو عذاب نہیں کیا گیا وہ سب اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہونے والے ہیں اور ان کو ان کے اعمال کے موافق سزا ملنے والی ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں فرعون شاید دہری مزاج تھا آدمیوں کی پیدائش سمجھتا تھا جیسے برسات کا سبزہ تو اول کسی نے پیدا کیا آپ ہی پیدا ہوگیا نہ آخر باقی رہا گل کر مٹی ہوگیا جب سنا کہ سب کے سر پر ایک رب ہے تب یہ پوچھا کہ اگلی خلق کہاں گئی بتایا کہ ان کا حساب لکھا ہوا موجود ہے ایک ایک آدمی پھر حاضر ہوگا۔ 12