Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 54

سورة طه

کُلُوۡا وَ ارۡعَوۡا اَنۡعَامَکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّہٰی ﴿۵۴﴾٪  11

Eat [therefrom] and pasture your livestock. Indeed, in that are signs for those of intelligence.

تم خود کھاؤ اور اپنے چوپا یوںکو بھی چراؤ کچھ شک نہیں کہ اس میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ ... Eat and pasture your cattle (therein); meaning, `something that is food for you and a palatable fruit for you, and something that is for your cattle as fodder for them, both green and dry.' ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَاتٍ ... Verily, in this are Ayat. This means proofs, signs and evidences. ... لاِّأُوْلِي النُّهَى for men of understanding. meaning those who possess correct and upright intelligence realizing that there is no god worthy of worship except Allah, and there is no true Lord other than Him. مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 یعنی بیشمار اقسام کی پیداوار میں کچھ چیزیں تمہاری خوراک اور لذت اور راحت کا سامان ہیں اور کچھ تمہارے چوپاؤں اور جانوروں کے لئے ہیں۔ 54۔ 2 اُولُو النُّھَیٰ عقل والے۔ عقل کو نُھْبَۃ اور عقلمند کو ذُوْ نُھْیَۃٍ ، اس لئے کہا جاتا ہے کہ بالآخر انہی کی رائے پر معاملہ انتہا پذیر ہوتا ہے، یا اس لئے کہ یہ نفس کو گناہوں سے روکتے ہیں (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦] تمام مخلوق کی روزی کا بندوبست :۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام جاندار مخلوق کی روزی کا خواہ وہ انسان ہوں یا حیوانات ہوں ایسا مستقل اور مستحکم نظام پیدا کردیا ہے جس سے تمام مخلوق کو روزی مہیا ہوتی رہتی ہے۔ اگر بارش کا دیوتا کوئی اور ہوتا اور نباتات کا کوئی دوسرا تو ان میں ہمیشہ کی مطابقت محال تھی۔ اور کچھ عرصہ بعد تمام مخلوق بھوک سے ہی مرجاتی۔ اللہ کا یہ نظام پیداوار اور اس پیداوار کے عوامل، یعنی سورج کی حرارت، ہواؤں کا چلنا، سمندر سے بخارات کا اٹھنا، موزوں موسم میں بارش کا نزول پھر اس سے زمین کا لہلہا اٹھنا ان سب باتوں میں ایسی ہم آہنگی ہے جس سے ہر صاحب بصیرت اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ اس کائنات کی مدبر و منتظم صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The next verse (54) says إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُولِي النُّهَىٰ (Surely, in that there are signs for the people of understanding. (20:54). The word النُّهَىٰ is the plural of نُھیَۃ (nuhyah) which is used in the same sense as عققل (aql: Intelligence) because it enables wise and intelligent persons to avoid harmful acts.

اسی لئے اس کے آخر میں فرمایا اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّهٰى، یعنی اس میں بہت سی نشانیاں حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی ہیں عقل والوں کے لئے۔ نہٰی نُہیَتٌہ کی جمع ہے نہیتہ عقل کو اس لئے کہا جاتا کہ وہ انسان کو برے اور مضر کاموں سے روکتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كُلُوْا وَارْعَوْا اَنْعَامَكُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّہٰى۝ ٥٤ۧ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ رعی الرَّعْيُ في الأصل : حفظ الحیوان، إمّا بغذائه الحافظ لحیاته، وإمّا بذبّ العدوّ عنه . يقال : رَعَيْتُهُ ، أي : حفظته، وأَرْعَيْتُهُ : جعلت له ما يرْعَى. والرِّعْيُ : ما يرعاه، والْمَرْعَى: موضع الرّعي، قال تعالی: كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه/ 54] ، أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاه[ النازعات/ 31] ، وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی/ 4] ، وجعل الرَّعْيُ والرِّعَاءُ للحفظ والسّياسة . قال تعالی: فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید/ 27] ، أي : ما حافظوا عليها حقّ المحافظة . ويسمّى كلّ سائس لنفسه أو لغیره رَاعِياً ، وروي : «كلّكم رَاعٍ ، وكلّكم مسئول عن رَعِيَّتِهِ» «5» قال الشاعر : ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعي «6» وجمع الرّاعي رِعَاءٌ ورُعَاةٌ. ومُرَاعَاةُ الإنسان للأمر : مراقبته إلى ماذا يصير، وماذا منه يكون، ومنه : رَاعَيْتُ النجوم، قال تعالی: لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا [ البقرة/ 104] ، وأَرْعَيْتُهُ سمعي : جعلته راعیا لکلامه، وقیل : أَرْعِنِي سمعَك، ويقال : أَرْعِ علی كذا، فيعدّى بعلی أي : أبق عليه، وحقیقته : أَرْعِهِ مطّلعا عليه . ( ر ع ی ) الرعی ۔ اصل میں حیوان یعنی جاندار چیز کی حفاظت کو کہتے ہیں ۔ خواہ غذا کے ذریعہ ہو جو اسکی زندگی کی حافظ ہے یا اس سے دشمن کو دفع کرنے کے ذریعہ ہو اور رعیتہ کے معنی کسی کی نگرانی کرنے کے ہیں اور ارعیتہ کے معنی ہیں میں نے اسکے سامنے چارا ڈالا اور رعی چارہ یا گھاس کو کہتے ہیں مرعی ( ظرف ) چراگاہ ۔ قرآن میں ہے ۔ كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه/ 54] تم بھی کھاؤ اور اپنے چارپاؤں کو بھی چراؤ ۔ أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاها[ النازعات/ 31] اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا ۔ وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی/ 4] اور جس نے ( خوش نما ) چارہ ( زمین سے ) نکالا ۔ رعی اور رعاء کا لفظ عام طور پر حفاظت اور حسن انتظام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید/ 27] لیکن جیسے اس کی نگہداشت کرنا چاہئے تھی انہوں نے نہ کی ۔ اور ہر وہ آدمی جو دوسروں کا محافظ اور منتظم ہوا اسے راعی کہا جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے ( 157) کلھم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق سوال ہوگا شاعر نے کہا ہے ( السریع ) ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعی اور محکوم قومیں حاکم قوموں کے برابر نہیں ہوسکتیں ۔ اور راعی کی جمع رعاء ورعاۃ آتی ہے ۔ المراعاۃ کسی کام کے انجام پر غور کرنا اور نہ دیکھنا کہ اس سے کیا صادر ہوتا ہے کہا جاتا ہے ۔ راعیت النجوم میں نے ستاروں کے غروب ہونے پر نگاہ رکھی ۔ قرآن میں ہے : لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا[ البقرة/ 104]( مسلمانو پیغمبر سے ) راعنا کہہ کر مت خطاب کیا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو ۔ کہا جاتا ہے : ارعیتہ سمعی ۔ میں نے اس کی بات پر کان لگایا یعنی غور سے اس کی بات کو سنا اسی طرح محاورہ ہے ۔ ارعنی سمعک میری بات سنیے ۔ اور ارع علٰی کذا ۔ کے معنی کسی پر رحم کھانے اور اسکی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ نعم ( جانور) [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . ( ن ع م ) نعام النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ نُّهيَةُ ( عقل) : العقل الناهي عن القبائح . جمعها : نُهًى. قال تعالی: إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِأُولِي النُّهى[ طه/ 54] وتَنْهِيَةُ الوادي حيث ينتهي إليه السّيل، ونَهَاءُ النّهار : ارتفاعه، وطلب الحاجة حتی نُهِيَ عنها . أي : انتهى عن طلبها، ظفر بها أو لم يظفر . النھیۃ ۔ عقل جو انسان کو قبیح باتوں سے روکتی ہو اس کی جمع نھی آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے :إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِأُولِي النُّهى[ طه/ 54] بیشک ان ( باتوں ) میں عقل والوں کے لئے ( بہت سے ) نشانیاں ہیں ۔ تنھیۃ الوادی وادی کا آخری کنارہ جہاں کہ سیلاب رک جاتا ہے ۔ نھایۃ النھار دن کا بلند ہونا ۔ طلب الحاجۃ حتی نھی عنھا ۔ اس نے اپنی حاجت کو طلب کیا حتیٰ کہ اس کی طلب کرنے کے بعد اس سے رک گیا اور اس میں کامیاب ہونا شرط نہیں ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) جن کو اللہ کی اجازت سے تم خود بھی کھاتے ہو اور اپنے مویشی بھی چراتے ہو ان مذکورہ چیزوں میں عقل مندوں کے لیے اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27. That is, those who use their common sense in their search for the truth, find a way to the reality by the help of these signs, which clearly show that the universe has One Lord Who alone is sustaining it, and there is no room here for any other lord.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :27 یعنی جو لوگ عقل سلیم سے کام لے کر جستجوئے حق کرنا چاہتے ہوں وہ ان نشانات کی مدد سے منزل حقیقت تک پہنچنے کا راستہ معلوم کر سکتے ہیں ۔ یہ نشانات ان کو بتا دیں گے کہ اس کائنات کا ایک رب ہے اور ربوبیت ساری کی ساری اسی کی ہے ۔ کسی دوسرے رب کے لیے یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:54) ارعوا۔ تم چرائو۔ رعی مصدر (باب فتح) سے افعل امر جمع مذکر حاضر۔ کا صیغہ ہے رعی کے اصل معنی ہیں حیوان یعنی جاندار چیز کی حفاظت کرنے کے ہیں خواہ غذا کے ذریعہ سے ہو جو اس کی زندگی کی حفاظت ہے۔ خواہ اس سے دشمن کو دفع کرنے کے ذریعہ ہو۔ رعیتہ میں نے اس کی نگرانی کی اور ارعیتہ میں نے اس کے سامنے چارہ ڈالا۔ رعی چارہ یا گھاس۔ راعی۔ چرانے والا۔ نگہبان۔ ارعوا۔ (اپنے چارپائوں کو) چرائو۔ انعامکم۔ مضاف مضاف الیہ۔ اپنے مویشی ۔ نعم کی جمع۔ جس کے اصل معنی تو اونٹ کے ہیں۔ مگر بھیڑ بکری۔ گائے، بھینس پر بھی بولا جاتا ہے لیکن ان کو انعام اس وقت تک نہیں کہیں گے جب تک ان میں اونٹ شامل نہ ہوں۔ النھی۔ جمع ہے اس کی واحد النھیۃ ہے۔ بری باتوں سے روکنے والی عقلیں۔ اولی النھی۔ اصحاب عقل۔ دانشور۔ ذوی العقول۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ان نشانیوں پر غور کر کے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کائنات میں جو انتظامات پائے جاتے ہیں وہ کسی ایسی ہی ذات کی تخلیق کا نتیجہ ہوسکتے ہیں جو اپنی ذات اور صفات و اختیارات میں تنہا ہے نہ کہ کسی ات فاقی حادثہ کا بےہنگم نتیجہ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(کُلُوْا وَ ارْعَوْا اَنْعَامَکُمْ ) ان نباتات میں سے کھاؤ اور اپنے جانوروں کو چراؤ۔ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّھٰی) بلاشبہ ان میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لئے۔ نھی نھیۃ کی جمع ہے جو عقل کے معنی میں آتا ہے عقل کو نھی اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ برائیوں سے روکتی ہے معلوم ہوا کہ جو عقل برائیوں سے نہ روکے وہ عقل نہیں ہے اگرچہ لوگ اسے عقل سمجھتے ہوں۔ خود لفظ عقل بھی اس معنی پر دلالت ہے عقل لغت میں باندھنے کو کہا جاتا ہے اور عقل صاحب عقل کو باندھ کر رکھتی ہے۔ برائیوں سے باز رکھتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

54 اور تم کو اجازت دی کہ اس نباتات میں سے خود بھی کھائو اور اپنے چوپایوں کو بھی چرائو بلاشبہ اہل عقل کے لئے ان امور میں بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی ایسی عام صفات بیان فرمائیں جسے ہر عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے ۔ زمین کو فرش بنایا جس پر رہتے ہو ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کے لئے راستے بنائے آسمان سے پانی برسنے کو بھی ہر شخص دیکھتا ہے اور اس پر پانی کے فوائد بھی واقف ہے۔ حضرت حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اس پانی سے ہم نے مختلف قسم کی نباتات پیدا فرمائیں جس کا عام مشاہدہ سب کرتے ہیں پھر اس پیداوار کے متعلق اجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ جو تمہارے مناسب ہو تم کھائو اور جو مویشیوں کے قابل ہو وہ ان کو کھلا ئو اہل عقل و دانش کے لئے ان امور میں بڑی بڑی نشانیاں اور بڑے بڑے دلائل اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید کے مضمر ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ اللہ کا کلام فرماتا ہے دہریوں کی آنکھ کھولنے کو اس کی تدبیریں اور قدرتیں دیکھ لو اگر عقل ہے تو سمجھ لو گے۔ 12