Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 53

سورة طه

الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ مَہۡدًا وَّ سَلَکَ لَکُمۡ فِیۡہَا سُبُلًا وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ؕ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡ نَّبَاتٍ شَتّٰی ﴿۵۳﴾

[It is He] who has made for you the earth as a bed [spread out] and inserted therein for you roadways and sent down from the sky, rain and produced thereby categories of various plants.

اسی نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا ہے اور اس میں تمہارے چلنے کے لئے راستے بنائے ہیں اور آسمان سے پانی بھی وہی برساتا ہے ، پھر اس برسات کی وجہ سے مختلف قسم کی پیداوار بھی ہم ہی پیدا کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Completion of Musa's Reply to Fir`awn This is from the completion of Musa's speech concerning the description of His Lord when Fir`awn asked him about Him. He (Musa) said, الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى (He Who gave to each thing its form and nature, then guided it aright). Then, Fir`awn attempted to present some argumentative rebuttal during Musa's reply. Yet, Musa continued by saying, الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الاَْرْضَ مَهْدًا ... Who has made earth for you like a bed; "He is the One Who made the earth as a bed for you." Some recited the word as Mihadan and others recited it as Mahdan, which means `a place of rest that you settle down upon.' It also may mean `that which you stand upon, sleep upon or travel upon its back.' ... وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلً ... and has opened ways for you therein. This means, `He made roads for you to walk upon their shoulders.' This is just as He, the Exalted, said, وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجاً سُبُلً لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ And placed therein broad highways for them to pass through, that they may be guided. (21:31) ... وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّن نَّبَاتٍ شَتَّى and has sent down water from the sky. And We have brought forth with it various kinds of vegetation. referring to the various species of plants, such as vegetation and fruits. Some are sour, some are sweet, some are bitter and there are other kinds as well.

اللہ رب العزت کا تعارف ۔ موسیٰ علیہ السلام فرعون کے سوال کے جواب میں اوصاف الٰہی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسی اللہ نے زمین کو لوگوں کے لئے فرش بنایا ہے ۔ مھدا کی دوسری قرأت مھادا ہے ۔ زمین کو اللہ تعالیٰ نے بطور فرش کے بنا دیا ہے کہ تم اس پر قرار کئے ہوئے ہو ، اسی پر سوتے بیٹھتے رہتے سہتے ہو ۔ اس نے زمین میں تمہارے چلنے پھرنے اور سفر کرنے کے لئے راہیں بنا دی ہیں تاکہ تم راستہ نہ بھولو اور منزل مقصود تک بہ آسانی پہنچ سکو ۔ وہی آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کی پیداوار اگاتا ہے ۔ کھیتیاں باغات میوے قسم قسم کے ذائقے دار کہ تم خود کھالو اور اپنے جانوروں کو چارہ بھی دو ۔ تمہارا کھانا اور میوے تمہارے جانوروں کا چارا خشک اور تر سب اسی سے اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے ۔ جن کی عقلیں صحیح سالم ہیں ان کے لئے تو قدرت کی یہ تمام نشانیاں دلیل ہیں ۔ اللہ کی الوہیت ، اس کی وحدانیت اور اس کے وجود پر ۔ اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا فرمایا ہے ۔ تمہاری ابتدا اسی سے ہے ۔ اس لئے کہ تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اسی سے ہوئی ہے ۔ اسی میں تمہیں پھر لوٹنا ہے ، مر کر اسی میں دفن ہونا ہے ، اسی سے پھر قیامت کے دن کھڑے کئے جاؤ گے ۔ ہماری پکار پر ہماری تعریفیں کرتے ہوئے اٹھو گے اور یقین کر لو گے کہ تم بہت ہی تھوڑی دیر رہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اسی زمین پر تمہاری زندگی گزرے گی مر کر بھی اسی میں جاؤ گے پھر اسی میں سے نکالے جاؤ گے ۔ سنن کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کے دفن کے بعد اس کی قبر پر مٹی ڈالتے ہوئے پہلی بار فرمایا ( مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ 55؁ ) 20-طه:55 ) دوسری لپ ڈالتے ہوئے فرمایا ( وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ 55؁ ) 20-طه:55 ) تیسری بار فرمایا ( وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى 55؁ ) 20-طه:55 ) ۔ الغرض فرعون کے سامنے دلیلیں آ چکیں ، اس نے معجزے اور نشان دیکھ لئے لیکن سب کا انکار اور تکذیب کرتا رہا ، کفر سرکشی ضد اور تکبر سے باز نہ آیا ۔ جیسے فرمان ہے یعنی باوجود یہ کہ ان کے دلوں میں یقین ہو چکا تھا لیکن تاہم ازراہ ظلم و زیادتی انکار سے باز نہ آئے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا ۔۔ : یہ دونوں آیات موسیٰ (علیہ السلام) کا کلام بھی ہوسکتی ہیں، جسے نقل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے زمین سے مختلف نباتات نکالنے کا ذکر آنے پر اپنے لیے غائب کے صیغوں کے بعد جمع متکلم کا صیغہ استعمال فرما دیا، یعنی ” فَاَخْرَجْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا “ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا کلام ” وَلَایَنْسیٰ “ پر ختم ہوگیا ہو اور ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مقام کی مناسبت سے اپنی مزید نعمتیں بیان فرمائی ہوں۔ اس صورت میں بھی اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنا ذکر غائب کے صیغے سے فرمایا اور ” فَاَخْرَجْنَا “ میں اپنی عظمت کے اظہار کے لیے جمع متکلم کا صیغہ استعمال فرمایا۔ ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار نعمتیں ذکر فرمائی ہیں، پہلی نعمت زمین کو انسان کے لیے بچھونا بنانا۔ اس کا ذکر کئی آیات میں فرمایا۔ دیکھیے سورة زخرف (٩، ١٠) ، سورة نبا (٦) ، ذاریات (٤٨) اور رعد (٣) وغیرہ۔ دوسری نعمت زمین میں راستے بنانا سکھایا۔ دیکھیے سورة زخرف (٩) ، انبیاء (٣١) ، نوح (١٩) اور نحل (١٥) تیسری نعمت آسمان سے پانی اتارنا، اس کا ذکر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں ہے۔ چوتھی نعمت بنی آدم اور ان کے مویشیوں کے لیے بیشمار قسم کی کھانے اور استعمال کی چیزیں اگانا۔ دیکھیے سورة سجدہ (٢٧) ، نازعات (٣١ تا ٣٣) ، عبس (٢٥ تا ٣٢) اور سورة نحل (١٠) ۔ (شنقیطی) ” شَتّٰی “ ” شَتِیْتٌ“ کی جمع ہے، مختلف، جیسا کہ ” مَرِیْضٌ“ کی جمع ” مَرْضٰی “ ہے۔ ” النُّھٰی “ ” نُھْیَۃٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی عقل ہے، کیونکہ عقل انسان کو نامناسب کاموں سے منع کرتی ہے۔ ” نَھٰی یَنْھٰی “ کا معنی ہے منع کرنا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word ازواج (pairs) used in verse 53 is used here in the sense of |"Kinds|" or |"Species|", and the word is the plural of the word which means |"different|" or |"diverse|". The verse means that Allah has created so many kinds of plants that they are beyond human reckoning and each of them contains special properties which make them invaluable to man for his well-being. It is impossible for man to comprehend completely all the properties and uses of all the plants created by Allah Ta` ala. For centuries scientists have been working to find out all about them and researches have revealed a great deal about their properties. However it is impossible to claim that whatever we know at present is the last word.

اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى، ازواج بمعنے انواع و اصناف ہے اور شتی شتیت کی جمع ہے جس کے معنی ہیں متفرق۔ مراد یہ ہے کہ نباتات کی اتنی بیشمار قسمیں پیدا فرمائیں کہ ان کی قسموں کا احاطہ بھی انسان نہیں کرسکتا۔ پھر ہر نبات جڑی، بوٹی، پھول، پھل، درخت کی چھال میں اللہ تعالیٰ نے ایسی ایسی خاصیتیں رکھی ہیں کہ علم طب اور ڈاکٹری کے ماہرین حیران ہیں اور ہزاروں سال سے اس کی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہونے کے باوجود یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کے متعلق جو کچھ لکھ دیا گیا ہے وہ حرف آخر ہے اور یہ ساری نباتات کی مختلف قسمیں انسان اور اس کے پالتو جانوروں اور جنگلی جانوروں کی غذا یا دوا ہوتی ہیں، ان کی لکڑی سے انسان مکانوں کی تعمیر میں کام لیتا ہے اور گھریلو سامان استعمال کی ہزاروں قسمیں بناتا ہے ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ ،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَہْدًا وَّسَلَكَ لَكُمْ فِيْہَا سُـبُلًا وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝ ٠ۭ فَاَخْرَجْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى۝ ٥٣ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ مهد المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] ، ومِهاداً [ النبأ/ 6] م ھ د ) المھد ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا : سلك السُّلُوكُ : النّفاذ في الطّريق، يقال : سَلَكْتُ الطّريق، وسَلَكْتُ كذا في طریقه، قال تعالی: لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح/ 20] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل/ 69] ، يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن/ 27] ، وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه/ 53] ، ومن الثاني قوله : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر/ 42] ، وقوله : كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر/ 12] ، كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء/ 200] ، فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون/ 27] ، يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن/ 17] . قال بعضهم : سَلَكْتُ فلانا طریقا، فجعل عذابا مفعولا ثانیا، وقیل : ( عذابا) هو مصدر لفعل محذوف، كأنه قيل : نعذّبه به عذابا، والطّعنة السُّلْكَةُ : تلقاء وجهك، والسُّلْكَةُ : الأنثی من ولد الحجل، والذّكر : السُّلَكُ. ( س ل ک ) السلوک ( ن ) اس کے اصل بمعنی راستہ پر چلنے کے ہیں ۔ جیسے سکت الطریق اور یہ فعل متعدی بن کر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی راستہ پر چلانا چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح/ 20] تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں میں چلو پھرو ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل/ 69] اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن/ 27] اور اس کے آگے مقرر کردیتا ہے ۔ وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه/ 53] اور اس میں تمہارے لئے رستے جاری کئے ۔ اور دوسری معنی متعدی کے متعلق فرمایا : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر/ 42] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ۔ كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر/ 12] اس طرح ہم اس ( تکذیب و ضلال ) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کردیتے ہیں ۔ كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء/ 200] اسی طرح ہم نے انکار کو داخل کردیا ۔ فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون/ 27] کشتی میں بٹھالو ۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن/ 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا ۔ بعض نے سلکت فلانا فی طریقہ کی بجائے سلکت فلانا طریقا کہا ہے اور عذابا کو یسل کہ کا دوسرا مفعول بنایا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ عذابا فعل محذوف کا مصدر ہے اور یہ اصل میں نعذبہ عذابا ہے اور نیزے کی بالکل سامنے کی اور سیدھی ضرف کو طعنۃ سلکۃ کہاجاتا ہے ۔ ( سلکیٰ سیدھا نیزہ ) اور سلکۃ ماده كبک کو کہتے ہیں اس کا مذکر سلک ہے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی مرد اور عورت ۔ نبت النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] ( ن ب ت ) النبت والنبات ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ شتت الشَّتُّ : تفریق الشّعب، يقال : شَتَّ جمعهم شَتّاً وشَتَاتاً ، وجاؤوا أَشْتَاتاً ، أي : متفرّقي النّظام، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، وقال : مِنْ نَباتٍ شَتَّى[ طه/ 53] ، أي : مختلفة الأنواع، وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى [ الحشر/ 14] ، أي : هم بخلاف من وصفهم بقوله : وَلكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ [ الأنفال/ 63] . و ( شَتَّانَ ) : اسم فعل، نحو : وشکان، يقال : شتّان ما هما، وشتّان ما بينهما : إذا أخبرت عن ارتفاع الالتئام بينهما . ( ش ت ت ) الشت کے معنی قبیلہ کو متفرق کرنے کے ہیں محاورہ ہے ۔ شت جمعھم شتا وشتاتا ان کی جمیعت متفرق ہوگئی ۔ جاؤا اشتاتا وہ پر اگندہ حالت میں آئے قرآن میں ہے : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہوکر آئیں گے ۔ مِنْ نَباتٍ شَتَّى[ طه/ 53] ( یعنی انواع ( وہ اقسام ) کی مختلف روئیدگی پید اکیں ۔ وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى [ الحشر/ 14]( مگر) ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں ۔ یعنی ان کی حالت مسلمانوں کی حالت کے برعکس ہے جن کے متعلق فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ [ الأنفال/ 63] مگر خدا ہی نے ان میں الفت ڈال دی ۔ شتان یہ اسم فعل وزن وشگان ہے ۔ محاورہ ہے ؛۔ شتان ما ھما وشتان ما بینھما ان دونوں میں کس قدر بعد اور تفاوت ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣) اور وہ ایسا ہے جس نے تم لوگوں کے لیے زمین کو فرش بنایا اور اس میں تمہاری آمد و رفت کے لیے راستے بنائے کہ تم ان پر سے آتے جاتے رہتے ہو اور آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس پانی کے ذریعے سے مختلف شکلوں کے نباتات پیدا کیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26. It is quite obvious that (Ayats 53-55 )are an addition by Allah to the foregoing answer by Prophet Moses (peace be upon him). There are other instances of this in the Quran that Allah added a few sentences to the speech of someone by way of admonition. Moreover, it is connected not only with the preceding verse but also with the whole reply of Prophet Moses (peace be upon him). (Ayats 50-52).

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :26 انداز کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا جواب نہ بھولتا ہے پر ختم ہو گیا ، اور یہاں سے آخر پیرا گراف تک کی پوری عبارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور شرح و تذکیر ارشاد ہوئی ہے ۔ قرآن میں اس طرح کی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ کسی گزرے ہوئے یا آئندہ پیش آنے والے واقعے کو بیان کرتے ہوئے جب کسی شخص کا کوئی قول نقل کیا جاتا ہے ، تو اس کے بعد متصلاً چند فقرے وعظ و بند ، یا شرح و تفسیر ، یا تفصیل و توضیح کے طور پر مزید ارشاد فرمائے جاتے ہیں اور صرف انداز کلام سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ اس شخص کا قول نہیں ہے جس کا پہلے ذکر ہو رہا تھا ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول ہے ۔ واضح رہے کہ اس عبارت کا تعلق صرف قریب کے فقرے میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے سے ہی نہیں ہے بلکہ حضرت موسیٰ کے پورے کلام سے ہے جو : رَبُّنَا الَّذِئٓ اَعْطٰی کُلَّ شَئءٍ سے شروع ہوا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٣۔ ٥٦:۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی نصیحت میں فقط مینہ کا ذکر کیا تھا اس ذکر کو پورا کرنے کے لیے یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس مینہ سے طرح طرح کا اناج انسان کے کھانے کے لیے اور طرح طرح کا چارہ انسان کے چوپایوں کے لیے ہر سال پیدا ہوتا ہے پھر فرمایا اے بنی آدم اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا اناج خود کھاؤ اور چارا اپنے چوپاؤں کو چراؤ اور یہ یاد رکھو کہ اس ہر سال کے انتظام میں سمجھ دار لوگوں کے لیے اللہ کی قدرت کی یہ نشانیاں ہیں کہ جس طرح اب ایک مینہ کے اثر سے ہر سال مردہ زمین میں سے طرح طرح کا اناج پیدا ہوتا ہے اسی طرح حشر کے دن ایک مینہ کے اثر سے ہر مردہ شخص کی مٹی سے اس کا جسم تیار ہوجائے گا اور جس طرح اب خلاف عقل پانی جیسی پتلی چیز سے ماں کے پیٹ میں بچہ کا پتلا تیار ہو کر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے اسی طرح اس دن ہر مردہ شخص کی مٹی سے جو پتلا تیار ہوگا اس میں روح پھونک دی جائے گی۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں دوسرے صور سے پہلے مینہ کے برسنے اور اس مینہ کی تاثیر سے جسموں کے تیار ہوجانے کا ذکر تفصیل سے ہے ١ ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ جگہ جگہ قرآن شریف میں کھیتی کے ذکر کے ساتھ حشر کا ذکر کس سبب سے آیا ہے سورة قٓ میں آئے گا کہ مرنے کے بعد جنگل دریا میں جہاں جہاں ہر مردہ شخص کی مٹی جائے گی اس کا سب پتہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اس سے ہر مردہ شخص کی مٹی کا جمع ہوجانا اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے ترمذی ابوداؤد اور صحیح ابن حبان کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے ٢ ؎۔ کہ آدم (علیہ السلام) کے پتلے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمام زمین کی تھوڑی تھوڑی سی مٹی لی ہے اسی واسطے بنی آدم میں کوئی گورا ہے کوئی کالا اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ اگرچہ اب بنی آدم کی پیدائش نطفہ سے ہے لیکن اس نطفہ میں آدم (علیہ السلام) کے پتلے کی مٹی کا اثر بھی پشت درپشت چلا آتا ہے اس لیے جس طرح یہاں منھا حلقنا فرمایا اسی طرح قرآن شریف میں اور جگہ بھی بنی آدم کی پیدائش میں مٹی کا ذکر فرمایا ہے آخر کو فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت فرعون کو اللہ کی قدرت کی یہ سب نشانیاں دکھائی اور سمجھائی گئیں لیکن اس نے اللہ کے رسول موسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور اللہ کی قدرت کی ایک نشانی کو بھی نہ مانا جس کا انجام یہ ہوا کہ دنیا میں بڑی ذلت سے وہ ڈوب کر مرگیا اور آخرت میں سخت عذاب بھگتے گا۔ فرعون کی مثال سے قریش کو یہ بات سمجھائی گئی تھی کہ ان میں سے جو لوگ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جھٹلانے سے باز نہ آئیں گے ان کا بھی یہی انجام ہوگا جو فرعون کا ہوا اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے قریش میں کے جو لوگ فرعون کے قدم بقدم چلے بدر کی لڑائی کے وقت ان کا جو کچھ انجام ہوا صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے اس کا ذکر کئی جگہ گزر چکا ہے ٣ ؎۔ اگرچہ بعضے مفسروں نے ان آیتوں کو بھی موسیٰ (علیہ السلام) کا کلام ٹھہرایا ہے لیکن ظاہر یہی ہے کہ منکرین حشر کو جس طرح اور آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے حشر کا حال سمجھایا ہے وہی حالت ان آیتوں کی ہے سو اس واسطے ان آیتوں کو اللہ تعالیٰ کا کلام قرار دینا قرآن شریف کی اکثر آیتوں کے طرح بیان کے موافق ہے۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٤٠٦ ج ٢ باب مابین النفختین۔ ٢ ؎ مثلاص ٢٩١ ج ٣۔ ٣ ؎ مثلا ص ٢٣ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:53) مھدا۔ فرش۔ بچھونا۔ سلک (باب نصر) سلک و سلوک۔ مصدر۔ ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ ۔ یہ لازم ومتعدی ہر دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ وہ راستہ پر چلا۔ اس نے راستہ پر چلایا، پہلے معنی میں قرآن مجید میں آیا ہے لتسلکوا منھا سبلا فجاجا (71:20) تا کہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں پر چلوپھرو۔ اور دوسرے معنی میں یعنی متعدی کے متعلق ارشاد الٰہی ہے :۔ ما سلککم فی سقر (74:42) تمہیں کون سی بات دوزخ میں لے آئی۔ آیت ہذا۔ سلک لکم فیھا سبلا۔ ای ادخل فی الارض لاجلکم طرقا۔ اور تمہارے لئے زمین میں راستے جاری کر دئیے۔ فاخرجنا بہ۔ پھر ہم نے اس کے (پانی کے) ذریعے (شکم زمین سے) پیدا کئے ۔ اس میں فاء سببیہ نہیں ہے بلکہ تعقیب کا ہے کیونکہ سبب اخراج لفظ بہ سے معلوم ہے۔ ف تعقیب کی صورت میں ترجمہ ہوگا۔ پھر ہم نے۔۔ الخ۔ اخرجنا میں التفات ضمائر ہے صیغہ غائب سے یک لخت صیغہ متکلم استعمال کیا گیا ہے۔ یہ عظمت شان کے لئے ہے کہ اس کے حکم سے کسی کو انکار کی جرأت نہیں۔ جس کو جو حکم دیتا ہے وہ بجا لاتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی کئی مثالیں ہیں۔ مثلاً الم تر ان اللہ انزل من السماء ماء فاخرجنا بہ ثمرات مختلفا الوانھا (35:27) ۔ شتی بعض کے نزدیک یہ لفظ مفرد ہے اور بعض نے اس کو شتیت کی جمع لکھا ہے جیسے مریض کی جمع مرضی ہے شتیت طرح طرح۔ جدا جدا۔ مختلف ۔ متفرق پراگندہ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے وتحسبہم جمیعا وقلوبہم شتی (59:14) تو انہیں متفق خیال کرتا ہے حالانکہ ان کے دل متفرق وغیرہ متفق ہیں۔ ازواجا۔ جوڑے۔ ہم مثل چیزیں۔ اقران ۔ زوج کی جمع ہے حیوانات کے جوڑے میں سے نر یا مادہ ہر ایک کو زوج کہتے ہیں اسی طرح غیر حیوانات میں ہر اس شے کو جو دوسری شی کے قرین ہو خواہ مماثل ہو یا متضاد۔ زوج کہتے ہیں۔ ازواجا من نبات شتی۔ ای ازواجا شتی من نبات۔ نباتات میں سے مختلف النوع۔ مماثل یا مقابل جوڑے (پیدا گئے) شتی ازواجا کی صفت ہے :۔ فائدہ۔ آیت ہذا کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ (1) یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قول ماء پر ختم ہوجاتا ہے اور فاخرجنا سے اللہ تعالیٰ خود اپنی قدرت کا ذکر فرماتے ہیں (ضیاء القرآن) ۔ (2) انداز کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب ولا تنسی پر ختم ہوجاتا ہے اور یہاں سے آخر پیراگراف تک پوری عبارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور شرح و تذکیر ارشاد ہوئی ہے۔ مؤخر الذکر زیادہ قریب صحت ہے۔ الذی جعل لکم الارض۔۔ الخ جملہ مستانفہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ لا یضل ربی ولا ینسی سے متعلق نہیں ہے۔ یہ خبر ہے جس کا مبتدا محذوف ہے ای ھو الذی جعل لکم الارض الخ (اضواء البیان)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ کہ اس پر آرام کرتے ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی صفات کا مزید تذکرہ۔ فرعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی گفتگو کا ایک حصہ بیان کرنے کے بعد یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بہترین اسلوب بیان اور کلام کے موقع محل کے مطابق اپنی توحید کے دلائل دیتے ہوئے انسان کو سمجھایا ہے کہ اے انسان اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا۔ پھر اس میں آمد و رفت کے لیے تمہارے لیے راستے بنائے۔ وہی آسمان سے بارش برساتا ہے اور پھر اس بارش کے ساتھ مختلف قسم کے نباتات پیدا کرتا ہے۔ ان کو اگانے کا مقصد یہ ہے کہ خود کھاؤ اور اپنے جانوروں کو کھلاؤ۔ اگر تم عقل سے کام لو تو ان میں تمہارے لیے اپنے رب کو پہچاننے کے بہت سے دلائل ہیں۔ اس فرمان میں توحید کے اس قدر ٹھوس اور سادہ دلائل دیے گئے ہیں جن کا متعصب آدمی کے سوا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ کیونکہ زمین کو فرش بنانے، اس میں راستے نکالنے، آسمان سے بارش برسانے اور اس سے نباتات اگانے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا عمل دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام پر قربان جائیں یہاں اس لیے یہ دلائل دیے گئے ہیں کیونکہ فرعون نے خاص و عوام کا عقیدہ بنا رکھا تھا کہ ملک کی شادابی، خوشحالی اور ترقی میرے وجود کی برکت اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ اسی بنا پر اس نے اپنی قوم کو باطل عقیدہ پر پختہ رکھنے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کہا تھا۔ ” اے میری قوم ! کیا میں مصر کا بلاشرکت غیرے حکمران نہیں ہوں ؟ اور میں نے اپنے پاؤں تلے بھی نہریں جاری کر رکھی ہیں تمہیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ فرعون کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے شہروں میں زیر زمین (Water System) زراعت کے لیے آبپاشی کا منفرد نظام قائم کر رکھا تھا بیشک میں موسیٰ کے مقابلہ میں ہر اعتبار سے بہتر ہوں۔ موسیٰ تو نہ کوئی عزت رکھتا ہے اور نہ ہی صاف گفتگو کرسکتا ہے۔ (الزخرف : ٥٢) یاد رہے یہاں عقل کے لیے ” نُہٰی “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنی ہے ” روکنے والی چیز۔ “ کیونکہ عقل سلیم انسان کو برائی اور بےحیائی سے روکتی ہے اس لیے اس کے لیے ” النُّھٰی “ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ لفظ استعمال فرما کر فرعون اور اس کے ساتھیوں کو بتلایا کہ اگر تمہاری عقل کام کرتی ہے تو تمہیں اپنے باطل عقیدہ اور ظالمانہ رویے سے باز آجا نا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہی لوگوں کے لیے زمین کو فرش بنایا اور راستوں کی رہنمائی کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش برسا کر مختلف قسم کی نباتات پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات، فصلیں اور ہر قسم کا اناج اور پھل اس لیے پیدا کیا تاکہ انسان خود کھائے اور اپنے جانوروں کو کھلائے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کے لیے نباتات میں اس کی قدرت کے بیشمار دلائل ہیں۔ ٥۔ عقل سلیم وہ ہے جو انسان کو ہر قسم کی برائی اور نقصان سے روکے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کس طرح اناج، پھل اور نباتات کو پیدا کرتا ہے : ١۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٢۔ اللہ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون : ١٩) ٣۔ اللہ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (یٰس : ٣٤) ٤۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) ٥۔ اللہ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جو ذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام : ١٤١) ٦۔ تمہارے لیے مسخر کیا نباتات کو زمین پر پھیلاکر، ان کی اقسام مختلف ہیں۔ (النحل : ١٣) ٧۔ انہوں نے کھیتی اور مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا ہے جو اللہ ہی نے پیدا فرمائے ہیں۔ (الانعام : ١٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الذی ……النھی (٣٥) تمام علاقوں میں اور تمام زمانوں میں زمین انسانوں کے لئے ایک گہوارہ رہی ہے۔ ایسا ہی گہوارا جس طرح بچے گا گہوارہ ہوتا ہے ، انسانوں کی حیثیت زمین پر اسی طرح ہے کہ جس طرح ماں کے بچے ہوتے ہیں۔ زمین تمام انسانوں کے لئے ماں ہے۔ زمین کا دامن انہیں پناہ دیتا ہے اور زمین کے پستان سے وہ رزق کھاتے ہیں۔ نیز یہ ان کے لئے برائے آرام ، برائے سیر ، برائے زراعت اور زندگی کی تمام سرگرمیوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ جب سے اللہ نے ہر چیز کو لباس تخلیق پہنایا ہے۔ اس دن سے اس نے اسے ایسا بنایا ہے ، زمین کو بھی اس نے یہ شکل وہیت دی ہے تاکہ ” انسانوں کی زندگی کے لئے صالح ہو۔ کیونکہ اللہ کی اسکیم میں انسان نے یہیں رہنا تھا۔ پھر جب انسان کو پیدا کیا تو اسے بھی ایسا ہی بنایا کہ وہ اس کرئہ ارض پر تخلیق کے لئے تیار ہو ، کیونکہ اللہ نے زمین کو بھی انسانوں کے لئے تیار کیا تھا اور گہوارہ بنایا تھا۔ دونوں مفہوم مہد یعنی تیار کیا اور مہد یعنی گہوارہ متقارب ہیں۔ زمین کا تیار شدہ ہونا یا گہوارہ ہونا جس طرح مصر میں ظاہر ہے دنیا کے کسی دوسرے خطے میں ظاہر نہیں ہے۔ یہ نہایت ہی سرسبز اور زرخیز وادی ہے۔ یہاں کے لوگ ہر کام میں کم محنت کر کے بہت کچھ پاتے ہیں ، زراعت میں باغات وغیرہ ہیں۔ گویا اطفال انسانیت کے لئے یہ نرم اور آرام دہ گہوارہ ہے۔ خالق کائنات جس نے زمین کو گہوارہ بنایا ، اس میں اس نے انسانوں کے لئے راستے بھی بنائے ، آسمانوں سے بارشوں کا انتظام کیا ، بارشوں کے پانیوں سے نہریں اور دریا چلے ، ان میں سے ایک دریائے نیل تھا جو فرعون کے قریب تھا ، اور مصریوں کے لئے بہت اہم پھر نباتات بھی جوڑوں کی شکل میں بنئای اور سر زمین مصر بہترین نمونہ ہے فصلوں کی پیداوار اور مویشیوں کے چرانے کے لئے۔ اللہ کی گہری مشیت کو دیکھیے کہ اللہ نے نباتات میں بھی انسانوں کی طرح نر اور مادہ پیدا کئے جس طرح تمام حیوانات نر و مادہ ہیں۔ تمام زندہ چیزوں میں نر و مادہ کے خلیے ہوتے ہیں اور بعض اوقات نر پودا اور ہوتا ہے اور مادہ پودا اور یوں قوانین قدرت میں ایک ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان فی ذلک لایت الاولی النھی (٠٢ : ٣٥) ” یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لئے۔ “ اس کائنات کا نظام اس قدر سبق آموز ہے کہ جو شخص ذرا بھی معقولیت کے ساتھ اس کا مطالعہ کرے اس میں اسے بیشمار دلائل و نشانات نظر آئیں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَاَخْرَجْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰی) موسیٰ (علیہ السلام) کا بیان ختم ہوا ان کی بات وہیں تک تھی کہ میرے رب نے آسمان سے پانی اتارا پھر اللہ تعالیٰ نے مزید اپنا انعام بیان فرمایا کہ اس پانی کے ذریعہ ہم نے مختلف قسم کے نباتات پیدا کردیئے جن کے رنگ اور مزے اور منافع مختلف ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32:۔ یہ ادخال الٰہی ہے اور ماقبل کے لیے تنویر ہے۔ ” کُلُوْا وَارْعَوْا اَنْعَامَکُمْ “ یہ سارے انعامات اور یہ زمین کی نباتات سب تمہارے استعمال کے لیے ہے۔ خود کھاؤ اور اپنے چوپاؤں کو کھلاؤ۔ ” النُّهی “ نھیۃ کی جمع ہے۔ جس کے معنی عقل کے ہیں۔ یعنی جن لوگوں میں عقل و ہوش کا کچھ مادہ موجود ہے۔ مذکورہ بالا امور میں اللہ کی وحدانیت پر ان کے لیے کھلے دلائل موجود ہیں ان میں غور و فکر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا یقین کامل حاصل ہوجاتا ہے۔ ای لایات کثیرۃ جلیلۃ واضحۃ الدلالۃ علی شئون اللہ تعالیٰ فی ذاتہ و صفاتہ (روح ج 16 ص 207) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

53 وہ پروردگار وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا اور اس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے اور راہیں جاری کیں اور آسمان کی جانب سے پانی نازل فرمایا پھر ہم نے اس پانی کے ذریعہ مختلف انواع و اقسام کی نباتات اگائیں۔