Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 56

سورة طه

وَ لَقَدۡ اَرَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا کُلَّہَا فَکَذَّبَ وَ اَبٰی ﴿۵۶﴾

And We certainly showed Pharaoh Our signs - all of them - but he denied and refused.

ہم نے اسے اپنی سب نشانیاں دکھا دیں لیکن پھر بھی اس نے جھٹلایا اور انکار کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And indeed We showed him (Fir`awn) all Our Ayat, but he denied and refused. This means that the proofs, signs and evidences were established against Fir`awn and he saw them with his own eyes, but he still denied and rejected them due to his disbelief, abstinence and transgression. This is as Allah, the Exalted, says, وَجَحَدُواْ بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَأ أَنفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوّاً And they belied them wrongfully and arrogantly, though they themselves were convinced thereof. (27:14)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] فرعون سے موسیٰ (علیہ السلام) کی پہلی ملاقات کے بعدیہاں درمیان کے کئی مراحل کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسی دوران موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو اپنی رسالت کی دلیل میں کئی نشانیاں بھی دکھلاویں۔ جن کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے جب ملک پر کوئی آفت نازل ہوتی تو وہ سیدنا موسیٰ سے کہتا کہ اپنے پروردگار سے دعا کرو۔ اگر یہ آفت دور ہوگئی تو ہم تم پر ایمان لے آئیں گے۔ پھر جب سیدنا موسیٰ کی دعا سے وہ آفت دور ہوجاتی۔ تو وہ وعدہ خلافی کرتا اور پھر سے اکڑ جاتا تھا اور ایسا معاملہ کئی بار پیش آتا رہا۔ اور حقیقت یہ تھی کہ فرعون کو سیدنا موسیٰ کی رسالت کا یقین تو ہوچکا تھا مگر وہ اپنے اقتدار سے کسی قیمت پر الگ ہونے کو تیار نہ تھا۔ لہذا ہر بار انکار کردیتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَرَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا كُلَّهَا ۔۔ : یہ آیت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی باہمی گفتگو ذکر کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کو دوبارہ آگے بیان کرنے سے پہلے جملہ معترضہ کے طور پر آئی ہے، یعنی فرعون کفر میں اتنا پکا تھا کہ ہماری تمام نشانیاں دیکھنے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو دل سے سچا سمجھنے کے باوجود ایمان نہیں لایا، حتیٰ کہ اس نے آخری نشانی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی کہ سمندر پھٹ گیا اور اس کے پانی کا ہر حصہ ایک بہت بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل ان راستوں سے بخیریت گزر گئے (شعراء : ٦٣ تا ٦٦) ، اس کے باوجود وہ ایمان نہ لایا، بلکہ اپنے رب ہونے کے جھوٹے دعوے کو سچا ثابت کرنے کے لیے پوری فوج کو لے کر سمندر میں داخل ہو کر غرق ہوا، مگر غرق ہونے سے پہلے تک وہ جھٹلاتا اور انکار ہی کرتا رہا۔ دیکھیے سورة قمر (٤١، ٤٢) اور یونس (٩٠ تا ٩٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَرَيْنٰہُ اٰيٰتِنَا كُلَّہَا فَكَذَّبَ وَاَبٰى۝ ٥٦ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے أبى الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا . قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة/ 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه/ 116] ( اب ی ) الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ { وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ } [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ { وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔{ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ } [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا {إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى } [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦) اور ہم نے اس فرعون کو اپنی نشانیاں یعنی یدبیضاء عصا، طوفان، جراد، قمل، ضفادع، دم، قحط، سالی اور پھلوں کی کمی دکھلائیں مگر اس نے ان تمام نشانیوں کو جھٹلایا اور کہنے لگا کہ یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں اور اسلام لانے سے انکار کیا اور ان نشانیوں کو تسلیم نہیں کیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29. “Signs” comprised those arguments which were based on natural phenomena and human life and those miracles which were given to Prophet Moses (peace be upon him). These arguments are contained in the speeches of Prophet Moses (peace be upon him) which he delivered before Pharaoh, and the miracles which he showed and are mentioned at several places in the Quran.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :29 یعنی آفاق و اَنفُس کے دلائل کی نشانیاں بھی ، اور وہ معجزات بھی جو حضرت موسیٰ کو دیے گئے تھے ۔ قرآن میں متعدد مقامات پر حضرت موسیٰ کی وہ تقریریں بھی موجود ہیں جو انہوں نے فرعون کو سمجھانے کے لیے کیں ۔ اور وہ معجزات بھی مذکور ہیں جو اس کے پے در پے دکھائے گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:56) ارینہ۔ ہم نے اس کو دکھلائیں ہٗ ضمیر کا مرجع فرعون ہے۔ ابی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ اس نے سختی سے انکار کیا۔ اباء مصدر (باب فتح ضرب) ابی یابی۔ وتابی قلوبہم (9:8) اور ان کے دل (ان باتوں کو) قبول نہیں کرتے ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 سب نشانیوں سے مراد نونشانیاں ہیں جو حضرت موسیٰ کو دی گئیں جن کا ذکر سورة اعراف میں گزر چکا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ جو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا ہوئی تھیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

34:۔ رجوع بسوئے اصل موضوع۔ آیات سے معجزات مراد ہیں یا دلائل توحید یہ فرعون کی سرکشی اور اس کے عناد و تمرد کا ذکر ہے کہ ہم نے اسے تمام معجزات دکھا ڈالے اور توحید کے دلائل واضح طور پر پیش کیے مگر وہ ایمان نہ لایا اور انکار پر ڈٹا رہا۔ یعنی اس نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر محض ضد وعناد کی وجہ سے انکار کیا۔ ای المعجزات الدالۃ علی نبوۃ موسیٰ وقیل حجج اللہ الدالۃ علی توحیدہ فکذب وابی۔ ای لم یومن وھذا یدل علی انہ کفر عنادا لانہ رای الایات عیانا لا خبرا (قرطبی ج 11 ص 211) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

56 اور یقینا ہم نے فرعون کو اپنی تمام نشانیاں دکھلا دیں سو وہ پھر بھی جھٹلاتا اور انکار ہی کرتا رہا۔ زمین سے پیدا ہونا زمین میں مل جانا اور قیامت کے دن زمین سے نکل آنا یہ دین حق اور ملت اسلامیہ کا ایسا مسئلہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک ہر پیغمبر نے اس کا ذکر کیا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہر قسم کے معجزات فرعونیوں کو دکھائے لیکن فرعون نہیں مانا اور طرح طرح کی بہانے بازیاں کرتا رہا اور اعجاز موسوی کو جادو بتاتا رہا اور جادوگروں کو جمع کر کے موسیٰ کے مقابلہ کی فکر میں لگا رہا چناچہ تکذیب و انکار کے بعد اس کی حرکات ناشائستہ کا بیان فرمایا۔